افضلیت امام

کم لنک
ویکی شیعہ سے
(افضلیت اہل بیت سے رجوع مکرر)

افضلیت امام، امامت کی شرائط میں سے ایک ہے جس کے معنی تمام انسانی صفات اور کمالات میں امام کا دوسروں سے افضل ہونا ہے۔ شیعہ امامیہ متکلمین کے مطابق امام کو علم، دین، تقوا، سخاوت و شجاعت نیز اخروی ثواب سے بہرہ مند ہونے میں اپنے زمانے کے تمام مخلوقات سے افضل ہونا ضروری ہے۔ امام کی افضلیت کو ثابت کرنے کے لئے ترجیح بلامرجح اور مفضول کو افضل پر مقدم کرنے کی قباحت جیسے قوانین نیز حدیث نبویؐ "جو شخص کسی گروہ کی رہبری اور امامت کا بیڑا اٹھائے حالانکہ اس گروہ میں اس شخص سے زیادہ دانا اور افضل شخص موجود ہو تو اس گروہ کا انجام قیامت تک تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا" اور بعض قرآنی آیات سے استناد کیا جاتا ہے۔

اہل‌ سنت کی اکثریت افضلیت امام کو واجب نہیں سمجھتے اسی بنا پر وہ مانع یا مصلحت کی صورت میں مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔ آٹھویں صدی ہجری کے مذہب اشعریہ کے متکلم سعد الدین تفتازانی کے مطابق اہل سنت اور اکثر اسلامی فرقوں کے نزدیک ہر زمانے میں امامت اس شخص کا حق ہے جو اپنے دور میں دوسروں سے افضل ہو مگر یہ کہ اس کی امامت ہرج و مرج اور فتنہ و فساد کا موجب ہو۔ اس سلسلے میں اہل‌ سنت کی طرف سے پیش کرده دلائل میں مفضول کی امامت پر علماء کا اجماع اور خلیفہ دوم کی جانب سے خلافت کے چناؤ کو چھ رکنی کمیٹی کے سپرد کرنا ہے حالانکہ ان کے درمیان افضل شخص موجود تھا۔

شیعہ علماء کے مطابق شیعہ ائمہ پیغمبر اسلامؐ کے بعد خدا کے تمام مخلوقات سے افضل اور برتر ہیں۔ علامہ مجلسی کے مطابق صرف وہ شخص ائمہ معصومین کی افضلیت کا انکار کر سکتا ہے جو احادیث سے کوئی آشنائی نہیں رکھتا۔

امام علیؑ کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے امام کی افضلیت سے استدلال کیا جاتا ہے جسے برہان افضلیت کہا جاتا ہے۔

مفہوم‌ شناسی اور اس کی وسعت

امامیہ متکلمین عموما افضلیت امام سے مراد علم، عدالت، شجاعت اور تقوا جو کہ امامت کے شرائط میں سے ہیں، میں امام کو دوسروں پر افضل ہونا مراد لیتے ہیں۔[1] بعض کلامی مآخذ میں افضلیت سے عبادت میں افضل ہونا نیز خدا کی نعمتوں سے زیادہ بہرہ مند ہونا مراد لیا گیا ہے۔[2] اس بنا پر امامیہ متکلمین امام کو تمام انسانی کمالات اور فضائل جیسے علم، دین، تقوا، سخاوت، شجاعت[3] اور اخروی ثواب سے زیادہ بہرہ مند ہونے میں دوسرے لوگوں سے افضل اور برتر قرار دیتے ہوئے[4] اس بات کے معتقد ہیں کہ امام کو اپنے زمانے میں سب سے زیادہ دانا، شجاع‌، سخاوتمند، صابر، باتقوا و... ہونا چاہئے[5] تاکہ لوگ احسن طور پر ان کی پیروی کر سکیں۔[6]

کہا جاتا ہے کہ امام کو دنیوی مال و متاع، مقام و منصب میں دوسروں سے افضل ہونا ضروری نہیں کیونکہ امامت کا اصل مقصد حقیقی طور پر لوگوں کا امام کی پیروی کرنا اور ان پر ایمان لانا ہے نہ ظاہری اطاعت۔[7]

