حدیث ریان بن شبیب

ویکی شیعہ سے
حدیث ریان بن شبیب
حدیث ریان بن شبیب
حدیث کے کوائف
موضوعگریہ اور عزاداری امام حسینؑ
صادر ازامام رضاؑ
اصلی راویرَیّان بن شَبیب
اعتبارِ سندحسن یا صحیح
شیعہ مآخذعیون اخبار الرضاؑ،‌ الامالی شیخ صدوق
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حدیث رَیّان بن شَبِیب امام رضا‌ؑ کی ایک مشہور حدیث ہے جو محرم الحرام اور امام حسین پر رونے اور عزاداری کرنے کے بارے میں ریان بن شبیب سے نقل ہوئی ہے۔

اس حدیث میں محرم کی پہلی تاریخ کے اعمال، امام حسینؑ کی شہادت سے محرم کی حرمت کا پامال ہونا، امام حسینؑ پر رونے اور ان کی زیارت کرنے کی تاکید، امام حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت، اہل بیتؑ کی خوشی میں خوش ہونا اور ان کے غم میں غمگین ہونا اور ان کی ولایت کی قبولیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حدیث کے ایک حصے میں امام رضاؑ ریان کو تاکید کرتے ہیں کہ اگر کسی چیز کے لیے رونا چاہو تو حسین بن علیؑ پر گریہ کرو، جنہیں گوسفند کی طرح ذبح کیا گیا۔ اس حدیث میں امام حسینؑ پر رونے اور ان کی زیارت کرنے والی کی تمام گناہوں کو بخشش دئے جانے کا بیان آیا ہے۔

یہ روایت شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضاؑ اور الامالی میں ذکر کیا ہے اور الاقبال، وسایل الشیعہ اور بحار الانوار وغیرہ نے انہی دونوں کتابوں سے نقل کیا ہے۔

محمد تقی مجلسی، صاحب حدائق، سید محمد سعید حکیم اور حسین وحید خراسانی جیسے شیعہ علما نے اس روایت کو حسن یا صحیح قرار دیا ہے۔

شعر و ادب میں اس حدیث کی منزلت

حدیث ریان بن شبیب عزاداری سے مربوط مشہور احادیث میں سے ہے۔[1] یہ حدیث ماه محرم، واقعہ کربلا اور امام حسین پر رونے کے ثواب کے بارے میں ہے۔ عموما مقررین اور ذاکرین امام حسینؑ پر رونے کی فضلیت اور اہمیت کے بارے میں اس حدیث کو پڑھتے ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کے کچھ حصوں کو عزاداری سے مربوط مختلف سائن بورڈ یا بینر وغیرہ پر تحریر کی جاتی ہیں۔[حوالہ درکار]

عاشورا سے مربوط اشعار میں بھی چہ بسا اس حدیث کا حوالہ دیکھنے کو ملتا ہے:

در هر مصیبت و محنی فَابکِ لِلحُسَیندر هر عزای دل‌شکنی فَابکِ لِلحُسَین
در خیمهٔ مراثی و اندوه اهل‌بیتقبل از شروع هر سخنی فَابکِ لِلحُسَین
در مکتب ارادت اِبن‌شبیب‌هاهم‌ناله با اَباالحسنی فَابکِ لِلحُسَین
إن کُنتَ باکیاً لِمُصابٍ کَأنبیاءفِی الإبتلاءِ و الحَزنِ فابکِ لِلحُسَین[2]
یابن شبیب گریه کن از غربت حسیندر کربلا شکسته شده حرمت حسین
یابن شبیب نیزه به حلقوم دیده شدچون گوسفند سر ز تن او بریده شد[3]

حدیث ریّان کو اہل بیت کی ولایت پر ایمان رکھنے والے مؤمنین کے لئے امید کی کرن اور شیعیان حیدر کرار پر خدا کے لطف و کرم کی نشانی قرار دی جاتی ہے کیونکہ خدا ان کے چھوٹے چھوٹے اعمال کے بدلے میں انہیں عظیم اجر و ثواب سے نوازتا ہے۔[4]

حدیث کے مندرجات

امام رضاؑ

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّہُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ
اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالبؑ کے لئے گریہ کرو کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کو کیا جاتا ہے۔

ریان بن شبیب کی حدیث جو عزاداری کے بارے میں مشہور ترین احادیث میں شمار کی گئی ہے،[5] جو ماہ محرم، واقعہ عاشورا اور امام حسینؑ پر گریہ اور عزاداری کے ثواب کے بارے نسبتاً طویل حدیث ہے۔ اس حدیث میں مذکور موضوعات[6] درج ذیل ہیں:

