زیارت آل یاسین

ویکی شیعہ سے

زیارت آل یاسین، امام زمانہ(عج) کے مشہور زیارت ناموں میں سے ایک ہے جس کا آغاز جملہ "سلامٌ عَلی آلِ یاسین" سے ہوتا ہے۔ یہ زیارت نامہ دو طریقوں سے نقل ہوا ہے؛ اس زیارت کے مشہور راوی ابوجعفر محمد بن عبداللہ حمیری قمی ہیں جو غیبت صغری کے آخری دور میں گذرے ہیں اور امام زمانہ(عج) کے ساتھ ان کے متعدد مکاتبات منقول ہیں جن میں سے ان کا ایک مراسلہ وہ ہے جس کے جواب میں ایک توقیع امام(عج) کی جانب سے وارد ہوئی ہے جو زیارت آل یاسین پر مشتمل ہے۔

زیارت آل یاسین حدیث اور دعا کی اہم کتب میں منقول ہے اور بعض علماء کی تصریح کے مطابق، یہ امام زمانہ(عج) کی بہترین زیارتوں میں سے ایک ہے اور اس کو کسی بھی وقت پڑھا جاسکتا ہے۔

دعا و مناجات

زیارت کی سند

زیارت آل یاسین دو مآخذ سے ہم تک پہنچی ہے اور دونوں مآخذ میں منقولہ زیارت کے درمیان کافی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے:

محمد بن عثمان عمری کی روایت

اس زیارت کی قدیم ترین روایت امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان العَمری (یا العَمرِوی) نے نقل کی ہے۔ ابن المشہدی نے اس زیارت کو المزار الکبیر میں دعائے ندبہ کے بعد نقل کیا ہے۔[1] سید بن طاؤس نے بھی اس کو مصباح الزائر میں نقل کرتے ہوئے اس کو دعائے ندبہ کا نام دیا ہے۔[2]

ابن المشہدی نے اس زیارت کے لئے کئی اسناد بیان کی ہیں جن میں سے بیشتر اسناد میں کم از کم ایک راوی ضعیف یا غیر معروف پایا جاتا ہے گوکہ وہ خود اپنے تمام راویوں کو ثقہ اور معتبر متعارف کراتے ہیں۔ ان اسناد میں سے ایک میں ابوالمفضل شیبانی پائے جاتے ہیں جو بعض اصولوں کی رو سے قابل اعتماد ہیں چنانچہ یہ سند حَسَن ہوگی۔[3]

زیارت آل یاسین سے اقتباس

أُشْهِدُكَ يَا مَوْلايَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ لا حَبِيبَ إِلا هُوَ وَأَهْلُهُ وَأُشْهِدُكَ يَا مَوْلايَ أَنَّ عَلِيّاً أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ حُجَّتُهُ وَالْحَسَنَ حُجَّتُهُ وَالْحُسَيْنَ حُجَّتُهُ وَعَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حُجَّتُهُ وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ وَجَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ حُجَّتُهُ وَمُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ حُجَّتُهُ وَعَلِيَّ بْنَ مُوسَى حُجَّتُهُ وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ وَعَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ حُجَّتُهُ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ حُجَّةُ اللَّهِ

نام نویسنده، مفاتیح الجنان

ابوجعفر حمیری کی روایت

اس زیارت پر مشتمل مشہور روایت کے راوی ابو جعفر محمد بن عبداللہ بن جعفر حِمْیَری ہیں جن کی وثاقت پر علمائے رجال و حدیث نے است که علمای علم رجال و حدیث، نے مہر تصدیق ثبت کی ہے اور ان کا تذکرہ اکرام و احترام کے ساتھ کیا ہے۔[4] انھوں نے کئی کتب بھی تالیف کی ہیں جن میں سے کوئی بھی بظاہر دستیاب نہیں ہے اور چونکہ غیبت صغری کے زمانے کے علماء میں سے ہیں چنانچہ انھوں نے امام زمانہ(عج) کے ساتھ مکاتبات و مراسلات کا تبادلہ بھی کیا ہے۔ یہ زیارت کتاب طبرسی، احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج علی اہل اللجاج میں مرسل صورت میں نقل ہوئی ہے۔[5] علامہ مجلسی نے بھی بحارالانوار کے ضمن میں تین مواقع پر اس زیارت کو نقل کیا ہے۔[6]۔[7]۔[8] شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں امام زمانہ(عج) کے لئے جو زیارت سب سے پہلے نقل کی ہے وہ زیارت آل یاسین ہے۔

