مباہلہ

ویکی شیعہ سے
مباہلہ
ابوریحان بیرونی کی کتاب آثار الباقیہ کے ایک نسخے میں مباہلہ کے واقعے کی ڈرائنگ، کتابت 707ھ
ابوریحان بیرونی کی کتاب آثار الباقیہ کے ایک نسخے میں مباہلہ کے واقعے کی ڈرائنگ، کتابت 707ھ
واقعہ کی تفصیلپیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ
طرفینپنجتن (پیغمبر اکرمؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ و حسینؑ) / نجران کے عیسائی
زمان21 یا 24 ذی الحجہ سنہ 9 یا 10ھ
دورہپہلی صدی ہجری
مکانمدینہ
مقاصدپیغمبر اکرمؐ یا نجران کے عیسائیوں کی حقانیت کا اثبات
نتایجنجران کے بعض عیسائیوں کا اسلام لانا
مربوطآیت مباہلہ


مباہلہ صدر اسلام میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جو پیغمبر اکرمؐ کے دعوتِ اسلام کی حقانیت کی دلیل تھی جس میں رسول اللہ اور نجران کے عیسائیوں کے مابین مباہلہ ہوا۔ یہ واقعہ پیغمبر اکرمؐ، امام علیؑ، فاطمۂ زہراءؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتا ہے۔

سورہ آل عمران کی 61ویں آیت میں واقعہ مباہلہ بیان ہوا ہے اور یہ آیت آیہ مباہلہ سے مشہور ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اس آیت میں امام علیؑ نفس اور جانِ پیغمبر اکرمؐ قرار دئے گئے ہیں اور اسی لئے اس آیت کو امام علیؑ کی فضیلت شمار کرتے ہیں۔ یہ واقعہ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔

مآخذ کے مطابق رسول اللہؐ نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی جسے انہوں نے قبول تو کر لیا لیکن جب دیکھا کہ آنحضرتؐ نے اپنے گھر والوں کو لے آیا ہے تو وہ لوگ مباہلے سے پیچھے ہٹ گئے۔ مباہلہ حقانیت ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ مباہلہ دو افراد یا دو گروہ کے درمیان واقع ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ یہ واقعہ رونما ہونے کی تاریخ کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ مشہور مورخین نے اس کے رونما ہونے کے سال کو 10ھ قرار دیا ہے۔ اسی طرح دعا کی کتابوں میں 24 ذی الحجہ کے دن کے لئے روز مباہلہ کے عنوان سے کچھ اعمال ذکر ہوئے ہیں۔ اس واقعہ کے بارے میں کچھ ہنری کام بھی ہوئے ہیں جن میں سے ایک سنہ 707ھ میں لکھی گئی ابوریحان بیرونی کی کتاب آثار الباقیۂ میں موجود نقاشی ہے۔

اہمیت اور منزلت

پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ ان واقعات میں سے ایک ہے جس سے پیغمبر اکرمؐ کی دعوتِ اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔[1]قرآن میں سورہ آل عمران کی آیت 61 اس واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[2] یہ واقعہ پنجتنؑ (پیغمبر اکرمؐ امام علیؑ، فاطمۂ زہراءؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی فضیلتوں میں سے شمار ہوتی ہے۔[3] اس واقعے کو تفسیری[4] اور تاریخی[5] مآخذ میں بیان کیا ہے۔ اس واقعے کے بعض ہنری آثار بھی بنائے گئے ہیں۔[حوالہ درکار]


واقعے کی تفصیل

رسول اکرمؐ دنیا کی حکومتوں کو جب خطوط لکھ رہے تھے تو ایک خط نجران کے اُسقُف کو بھی لکھا اور نجران کے باسیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نجران کے مسیحیوں کی نمایندگی میں ایک وفد مدینہ آیا اور مسجد النبی میں پیغمبر اکرمؐ سے گفت و شنید کی۔ رسول اللہ نے اپنا تعارف کرانے کے ساتھ حضرت عیسی کو اللہ کا بندہ معرفی کیا۔ انھوں نے نہیں مانا اور باپ کے بغیر پیدا ہونے کو ان کی الوہیت پر دلیل قرار دیا۔[6]

