مسجد الحرام، اسلام کی مشہورترین اور مقدس ترین مسجد ہے۔ یہ مسجد سعودی عرب کے شہر مکہ میں جہاں کعبہ جو مسلمانوں کا قبلہ ہے، واقع ہے۔ مقدس اشیاء اور اماکن جیسے حجر الاسود، ملتزم، مستجار، حطیم و حجر اسماعیل اسی مسجد میں واقع ہیں۔ اسلامی فقہ میں مسجد الحرام کے لئے، دوسری عمومی مسجدوں کے احکام کے علاوہ کچھ خاص احکام بھی ہیں۔ اسلامی شریعت میں اگر مسلمان استطاعت رکھتا ہو تو زندگی میں ایک بار واجب ہے کہ مکہ جائے اور حج اور دوسرے اعمال اس مسجد میں انجام دے۔

مسجد الحرام
ابتدائی معلومات
استعمالمسجد
محل وقوعمکہ، سعودی عرب
مشخصات
موجودہ حالتفعال
معماری
طرز تعمیراسلامی

الفاظ کی وضاحت

المسجد الحرام عربی کا کلمہ اور وصفی ترکیب ہے. اس مسجد کو مسجد الحرام کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض کام جو دوسری مساجد میں حرام نہیں ہیں، اس مسجد اور اس کے اطراف یعنی حرم میں فقہی لحاظ سے حرام ہیں اس مسجد کے اپنے خاص احکام اور احترام ہے [1] اس مسجد میں دوسرے مقامات کی نسبت حرام اور غیر شرعی کام کی ممنوعیت زیادہ شدید بتائی گئی ہے بعض منابع کے مطابق، مسجد الحرام میں صرف گناہ کا ارادہ کرنا بھی گناہ حساب ہوتا ہے اگرچہ گناہ انجام نہ دیا گیا ہو.[2] اسلام کے دینی منابع، بالخصوص قرآن کےمطابق مسجد الحرام ، اسلام سے پہلے بھی اسی نام سے حجاز کے لوگوں کے درمیان مشہور تھی، اگرچہ کعبہ کے اطراف میں دیوار نہیں تھی لیکن کعبہ اور اس کے اطراف کا محیط کہ جہاں حاجی طواف کرتے تھے اسی نام سے پہچانی جاتی تھی. قرآن نے کئی بار مسجد الحرام کے لئے وصفی ترکیب استعمال کی ہے، جیسا کہ مشرکین نے مسلمانوں کو حج اور کعبہ کی زیارت سے منع کیا تھا اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے: «وَ ما لَهُمْ أَلاَّ يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَ هُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ[؟؟]؛ [3] اور خدا اںکو کیونکر عذاب میں مبتلا نہ کرے جب کہ (دوسروں کو) مسجد الحرام سے منع کرتے ہیں؟ آیات و روایات میں مسجد الحرام کی ترکیب بعض اوقات کعبہ، یا شہرمکہ، یا حرم کے اطراف کے علاقے کے لئے استعمال ہوئی ہے. [4]

جغرافیائی موقعیت اور مسجد کی حدود

  • مسجد الحرام، سعودی عرب کے شہر مکہ ابو قبیس، اجیاد، ھندی اور عمر کی پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔
  • مسجدالحرام کی کنونی حدود: مشرق سے ابو قبیس کے پہاڑ، مغرب سے عمر کے پہاڑ اور شبیکہ کی سڑک، شمال کی جانب سے شامیہ اور ھندی کے پہاڑوں اور جنوب سے اجیاد اور مسفلہ کی سڑک کی حدود میں واقع ہے۔
  • مختلف شہروں سے حرم کی حدود مسجد الحرام تک مختلف ہے: تنعیم سے مسجدالحرام تک ٦١٥٠ میٹر، جعرانہ سے مسجد تک ١٨٠٠٠ میٹر، طائف کے مسیر ھدی سے مسجد الحرام تک ١٥٥٠٠ میٹر اور جدہ سے مسجد الحرام تک ١١٠٠٠ میٹر کا فاصلہ ہے۔

 

