ائمہ معصومین علیہم السلام

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(12 اماموں سے رجوع مکرر)
شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


ائمہ معصومین، خاندان رسالت کی ان 12 ہستیوں کو کہا جاتا ہے جو احادیث کی رو سے پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور آپؐ کے بعد اسلامی معاشرے کے امام اور سرپرست ہیں۔ پہلا امام حضرت علیؑ ہیں اور باقی ائمہ امام علیؑ اور حضرت زہراءؑ کی نسل سے ہیں۔

شیعہ کے مطابق ائمہ معصومین اللہ تعالی کی جانب سے معین اور مقرر ہوتے ہیں جو علم غیب، عصمت، افضلیت اور حق شفاعت جیسی خصوصیات کے حامل ہیں۔ یہ ہستیاں دریافت وحی اور تشریع شریعت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ کی تمام ذمہ داریوں کے حامل ہیں۔

اہل سنت شیعہ ائمہ کی امامت کو تو نہیں مانتے؛ لیکن ان کی دینی اور علمی مرجعیت کو مانتے ہوئے ان سے اظہار محبت کرتے ہیں۔

ائمہ معصومینؑ کا نام قرآن میں نہیں آیا لیکن پیغمبر اسلامؐ کی احادیث من جملہ خطبہ غدیر، حدیث جابر اور حدیث بارہ خلیفہ میں ائمہؑ کے نام اور تعداد ذکر ہوئی ہے۔ ان احادیث کے مطابق ائمہ کی تعداد 12 اور سب کے سب قریش اور پیغمبرؐ کی ذریت یعنی اہل بیت میں سے ہیں۔

شیعہ اثنا عشریہ کے مطابق ان کے پہلے امام حضرت علیؑ رسول اللہؑ کی صریح روایت کے مطابق امامت پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام اور اپنے جانشین کو صریح اور نص کے ساتھ معین اور معرفی کیا ہے۔ لہذا ان نصوص کی بنیاد پر رسول اللہؑ کے بعد بارہ ائمۂ اور ان کے نام بالترتیب حسب ذیل ہیں:

على بن ابى طالبؑ، حسن بن علیؑ، حسین بن علىؑ، على بن حسینؑ، محمد بن علىؑ، جعفر بن محمدؑ، موسى بن جعفرؑ، على بن موسىؑ‏، محمد بن علىؑ، على بن محمدؑ، حسن بن علىؑ و مہدى(عليہم السلام‏)۔ مشہور قول کے مطابق شیعوں کے 11 امام شہید ہوچکے ہیں اور آخری امام، مہدی موعود غیبت میں ہیں اور وہ ظہور کر کے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

ائمہ معصومینؑ کے حالات زندگی اور ان کے فضائل کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں الارشاد اور دلائل الامامۃ شیعہ کتب اور ینابیع المودۃ اور تذکرۃ الخواص اہل سنت کتب قابل ذکر ہیں۔

مقام و منزلت اور خصوصیات

ائمہؑ، امیرالمؤمنینؑ کی زبانی

بِنا يُسْتَعْطَى الْہُدَى، وَيُسْتَجْلَى الْعَمَى، إِنَّ الْأَئِمَّۃَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِى ہَذا الْبَطْنِ مِنْ ہاشِمٍ، لا تَصْلُحُ عَلَى سِواہُمْ، وَلا تَصْلُحُ الْوُلاۃُ مِنْ غَيْرِہِمْ
ترجمہ: لوگ ہماری راہنمائی سے راہ ہدایت پر گامزن ہوتے ہیں، اور اندھے دلوں کی بصارت کو ہمارے ہاں تلاش کرتے ہیں؛ بے شک ائمہ قریش سے ہیں وہی جن کا درخت خاندان ہاشم میں لگایا گیا ہے، دوسرے اس کے اہل نہیں ہیں اور ولایت و امامت کا عہدہ ہاشمیوں کے سوا کسی اور کے نام نہیں لکھا گیا۔

امام علیؑ، نہج البلاغہ، خطبہ 144۔

بارہ اماموں کی امامت کا عقیدہ شیعہ اثنا عشریہ کے بنیادی اعتقادات یعنی اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ [1] اہل تشیع کے مطابق امام، اللہ تعالی کی طرف سے رسول اکرمؐ کے ذریعے معین ہوتا ہے۔[2]

شیعہ مفسرین اور متکلمین کے مطابق اگرچہ قرآن میں ائمہ کا نام نہیں آیا لیکن آیہ اولی الامر، آیہ تطہیر، آیہ ولایت، آیہ اکمال، آیہ تبلیغ اور آیہ صادقین میں ائمہ کی امامت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[3] البتہ روایات میں ائمہ کی تعداد اور نام ذکر ہوئے ہیں۔[4]

شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہؑ، رسول اکرمؑ کی تمام خصوصیات اور ذمہ داریوں کا حامل ہوتے ہیں منجملہ ان میں قرآنی آیات کی وضاحت، شرعی احکام کا بیان، لوگوں کی تربیت، دینی سوالات کے جوابات، عدل انصاف کا قیام اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ ائمہ پر وحی نہیں آتی اور صاحب شریعت نہیں ہیں۔[5]

خصوصیات

شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ معصومینؑ کی خصوصیات میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • عصمت: رسول اللہؐ کی طرح ائمہ معصومین بھی ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پاک اور معصوم ہیں۔[6]
  • افضلیت: شیعہ علما کے مطابق رسول اللہؐ کے بعد ائمہ معصومین دوسرے تمام انبیاء، ملائکہ اور عام لوگوں سے افضل ہیں۔[7] تمام مخلوقات پر ائمہ معصومینؑ کی فوقیت پر دلالت کرنے والی احادیث کو مستفیض بلکہ متواتر جانی گئی ہیں۔[8]
  • علم غیب: ائمہ معصومینؑ کو خدا کی طرف سے علم غیب عطا کی گئی ہیں۔[9]
  • ولایت تکوینی اور تشریعی: اکثر شیعہ علما، ائمہ معصومینؑ کے لئے ولایت تکوینی کے قائل ہیں۔[10] اسی طرح لوگوں کی جان و مال پر اولی بالتصرف ہونے کے معنی میں ولایت تشریعی رکھنے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔[11]عقیدہ تفویض پر دلالت کرنے والی احادیث کے مطابق[12] ائمہ معصومینؑ کو تشریع اور قانون سازی کے اختیارات بھی عطا کئے گئے ہیں۔[13]
مزید معلومات کے لئے دیکھئے: تفویض
  • مقام شفاعت: رسول اللہؐ کی طرح تمام ائمہ معصومین بھی خدا کے اذن سے قیامت کے دن شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔[14]
  • دینی اور علمی مرجعیت: حدیث ثقلین[15] اور حدیث سفینہ[16] جیسی روایات کے مطابق ائمہ معصومین دینی اور علمی مرجعیت پر فائز ہیں اور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔[17]
  • معاشرے کی قیادت: رسول اللہؐ کے بعد مسلم معاشرے کی قیادت اماموں کے ذمے ہے۔[18]
  • وجوب اطاعت: آیہ اولی الامر کی بنا پر جس طرح سے اللہ اور رسول کی اطاعت واجب ہے اسی طرح ائمہ معصومین کی اطاعت بھی واجب ہے[19]

اکثر شیعہ علماء کے مطابق تمام ائمہ معصومینؑ شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے جائیں گے۔[20] اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے وہ مختلف احادیث[21] سے استدلال کرتے ہیں من جملہ ان میں سے ایک حدیث ہے: وَ اللَّہِ مَا مِنَّا إِلَّا مَقْتُولٌ شَہِيد[22] ان احادیث کے مطابق تمام ائمہ معصومین شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے رخصت ہونگے۔[23]