شیعہ نقطہ گاہ میں امام کی افضلیت

شیعہ امامیہ متکلمین امامت کے شرائط میں سے ایک افضلیت کو بھی قرار دیتے ہیں۔[8] اور اس سلسلے میں ان سب کا اتفاق ہے۔[9] افضلیت امام کو ثابت کرنے کے لئے عقلی اور نقلی دونوں دلائل پیش کئے گئے ہیں۔

عقلی دلائل

  1. امام فضائل اور کمالات میں یا دوسرے انسانوں کے برابر ہیں یا دوسروں سے کمتر ہیں یا دوسروں سے افضل اور برتر ہیں۔ اگر دوسروں کے برابر ہیں تو ان کو امام بنانا ترجیح بلا مُرَجِّح ہے(یعنی دو مساوی کاموں میں سے ایک کو بغیر کسی رجحان کے انتخاب کرنا) جو عقل کے نزدیک محال ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ خدا سے ایسا کام کبھی سرزد نہیں ہو سکتا۔ اگر امام فضائل اور کمالات میں دوسروں سے کم ہیں پھر بھی ان کو امام بنایا جا رہا ہے تو یہ مفضول کو افضل پر مقدم کرنا ہے جو عقل کے نزدیک ایک قبیح فعل ہے۔ پس ضروری ہے کہ امام کو تمام کمالات اور فضائل میں دوسروں سے افضل ہونا چاہئے۔[10]
  2. امام کا معصوم ہونا واجب ہے اور معصوم غیر معصوم سے افضل ہوتا ہے۔ پس امام دوسروں سے افضل ہے۔[11]
  3. امام کو پیغمبر اسلامؐ معین فرماتا ہے۔ اور پیغمبر اکرمؐ نے ہمیشہ اپنے جانشین کے انتخاب میں افضل اور شائستہ فرد پر توجہ دی ہیں۔[12]

نقلی دلائل

افضلیت امام کو ثابت کرنے کے لئے سورہ یونس کی آیت نمیر 35،[13] سورہ توبہ کی آیت نمبر 119 آیہ صادقین[14] اور سورہ زمر کی آیت نمبر 9[15] سے استناد کیا گیا ہے۔ ان آیات میں خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ شخس کا ہدایت کے محتاج شخص پر، "سچوں کے ساتھ ہونا" غیر سچوں کے ساتھ ہونے پر اور عالم کا غیر عالم پر مقدم ہونے کی تصریح کی گئ ہے جو حقیقت میں ان تمام موارد میں افضل کا مفضول پر مقدم ہونے کی دلیل ہے۔[16]

امام کے لئے افضلیت کی شرط کو ثابت کرنے کے لئے احادیث سے بھی استناد کیا گیا ہے۔[17] من جملہ پیغمبر اکرمؐ سے منقول یہ حدیث: مَنْ أَمَ قَوْماً وَ فِیہِمْ مَنْ ہُوَ أَعْلَمُ مِنْہُ لَمْ یزَلْ أَمْرُہُمْ إِلَی السَّفَالِ إِلَی یوْمِ الْقِیامَۃِ (ترجمہ: جو شخص کسی ایگ گروہ کی امامت اور رہبری کرنے کا خواہاں ہو جبکہ اس گروہ میں اس شخص سے افضل اور برتر شخص موجود ہو تو اس گروہ کا انجام قیامت تک تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔[18] اس حدیث میں مفضول کو افضل پر مقدم کرنے کو قبیح قرار دیا گیا ہے۔[19]

اہل‌ سنت مآخذ میں بھی ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کے مطابق ابودرداء ابوبکر کے آگے آگے چل رہا تھا، پیغمبر اکرمؐ نے ان سے فرمایا: "آیا اس شجص کے آگے آگے چل رہے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے بہتر ہے!"[20] کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث مفضول کا راستہ چلنے میں افضل پر مقدم ہونے کی قباحت پر دلالت کرتی ہے۔ جب ایسا ہے تو مفضول کا امامت اور رہبری جیسے اہم امور میں افضل پر مقدم ہونے کی قباحت تو بطریق اولا ثابت ہو جاتی ہے۔[21]

اہل‌ سنت کے نزدیک مفضول کی امامت کا جائز ہونا

اہل سنت کی اکثریت افضلیت امام کو شرط اور واجب نہیں سمجھتے اور مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔

اشاعرہ:مذہب اشاعرہ کے متکلمین امام کے لئے افضلیت کو شرط نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر وہ مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔[22] لیکن اس کے باوجود پانچویں صدی کے اشعری متکلم قاضی ابوبکر باقلانی اس بات کے قائل ہیں کہ افضلیت، امام کے لازمی شرائط میں سے ہے مگر یہ کہ افضل کو امام قرار دینے میں کوئی مانع موجود ہو اس صورت میں مفضول کی امامت جائز ہو جائے گی۔[23] قاضی باقلانی امام کے لئے افضلیت کے لازمی ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کئی دلائل سے استناد کرتا ہے من جملہ یہ حدیث نبویؐ: یَؤُمُّ القَومَ اَفْضَلُہُم (ترجمہ: کسی بھی قوم کا سب سے افضل شخص ان کی امامت کرے گا"[24] باقِلانی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر ہرج و مرج، فتنہ و فساد، احکام خداوندی کے معطل ہونے نیز اسلام دشمنوں کو اسلام کے خلاف جرأت پیدا ہونے خدشہ ہو تو افضل شخص کی بجائے مفضول کو امام بنایا جا سکتا ہے۔[25] اسی طرح آٹھویں صدی ہجری کے اشعری متکلم سعدالدین تفتازانی کہتے ہیں کہ اہل‌ سنت اور دیگر اسلامی فرقوں کی اکثریت اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانے میں امامت صحیح حقدار وہ شخص ہے جو اپنے زمانے میں دوسروں سے افضل اور برتر ہو مگر یہ کہ اس کی امامت معاشرے میں ہرج و مرج اور فتنہ و فساد کا موجب ہو۔[26]

معتزلہ: معتزلہ بھی افضلیت امام کو واجب نہیں سمجھتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں۔[27] چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے معتزلی متلکم قاضی عبدالجبار معتزلی کہتے ہیں کہ جن موارد میں مفضول کو افضل پر مقدم کرنا بہتر ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • جب افضل میں امام کے لئے لازمی شرائط جیسے علم اور سیاسی سوج بوجھ وغیره کم یا نہ موجود نہ ہو۔
  • جب افضل غلام ہو یا کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ حدود الہی اور جہاد وغیرہ کو قائم نہ کر سکتا ہو،
  • افضل شخص قریشی نہ ہو جبکہ مفضول قریشی ہو۔[28]

دلائل

اہل‌ سنت مفضول کی امامت کے جائز ہونے پر کچھ دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  1. خلفائے راشدین کے بعد افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت پر تمام علماء کا اجماع؛
  2. عمر بن خطاب نے امامت کے انتخاب کو چھ رکنی کمیٹی کے سپرد کیا؛ حالانکہ ان کے درمیان حضرت علیؑ اور عثمان دوسروں سے افضل تھے۔
  3. افضلیت ایک باطنی امر ہے جس کی پہچان نہایت مشکل ہے اور ہمیشہ اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[29]

آخرت میں امام کی افضلیت

آخرت میں خدا کی طرف سے دیئے جانے والے انعام و اکرام یعنی ثواب کے مستحق ہونے میں بھی امام کو دوسروں سے افضل ہونے کو متعدد دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے۔[30] من جملہ وہ دلائل یہ ہیں:

  • عصمت: امام کا معصوم ہونا واجب ہے۔ جو شخص عصمت کے مقام پر فائز ہو گا وہ آخرت میں ثواب کے مستحق ہونے میں بھی دوسروں پر مقدم هو گا؛[31] کیونکہ امام معصوم ہونے کی بنا پر اس کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہوگا۔ پس دنیا میں ظاہری طور پر افضل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں باطنی طور پر بھی امام دوسروں سے افضل اور برتر ہونگے۔[32]
  • جس قدر ذمہ داری سنگین ہوگی ثواب بھی زیادہ ملے گا: امام امامت کی ذمہ داری اٹھانے کی بنا پر دوسروں سے زیادہ مشقت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر آخرت میں امام زیادہ ثواب اور انعام و اکرام کا بھی مستحق قرار پائے گا۔[33]
  • امام دوسروں پر حجت ہیں: امام پیغمبر اکرمؐ کی طرح امت پر خدا کی حجت ہیں بنابر این جس طرح پیغمبر اکرمؐ دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق قرار پاتے ہیں امام بھی دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق قرار پائیں گے۔[34]