مضامین و مندرجات

(نقل مشہور والی) اس زیارت کے مختلف فقروں کا آغاز سلام سے ہوتا ہے: پہلا سلام آل یاسین (اور عترت رسول) کو، اور اگلے فقروں میں ہر سلام امام مہدی(عج) کے کسی خاص عنوان کے لئے ہے۔ اس زیات کا ایک اہم حصہ اسلامی اور شیعي عقائد کی طرف اشارہ ہے اور زائر کے لئے ان پر ایمان رکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے: توحید، نبوت حضرت محمد(ص)، ائمہ میں سے ہر ایک کی امامت، رجعت کی حقانیت، موت، نکیر و منکر، قیامت پُلِ صراط، بہشت اور جہنم وغیرہ۔

ان سلاموں کے بعد کچھ دعائیں اس زیارت نامے میں آئی ہیں جن میں سے ایک حصے کا فارسی ترجمہ کچھ یوں ہے:

""اے خداوند میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد ـ جو تیرے نور کی کرن ہے ـ پر درود اور رحمت بھیج دے اور میرے دل کو یقین کی روشنی سے، میرے سینے کو ایمان کی روشنی سے، میری فکر کو پاک نیتوں کی روشنی سے، میرے نصیب کو علم و دانش کی روشنی سے، میری قوت کو کام اور محنت کی روشنی سے، اور میری زبان کو صداقت کی روشنی سے منور کرے"

بعدازاں یہ زیارت امام مہدی(عج) پر درود بھیجتے ہوئے آپ(عج) کی سلامتی، آپ(عج) کے لئے اللہ کی نصرت، آپ(عج) کے قیام اور ظہور میں تعجیل، اور زمین کے عدل و انصاف سے مالامال ہونے، اور کفار اور منافقین نیز دشمنان دین کی نابودی کے لئے دعا پر اختتام پذیر ہوتی ہے"۔ بعدازاں یہ زیارت امام مہدی(عج) پر درود بھیجتے ہوئے آپ(عج) کی سلامتی، آپ(عج) کے لئے اللہ کی نصرت، آپ(عج) کے قیام اور ظہور میں تعجیل، اور زمین کے عدل و انصاف سے مالامال ہونے، اور کفار اور منافقین نیز دشمنان دین کی نابودی کے لئے دعا پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔

اس زیارت نامے میں لفظ "حق" 12 مرتبہ اور لفظ حجت بھی 12 مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ علماء کی تصریح و تصدیق کے مطابق یہ امام مہدی(ع) کی کامل ترین اور بہترین زیارات میں سے ایک ہے اور اس کی قرائت کا اہتمام کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔

آل یاسین سے مراد؟

قراء سبعہ میں سے ابن عامر (متوفی سنہ 118 ھ)، نافع (70-169 ھ) اور یعقوب (117-205 ھ) نے سورہ صافّات کی آیت میں آل یاسین کی قرائت مدّ کے ساتھ (آل یاسین پڑھ کر) کی ہے: ( سَلَامٌ عَلَى آلِ يَاسِينَ[؟–130])؛ جبکہ باقی قراء نے اس کو إِلْ يَاسِينَ پڑھا ہے۔

جن قاریوں نے آلِ يَاسِينَ پڑھا ہے، انھوں نے اس سے آل محمد مراد لی ہے اور جنہوں نے إِلْ يَاسِينَ پڑھا ہے ان کے مطابق إِلْ يَاسِينَ پڑھا ہے ان کا کہنا ہے کہ إِلْ يَاسِينَ ایک لغت ہے جو الیاس نبی(ص) کے لئے وضع ہوئی ہے؛ جس طرح کہ اسمعیل اور اسمعین اور میکائیل، میکائین، اور میکال ایک ہی مفہوم کے لئے مختلف قسم کے الفاظ ہیں۔[9] شیخ طوسی نے تفسیر تبیان اور طبرسی نے مجمع البیان میں آیت کے ذیل میں تقریبا یہی معانی بیان کئے ہیں۔