مسجدالحرام کی فضیلت

  • مسجد الحرام ہمیشہ سے حجاز کے لوگوں کی لئے قابل احترام تھی. اور یہ کس زمانے سے شروع ہوئی اس کے بارے میں تاریخی لحاظ سے کوئی صحیح رپورٹ موجود نہیں ہے. محلی اور مذہبی روایات کے مطابق یہ زمین شروع سے ہی قابل احترام تھی. اسلامی روایات کے مطابق، زمین پر سب سے با فضیلت زمین مسجد الحرام ہے. [5]
  • حضرت پیغمبر اکرمؐ کی حدیث کے مطابق مسجد الحرام زمین پر سب سے پرانی مسجد ہے حتیٰ کی اس کی بنا مسجد الاقصی سے بھی پہلے رکھی گئی ہے. [6]
  • شدالرحال کی مشہور حدیث، کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے: سفر نہ کریں سوائے تین مساجد کی زیارت کے.... کہ ان مساجد میں سے، ایک مسجد الحرام ہے.
  • محلی روایات کے مطابق، ستر پیغمبروں کی قبریں جیسے ھود، صالح اور اسماعیل مسجد الحرام میں ہیں.[7]
  • اسلامی کتابوں میں مسجد الحرام کے لئے خاص طور پر فقہی اور معنوی احکام بیان ہوئے ہیں. مثال کے طور پر، مسجد الحرام بلکہ مکہ کے حرم میں جنگ کرنا بہت بڑا گناہ ہے مگر دفاع کی نیت سے. [8] معنوی اور مادی لحاظ سے مسجد الحرام میں عبادت کرنے کی فضیلت، دوسرے مقامات سے بہت زیادہ ہے.[9]

تاریخچہ

تاریخی اور روائی منابعوں کے مطابق، مسجد الحرام میں حوادث، وسعت، تعمیر کے لحاظ سے کئی تبدیلیاں بیان ہوئی ہیں.[10] جن میں سے جو زیادہ اہم ہیں وہ درج ذیل ہیں:

اسلام سے پہلے کا دور

  • اسلام سے پہلے، کعبہ کے اطراف کو مسجد الحرام کہتے تھے جو اس کی تقریبی حدود تھی.[11]
  • اسلام سے پہلے مسجد کے لئے کعبہ کے علاوہ کوئی عمارت یا دیوار نہ تھی. اور یہ کہ کس زمانے سے مسجد کا عنوان دیا گیا اس کے لئے کوئی تاریخی رپورٹ موجود نہیں ہے صرف روائی منابع میں اس بارے میں بحث ہوئی ہے. اس منابع کے مطابق، مسجدالحرام اور کعبہ کی بنیاد، انسان کی پیدائش سے پہلے ہوئی اور کعبہ ملائکہ کے ہاتھوں تعمیر ہوا ہے. [12]
  • بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ کعبہ کی بنیاد حضرت آدم(ع) نے رکھی ہے. [13] اور اس کے بعد، حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت اسماعیل(ع) نے کعبہ کی تعمیر کی ہے. [14]
  • حضرت پیغمبراکرم(ص) کی روایت کے مطابق مسجد کی بنیاد حضرت ابراہیم(ع) نے رکھی ہے. اس روایت میں، مسجدالحرام کو زمین کی سب سے پرانی مسجد کہا گیا ہے. [15]
  • قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب، پیغمبراکرم(ص) کے اجداد اور قریش کے پیشوا، کے دور سے پہلے لوگ مسجد کے نزدیک گھر نہیں بناتے تھے اور فاصلے کی رعایت کرتے تھے.قصی کے زمانے میں، کعبہ کے طواف کی حدود کے باہر، اس نے لوگوں کو کعبہ کے نزدیک گھر بنانے کی اجازت دی.[16]

چار خلفاء کا زمانہ

  • رقبے کے لحاظ سے مسجد میں پہلی تبدیلی دوسرے خلیفہ کے زمانے میں آئی. اس نے مسجد کے اطراف کے بعض گھروں کو خرید کر مسجد کے ساتھ ملحق کر دیا اور مسجد کے اطراف میں ایک چھوٹی دیوار بنا دی [17] اور حکم دیا کہ اس کے بعد مسجد کی دیوار پر ایک چراغ جلائیں تا کہ مسجد کے اطراف میں روشنی ہو. [18]
  • تیسرے خلیفہ نے بھی مسجدالحرام کے زائرین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے، مسجد کے اطراف کے گھروں کو خراب کر کے مسجد کی زمین میں اضافہ کر دیا اور مسجد کے لئے چھت والے حال اور برآمدے بنوائے. [19]