شیعہ ائمہ کی افضلیت

تفصیلی مضمون: اہل بیتؑ کی افضلیت

شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کے بعد شیعہ ائمہؑ باقی تمام انبیاء، ملائکہ اور انسانوں سے سے افضل ہیں۔[35] ائمہ معصومین کا پیغمبر اکرمؐ کے بعد تمام مخلوقات سے افضل ہونے پر دلالت کرنے والی احادیث کو مستفیض بلکہ متواتر جانا گیا ہے۔[36] علامہ مجلسی معتقد ہیں کہ جو بھی احادیث میں تحقیق کریں وہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین تمام مخلوقات سے افضل ہیں اور اس بات سے انکار صرف وہی کرتا ہے جو احادیث سے کوئی آشنائی نہیں رکھتا۔ علامہ مجلسی کے مطابق اس سلسلے میں موجود احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں ہے۔[37]

ایک حدیث میں امام رضاؑ اپنے آباء و اجداد کے ذریعے امام علیؑ سے اور امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

...اے علی! بتحقیق خدا نے انبیاء کو ملائکہ پر اور مجھے تمام انبیاء پر فوقیت دی۔ اے علی! میرے بعد یہ فوقیت تجھے اور تیرے بعد آنے والے ائمہ کو حاصل ہے۔ بتحقیق ملائکہ ہمارے خادم اور محب ہیں!...[38]

صحابہ اور باقی لوگوں کی نسبت امام علیؑ کی افضلیت پر متعدد قرآنی اور حدیثی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔[39] کتاب کشف المراد میں علامہ حلی[40] ۲۵ دلیل نے اور کتاب النجاۃ فی القیامۃ میں ابن میثم بحرانی[41] ۲۲ نے امام علیؑ کی افضلیت پر دلائل پیش کئے ہیں۔ من جملہ ان دلائل میں آیہ مباہلہ، آیہ مودت، حدیث طیر، حدیث منزلت اور حدیث رایت شامل ہیں۔[42]

کہا گیا ہے کہ بغداد کے معتزلی من جملہ ابن ابی‌الحدید، نہج البلاغہ کے شارح اور بصرہ کے بعض معتزلی امام علیؑ کو خلفائے سہ‌گانہ اور دوسرے صحابہ سے افضل سمجھتے ہیں۔[43]

برہان افضلیت

امام کے افضل ہونے کی شرط کے ذریعے امام علیؑ کی امامت پر استدلال کیا گیا ہے۔ برہان افضلیت کچھ یوں ہے:

  • پہلا مقدمہ: قرآنی اور حدیثی دلائل کی روشنی میں امام علیؑ صحابہ اور دوسرے مسلمانوں سے افضل ہیں۔
  • دوسرا مقدمہ: امام کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ امام کو تمام انسانی صفات اور کمالات میں دوسروں سے افضل ہونا چاہئے۔
  • نتیجہ‌: پس امام علیؑ، امام اور پیغمبر اکرمؐ کا جانشین ہے۔[44]

اعتراضات

اہل‌ سنت کے ایک گروہ نے امام کے افضل ہونے کی شرط پر کچھ اعترضات کئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں۔[45]

