تبرا
خداشناسی | |
---|---|
توحید | توحید ذاتی • توحید صفاتی • توحید افعالی • توحید عبادی • صفات ذات و صفات فعل |
فروع | توسل • شفاعت • تبرک |
عدل (افعال الہی) | |
حُسن و قُبح • بداء • امر بین الامرین | |
نبوت | |
خاتمیت • پیامبر اسلام • اعجاز • عدم تحریف قرآن | |
امامت | |
اعتقادات | عصمت • ولایت تكوینی • علم غیب • خلیفۃ اللہ • غیبت • مہدویت • انتظار فرج • ظہور • رجعت |
ائمہ معصومینؑ | |
معاد | |
برزخ • معاد جسمانی • حشر • صراط • تطایر کتب • میزان | |
اہم موضوعات | |
اہل بیت • چودہ معصومین • تقیہ • مرجعیت |
تبرّیٰ" یا "تبرّا" دشمنان خدا اور اولیائے خدا کے دشمنوں سے دوری اختیار کرنا ہے یہ ایک کلامی اصطلاح اور اعتقادی تعلیمات کے مطابق خاص طور پر اسلامی فرقوں میں سے اہل تشیع کے ہاں ایک خاص دینی رویہ ہے۔
تبرّا کے معنی
"تبریٰ" بروزن تفعل، فارسی [اردو] میں "تبرا" عربی میں باب تفعل کا مصدر اور بَرَءَ کے مادے سے مشتق اور در اصل "تَبَرُّؤ" ہے۔ تبرا کے معنی لغت میں کسی ایسی چیز سے دوری اختیار کرنے، بیزاری ظاہر کرنے وغیرہ، کے ہیں جس کے قریب رہنا اور مجاورت اختیار کرنا ناپسندیدہ ہو۔ فارسی میں "تبرا جُستن" سے مراد بیزاری ظاہر کرنا مقصود ہے۔[1]۔[2]
تبرا قرآن کریم کی روشنی میں
تبرّا قرآنی اصطلاحات و تعلیمات میں سے ہے۔ قرآن کریم کی ایک سورت کا آغاز ہی لفظ "برائت" سے ہوا ہے جہاں خداوند متعال نے مشرکین سے اپنی اور اپنے رسولؐ کی بیزاری اور برائت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
- "بَرَاءةٌ مِّنَ الله وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ"۔
ترجمہ: "بیزاری ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین سے کہ جن سے تم لوگوں نے معاہدہ کیا تھا"۔[3]
اسی اعلان بیزاری کی بنا پر اس کو "سورہ برائت" بھی گیا ہے۔ قرآن کی 20 سورتوں میں 27 مرتبہ لفظ برائت یا اس کے مشتقات بروئے کار لائے گئے ہیں۔[4] مثال کے طور پر شرک سے بیزاری کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
- "أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ الله آلِهَةً أُخْرَى قُل لاَّ أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ"۔'
ترجمہ: "کیا تم اس بات کے گواہ ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا ہیں؟ کہئے کہ میں تو اس کی گواہی نہیں دیتا کیوں کہ وہ تو بس ایک خدا ہے اور میں اس سے کہ جو تم شرک کرتے ہو، بے تعلق ہوں"۔[5] - "فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ"۔'
ترجمہ: "پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا، کہا یہ میرا پروردگار ہے۔ یہ سب سے بڑا ہے تو جب وہ ڈوب گیا، کہا اے میری قوم والو ! یقینا میں بری ہوں اس سے جو تم شرک کرتے ہو"۔[6]
یا رسول اکرمؐ کی اپنے مخالفین سے اور مخالفین کی آپؐ کے عمل سے بیزاری، کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
- "وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ"۔
ترجمہ: "اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال، تم بے تعلق ہو اس سے جو میں کرتا ہوں اور میں بے سرو کار ہوں اس سے جو تم کرتے ہو"۔[7]
یا آنحضرتؐ کو حکم دیا جاتا ہے:
- "فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ"۔
ترجمہ: "تو اگر وہ آپ کا کہنا نہ مانیں تو کہہ دیجئے کہ میں تمہارے اعمال سے بے تعلق (اور بیزار) ہوں"۔[8]
قرآن کریم نے برائت اور تبرّا کو تقریباً لغوی معنی میں ہی لیا ہے اور "اللہ کے دشمنوں سے مفارقت اور مشرکین اور کفار کے ساتھ عہد و پیمان سے خارج ہونا اور پیروان باطل سے انقطاع اور جدائی" سب کا نقطۂ اشتراک ہے۔[9]
احادیث اور تبرّا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے بھی تبرّا کی اہمیت پر تاکید کی ہے اور برائت (یعنی البغض في اللہ) کو ایمان کے اہم ترین ستونوں (مِنْ اَوْثقِ عُری الايمانِ) میں قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
- "عن ابن عباس انه صلى الله عليه وسلم قال لابي ذر يا ابا ذر أي عرى الايمان اوثق قال الله ورسوله اعلم قال الموالاة في الله والحب لله والبغض في الله"
