مہدویت
مہدویت آخری زمانے میں انسانوں کو ظلم و جور سے نجات دینے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے والی ہستی کے ظہور پر عقیدہ رکھنے کا نام ہےـ مُنجی موعود (نجات دہندہ جس کا وعدہ دیا گیا ہے) کا عقیدہ دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب میں پایا جاتا ہے اور ہر دین و مذہب میں مختلف شکل و صورت میں منجی کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس درمیان شیعہ حضرات اپنے بارہویں امام، امام مہدیؑ کو منجی عالم بشریت سمجھتے ہیں۔
مفہومشناسی
«مَہدَویت» عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو لفظ «مہدی» سے مشتق ہے اور لفظ «مَہدَوی» میں "تا" کے اضافہ سے بنا ہے۔ مہدوی کے معنی مہدی سے تعلق رکھنے کے ہیں جس طرح عَلَوی اور حَسَنی سے مراد علی اور حسن سے تعلق رکھنے کے ہیں۔ «ت» لفظ «مہدویت» میں "تا" تأنیث کی علامت ہے اور اس کے مصوف کے حذف ہونے کی بنا پر اضافہ ہوا ہے؛ یعنی اصل میں «طریقۃ مہدویۃ» یا اس طرح کی کوئی اور ترکیب تھی۔[1][یادداشت 1]
صدر اسلام میں لفظ «مہدی» ہدایت یافتہ شخص یا بعض افراد کی عزت اور تکریم کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر پیغمبر اکرمؐ، خلفائے راشدین اور امام حسینؑ کے لئے استعمال ہوا ہے۔[2] راجکوسکی،[یادداشت 2] سب سے پہلا شخص جس نے لفظ مہدی کو منجی اور نجات دہندہ کے لئے استعمال کیا وہ ابو اسحاق کعب بن ماتہ بن حیسوء حمیری (متوفی ۳۴ھ) تھا۔[3]
مختار ثقفی محمد بن حنفیہ کے منجی ہونے کے عقیدے کی بنیاد پر مہدی کا نام دیتا تھا۔ اسی طرح زیدیہ لفظ مہدی کو مذکورہ مفہوم کے ساتھ اپنے پیشواوں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ شیعوں کی ایک جماعت نے بھی بعض اماموں کی رحلت کے بعد ان کو مہدی کے نام سے یاد کی ہیں جیسے ناووسیہ امام صادقؑ کو، واقفیہ امام کاظمؑ کو اور بعض دوسرے حضرات امام حسن عسکریؑ کو مہدی کا نام دیتے تھے۔[4]
یہ لفظ شیعہ اثنا عشری کے یہاں امام حسن عسکریؑ کے فرزند گرامی حجت بن الحسن کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے مطابق حجت بن الحسن پیغمبر اکرمؐ کی نسل سے ہیں جن کے آنے کا آپؐ نے وعدہ دیا تھا اور آخری زمانے میں انسانوں کو نجات دینے کیلئے آپ ظہور فرمائیں گے۔
لفظ مہدی کو منجی اور نجات دہندہ کے معنی میں استعمال کرنا احادیث نبوی کی بنیاد پر ہے۔ «الْمَہْدِی مِنْ وُلْدِی، وَجْہُہُ کالْکوْکبِ الدُّرِّی، وَ اللَّوْنُ لَوْنٌ عَرَبِی، وَ الْجِسْمُ جِسْمٌ إِسْرَائِیلِی، یمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا کمَا مُلِئَتْ جَوْراً، یرْضَی بِخِلَافَتِہِ أَہْلُ السَّمَاءِ وَ الطَّیرُ فِی الْجَو يملك عشرين سنۃ (ترجمہ: مہدی میری نسل سے ہے ان کے چہرے کا رنگ عربی نژاد افراد کے چہرے کی رنگ کی طرح ہے اور ان کا بدن بنی اسرائیل کے لوگوں کے بدن کی طرح ہوگا۔ [یادداشت 3] ان کے دائیں رخسار پر ایک خال ہے جو ایک روشن ستارے کی مانند چمکتا ہے، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی گی، زمین و آسمان کے مخلوق اور ہوا میں اڑنے والے پرندگان ان کی امامت میں خوشحال ہونگے اور وہ بیس سال حکومت کریں گے»۔)[5]
عقیدہ مہدویت کی تاریخ
