عقل

ویکی شیعہ سے

عقل انسان کے ادراکی قوتوں میں سے ایک ہے جو احکام شرعی کے استنباطی دلائل یعنی ادلہ اربعہ میں سے بھی شمار ہوتی ہے۔ عقلی علوم کے ماہرین کے مطابق عقل کلی مفاہیم کو درک کرتی ہے جنہیں وہ بدیہی اور نظری میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہ ماہرین عقل کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر عقل نظری اور عقل عملی میں تقسیم کرتے ہیں۔ عقل نظری کا کام واقعیتوں کو درک کرنا ہے جبکہ عقل عملی ان واقعیتوں کے تناظر میں احکام جاری کرتا ہے۔ احادیث میں عقل کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ اسے باطنی پیغمبر قرار دیتے ہوئے اسے انسانوں پر خدا کی حجت سمجھتے ہیں۔ اہل تشیع کے نزدیک قرآن، سنت اور اجماع کی طرح عقل بھی شرعی احکام کے استنباط میں دلیل واقع ہوتی ہے۔ شیعہ علماء بعض فقہی اور اصولی قواعد کو بھی عقل کے ذریعے ہی ثابت کرتے ہیں۔

منبع شناخت

عقلی علوم کے ماہرین عقل کو بھی دوسرے حواس کی طرح شناخت کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ انسان عقل کے ذریعے کلی مفاہیم کو درک کرتا ہے جس طرح حواس کے ذریعے جزئی مفاہیم کو درک کرتا ہے۔[1] معرفت‌ شناسی کے باب میں عقل کی دو کارکردگی بیان ہوتی ہے: ایک شہودی کارکردگی جس کے ذریعے انسان حقایق کو درک کرتا ہے دوسری استدلالی کارکردگی جس کے ذریعے انسان اپنی ابتدائی معلومات کی مدد سے جدید معلومات تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ عقل کی پہلی کارکردگی کے ذریعے بدیہیات جبکہ دوسری کارکردگی کے ذریعے نظری اور استدلالی علوم و معارف تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔[2]

عقل نظری اور عقل عملی

عقل کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر عقل نظری اور عقل عملی میں تقسیم کی جاتی ہے۔ عقل نظری کے ذریعے واقعیتوں کا ادراک ہوتا ہے جبکہ عقل عملی انہی واقعیات کے تناظر میں احکام صادر کرتی ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ حقیقت میں یہ تقسیم عقل کی نہیں کیونکہ انسان کے اندر عقل کے نام سے ایک ہی قوہ مدرکہ ہے۔ ہاں اگر کوئی تفاوت ہے تو اس کے مدرکات میں ہے نہ خود عقل میں۔[3]

اہل تشیع کے ہاں عقل کی اہمیت

شہید مطہری کے بقول عقل کو جتنی اہمیت اور قدر و قیمت اسلام نے دی ہے اتنی کسی اور دین نے نہیں دی ہے۔[4] پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ عقل ہے جس کے ذریعے تمام خبیوں کا ادراک ہوتا ہے اور جس کے پاس عقل نہیں گویا اس کا کوئی دین بھی نہیں ہے۔[5] امام کاظمؑ نے بھی عقل کو انبیاء اور ائمہ معصومینؑ کی طرح جو خدا ظاہری حجت ہیں، باطنی حجت قرار دیا ہے۔[6]

اہل تشیع کے یہاں اصول دین کی علاوہ جو عقل کے ذریعے ثابت ہوتی ہیں،[7] بعض فقہی اور اصولی قواعد اور احکام بھی عقل کے ذریعے ثابت ہوتے ہیں۔[8]

علم فقہ میں عقل کی حیثیت

علم فقہ میں قرآن، سنت اور اجماع کی طرح عقل بھی شرعی احکام کے استنباط میں دلیل واقع ہوتی ہے۔[9] شیعہ فقہاء شرعی احکام کے استنباط (اجتہاد) میں عقل سے بھی استفادہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات علم اصول میں بھی اس کے بعض قواعد کی تدوین میں بھی عقل سے کام لیتے ہیں۔ علم فقہ شرعی احکام کے استنباط میں عقل کی کارکردگی کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:

  • کتاب و سنّت کے مقابلے میں حکم شرعی کا منبع: عقل کبھی مستقل طور پر شرعی احکام کو ثابت کرتی ہے جیسے؛ وہ احکام ج حسن و قبح عقلی کے توسط سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور کبھی عقل کسی اور حکم شرعی کی ساتھ مل کر کسی اور حکم شرعی کو ثابت کرتی ہے جیسے؛ وہ مقام جہاں پر کسی عقلی اور شرعی حکم کے درمیان ملازمے کے ذریعے کسی اور حکم شرعی تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
  • دینی متون کی صحت و سقم کا معیار: کسی حدیث کی صحت و سقم اور اس کے قابل عمل ہونے اور نہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ یہ عقل کے قطعی احکام سے مخالفت نہ رکھتی ہو۔ مثلا پیغمبر اکرمؐ کی عصمت جو کہ عقل کے ذریعے مسلّم جانا گیا ہے اگر کسی حدیث میں آپ کی عصمت کو نفی کی جائے تو یہ حدیث قابل اعتبار نہیں سمجھی جائی گی۔
  • کتاب و سنت سے حکم شرعی استنباط کرنے میں مدد: بعض فقہی قواعد جن کے ذریعے کتاب و سنت سے حکم شرعی استنباط کیا جاتا ہے نیز عقل کی مدد سے کشف ہوتے ہیں۔[10]

حوالہ جات

  1. حسین‌زادہ، مبانی معرفت دینی، ۱۳۹۳ش، ص۳۸۔
  2. ملکیان، راہی بہ رہایی، ۱۳۸۱ش، ص۲۵۳۔
  3. صادقی، عقلانیت ایمان، ۱۳۸۶ش، ص۴۳۔
  4. مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ص
  5. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۵۴۔
  6. کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۶، ح۱۲۔
  7. ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۹۔
  8. ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۱۴۴، ۱۴۵۔
  9. مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ۵۱۔
  10. ضیائی‌فر، «جایگاہ عقل در اجتہاد»، ص۲۳۰-۲۳۴۔

منابع

  • ابن شعبہ حرانى، حسن بن على، ‏تحف العقول‏، تحقیق و تصحیح على‌اكبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳ش۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی، چاپ چہارم، ۱۳۹۲ش۔
  • صادقی، ہادی، عقلانیت ایمان، قم، کتاب طہ، چاپ اول، ۱۳۸۶ش۔
  • ضیائی‌فر، سعید، «جایگاہ عقل در اجتہاد»، نقد و نظر، ش۳۱و۳۲، ۱۳۸۲ش۔
  • كلينى، محمد بن يعقوب، ‏الكافی، تہران، ‏دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق۔‏
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، چاپ پانزدہم، ۱۳۸۹ش۔
  • مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، قم، انتشارات اسلامی، قم، چاپ پنجم، ۱۴۳۰ق۔
  • ملکیان، مصطفی، راہی بہ رہایی، تہران، نگاہ معاصر، چاپ دوم، ۱۳۸۱ش۔