امامیہ

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


اِمامیہ‌ یا شیعہ امامیہ، شیعہ مذہب کے سب سے بڑے فرقے کو کہا جاتا ہے۔ اس کے پیروکاروں کو جعفری یا اثنا عشری بھی کہا جاتا ہے۔ عامیانہ اصطلاح میں لفظ شیعہ کا اطلاق ہی اسی مذہب پر ہوتا ہے لیکن علم کلام میں لفظ شیعہ ایک عام مفہوم رکھتا ہے جو امامیہ، زیدیہ اور اسماعیلیہ کو شامل ہے۔ مذہب امامیہ کے مطابق معاشرے کی قیادت اور رہبری پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام کے ذمہ ہوتی ہے جس کا تعین خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس بنا پر امامیہ بعض احادیث من جملہ حدیث غدیر کی بنیاد پر حضرت علیؑ کو پیغمبر اکرمؐ کا بلافصل جانشین اور پہلا امام مانتے ہیں۔ امامیہ پیغمبر کے بعد بارہ اماموں کی امامت کے معتقد ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان میں سے بارہویں امام یعنی امام مہدیؑ پردہ غیب میں اب بھی زندہ ہیں۔

شیعہ امامیہ کے بینادی عقائد پانچ ہیں۔ توحید، نبوت اور معاد کو امامیہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اصول دین میں سے شمار کرتے ہیں لیکن امامیہ ان تین بنیادی عقائد کے اوپر امامت اور عدل کو بھی اضافہ کرتے ہیں جو انہیں اہل سنت سے جدا کرتے ہیں۔ شیعہ امامیہ اپنے اخلاقی، اعتقادی اور فقہی تعلیمات کیلئے چار مآخذ قرآن، پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ کی سنت، عقل اور اجماع کے قائل ہیں۔

دنیا میں شیعہ آبادی کے حوالے سے کوئی دقیق معلومات نہیں ہے اور عام طور پر جب شیعوں کی آبادی کا تذکرہ ہوتا ہے تو امامیہ سمیت زیدیہ اور اسماعیلیہ کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں شیعوں کی آبادی 154 سے 200 میلین ہے جو مسلمانوں کی آبادی کا 10 سے 13 فی صد بنتی ہے جبکہ بعض دیگر اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں شیعوں کی آبادی تقریبا 300 میلین یعنی مسلمانوں کی آبادی کا تقریبا 19 فی صد ہے۔ شیعوں کی اکثریت ایران، پاکستان، ہندوستان اور عراق میں زندگی بسر کرتی ہے۔

امامیہ کی اصطلاح اور تاریخ

"امامیہ" علم کلام کی اصطلاح ہے جس سے مراد شیعہ مذہب کا وہ گروہ ہے جو بارہ اماموں کی امامت کا قائل ہے۔ اس مذہب کے پیروکار شیعہ اثناعشری کے نام سے مشہور ہیں۔ مذہب امامیہ اعتقادات اور فروع دین میں ایک خاص نظریہ کا حامل ہے۔ اصول دین میں امامت کے حوالے سے تمام اماموں کو معصوم اور منصوص من اللہ (خدا کی طرف سے معیّن شدہ) سمجھتے ہیں۔ [1]

اگرچہ حضرت علیؑ کے زمانے سے ہی آپ کے پیروکاروں کا یہی عقیدہ تھا کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد آپؑ ہی خدا کی طرف سے لوگوں کے امام اور رہبر معین ہوئے تھے؛[2] لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ [3] امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے دور میں بھی اگرچہ شیعوں کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا تھا لیکن ایک الگ فرقہ کے عنوان سے اپنی کوئی پہچان نہیں رکھتے تھے۔ [4]

تیسری صدی کے اواخر سے امامیہ دوسرے شیعہ فرقوں سے متمائز ہوا۔ امام حسن عسکریؑ، کی شہادت کے بعد شیعوں میں سے ایک گروہ جو اس بات کے معتقد تھے کہ زمین کسی بھی وقت امام سے خالی نہیں ہو سکتی، بارہویں امام یعنی امام مہدیؑ اور ان کی غیبت کے معتقد ہوئے یوں یہ گروہ شیعہ امامیہ یا شیعہ اثنا عشری کے نام سے پہچانے جانے لگے۔[5]