  • محرم کے پہلے دن کے اعمال: اس حدیث میں محرم کے پہلے دن کا روزہ، اور حضرت زکریاؑ کے دعاؤں کی طرح استجابت دعا[یادداشت 1] ذکر ہوئے ہیں۔[7] سید ابن طاؤوس اس روایت اور دیگر روایات کا حوالہ دیتے ہوئے یکم محرم کو روزہ اور اس دن کو دعا کی استجابت کا دن قرار دیا ہے۔[8]
  • محرم کے مہینے کے احترام کی پامالی اور امام حسینؑ کی شہادت: اس حدیث میں امام رضاؑ نے جاہلیت میں ماہ محرم کی حرمت کی حفاظت اور اس مہینے میں ظلم، جنگ اور قتل و غارت سے اجتناب کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: امت نے اس مہینے اور رسول اللہ کا پاس نہیں رکھا ان کی اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو قید کر لیا۔[9]
  • امام حسینؑ کے لیے رونے اور عزاداری کرنے کا حکم: حدیث میں ریّان سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو تو حسین ابن علي ابن ابی طالبؑ کے لئے گریہ کرو کہ انہیں گوسفند کی طرح ذبح کیا گیا ہے۔ نیز ان کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا اور آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔[10]
  • امام حسینؑ کے لیے گریہ اور عزاداری کرنے کا ثواب اور فضیلت: اس حدیث میں امام حسینؑ کی عزاداری میں رونے اور آنسوؤں کے رخساروں پر بہنے کا ثواب تمام گناہوں کی بخشش بیان کیا گیا ہے۔[11]
امام رضاؑ

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ يَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْہِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع فَقُلْ مَتَى ذَكَرْتَہُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَہُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً
اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو امام حسینؑ کے ہمراہ شہید ہونے والوں کا ثواب ملے تو جب بھی حسین(ع) کی یاد آئے، کہو ’’يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَہُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز ہوتا۔)

  • کربلا کی زیارت کا تاکید: امام رضاؑ نے ریّان کو حکم دیا کہ اگر پاک اور گناہ کے بغیر اللہ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تو امام حسینؑ کی زیارت کرے۔[12]
  • امام حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت: حدیث میں ہے کہ اے فرزند شبیب! اگر تم جنت کے ایوانوں میں رسول اللہؐ کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت کرو۔[13]
  • مدد کے لیے چار ہزار فرشتوں کی آمد: حدیث کے مطابق امام حسینؑ کی مدد کے لیے چار ہزار فرشتے زمین پر آئے؛ لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ لہذا وہ قیام امام زمانؑ تک امام حسینؑ کی قبر کے پاس پریشان اور غبار آلود ہیں۔ جب ظہور ہوگا تو «یا لثارات الحسین» کا نعرہ لگاتے ہوئے ان کے مددگاروں میں شامل ہوں گے۔[14]
  • اہل بیتؑ کی خوشی میں خوش اور غم میں مغموم ہونے کا حکم: حدیث کے آخری پیراگراف میں آیا ہے کہ اے شبیب کے بچے! اگر تم اہل بیتؑ کے ساتھ جنت کے اعلیٰ درجات میں رہنا چاہتے ہو تو ہم اہل بیت کے غم میں غمگین رہو اور ہماری خوشی میں خوش رہو اور ہماری ولایت کو قبول کرو۔ کیونکہ جو شخص دنیا میں پتھر سے بھی محبت کرے گا تو قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔[15]

ریان کی حدیث کو اہل بیتؑ کی ولایت پر عقیدہ رکھنے والے مومنین کے لیے امید کا ذریعہ اور شیعوں اور اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کے لئے جزوی عبادات اور اعمال (امام حسینؑ پر گریہ) کے بدلے عظیم ثواب اور فروان اجر کو خدا کی مہربانی کی علامت قرار دیا ہے۔[16] کہا گیا ہے کہ ثواب دینا اللہ تعالی کی رحمت اور بے انتہا فضل ہے اس لئے چھوٹے سے عمل(گریہ اور آنسوں جاری ہونے) کے لئے بہت زیادہ ثواب (تمام گناہوں کی بخشش) دینا کوئی بعید نہیں ہے۔[17]