ائمہؑ کی امامت

شیعہ علما بارہ اماموں کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے عصمت اور افضلیت جیسی عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ حدیث جابر، حدیث لوح اور حدیث 12 خلیفہ سے استدلال کرتے ہیں۔[24]

حدیث جابر

جابر بن عبداللہ انصاری نے آیہ؛ يا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (ترجمہ: اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں))[نساء–59][25] کے نازل ہونے کے بعد اولو الامر کے بارے میں رسول خداؐ سے پوچھا تو آنحضرتؐ نے فرمایا: «وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جن میں سب سے پہلا علی بن ابی طالب ہیں اور ان کے بعد بالترتیب حسنؑ، حسینؑ، علی بن حسینؑ، محمد بن علی، جعفر بن محمد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، محمد بن علی، علی بن محمد، حسن بن علی اور ان کے بعد ان کے فرزند جو میرا ہم نام اور ہم کنیت ہیں۔۔۔»۔[26]

حدیث 12 خلیفے

اہل سنت حدیثی مآخذ میں پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپؐ کے جانشینوں اور خلفاء کی تعداد، نیز ان کی بعض خصوصیات ذکر ہوئی ہیں:

جابر بن سمرہ رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں: «یہ دین قیامت تک قائم و دائم رہے گا جب تک تمہارے سر پر بارہ خلیفے ہونگے جو سب کے سب قریش میں سے ہونگے»۔[27]

اسی طرح ابن مسعود سے منقول ہے کہ رسول خداؐ کے بعد نقباء کی تعداد بنی اسرائیل کے نقبا کی طرح بارہ ہوگی۔[28] اہل سنت عالم دین سلیمان بن ابراہیم قُندوزی کے مطابق احادیث نبوی میں مذکور 12 خلیفے وہی شیعہ ائمہ ہیں؛ کیونکہ یہ احادیث ان کے علاوہ کسی اور ہستیوں پر تطبیق نہیں کر سکتے ہیں۔[29]

ائمہ کا تعارف

شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ مختلف عقلی[30] اور نقلی دلائل جیسے حدیث غدیر اور حدیث منزلت سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد برحق اور بلافصل خلیفہ حضرت علیؑ ہیں۔[31] اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ امام علیؑ کے بعد بالترتیب امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام موسی کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام ہادیؑ، امام حسن عسکریؑ و امام مہدی(عج) اسلامی معاشرے کی امامت اور رہبری کے عہدے پر فائز ہیں۔[32]

نام القاب کنیت روز ولادت سال ولادت مولد یوم شہادت سال شہادت مقام شہادت قاتل امامت مدت امامت والدہ کا نام
علی بن ابی طالب امیرالمؤمنین ابو الحسن 13 رجب سنہ 30 عام الفیل مکہ 21 رمضان 40ھ‍ کوفہ ابن ملجم 11-40ھ‍ 23 سال فاطمہ بنت اسد
حسن بن علی مجتبی ابو محمد 15 رمضان 2ھ‍ مدینہ 28 صفر 50ھ‍ مدینہ جعدہ بنت اشعث بحکم معاویہ 40-50ھ‍ 10 سال فاطمہ بنت رسول اللہؐ
حسین بن علی سید الشہداء ابوعبد اللہ 3 شعبان 3 ھ‍ مدینہ 10 محرم 61ھ‍ کربلا شمر بن ذی الجوشن و لشکر عمر سعد بحکم یزید 50-61ھ‍ 10 سال فاطمہ بنت رسول اللہؐ
علی بن الحسین سجاد، زین العابدین ابو الحسن 5 شعبان 38ھ‍ مدینہ 25 محرم 95ھ‍ مدینہ ولید یا اس کا بھائی ہشام 61-94ھ‍ 35 سال شہربانو
محمد بن علی باقر العلوم ابو جعفر 1 رجب 57 ھ‍ مدینہ 7 ذوالحجہ 114ھ‍ مدینہ ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بحکم ہشام 94-115ھ‍ 19 سال فاطمہ
جعفر بن محمد صادق ابوعبداللہ 17 ربیع الاول 83 ھ‍ مدینہ 25 شوال 148ھ‍ مدینہ منصور عباسی 114-148ھ‍ 34 سال ام فروہ
موسی بن جعفر کاظم ابوالحسن 7 صفر 128ھ‍ مدینہ 25 رجب 183ھ‍ کاظمین سندی بن شاہک بحکم ہارون عباسی 148-183ھ‍ 35 سال حمیدہ بربریہ
علی بن موسی رضا ابوالحسن 11 ذوالقعدہ 148ھ‍ مدینہ آخر صفر 203ھ‍ مشہد مامون عباسی 183-203ھ‍ 20 سال تکتم
محمد بن علی تقی، جواد ابو جعفر 10 رجب 95 ھ‍ مدینہ آخر ذو القعدہ 220ھ‍ کاظمین لبابہ بنت مامون بحکم معتصم 203-220ھ‍ 17 سال سبیکہ خاتون
علی بن محمد ہادی، نقی ابوالحسن 15 ذوالحجہ 212 ھ‍ صریا 3 رجب 254ھ‍ سامرا معتز عباسی کا بھائی معتمد 220-254ھ‍ 34 سال سمانہ مغربیہ
حسن بن علی زکی، عسکری ابومحمد 10 ربیع الثانی 232 ھ‍ مدینہ 8 ربیع الاول 260 ھ‍ سامرا معتمد 254-260ھ‍ 6 سال سوسن
حجۃ بن الحسن قائم ابوالقاسم 15 شعبان 255ھ‍ سامرا امام قائمؑ زندہ اور نظروں سے اوجھل ہیں 1175 سال، اب تک نرجس خاتون

امام علیؑ

علی بن ابی طالب امام علیؑ اور امیرالمؤمنینؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پہلے امام ہیں۔ آپ ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد کے فرزند ہیں۔ 13 رجب سنہ 30 عام الفیل کو کعبہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔[33] آپ نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لایا[34] اور پوری زندگی ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہے اور پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہؑ سے آپ نے شادی کی۔[35]

باوجود اینکہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی بار من جملہ غدیر کے دن آپ کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کا بلا فصل خلیفہ مقرر کیا تھا،[36] لیکن پبغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے میں ابوبکر بن ابی قحافہ کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی گئی۔[37] خلفائے ثلاثہ کے دور میں آپ نے اسلام کی مصلحت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کو فروغ دینے کی خاطر 25 سال سکوت اختیار کی اور آخر کار 35ھ میں لوگوں نے آپ کی بیعت کر کے مسلمانوں کا چھوتھا خلیفہ منتخب کیا۔[38] آپ کی خلافت جو تقریبا 4 سال 9 مہینے قائم رہی 3 جنگیں؛ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان رونما ہوئیں۔ جس کی بنا پر آپ کی خلافت کا اکثر حصہ مسلمانوں کے داخلی اختلافات میں گذر گئے۔[39]

امام علیؑ 19 رمضان 40ھ کو مسجد کوفہ کے محراب میں نماز کی حالت میں ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو آپ جام شہادت نوش کر گئے اور نجف میں مدفون ہوئے۔[40] آپ بیشمار فضیلتوں کے حامل تھے۔[41] ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ کی شان میں تقریبا 300 آیتیں نازل ہوئی ہیں۔[42] اسی طرح ان سے منقول ہے کہ خدا نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جس میں «یا أیہا الذین آمنوا»[؟؟] ہو مگر یہ کہ آپؑ مومنین میں سر فہرست اور ان کے امیر ہیں۔[43]