اس کے بعد بتدریج اس فرقے کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ شیخ مفید کے بقول ان کے زمانے یعنی سنہ ۳۷۳ق، میں شیعہ فرقوں میں اثنا عشری یا امامیہ اس مذہب کے سب سے بڑے فرقے کے طور پر جانا جاتا تھا۔[6]

اعتقادات

شیعہ امامیہ کے بینادی عقائد پانچ ہیں۔ توحید، نبوت اور قیامت کو امامیہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اصول دین میں سے شمار کرتے ہیں لیکن امامیہ ان تین بنیادی عقائد کے اوپر امامت اور عدل کو بھی اضافہ کرتے ہیں جو انہیں اہل سنت سے جدا کرتے ہیں۔[7] ان کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد ان کا ایک جانشین ہونا چاہئے جو ان کی ذمہ داریوں کو نبہا سکے، جسے وہ امام کا نام دیتے ہیں۔ شیعہ امامیہ، پیغمبر اور نبی کی طرح امام کے بھی خدا کی طرف سے معیّن ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا پیغمبر کے ذریعے امام کا تعین کرتا ہے۔[8] جبکہ شیعوں کے دوسرے فرقے جیسے زیدیہ کے مطابق ہر زمانے میں حضرت زہرا(س) کی نسل سے کوئی بھی شجاع اور سخاوت مند شخص قیام کرے وہ امام ہوتا ہے۔[9]

شیعہ امامیہ پیغمبر اکرمؐ سے منقول احادیث کی روشنی میں اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے خدا کے حکم سے امام علیؑ کو اپنا جانشین اور پہلا امام معیّن فرمایا ہے۔ [10] زیدیہ، اسماعیلیہ اور دیگر شیعہ فرقوں کے برخلاف جو ائمہ کی تعداد کو 12 امام میں محدود نہیں سمجھتے، شیعہ امامیہ بعض احادیث جیسے حدیث لوح سے استناد کرتے ہوئے صرف بارہ اماموں کی امامت پر اعتقاد رکھتے ہیں، [11] جو بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. علی بن ابیطالب (امام علیؑ)
  2. حسن بن علی(امام حسن ؑ)
  3. حسین بن علی(امام حسین ؑ)
  4. علی بن الحسین(امام سجادؑ)
  5. محمد بن علی(امام باقرؑ)
  6. جعفر بن محمد(امام صادقؑ)
  7. موسی بن جعفر(امام کاظمؑ)
  8. علی بن موسی(امام رضاؑ)
  9. محمد بن علی(امام جوادؑ)
  10. علی بن محمد(امام ہادیؑ)
  11. حسن بن علی(امام عسکریؑ)
  12. حجۃ بن الحسن(امام مہدیؑ)[12]

شیعہ اثنا عشری کے مطابق امام مہدیؑ چودہ سو سالوں سے زندہ ہیں اور غیبت کبریٰ میں زندگی گزار رہے ہیں اور خدا کے اذن سے ایک دن قیام کرکے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔[13]

امامیہ عدل کو بھی امامت کی طرح اصول دین میں سے قرار دیتے ہیں اسی وجہ سے معتزلہ کی طرح امامیہ کو بھی عدلیہ کہا جاتا ہے۔ عدل سے مراد یہ ہے کہ خدا اپنی رحمت اور ثواب و عقاب کو اپنے بندوں کی ذاتی استحقاق کی بنیاد پر عطا کرتا ہے اور کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے۔[14]

رجعت پر اعتقاد رکھنا شیعہ امامیہ کے مخصوص اعتقادات میں سے ایک ہے۔ [15] رجعت سے مراد یہ ہے کہ جس وقت امام زمانہؑ ظہور فرمائیں گے اس وقت بعض مؤمنین اور اہل بیتؑ کے بعض دشمن جو مر چکے ہونگے، دوبارہ زندہ ہونگے اور مؤمنین امام زمانہ کے رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرینگے جبکہ اہل بیت کے دشمنوں سے آپؑ انتقام لیں گے۔[16]