مصادر و اعتبار

حرم امام رضاؑ پر نصب بینر پر حدیث ریان بن شبیب کا ایک حصہ تحریر ہے

شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضاؑ[18] اور الامالی[19] اس حدیث کو محمد بن علی ماجیلَوَیْہ سے انہوں نے علی بن ابراہیم قمی سے انہوں نے اپنے والد ابراہیم بن ہاشم سے انہوں نے رَیّان بن شَبیب سے اور انہوں نے امام رضا(ع) سے نقل کیا ہے۔ جبکہ سید بن طاووس نے الاقبال میں،[20] شیخ حر عاملی نے وسایل الشیعہ میں[21] علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں[22] اور عبداللہ بحرانی اصفہانی (متوفی 1148ھ) نے عوالم العلوم و المعارف[23] میں اس حدیث کو عیون اور الامالی سے نقل کیا ہے۔

محمد تقی مجلسی[24] نے اس روایت کو صحیح حدیث کی طرح حسن جبکہ صاحب حدائق[25] اور سید محمد سعید حکیم[26] نے صحیح قرار دیا ہے۔ کتاب «موسوعۃ احادیث اہل بیت» میں اس روایت کو معتبرۃ الاِسْناد (وہ روایت جس کی سند معتبر ہے) کہا ہے۔[27] آیت اللہ وحید خراسانی[28] اور بعض دیگر محققین نے[29] اس حدیث کے راویوں کو ثقہ اور شیعہ امامی قرار دیا ہے اور اسی لئے اس حدیث کو معتبرہ قرار دیا ہے۔

اس روایت کے معتبر ہونے کی ایک اور دلیل اس کا ابراہیم بن ہاشم کی کتاب النوادر میں ذکر ہونا ہے؛ کیونکہ یہ کتاب شیعہ علما کی قابل اعتماد کتابوں میں شمار ہوتی تھی اور معتبر کتابوں میں کسی حدیث کا ذکر ہونا اس حدیث کے معتبر ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔[30]

مونوگراف

  • «فَابْکِ لِلْحُسین: امام رضاؑ کی طرف سے ریان بن شبیب کو کہی جانے والی باتوں پر سید محمد باقر ہاشمی شاہردوی نے مختصر تجزیہ و تحلیل کیا ہے جسے انتشارات بنیاد فقہ و معارف اہل بیتؑ نے شائع کیا ہے۔
  • کتاب «پریشان‌ موی و خاک‌ آلود»، تحریر: محمد علی فتاح‌ زادہ، جدیث ریان بن شبیب کی شرح جسے نشر کتابستان معرفت نے شایع کیا ہے۔