امام حسنؑ

ائمہ علیہم السلام مدت حیات اور دور امامت ہم عصر خلفاء
امام علی علیہ السلام مدت حیات: (30 عام الفیل-40ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان
دور امامت: ۱۱-۴۰ق
امام حسن مجتبی علیہ السلام مدت حیات: (3تا50ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان امام علیؑ معاویہ بن ابی سفیان (41-61ھ)
دور امامت: 40-50ھ
امام حسین علیہ السلام مدت حیات: (4تا61ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان امام علیؑ امام حسنؑ معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ
دور امامت: 50-61ھ
امام زین العابدین علیہ السلام مدت حیات: (38تا95ھ) امام علی امام حسن معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ معاویہ بن یزید مروان بن حکم(64-65ھ) عبدالملک بن مروان (65-86ھ) ولید بن عبدالملک (86تا96ھ)
دور امامت: 61-95ھ
امام محمد باقر علیہ السلام مدت حیات: (57تا114ھ) معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ معاویہ بن یزید مروان بن الحکم عبدالملک بن مروان ولید بن عبدالملک سلیمان بن عبدالملک (96-99ھ) عمر بن عبدالعزیز (99-101ھ) یزید بن عبدالملک (101-105ھ) ہشام بن عبدالملک (105-125ھ)
دور امامت: 95-114ھ
امام جعفر صادق علیہ السلام مدت حیات: (82تا148ھ) عبدالملک بن مروان ولید بن عبدالملک سلیمان بن عبدالملک عمر بن عبدالعزیز یزید بن عبدالملک ہشام بن عبدالملک ولید بن یزید (125-126ھ) ولید بن عبدالملک (126-126ھ) ابراہیم بن ولید (126-127ھ) مروان بن محمد (127-132) ابوالعباس سفاح (132-136ھ) منصور دوانیقی (136-158ھ)
دور امامت: 114-148ھ
امام موسی کاظم علیہ السلام مدت حیات: (۱۲۸-۱۸۳ق) مروان بن محمد ابوالعباس سفاح منصور دوانیقی مہدی عباسی(158-169) ہادی عباسی(169-170ھ) ہارون‌الرشید(170-193ھ)
دور امامت: (128تا183ھ)
امام علی رضا علیہ السلام مدت حیات: (148تا203ھ) منصور دوانیقی مہدی عباسی ہادی عباسی ہارون‌الرشید امین عباسی (193-198ھ) مأمون عباسی (198-218ھ)
دور امامت: 183-203ھ
امام محمد تقی علیہ السلام مدت حیات: (195تا220ھ) امین عباسی مأمون المعتصم باللہ (218-227ھ)
دور امامت: 203-220ھ
امام علی نقی علیہ السلام مدت حیات: (254-212ھ) مأمون المعتصم باللہ الواثق باللہ (227-232ھ) متوکل (232-247ھ) منتصر (247-248) مستعین (248-252) معتز (252-255)
دور امامت: 220-254ھ
امام حسن عسکری علیہ السلام مدت حیات:(232تا260ھ) متوکل منتصر مستعین معتز مہتدی (255-256) معتمد (256-278ھ)
دور امامت: 255-260ھ
امام مہدی علیہ السلام مدت حیات: (255ھ-بقید حیات) خلفا غیبت صغری کے اختتام تک

معتز مہتدی معتمد معتضد (278-289ھ) مکتفی (289-295ھ) مقتدر (295-320ھ) قاہر (320-322ھ) راضی (322-329ھ)

دور امامت: 260ھ-...

حسن بن علیؑ، امام حسن مجتبیؑ سے مشہور، امام علیؑ اور فاطمہ زہراؐ کے بیٹے 15 رمضان کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[44] امام حسن مجتبیؑ والد گرامی کی شہادت کے بعد خدا کے فرمان اور والد کی وصیت کے مطابق امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور تقریبا 6 مہینے ظاہری خلافت کا عہدہ بھی سنبھالے رکھا۔ تقریبا 6 مہینوں تک مسلمانوں کے امور کا انتظام و انصرام کیا۔[45] اس عرصے کے دوران معاویہ بن ابی سفیان نے آپؑ کی حکومت کے مرکز عراق پر لشکر کشی کی اور امامؑ کے لشکر کے امراء کو فریب دے کر انھیں امام کے خلاف ابھارا اور آخر کار حضرت امام حسن مجتبیؑ صلح پر مجبور ہوئے اور بعض شرائط پر ظاہری حکومت معاویہ کو بعض شرائط (من جملہ یہ کہ خلافت معاویہ کی موت کے بعد امامؑ کو ملے گی، معاویہ ولیعہد کا اعلان نہیں کرے گا اور شیعیان اہل بیتؑ کی جان و مال محفوظ ہوگی) کے ساتھ واگذار کردی۔[46] امام حسنؑ نے 10 سال امامت کی[47] اور 28 صفر 50ھ میں معاویہ کی تشویق پر اپنی زوجہ (جعدہ بنت اشعث) کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور جام شہادت نوش کرگئے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔[48]

امام حسنؑ اصحاب کِساء میں شامل تھے[49] اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے مباہلے میں بھی شریک تھے۔[50] آپؑ پیغمبر اکرمؑ کے اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔[51]

امام حسینؑ

حسین بن علیؑ جو ابا عبداللہ اور شیعوں کے تیسرے امام سے مشہور ہیں۔ آپ امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپؑ سنہ 4 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی امام حسن مجتبیؑ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرم اور امام علیؑ کی تصریح اور امام حسنؑ کی وصیت کے مطابق، منصب امامت پر فائز ہوئے۔[52]

امام حسینؑ نے دس سال امامت کی۔[53] آپ کی امامت کے آخری چھ مہینوں کے علاوہ باقی عرصہ معاویہ کے دور خلافت میں گزرا۔[54] معاویہ سنہ 60 ہجری میں مرگیا اور اس کا بیٹا یزید اس کی جگہ تخت نشین ہوا۔ [55] یزید نے مدینہ کے گورنر کو امام حسینؑ سے بیعت لینے اور انکار کی صورت میں سر قلم کر کے شام بھیجنے کا حکم دیا۔ جب مدینہ کے حاکم نے یزید کا حکم آپ تک پہنچایا تو آپ اپنے خاندان کے ہمراہ رات کی تاریکی میں مدینہ سے مکہ کی جانب حرکت کر گئے۔[56] کچھ عرصہ بعد کوفہ کے لوگوں کی دعوت پر آپ خاندان اور اپنے اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ کوفہ کی جانب نکلے۔[57] امام اور ان کے ساتھیوں کو کربلا میں یزید کی لشکر نے محاصرہ کیا اور روز عاشورا امام اور عمر بن سعد کی فوج کے مابین جنگ ہوئی اور امام اور ان کے خاندان اور اصحاب شہید ہوئے نیز خواتین، بچے اور امام سجادؑ جو بیمار تھے، اسیر ہوئے۔[58]

امام حسینؑ اصحاب کِساء میں شامل تھے[59] اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے مباہلے میں بھی شریک تھے۔[60] آپؑ پیغمبر اکرمؑ کی اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔[61]

امام سجادؑ

علی بن حسین جن کا لقب زین العابدین اور سجاد ہے، شیعوں کے چوتھے امام اور تیسرے امام اور ایران کے بادشاہ یزدگرد سوئم کی بیٹی شاہ زنان شہربانو کے بیٹے ہیں۔ آپ سنہ 38 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[62]

