تبرا
تبرّا کے معنی ہیں اللہ اور اولیائے الہی کے دشمنوں سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے ان سے دُور رہنا۔ شیعوں کے نزدیک تبرّا فروع دین میں سے ایک ہے اور ان کے ہاں عقیدتی و عملی تعلیمات میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ شیعہ علما نے بعض قرآنی آیات اور روایات کی بنیاد پر مشرکین، کفار، دشمنانِ اہل بیتؑ، ان کے قاتلوں اور گمراہ و ظالم پیشواؤں سے بےزاری کو واجب قرار دیا ہے۔
بہت سے شیعہ اہل بیتؑ کے دشمنوں سے اظہار برائت کے خاص انداز اور غصب خلافت کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ اظہار برائت کو اسلامی وحدت، مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور تقریب مذاہب کے اصولوں کے خلاف سمجھتے آرہے ہیں۔
مفہوم شناسی
اصطلاح میں اللہ اور اولیائے الہی کے دشمنوں سے بےزاری اور دُوری اختیار کرنے کو "تبرّا" کہتے ہیں۔[1] تبری کا لفظ "بُرء" سے ماخوذ ہے اور لفظ "برائت" بھی اسی مادے سے لیا گیا ہے۔ لغوی اعتبار سے اس کا مطلب ہے کسی ایسی چیز سے الگ ہونا جس کے قریب ہونا ناپسندیدہ ہو۔[2]
عقیدتی حیثیت اور اہمیت
تبرّا شیعوں کے اہم عقائد کا حصہ ہے[3] اور مکتب تشیع میں "تولّی" کے ساتھ فروعِ دین میں شمار کیا جاتا ہے۔[4] شیعہ روایات میں تبرّا کو بے حد اہمیت دی گئی ہے۔[5] کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں "بابُ الْحُبِّ فِي اللّٰہِ وَ الْبُغْضِ فِي اللّٰہ" کے عنوان سے ایک باب بیان کیا ہے جس میں تولّی اور تبرّا سے متعلق سولہ احادیث ذکر کی ہیں۔[6]
رسول اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں خدا کی خاطر دشمنی اور تبری کو ایمان کا مضبوط ترین اور قابل اعتماد کڑا قرار دیا گیا ہے۔[7] امام رضاؑ سے مروی ایک اور حدیث میں اہل بیتؑ کی ولایت سمیت تبرّا یعنی اللہ، رسولؐ اور اہل بیتؑ کے دشمنوں سے بےزاری کو کمالِ دین قرار دیا گیا ہے۔[8]
وجوبِ تبرّا
مکتبِ تشیع میں تبرّا کو واجباتِ دینی میں شمار کیا جاتا ہے۔[9] شیعہ فقیہ اور متکلم شیخ صدوق کے مطابق شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ ظالموں سے بےزاری اختیار کرنا واجب ہے۔[10] شیخ حرّ عاملی نے اپنی کتاب وسایل الشیعہ میں «وجوب حُبِّ المؤمن و بُغضِ الْكافر» کے عنوان سے کچھ روایات ذکر کی ہیں اور ان سے وجوبِ تبرّا کا استنباط کیا ہے۔[11]
تبرّا کے جواز اور اس کے واجب ہونے کو ثابت کرنے کے لیے سورہ ممتحنہ کی آیت 1 سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔[12] علامہ طباطبائی کے مطابق یہ آیت مؤمنین کو اللہ کے دشمنوں سے دوستی کرنے سے سختی سے منع کرتی ہے۔[13] سید عبد الحسین لاری نے شیخ مرتضی انصاری کی کتاب مکاسب کی شرح میں کہا ہے کہ یہ آیت اور روایات بالکل واضح دلالت کرتی ہیں کہ تبرّا واجب ہے۔[14]
وہ افراد جن سے تبرّا واجب ہے
شیعہ علما آیات و روایات کی بنیاد پر چند گروہوں سے تبرّا کو واجب قرار دیتے ہیں:
- مشرکان: علامہ طباطبائی کے مطابق قرآن کی بعض آیات جیسے سورہ توبہ کی آیت 3، سورہ توبہ کی آیت 114 اور سورہ انعام کی آیت 19 میں انبیاء کی طرف سے مشرکین اور شرک سے بےزاری کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورہ توبہ کی ابتدائی آیات (1 تا 3) جو "آیاتِ برائت" کے نام سے مشہور ہیں،[15] مشرکین سے برائت اور بےزاری کے اعلان پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں۔[16]
- دشمنان اہل بیتؑ: بعض روایات کی بنا پر شیعہ علما نے اہل بیتؑ کے دشمنوں اور غصب خلافت کا ارتکاب کرنے والوں سے برائت کرنا واجب ہونے کا نظریہ پیش کیا ہے۔[17]