دونوں طرف سے اپنے عقیدے کی حقانیت پر اصرار کے بعد یہ طے پایا کہ مباہلے[یادداشت 1] کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے

اس لئے طے ہوا کہ کل سب مدینہ سے باہر نکلیں اور کسی صحرا میں مباہلہ کے لئے تیار ہوجائے۔ مباہلہ کے دن صبح پیغمبر اکرمؐ، امام علیؑ، فاطمہؐ، حسنؑ اور حسینؑ کو لیکر مدینہ سے باہر نکلے۔ مسیحیوں نے دیکھا کہ رسول اللہ اپنے سب سے عزیز اور قریبی رشتہ داروں کو لیکر نکلے ہیں اور انبیاء کی طرح آنحضرتؐ مباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے ہیں، تو وہ لوگ مباہلہ سے منصرف ہوئے اور صلح کی درخواست کی۔ پیغمبر اکرمؐ نے بھی جزیہ کی شرط کے ساتھ ان کی درخواست قبول کی۔ نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی اس وفد میں شامل دو بزرگ ہدایا اور عطیات لے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔[7] اہل سنت کے مفسر فخر رازی (متوفی606ھ) کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بارے میں مفسرین اور محدثین کا اتفاق نظر ہے۔[8]

آیت مباہلہ

خوشنویسی آیہ مباہلہ (فَمَنْ حَاجَّكَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَی الْكَاذِبِینَ)
تفصیلی مضمون: آیت مباہلہ

آیت مباہلہ سورہ آل عمران کی 61ویں آیت ہے جو واقعۂ مباہلہ کی طرف اشارہ کرتی ہے:

فَمَنْ حَاجَّک فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَک مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکاذِبِینَ


(اے پیغمبرؐ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ! ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو۔ پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ [9]



سورہ آل عمران: آیت 61

قاضی نور اللہ شوشتری کا کہنا ہے کہ اس آیت میں "ابناءنا" [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسنؑ اور حسینؑ ہیں اور "نسا‏‏ءنا" سے مراد فاطمہ زہراءؑ اور "انفسنا" سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔[10] اسی طرح علامہ مجلسی نے ان احادیث کو متواتر جانا ہے جو آیہ مباہلہ آل عبا کی شان میں نازل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔[11] سنہ 1014ہجری میں تدوین شدہ کتاب اِحقاق الحق میں 60 ایسے مآخذ کو ذکر کیا ہے جن میں آیہ مباہلہ ان افراد کی شان میں نازل ہونے کی تصریح ہوئی ہے۔[12]


«اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، نجران والوں کی ہلاکت نزدیک تھی اور اگر میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو سب نے مسخ ہوکر بندر اور سور بننا تھا اور یہ ساری وادی ان کے لئے آگ بنی تھی اور نجرانیوں نے جلنا تھا اور اللہ تعالی نجران والوں کو نابود کرتے یہاں تک کہ ان کے درختوں پر پرندے بھی نہیں بیٹھ جاتے اور تمام نصرانی ایک سال سے پہلے مرجاتے۔»

مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص166-171

شیعہ ائمہ[13] اور بعض اصحاب پیغمبر[14] نے بھی امام علیؑ کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔

زمان اور مکان

تاریخی مآخذ کے مطابق مباہلہ کا واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آیا ہے؛[15] لیکن سال کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ شیخ مفید (متوفی: 413ھ) نے اس واقعے کو فتح مکہ () کے بعد قرار دیا ہے۔[16] تاریخ طبری میں 10ھ ذکر ہوا ہے۔[17] محمد محمدی ری شہری اپنی کتاب فرہنگ نامہ مباہلہ میں کہتے ہیں کہ مشہور مورخین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دس ہجری کو پیش آیا ہے البتہ ان میں سے بعض نے قرار دیا ہے۔[18]