منجی یا نجات دہندہ کا عقیدہ وہ عقیدہ ہے جس کے مطابق آخری زمانے میں ایک شخص آئے گا جو انسانوں کو ظلم و جور سے نجات دے کر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ منجی موعود اور نجات دہندہ کا تصور دنیا کے مختلف اقوام اور ملتوں کے یہاں مختلف انداز میں موجود ہے اور ہر قوم کے پاس اس کی ایک خاص شکل و صورت موجود ہے لیکن ان تمام ادیان و مذاہب اور اقوام و ملتوں کے درمیان ایک چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ آئے گا جو انسانوں کو ظالموں اور سمتگروں کی غلامی سے نجات دے کر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ہندو لوگ دسویں ویشنو [یادداشت 4]یا کالْکی کے منتظر ہیں؛ بودہسٹ پانچویں بود کے منتظر ہیں؛ یہودی مسیح (ماشیح) کو نجات دہنده سمجھتے ہیں؛ مسیحی فارقلیط کے منتظر ہیں جس کے آنے کی بشارت عیسی مسیح نے دی ہے؛ اور آخر کار مسلمان حضرت مہدی موعود(عج) کے انتظار میں ہیں۔
مُنجی کا تذکرہ قرآن میں
بعض قرآنی آیات دنیا کے مستقبل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں منجملہ وہ آیات جن میں حق و حقیقت کی آخری فتح، زمین پر صالحین کی عالمی حکومت، مستضعفین کی ورثہ داری، کلمۃ اللہ کی سربلندی وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ ان آیات میں کبھی صراحت اور کبھی کنایت کے ساتھ امام زمانہ(عج) کے ظہور اور قیام و عدل اور عالمی اسلامی اور انسانی حکومت کی تشکیل کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ بعض آیات کریمہ میں امام(عج) کی ولایت باطنیہ اور ولایت تکوینیہ پر تصریح ہوئی ہے:
- "ہُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہُ عَلَى الدِّينِ كُلِّہِ"۔
ترجمہ: وہ وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین کے مقابلے میں غالب کرکے رہے۔[6]۔[7]
خداوند متعال اپنا نور کمال تک پہنچا کر ہی رہے گا
- "يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَيَأْبَى اللّہُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَہُ"۔
ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ انکاری ہے کسی بات سے سوا اس کے کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچائے۔[8]۔[9]
باطل مٹ کر رہے گا
- "إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوقاً"۔
ترجمہ: یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے۔[10]
اللہ کے صالح بندے زمین کے ورثہ دار ہونگے
- "وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ"۔
ترجمہ: اور بے شک ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے ورثہ دار میرے نیک بندے ہوں گے۔[11]
امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ صالح اور لائق بندے آخر الزمان میں امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب ہیں۔[12]
مستضعفین امام اور مستضعفین وارث زمین ہونگے
- "وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّۃً وَنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِينَ"۔
ترجمہ: اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں دبایا یا پیسا (= مستضعف بنایا) گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار دیں، ان ہی کو آخر میں قابض و متصرف بنائیں۔[13]
ائمۂ معصومین علیہم السلام نے امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کے قیام کو اس آیت کا مقصود قرار دیا ہے۔[14]
مؤمنین جانشین ہونگے
- "وَعَدَ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِينَہُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ"۔