علم کلام میں اوائل المقالات، تصحیح الاعتقاد، تجرید الاعتقاد اور کشف المراد وہ اہم کتابیں ہیں جن میں شیعہ اعتقادات پر تفصیل سے بحث کی ہیں۔[17] شیخ مفید(۳۳۶یا۳۳۸-۴۱۳ق)، شیخ طوسی(۳۸۵-۴۶۰ق)، خواجہ نصیر الدین طوسی(۵۹۷-۶۷۲ق) و علامہ حلی(۶۴۸-۷۲۶ق) وغیرہ اس مذہب کے مایہ ناز متکلمین میں سے ہیں۔ [18]

احکام

امامیہ مذہب میں بهی دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح زندگی کے اہم امور عبادات، معاملات، واجبات شرعی کی ادائیگی جیسے خمس و زکات، ازدواج اور ارث کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے مختلف شرعی احکام پر بحث کی جاتی ہے۔ [19] امامیہ ان احکام کو قرآن، سنت، عقل اور اجماع کے ذریعے حاصل کرتے ہیں جنہیں اصطلاح میں ادلہ اربعہ کہا جاتا ہے۔ [20]

شرایع الاسلام، اللمعۃ الدمشقیۃ، شرح لمعہ، جواہر الکلام، مکاسب اور العروۃ الوثقی شیعوں کی مشہور فقہی کتابوں میں سے ہیں۔[21] شیخ طوسی، محقق حلی، علامہ حلی، شہید اول، شہید ثانی، کاشف الغطاء، مرزا قمی اور شیخ مرتضی انصاری اس مذہب کے اہم اور مایہ ناز فقہاء میں سے ہیں۔[22]

آجکل شرعی احکام کو مراجع تقلید، توضیح المسائل نامی کتابوں میں بیان کرتے ہیں۔ [23]

مذہبی رسومات

عید فطر، عید قربان اور عید مبعث جنہیں تمام مسلمان مشترکہ طور پر مناتے ہیں، کے علاوہ عید غدیر، پیغمبرؐ، امام علیؑ، حضرت فاطمہ(س) اور دیگر ائمہ معصومین کی ولادت کے ایام نیز پندرہ شعبان شیعوں کی اہم عیدوں میں شمار ہوتے ہیں۔ [24]

امامیہ مذہب میں مذکورہ تمام عیدوں کے مخصوص اعمال ہیں جیسے عید قربان کے اعمال میں غسل کرنا، عید کی نماز پڑھنا، قربانی‌کرنا، امام حسین ؑ کی زیارت اور دعائے ندبہ پڑھنا مستحب ہے۔ [25]

شیعہ، اہل بیتؑ سے اپنی عقیدت کے اظہار کیلئے سال کے کچھ ایام میں عزاداری برگزار کرتے ہیں۔[26] عزاداری‌ کے یہ مراسم امام حسینؑ اور آپ کے با وفا اصحاب و اعوان کی شہادت کی مناسبت سے محرم الحرام کے پہلے عشرے میں انجام پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ صفر کے آخری عشرہ، اربعین اور ایام فاطمیہ میں بھی عزاداری منعقد ہوتی ہے۔

پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ کی زیارت شیعوں کے دیگر اہم مذہبی رسومات میں سے ہے۔[27] اسی طرح امام‌زادگان اور بعض مذہبی علماء کے قبور کی زیارت کو بھی ان کے ہاں اہمیت حاصل ہے۔ٰ[28] شیعہ احادیث میں دعا اور مناجات پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے اسی مناسبت سے مختلف کتابوں میں مختلف دعائیں اور زیارتیں ائمہ اور بعض علماء کی زبانی نقل ہوئی ہیں۔[29] بعض مشہور دعائیں اور زیارت نامے کچھ یوں ہیں:‌ دعائے کمیل[30]، دعائے عَرَفہ[31]، دعائے نُدبہ[32]، مناجات شعبانیہ،[33] دعائے توسل،[34] زیارت عاشورا،[35] زیارت جامعہ کبیرہ[36]، زیارت امین اللہ۔[37]

شیعہ تعلیمات کے مآخذ

شیعہ اپنے اعتقادی، فقہی، اخلاقی اور علمی ثقافتی تعلیمات کو چار منابع سے لیتے ہیں جنہیں ادلہ اربعہ کہا جاتا ہے اور وہ قرآن، سنت، اجماع اور عقل ہیں۔[38]

