نُہُم رَبیع‌ُالاول، امام زمانہؑ کی امامت کے آغاز کا دن ہے۔ ایک نقل کے مطابق اس دن امام حسینؑ کے قاتلوں میں سے عمر بن سعد مارا گیا۔ بعض جگہوں پر اس دن خلیفہ دوم حضرت عمر کے یوم وفات کی مناسبت سے عید زہرا اور فرحۃُ الزہراء کے نام سے خوشی کی محافل برپا ہوتی ہیں، حالانکہ تاریخی روایات کے مطابق وہ 27 ذی‌ الحجہ کو ابو لؤلؤ کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور اس کے تین دن بعد دار فانی سے کوچ کر گئے۔ مراجع اور شیعہ علما اس عنوان سے محافل کے انعقاد کو جائز نہیں سمجھتے کہ جن میں اہل سنت مذہب کے بزرگوں اور مقدسات کی توہین ہوتی ہو۔

اہم واقعات

ربیع الاول کی 9 تاریخ کو رونما ہونے والے بعض اہم واقعات درج ذیل ہیں:

  • خلیفہ دوم کا قتل: 9 ربیع‌ الاول کو خلیفہ دوم کے قتل ہونے کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جس کی تاریخ چھٹی صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے، عبدالجلیل قزوینی (متوفی چھٹی صدی ہجری) نے کی مآخذ سے استناد کئے بغیر اس دن کو عمر بن خطاب کے قتل ہونے کا دن قرار دیا ہے؛[5] سلسلہ صفویہ کے شیعہ عالم دین علامہ مجلسی کے مطابق صفویہ دور حکومت میں شیعہ کے یہاں 9 ربیع الاول کو عید شمار کیا جاتا تھا جس کی دلیل ایک حدیث تھی۔[6] اس حدیث کے مطابق امام محمد تقیؑ نے 9 ربیع الاول کو اہل بیتؑ اور ان کے محبین کے لئے عید قرار دیتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ خدا اس دن کرام الکاتبین کو تین دن تک لوگوں کے گناہوں کو نہ لکھنے کا حکم دیتا ہے۔[7]

متعدد تاریخی منابع کے مطابق خلیفہ دوم کا قتل 23ھ کو ذی‌الحجۃ کے آخری ایام میں رونما ہوا ہے۔[8] ان منابع کے مطابق خلیفہ دوم 26 یا 27 ذی‌الحجۃ کو مغیرۃ بن شعبہ کے غلام ابولؤلؤ کے ہاتھوں زخمی ہوا اور 3 دن بعد یعنی 29 یا ایک قول کی بنا پر 30 ذی‌الحجہ کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔[9] اسی طرح تاریخی شواہد کے مطابق خلیفہ دوم کے بعد خلیفہ کے عنوان سے عثمان بن عفان کی بیعت بھی ذی‌الحجہ کے آخر یا محرم الحرام کے اوائل میں ہوئی ہے۔[10] کاشان میں بھی شروع میں عید الزہرا مراسم کو ابولؤلؤ کے مزار پر ذی‌الحجہ کے مہینے میں مناتے تھے۔[11]

علامہ مجلسی کے مطابق فقہای امامیہ کے درمیان بھی یہی مشہور ہے کہ خلیفہ دوم کا قتل ذی الحجہ میں واقع ہوا ہے۔[12]

نہم ربیع الاول کا وفات عمر سے منسوب ہونا

بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ ایران میں آل‌بویہ کے دور حکومت میں 9 ربیع الاول کو حضرت عمر کی وفات سے منسوب کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس وقت مختلف فرقوں کے درمیان موجود اختلافات مختلف مناسبتوں کی صورتوں میں نمایاں ہوتے رہتے تھے مثلا ابوبکر کا پیامبر ؐ کے ساتھ غار ثور میں رہنے کا دن، اسی طرح حنابلہ کی طرف سے مصعب بن زبیر کی وفات کے عزا کا دن، شیعوں کی طرف سے عید غدیر اور عاشورا منانے کا دن وغیرہ۔ انہی مذہبی اختلافات کے پیش نظر شیعہ حضرت عمر کے یوم وفات کی مناسبت سے خوشی منانا چاہتے تھے لیکن چونکہ ان کی وفات ذی الحجہ کے آخری ایام میں ہوئی تھی لہذا خوشی کی یہ محافل محرم الحرام میں عزاداری امام حسین سے مصادف ہونے کی وجہ سے محرم و صفر کے بعد یعنی ربیع الاول میں برگزار ہونا شروع ہوئے پھر آہستہ آہستہ 9 ربیع الاول کا دن حضرت عمر کی وفات سے منسوب ہو گیا۔[13]

