جنگ نہروان

ویکی شیعہ سے
جنگ نہروان
سلسلۂ محارب: مارقین کے ساتھ جنگ
تاریخ
مقام منطقۂ نہروان
محل وقوع حدود کوفہ
نتیجہ خوارج کا خاتمہ۔
سبب خوارج کا حکمیت کے مسلئے میں امیرالمؤمنین کے خلاف بغاوت
ملک عراق
فریقین
امام علی (ع) اور آپ کے اصحاب خوارج
قائدین
امیرالمؤمنین علی (ع) عبدالله بن وهب راسبی
نقصانات
امیرالمؤمنین (ع) کے 10 اصحاب کی شہادت خوارج کے 4 ہزار میں سے صرف 10 افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے باقی سب ہلاک یا زخمی ہوگئے۔


جنگ نہروان، امام علی علیہ السلام کے دور خلافت میں رونما ہونے والی جنگوں میں سے ایک ہے جو جنگ صفین میں حکمیت کے مسئلے میں خوارج کے امام علی (ع) کی مخالفت کے بعد سنہ 38 ہجری کو ماہ صفر میں واقع ہوئی۔ یہ جنگ امام علی (ع) اور مارقین نامی گروہ جو بعد میں خوارج کے نام سے مشہور ہوا، کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں خوارج کو سخت شکست سے دوچار ہونا پڑا یہاں تک کہ ان کے 4 ہزار میں سے صرف 10 افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جن میں سے ایک عبد الرحمن بن ملجم مرادی، امیرالمؤمنین (ع) کا قاتل تھا۔

خوارج کی پیدایش

امام علی(ع) کے دور حکومت کی جنگیں مد مقابل لشکر تاریخ وقوع
جنگ جمل طلحہ و زبیر کا لشکر 15 جمادی الثانی سنہ 36 ہجری
جنگ صفین معاویہ کا لشکر صفر سنہ 37 ہجری
جنگ نہروان خوارج کا لشکر صفر سنہ 38 ہجری

تاریخی شواہد اور احادیث کے مطابق خوارج جنگ جمل اور جنگ صفین دونوں میں امام علی (ع) کے لشکر میں تھے۔[1]

لیکن جنگ صفین میں جب معاویہ نے دیکھا کہ وہ شکست سے دوچار ہو رہا ہے تو عمرو عاص سے کوئی حیلہ اور فریب کاری کرنے کیلئے کہا جس پر عمروعاص نے قرآن کو نیزے پر بلند کرکے امام علی (ع) کے لشکریوں سے قرآن کی طرف رجوع کرکے اختلافات ختم کرنے کی دعوت دی۔ امام علی(ع)، معاویہ اور عمروعاص کی حیلہ گری اور فریب کاری سے واقف تھے اس لئے اپنے سپاہیوں کو ان کے حیلہ گری اور فریب کاری سے دور رکھنے کی لاکھ کوشش کیا لیکن امام علی (ع) کی شدید مخالفت کے باوجود جنگ سے بیزاری، جانی اور مالی نقصان، لشکریوں کا مختلف قبائل سے تعلق اور عرب کے بدووں کی سطحی نگری کی وجہ سے لشکریوں کی اکثریت معاویہ اور عمرو عاص کے فریب میں آ گئے یوں جنگ بندی اور حکمیت پر راضی ہو گئے۔[2] [3]

امام علی (ع) کے بعض باوفا اصحاب نے ابتداء ہی سے جنگ بندی کی مخالف کی تھی اور اسے مرتد (دین سے خارج) ہونے کے مترادف سمجھتے تھے۔[4] لیکن انہی افراد جنہوں نے پہلے جنگ بندی اور حکمیت کو قبول کرنے پر امام علی (ع) کو مجبور کیا تھا، میں سے بعض نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر:۴۴ اور سورہ حجرات کی آیت نمبر:۹ سے استدلال کرتے ہوئے معاویہ کی فریب کاری اور حیلہ گری کو دیکھنے کے بعد دوبارہ معاویہ سے جنگ کرنے کا مطالبہ کیا اور حکمیت کے قبول کرنے کو کفر کے مترادف قرار دیتے ہوئے اپنے کئے پر توبہ کیا اور امام علی (ع) سے بھی توبہ کرنے کا مطالبہ کیا اور معاویہ کے ساتھ حکمیت کے مسئلے میں طے پانے والے شروط پر عمل نہ کرنے کی درخواست کی۔ لیکن امام علی (ع) نے ان کی بات قبول نہیں کیا اور فرمایا: ہم نے ایک ایسی چیز کو قبول کیا ہے جسے دوبارہ انکار نہیں کر سکتے۔[5]. اسی طرح امام علی (ع) نے حکمیت کے بارے میں فرمایا: من ابتداء سے حکمیت کا مخالف تھا لیکن لوگوں کی اصرار پر میں نے مجبورا اسے اس شرط پر قبول کیا تھا کہ ہمارے درمیان حاکم، قرآن ہے یعنی ہم نے گویا قرآن کی حکمیت کو قبول کیا ہے نہ لوگوں کی۔ یوں امام نے معاویہ کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کو مالیات کی جمع آوری کے بعد پر موکول کرنے کا اعلان کیا۔[6]