اسی طرح دن کے بارے میں بھی اختلاف نظر ہے؛ جیسے 21،[19] 24[20]اور 25 ذوالحجہ ذکر ہوئے ہیں۔[21] شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ کو رونما ہوا ہے[22] اور دعا کی کتابوں میں 24 ذوالحجہ کے لئے بعض اعمال ذکر ہوئی ہیں۔[23] شیخ عباس قمی اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں ان اعمال کو ذکر کیا ہے جن میں دعا، غسل اور روزہ بھی شامل ہیں۔[24]

مکان

مباہلہ کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا ہے؛ لیکن جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا معین نہیں ہے۔ بقیع کے نزدیک مسجد مباہلہ اور مسجدالاجابہ کے نام سے ایک مسجد ہے[25] جہاں زائرین مباہلہ کی جگہ کے عنوان سے جاکر زیارت کرتے ہیں؛[26] لیکن کہا گیا ہے کہ اس نام سے کوئی مسجد تاریخی مآخذ میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔[27] شیعہ مؤلف محمد صادق نجمی کا کہنا ہے کہ اس مسجد کا مباہلہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے بلکہ مسجد کا نام (اجابت اور مباہلہ) اور نیز محمد بن جعفری مشہدی نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کی تاکید کی ہے اس وجہ سے یہ اشتباہ ہوا ہے۔نجمی، «مسجدالاجابہ یا مسجد مباہلہ»، ص.122.</ref> ابن مشہدی (متوفی 610ھ) اپنی کتاب کتاب المزار میں مسجد مباہلہ کا ذکر کیا ہے اور اس میں نماز پڑھنے کی تاکید کی ہے۔[28] محمد صادق نجفی کا کہنا ہے کہ مباہلہ کی جگہ مسجد نہ بننے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر رسول اللہؐ نے نماز نہیں پڑھی ہے اور جہاں آنحضرتؐ کا نماز پڑھنا یقینی ہو تو مسلمان وہاں مسجد بناتے تھے۔[29]

کتابیں اور فن پارے

نقاشی واقعہ مباہلہ در نسخہ ای از کتاب آثارالباقیہ نوشتہ ابوریحان بیرونی (تاریخ کتابت نسخہ: 707ھ)[30]

مباہلہ کے واقعے کے بارے میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • منبع شناسی واقعہ مباہلہ، بقلم محمدعلی عسگری و محمدعلی نجفی: یہ کتاب سنہ 1401شمسی میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی جس میں مباہلہ کے بارے میں تقریبا 80 کتابین، 25 تھیسز، 100 مقالے اور چند سافٹ وئیر کی معرفی کیا ہے۔[31]
  • فرہنگنامہ مباہلہ (روشی در رویارویی با دگراندیشان) بقلم محمد محمدی ری شہری و دیگران: اس کتاب میں واقعہ مباہلہ کو فخر رازی اور شیخ مفید کے مطابق نقل کیا ہے۔ نیز اس واقعے سے اہل بیتؑ کا استدلال اور مباہلہ کے دن کے آداب کو بھی بیان کیا ہے۔ انتشارات دارالحدیث نے اس کتاب کو سنہ 1395شمسی میں چھاپا ہے۔[32]
  • مباہلہ در مدینہ، اثر لویی ماسینیون: یہ کتاب سنہ 1378شمسی کو محمود افتخار زادہ کے مقدمہ اور ان کے ترجمے کے ساتھ منتشر ہوگئی۔
  • مباہلہ صادقین تالیف؛ سید محمد علوی، قم، نغمات، 1383ہجری شمسی،
  • آثار منتخب جشنوارہ ادبی مباہلہ: مباہلہ کے بارے میں منعقد شدہ کانفرنس میں ارسال شدہ آثار کا خلاصہ اس میں شامل ہے یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصے میں شعر اور ایک میں ادبی نثر ہے۔[33]