عید زہرا

ایران اور عراق میں ربیع الاول کی نو تاریخ کو خلیفۂ دوم کے قتل کی مناسبت سے خوشی کی محفلیں برپا کی جاتیں ہیں جو عید زہراء اور فرحۃ الزہراء کے نام سے معروف ہیں۔

رسول جعفریان کے مطابق، تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسی محفلوں کا انعقاد آل‌ بویہ کے دور میں ہوتا تھا جس کے نتیجے میں مذاہب کے درمیان نزاع و کشیدگی پائی جاتی تھی۔ پھر چھٹی صدی ہجری کے بعد سے صفویوں تک اس طرح کی محفلوں کا انعقاد کم ہوا اگرچہ کاشان میں یہ محفلیں برقرا ہوتی رہیں۔[14] سید بن طاووس (متوفا ۶۶۴ق) نے نو ربیع الاول کے دن بعض دشمنان اہل بیت کی فوتگی کے دن کے اعتقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض ایرانی اس دن کی فضیلت و اہمیت کے قائل ہیں۔[15]ان کے اس بیان سے یوں ظاہر ہوتا ہے گویا وہ خود اس کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔[16] صفویہ حکومت کے قیام اور وسیع پیمانے پر تشیع کے پھیلنے کے بعد نو ربیع الاول کا دن حضرت عمر کی وفات کا قطعی دن سمجھا جانے لگا اور اس دن مراسم کا انعقاد ہونے لگا۔[17] قاضی نوراللہ شوشتری نے اپنی کتاب میں صفویہ کے دور کے سنی عالم دین کے اعتراض کے جواب میں کہا: اس کام کی شیعہ علما نے تائید نہیں کی اور اب تو یہ متروک ہو چکا ہے۔[18]

انقلاب اسلامی کا دور

ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی اور امام خمینی کی رہبری کے زمانے میں خلیفۂ دوم کے قتل کی خوشی میں خوشی کی محفلوں کا انعقاد ممنوع قرار پایا اور اس زمانے کا وزیر محتشمی‌ پور ایسی محفلوں کے خلاف سخت اقدام کرتا تھا۔

ایسی محفلوں کی ممانعت کی ایک وجہ فرقوں کے درمیان اختلاف، سنی اور شیعہ کے درمیان مذہبی منافرت پیدا ہونا بتائی گئی ہے۔ غیر روایتی اور بعض اوقات قبیح اور غیرمہذب ادب کا استعمال اور ایسے ڈرامے پیش کرنا کہ جو معاشرے کی عام روایات کے خلاف ہیں، اس پر پابندی کے اسباب میں سے ہے۔ ایسی محفلوں کی ممنوعیت کے اعلان کے بعد کاشان میں موجود ابو لؤلؤ کے مزار کو پولیس انتظامیہ کی طرف سے بند کر دیا گیا۔[19]

مراجع تقلید

حضرت عمر بن خطاب کے قتل کی خوشی میں محافل کے انعقاد کی بہت سے مراجع تقلید نے مخالف کی ہے۔ نجف کے مراجع میں سے محمد حسین کاشف‌الغطاء نے ایسی محفلوں کی ممنوعیت کا اعلان کیا۔[20] آیت اللہ خامنہ ای نے حضرت فاطمہ ع کو خوش کرنے کی غرض سے بعض کاموں کے انجام دینے کو حضرت فاطمہ کے دشمنوں کے خوشی کا باعث اور اہداف انقلاب اسلامی ایران کے مخالف بیان کیا ہے۔ [21]

آیت اللہ سیستانی نے توصیہ کیا ہے: شیعوں کو چاہئے کہ اپنی توجہات کو مشترک نقات پر مرکوز کریں اور تصریح کی کہ اختلافی مسائل کو ہوا دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ آیت اللہ سیستانی کے نزدیک ایسی محفلوں میں شرکت جائز نہیں ہے نیز ان کے نزدیک تشنج آمیز ادبیات سے پرہیز لازم ہے۔[22]