  • افضلیت کا لازمہ مقدم اور راحج ہونا نہیں ہے: کیونکہ ممکن ہے مفضول شخص بعض موارد میں افضل پر ترجیح رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر اگر مفضول شخص معاشرے کی رہبری اور دینی اور سیاسی امور کو چلانے میں افضل شخص کی نسبت زیادہ مناسب اور شایستہ‌ ہو اس صورت میں افضل کی بجائے اسے امام ہونا چاہئے۔[46] اس اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس اعتراض میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ امامت کی بحث میں افضل سے مراد فقط احکام اور عبادی اعمال عبادی میں دوسروں سے افضل ہونا ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ امام کی بحث میں افضلیت امام سے مراد تمام انسانی صفات اور کمالات مراد ہیں اور مذکورہ اشکال میں جن صفات کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں بھی امام کو دوسروں سے افضل ہونا شرط ہے اسی طرح اس اعتراض میں افضلیت کو افضلیت نسبی مراد لیا گیا ہے حالانکہ افضلیت امام کی بحث میں افضلیت سے مراد افضلیت مطلق ہے یعنی تمام انسانی صفات اور کمالات میں امام کو دوسروں سے افضل ہونا ضروری ہے۔[47]
افضلیت امام از منظر عقل و نقل
  • افضلیت کے ساتھ ناسازگار نمونے: کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور خلفا کے زمانے میں امام اور لشکروں کے سپہ سالار معین کئے جانے کی ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو افضلیت امام کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔[48] من جملہ ان میں جنگ موتہ میں جعفر بن ابی‌طالب کی موجودگی میں زید بن حارثہ کو جنگ کا سپہ سالار بنانا، اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کی آخری عمر میں امام علیؑ کے ہوتے ہوئے اسامۃ بن زید کو سپہ سالار بنانا[49] اسی طرح عمر بن خطاب کی جانب سے خلافت کو چھ رکنی کمیٹی کے سپرد کرنا جبکہ اس کمیٹی میں علیؑ اور عثمان جیسے افضل اشخاص موجود تھے۔[50] اس اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ کسی جنگ میں لشکر کا سپہ سالار منتخب کرنے کے لئے متعلقہ شخص کو ہر لحاظ سے افضل ہونا ضروری نہیں بلکہ اس شخص میں جنگ سے مربوط امور میں دوسروں سے افضل ہونا کافی ہے اور زید اور اسامہ ان صفات میں دوسروں پر فوقیت رکھتے تھے۔ اسامہ کے لشکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ ان ایام میں پیغمبر اکرمؐ کے پاس موجود تھے اور پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ اس بنا پر حضرت علیؑ اسامہ کے لشکر میں شامل ہی نہیں تھے۔[51] اور عمر بن خطاب کی سیرت کا حجت ہونا صحابہ کے عمل کے حجت ہونے پر مبتنی ہے جسے شیعہ قبول ہی نہیں کرتے۔[52]

مونوگرافی

  • افضلیت امام از منظر عقل و نقل، مصنف محمدحسین فاریاب۔ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں افضلیت کا مفہوم، وسعت، افضلیت کا لازم ہونا اور نہ ہونا اور افضفیت کے آثار اور نتائج پر مختلف اسلامی مذاہب اور فرقوں کے نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی نے شایع کی ہے۔[53]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۸۸و۱۹۱۔
  2. محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۱۔
  3. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۷؛ بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۶۶؛ مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۳۷و۲۳۸۔
  4. محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۱و۱۲۲۔
  5. فاضل مقداد، ارشادالطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۳۶؛ بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۶۶۔
  6. مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۳۷۔
  7. مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۴۰۔
  8. ملاحظہ کریں: محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۱۹۸؛ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۷؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیۃ، ۱۴۲۲ق، ص۳۳۳؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۱۔
  9. ملاحظہ کریں: فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۳۶؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۲؛ مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۳۳۔
  10. ملاحظہ کریں: محقق حلی، المسلک فی أصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۶؛ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۷؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، ۱۴۲۲ق، ص۳۳۳؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۵۔
  11. بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۶۵۔
  12. بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۶۶۔
  13. علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۷؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۳۶؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۶۔
  14. بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۶۔
  15. بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۷۔
  16. بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۶ و ۱۲۷۔
  17. بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۷-۱۳۰۔
  18. صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۲۰۶؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۵۶۔
  19. بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۳۰۔
  20. ابن حنبل، فضائل الصحابہ، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۱۵۲، ۱۵۴و ۴۲۳؛ ابونعیم اصبہانی، فضائل الخلفاء الراشدین، ۱۴۱۷ق، ص۳۹۔
  21. بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۹۔
  22. ایجی-جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۷۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۶و۲۴۷۔
  23. باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۱۔
  24. باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۴ و ۴۷۵۔
  25. باقلانی، تمہید الاوائل، ۱۴۰۷ق، ص۴۷۵۔
  26. تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۹۱۔
  27. قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۱۵؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳، ج۲، ص۲۹۶ و ج۳، ص۳۲۸۔
  28. نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۲۷-۲۳۰۔
  29. تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۷۔
  30. ملاحظہ کریں: محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵ و ۲۰۶؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶ و ۲۸۷؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۲؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۲۰۳-۲۰۸۔
  31. محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶۔
  32. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۲۰۴۔
  33. محقق حلی، المسلک فی أصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۵؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۶؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۲۔
  34. محقق حلی، المسلک فی أصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۶؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۸۷۔
  35. ملاحظہ کریں: صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳؛ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰ و ۷۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔
  36. مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹۔
  37. مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷ و ۲۹۸۔
  38. صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۶۲، ح۲۲؛ برای آگاہی از روایات افضلیت امامانؑ کے لئے ملاظہ کریں: مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۶۷-۳۱۹۔
  39. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۱-۲۳۸؛ بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸-۱۶۵؛ ربانی گلپایگانی، براہین و نصوص امامت، ۱۳۹۶ش، ص۲۶-۴۸۔
  40. علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۱-۲۳۸۔
  41. ابن میثم بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸-۱۶۵۔
  42. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۱-۲۳۸؛ بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸-۱۶۵؛ ربانی گلپایگانی، براہین و نصوص امامت، ۱۳۹۶ش، ص۲۶-۴۸۔
  43. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۷-۹۔
  44. ملاحظہ کریں: بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۸؛ ربانی گلپایگانی، براہین و نصوص امامت، ۱۳۹۶ش، ص۲۱۔
  45. ملاحظہ کریں: ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۴-۲۰۰۔
  46. ملاحظہ کریں: قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۲۰، بخش اول، ص۲۲۷-۲۳۰؛ ایجی-جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۷۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۶و۲۴۷۔
  47. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۷ و ۱۹۸۔
  48. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۸۔
  49. محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۰۷۔
  50. تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۷۔
  51. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۹۔
  52. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۹۶ش، ص۱۹۹ و ۲۰۰۔
  53. «افضلیت امام از منظر عقل و نقل»، روابط عمومی مؤسسہ پژوہشی امام خمینی۔