فن پارے

واقعہ مباہلہ کے بارے میں نقاشی، یپنٹنگ، انیمیشن اور دیگر فنکاریاں شامل ہیں۔ ان میں سب سے قدیمی اثر ابو ریحان البیرونی کی کتاب آثار الباقیہ کی نقاشی ہے۔ یہ کتاب سنہ 707ھ میں لکھی گئی ہے اور فرانس میں اس کا نسخہ محفوظ ہے۔[34] معاصر مورخ رسول جعفریان کہتے ہیں کہ یہ نقاشی شاید نسخہ لکھنے والوں نے کتاب میں شامل کیا ہے۔[35]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. پاک نیا، «مباہلہ، روشن ترین باورہای شیعہ»، ص51.
  2. سورہ آل عمران، آیہ61.
  3. ملاحظہ کریں: مرعشى، احقاق الحق، 1409ھ، ج3، ص46.
  4. ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1415، ج2، ص310؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج8، ص247.
  5. ملاحظہ کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385شمسی، ج2، ص293-294.
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373-1374شمسی، ج2، ص578.
  7. الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ1، 1414ھ، ص392.
  8. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ۔ ج8، ص247.
  9. ترجمہ محمد حسین نجفی
  10. مرعشى، احقاق الحق، 1409ھ، ج3، ص46
  11. مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج‏1، ص67.
  12. ملاحظہ کریں: مرعشى، احقاق الحق، 1409ھ، ج3، ص46-72.
  13. ملاحظہ کریں: مفید، الفصول المختارہ، 1414ھ، ص38؛ طباطبایی، المیزان، 1351/1352، ج3، ص230-229.
  14. ملاحظہ کریں: طباطبائی، المیزان، 1351-1352، ج3، ص232.
  15. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص166-171.
  16. المفید، الارشاد، ج1، صص166-171
  17. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387شمسی، ج3، ص139.
  18. محمدی ری شہری، فرہنگ نامہ مباہلہ، 1395شمسی، ص83-87.
  19. میبدی، کشف الاسرار، 1371شمسی، ج2، ص147.
  20. ابن شہرآشوب، مناقب، 1376ھ، ج3، ص144؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ج2، ص759.
  21. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ج2، ص759.
  22. انصاری، کتاب الطہارة، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ج3، ص48-49.
  23. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ج2، ص764.
  24. قمی، مفاتیح الجنان، 1384شمسی، باب دوم (اعمال سنہ)، اعمال روز مباہلہ، ص451-458.
  25. ملاحظہ کریں: فاضل لنکرانی، مناسک حج، 1373شمسی، ص242.
  26. نجمی، «مسجدالاجابہ یا مسجد مباہلہ»، ص123.
  27. نجمی، «مسجدالاجابہ یا مسجد مباہلہ»، ص124.
  28. ابن مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص102.
  29. نجمی، «مسجدالاجابہ یا مسجد مباہلہ»، ص126.
  30. «دو نقاشی بی نظیر از روز غدیر و مباہلہ در نسخہ ای از الاثار الباقیہ ابوریحان بیرونی»، سایت کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام.
  31. «منبع شناسی واقعہ مباہلہ وارد بازار نشر شد.»، خبرگزاری رسمی حوزہ.
  32. فرہنگ نامہ مباہلہ (روشی در رویارویی با دگراندیشان)، حدیث نت.
  33. «آثار منتخب جشنوارہ ادبی مباہلہ»، حدیث نت.
  34. «دو نقاشی بی نظیر از روز غدیر و مباہلہ در نسخہ ای از الاثار الباقیہ ابوریحان بیرونی»، سایت کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام.
  35. «دو نقاشی بی نظیر از روز غدیر و مباہلہ در نسخہ ای از الاثار الباقیہ ابوریحان بیرونی»، سایت کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام.