اموی کا زمانہ

  • ولید بن عبدالملک اموی (حکومت: ٨٦-٩٦ق)، نے مسجد الحرام کے رقبے میں ١٧٢٥ میٹر اضافہ کیا اور مسجد کی نئی تعمیر کروائی. اس نے مسجد کے اطراف میں برآمدے بنوائے جو بہت بڑے اور محکم ستون پر کھڑے تھے ان ستونوں کے بعض حصوں کو سونے سے سجایا گیا. ولید ناودان نے خدا کے گھر کو سونے سے بنایا جو کہ آج تک اسی نام سے مشہور ہے.[20]

عباسی کا زمانہ

  • منصور، دوسرا عباسی خلیفہ (حکومت: ١٣٦-١٥٨ق)، سنہ ١٣٧ میں مسجد کی وسعت کو دو برابر کر دیا اور تقریباً پانچ ہزار میٹر مربع شمال اور مغرب کی طرف سے مسجد کے رقبے میں اضافہ کیا اور اس کے اطراف میں برآمدے بنوائے، مسجد کے مغربی رکن کی طرف منارہ اور دیواروں کے اوپر سجاوٹ اور ستونوں میں اضافہ کیا.[21]
  • منصور کا فرزند مہدی عباسی (حکومت:١٥٩-١٦٩ق)، سنہ ١٦١ق. اس نے بھی مسجد کے اطراف کے گھروں کو لوگوں سے لے کر مسجد کی زمین میں اضافہ کیا. [22] اس لحاظ سے، ٨٣٨٠ میٹر مربع مسجد میں اضافہ ہو گیا اور مسجد کے اطراف میں مختلف دروازے لگوائے اور اس کے بعد کئی صدیوں تک، یہی حالت باقی رہی.[23]
  • سنہ١٦٤ق میں مہدی عباسی نے حکم دیا کہ مسجد کے جنوبی حصے کو بھی وسعت دی جائے اور مسجد مربع کی شکل اختیار کرے تا کہ کعبہ اس کے درمیان میں واقع ہو. اس طرح مسجد کا رقبہ ٦٥٦٠میٹر مربع زیادہ ہو گیا اور اس کے اطراف میں اور برآمدے اور ستون اضافہ کیے گئے. یہ ستون ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہیں اور مہدی عباسی کے زمانے کا یادگار کتیبہ بھی ابھی تک موجود ہے. [24]
  • معتضد عباسی کا زمانہ (حکومت:٢٧٩-٢٨٩ق) مکہ کے بادشاہ کے ساتھ مشورت کے بعد، سنہ٢٨١ق کو حکم دیا کہ حاجیوں کی رہائش کے لئے مسجد کے رقبے میں اضافہ کیا جائے. [25]
  • مقتدر عباسی کا زمانہ (حکومت:٢٩٥-٣٢٠ق) باب ابراہیم کی طرف سے کچھ زمین مسجد میں اضافہ کی گئی. [26]
  • مستنصرباللہ عباسی کے زمانے میں (حکومت:٦٢٣-٦٤٠ق) مسجد کی دوبارہ تعمیر اور مرمت کی کوشش کی گئی اور مطاف کی دوبارہ تعمیر (مطاف وہ جگہ جہاں حاجی کعبہ کا طواف کرتے ہیں) کی گئی.[27]

سعودی کا زمانہ

  • ملک عبدالعزیز آل سعود، نے سنہ ١٣٦٨ق./١٣٢٨ش. میں حکم دیا کہ مسجد کو ہر طرف سے وسعت دی جائے. یہ کام سنہ ١٣٧٥ق./ ١٣٣٥ش میں شروع ہوا اور مسجد کا رقبہ ١٦٠٨٦١میٹر ہو گیا. اس جگہ پر تین سو ہزار نماز گزار، نماز ادا کر سکتے تھے. مسجد کے دروازوں کی تعداد ٦٤ تک ہو گئی. [28]