  • قرآن

شیعہ تعملیمات میں قرآن کو پہلے اور اہم ترین منبع کی حیثیت حاصل ہے۔ شیعوں کے یہاں قرآن کی اہمیت اس قدر ہے کہ جہاں پر بھی کوئی روایت قرآن کی کسی بھی آیات کے ساتھ متضاد ہو تو اسے معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔[39] التمہید، کے مطابق تمام شیعہ حضرات موجودہ قرآن کو صحیح اور کامل سمجھتے ہیں۔[40]

  • سنت

امامیہ دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح پیغمبر اکرمؐ کی سنت، یعنی گفتار اور رفتار کو حجت سمجھتے ہیں۔[41] شیعہ بعض احادیث جیسے حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ وغیرہ جن میں اہل بیتؑ کی طرف رجوع کرنے اور ان کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، سے استناد کرتے ہوئے اہل بیتؑ کی سنت کو بھی اپنی تعلیمات کے اصلی منابع میں شمار کرتے ہیں۔ [42] اسی اہمیت کے پیش نظر شیعہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کے احادیث کی تدوین اور ان کی حفاظت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔[43] اصول کافی، تہذیب الاحکام، استبصار اور من لایحضرہ الفقیہ جو کتب اربعہ یا اصول اربعہ کے نام سے مشہور ہیں۔[44]شیعوں کی دیگر جوامع حدیثی میں: الوافی، بحارالانوار، وسایل الشیعہ[45]، مستدرک، میزان الحکمہ، جامع احادیث الشیعہ، الحیاۃ اور آثار الصادقین شامل ہیں۔[46]

شیعہ ہر حدیث کو معتبر نہیں جانتے چونکہ ان کے یہاں احادیث کو پرکھنے کے کئی معیار ہیں جن میں قرآن کا مخالف نہ ہونا، راویوں کا مورد اعتماد اور احادیث کا تواتر ہونا وغیرہ ہیں اور اس کام کیلئے درایہ اور رجال نامی علوم سے استفادہ کیا جاتا ہے۔[47]

  • عقل

علم اصول کے مشہور علماء عقل کو کتاب اور سنت کے مقابلے میں ایک مستقل دلیل مانتے ہیں۔[48] لیکن اخباری حضرات عقل کو مستقل دلیل نہیں مانتے۔ یہاں عقل سے مراد عقل کے وہ احکام ہیں جو ہمیں کسی حکم شرعی تک پہنچائے۔[49]

  • اجماع

اجماع سے مراد کسی شرعی حکم پر تمام علماء کے اتفاق کو کہا جاتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں اجماع کی خاص اہمیت ہے اور اسے ایک مستقل دلیل سمجھتے ہیں جبکہ اہل تشیع کے ہاں خود اجماع کوئی مستقل دلیل نہیں بلکہ یہ سنت کو کشف کرنے کا ایک راستہ ہے اس بنا پر اگر اجماع کے ذریعے معصوم کا قول کشف ہوا تو یہ اجماع حجیت ہے ورنہ خود اجماع من حیث اجماع کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ [50] علم اصول میں اجماع کی مختلف قسمیں بیان ہوئی ہیں۔