ترجمہ: ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ نے ابوذر سے مخاطب ہوکر فرمایا: ایمان کا کونسا ستون زیادہ قابل اعتماد اور مستحکم ہو۔ ابوذر نے عرض کیا: خدا اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا: جان لو کہ خدا کی راہ میں محبت اور اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی راہ میں دشمنی [ایمان کا مستحکم ترین اور قابل اعتماد ترین ستون ہے]۔[10]
امام صادق علیہ السلام نے بھی دین خدا کے دشمنوں اور دشمنان خدا کے دوستوں سے برائت و بیزاری کو واجب قرار دیا ہے؛ فرماتے ہیں:
- "من خالف دين الله، وتولى أعداء الله، أو عادى أولياء الله، فالبراءة منه واجبة، كائنا من كان، من أي قبيلة كان"۔
ترجمہ: جو دین خدا کی مخالفت کرے اور دشمنان خدا سے دوستی کرے یا خدا کے دوستوں سے دشمنی کرے تو اس سے برائت و بیزاری واجب ہے خواہ وہ شخص کوئی بھی ہے اور جس قبیلے سے بھی ہو۔[11]
نیز روایات و احادیث تولی اور تبرّا کی معیت و ہمراہی پر بھی تاکید ہوئی ہے۔
اسلامی مذاہب میں تبرّے کی اہمیت
زیادہ تر اسلامی فرقے اور مذاہب قرآن کریم اور احادیث کی تاکید کے پیش نظر، تبرّا کے قائل ہیں اور قرآن کے اس کلی مفہوم اور اس کی ضرورت و اہمیت کے سلسلے میں، ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اللہ کی دشمنی کے مصادیق نیز دین کے دائرے سے خارج ہونے کے سلسلے ان کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں؛ ان میں سے بعض نے دینداری میں اپنے لئے حقانیت کے قائل ہوکر اپنے آپ کو اللہ کے دوستوں کے زمرے میں شمار کرکے اپنے مخالفین کو دین سے خارج، اہل باطل اور دشمنان خدا کے زمرے میں قرار دیا ہے اور ان سے تبرّا کو واجب جانا ہے۔[12]۔ بغدادی (مؤلف الفرق بین الفرق) کے بقول[13]، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رافضیوں (بشمول زیدیہ، امامیہ، کیسانیہ اور غُلات) اور کئی دیگر فرقوں کے بار میں ـ ان کے اسلام سے منتسب ہونے کے باوجود ـ سمجھتے تھے کہ وہ گمراہ اور کافر ہیں اور ان سے تبرّا کرتے اور بیزاری ظاہر کرتے تھے۔ بغدادی کے خیال کو تمام مسلم علماء اور متکلمین کی تائید حاصل نہيں ہے۔[14]، گوکہ اہل سنت کے بعض متاخر علماء، منجملہ علی بن علی بن ابی العزّ حنفی (متوفٰی 792ہجری) نے اپنی کتاب "شرح الطحاویۃ فی العقیدۃ السلفیۃ میں[15] اس کی رائے کی تائید کی ہے۔[16]
تبرّا شیعہ نقطۂ نگاہ سے
"يا علي أنت والائمة من ولدك بعدي حجج الله عزوجل على خلقه، وأعلامه في بريته، من أنكر واحدا منكم فقد أنكرني، ومن عصى واحدا منكم فقد عصاني، ومن جفا واحدا منكم فقد جفاني، ومن وصلكم فقد وصلني ومن أطاعكم فقد أطاعني، ومن والاكم فقد والاني، ومن عاداكم فقد عاداني لانكم مني، خلقتم من طينتي وأنا منكم" (ترجمہ: یا علی! تم اور تمہاری اولاد میں سے آنے والے ائمہ خدائے عزّ وجلّ کی مخلوقات پر اس کی حجتیں ہیں اور اس کے اعلام اور نشانیاں ہیں اس کے بندوں کے درمیان۔ پس جس نے ان میں سے ایک کا انکار کیا گویا اس نے میرا انکار کیا ہے اور جس نے ان میں سے ایک کی نافرمانی کی گویا اس نے میری نافرمانی کی ہے اور جس نے ان پر ظلم کیا گویا اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔ جو تم سے منسلک ہوا گویا وہ مجھے سے منسلک و متصل ہوا ہے اور جس نے تمہاری اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی ہے اور جس نے ان محبت اور پیروی کی گویا اس نے میری پیروی اور مجھ سے محبت کی ہے اور جس نے تمہارے ساتھ دشمنی کی گویا اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے۔ [تمہارا دوست میرا دوست اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے] کیونکہ تم مجھ سے ہو، میری طینت سے خلق کئے گئے ہو اور میں تم سے ہوں۔)
حضرت محمدؐ، شیخ صدوق، كمال الدين، ص413۔
شیعیان آل رسولؐ تبرّا کو تولی کے ہمراہ ـ جس کا مفہوم تولی کے مفہوم کے متضاد ہے ـ کو فروع دین کا جزء اور انہیں واجب سمجھتے ہیں اور تبرّا سے ان کی مراد اہل بیت رسولؐ کے دشمنوں سے دشمنی اور ان سے اظہار برائت و بیزاری، ہے۔[17] [18]