مآخذ

  • ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق و تصحیح محمدابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیت اللہ مرعشی، چاپ اول، ۱۴۰۴ھ۔
  • ابن حنبل، احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، تحقیق وصی اللہ محمدعباس، بیروت، مؤسسہ الرسالۃ، چاپ اول، ۱۴۰۳ھ۔
  • ابن میثم بحرانی، میثم بن علی، النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق امر الامامۃ، قم، مجمع الفکر الإسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
  • ابونعیم اصبہانی، احمد بن عبداللہ، فضائل الخلفاء الراشدین، تحقیق صالح بن محمد العقیل، مدینہ، دارالبخاری، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
  • ایجی، عضدالدین و میرسیدشریف جرجانی، شرح المواقف، تصحیح بدر الدین نعسانی، افست قم، شریف الرضی، چاپ اول، ۱۳۲۵ھ۔
  • باقلانی، ابوبکر محمد بن طیب، تمہید الاوائل فی تلخیص الدلائل، تحقیق عماد الدین احمد حیدر، لبنان، مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، چاپ اول، ۱۴۰۷ق-۱۹۸۷ء۔
  • بحرانی، شیخ علی، منار الہدی فی النص علی امامۃ الائمۃ الإثنی عشر(ع)، تحقیق عبد الزہراء خطیب، بیروت، دار المنتظر، ۱۴۰۵ھ۔
  • تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، مقدمہ و تحقیق و تعلیق: عبدالرحمن عمسرہ، افست قم، شریف الرضی، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • حمصی رازی، سدیدالدین، المنقذ من التقلید، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، امامت در بینش اسلامی، قم، بوستان کتاب، چاپ ششم، ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، براہین و نصوص امامت، قم، رائد، چاپ دوم، ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
  • شبر، سید عبداللہ، حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین، قم، انوار الہدی، چاپ دوم، ۱۴۲۴ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، چاپ اول، تہران، نشرجہان، ۱۳۷۸ھ
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق حسن موسوی خرسان، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الاہیات، تحقیق و تعلیقہ جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)،، ۱۳۸۲ ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، تحقیق سیدمہدی رجائی، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، ۱۴۰۵ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع الالہیہ فی مباحث الکلامیہ، تحقیق شہید قاضی طباطبایی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۲۲ھ۔
  • قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، المغنی فی ابواب التوحید و العدل، تحقیق جورج قنواتی، قاہرہ، درالمصریۃ، ۱۹۶۲-۱۹۶۵ء۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوارالجامعۃ لدررأخبار الأئمۃ الأطہار(ع)، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضرہ الفقیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، چاپ دوم، ۱۴۰۶ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المسلک فی أصول الدین و الرسالۃ الماتعیۃ، تحقیق رضا استادی، مشہد، مجمع البحوث الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • مظفر، محمدحسین، دلائل الصدق، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۲ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