مرتبط موضوعات

حوالہ جات

  1. نک: المفید، الفصول المختارة، ص۲۹۶.
  2. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، ۱۳۹۰ش، ص۲۹، ۳۰.
  3. فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، ۱۳۸۲ش، ص۶۱.
  4. فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، ۱۳۸۲ش، ص۶۳-۶۵.
  5. فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، ۱۳۸۲ش، ص۱۰۹، ۱۱۰.
  6. سید مرتضی، الفصول المختارہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۲۱.
  7. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۱۴.
  8. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۱۴.
  9. علامہ طباطبائی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۹ش، ص۱۶۷.
  10. علامہ طباطبائی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۹ش، ص۱۹۷، ۱۹۸.
  11. علامہ طباطبائی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۹ش، ص۱۹۷، ۱۹۸.
  12. علامہ طباطبائی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۹ش، ص۱۹۸، ۱۹۹.
  13. علامہ طباطبائی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۹ش، ص۲۳۰، ۲۳۱.
  14. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۹۹.
  15. ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۲۷۳؛ علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۰۶.
  16. ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۲۷۳.
  17. کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۵۲.
  18. کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۵۲.
  19. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۶۵-۶۹.
  20. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۱۷۶، ۱۸۲.
  21. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۲۶۱-۲۶۴.
  22. مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۲۶۰-۲۶۴.
  23. یزدانی، «مروری بر رسالہ ہای عملیہ»، ص۲۹۲، ۲۹۲.
  24. موسی‌پور، «جشن‌ ہای جہان اسلام»، ص۳۷۳-۳۷۶.
  25. مجلسی، زادالمعاد، ۱۳۸۹ش، ص۴۲۶، ۴۲۷.
  26. مظاہری، «عزاداری»، ص۳۴۵.
  27. فولادی و نوروزی، «جایگاہ زیارت در آیین کاتولیک و مذهب شیعہ؛ بررسی و مقایسہ»، ص۲۹، ۳۰.
  28. مفہوم زیارت و جایگاہ آن در فرہنگ اسلامی، سایت راسخون، ۱۳ دی ۱۳۹۴ش،
  29. ر.ک: شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، فہرست کتاب.
  30. ہاشمی اقدم، «اسرارالعارفین با شرح دعای کمیل»، ص۳۲.
  31. محلاتی، «بررسی تطبیقی دعای عرفہ امام حسین و امام سجاد»، ص۱۰۷.
  32. ر.ک: مہدی‌پور، «با دعای ندبہ در پگاہ جمعہ»
  33. حیدرزادہ، «در محضر مناجات شعبانیہ»، ص۱۶۰.
  34. فضیلت و کیفیت دعای توسل، سایت باشگاہ خبرنگاران جوان، ۲۲ آذر ۱۳۹۵،
  35. رضایی، « پژوہشی در اسناد و نسخہ ہای زیارت عاشورا»، ۱۵۳.
  36. نجفی، «نگرشى موضوعى بر زیارت جامعہ کبیرہ» ص۱۵۰.
  37. ر.ک: شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ذیل زیارت امین اللہ
  38. مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ۵۱.
  39. ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۱۱۵، ۱۱۶.
  40. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲.
  41. ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۱۱۵، ۱۲۴.
  42. ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۱۱۵، ۱۳۳-۱۳۵.
  43. مہدوی راد، «سیر انتقال میراث مکتوب شیعہ در آینہ فہرست ہا»، ص۱۴۰.
  44. مؤدب، تاریخ حدیث، ۱۳۸۸ش، ص۸۶.
  45. مؤدب، تاریخ حدیث، ۱۳۸۸ش، ص۱۲۹.
  46. مؤدب، تاریخ حدیث، ۱۳۸۸ش، ص۱۴۸-۱۵۲.
  47. علامہ طباطبائی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۹ش، ۱۲۸، ۱۲۹.
  48. محمدرضا مظفر، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۱۱۵
  49. محمدرضا مظفر، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۱۱۸
  50. محمدرضا مظفر، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۳۵۳

مآخذ

  • دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۰، تہران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۸۰ش، مدخل امامیہ.
  • الامین، السید محسن، اعیان الشیعة، ج۱، حققہ و اخرجہ: السید حسن الامین، بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۸ء
  • البرقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، ج۱، تحقیق، تصحیح و تعلیق: السید جلال الدین الحسینی (المحدث) طہران:‌ دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۷۰ - ۱۳۳۰.
  • الاشعری، ابو الحسن، مقالات الاسلامیین واختلاف المصلین، بتحقیق محمد محیی الدین عبد الحمید، القاہرة: مکتبة النہضة المصریة، ۱۳۶۹ق/۱۹۵۰ء
  • الشہرستانی، الملل و النحل، تحقیق: محمد سید کیلانی، بیروت: دار المعرفة، بی‌تا.
  • طباطبائی، سید محمد حسین، شیعہ در اسلام، قم: دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۳ش.
  • الکوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق: محمد الکاظم، طہران: مؤسسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامی، ۱۴۱۰ - ۱۹۹۰ء
  • المفید، الفصول المختارة، تحقیق: السید نور الدین جعفریان الاصبہانی، الشیخ یعقوب الجعفری، الشیخ محسن الأحمدی، بیروت:‌ دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع، ۱۴۱۴-۱۹۹۳ء