نوٹ

  1. جب کچھ لوگ کسی دینی اہم مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں اور دلیل اور منطق کام نہیں آتی ہے تو کسی ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں کہ جھوٹے کو رسوا کرے اور سزا دے، اس کو مباہلہ کہا جاتا ہے۔ (مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص230). مُباہلہ عربی زبان میں یک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کو کہتے ہیں (جوہری، الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بہل۔)

مآخذ

  • «آثار منتخب جشنوارہ ادبی مباہلہ»، حدیث نت، مشاہدہ 2 خرداد 1402ہجری شمسی،
  • ابن اثیر، علی بن ابی کرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر - دار بیروت، 1385ش/1965م.
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری (الطبقات الخامسة)، تحقیق محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبة الصدیق، 1993م/1414ھ۔
  • ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، نجف: مطبعة الحیدریة، 1376ھ۔
  • ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1419ھ۔
  • انصاری، مرتضی، کتاب الطہارة، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری.
  • پاک نیا، عبدالکریم، مباہلہ روشن ترین دلیل باورہای شیعہ، مبلغان، ش50.
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح (تاج اللغة و صحاح العربیة)، تحقیق احمد عبدالغفور عطار، بیروت، دار العلم للملایین، الطبعة الرابعة، 1407ھ۔
  • حزین لاہیجی، محمدعلی بن ابی طالب، دیوان حزین لاہیجی، تصحیح ذبیح اللہ صاحب کار، تہران، نشر سایہ، 1384ہجری شمسی،
  • «دو نقاشی بی نظیر از روز غدیر و مباہلہ در نسخہ ای از الاثار الباقیہ ابوریحان بیرونی»، سایت کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام، درج مطلب 25 مہر 1393شمسی، مشاہدہ 2 خرداد 1402ہجری شمسی،
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتب العربی، 1407-1416ھ۔
  • شوشتری، قاضى نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی چاپ اول، 1409ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، بیروت، مؤسسة فقہ الشیعة، چاپ اول، 1411ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، 1351/1352.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، الطبعة الاولی، 1415ھ۔
  • طبری، محمد بن جعفر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، الطبعة الثانیة، 1387ش/1967م.
  • عطار نیشابوری، محمد بن ابراہیم، جوہر الذات، تصحیح تیمور برہان لیمودہی، سنایی، تہران، 1383ہجری شمسی،
  • فاضل لنکرانی، محمد، مناسک حج، قم، مہر، الطبعة الثالثة، 1373ہجری شمسی،
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ق/1999م.
  • فرہنگ نامہ مباہلہ (روشی در رویارویی با دگراندیشان)، حدیث نت، مشاہدہ 21 اردیبہشت 1402ہجری شمسی،
  • قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، قم، مطبوعات دینی، چاپ دوم، 1384ہجری شمسی،
  • مجلسى، محمدباقر، حق اليقين، انتشارات اسلامیہ.
  • محمدی ری شہری، محمد، فرہنگ نامہ مباہلہ (روشی در رویارویی با دگراندیشان)، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1395ہجری شمسی،
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد، تحقیق مؤسسة آل البیت(ع) لاحیاء التراث، قم: المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارہ، التحقیق: السید میرعلی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران ، دار الکتب الاسلامیہ ، چاپ نہم ، 1386ہجری شمسی،
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1373-1374ہجری شمسی،
  • «منبع شناسی واقعہ مباہلہ وارد بازار نشر شد.» خبرگزاری حوزہ، درج مطلب 5 مرداد 1401شمسی، مشاہدہ 21 اردیبہشت 1402ہجری شمسی،
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدة الابرار، تہران، امیر کبیر، 1371ہجری شمسی،
  • نجمی، محمدصادق، «مسجدالاجابہ یا مسجد مباہلہ»، میقات حج، ش41، زمستان و پاییز 1381ہجری شمسی،