عید فطر

عید فطر شوال کی پہلی تاریخ کو رمضان کے روزوں کے اختتام پر منائی جاتی ہے جو مسلمانوں کی سب سے بڑی عیدوں میں سے ہے۔ اس دن عام طور پر تمام مسلمان ملکوں میں سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ عید فطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اس دن مسلمان عید کی نماز پڑھتے ہیں اور مخصوص شرائط کے ساتھ زکات فطرہ ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
عید فطر کی رات اور دن کے مختلف آداب اور احکام ہیں؛ من جملہ ان میں مستحب نمازیں اور دعائیں پڑھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، غسل، زیارت امام حسین(ع)، شب بیداری اور خاص تکبریں کہنا شامل ہیں۔
مسلمان عید کے دن صلہ رحمی اور ایک دوسرے کو عید کی مبارک بادی دیتے ہیں۔
معنای فطر
لفظ "فطر" لغت میں کسی چیز کے کھلنے اور کھولنے کو کہا جاتا ہے۔[1] اور قرآن میں سورہ انفطار کی آیت إِذَا السَّماءُ انْفَطَرَتْ" [2]میں لفظ انْفَطَرَتْ" اسی باب سے ہے۔ نیز کہا جاتا ہے کہ "تَفَطَّرَتْ" اور انْفَطَرتْ" اسی طرح "افطار" و "عید فطر" بھی اسی باب سے ہیں کیونکہ روزہ دار مغرب اور عید فطر کے دن اپنا منھ کھانے اور پینے کے لئے کھول دیتا ہے۔[3]
عید فطر کا تعیّن
تفصیلی مضمون: قمری مہینے
جیسا کہ بیان ہوا عید فطر ماہ شوال کی پہلی تاریخ کو ہے اس بنا پر شوال کا چاند نظر آنے یا ماہ رمضان المبارک کے تیس دن پورے ہونے کی صورت میں ماہ شوال کی پہلی تاریخ ثابت ہوتی ہے جس کے ساتھ ساتھ عید فطر کا تعین بھی ہوتا ہے۔
عید فطر رویات کی روشنی میں
جابر نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
- جب ماہ شوال کی پہلی تاریخ آتی ہے تو ایک ندا آتی ہے کہ اے مؤمنو صبح سویرے اپنے انعامات کو دریافت کرنے کی خاطر دوڑ پڑو! پھر آپ نے فرمایا کہ اے جابر خدا کا انعام دنیاوی بادشاہوں کے انعمات کی طرح نہیں ہے۔ اس کے بعد فرمایا: یہ دن انعام کا دن ہے۔[4]
- پیغمبر (ص) خدا نے فرمایا: عید فطر کے دن فرشتے گلی کوچوں میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ اپنے پروردگار کی طرف جلدی کرو جو بیشمار عطا کرتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔[5]
- امام علی علیہ السلام بعض عید کے ایام میں فرماتے ہیں: یہ عید اس شخص کیلئے ہے جس کا روزہ خدا کی بارگاہ میں مورد قبول واقع ہوئی ہو اور ہر وہ دن جس دن خدا کی نافرمانی واقع نہ ہو عید کا دن ہے۔[6]
- امام حسن مجتبی علیہ السلام عید کے دن کھیل تماشے میں مصروف لوگوں کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا: "خدا وند عالم نے ماہ رمضان کو اپنے بندوں کیلئے مقابلے کا میدان قرار دیا ہے تاکہ خدا کی اطاعت کرنے کے ذریعے رضائے الہی کی طرف ایک دوسرے پر سبقت لے لے۔ ایک گروہ اگے نکل کر یہ مقابلہ جیت جاتا ہے اور ایک گرہ پیچھے رہ کر ہار جاتا ہے۔پس آج حبکہ نیکی کرنے والے جزا پاتے ہیں اور کوتاہی کرنے والے ناکام ہوتے ہیں ایک ایسے دن مجھے اس کھیل تماشے میں مصروف لوگوں کی ہنسی پر تعجب ہوتاہے۔ خدا کی قسم اگر پردہ اٹھ جائے جائے تو نیکی کرنے والے اپنے نیک کاموں میں مشغول ہونگے جبکہ بدکاران اپنے بدکاری میں گرفتار ہونگے۔[7]
احکام و آداب
عید کی رات
- نماز، تلاوت قرآن اوردعا:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر عید فطر اور عید قربان (ضحی)وغیرہ کی رات بہت زیادہ نماژ پڑھا کر اور قرآن کی تلاوت کیا کر اور اللہ سے دعا مانگو۔[8]
- نماز: امام صادق علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو شخص عید فطر کی رات دو رکعت نماز پڑھے جس کی پہلی رکعت میں سورہ حمد ایک مرتبہ اور سورہ اخلاص(توحید) ہزار مرتبہ اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور سورہ توحید ایک ایک مرتبہ پڑھے اور خدا سے کوئی چیز نہیں مانگتا مگر یہ کہ خدا اسے وہ چیز عطا کرتا ہے۔[9]
- نماز کے بعد تکبیر: معاویۃ ابن عمار نقل کرتے ہیں کہ ۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: عید فطر کو تکبیر پڑھی جاتی ہے۔ امام سے عرض کیا کہ یہ تکبیریں کب پڑھی جاتی ہیں امام نے فرمایا عید فطر کی رات نماز مغرب و عشاء اور نماز صبح اسی طرح نماز عید کے وقت پڑھی جاتی ہے ۔ اور یہ وہی کلاب الہی ہے جس میں فرماتے ہیں : وَ لِتُکمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُکبِّرُوا اللَّـهَ عَلَیٰ مَا هَدَاکمْ وَ لَعَلَّکمْ تَشْکرُونَ [10]اور وہ تکبیریں یہ ہیں: لله اکبر الله اکبر، لا اله الا الله و الله اکبر، و لله الحمد علی ما هدانا، و له الشکر علی ما اولانا ۔[11]