ترجمہ: اللہ کا وعدہ ہے تم میں ان افراد سے جو باایمان ہیں اور نیک اعمال کرتے رہے ہیں کہ وہ انہیں روئے زمین پر خلیفہ قرار دے گا جس طرح انہیں خلیفہ بنایا تھا جو ان کے پہلے تھے اور ضرور اقتدار عطا کرے گا ان کے اس دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گا انہیں ان کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے تو یہی فاسق لوگ ہوں گے۔[15]
ائمۂ معصومین علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت کریمہ بھی امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
مروی ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: "خدا کی قسم یہ ہمارے شیعہ ہیں۔ خداوند متعال انہیں دیئے ہوئے وعدے کو ہمارے ایک مرد کے ہاتھوں عملی جامہ پہنائے گا، وہ مرد اس امت کے مہدی ہیں"۔ یہی مضمون امام باقر اور امام صادق علیہما السلام سے بھی نقل ہوا ہے۔[16]
عنقریب اللہ کے دوستوں کی حکمرانی ہوگی
- "يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِہِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّہُ بِقَوْمٍ يُحِبُّہُمْ وَيُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّۃٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاہِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّہِ يُؤْتِيہِ مَن يَشَاء وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"۔
ترجمہ: اے ایمان لانے والو ! جو تم میں سے ان اپنے دین سے پلٹ جائے تو کوئی بات نہیں بہت جلد اللہ ایک جماعت کو لائے گا جنہیں وہ دوست رکھتا ہو گا اور وہ اسے دوست رکھتے ہوں گے، وہ ایمان والوں کے سامنے نرم ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ میں سخت ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کریں گے یہ اللہ کا فضل و کرم ہے جسے چاہتا ہے، وہ عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی سمائی والا ہے، بڑا جاننے والا۔۔[17]
مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیت کریمہ سے مراد امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب ہیں۔[18] بعض دیگر روایات میں منقول ہے کہ یہ آیت حضرت قائم(عج) اور آپ(عج) کے اصحاب کی شان میں نازل ہوئی جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔[19]
بقیۃ اللہ تمہارے لئے بہتر ہے
- "بَقِيَّۃُ اللّہِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ"۔
ترجمہ: جو کچھ ذخیرہ خدا کی طرف کا باقی ہے وہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔[20]
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بَقِيَّۃُ اللّہِ سے مراد حضرت مہدی علیہ السلام ہیں۔ مروی ہے کہ کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: "جب ہم حضرت قائم(عج) کو سلام دینا چاہیں تو کیا آپ(عج) کو امیرالمؤمنین کہہ کر پکار سکتے ہیں؟ امامؑ نے فرمایا: نہیں! امیر المؤمنین کا لقب خداوند متعال نے صرف علی بن ابی طالب علیہ السلام کو عطا کیا ہے؛ پوچھا تو پھر آپ(عج) کو کس عنوان سے سلام کریں؟ فرمایا کہہ دو:السَّلامُ عَلَیکَ یَا بَقیَّۃَ اللہِ! اور پھر اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: بقیّۃ اللہِ خَیرٌ لکم...۔[21]