متن حدیث

حدیث ریان بن شبیب
متن حدیث[31] ترجمہ حدیث[32]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الرَّيَّانِ بْنِ شَبِيبٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا ع فِي أَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ فَقَالَ يَا ابْنَ شَبِيبٍ أَ صَائِمٌ أَنْتَ قُلْتُ لَا محمد بن علی ماجیلَوَیْه سے علی بن ابراهیم بن هاشم سے اپنے والد سے انہوں نے رَیّان بن شَبیب سے نقل کیا ہے کہ ريّان بن شبيب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضاؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؑ نے مجھ سے فرمایا: اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔
فَقَالَ إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي دَعَا فِيهِ زَكَرِيَّا ع رَبَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعاءِ فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَنَادَتْ زَكَرِيَّا وَ هُوَ قائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى‏ فَمَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ ثُمَّ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ كَمَا اسْتَجَابَ اللَّهُ لِزَكَرِيَّا پھر آپ نے فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریاؑ نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا فرما، کیونکہ تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔(سوره آل عمران، آیه 38) خدا نے دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا تو ملائکہ نے زکریا سے کہا جبکہ وہ محراب عبادت میں مشغول عبادت تھے کہ: خداوند متعال تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔
ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنَّ الْمُحَرَّمَ هُوَ الشَّهْرُ الَّذِي كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يُحَرِّمُونَ فِيهِ الظُّلْمَ وَ الْقِتَالَ لِحُرْمَتِهِ فَمَا عَرَفَتْ هَذِهِ الْأُمَّةُ حُرْمَةَ شَهْرِهَا وَ لَا حُرْمَةَ نَبِيِّهَا لَقَدْ قَتَلُوا فِي هَذَا الشَّهْرِ ذُرِّيَّتَهُ وَ سَبَوْا نِسَاءَهُ وَ انْتَهَبُوا ثَقَلَهُ فَلَا غَفَرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ أَبَداً ۔اس کے بعد فرمایا: اے ابن شبیب! بیشک محرم وہ مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ ہی اپنے نبیؐ کی حرمت کا خیال رکھا۔ انہوں نے اس مہینے میں پیغمبر اکرمؐ کی اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کے مال کو لوٹا۔ خدا کبھی بھی ان کے اس گناہ کو نہیں بخشے گا!
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالبؑ کے لئے گریہ کرو کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کو کیا جاتا ہے اور انکے اہل بیت میں سے اٹھارہ افراد کو شہید کیا گیا، جن کی روئے زمیں پر کوئی مثال نہیں تھی۔
وَ لَقَدْ بَكَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ وَ لَقَدْ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ لِنَصْرِهِ فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُمْ فَهُمْ عِنْدَ قَبْرِهِ شُعْثٌ غُبْرٌ إِلَى أَنْ يَقُومَ الْقَائِمُ ع فَيَكُونُونَ مِنْ أَنْصَارِهِ وَ شِعَارُهُمْ يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ‏(ع) ان کے قتل پر ساتوں زمین و آسماں نے گریہ کیا. امام(ع) کی نصرت کے لئے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے انہوں نے امام کو مقتول پایا۔ اسوقت سے یہ فرشتے آپ (ع) کی قبر پر پریشان اور خاک آلود ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں ہونگے ظہور کے وقت یہ ان کے انصار میں سے ہونگے اور ان کا نعرہ ’’یا لثارات الحسین‘‘ ہوگا۔
يَا ابْنَ شَبِيبٍ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ع أَنَّهُ لَمَّا قُتِلَ جَدِّيَ الْحُسَيْنُ ص أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ تُرَاباً أَحْمَرَ اے ابن شبیب! میرے بابا نے اپنے بابا سے اور انھوں نے اپنے جد امجد سے سنا ہے کہ: میرے جد امام حسین(ع) کے قتل پر آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ بَكَيْتَ عَلَى الْحُسَيْنِ حَتَّى تَصِيرَ دُمُوعُكَ عَلَى خَدَّيْكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتَهُ صَغِيراً كَانَ أَوْ كَبِيراً قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً اے ابن شبیب! اگر تم حسینؑ پر اتنا گریہ و زاری کرو یہاں تک کہ تمہارے اشک رخسار تک پہنچ جائیں تو خداوند متعال تمہارے تمام گناہوں کو بخش دیگا چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا ذَنْبَ عَلَيْكَ فَزُرِ الْحُسَيْنَ ع اے ابن شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس عالم میں ملاقات کرو کہ تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہے تو حسینؑ کی زیارت کرو۔
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ ص فَالْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو کہ جنت میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ بنے ہوئے حجروں میں رہو، تو حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ يَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع فَقُلْ مَتَى ذَكَرْتَهُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو امام حسینؑ کے ہمراہ شہید ہونے والوں کا ثواب ملے تو جب بھی حسینؑ کی یاد آئے، کہو ’’يا ليتني كنت معهم فافوز فوزا عظيما‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز ہوتا۔)
يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا وَ عَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا أَحَبَّ حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. اے ابن شبیب! اگر ہمارے ساتھ جنت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے غم میں مغموم ہونا اور ہماری خوشی میں شاد و خوشحال۔ اور تم پر ہماری ولایت واجب ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت اختیار کریگا، اللہ اسے اسی پتھر کے ساتھ روز قیامت محشور کرے گا۔