علامہ طباطبائی نے آیت کے ذیل میں روایات کی روشنی میں بحث کرتے ہوئے[10] شیخ صدوق کی کتاب معانی الأخبار سے اور انھوں نے اپنی سند سے امام صادق(ع) سے، نیز اسی عالم کی کتاب عیون اخبارالرضا سے نقل کیا ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا: "یٰس محمد(ص) ہیں اور ہم آل یٰس ہیں"، اور إِلْ يَاسِينَ پڑھنے والے قراء کی قرائت اس حدیث سے مطابقت رکھتی ہے۔

آیت اللہ مکارم شیرازی تفسیر نمونہ[11] میں إِلْ يَاسِينَ کی قرائت کے سلسلے میں مختلف اقوال نیز ہر قرائت کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر آل یاسین کو صحیح مانا جائے تو اس کے معنی آل محمد(ص) یا پھر خاندان الیاس نبی(ع) کے ہونگے۔

آیت کریمہ (إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (ترجمہ: وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھا)[؟–132]") میں ضمیرِ مفرد جو ‏إِلْ يَاسِينَ کی طرف پلٹتی ہے، ‏إِلْ يَاسِينَ والی قرائت کے امکان کو تقویت پہنچاتی ہے جس سے مراد الیاس نبی ہیں؛ گوکہ ممکن ہے کہ کبھی ایک لفظ دو صورتوں میں پڑھا جائے اور دونوں صورتوں میں اس کے معانی مناسب ہوں۔ عترت رسول(ص) جو در حقیقت آیات کے ظواہر اور بواطن کا علم رکھتے ہیں،[12] کبھی آیات کی تاویل میں اسی طرح عمل کرتے رہے ہیں۔