امام سجاد واقعہ کربلا میں اسیر ہوئے اور باقی اسراء کے ساتھ آپ کو کوفہ[63] اور شام[64] لے جایا گیا۔ آپ نے شام میں اپنا اور اپنے اجداد کا تعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ دیا جسے لوگ بہت متاثر ہوئے۔[65] اسیری کے ایام گذارنے کے بعد آپ کو مدینہ بھیجا گیا اور مدینہ میں عبادت الہی میں مصروف ہوئے اور ابو حمزہ ثمالی اور ابو خالد کابلی سمیت خواصِ شیعہ کے سوا کسی کے ساتھ رابطہ نہیں کرتے تھے۔ البتہ خواص آپ سے اسلامی معارف اخذ کرکے شیعیان اہل بیت کے درمیان پھیلا دیتے تھے[66]

چوتھے امام نے 34 سال امامت کی[67] اور 57 سال کی عمر میں سنہ 95 ہجری[68] کو ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم و شہید ہوئے[69] اور جنت البقیع میں اپنے چچا امام حسنؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔[70]

چوتھے امام کے باقیماندہ آثار میں آپؑ کی دعائیں ہیں جو صحیفۂ سجادیہ کی شکل میں موجود ہیں۔[71] صحیفہ سجادیہ کی دعائیں اکثر توحیدی مضامین پر مشتمل ہیں اور اللہ کے حضور تضرع ہیں۔[72] امام سجاد نے صحیفہ میں اخلاقی اصول، سیاسی اور اجتماعی طرز زندگی کو دعا اور مناجات کے قالب میں بیان کیا ہے۔[73] صحیفہ سجادیہ کو نہج البلاغہ کے بعد شیعوں کی اہم ترین کتاب[74] جو جہان بینی پر ایک عمیق اور کامل دورہ سمجھا جاتا ہے۔[75]

امام باقرؑ

محمد بن علی المعروف امام محمد باقرؑ، جو شیعوں کا پانچواں امام اور امام سجادؑ اور فاطمہ بنت امام حسنؑ کے بیٹے[76] ہیں جو سنہ 57 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[77] آپ اپنے والد امام سجادؑ کے بعد اللہ کے حکم، پیغمبر اکرم اور اپنے سے پہلے والے ائمہ کی معرفی سے آپ منصب امامت پر فائز ہوئے۔[78] اور سنہ 114 ہجری[79] کو اموی خلیفہ ہشام کے بھتیجے ابراہیم بن ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے[80] اور جنت البقیع میں اپنے والد گرامی کے جواب میں سپرد خاک ہوئے۔[81] امام باقرؑ سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں موجود تھے اور اس وقت آپ کی عمر 4 سال تھی۔[82]

امام باقر کی امات 18 یا 19 سال پر محیط تھی،[83] دوسری طرف بنو امیہ کے مظالم کی وجہ سے اسلامی ممالک کے کسی علاقے میں انقلاب بپا ہوتا تھا اور جنگیں چھڑ جاتی تھیں اور ان مسائل نے اموی خلافت کو مصروف کر رکھا تھا جس کی وجہ سے اہل بیتؑ کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہے۔[84] اور دوسری طرف سے واقعۂ عاشورا اور اہل بیتؑ کی مظلومیت نے مسلمانوں کو اہل بیتؑ کی طرف مائل کر رکھا تھا جس کی وجہ سے امامؑ کو تعلیمات اہل بیت کی ترویج کا موقع مل گیا اور ایسا موقعہ کسی بھی امام کو نہیں ملا تھا۔ اسی وجہ سے آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔[85] شیخ مفید کا کہنا ہے کہ آپؑ سے اتنی احادیث نقل ہوئی ہیں جتنی امام حسن اور امام حسینؑ کی نسل میں سے کسی سے بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔[86]

امام صادقؑ

جعفر بن محمد جو امام جعفر صادقؑ اور چھٹے امام سے مشہور ہیں۔ آپ امام باقرؑ اور ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر کے بیٹے ہیں۔ آپ 17 ربیع الاول 83ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[87] آپ 148ھ[88] کو خلیفہ عباسی منصور کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے[89] اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔[90]

چھٹے امام کی 34 سالہ امامت[91] کے دوران اموی حکومت کمزور ہوگئی تھی جس کی وجہ سے امام صادقؑ کو دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور مختلف علوم میں افراد کی علمی تربیت کے لئے زیادہ مناسب ماحول اور بیشتر امکانات ملے۔[92] آپ کے شاگردوں کی تعداد 4000 افراد تک بیان ہوئی ہے۔[93]جن میں زرارہ، محمد بن مسلم، مؤمن طاق، ہشام بن حکم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، جابر بن حیان[94] اور اہل سنت میں سفیان ثوری، ابوحنیفہ (مذہبِ حنفیہ کے امام)، مالک بن انس، مالکی مذہب کے پیشوا شامل ہیں۔[95]

شیخ مفید کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[96] کہا جاتا ہے کہ اسی سبب شیعہ مذہب کو مذہب جعفری نام دیا گیا ہے۔[97]

امام کاظمؑ

موسی بن جعفر جو امام موسی کاظم اور شیعوں کے ساتویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ کے مشہور القاب میں کاظم اور باب الحوائج ہیں۔ آپ امام صادق اور حمیدہ خاتون کے بیٹے ہیں۔ آپ 128ھ کو مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔[98]

امام کاظمؑ اپنے والد امام صادقؑ کے بعد امامت پر فائز ہوئے۔[99] آپ کی 35 سالہ مدتِ امامت[100] ساتویں امام عباسی خلفاء میں سے منصور، ہادی، مہدی اور ہارون کے ہم عصر تھے۔[101] یہ دور بنی عباس کی حکومت کے عروج کا دور تھا جس میں امام کاظمؑ اور ان کے شیعوں کے لئے گھٹن اور تاریک دور تھا جس میں خود بھی تقیہ کرنے پر مجبور ہوئے اور اپنے شیعوں کو بھی تقیہ کرنے کی تاکید کرتے تھے۔[102]

جب ہارون حج کی نیت سے مدینہ گئے تو وہاں پر 20 شوال سنہ 179 ہجری کو ہارون کے حکم سے امام کو گرفتار کیا گیا اور آپ مدینہ سے بصرہ اور بصرہ سے بغداد منتقل ہوئے۔[103] آپ 183ھ کو سندی بن شاہک کے ہاتھوں بغداد کے زندان میں مسموم اور شہید ہوئے اور مقابر قریش نامی محلے[104] میں دفن ہوئے جو اس وقت کاظمین سے مشہور ہے۔[105]

امام رضاؑ

علی بن موسی بن جعفر، جو امام رضاؑ اور آٹھویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ امام کاظمؑ اور نجمہ خاتون کے فرزند ہیں اور 148ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور203ھ کو مامون کے ہاتھوں مسموم ہو کر طوس (مشہد) میں شہید ہوئے۔[106]

آٹھویں امام اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اللہ کے امر اور اسلاف کی جانب سے متعارف کئے جانے کی بنا پر، عہدۂ امامت پر فائز ہوئے۔[107] آپ کی امامت کی مدت 20 سال (203-183ھ) تھی[108] جو ہارون عباسی، امین عباسی اور مامون عباسی کے خلافت کے معاصر تھی۔[109]

ہارون کے مرنے کے بعد خلافت مأمون کو ملی[110] مامون نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اسے مشروعیت دینے کے لئے امام رضاؑ کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور امامت کے مقام و منزلت کو کم کرنے کے لئے آٹھویں امامؑ کو ولایت عہدی کا منصب سونپنے کا ارادہ کیا۔[111] اسی لئے اس نے امامؑ کو 201ھ میں[112] مدینہ سے مرو بلایا۔[113] مأمون نے شروع میں خلافت اور پھر ولایت عہدی آپ کو پیش کی لیکن امام نے انکار کردیا؛ لیکن مأمون نے امام کو ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کردیا۔ امام نے بھی حکومت میں عزل و نصب میں مداخلت نہ کرنے کی شرط پر اسے قبول کیا۔[114] کچھ عرصہ بعد جب مأمون کو پتہ چلا کہ شیعہ مضوبط ہورہے ہیں تو اپنی خلافت بچانے کے لئے امام رضاؑ کو مسموم اور شہید کیا۔[115]