ابن ابی الحدید کا کہتے ہیں: "پوری تاریخ اسلام میں تبرّا یا تبرا کا سرچشمہ یا تو کلامی اور اعتقادی مباحث ـ منجملہ مسئلۂ امامت اور رسول خداؐ کا جانشینی کا مسئلہ تھا یہ پھر سیاسی مقاصد و تنازعات اور کبھی تو افراد کے ذاتی محرکات اس کے موجبات فراہم کرتے رہے ہیں"۔[19] دریں اثناء تبرّا کو ـ تولی کے ساتھ مل کر ـ اصولی طور پر مذہب شیعہ میں خاص منزلت اور معنی و مفہوم حاصل ہے اور یہ دونوں اس مذہب کے پیروکاروں کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہیں۔
شیعہ امامت منصوصہ کے اعتقاد کو اصول دین کا جزء سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ امامت (منصوص ہونے کی شرط کے ساتھ) رسالت کا تسلسل اور اسلام کے حفظ و بقاء کی ضامن ہے اور رسول اکرمؐ کے بعد بارہ امام معصوم اور اللہ تعالی کی جانب سے منصوص ہیں اور رسولؐ نے ان کا تعارف کرایا ہے اور ان کے نام لے کر ان کی امامت و ولایت کا اعلان کیا ہے۔
رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور ان احادیث میں امام علیؑ سے امام مہدیؑ تک، تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید ہوئی ہے۔[20]۔[21]۔[22]۔[23] جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورہ نساء کی آیت 59 ("يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ"۔؛ ترجمہ: اے ایمان لانے والو!فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں فرماں روائی کے حق دار ہیں)۔ نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہؑ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛[24]۔[25]۔[26] علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 ("إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"۔؛ ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے)) نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں۔[27]۔[28] معروف سنی عالم دین سلیمان القندوزی الحنفی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔[29]
شیعہ امامت منصوصہ کے اعتقاد کو اصول دین کا جزء سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ امامت (منصوص ہونے کی شرط کے ساتھ) رسالت کا تسلسل اور اسلام کے حفظ و بقاء کی ضامن ہے اور رسول اکرمؐ کے بعد بارہ امام معصوم اور اللہ تعالی کی جانب سے منصوص ہیں اور رسولؐ نے ان کا تعارف کرایا ہے اور ان کے نام لے کر ان کی امامت و ولایت کا اعلان کیا ہے اور ہر امام ن اپنے بعد آنے والے امام کی امامت کا اعلان کیا ہے۔ ائمہؑ دین کو ہر قسم کی تحریف سے تحفظ فراہم کرنے والے اور عقائد کو کمی و بیشی اور الٹ پلٹ سے محفوظ رکھنے والے ہیں۔[30] اس اعتقاد کی بنیاد پر ائمہؑ کے دشمن ـ یعنی وہ لوگ جنہوں نے ان کی امامت کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور نتیجۃً اسلام کی اصل اور خالص صورت کے نفاذ کے راستے میں روڑے اٹکائے یا پھر اصولی طور پر اہل بیت رسولؐ سے بغض اور کینہ رکھتے تھے ـ خدا کے دشمن ہیں اور ان سے تبرّا اور بیزاری کا اظہار واجب ہے۔[31]۔[32]
علاوہ ازیں، شیعہ علماء اور مفسرین کی ایک جماعت نے شیعہ اور سنی منابع میں منقول روایات و احایث سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سورہ ہود کی آیات 18 اور 19[33] سورہ انفال کی آیت 25،[34] اور سورہ مجادلہ کی آیت 22[35] حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور ان آیات کریمہ میں آپؑ کے دشمنوں کو خدا اور رسول خداؐ کے دشمن اور ان سے تبرّا اور اعلان بیزاری کو واجب قرار دیا گیا ہے۔[36]۔ [37] مثال کے طور پر شیخ طوسی سورہ انفال کی آیت 25 کے بارے میں کہتے ہیں: حسن بصری اور ابن عباس اور سدی اور مجاہد کہتے ہیں: یہ آیت اصحاب جمل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قتادہ کا کہنا ہے کہ زبیر نے کہا: ہم میں سے کوئی بھی فرد اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق نہيں سمجھتا تھا حتی کہ ہم ہم خود اس کا حقیقی مصداق ٹہرے۔ تفسیر قمی میں علی بن ابراہیم قمی نے کہا ہے کہ یہ آیت طلحہ اور زبیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے خلاف لڑے اور ان پر ظلم و ستم روا رکھا، تفسیر مجمع البیان کے مفسیر امین الاسلام طبرسی حاکم ابوالقاسم حسکانی سے، وہ سید ابوالحمد مہدی بن نزار الحسینی سے اور وہ دس واسطوں سے ابن عباس سے نقل کرتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرمؐ نے فرمایا: جو بھی میرے بعد علی علیہ السلام کو اذیت و آزار پہنچائے گویا اس نے میری اور مجھ سے پہلے گذرنے والے تمام انبیاء کی نبوت و رسالت کا انکار کیا ہے۔ تفسیر برہان کے مؤلف سید ہاشم بحرانی کہتے ہیں: "ابو عبداللہ محمد بن علی بن السراج" ـ جو عامہ (یعنی اہل سنت) کے پیروکار ہیں ـ مرفوعاً عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں: اے ابن مسعود! جان لو کہ جو بھی علی پر ظلم و ستم روا رکھے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے میری اور مجھ سے پہلے گذرنے والے انبیاء کی نبوت کا انکار کیا ہے۔[38]
