زیارت اربعین
کوائف | |
---|---|
موضوع: | اربعین کے دن امام حسینؑ کی زیارت |
مأثور/غیرمأثور: | مأثور |
صادرہ از: | امام صادقؑ |
راوی: | صفوان بن مہران جمال |
شیعہ منابع: | تہذیب الأحکام |
مشہور دعائیں اور زیارات | |
دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین |
مؤمن کی پانج نشانیاں ہیں:
- روزانہ 51 رکعت نماز، (17 رکعت واجب (یومیہ نمازیں) اور 34 رکعت مستحب یومیہ نوافل)
- زیارت اربعین۔
- انگوٹھی کا دائیں ہاتھ میں پہننا۔
- سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا۔
- "بسم اللّہ" کو بلند آواز کے ساتھ پڑھنا
شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۵۲۔
زیارت اربعین، امام حسینؑ کی چہلم کے موقعے پر پڑھی جانے والی مخصوص زیارت ہے۔ امام حسن عسکریؑ کی ایک حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی پانچ نشانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے اسی لئے شیعہ اس پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
شیخ طوسی نے كتاب التہذیب میں صَفْوان جَمّال کے توسط سے امام صادقؑ سے اربعین کے دن امام حسینؑ کی ایک زیارت نقل کی ہے۔ ایک اور زیارت نامہ عطیہ عوفی نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کی ہے جو رجب کی پندرہویں تاریخ کو پڑھی جانے والی زیارت ہے۔
شیعیان عراق روز اربعین کربلا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر عراقی یہ راستہ پیدل طے کرتے ہیں۔ اربعین پیدل مارچ شیعیان عالم کے عظیم ترین اجتماعات میں شمار ہوتے ہیں۔
اہمیت
شیخ طوسی نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں ان میں سے ایک زیارت اربعین ہے۔[1][یادداشت 1]
علامہ مجلسی نے زیارت اربعین کے مستحب ہونے کے بارے میں نقل کیا ہے کہ مشہور یہ ہے کہ زیارت اربعین کے مستحب ہونے کی دلیل اسی دن اسیران کربلا کا کربلا واپس آنا اور امام سجادؑ کے توسط سے شہدا کے سروں کا ان کے بدنوں کے ساتھ ملحق ہونا ہے۔[2] انہوں نے پہلی اربعین کو اسراء کربلا کی کربلا واپسی کو بعید قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیارت اربعین کے مستحب ہونے کی علت جابر بن عبد اللہ انصاری کی زیارت ہو۔ کیونکہ جابر پہلا شخص ہے جس نے قبر امام حسینؑ پر حاضری دے کر امام کی زیارت کی، ان کی پیروی اور تأسی میں اربعین کے دن امام حسین کی زیارت کو مستحب قرار دی گئی ہے۔ علامہ مجلسی کے مطابق ممکن ہے اس زیارت کے استحباب کی علت اسیران کربلا کی شام کے زندان سے آزادی ہو جو شاید اسی دن رونما ہوئی ہے۔[3]
علامہ مجلسی نے کفعمی سے نقل کیا ہے کہ زیارت اربعین کی وجہ تسمیہ اس زیارت کا وقت ہے جو کہ 20 صفر ہے یعنی امام حسینؑ کی شہادت کا چالیسواں دن ہے۔[4]
کیفیت
اربعین کے امام حسینؑ کی دو زیارت نامے نقل ہوئی ہیں:
صفوان جمال سے منقول زیارت نامہ
شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام[5] میں صفوان جمال سے روایت نقل کی ہے؛ صفوان جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے زیارت اربعین کے بارے میں مجھ سے فرمایا: "اربعین کے دن چاشت کے وقت یہ زیارت پڑھو۔
متن | ترجمه |
---|---|
السَّلامُ عَلَی وَلِی اللهِ وَ حَبِیبِهِ السَّلامُ عَلَی خَلِیلِ اللهِ وَ نَجِیبِهِ السَّلامُ عَلَی صَفِی اللهِ وَ ابْنِ صَفِیهِ السَّلامُ عَلَی الْحُسَینِ الْمَظْلُومِ الشَّهِیدِ السَّلامُ عَلَی أَسِیرِ الْكرُبَاتِ وَ قَتِیلِ الْعَبَرَاتِ اللهُمَّ إِنِّی أَشْهَدُ أَنَّهُ وَلِیك وَ ابْنُ وَلِیك وَ صَفِیك وَ ابْنُ صَفِیك الْفَائِزُ بِكرَامَتِك أَكرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ وَ حَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ وَ اجْتَبَیتَهُ بِطِیبِ الْوِلادَةِ وَ جَعَلْتَهُ سَیدا مِنَ السَّادَةِ وَ قَائِدا مِنَ الْقَادَةِ وَ ذَائِدا مِنَ الذَّادَةِ وَ أَعْطَیتَهُ مَوَارِیثَ الْأَنْبِیاءِ وَ جَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلَی خَلْقِك مِنَ الْأَوْصِیاءِ فَأَعْذَرَ فِی الدُّعَاءِ وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیك لِیسْتَنْقِذَ عِبَادَك مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَیرَةِ الضَّلالَةِ وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَیهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْیا وَ بَاعَ حَظَّهُ بِالْأَرْذَلِ الْأَدْنَی وَ شَرَی آخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْأَوْكسِ وَ تَغَطْرَسَ وَ تَرَدَّی فِی هَوَاهُ وَ أَسْخَطَك وَ أَسْخَطَ نَبِیك، وَ أَطَاعَ مِنْ عِبَادِك أَهْلَ الشِّقَاقِ وَ النِّفَاقِ وَ حَمَلَةَ الْأَوْزَارِ الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ [لِلنَّارِ] فَجَاهَدَهُمْ فِیك صَابِرا مُحْتَسِبا حَتَّی سُفِك فِی طَاعَتِك دَمُهُ وَ اسْتُبِیحَ حَرِیمُهُ اللهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْنا وَبِیلا وَ عَذِّبْهُمْ عَذَابا أَلِیما السَّلامُ عَلَیك یا ابْنَ رَسُولِ اللهِ السَّلامُ عَلَیك یا ابْنَ سَیدِ الْأَوْصِیاءِ أَشْهَدُ أَنَّك أَمِینُ اللهِ وَ ابْنُ أَمِینِهِ عِشْتَ سَعِیدا