مشہور حدیث سلسلۃ الذہب آپؑ کے نیشاپور سے مرو جاتے ہوئے آپ سے نقل ہوئی ہے۔[116] آپ کے مرو میں حضور کے دوران مأمون نے آپ کا دیگر ادیان اور مذاہب کے بزرگوں سے مناظرے کروایا جن میں امام کی علمی برتری آشکار ہوگئی[117]

امام محمد تقی

محمد بن علی جو امام محمد تقیؑ اور شیعوں کے نویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ آٹھویں امام اور سَبیکہ نوبیہ کے بیٹے ہیں۔ آپ رمضان المبارک 195ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے[118] اور 220ھ کو بغداد میں شہید[119] اور کاظمیہ میں قریش کے قبرستان میں اپنے جد امجد امام کاظمؑ کے جوار میں مدفون ہوئے۔[120]

آپؑ 8 سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد امر خدا اور اسلاف طاہرین کی وصیت کے مطابق، منصب امامت پر فائز ہوئے۔[121] آپ کی کم عمری کی وجہ سے بعض شیعوں نے آپ کی امامت میں شک و تردید کی؛ بعض نے آپ کے بھائی عبداللہ بن موسی کو امام مانا اور بعض واقفیہ سے ملحق ہوئے لیکن اکثریت نے امام کی امامت پر موجود نص اور علمی آزمایش کے سبب امام جواد کی امامت کو مان لیا۔[122] آپ کی 17 سالہ امامت[123] مأمون اور معتصم کی خلافت کے معاصر تھی۔[124]

مأمون نے امام اور آپ کے شیعوں پر کڑی نظر رکھنے کے لئے آپ کو 204ھ میں بغداد بلایا جو ان دنوں دارالخلافہ تھا۔ مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل سے امام کی شادی کرائی۔[125] کچھ عرصہ بعد آپ مدینہ واپس لوٹے اور مأمون کے آخری دنوں تک مدینہ ہی میں رہے۔ مامون کی وفات کے بعد معتصم نے زمام خلافت سنبھالی اور 220ھ میں امامؑ کو دوبارہ بغداد طلب کرکے زیر نگرانی رکھا اور آخرکار معتصم کی تشویق پر اپنی زوجہ ام فضل بنت مامون کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔[126]

امام علی نقی

علی بن محمد جو امام علی بن نقیؑ اور شیعوں کے دسویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ نویں نویں امامؑ اور جناب سمانہ مغربیہ کے بیٹے ہیں۔ آپ مدینہ کے نزدیک صریا نامی علاقے میں 212ھ پیدا ہوئے[127] اور 254ھ کو سامرا[128] میں عباسی خلیفہ المعتز باللہ کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔[129]

امام ہادی نے 33 سال (254-220ھ) شیعوں کی امامت کی[130] اور دوران امامت 6 عباسی خلفاء، مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز حاکم رہے۔[131]

متوکل نے آپؑ کو اپنے زیر نظر رکھنے[132] کے لئے 233ھ میں آپ کو مدینہ سے سامرا، جو ان دنوں درالخلافہ تھا،[133] بلایا[134] اور آپ کی باقی زندگی اسی شہر میں گزر گئی۔[135] متوکل کی موت کے بعد منتصر، مستعین اور معتر یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آئے اور آپؑ معتز کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔[136]

امام ہادی نے دعا اور زیارت کے ذریعے شیعوں کی تربیت کی اور انہیں تعلیمات اسلامی سے روشناس کرایا۔[137] شیعوں کی اہم زیارتوں میں سے زیارت جامعہ کبیرہ امام ہادی سے نقل ہوئی ہے۔[138]

امام حسن عسکریؑ

چاندی کا درہم جس پر شیعہ ائمہ کا نام درج ہے۔

حسن بن علیؑ جو امام حسن عسکریؑ اور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ دسویں امام اور حدیثہ خاتون کے فرزند ہیں جو 232ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے[139] اور 260ھ[140] کو عباسی خلیفہ معتمد کی سازش سے مسموم اور شہید ہوئے۔[141] سامرا میں اپنے گھر والد گرامی کے جوار میں مدفون ہوئے۔[142]

گیارہویں امام اپنے والد ماجد کی شہادت کے بعد بامر خدا اور گذشتہ معصوم پیشواؤں کے تعین کے نتیجے میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 6 سال کے عرصے تک امام رہے۔[143] اس دوران معتز، مہتدی اور معتمد عباسی حاکم رہے۔[144] امام سامرا میں حکومت کی سخت نگرانی میں تھے اور کئی بار زندان چلے گئے۔[145] بعض کا کہنا ہے کہ سامرا میں طویل عرصہ رہنا ہی ایک قسم کا زندان اور خلیفہ کے قیدی تھے۔[146] اسی لئے امام تقیہ کی زندگی گزارتے تھے[147] اور اپنے سے پہلے کے بعض امام کی طرح نظام وکالت کے ذریعے شیعوں سے رابطہ کرتے تھے۔[148]

عباسی خلافت کی طرف سے ناقابل برداشت دباؤ اور نگرانی کے اسباب میں شیعہ آبادی اور طاقت کا اضافہ ہونا اور خلفا کو شیعوں سے خائف ہونا کہا گیا ہے اور دوسری طرف کچھ شواہد ایسے بھی تھے جو گیارہویں امام کے لئے ایک فرزند ہونے کی خبر دیتے تھے جسے مہدی موعود سمجھتے تھے۔[149]

امام عسکری اور ان کے والد گرامی امام ہادیؑ سامرا (عسکر) میں رہنے کی وجہ سے عسکریین سے مشہور ہیں۔[150]

امام مہدی

محمد بن حسن جو امام مہدی اور امام زمانہ سے مشہور ہیں۔ آپ شیعوں کے آخری اور بارہویں امام اور امام عسکری و نرجس خاتون کے بیٹے ہیں جو 15 شعبان 255ھ کو سامرا میں پیدا ہوئے۔[151]

امام مہدی 5 سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے۔[152] پیغمبر اکرمؐ اور تمام شیعہ ائمہ نے آپ کی امامت کی تصریح کی ہے۔[153] آپ اپنے والد ماجد کی شہادت تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے تھے اور خواص شیعہ میں سے گنے چنے چند افراد کے سوا کسی کو آپ کی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوتا تھا۔[154] والد کی شہادت کے بعد آپ بامر خدا غائب ہوئے اور 70 سال تک غیبت صغری میں رہے اور اس دوران اپنے نُوّابِ خاص کے ذریعے شیعوں سے رابطے میں تھے؛ لیکن 329ھ میں غیبت کبری کے ساتھ ہی آپ کا لوگوں سے رابطہ ختم ہوگیا۔[155]

شیعہ روایات کے مطابق امام مہدی کی غیبت کے دوران آپ کے ظہور کا انتظار کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور انتظارِ فرج کو سب سے بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔[156] احادیث کی رو سے شیعوں کا عقیدہ ہے[157] کہ امام کے ظہور کے بعد معاشرہ عدل و انصاف سے پر ہوگا۔[158] بہت ساری روایات میں ظہور کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔[159]