رسول خداؐ اور ائمہ علیہم السلام سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں تبرّا یا برائت کا لفظ موجود ہے یا پھر تبرّا کے معانی اور مفاہیم پر مشتمل ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہؐ اعلی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا:
- "اَنـَا سِلْمٌ لِمَنْ سالَمْتَ و حَرْبٌ لِمَنْ حارَبْتَ"۔
ترجمہ: میں ہر اس شخص کے ساتھ حالت صلح و آشتی میں ہوں جس کے ساتھ تم حالت صلح و آشتی میں ہو اور حالت جنگ میں ہوں ہر اس شخص کے ساتھ جس کے ساتھ تم حالت جنگ میں ہو۔[39]۔[40]۔[41]۔[42]
رسول اللہؐ نے فرمایا:
- "أنا السماء وأما البروج فالائمة من أهل بيتي وعترتي، أولهم علي وآخرهم المهدي، وهم إثنا عشر"۔
ترجمہ: میں آسمان ہوں اور بروج پس وہ ائمہ ہیں میرے اہل بیت سے ہیں، جن میں پہلے علی ہیں اور آخری مہدی ہیں، اور ان کی تعداد 12 ہے۔[43]
یا آپؐ نے فرمایا: یہ کہ میرے بعد، "ائمہ، 12 ہیں اور ان میں سے ہر کا انکار، میرا انکار ہے"۔ نیز آپؐ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا:
- "أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ"۔
ترجمہ: میں حالت جنگ میں ہوں تمہارے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ اور حالت صلح و امن میں ہیں تمہارے ساتھ صلح و امن میں رہنے والوں کے ساتھ۔[44]۔[45]۔[46]۔[47]۔[48]۔[49]۔[50]
ائمہ نے مختلف مواقع میں تبرّا کو اسلام اور ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے اور اس کو واجب قرار دیا ہے اور اس واجب حکم کے مصادیق کو بیان فرمایا ہے: "جن لوگوں نے عترت پر ظلم روا رکھا اور ان کی حرمت شکنی کی، سنت رسولؐ کو تبدیل کرکے رکھ دیا، اصحاب رسولؐ میں سے بہترین افراد کو جلاوطن کیا، فقراء و مساکین کے اموال کو صاحب ثروت افراد کے درمیان بانٹ دیا، ناکثین (جمل کے عہد شکن)، قاسطین (معاویہ اور اس کے اعوان و انصار)، مارقین (خوارج)، گمراہی کےتمام پیشوا اور ستمگر حکمران، حضرت علیؑ اور ائمہ اور اہل بیت علیہم السلام کے تمام قاتلین۔[51]۔[52]
جن سے بیزاری اختیار کی جائے
خداوند متعال نے قرآن کریم کی کئی سورتوں میں واضح فرمایا ہے کہ شرک اور بت پرستی اور شرک اور گمراہی کے پیشواؤ اور ان کے معبود تبرّا کے مصادیق ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
- "قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُُ"۔
ترجمہ: تم لوگوں کے لئے بہت اچھی مثال عمل ہے ابراہیمؑ اور ان کے ساتھ والوں میں جب انھوں نے اپنی قوم والوں سے کہا کہ یقینا ہم بےتعلق (بیزار) ہیں تم سے اور اس سے جس کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو، ہم تم سے منکر ہیں اور ہماری اور تمہاری دشمنی اور منافرت ہمیشہ کے لئے نمایاں ہو گئی ہے جب تک کہ تم ایمان لاؤ خدائے یکتا پر۔[53]
سورہ ممتحنہ کے آغاز میں خداوند متعال نے خدا کے دشمنوں سے سختی سے باز رکھا ہے اور اس آیت میں اللہ نے ایک مثالی نمونہ ہمارے سامنے رکھا ہے جو قابل احترام ہے اور یہ نمونہ حضرت ابراہیمؑ کی ذات ہے جنہوں نے مشرکوں کی قوم سے مخاطب ہوکر فرمایا: ہم نہ تمہیں تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی تمہارے دین و آئین کو قبول کرتے ہیں اور اس سے بھی بالاتر یہ کہ "ہم تم سے اور تمہارے بتوں سے نفرت کرتے ہیں" اور نہایت فیصلہ کن انداز میں ـ اور کسی پردہ پوشی کے بغیر فرماتے ہیں: "ہم تم سے بیزاری اور علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں"۔
اسی سورت میں دوسرے رتبے پر ابراہیمؑ اور ان کے پیروکاروں کی متابعت اور پیروی اور ان سے نمونۂ عمل حاصل کرنے پر تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