آیت اللہ محمد تقی بہجت نے بھی حضرت زہرا(س) کے حوالے سے خوشی کی برقراری کی محفلوں میں توصیہ کیا: ایسے مواقع پر فضائل اہل بیتؑ اور خاص طور پر حضرت زہرا(س) کے فضائل اور حدیث ثقلین بیان کی جائے۔ ان کے بقول آیت اللہ بروجردی کی بھی یہی روش رہی تھی۔ آیت اللہ بہجت نے اسی طرح عید زہرا کے نام سے منائی جانے والی محفلوں کے بارے میں کہا: چہ بسا کئی مرتبہ ایسے کام ان شیعوں کیلے اذیت و آزار کا موجب بنیں جو دوسرے ممالک میں اقیلتی تعداد میں زندگی گزار رہے ہیں اور اگر ایسے کاموں کی وجہ سے شیعوں کا قتل و کشتار ہوا تو ہم اس جرم میں برابر کے شریک ہونگے۔ [23] نیز آیت اللہ میرزا جواد تبریزی اور آیت اللہ صافی گلپایگانی نے اظہار کیا کہ جو کام سال کے دیگر ایام میں انجام دینا گناہ اور حرام ہے انہیں نو ربیع الاول کو انجام دینا بھی گناہ اور حرام ہے۔ نو ربیع الاول اور سال کے دیگر ایام میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔[24]

حدیث رفع القلم

عید زہرا کی مناسبت سے منعقد ہونے والی محفلوں میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے جو رفع القلم کے نام سے معروف ہے۔ وہ کہتے ہیں آج کے دن حساب و کتاب اٹھا لیا گیا ہے اور اس دن کے گناہوں کا روز قیامت حساب نہیں لیا جائے گا اور ان پروگراموں میں ہر کام کرنا جائز ہے اور کوئی گناہ نہیں ہے۔

حدیث رفع قلم کا تنقیدی جائزہ

موجودہ بعض مراجع جیسے مکارم شیرازی، صافی گلپائگانی اور تبریزی اس حدیث کی سند اور اس کے مضمون کو درج ذیل دلائل کی بنا پر مورد تنقید قرار دیتے ہیں:

  • رفع قلم کے نام سے حدیث معتبر مصادر میں موجود نہیں ہے اس لئے یہ غیر معتبر ہے۔
  • یہ روایت کتاب خدا اور سنّت کے مخالف ہے اس لئے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر یہ حدیث آیت و من یعمل مثقال ذرة شراً یره[25] اور روایت لا تنال ولایتنا الا بالعمل و الورع[26] کے مخالف ہے۔[27] اسی بنا پر حرام کام کو کسی بھی دن انجام دینا گناہ اور حرام ہے۔ نو ربیع الاول یا کسی اور دن کے درمیان کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف نابالغ، دیوانے اور سوئے ہوئے شخص سے حکم شرعی کی ادائیگی یا ترک کرنے کا حکم اٹھایا گیا ہے۔
  • حدیث رفع قلم کے معتبر ہونے کی صورت میں اس کا معنا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بھول کر کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو خدا اسے بخش دے گا لیکن جان بوجھ کر گناہ کیا جائے تو وہ نہیں بخشا جائے گا۔[28]

حوالہ جات

  1. صادقی کاشانی، «نہم ربیع، روز امامت و مہدویت»
  2. مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ص۵۱۰۔
  3. مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ق، ص۲۵۸۔
  4. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۰۹۔
  5. رازی قزوینی، بعض مثالب النواصب، ۱۳۵۸ش، ص۳۵۳۔
  6. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۱۱۹ و ۱۲۰.
  7. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۱۲۰-۱۲۵۔
  8. ملاحظہ کریں: تاریخ خلیفہ بن خیاط، خلیفہ بن خیاط، ص۱۰۹؛ اخبار الطوال، ابوحنیفہ دینوری، ص۱۳۹؛ أنساب الأشراف، بلاذری، ج۱۰، ص۴۳۹۔
  9. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۳، ص۲۷۸؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۰۲؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۵۹؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۹۴؛ مفید، مسارالشریعہ، ۱۴۱۴ق، ص۴۲۔
  10. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۱۹۴؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۶۲.
  11. افندی اصفہانی، تحفہ فیروزیہ (گزارشی از کتاب)، ۱۳۷۸ش، ص۸۲۔
  12. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۱۱۸و۱۱۹۔
  13. صادقی کاشانی، نہم ربیع؛ روز امامت و مہدویت، مشرق موعود، ۱۳۹۱ش، ص۴۴ و ۴۵.
  14. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، قم، انصاریان، ۱۳۸۳ش، ج۳، ص۱۰۳۷-۱۰۳۹؛صادقی کاشانی، «نہم ربیع، روز امامت و مہدویت»، تابستان ۱۳۹۱ش، ص۴۳.
  15. ابن‌طاووس، الاقبال بالاعمال، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۱۱۳.
  16. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، ۱۳۹۰ش، ص۸۳۵.
  17. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۱۱۹ و ۱۲۰.
  18. شوشتری، مصائب النواصب، تصحیح: قیس العطار، ۱۳۸۴ش، ج۲، ۲۴۲.
  19. لطفی،نہم ربیع‌الاول و جشن ممنوع عمرکشان، پایگاہ اینترنتی جامعہ‌شناسی تشیع، تاریخ بازدید: ۲۱-۰۹-۱۳۹۵.
  20. نظر كاشف الغطاء در مورد روز 9 ربيع الاول، کنگرہ بین‌المللی علامہ محمد حسین کاشف الغطا، تاریخ بازدید: ۲۱-۰۹-۱۳۹۵.
  21. خبرگزاری فارس.
  22. نہم ربیع، جہالت‌ہا و خسارت‌ہا، ص ۱۰۳ - ۱۱۹
  23. خبرگزاری ابنا.
  24. صافی، جامع الأحکام صافی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص ۱۲۸؛آیت اللہ العظمی تبریزی، استفتائات جدید، قم، سرور، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۵۱۶.
  25. سورہ زلزال، آیہ ۸
  26. وسائل الشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۱۵، ص۲۴۷.
  27. مسائلی، نہم ربیع، جہالت‌ہا و خسارت‌ہا، ۱۳۸۷ش، ص۳۵.
  28. مسائلی، نہم ربیع، جہالت‌ ہا و خسارت‌ ہا، ۱۳۸۷ش، ص۳۵، ۱۰۳ و ۱۱۹.