اہل سنت کے ہاں شیعہ ائمہ کا مقام

شیعہ ائمہ کو اہل سنت امام اور پیغمبر اکرمؐ کے بلافصل خلیفے نہیں مانتے ہیں؛[160] لیکن ان سے محبت کرتے ہیں[161] پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت جو اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابقآیہ مودت،[162] جن رشتہ داروں کی مودت کو واجب قرار دیا ہے ان میں حضرت علیؑ و حضرت فاطمہؑ اور ان کی اولاد شامل ہیں۔[163] چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت مفسر اور متکلم فخرالدین رازی آیہ مودت سے استناد کرتے ہوئے نماز کے تشہد میں صلوات، سیرت نبوی، علیؑ و فاطمہؑ اور ان کی آل سے دوستی کو واجب سمجھتے ہیں۔[164]

بعض اہل سنت علما، شیعہ ائمہ کے مزار پر زیارت کرنے جاتے تھے اور ان سے توسل کرتے تھے۔ ان میں سے تیسری صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابو علی خَلّال کہتے ہیں کہ جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تھی تو میں موسی بن جعفر کی قبر کی زیارت کرنے جاتا تھا اور ان سے متوسل ہوتا تھا تو میری مشکل ٹل جاتی تھی۔[165] تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت فقیہ، مفسر اور محدث ابوبکر محمد بن خُزَیْمہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کئی بار قبر امام رضاؑ کی زیارت کرنے جاتے تھے اور ان کی تعظیم اور تضرع دیکھ کر لوگ حیران ہوجاتے تھے۔[166] تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت محدث ابن حِبّان کا کہنا ہے کہ جب میں طوس میں تھا تو جب کبھی مشکل پیش آتی تھی تو علی بن موسی الرضاؑ کی زیارت کرنے جاتا تھا، وہاں دعا کرتا تھا اور دعا مستجاب اور مشکل دور ہوتی تھی۔[167]

شیعہ عالم دین جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ اہل سنت، شیعہ ائمہ کی علمی اور دینی مرجعیت کو مانتے ہیں۔[168] مثال کے طور پر حنفی مذہب کے پیشوا ابو حنیفہ سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں جعفر بن محمدؑ سے بڑھ کر کسی فقیہ کو نہیں دیکھا۔[169] یہی جملہ پہلی اور دوسری صدی ہجری کے اہل سنت فقیہ و محدث محمد بن مسلم بن شہاب زُہْری سے امام سجادؑ کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے۔[170] اہل سنت محدث اور امام باقر کے صحابی عبداللہ بن عطاء مکی کہتے ہیں: «میں نے علما کو جتنا محمد بن علیؑ کے سامنے علمی لحاظ سے چھوٹے اور نیچے دیکھا کسی اور کے سامنے نہیں دیکھا۔ کوفہ کے بزرگ فقیہ حَکَم بن عُتَیبہ ان کی شاگردی اختیار کرتے دیکھا۔».[171]

کتاب شناسی

شیعہ ائمہ کے حالات اور فضائل پر مشتمل متعدد کتابیں شیعہ اور اہل سنت نے لکھی ہیں۔

شیعہ کتابیں

شیعہ علما کی طرف سے شیعہ ائمہ کے سوانح حیات اور ان کے فضائل کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

  1. دلائل الامامۃ، جو محمد بن جریر طبری صغیر (متوفی 310ھ) سے منسوب ہے۔ یہ کتاب حضرت فاطمہؑ اور ائمہؑ کی حالات زندگی، معجزات اور فضائل کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔
  2. اَلْإرْشاد فی مَعْرفۃ حُجَجِ اللہ عَلَی الْعِباد، یہ کتاب شیعہ فقیہ اور متکلم شیخ مفید (متوفی 413ھ) کی کلامی اور تاریخی کتاب ہے جو عربی میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب روایات کی رو سے ائمہ کی حالات زندگی، اور فضائل پر مشتمل ہے۔ جسے سید صفدر حسین نجفی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
  3. مَناقِبُ آلِ اَبی طالب، عربی زبان میں فضائل چہاردہ معصوم(ع) پر مشتمل ابن شہر آشوب مازندرانی (متوفی 588ھ) کی کتاب ہے۔
  4. إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الہدیٰ یہ کتاب پیغمبر اکرمؑ اور چہاردہ معصومینؑ کی سیرت اور حالات زندگی کے بارے میں فضل بن حسن طبرسی (متوفی 548ھ) نے لکھی ہے۔
  5. کَشْفُ الغُمَّۃ فی مَعْرِفَۃِ الأئمّۃ(ع)، عربی زبان میں چہاردہ معصومین کی حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں علی بن عیسی اربلی (متوفی 692ھ) کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
  6. رَوضَۃُ الْواعِظین وَ بَصیرَۃُ الْمُتَّعِظین بقلم فتال نیشابوری (متوفی 508ھ)۔ یہ کتاب پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ کی سوانح حیات کے بارے میں لکھی گئی ہے۔
  7. جَلاءُ العُیون علامہ محمدباقر مجلسی(1037ھ-1110ھ) کی فارسی میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جس میں 14 باب ہیں جو چہاردہ معصومین کی حالات زندگی بیان کرتی ہے۔
  8. مُنْتَہَى ألآمال فی تَواريخِ ألنَّبی وَ ألْآل جسے شیخ عباس قمی (1294-1359ھ) نے چہاردہ معصومینؑ کی زندگی کو تفصیل سے بیان کیا ہے اس کتاب کو احسن المقال کے نام سے سید صفدر حسین نجفی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

اہل سنت کتابیں

علمائے اہل سنت کے توسط سے بارہ اماموں کے فضائل میں لکھی جانی والی کتابوں کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:

  1. مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، تالیف: کمال الدین ابن طلحہ شافعی (متوفٰی 562 ھ)؛ یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ہے اور اس کے بارہ باب ہیں جس میں 12 اماموں کے حالات زندگی بیان ہوئے ہیں۔[172]
  2. تَذکِرَۃُ الخَواصّ مِنَ الأمّۃ فی ذِکرِ خَصائص الأئمۃ، حنفی عالم اور مورخ یوسف بن قزاوغلی(متوفٰی 654 ہجری) جو سبط ابن جوزی سے مشہور ہیں نے لکھی ہے۔ اس کتاب کے 12 باب ہیں جس میں ہر ایک امام کے حالات زندگی اور ان کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔[173]
  3. الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمہ، تالیف: ابن صباغ مالکی (متوفٰی 855 ہجری) اس کے مؤلف نویں صدی ہجری کے سنی عالم دین ہیں جنہوں نے اس کتاب کو ائمہؑ کے حالات زندگی اور فضائل پر لکھی ہے۔[174] اس کتاب سے شیعہ اور سنی علما نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔[175]
  4. الائمۃ الاثنا عشر یا ألشّذَراتُ الذّہَبیۃ، تالیف: حنفی دمشقی عالم شمس الدین ابن طولون، (متوفٰی 953 ھ)۔[176]
  5. الاتحاف بحب الاشراف، تالیف: مصر کے شافعی عالم عبداللہ بن عامر شبراوی، (متوفٰی 1172 ہجری)، یہ کتاب پیغمبر اور ان کے شیعہ ائمہ کے حالات زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے۔[177]
  6. نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار، تالیف: سید مؤمن شبلنجی جو 13ویں صدی ہجری کظ اہل سنت عالم دین ہیں۔ آپ نے اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ، شیعہ ائمہ اور اہل سنت خلفا کے بارے میں لکھا ہے۔
  7. یَنابیعُ المَوَدّۃ لِذَوی القُرْبی، تالیف: حنفی عالم سلیمان بن ابراہیم قندوزی[178] نے پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہل بیت کے فضائل اور حالات زندگی بیان کیا ہے۔[179]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. محمدی، شرح کشف المراد، 1378شمسی، ص403؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج3، ص178.
  2. محمدی، شرح کشف المراد، 1378شمسی، ص425؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج3، ص181و182.
  3. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص170و171 و 369و370.
  4. :ملاحظہ کریں: حکیم، الامامۃ و اہل البیت، 1424ھ، ص305-338.
  5. سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376شمسی، ص165و166.
  6. ملاحظہ ہو: علامہ حلی، كشف المراد، 1382شمسی، ص184؛ فیاض لاہیجی، سرمايہ ايمان در اصول اعتقادات، 1372شمسی، ص114و115.
  7. ملاحظہ ہو: صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص93؛ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص70 و 71؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج26، ص297؛ شبر، حق الیقین، 1424ھ، ص149.
  8. مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج26، ص297؛ شبر، حق الیقین، 1424ھ، ص149.
  9. ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص255و256 و 260و261؛ سبحانی، علم غیب، 1386شمسی، ص63-79.
  10. حمود، الفوائدالبہیۃ، 1421ھ، ج2، ص117و119.
  11. خویی، مصباح الفقاہۃ، 1417ھ، ج 5، ص38؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1392شمسی، ص133، 135 و141.
  12. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص265-268؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص383-387.
  13. ملاحظہ کریں: عاملی، الولایۃ التکوینیۃ والتشریعیۃ، 1428ھ، ص60-63؛ مؤمن، «ولایۃ ولی المعصوم(ع)»، ص100-118؛ حسینی، میلانی، اثبات الولایۃ العامۃ، 1438ھ، ص272 و 273، 311و312.
  14. طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج1، ص214.
  15. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص412-414.
  16. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص297، ح4.
  17. ملاحظہ ہو: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231-235؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376شمسی، ص157و158؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج3، ص180و181.
  18. سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376شمسی، ص149و150.
  19. طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج3، ص236؛ محمدی شرح کشف المراد، 1378شمسی، ص415.
  20. مراجعہ کریں: صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج2، ص528؛ طبرسی، إعلام الوری،1390ھ، ص367؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379 ھ، ج2، ص209؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج27، ص209و216۔
  21. مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج27، ص207-217.
  22. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص585؛ طبرسی، إعلام الوری، 1390ھ، ص367۔
  23. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص367؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379 ھ، ج2، ص209۔
  24. ملاحظہ کریں: حکیم، الامامۃ و اہل البیت، 1424ھ، ص305-351؛ محمدی، شرح کشف المراد، 1378شمسی، 495 و 496.
  25. سورہ نساء، آیہ 59۔
  26. خزاز رازی، کفایہ الاثر، 1401ھ، ص53-55؛ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج1 ، ص254-253۔
  27. ملاحظہ کریں:بخاری، صحیح بخاری، 1401ھ، ج8، ص127؛ مسلم نيشابوری، صحیح مسلم، دارالفکر، ج6، ص3و4؛ أحمد بن حنبل، مسند احمد، دارصادر، ج5، ص90، 93، 98، 99، 100 و106؛ ترمذی، سنن ترمذی، 1403ھ، ج3، ص340؛ سجستانی، سنن ابی داود، 1410ھ، ج2، ص309.
  28. ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1334ھ، ج4، ص501؛ نعمانی، کتاب الغیبہ، 1403ھ، 74- 75.
  29. قندوزی، ینابیع المودۃ لذوی القربى، دارالاسوۃ، ج3، ص292و293.
  30. ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، 1378شمسی، ص427-441؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج3، ص7و8.
  31. ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، 1378شمسی، ص427-441؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج3، ص7-15.
  32. محمدی، شرح کشف المراد، 1378شمسی، ص495؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج3، ص179و180.
  33. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص5؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص153۔
  34. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص6۔
  35. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص200۔
  36. محمدی، شرح کشف المراد، 1378شمسی، ص427-436۔
  37. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص138و139۔
  38. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص201۔
  39. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص201-202۔
  40. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص9؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص154۔
  41. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص29-66؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص182؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص21-31۔
  42. قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوۃ، ج1، ص337۔
  43. حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص63-71۔
  44. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص5؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص 205.
  45. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص 205؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص205.
  46. طباطبائی، شیعہ در اسلام، صص205-206۔
  47. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص206.
  48. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص 206.
  49. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص38 و52-55.
  50. مفید، الارشاد، 1413، ج1، ص168.
  51. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص29-139.
  52. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص27.
  53. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص215.
  54. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص208.
  55. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص32؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص222.
  56. موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج1، ص148و149.
  57. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص209و210.
  58. موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ھ، ج1، ص150.
  59. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص38 و52-55.
  60. مفید، الارشاد، 1413، ج1، ص168.
  61. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص29-139.
  62. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص137؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص256؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص175و176.
  63. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص114.
  64. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص119.
  65. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج45، ص138و139.
  66. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص216.
  67. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص138؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص256؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص175.
  68. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص256؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص137و138.
  69. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص176.
  70. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص138؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص256؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص176.
  71. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج15، ص18-19.
  72. عمادی حائری، «صحیفہ سجادیہ»، ص392.
  73. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، 1395شمسی، ج6، ص406.
  74. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1397شمسی، ص281.
  75. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، 1395شمسی، ج6، ص406.
  76. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص155.
  77. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص157 و 158؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص210.
  78. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص158و159.
  79. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص157 و 158؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص264.
  80. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص210.
  81. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص157 و 158؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص264.
  82. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص320.
  83. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص265؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص210.
  84. طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص217۔
  85. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص217-218.
  86. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص157.
  87. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص179و180؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص271.
  88. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص180؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص271.
  89. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص280؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص326.
  90. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص180؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص272.
  91. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص180؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص280.
  92. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص218و219.
  93. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص179؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص247.
  94. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص219.
  95. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص247و248؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص327-329.
  96. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص179.
  97. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1377شمسی، ص61.
  98. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص215؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص294؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص323و324.
  99. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص215.
  100. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص215؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص294؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص324.
  101. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص323؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص294.
  102. ملاحظہ کریں: جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص384و385و398.
  103. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص476؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص402-404.
  104. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص215؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص323و324؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص294.
  105. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص221.
  106. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص247؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص313و314.
  107. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص247.
  108. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص247؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص314.
  109. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص314؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص367.
  110. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص222.
  111. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص433-435.
  112. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص326.
  113. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص223و224.
  114. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص259و260؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ھ، ج2، ص363.
  115. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص445؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص224.
  116. صدوق، عیون أخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص135.
  117. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص442و443.
  118. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص344.
  119. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص344و345؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج4، ص379.
  120. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص295؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص344و345.
  121. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص345.
  122. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص472-474.
  123. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص344.
  124. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص344.
  125. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص478.
  126. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص225؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص480-482.
  127. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص297؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص355.
  128. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص497؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص297 و312؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص355.
  129. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص355؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص225-226.
  130. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص297؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص355.
  131. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص355؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص502.
  132. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص503.
  133. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص538.
  134. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص498؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص355.
  135. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص506.
  136. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص227؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص500و502.
  137. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص522.
  138. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص609.
  139. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص313.
  140. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص313 و336؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص367.
  141. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص227-228؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص367.
  142. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص313و336؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص367.
  143. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص313و314؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص367.
  144. طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص367.
  145. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص538، 539و542.
  146. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص538و542.
  147. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص228.
  148. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص547-550.
  149. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص228و229.
  150. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387شمسی، ص500و536.
  151. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص514؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص339؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص418.
  152. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص339؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ھ، ص418.
  153. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص339و340.
  154. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص336.
  155. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص230و231.
  156. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج52، ص122-.
  157. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص25، ح21؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج52، ص336.
  158. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص231و232.
  159. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج52، ص181-278.
  160. ملاحظہ کریں: قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، 1422ھ، ص514؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص263و290.
  161. ملاحظہ کریں: بغدادی، الفرق بین الفرق، 1977م، ص353و354.
  162. «قُلْ لاأَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبی؛ آپ(ص) کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے»‏ سورہ شوری، آیہ 23.
  163. حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص189-196؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص219و220.
  164. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج27، ص595.
  165. بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص133.
  166. ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1326ھ، ج7، ص388.
  167. ابن حبان، الثقات، 1393ھ، ج8، ص457.
  168. سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص234.
  169. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ھ، ج6، ص257.
  170. ابوزرعہ دمشقی، تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی، مجمع اللغۃ العربیۃ، ص536.
  171. ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج54، ص278.
  172. طباطبائی، أہل البيت عليہم السلام في المكتبۃ العربيۃ، مؤسسۃ آل البيت، ص481-483.
  173. ابن جوزی، تذکرہ الخواص، 1426ھ، ص102و103.
  174. ابن صباغ، الفصول المہمۃ، دارالحدیث، ج1، ص6و683و684.
  175. ابن صباغ، الفصول المہمۃ، دارالحدیث، ج1، مقدمہ محقق، ص24.
  176. طباطبائی، أہل البيت عليہم السلام في المكتبۃ العربيۃ، ص 235.
  177. شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، 1423ھ، ص5-7.
  178. شاہ محمدی، علی و شکوہ غدیرخم، 1384شمسی، ص43.
  179. شاہ محمدی، علی و شکوہ غدیرخم، 1384شمسی، ص45.