- "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ"۔
ترجمہ: تم مسلمانوں کے لئے زندگی کے سلسلے میں اچھا نمونۂ عمل اور اسوہ قرار ہے، اس فرد کے لئے جو اللہ اور روز آخرت سے امید وابستہ کئے ہوئے ہے اور جو روگردانی کرے [اور دشمنان خدا کے ساتھ دوستی کرے اس نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے اور خدا ان کا ضرورتمند نہیں ہے] کیونکہ وہ سب سے بےنیاز اور ہر تعریف کا حقدار ہے۔[54]
اس نکتے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ شیعیان اہل بیتؑ کی نظر میں، ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر غیر شیعہ مسلمان تبرّا کے وجوب کا مصداق ہو بلکہ صرف وہ افراد اس حکم کا مصداق ہیں جو روایات و احادیث اور فقہی منابع کے مطابق عترت رسولؐ کی حقانیت کو جان کر بھی ان کی نسبت "نصب و عداوت" کا ارتکاب کررہے ہیں (اور ان کے خلاف دشمنی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں) یا غلات کی مانند حضرت علیؑ یا کسی بھی دوسرے انسان کی الوہیت اور خدائی کے قائل ہوئے ہیں، یا پھر مفوضہ کی مانند اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ خلقت، روزی دینے، زندگی دینے یا موت سے ہمکنار کرنے کا کام رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کو واگذار کیا گیا ہے!۔[55]
تبرّا کی روش
تبرّا کے اظہار کے روشیں اہل تشیُع اور اہل تسنُن کے ہاں بہت گوناگوں اور مختلف ہیں۔ مختلف زمانوں میں حکومتوں نے تبرّا کو وسعت دینے یا محدود کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
یہ نکتہ قابل غور و توجہ ہے کہ علمائے شیعہ کی روش ابتداء ہی سے ـ کم از کم دشمنوں سے تبرّا کے سلسلے میں ـ حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کے مطابق اس اصول پر مبنی رہی ہے کہ مسلمانوں کی وحدت اور ان کے درمیان روابط کی تقویت اور اسلامی مذاہب کی تقریب و اتحاد کی ضرورت کی رعایت کی جائے۔
گذشتہ اور معاصر شیعہ اکابرین ـ جیسے شیخ مفید، سید مرتضی اور شیخ طوسی، نیز میرزا حسن شیرازی، میرزا محمد حسین نائینی، آیت اللہ بروجردی اور امام سید روح اللہ موسی خمینی اور موجودہ زمانے کے مراجع تقلید کی سیرت و روش اور فقہی احکام و فتاوی میں اس سلسلے میں بہت سے شواہد ملتے ہیں۔ ایسی احادیث و روایات بھی کم نہیں ہیں جن میں دوسرے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور بدگمانی کی فضا قائم کرنے سے باز رکھا گیا ہے چنانچہ یہ احادیث [اور زمانے کے حالات و واقعات: دشمنان اسلام کی نت نئی سازشیں اور امت کے اختلاف کو بنیاد بنا کر اس کے دشمنوں کی ریشہ دوانیاں، جو سب طشت از بام ہوئی ہیں] شیعہ علماء اور مراجع کی اس روش میں مؤثر رہی ہیں۔[56]۔
بايں ہمہ، بعض شیعہ حکومتوں ـ منجملہ آل بویہ، فاطمیون، صفویہ، عادل شاہیوں اور قطب شاہیوں ـ کے ادوار میں تبرّا کی بعض اشکال تاریخ میں ثبت ہوئی ہیں جن کے لئے ان پاورقی حاشیوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے:[57]۔[58]۔[59]۔[60]۔[61]۔[62]۔[63]۔[64]۔[65]۔[66] دوسری جانب سے وہابیوں کے سلفی فرقے نے تبرّا کے سلسلے میں بعض خونی اور وحشیانہ اقدامات انجام دیئے؛ منجملہ نجف، کربلا جیسے مقدس شہروں پر حملے، ائمہؑ کے مزارات و مراقد نیز صحابہ اور اسلامی مذاہب کے اکابرین کی قبور اور مکہ معظمہ میں واقع رسول اللہؐ کے مقام پیدائش کے انہدام سمیت متعدد اقدامات وہابی تبرّا کے مظاہر ہیں؛ اس سلسلے میں ان پاورقی حاشیوں سے رجوع کریں:[67]۔[68]۔[69]
تبرّے کا فلسفہ
اللہ تعالی کے تمام احکامات انسان کی حقیقی اور بنیادی فطرت کے عین مطابق وضع ہوئے ہیں۔ انسان وہ موجود ہے جو معرفتی قوتوں کے ساتھ ساتھ مثبت اور منفی احساسات و جذبات کا مجموعہ بھی ہے۔ فطری امر ہے کہ غصہ، غم اور بکاء (رونے) وغیرہ جیسی منفی چیزیں، جو انسان کے اندر موجود ہیں، قطعی طور بعض خاص حکمتوں پر مبنی ہیں اور ان کے کچھ فوائد بھی ہیں؛ ورنہ تو منفی قوتیں ہمارے وجود میں بےاثر اور لغو ہوتیں۔