- اہل بیتؑ کے قاتلین: شیخ صدوق نے اپنی کتاب خصال میں امام جعفر صادقؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق اہل بیتؑ کے قاتلوں اور ان پر ظلم ڈھانے والوں سے بےزاری واجب ہے۔[18]
- ظلم اور ظالم حکومتوں سے اظہار برائت: ظلم اور ان حکومتوں سے بھی اظہار برائت واجب ہے جو مسلمانوں اور دنیا کے مظلوموں پر ظلم ڈھاتی ہیں۔[19] کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور (یعنی پندرہویں صدی ہجری) میں ظالم اور غاصب حکومت کی واضح مثال صہیونی حکومت ہے جس کے مظالم مسلمانوں اور مظلوم فلسطینی عوام پر ڈھائے جا رہے ہیں۔[20]
تولّی اور تبرّا کا باہمی تعلق
حدیثی مآخذ میں آمدہ بعض روایات کے مطابق تولّی یعنی اہل بیتؑ سے محبت اور ان کی ولایت کو تسلیم کرنا اُس وقت تک قبول نہیں ہوتا[21] جب تک اس کے ساتھ تبرّا بھی نہ ہو۔ چنانچہ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے لیکن ہمارے دشمنوں سے بےزاری اختیار نہیں کرتا، وہ جھوٹ بولتا ہے۔[22] اسی طرح امام رضاؑ سے بھی روایت ہے کہ اہل بیتؑ کی ولایت اُس وقت پایہ تکمیل کو پہنچ جاتی ہے اور ان کی محبت و مودت اُس وقت خالص ہوتی ہے جب ان کے دشمنوں سے بےزاری بھی اختیار کی جائے۔[23]
مرتضی مطہری کے مطابق تبرّا کا مطلب یہ ہے کہ ولایتِ علیؑ کو ماننے والا محض مثبت عقیدے پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے منفی پہلو سے بےزار بھی ہوجائے، یعنی امام علیؑ کے مخالف ہر چیز اور ہر راستے کی نفی کرے۔ بعبارت دیگر، صرف خدا پر ایمان کافی نہیں بلکہ طاغوت کی نفی بھی ضروری ہے۔[24] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر ابوالفتوح رازی نے بھی تبرّا کو تولّی کی شرط اور مقدمہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق موحّدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے کلمۂ توحید کے ذریعے مظاہرِ کفر و شرک سے بیزاری اختیار کریں، تب ہی وہ ایمان کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں۔[25]
تبرائیون
دورانِ صفویہ میں شیعوں کا ایک گروہ "برائتیّون" کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ اہل بیتؑ کے دشمنوں اور غصب خلافت کا ارتکاب کرنے والوں سے علانیہ بےزاری اور ان پر لعن کرنا ضروری ہے۔[26] یہ لوگ کوچہ بازاروں میں بلند آواز سے ولایتِ علیؑ کا اعلان کرتے پھرتے تھےاور ان کے مخالفین، دشمنوں اور بنی امیہ و بنی عباس کے خلفا پر لعن کرتے تھے۔[27] اس کے برعکس، بہت سے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اس قسم کا کھلم کھلا تبرّا اور دوسروں کے مقدسات پر سبّ و لعن اسلامی وحدت، مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے اور اسلامی مختلف مذاہب کے درمیان تقریب کو فروغ دینے کے اصولوں کے منافی ہے۔[28]
متعلقہ موضوع
حوالہ جات
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار،1390شمسی، ج26، ص133؛ علوی، عقائد المؤمنین، 1437ھ، ص214۔
- ↑ راغب اصفہانی، المفردات، ذیل واژہ «برأ»۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج26، ص133۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج26، ص133؛ علوی، عقائد المؤمنین، 1437ھ، ص214۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج2، ص337۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص124-127۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص125؛ علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج8، ص260۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج27، ص58۔