متن زیارت

متن ترجمه
سَلامٌ عَلَى آلِ يس السَّلامُ عَلَيْكَ يَا دَاعِيَ اللَّهِ وَرَبَّانِيَّ آيَاتِهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا بَابَ اللَّهِ وَدَيَّانَ دِينِهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَلِيفَةَ اللَّهِ وَنَاصِرَ حَقِّهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا حُجَّةَ اللَّهِ وَدَلِيلَ إِرَادَتِهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا تَالِيَ كِتَابِ اللَّهِ وَتَرْجُمَانَهُ
السَّلامُ عَلَيْكَ فِي آنَاءِ لَيْلِكَ وَأَطْرَافِ نَهَارِكَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا بَقِيَّةَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مِيثَاقَ اللَّهِ الَّذِي أَخَذَهُ وَوَكَّدَهُ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَعْدَ اللَّهِ الَّذِي ضَمِنَهُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ وَالْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ وَالْغَوْثُ وَالرَّحْمَةُ الْوَاسِعَةُ وَعْدا غَيْرَ مَكْذُوبٍ
السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَقُومُ السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَقْعُدُ السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَقْرَأُ وَتُبَيِّنُ السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تُصَلِّي وَتَقْنُتُ السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَرْكَعُ وَتَسْجُدُ السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تُهَلِّلُ وَتُكَبِّرُ السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَحْمَدُ وَتَسْتَغْفِرُ، السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تُصْبِحُ وَتُمْسِي السَّلامُ عَلَيْكَ فِي اللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْإِمَامُ الْمَأْمُونُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْمُقَدَّمُ الْمَأْمُولُ السَّلامُ عَلَيْكَ بِجَوَامِعِ السَّلامِ
أُشْهِدُكَ يَا مَوْلايَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ لا حَبِيبَ إِلا هُوَوَأَهْلُهُ وَأُشْهِدُكَ يَا مَوْلايَ أَنَّ عَلِيّاً أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ حُجَّتُهُ وَالْحَسَنَ حُجَّتُهُ وَالْحُسَيْنَ حُجَّتُهُ وَعَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حُجَّتُهُ وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ وَجَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ حُجَّتُهُ وَمُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ حُجَّتُهُ وَعَلِيَّ بْنَ مُوسَى حُجَّتُهُ وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ وَعَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ حُجَّتُهُ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ حُجَّةُ اللَّهِ
أَنْتُمْ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَأَنَّ رَجْعَتَكُمْ حَقٌّ لا رَيْبَ فِيهَا يَوْمَ لا يَنْفَعُ نَفْساً إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْراً وَأَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَأَنَّ نَاكِراً وَنَكِيراً حَقٌّ وَأَشْهَدُ أَنَّ النَّشْرَ حَقٌّ وَالْبَعْثَ حَقٌّ وَأَنَّ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَالْمِرْصَادَ حَقٌّ وَالْمِيزَانَ حَقٌّ وَالْحَشْرَ حَقٌّ وَالْحِسَابَ حَقٌّ وَالْجَنَّةَ وَالنَّارَ حَقٌّ وَالْوَعْدَ وَالْوَعِيدَ بِهِمَا حَقٌّ
يَا مَوْلايَ شَقِيَ مَنْ خَالَفَكُمْ وَسَعِدَ مَنْ أَطَاعَكُمْ فَاشْهَدْ عَلَى مَا أَشْهَدْتُكَ عَلَيْهِ وَأَنَا وَلِيٌّ لَكَ بَرِي ءٌ مِنْ عَدُوِّكَ فَالْحَقُّ مَا رَضِيتُمُوهُ وَالْبَاطِلُ مَا أَسْخَطْتُمُوهُ وَالْمَعْرُوفُ مَا أَمَرْتُمْ بِهِ وَالْمُنْكَرُ مَا نَهَيْتُمْ عَنْهُ فَنَفْسِي مُؤْمِنَةٌ بِاللَّهِ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَبِرَسُولِهِ وَبِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَبِكُمْ يَا مَوْلايَ أَوَّلِكُمْ وَآخِرِكُمْ وَنُصْرَتِي مُعَدَّةٌ لَكُمْ وَمَوَدَّتِي خَالِصَةٌ لَكُمْ آمِينَ آمِينَ۔
سلام ہو اولاد یس پر، آپ پر سلام ہو اے خدا کے داعی اور اس کے کلام کے نگہبان سلام ہوآپ پر اے خدا کے باب اور اس کے دین کی حفاظت کرنے والے آپ پر سلام ہو اے خدا کے نائب اور حق کے مددگار آپ پر سلام ہو اے خدا کی حجت اور اس کے ارادے کے مظہر سلام ہو آپ پر اے کتاب اللہ کی تلاوت کرنے والے، اور اس کی تفسیر و تشریح کرنے والے
آپ پر سلام ہو رات کے اوقات میں اور دن کی ہر گھڑی میں آپ پر سلام ہو اے خدا کی زمین میں اس کے نمائندہ آپ پر سلام ہو اے خدا کے وہ عہد جو اس نے باندھا اور پکا کیا آپ پر سلام ہو اے خدا کے وعدہ جس کا وہ ضامن ہے آپ پر سلام ہو کہ آپ ہیں قائم شدہ علم، ہیں سپرد شدہ دانش، دادرس کشادہ تر رحمت اور وہ وعدہ ہیں جو جھوٹا نہیں
آپ پر سلام ہوجب آپ قیام کریں گے آپ پر سلام ہو جب منتظربیٹھے ہیں آپ پر سلام ہو جب آپ قرآن پڑھیں اور تفسیر کریں آپ پر سلام ہو جب آپ نماز قائم کریں اور قنوت پڑھیں آپ پر سلام ہو جب آپ رکوع اور سجدہ کرتے ہیں آپ پر سلام ہو
جب آپ ذکر الٰہی کریں آپ پر سلام ہوجب حمد و استغفار کریں آپ پر سلام ہو جب آپ صبح اور شام کریں اور تسبیح بجا لائیں آپ پر سلام ہو رات میں جب وہ چھا جائے اور دن میں جب روشن ہو جائے آپ پر سلام ہو اے محفوظ امام آپ پر سلام ہو جس کے آنے کی آرزو ہے آپ پر سلام ہو ہر طبقے کی طرف سے سلام،
میں آپ کوگواہ قرار دیتا ہوں اے میرے آقا اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یگانہ ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں سوائے انکے کوئی حبیب نہیں اور ان کے اہلبیت کے آپ کو گواہ بناتا ہوں اے میرے آقا اس پر کہ علی امیر المؤمنین اور اس کی حجت ہیں حسن اس کی حجت ہیں حسین اس کی حجت ہیںاور علی ابن الحسین اس کی حجت اور محمد ابن علی اس کی حجت اور جعفر ابن محمد اس کی حجت ہیں موسیٰ بن جعفر اس کی حجت ہیں علی بن موسیٰ اس کی حجت ہیں محمدبن علی اس کی حجت ہیں علی بن محمد اس کی حجت ہیں حسن بن علی اس کی حجت ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کی حجت ہیں
آپ (معصومین) ہی ہیں اول و آخر اور آپ کی رجعت حق ہے اس میں کوئی شک نہیں اس دن ایمان لانا کچھ نفع نہ دیگا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا ایمان کے تحت نیکی کے کام نہ کیئے ہوں اور یقیناً موت حق ہے منکر و نکیر حق ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ قبر سے باہر آنا حق اور مردوں کا اٹھنا حق ہے، بے شک صراط سے گزرنا حق،
نگرانی ہونا حق اور اعمال کا تولا جانا حق ہے، حشر حق ہے، حساب کتاب حق ہے جنت و جہنم حق ہے ان کے بارے میں وعدہ اور وعید حق ہے
ا ے میرے سردار آپ کا مخالف بد بخت ہے اور آپ کا پیروکار نیک بخت ہے پس میں گواہی دیتا ہوں اس کی جس کی آپ نے گواہی دی میں آپ کا حبدار اور آپ کے دشمن سے بیزار ہوں پس حق وہ ہے جسے آپ پسند کریں اور باطل وہ ہے جس سے آپ ناخوش ہوں نیکی وہ ہے جس کا آپ حکم دیں اور برائی وہ ہے جس سے آپ منع کریں پس میرا دل ایمان رکھتا ہے خدا پر جو یگانہ ہے اسکا کوئی شریک نہیں ہے اور اسکے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر اور امیر المومنین پر اور آپ پر اے میرے آقا ایمان رکھتا ہوں اسی طرح آپ کے پہلے اور آخری پر اور میری نصرت آپ کے لیے حاضر ہے میری دوستی آپ کے لیے خالص ہے قبول فرما، قبول فرما۔