انسان کے وجود کو اگر محبت کی قوت عطا کی گئی ہے تو اس کے برعکس بغض اور دشمنی کی قوت بھی ودیعت رکھی گئی ہے۔ جس طرح کہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اس شخص سے محبت کرے جو اس کی خدمت کرتا ہے؛ اسی طرح اسی فطرت کا تقاضا ہے کہ جو اس کو نقصان پہنچاتا ہے اس سے دشمنی کرے۔ البتہ مؤمن کے لئے مادی اور دنیاوی نقصانات کافی حد تک غیر اہم ہیں مگر جو دشمن انسان کا دین چھین لے، اس کی ابدی سعادت سلب کرے، اس کا جرم درگذر کے قابل نہیں ہے؛ کیونکہ خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
- "إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرُِ"۔
ترجمہ: یہ حقیقت ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو وہ اپنی جماعت کو اس کی دعوت دیتا ہے کہ وہ دوزخ والے ہو جائیں۔[70]
اگر انسان اولیائے الہی سے محبت و دوستی کرنی چاہئے تو خدا کے دشمنوں کے ساتھ بھی دشمنی کرنی چاہئے۔ یہ انسانی فطرت ہے جو اس کے کمال و سعادت کی ضامن ہے۔ اگر خدا کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہ ہو، تو تدریجی طور پر قدم بقدم اور رفتہ رفتہ انسان کا رویہ ان کے ساتھ دوستانہ ہوجائے گا، اور معاشرت کی بنا پر ان کے رویوں اور روشوں کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی باتوں کو قبول کرلیتا ہے اور رفتہ رفتہ ایک نیا شیطان شیاطین کے جرگے میں شامل ہوجاتا ہے۔
دشمنوں سے دشمنی، نقصانات اور خطرات کے مقابلے میں ایک مدافعتی نظام کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ انسان کا بدن ایک طرف سے قوت جاذبہ رکھتا ہے اور مفید مواد کو اپنی طرف جذب کرلیتا ہے، ایک قوت دافعہ اور مدافعتی نظام بھی رکھتا ہے جو زہریلے مواد اور جراثیموں کو دفع کردیتا ہے۔ اگر انسانی جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہو، اس کے اندر جراثیم نشوونما پاتے ہیں۔ تمام زندہ موجودات کے اندر قوت مدافعت موجود ہے۔ انسان کی روح میں بھی اس قسم کی قوت کا ہونا ضروری ہے تاکہ ہم ان لوگوں کو پسند کریں جو ہمارے لئے مفید ہیں، ان سے محبت کریں اور ان کے قریب جائیں، ان کے علم و کمال، ادب و معرفت اور اخلاق سے فیضیاب ہوجائیں اور دوسری طرف سے ان لوگوں سے دشمنی کریں جو معاشرے کے مقدرات کے لئے مضر ہیں۔
مزید مطالعہ
حوالہ جات
- ↑ راغب اصفهانی؛ المفردات، ابن منظور، لسان العرب؛ صفی پوری، منتهی الارب فی لغة العرب، ذیل "برء"
- ↑ نفیسی، فرهنگ نفیسی، داعی الاسلام، فرهنگ نظام، ذیل "تبرّا"۔
- ↑ سورہ توبہ آیت 1۔
- ↑ مصطفوی؛ عبدالباقی، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، ذیل "برء"۔
- ↑ سورہ انعام آیت 19۔
- ↑ سورہ انعام آیت 78۔
- ↑ سورہ یونس آیت 41۔
- ↑ سورہ شعراء آیت 216۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج 5، ص3ـ4؛ عبدالباقی، وہیں۔
- ↑ متقی الهندی، کنزالعمال ج 1، ص257۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج 66، ص242۔
- ↑ ابن بابویه، (شیخ صدوق)، الاعتقادات فی دین الامامیة، 1414ہجری- 1993عیسوی، ص111۔
- ↑ قس د۔ اسلام، دوسری ایڈیشن، ذیل "ف"Tabarru؛ نیز رجوع کریں: ایرانیکا، ذیل a" ف ¦"Bara
- ↑ ص 16، 278، 281
- ↑ نمونے کے طور پر رجوع کریں: عضدالدین ایجی، المواقف فی علم الکلام، ص394ـ 395
- ↑ ص 398ـ403۔
- ↑ نیز رجوع کریں: محسن امین، کشف الارتیاب، ص148؛ محمود شکری آلوسی، تاریخ نجد، ص80؛ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ، فتح المجید، ص501 ـ 505۔
- ↑ ابن بابویه، 1412، ص78ـ81۔
- ↑ عبدالرزاق بن علی لاهیجی، سرمایة ایمان، ص154ـ 155۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 4، ص54، 56 ـ 58۔
- ↑ مفید، الاختصاص، ص211۔
- ↑ منتخب الاثر باب هشتم ص97۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، ج2، ص182-181۔
- ↑ حر عاملی، اثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار ج 23 ص290۔
- ↑ شیخ حر عاملی، إثبات الهداة بالنصوص والمعجزات، ج 3، ص 123۔
- ↑ المناقب ابن شهر آشوب، ج1، ص 283۔
- ↑ بحارالأنوار ج36 ص337۔
- ↑ ابوالقاسم علی بن محمد بن علی خزاز قمی رازی، كفاية الأثر في النص على الأئمة الإثنی عشر، ص 157۔
- ↑ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔
- ↑ مثال کے طور پر امام کی شان و منزلت جاننے کے لئے امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث سے رجوع کریں: کلینی، الکافی، ج 1، ص198ـ203۔
- ↑ لاهیجی، سرمایة ایمان، ص154ـ 155.