جنگ صفین کی جنگ بندی اور دونوں لشکر کا اپنی منزل مقصود کی طرف واپسی کے بعد حکمیت کے مخالفین، امام علی (ع) سے جدا ہوگئے اور کوفہ کے نزدیک حروراء نامی قریہ میں جمع ہوگئے۔[7] یوں انہوں نے ایک گروہ تشکیل دیا جسے خوارج کہا جاتا ہے۔

چیدہ افراد

خوارج کے چیدہ افراد جو اس تحریک میں پیش پیش تھے درج ذیل ہیں:

البتہ بعض دیگر اشخاص جیسے فروہ بن نوفل اشجعی نیز ابتدا میں اس گروہ میں شامل تھا لیکن جنگ نہروان کے شروع ہوتے ہی ان سے جدا ہو گئے۔

درج بالا اسامی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق کے مشاہیر میں سے کوئی بھی ان میں شامل نہیں تھا بلکہ سب کے سب عرب کے بدو قبائل جیسے قبیلہ بکر بن وائل اور بنی تمیم میں سے تھے۔[8]

خوارج کا فتنہ

سنہ 37 ہجری کو خوارج زید بن حصین گھر جمع ہوگئے اور عبداللہ بن وہب راسبی کو اپنا امیر منتخب کیا یوں انہوں نے باقاعدہ سیاسی اور نظامی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے حکمیت کو قبول کرنے کے بعد کوفہ میں رہنے کو حرام قرار دیا اور مدائن ہجرت کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن مدائن میں امام علی (ع) کے پیروکاروں کی موجودگی کی وجہ سے بعض نے وہاں جانے کو مصلحت نہ جانا اور نہروان کو اپنی منزل مقصود قرار دیا۔[9]

بہت مختصر ایام میں سب پر حکمیت کے مسئلے میں معاویہ کی فریب کاری اور حیلہ گری عیاں ہو گئی تو امام علی (ع) نے بھی اپنی مخالفت ظاہر کی اور معاویہ کے ساتھ دوبارہ جنگ کیلئے اپنے سپاہیوں کو فوجی کیمپ میں جمع ہونے کا اعلان کیا۔ آپ (ع) نے خوارج کو بھی اس جنگ میں ساتھ دینے کی دعوت دی لیکن انہوں نے آپ (ع) کی اس دعوت پر منفی رد عمل ظاہر کیا۔[10]

خوارج نے نہروان جاتے ہوئے بہت ساری جنایات کا ارتکاب کیا اور کافی سارے بے گناہ افراد کو قتل کیا ان میں عبداللہ بن خباب بن ارت جن کے والد گرامی خباب بن ارت پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب میں سے تھے، سر فہرست ہے۔ خوارج نے انہیں ان کی بیوی کے ہمراہ جو کہ حاملہ تھی، بے دردی سے شہید کیا۔ ان جنایتوں کی خبر امام (ع) تک پہچی تو آپ (ع) نے اپنے سپاہیوں کو جو معاویہ کے ساتھ جنگ کیلئے صفین کی طرف جا رہے تھے کو نہروان کی طرف جانے کا حکم دیا۔[11]

جنگ

جنگ صفین کے بعد تقریبا 6 مہینے تک خوارج اپنے اعتراضات اور مطالبات پر مصر رہے تو امام علی (ع) نے عبداللہ بن عباس اور صعصعۃ بن صوحان کو ان کے ساتھ مذاکرات کیلئے بھیجا لیکن انہوں نے ان دونوں کی بات نہ سنی اور دوبارہ امام کے لشکر میں واپس آنے سے انکار کیا۔ اس کے بعد امام نے بارہ افراد کو معین فرمایا اور خوارج سے بھی ان ہی تعداد میں افراد معین کرنے کو کہا جنہوں نے آپس میں مل بیٹھ کر مذاکرات شروع کئے۔[12]