- شب زندہ داری امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ: مجھے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے کہ ہر شخص سال میں چار راتیں عبادت کیلئے اپنے آپ کو فارع رکھیں اور وہ چار راتیں: عید فطر کی رات، عید قربان کی رات، 15 شعبان کی رات، اور مارہ رجب کی پہلی رات ہے۔[12]
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام عید فطر کی رات مسجد میں صبح تک بیٹھتے یہاں تک کہ صبح کی نماز وہیں پر پڑھتے اس طرح پوری رات شب زندہ داری میں گزارتے اور فرماتے ایے نور نظر یہ رات شب قدر سے کم نہیں ہے۔[13]
- اس رات امام حسین علیہ السلام کی زیارت مستحب ہے۔[14]
- عید کی رات غسل کرنا مستحب ہے روایت میں ہے کہ عید کی رات غروب سے پہلے عسل انجام دیا جائے اور رات کے آخری حصے میں بھی غسل کرنے کے بارے میں روایت موجود ہے۔[15]
- متاخرین کے مشہور قول کے مطابق زکات فطرہ کے واجب ہونے کا وقت غروب شب عید ہے۔ بعضی نے اس کے وجوب کی وقت کو عید کے دن طلوع فجر قرار دیا ہے۔[16]
عید کا دن
- عید فطر کے دن غسل کرنا مستحب مؤکد ہے ۔ غسل کے وقت کی ابتداء طلوع فجر ہے لیکن اس کی انتہاء کے بارے میں کہ آیا نماز کیلئے باہر جانے تک ہے یا زوال (نماز ظہر) کے وقت تک یا مغرب تک اس میں اختلاف ہے۔[17]
- عصر غیبت میں عید کی نماز مستحب ہے لیکن عصر حضور اور امام کی حکومت کے دوران واجب ہے۔[18]
- مستحب ہے نماز عید سے پہلے کچھ نہ کچھ کھایاجائے بطور خاص خرما۔[19]
- عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔[20] گھر والوں کیلئے کھانے پینے کی چیزوں کے حوالے سے وسعت دینا بھی مستحب ہے۔[21] نیز دعائے ندبہ پڑھنا بھی مستحب ہے۔[22]
- عید کے دن طلوع فجر کے بعد اور نماز عید سے پہلے سفر کرنا وجوب کی صورت میں حرام جبکہ مستحب ہونے کی صورت میں مکروہ ہے۔[23]
حوالہ جات
- ↑ لسان العرب، ج ۵، ص۵۵
- ↑ انفطار، ۱
- ↑ لسان العرب، ج ۵، ص۵۵
- ↑ اصول کافی، ج۷، ص۶۵۰
- ↑ مستدرک الوسائل، ج۶، ص۱۵۴
- ↑ نہج البلاغہ، حکمت ۴۲۸
- ↑ من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۷۴
- ↑ مصباح المتہجد، ص۵۹۰ ـ ۵۸۹
- ↑ اقبال الاعمال، ص۵۷۵
- ↑ بقره، ۱۸۵
- ↑ ابن طاووس، اقبال الاعمال، ص۵۷۴
- ↑ مصباح المتہجد، ص۵۸۹؛ ر.ک: اقبال الاعمال ص۵۷۷
- ↑ اقبال الاعمال، ص۵۷۷
- ↑ اقبال الاعمال، ص۵۷۷
- ↑ اقبال الاعمال، ص572
- ↑ اقبال الاعمال، ص572
- ↑ مصباح الهدی، ج ۷، ص۸۶
- ↑ جواهر الکلام، ج ۱۱، ص۳۳۲ ـ ۳۳۳
- ↑ جواهر الکلام، ج ۱۱، ص۳۷۷
- ↑ جواهر الکلام، ج ۱۶، ص۳۲۴؛ سید ابن طاووس کہتے ہیں: عید فطر کے دن صبح کھاتے وقت بھی روزہ دار کو خدا کی اطاعت کی نیت کرنی چاہئے تاکہ وہ روزہ رکھنے کی طرح کھانے پینے کے دوران بھی عبادت اور سعادت کی حالت میں ہو۔ اقبال الاعمال، ص۵۸۶
- ↑ الکافی فی الفقہ، ص۱۵۵
- ↑ سیدبن طاووس، اقبال، ص۶۰۴
- ↑ الکافی فی الفقہ، ص۱۵۵
مآخذ
- انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، چ۱، تہران: پیام آزادی، ۱۳۷۳ش.
- جزائری، عزالدین، شرح الصحیفہ السجادیہ، بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ق.
- حسینی مدنی، سید علیخان، ریاض السالکین فی شرح صحیفہ سیدالساجدین، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۰۹ق.
- شفیع حسینی، محمدباقر، حل لغات الصحیفہ السجادیہ، مشہد: تاسوعا، ۱۴۲۰ق.
- فضل الله، سید محمدحسین، آفاق الروح، ۲ج، بیروت: دارالمالک، ۱۴۲۰ق.
- فیض کاشانی، محمدبن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران: مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ق.
- مدرسی چہاردہی، محمدعلی، شرح صحیفہ سجادیہ، چ۱، تهران: مرتضوی، ۱۳۷۹ش.
- مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، چ۴، قم: دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ق.
- ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت: ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، با مقدمہ آیتا لله جوادی آملی، چ۲، قم: بوستان کتاب، ۱۳۸۵ش.
بیرونی رابط
|
|