- ↑ ابن بابویه، 1412، ص81۔
- ↑ "وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِباً أُوْلَـئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَى رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الأَشْهَادُ هَـؤُلاء الَّذِينَ كَذَبُواْ عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (18) الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجاً وَهُم بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ(19)"۔؛ ترجمہ: اور کون زیادہ ظالم ہو گا اس سے کہ جو اللہ پر جھوٹ تہمت لگائے؟ یہ لوگ پیش ہوں گے اپنے پروردگار کے سامنے اور گواہی دینے والے کہیں گے کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر غلط تہمت لگائی، آگاہ ہو کہ اللہ کی لعنت ہے۔ ان ظالموں پر (18) جو اللہ کی راہ سے روکیں اور اسے ٹیٹرھا کرنے کی کوشش کریں اور وہ آخرت کے منکر تھے(19)،
- ↑ "وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ"۔؛ ترجمہ: اور بچو اس ابتلا سے کہ جو بلاشبہ انہی لوگوں سے مخصوص نہیں رہے گا کہ جو تم میں سے ظلم و تعدی کے مرتکب ہیں اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ سخت سزا والا ہے۔
- ↑ "لَا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءهُمْ أَوْ أَبْنَاءهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ ترجمہ: کسی جماعت کو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہو، نہیں پاؤ گے کہ وہ محبت رکھیں ان سے جو اللہ اور اس کے پیغمبروں کے مخالف ہیں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا ان کے قبیلے والے ہوں۔ یہ وہ ہوں گے کہ جن کے دلوں میں اس نے ایمان کو نقش کر دیا ہے اور ان کی تقویت کی ہے اپنی طرف کی روح سے اور انہیں داخل کرے گا ان بہشتوں میں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں۔ یہ اللہ کی جماعت والے ہوں گے، یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں۔
- ↑ ابن بابویه، 1412، ص77ـ 78۔
- ↑ حسکانی، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، ج2، ص329۔
- ↑ محمدباقر محقق، نمونه بينات در شأن نزول آيات از نظر شیخ طوسی و سایر مفسرین خاصه و عامه، ص 377۔
- ↑ ابن بابویه، 1412، ص78ـ 81۔
- ↑ ابن بابویه، 1410، ص125۔
- ↑ موفق بن احمد اخطب خوارزم، المناقب، ص61۔
- ↑ حرّ عاملی، ج 16، ص177ـ 183۔
- ↑ سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی، ینابیع المودہ، دار الاسوة للطباعة والنشر 1416ہجری، ج3 ص 254۔
- ↑ ابن تيمية، منهاج السنة ج4 ص496۔
- ↑ احمد بن حنبل، المسند ج2 ص443۔
- ↑ الترمذي، سنن، كتاب المناقب، فضائل فاطمة ج5 ص656۔
- ↑ ابن ماجه، السنن، فضائل الحسن والحسين ج1 ص52۔
- ↑ سليمان بن احمد طَبَرانى، المعجم الكبير ج3 ص40 رقم: 2619، 2620، 2621۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرك على الصحيحين ج3 ص149۔
- ↑ خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاريخ بغداد ج7 ص137۔
- ↑ شیخ صدوق، ابن بابویه، الاعتقادات فی دین الامامیة، 1362 ہجری شمسی، ج2، ص607ـ 608۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ج 10، ص358، ج 65، ص263۔
- ↑ سورہ ممتحنه، آیت 4۔
- ↑ سورہ ممتحنه، آیت 6۔
- ↑ رجوع کریں: ابن بابویه، الاعتقادات فی دین الامامیة، 1412، ص71ـ76؛طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، ج 1، ص67ـ 68؛نراقی، مستند الشیعة فی احکام الشریعة، ج 1، ص204۔
- ↑ نمونے کے طور پر رجوع کریں:ابن بابویه، الاعتقادات فی دین الامامیة، 1412، ص82
- ↑ همدانی، تکملة تاریخ الطبری ج 1، ص183، 187۔
- ↑ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج 14، ص150ـ 151۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل في التاریخ، ج 8، ص542 ـ 543۔
- ↑ ابن خلّکان، وفیات الاعیان، ج 1، ص407۔
- ↑ ذهبی، وفیات المشاهیر والاعلام 351ـ 380 ه ، ص8، 248۔
- ↑ مقریزی،إمتاع الأسماع 1387، ج 1، ص142، 145ـ146۔
- ↑ مقریزی، اتعاظ الحنفا، 1270، ج 2، ص286ـ 287، 341ـ342۔
- ↑ فرشته، تاریخ فرشتہ ج 2، ص11، 109ـ113۔
- ↑ عزّاوی، تاریخ العراق بین احتلالین، ج 3، ص341ـ 343۔
- ↑ نصرالله فلسفی، زندگانی شاه عباس اول، ج 3، ص889، 894، 895۔
- ↑ آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرها ج 1، ص324ـ326۔
- ↑ امین، کشف الارتیاب ص13ـ 14، 22ـ23۔
- ↑ کرکوکلی، دوحة الوزراء فی تاریخ وقائع بغداد الزوراء، ص212)
- ↑ سورہ فاطر، آیت 6۔
مآخذ
- قرآن کریم۔
- عبد الرحمن بن حسن آل شیخ، فتح المجید: شرح کتاب التوحید، چاپ عبد العزیز بن عبدالله بن باز، بیروت 1405ہجری/1985عیسوی۔
- جعفر بن باقر آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرها، بیروت 1406ہجری/1986عیسوی۔
- محمود شکری آلوسی، تاریخ نجد، چاپ محمد بهجة الاثری، [قاهره 1998عیسوی]۔
- ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، چاپ محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره 1385ـ1387ہجری/1965ـ1967عیسوی، چاپ افست بیروت]بیتا]۔
- ابن ابی العز، شرح الطحاویة فی العقیدة السّلفیة، چاپ احمد محمد شاکر، قاهره: دار التراث۔
- ابن اثیر، الکامل في التاریخ۔
- ابن بابویہ، الاعتقادات فی دین الامامیة، چاپ غلام رضا مازندرانی، قم 1412ہجری۔
- همو، فضائل الشیعة، صفات الشیعة، و مصادقة الاخوان، قم 1410 ہجری۔
- همو، کتاب الخصال، چاپ علی اکبر غفاری، قم 1362 ہجری شمسی۔
- ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت 1412ہجری/1992عیسوی۔
- ابن خلّکان۔ ابن سعد، ترجمة الحسین و مقتلہ علیہ السلام، من القسم غیرالمطبوع من کتاب الطبقات الکبیر لابن سعد، چاپ عبدالعزیز
- طباطبائی، تراثنا، سال 3، ش 1 (محرم ـ ربیع الاول 1408ہجری)۔
- ابن منظور، لسان العرب۔
- موفق بن احمد اخطب خوارزم، المناقب، قم 1417 ہجری۔
- علی بن اسماعیل اشعری، کتاب مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلّین، چاپ هلموت ریتر، ویسبادن 1400ہجری/1980عیسوی۔
- محسن امین، کشف الارتیاب، تهران 1347ہجری شمسی۔
- عبد القاهر بن طاهر بغدادی، الفرق بین الفرق، چاپ محمد محیی الدین عبد الحمید، بیروت: دار الکتب العلمیہ] بیتا]۔
- محسن بن تنوخی، نشوار المحاضرة و اخبار المذاکرة، چاپ عبود شالجی، بیروت 1391ـ1393ہجری/1971ـ1973عیسوی۔
- حرّ عاملی، اثبات الهداة.