ملک فہد نے سنہ ١٤٠٩ق مسجد الحرام کے رقبے میں اضافہ کرنے کا آغاز کیا. اس نے مسجد کے اطراف کے اماکن کو سنہ ١٤٠٣ق سے ہی خریدنا شروع کر دیا تھا. پوری تاریخ میں مسجد الحرام میں اتنے رقبے کا اضافہ کسی نے نہیں کیا تھا جتنا اس نے اپنے زمانے میں کیا. تقریباً ٧٦٠٠٠ہزار میٹر مربع زمین مسجد کے مغربی حصے کی طرف سے مسجد میں اضافہ کی گئی. ٨٩ میٹر بلند دو منارے اسی طرف بنائے گئے. تین بڑے گنبد درمیان میں بنائے گئے کہ ہر ایک گنبد چار ستون پر قائم ہے. مسجد الحرام میں اس وقت مناروں کی تعداد نو عدد ہے.[29]

  • اب مسجد الحرام کا رقبہ ٨٨٠٠٠میٹرمربع سے زیادہ ہے اور ایک میلیون کے قریب نماز گزار یہاں نماز ادا کر سکتے ہیں. مسجد الحرام کی تین منزلیں ہیں، اور تیسری منزل کی چھت بہت وسیع ہے. [30]

مسجد کے اندرونی حصوں کی تعمیر اور مسجد کی اشیاء

 

کعبہ

مکعب شکل کا گھر جو کہ مسجد الحرام کے درمیان شہر مکہ میں واقع ہے. کعبہ، قبلہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی عبادت گاہ ہے اور اس کی زیارت ایک عبادی عمل اور بعض شرائط جیسے مالی استطاعت کے ہوتے ہوئے حج پوری عمر میں ایک بار ہر مسلمان پر واجب ہے.

حجر الاسود

مقدس پتھر، جس کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اسلامی نگاہ اور حج کے احکام میں اس کا خاص مقام ہے. یہ پتھر کعبہ کے شرقی رکن (کہ جس کو رکن اسود یا رکن حجری کہتے ہیں) ڈیڑھ میٹر زمین میں نصب ہوا ہے.

مقام ابراہیم

اس سے مراد ایک پتھر ہے کہ کہتے ہیں حضرت ابراہیم(ع) نے کعبہ کی تعمیر کے وقت، اپنے پاؤں کے نیچے رکھا تھا تا کہ آپ کا ہاتھ دیوار کے اوپر والے حصے تک پہںچ سکے. ایک قول کے مطابق، یہ پتھر اسلام سے پہلے کعبہ میں موجود تھا، لیکن جب آیت «وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِیمَ مُصَلًّی» نازل ہوئی، جس کو پیغمبراکرم(ص) کے حکم سے کعبہ سے باہر نکالا گیا اور کعبہ کے اطراف رکھا گیا ہے.


حوالہ جات

  1. نک: راغب اصفهانی، ص230.
  2. بن ضیاء، ج1، ص3.
  3. انفال، 34.
  4. ابن ظهیره، 161 و 162.
  5. نک: ابن ضیاء، ج1، ص3.
  6. ابن ضیاء، ج1، ص3.
  7. ازرقى ، ج‏1، ص73.
  8. نک: ابن ضیاء، ج1، ص4.
  9. نک: ابن ضیاء، ج1، ص2.
  10. برای تفصیل بیشتر نک: ازرقی، ج1 ص355.
  11. نک: ازرقی، ج2، ص62.
  12. ازرقی، ج1، ص34.
  13. ازرقی، ج1، ص36.
  14. ازرقی، ج1، ص59.
  15. ابن ضیاء، ج1، ص3.
  16. سباعی، ص65؛ جعفریان، ص43.
  17. ابن ظهیره، ص177.
  18. جعفریان، ص72.
  19. ازرقی، ج2، ص69؛ ابن ظهیره، ص177 و 178؛ سباعی، 84 و 85.
  20. جعفریان، ص73.
  21. جعفریان، ص73 و 74.
  22. sf سباعی، ص158-160؛ جعفریان، ص74.
  23. جعفریان، ص75.
  24. جعفریان، ص75.
  25. جعفریان، ص75.
  26. جعفریان، ص75.
  27. جعفریان، ص75.
  28. جعفریان، ص75.
  29. http://www.alharamain.gov.sa/index.cfm?do=cms.conarticle&contentid=4046&categoryid=234؛ جعفریان، ص78.
  30. http://www.alharamain.gov.sa/index.cfm?do=cms.conarticle&contentid=4046&categoryid=234