حوالہ جات

  1. عمرانی، «بررسی سندی و دلایلی حدیث ریان بن شبیب پیرامون عزاداری»، ص۹۵۔
  2. «فابکِ لِلحُسَین»، وبگاه شعر هیأت.
  3. «ترکیب بند یابن شبیب. جلوه اول/یابن الشبیب گریه کن از غربت حسین»، وبگاه امام هشت.
  4. میرجہانی طباطبایی، البکاء للحسین علیہ السلام، ص۷۲۔
  5. عمرانی، «بررسی سندی و دلایلی حدیث ریان بن شبیب پیرامون عزاداری»، ص95۔
  6. نگاہ کنید بہ: «بیان جامع امام رضا(ع) در گرامی داشت ایام محرم، عزاداری، ثواب گریہ بر امام حسین(ع)»، ویب سائٹ مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر۔
  7. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، 1409ھ، ج2، ص553۔
  8. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، 1409ھ، ج2، ص553۔
  9. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص299۔
  10. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص299و300۔
  11. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص300۔
  12. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص300۔
  13. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص300۔
  14. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص299۔
  15. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص300۔
  16. میرجہانی طباطبایی، البکاء للحسین علیہ السلام، ص72۔
  17. میرجہانی طباطبایی، البکاء للحسین علیہ السلام، ص74۔
  18. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص299و300۔
  19. شیخ صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص129 و 130۔
  20. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، 1409ھ، ج2، ص545۔
  21. حرعاملی، وسایل الشیعہ، 1409ھ، ج10، ص469، ج14، ص502۔
  22. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج44، ص285 و ج98، ص102۔
  23. بحرانی اصفہانی، عوالم العلوم و المعارف، 1413ھ، ج17، ص538۔
  24. مجلسی، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج5، ص383۔
  25. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ھ، ج13، ص376۔
  26. حکیم، مصباح المنہاج، 1425ھ، ص406۔
  27. نجفی، موسوعۃ احادیث اہل بیت(ع)، 1423ھ، ج2، ص78۔
  28. «در عظمت مصیبت واقعہ عاشورا»، سایت رسمی دفتر آیت اللہ العظمی وحید خراسانی۔
  29. خدامیان، الصحیح فی بکاء الحسینی، 1432ھ، ص54-59؛ خدامیان، الصحیح فی فضل الزیارۃ الحسینیۃ، 1432ھ، ص148 و 149؛عمرانی، «بررسی سندی و دلایلی حدیث ریان بن شبیب پیرامون عزاداری»، ص83 و 84.
  30. خدامیان، الصحیح فی بکاء الحسینی، 1432ھ، ص59 و 60۔
  31. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص299 و 300؛ شیخ صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص129 و 130۔
  32. شیخ صدوق، متن و ترجمہ عيون أخبار الرضا عليہ السلام، 1372شمسی، ج‏1، ص604 - 606۔

نوٹ

  1. اس سے مراد حضرت زکریا کا صاحب اولاد ہونے کے لئے دعا ہے کہ اللہ نے اسے قبول کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں یحیی کی بشارت دیں۔(شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1، ص299)

مآخذ

  • بحرانی اصفہانی، عبداللہ بن نوراللہ، عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال (مستدرك سيدۃ النساء إلى الإمام الجواد)، قم، مؤسسۃ الإمام المہدى‏(عج)، چاپ اول، 1413ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، تحقیق محمدتقی ایروانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1405ھ۔
  • «ترکیب بند یابن شبیب. جلوہ اول/یابن الشبیب گریہ کن از غربت حسین»، وبگاہ امام ہشت، تاریخ اشاعت 8 مرداد 1397شمسی، تاریخ مشاہدہ: 24 اسفند 1402ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسایل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • حکیم، سید محمدسعید، مصباح المنہاج (کتاب الصوم)، قم، دار الہلال، چاپ اول، 1425ھ۔
  • خدامیان آرانی، مہدی، الصحیح فی فضل الزیارۃ الحسینیۃ، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیۃ، چاپ اول، 1432ھ/1389ہجری شمسی۔
  • خدامیان آرانی، مہدی، الصحیح فی بکاء الحسینی، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیۃ، چاپ اول، 1432ھ/1389ہجری شمسی۔
  • «در عظمت مصیبت واقعہ عاشورا»، سایت رسمی دفتر آیت اللہ العظمی وحید خراسانی، تاریخ درج مطلب: 3 دی 1387شمسی، تاریخ بازدید: 21 اسفند 1402ہجری شمسی۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، عیون أخبار الرضا عليہ السلام، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، متن و ترجمہ عيون أخبار الرضا عليہ السلام، ترجمہ حمیدرضا مستفید و علی اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، چاپ اول، 1372ہجری شمسی۔
  • عمرانی، سید مسعود، «بررسی سندی و دلایلی حدیث ریان بن شبیب پیرامون عزاداری»، فصلنامہ آیت بوستان (پژوہش نامہ معارف حسینی)، شمارہ 2، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • «فابکِ لِلحُسَین»، وبگاہ شعر ہیأت، تاریخ مشاہدہ: 24 اسفند 1402ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار( ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضرہ الفقیہ‏، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، 1406ھ۔
  • میرجہانی طباطبایی، سید حسن، البکاء للحسین علیہ السلام؛ در ثواب گریستن و عزاداری بر حضرت سیدالشہداء علیہ السلام و وظائف تعزیہ داری، تحقیق حامد فدوی اردستانی، بی جا، بی نا، بی تا.
  • نجفی، ہادی، موسوعۃ احادیث اہل بیت(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1423ھ/2002ء۔