- عبیدالله بن عبدالله حسکانی، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، چاپ محمد باقر محمودی، تهران 1411ہجری/1990عیسوی۔
- محمد علی داعی الاسلام، فرهنگ نظام، چاپ سنگی حیدرآباد دکن 1305ـ 1318 ہجری شمسی، چاپ افست تهران 1362ـ 1364ہجری شمسی۔
- احمد بن داود دینوری، الاخبار الطوال، چاپ عبدالمنعم عامر، قاهره 1960عیسوی، چاپ افست قم 1368ہجری شمسی۔
- محمد بن احمد ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، حوادث و وفیات 351ـ380 ه، بیروت 1409ہجری/1989عیسوی۔
- حسین بن محمد راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سید کیلانی، تهران ] 1332 ہجری شمسی]۔
- محمد بن عبدالکریم شهرستانی، کتاب الملل و النحل، چاپ محمد بن فتح الله بدران، قاهره ] 1375ہجری/ 1956عیسوی]، چاپ افست قم 1367ہجری شمسی۔
- عبدالرحیم بن عبدالکریم صفی پوری، منتهی الارب فی لغة العرب، چاپ سنگی تهران 1297ـ 1298ہجری شمسی چاپ افست 1377ہجری شمسی۔
- محمد بن یحیی صولی، اخبار الراضی بالله و المتقی بالله، چاپ هیورث دن، بیروت 1399ہجری/ 1979عیسوی۔
- محمد کاظم بن عبد العظیم طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، بیروت 1404ہجری/1984عیسوی۔
- طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی.
- طبری، تاریخ الأمم والملوک۔
- محمد فؤاد عبد الباقی، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، قاهره 1364ہجری۔
- عباس عزّاوی، تاریخ العراق بین احتلالین، بغداد 1353ـ1371ہجری/ 1935ـ1956عیسوی، چاپ افست قم 1369ہجری شمسی۔
- عبد الرحمن بن احمد عضد الدین ایجی، المواقف فی علم الکلام، بیروت: عالم الکتب، ] بیتا]۔
- محمد قاسم بن غلام علی فرشتہ، تاریخ فرشته، یا، گلشن ابراهیمی، لکهنو 1281ہجری۔
- نصرالله فلسفی، زندگانی شاه عباس اول، تهران 1364ہجری شمسی۔
- رسول کرکوکلی، دوحة الوزراء فی تاریخ وقائع بغداد الزوراء، نقلہ عن الترکیة موسی کاظم نورس، قم 1372 ہجری شمسی۔
- کلینی، الکافی۔
- عبدالرزاق بن علی لاهیجی، سرمایة ایمان، تهران 1362 ش۔
- علی بن حسام الدین متقی، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، حیدرآباد دکن 1364ـ1384/ 1945ـ 1975۔
- مجلسی، بحار الانوار۔
- مسعودی، مروج الذهب۔
- حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تهران 1360ـ1371 ہجری شمسی۔
- احمد بن علی مقریزی، اتعاظ الحنفا، ج 1، چاپ جمال الدین شیال، قاهره 1387ہجری 1967عیسوی۔
- همو، کتاب المواعظ و الاعتبار بذکر الخطط والا´ثار، المعروف بالخطط المقریزیة، بولاق 1270ہجری، چاپ افست قاهره] بیتا]۔
- احمد بن محمد مهدی نراقی، مستند الشیعة فی احکام الشریعة، ج 1، مشهد 1415ہجری۔
- علی اکبر نفیسی، فرهنگ نفیسی، تهران 1355ہجری شمسی۔
- محمد بن عبدالملک همدانی، تکملة تاریخ الطبری، ج 1، چاپ البرت یوسف کنعان، بیروت 1961عیسوی۔
- یاقوت حموی، معجم الادباء، مصر 1355ـ1357ہجری/ 1936ـ 1938عیسوی، چاپ افست بیروت] بیتا]۔
- Encyclopaedia Iranica, s.v. "Bara¦ Ýa" (by E. Kohlberg); EI 2, s.v. "`Tabarru" (by J. Calmard).