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، 1403 ھ۔
  • ابوزرعہ دمشقی، عبدالرحمن بن عمرو، تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی، دمشق، مجمع اللغۃ العربیۃ، بی تا.
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرہ الخواص من الأمّۃ فی ذکر خصائص الأئمۃ، تحقیق حسین تقی زادہ، قم، مجمع العالمی لاہل البیت(ع)، 1426ھ۔
  • ابن حبان، محمد بن حبان، الثقات، حیدرآباد، دایرہ المعارف العثمانیہ، چاپ اول، 1393ھ۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، ہند، دائرۃ المعارف النظامیۃ، چاپ اول، 1326ھ۔
  • ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، علامہ، چاپ اول، 1379ھ۔
  • ابن صباغ، علی بن محمد، الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمۃ، تحقیق سامی غریزی، قم، دارالحدیث، بی تا.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامۃ العمروی، بیروت، دارالفکر، 1415ق-1995م.
  • احمد بن حنبل، أحمد بن محمد بن حنبل، مسند أحمد، بیروت، دارصادر، بی تا.
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دارالفکر، 1401ق-1981م.
  • بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • بغدادی، عبدالقاہر، الفرق بین الفرق وبیان الفرقۃ الناجیۃ، بیروت، دار الآفاق، چاپ دوم، 1977م.
  • پیشوایی، مہدی، سیرہ پیشوایان، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق و تصحیح عبدالرحمن محمد عثمان، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1403ق-1983م.
  • تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، افست قم، شریف رضی، 1409ھ۔
  • جرجانی، میرسید شریف، شرح المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1325ھ۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، چاپ یازدہم، 1387ہجری شمسی۔
  • حاکم حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل ، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1411ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، بی نا، 1334ھ۔
  • حسینی میلانی، سیدعلی، اثبات الولایۃ العامۃ للنّبی و الائمۃ(ع)، قم، نشر الحقائق، چاپ اول، 1438ھ۔
  • حکیم، سید محمدباقر، الامامۃ و اہل البیت(ع) نظریۃ و الاستدلال، قم، مرکز الاسلامیۃ المعاصر، چاپ اول، 1424ھ۔
  • حمود، محمدجمیل، الفوائدالبہیۃ فی شرح عقائدالإمامیۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ دوم، 1421ھ۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تصحیح: عبداللطیف حسینی کوہکمری، قم، بیدار، 1401ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہۃ(طبع قدیم)، تقریر محمد علی توحیدی، قم، انصاریان، 1417ھ۔
  • ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، مؤسسہ الرسالہ، چاپ سوم، 1405ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقایق غوامض التنزیل، تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ اول، 1407ھ۔
  • سبحانی، جعفر، سیمای عقاید شیعہ، ترجمہ جواد محدثی، تہران، نشر مشعر، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، علم غیب (آگاہی سوم)، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، قم، توحید، 1395ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، منشور عقاید امامیہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1376ہجری شمسی۔
  • سجستانی، سلیمان بن الأشعث، سنن أبی داود، تحقیق وتعلیق سعید محمد اللحام، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1410ق-1990م.
  • شاہ محمدی، محمد علی، علی و شکوہ غدیرخم بر فراز وحی و رسالت در ترجمہ ینابیع المودہ، قم، مہر امیر المؤمنین(ع)، 1384ہجری شمسی۔
  • شبر، سیدعبداللہ، حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین، قم، انوار الہدی، چاپ دوم، 1424ھ۔
  • شبراوی، عبداللہ بن محمد، الإتحاف بحب الأشراف، تصحیح سامی غریری، قم، دارالکتاب، 1423ھ۔
  • شہیدی، سیدجعفر، زندگانی امام صادق جعفر بن محمد، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی (ویراست جدید)، قم، دفتر تنظیم و نشرآثار آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح و تحقیق علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، 1395ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد، قم، مکتبۃ آیت اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طباطبائی، سید عبدالعزیز، اہل البیت(ع) فی المکتبہ العربیہ، قم، مؤسسۃ آل البيت(ع) لإحياء التراث، بی تا.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، اسلامیہ، چاپ چہارم، 1390ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی تا.
  • عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایۃ التکوینیۃ و التشریعیۃ، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، 1428ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، كشف المراد في شرح تجريد الإعتقاد قسم الاہیات، تعلیقہ جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
  • علی بن حسین(ع)، صحیفہ سجادیہ، ترجمہ و شرح فیض الاسلام، تہران، فقیہ، چاپ دوم، 1376ہجری شمسی۔
  • عمادی حائری، سید محمد، «صحیفہ سجادیہ»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج29، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1400ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، تعلیہ احمد بن حسین ابی ہاشم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1422ھ۔
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربى، بیروت، دارالاسوۃ، بی تا.
  • کلینى، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، الإسلامیۃ، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • مؤمن قمی، محمد، «ولایۃ ولی المعصوم(ع)»، در مجموعۃ الآثار المؤتمر العالمی الثانی للامام الرضا(ع)، مشہد، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، 1409ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محمدی، علی، شرح کشف المراد، قم، دارالفکر، چاپ چہارم، 1378ہجری شمسی۔
  • مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بی تا.
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ نہم، 1386ہجری شمسی۔
  • موسوی زنجانی، سید ابراہیم، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، بیروت، مؤسسہ اعلمی، چاپ سوم، 1413ھ۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1403ق /1983م.
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی تا.