اس دوران امام علی (ع) نے خوارج کے سرکردہ افراد کی طرف ایک خط بھی لکھا جس میں ان سے دوبارہ امام کی طرف پلٹنے کی دعوت دی لیکن عبداللہ بن وہب نے صفین کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام علی (ع) کو مرتد کہا اور ان سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان سب کے باوجود امام (ع) نے مختلف افراد جیسے قیس بن سعد اور ابو ایوب انصاری کے توسط سے خوارج کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی اور انہیں امان دینے کا اعلان کیا۔[13] لیکن جب آخر کار امام علی (ع) ان کے تسلیم ہونے سے ناامید ہوگئے تو اپنے لشکر میں سے 4000 افراد پر مشتمل سپاہیوں کی ساتھ خوارج کے مد مقابل کھڑے ہوگئے یوں جنگ کا آغاز ہوا۔ یہاں بھی امام نے اپنے سپاہیوں کو تاکید کی کہ کھبی بھی جنگ میں پہل نہ کی جائے یہاں تک کہ خوارج کی طرف سے جنگ کا آغاز ہوا۔[14]

خوارج کی تعداد

جنگ سے پہلے امام علی (ع) کے مسالمت آمیز اقدامات کی وجہ سے خوارج میں سے فروہ بن نوفل سمیت 500 افراد خوارج کی صفوں سے جدا ہوگئے۔ [15] تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ خوارج کے 4000 لشکر میں صرف 1800 سوار اور 1500 پیادہ، امام علی (ع) کے مد مقابل باقی رہے باقی کسی نہ کسی طرح میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے۔[16]

جنگ کا انجام

جنگ کے شروع ہوتے ہی خوارج کا لشکر یا قتل ہوا یا زخمی ہوا۔ 400 کی تعداد میں زخمیوں کو ان کے گھر والوں کی تحویل میں دیا گیا جبکہ اس کی مقابلے میں امام علی (ع) کے لشکر سے بہت کم تعداد میں افراد شہید ہوئے۔ جن کی تعداد 10 نفر بھی نہیں تھی۔ خوارج میں سے کم از کم 10 نفر میدان سے بھاگ گئے جن میں سے ایک عبد الرحمان بن ملجم مرادی تھا جس نے بعد میں امام علی (ع) کو شہید کیا۔[17]

حوالہ جات

  1. نصر بن مزاحم، وقعة صفین، ص ۳۴۹؛ طبری، تاریخ، ج ۴، ص ۵۴۱
  2. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۴۸۴؛ ابن‌ قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، ج ۱، ص ۱۰۴؛ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۱۱۰
  3. جعفر سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج ۵، ص ۷۵
  4. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۴۸۴؛ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۱۱۱-۱۱۲
  5. بلاذری، ج۲، ص۳۵۹
  6. بلاذری، ج۲، ص۳۴۹
  7. نصر بن مزاحم، وقعة صفین، ص ۵۱۳-۵۱۴؛ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۱۱۴، ۱۲۲؛ طبری، تاریخ، ج ۵، ص ۶۳، ۷۲، ۷۸؛ مسعودی، مروج، ج ۳، ص ۱۴۴
  8. بلاذری، ج۲، ص۳۵۰
  9. دینوری، اخبار الطوال، صص ۲۰۳-۲۰۴.
  10. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۳۶۶.
  11. طبری، تاریخ، ج ۵، ص ۸۰-۹۲.
  12. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۳۵۲.
  13. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۳۷۰.
  14. دینوری، اخبار الطوال، ص ۲۱۰.
  15. دینوری، اخبار الطوال، ص ۲۱۰.
  16. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۳۷۱.
  17. بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، صص ۳۷۳-۳۷۵.

مآخذ

  • ابن منظور، لسان العرب، نشر ادب حوزه، قم
  • بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، موسسہ اعلمی، بیروت
  • جعفریان، تاریخ الخلفاء، مبحث جنگ نہروان
  • دینوری، اخبار الطوال، ترجمہ مہدوی دامغانی، بنیاد فرہنگ ایران، تہران
  • طبری، تاریخ، بیروت، موسسہ اعلمی
  • مسعودی، مروج الذہب، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران
  • نہج البلاغہ
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ ابراہیم آیتی، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، تہران