- ↑ لاری، التعلیقۃ علی المکاسب، 1418ھ، ج1، ص232؛ علوی، عقائد المؤمنین، 1437ھ، ص217۔
- ↑ شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص102۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج16، ص176۔
- ↑ لاری، التعلیقۃ علی المکاسب، 1418ھ، ج1، ص232۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج19، ص226۔
- ↑ لاری، التعلیقۃ علی المکاسب، 1418ھ، ج1، ص232۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج9، ص146۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج9، ص146-147 و 149۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص102-103؛ محقق لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص154-155؛ نجفی، جواہر الکلام، 1405ھ، ج6، ص64-67۔
- ↑ شیخ صدوق، الخصال، 1362شمسی، ص153۔
- ↑ اسماعیلی، تولی و تبری از نگاہی دیگر، 1384شمسی، ص75۔
- ↑ اسماعیلی، تولی و تبری از نگاہی دیگر، 1384شمسی، ص75۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: تبریزی، صراط النجاۃ، 1416ھ، ج3، ص452؛ جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج2، 667۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج27، ص58۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج27، ص58۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج26، ص133۔
- ↑ ابوافتوح رازی، روض الجنان، 1376شمسی، ج2، ص283۔
- ↑ خانی آرانی، «شاخصہہای فکری و رویکردہای عملی جریان شیعہ وحدتستیز (تعارضگرا)»، ص14-15۔
- ↑ راوندی، تاریخ اجتماعی ایران، 1382شمسی، ج8، ص136۔
- ↑ سلمانی، «تبری»، ص378۔
مآخذ
- ابوافتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان في تفسير القرآن، تصحیح محمدجعفر یاحقی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1376ہجری شمسی۔
- اسماعیلی، مہدی، تولی و تبری از نگاہی دیگر، قم، مرکز پژوہشہای اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
- تبریزی، میرزاجواد، صراط النجاۃ، قم، انتشارات سلمان فارسی، 1416ھ۔
- جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، تصحیح سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1416ھ۔
- خانی آرانی، الہہ، «شاخصہہای فکری و رویکردہای عملی جریان شیعہ وحدتستیز (تعارضگرا)»، فصلنامہ اندیشہ سیاسی در اسلام، شمارہ 31، بہار 1401ہجری شمسی۔
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، بیروت، دار القلم، 1412ھ۔
- راوندی، مرتضی، تاریخ اجتماعی ایران، تہران، انتشارات نگاہ، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
- سلمانی، «تبری»، ص376۔
- شیخ صدوق، محمد بن حسین، الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن حسین، الخصال، تصحیح علیاکبر غفاری، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1404ھ۔
- علوی، سیدعادل، عقائد المؤمنین، قم، مؤسسہ اسلامی تبلیغ و ارشاد، 1437ھ۔
- قاسمی، صالح، مرجعیت موروثی یا تشیع انگلیسی، تہران، نشر سلمان پاک، چاپ دوم، 1394ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
- لاری، سید عبدالحسین، التعلیقۃ علی المکاسب، قم، بنیاد معارف اسلامی، 1418ھ۔
- مازندرانی، محمدصالح، شرح اصول الکافی، بیروت، دار إحیاء الکتاب العربی، 1429ھ۔
- محقق لاہیجی، عبدالرزاق، سرمایہ ایمان، تہران، انتشارات الزہراء، 1372ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء تراث العربی، 1405ھ۔