[ان ساری آیات کریمہ کے پیش نظر] شیعیان اہل بیت کا مستقبل کے سلسلے حُسنِ ظنّ ظہور مہدی(عج) کے عقیدے پر استواری اور ایمان کا نتیجہ ہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: حتی اگر زمین کی عمر میں صرف ایک ہی دن بھی باقی ہو خداوند متعال اس کو اس قدر طویل کرے گا کہ مہدی(عج) ظہور کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔[22]
امام مہدی اور شب قدر
قرآن کریم نے دو بار "شب قدر" کا تذکرہ کیا ہے: 1) سورہ قدر میں 29) سورہ دخان میں۔ سورہ قدر کی آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات کو فرشتے اپنے سربراہ "روح" کے ہمراہ زمین پر اتر آتے ہیں اور اگلے سال کے لئے اللہ کا فرمان اور اس کی تقدیر لے کر آتے ہیں۔
سورہ قدر اور سورہ دخان کی تفسیر میں واردہ روایات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے شب قدر ایک سال کی تقدیر کو زمانے کے ولی مطلق کے پاس لے کر آتے ہیں اور ان کو پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری تھا اور ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا۔
رسول اللہؐ کے دور میں فرشتے آپؐ پر نازل ہوتے تھے اور آنحضور کے بعد ہر زمانے میں موجود اللہ کی حجت اور ولی مطلق کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ وہ شب قدر کے مالک ہیں۔ شب قدر اور فرشتوں کا نزول تمام مسلمانوں کے ہاں امر مسلّم ہے؛ اسی بنا پر ائمۂ معصومین علیہم السلام نے شیعیان آل رسول کو ہدایت فرمائی ہے کہ ائمہ کی امامت کے اثبات کے لئے ان آیات سے استناد کریں۔ کیونکہ ہر سال شب قدر کے نام سے ایک رات ہوتی ہے چنانچہ ہمیشہ کے لئے روئے زمین پر ایک ولی اور حجت کی موجودگی ضروری ہے۔[23] یہ آیات کریمہ امام زمانہ(عج) کے وجود اور آپ(عج) کی ولایت باطنیہ کا اثبات کرتی ہیں۔
آیات مہدویت شیعہ تفسیری منابع میں
کہا جاسکتا ہے کہ تمام شیعہ تفسیری منابع میں آیات کریمہ کے ذیل میں حضرت مہدی(عج) کا تذکرہ ہوا ہے۔
آیات مہدویت پر مشتمل کتاب کا تعارف
حضرت مہدی(عج) کے بارے میں متعدد کتب تالیف ہوئی ہیں جو آپ(عج) کی شان میں نازلہ آیات کریمہ پر مشتمل ہیں۔ جیسے: المحجّۃ فیما نزل فی القائم الحجّۃ تالیف سید ہاشم بحرانی۔
اس کتاب کا فارسی ترجمہ سیمای حضرت مہدی در قرآن کے عنوان سے شائع ہوا ہے اور مترجم "مہدی حائری قزوینی" ہیں۔ المہدی فی القرآن بھی سید صادق شیرازی کی کاوش ہے۔
اہل سنت کی معتبر تفاسیر نے بھی لکھا ہے کہ قرآن کی بعض آیات کریمہ حضرت مہدی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسے: "نظام نیشابوری" کی کتاب غرائب القرآن، "جار اللہ زمخشری" کی کتاب الکشاف، "شہاب الدین آلوسی بغدادی" کی کتاب روح المعانی، "شیخ محمد عبدہ مصری" کی کتاب المنار وغیرہ۔[24]
حضرت مہدی(عج) روایات و احادیث میں
حضرت مہدی(عج) کی شان میں وارد ہونے والی احادیث اس قدر واضح اور فراواں ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اس حقیقت میں شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔[25]
وہ غیبت میں بھی امام ہیں
شیعہ عقائد کے مطابق حضرت مہدی(عج) غیبت کے زمانے میں منصب امامت کے حامل ہیں اور بادلوں کے پردے میں نہاں سورج کی مانند اس عالم کو اپنی روشنی اور حرارت سے بہرہ ور کرتے ہیں اور ہدایت باطنیہ کے ذریعے کائنات کی ہدایت و راہنمائی کررہے ہیں۔[26]
مسلمانوں کا اختلاف