مآخذ

  • ابن طاووس، علی بن موسی بن طاووس، تصحیح جواد قیومی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۴ق.
  • ابن‌ادریس، محمدبن منصور، السرائر، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، ۱۴۱۰ق.
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق: عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن‌طاووس، رضی‌الدین علی، الاقبال بالاعمال، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۵ق.
  • افندی اصفہانی، میرزا عبداللہ، تحفہ فیروزیہ (گزارشی از کتاب)،کوشش رسول جعفریان، قم، بی‌جا، ۱۳۷۸ش، ص۸۲.
  • تبریزی، میرزا جواد، استفتائات جدید، قم، سرور، ۱۳۸۵ش.
  • جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، قم، انصاریان، ۱۳۸۳ش.
  • جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، نشرعلم، تہران، ۱۳۹۰ش.
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، نشر انصاریان، چاپ ششم، ۱۳۸۱.
  • حر عاملی، وسائل الشیعہ، قم، انتشارات آل البیتؑ لإحیاء التراث، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
  • حلی، حسن بن سلیمان، المحتضر، نجف، حیدریہ، ۱۳۷۰ق.
  • رازی قزوینی، عبدالجلیل، بعض مثالب النواصب فی نقض بعض فضائح الروافض، تہران، انجمن آثار ملی، ۱۳۵۸ش.
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، مصائب النواصب، تصحیح قیس العطار، قم، دلیل ما، ۱۳۸۴ش.
  • صادقی کاشانی، مصطفی، «نہم ربیع، روز امامت و مہدویت»، مشرق موعود، س۶، ش۲۲، تابستان ۱۳۹۱ش.
  • صافی، لطف اللہ، جامع الأحکام صافی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی، ۱۳۸۵ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ق.
  • عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، دارالفکر، بیروت.
  • لطفی، فاطمہ، نہم ربیع‌الاول و جشن ممنوع عمرکشان، پایگاہ اینترنتی جامعہ شناسی تشیع، تاریخ بازدید: ۲۱-۰۹-۱۳۹۵.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دارالرضا، ۱۴۰۳ق.
  • مجلسی، محمدباقر، زاد المعاد، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۲۳ق/ ۲۰۰۳م.
  • مسائلی، مہدی، نہم ربیع، خسارت‌ہا و جہالت‌ہا، نشر وثوق، چاپ دوم، ۱۳۸۷ش.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، تحقیق: اسعد داغر، قم، دارالہجرہ، ۱۴۰۹ق.
  • مفید، محمد بن محمد نعمان، مسارالشریعہ، بیروت، دارالمفید، ۱۴۱۴ق.
  • یعقوبی، احمد بن واضح، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
  • نظر كاشف الغطاء در مورد روز 9 ربيع الاول، کنگرہ بین‌المللی علامہ محمد حسین کاشف الغطا، تاریخ بازدید: ۲۱-۰۹-۱۳۹۵.