حوالہ جات

  1. ابن المشهدی، المزار الکبیر، ص567۔
  2. سید بن طاؤس، مصباح الزائر، ص430۔
  3. محمدی ری شہری، دانشنامه امام مهدی(عج)، ج6، صص388-395۔
  4. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج2، ص492۔
  5. طبرسی، الإحتجاج ترجمہ فارسی غفاری، ج4، ص342۔
  6. مجلسی، بحار الانوار، ج53، صص 171ـ173
  7. مجلسی، وہی ماخذ، ج94، ص2ـ5
  8. مجلسی، وہی ماخذ، ج102، ص81-83۔
  9. رازی، روض الجنان، ج16، ص234۔
  10. طباطبایی، المیزان، ج17، ص159 ۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج19 ص145۔
  12. وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ (ترجمہ: اس کے اصل معنی کو نہیں جانتا سوا اللہ کے، اور وہ جو علم و دانش میں مکمل پختگی رکھتے ہیں)[؟–132]۔

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن المشهدی، المزار الکبیر، تحقیق قیومی اصفهانی، دفتر انتشارات اسلامی وابسته بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، 1419 ھ
  • ابو الفتح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تصحیح دکتر محمد جعفر یاحقی ـ دکتر محمد مهدی ناصح
  • سید ابن طاؤس، مصباح الزائر۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نجف، دار النعمان، 1386 ھ
  • طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أهل اللجاج / فارسی ترجمہ و شرح: غفاری، چاپ مرتضوی، تهران، 1371 ھ ش
  • طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن
  • علامه مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، دار الکتب اسلامیة، تهران، 1362ھ ش
  • محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام مهدی (عج)، انتشارات دار الحدیث۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دار الکتب الاسلامیہ، قم
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت: لاحیاء التراث، طبعة الاولی، قم، 1407ھ ق