مسلمانان عالم حضرت مہدی(عج) کے اور آسمانی مُنجی کے وجود کے سلسلے میں کوئی اخلاف نہیں رکھتے اور ان کا اختلاف اس بات پر ہے کہ مہدی موعود علیہ السلام ہیں کون؟ اہل سنت کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی نسل ہیں لیکن ابھی تک ان کی ولادت نہیں ہوئی ہے۔[27]
مہدویت کے دعویدار
اس دوران بعض لوگوں نے مہدویت کا دعوی کیا ہے؛ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ یا دیگر اسباب و موجبات کی بنا پر، ان کے دعؤوں کا کھوکھلا پن ظاہر ہوا ہے۔ مہدویت کی دعویداری کا آغاز محمد بن حنفیہ کی وفات سے ہوا جب ان کے بعض پیروکاروں نے گمان کیا کہ گویا وہ رسول اللہؐ کے موعود مہدی ہیں۔ بعض دوسروں نے گمان کیا کہ مختار بن ابی عبیدہ ثقفی مہدی ہیں کیونکہ وہ "یا لثارات الحسین" کے نعرے کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے خلاف میدان جنگ میں اترے اور ان سے انتقام لیا۔ روایات میں منقول ہے کہ یہ نعرہ حضرت مہدی(عج) کا نعرہ ہے۔ زید بن علی بن الحسین کے پیروکاروں نے بھی انہیں مہدی سمجھا۔
[مہدویت کے دعوے مختلف ممالک کے بعض باشندوں نے کئے جن میں مہدی سوڈانی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔] ایران میں علی محمد باب شیرازی نے مہدویت کا جھوٹا دعوی کیا اور ایک جماعت کو گمراہ کیا اور بہائی فرقے کی بنیاد رکھی۔[28]
متعلقہ مآخذ
حوالہ جات
- ↑ الویری، «گونہشناسی رویکردہای آموزۀ مہدویت در چہارچوب ظرفیت تمدنی»، ص۶۱
- ↑ حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص۳۴
- ↑ حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص۳۴
- ↑ حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص۳۴-۳۶
- ↑ طبری، دلائل الامامہ، ۱۴۱۳ق، ص۴۴۱؛ ابن بطریق، عمدۃ عیون صحاح الاخبار، مؤسسۃ النشر الإسلامي، ص۴۳۹
- ↑ سورہ توبہ آیہ33۔
- ↑ سورہ فتح، آیہ28۔
- ↑ سورہ توبہ، آیہ32۔
- ↑ سورہ صف، آیہ8۔
- ↑ سورہ اسراء، آیہ81۔
- ↑ /سورہ انبیاء، آیہ105۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج7، ص120۔
- ↑ سورہ قصص، آیہ5۔
- ↑ العروسى الحويزى، نور الثّقلین، ج4، ص110۔
- ↑ سورہ نور، آیہ55۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج7، ص262۔
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ54۔
- ↑ بحرانی، سیمای حضرت مہدی در قرآن،، سیمای حضرت مہدی در قرآن،(عربی میں: المحجّۃ فیما نزل فی القائم الحجّۃ) مترجم: حائری قزوینی، ص118۔
- ↑ القمی، تفسیر القمی، ج1، ص170۔
- ↑ سورہ ہود، آیہ86۔
- ↑ [ http://lib.eshia.ir/12024/2/390/190 نور الثّقلین، ج2، ص390]۔
- ↑ صافی گلپایگانی، امامت و مہدویّت، ج2، ص129۔
- ↑ [ http://lib.eshia.ir/11005/1/251/8 کلینی، اصول کافی ج1، ص251]۔
- ↑ حکیمی، خورشید مغرب، ص122-123۔
- ↑ حکیمی، خورشید مغرب، ص59۔
- ↑ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص271-272۔
- ↑ تیجانی سماوی، ہمراہ با راستگویان، ص414۔
- ↑ شہید مطہّری، مجموعہ آثار، ج18، ص171۔
نوٹ
- ↑ دہخدا مہدویت کو مصدر جعلی قرار دیتے ہیں(دہخدا، لغت نامہ، ذیل مہدویّت) اور کہتے ہیں: وہ الفاظ جو کسی لفظ میں «َیّت » کی اضافے کے ساتھ بنتے ہیں، مصدر جَعلی یا صِناعی کہا جاتا ہے مانند: ایرانیّت ، انسانیّت ، آدمیّت وغیرہ۔ دہخدا، لغت نامہ، ذیل جعلی.
- ↑ خطبہ غدیریہ میں پیغمبر اکرمؐ نے امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے لئے یہ عنوان (مہدی) استعمال کیا ہے۔ و هو التقی النقی الهادی المهدی.مجلسی، بحارالانوار، ج۳۷، ص۲۱۰.
- ↑ پیغمبراسلامؐ حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسماعیل کی نسل سے ہیں اور بنی اسرائیل کے انبیاء حضرت یعقوب کی نسل سے ہیں جن کا لقب اسرائیل یعنی بندہ خدا تھا۔ امام مہدیؑ کی خصوصیات بنی اسرائیل کے لوگوں کی خصوصیات جیسا ہونا -مذکورہ روایت کی بنا پر- بعید نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اسلام کے آباء و اجداد کے چچا حضرت اسحاق ہیں جو حضرت یعقوب کے فرزند ہیں۔https://www.pasokhgoo.ir/content/
- ↑ محافظ(آمر) کاینات. دهخدا، لغت نامه
مآخذ
- قرآن کریم ۔ ترجمہ اردو سید علی نقی لکھنوی (نقن)۔
- بحرانی، ہاشم بن سلیمان، سیمای حضرت مہدی در قرآن،(عربی میں: المحجّۃ فیما نزل فی القائم الحجّۃ) مترجم (فارسی): حائری قزوینی، مہدی ۔ نشر آفاق ۔ تہران ۔ 1384ہجری۔
- جبارى، محمدرضا سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمۃ علیہم السلام، قم، مؤسسہ آموزش پژوہشى امام خمینى، 1382 ش
- حکیمی، محمد رضا، خورشید مغرب (غیبت، انتظار، تکلیف)، ناشر: دلیل ما ۔ قم ۔ 1388ہجری شمسی۔
- خاکپور، ابراہیم و صالحی، سید محمد، مصلح جہانی از نظر تا تحقق، (الحسنی، سید نذیر یحیی، المصلح العالمی، من النظریۃ الی التطبیق 2004عیسوی = 1382ہجری شمسی) تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1389ہجری شمسی۔
- سماوی، محمد تیجانی، ہمراہ با راستگویان، (لِاَکُونَ مَعَ الصّادِقِین) مترجم: مہری، محمد جواد۔ ناشر: بنیاد معارف اسلامی ۔ قم ۔ 1375ہجری شمسی۔
- صدوق؛ کمال الدین وتمام النعمہ، ترجمہ منصور پہلوان، قم، دار الحدیث، 1380 ش.
- الصدوق، أبى جعفر محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، كمال الدين وتمام النعمۃ۔ تصحیح: عليہ على اكبر الغفاري ۔ مؤسسۃ النشر الاسلامي (التابعۃ) لجامعۃ المدرسين بقم المشرفۃ (ايران) ۔ 1405 / 1363.
- صافی گلپایگانی، آیت اللہ شیخ لطف اللّہ، منتخب الاثر فی الامام الثانی عشر علیہ السلام، مؤسسۃ الوفاء ۔ بیروت ۔ لبنان ۔ الطبعۃ الثانیۃ ۔ 1403ہجری قمری / 1983عیسوی۔
- صافی گلپایگانی، آیت اللہ شیخ لطف اللّہ، سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، دفتر آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی، قم ۔ طبع پنجم۔ 1391ہجری شمسی۔
- صدر، سید محمد؛ تاریخ الغیبہ، بیروت، دار التعارف، 1412ق
- الطبرسي، الفضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، تحقیق: لجنۃ من العلماء... مقدمہ: السيد محسن الامين العاملي، مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1415ہجری قمری / 1995عیسوی۔
- العروسى الحويزى، الشيخ عبد على بن جمعہ، تفسير نور الثقلين، مؤسسہ اسماعيليان ۔ قم ۔ الطبعۃ الرابعۃ ۔ 1412ہجري قمرى / 1370 ہجري شمسي۔
- القمي، علي بن ابراہيم، تفسير القمي، تصحیح: السيد طيب الموسوي الجزائري ۔ مؤسسۃ دار الكتاب للطباعۃ والنشر قم - 1404ہجری قمری۔
- الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن اسحاق القمي، الاصول من الكافي ۔ تصحيح: على اكبر الغفاري ۔ دار الكتب الاسلاميۃ ۔ تہران ۔ الطبعۃ الثالثۃ 1388ہجری قمری۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج 18، (كتاب سیری در سیرہ ائمہ اطہار علیہم السلام ، بحث عدل كلّی)۔
- نصر، سید حسین، معارف اسلامی در جہان معاصر، نشر: علمی و فرہنگی۔ 1388ہجری شمسی۔