وَ مَضَیتَ حَمِیدا وَ مُتَّ فَقِیدا مَظْلُوما شَهِیدا وَ أَشْهَدُ أَنَّ اللهَ مُنْجِزٌ مَا وَعَدَك وَ مُهْلِك مَنْ خَذَلَك وَ مُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَك وَ أَشْهَدُ أَنَّك وَفَیتَ بِعَهْدِ اللهِ وَ جَاهَدْتَ فِی سَبِیلِهِ حَتَّی أَتَاك الْیقِینُ فَلَعَنَ اللهُ مَنْ قَتَلَك وَ لَعَنَ اللهُ مَنْ ظَلَمَك وَ لَعَنَ اللهُ أُمَّةً سَمِعَتْ بِذَلِك فَرَضِیتْ بِهِ، اللهُمَّ إِنِّی أُشْهِدُك أَنِّی وَلِی لِمَنْ وَالاهُ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی یا ابْنَ رَسُولِ اللهِ أَشْهَدُ أَنَّك كنْتَ نُورا فِی الْأَصْلابِ الشَّامِخَةِ وَ الْأَرْحَامِ الْمُطَهَّرَةِ [الطَّاهِرَةِ] لَمْ تُنَجِّسْك الْجَاهِلِیةُ بِأَنْجَاسِهَا وَ لَمْ تُلْبِسْك الْمُدْلَهِمَّاتُ مِنْ ثِیابِهَا وَ أَشْهَدُ أَنَّك مِنْ دَعَائِمِ الدِّینِ وَ أَرْكانِ الْمُسْلِمِینَ وَ مَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ وَ أَشْهَدُ أَنَّك الْإِمَامُ الْبَرُّ التَّقِی الرَّضِی الزَّكی الْهَادِی الْمَهْدِی وَ أَشْهَدُ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِك كلِمَةُ التَّقْوَی وَ أَعْلامُ الْهُدَی وَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقَی وَ الْحُجَّةُ عَلَی أَهْلِ الدُّنْیا وَ أَشْهَدُ أَنِّی بِكمْ مُؤْمِنٌ وَ بِإِیابِكمْ مُوقِنٌ بِشَرَائِعِ دِینِی وَ خَوَاتِیمِ عَمَلِی وَ قَلْبِی لِقَلْبِكمْ سِلْمٌ وَ أَمْرِی لِأَمْرِكمْ مُتَّبِعٌ وَ نُصْرَتِی لَكمْ مُعَدَّةٌ حَتَّی یأْذَنَ اللهُ لَكمْ فَمَعَكمْ مَعَكمْ لا مَعَ عَدُوِّكمْ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیكمْ وَ عَلَی أَرْوَاحِكمْ وَ أَجْسَادِكمْ [أَجْسَامِكمْ] وَ شَاهِدِكمْ وَ غَائِبِكمْ وَ ظَاهِرِكمْ وَ بَاطِنِكمْ آمِینَ رَبَّ الْعَالَمِینَ. | سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور چنے ہوئے پر سلام ہو خدا کے پسندیدہ اوراس کے پسندیدہ کے فرزند پرسلام ہو حسین(ع) پرجوستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسین(ع) پر جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہے اے معبود میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی تونے انہیں شہادت کی عزت دی ان کو خوش بختی نصیب کی اور انہیں پاک گھرانے میں پیدا کیا تو نے قرار دیا انہیں سرداروں میں سردار پیشوائوں میں پیشوا مجاہدوں میں مجاہد اور انہیں نبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے قراردیا ان کو اوصیائ میں سے اپنی مخلوقات پرحجت پس انہوں نے تبلیغ کا حق ادا کیا بہترین خیرخواہی کی اورتیری خاطراپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سے جب کہ ان پران لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اوراپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سرکشی کی اورلالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی(ص) کو ناراض کیا انہوں نے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کرجہنم کی طرف چلے گئے پس حسین(ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کرہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور انکے اہل حرم کو لوٹا گیا اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اورعذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول(ص) کے فرزند آپ پرسلام ہو اے سرداراوصیائ کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اوراسکے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے قابل تعریف حال میں گزرے اور وفات پائی وطن سے دورکہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا جس کا اس نے وعدہ کیا اوراسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپکا ساتھ چھوڑا اوراسکو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہوگئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپکو قتل خدا لعنت کرے جس نے آپ پرظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پرجس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی اے معبود میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ قربان آپ پراے فرزند رسول خدا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میںرہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام (ع) ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیزگاری کے ترجمان ہدایت کے نشان محکم تر سلسلہ اور دنیا والوں پرخدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا اپنے دینی احکام اورعمل کی جزا پر یقین رکھنے والا ہوں میرا دل آپکے دل کیساتھ پیوستہ میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری مدد آپ کیلئے حاضر ہے حتی کہ خدا آپکو اذن قیام دے پس آپکے ساتھ ہوں آپکے ساتھ نہ کہ آپکے دشمن کیساتھ خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر آپ کی پاک روحوں پر آپ کے جسموں پر آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر ایسا ہی ہو جہانوں کے پروردگار۔ |
پس دو رکعت نماز بجا لاؤ اور جو چاہو اللہ سے مانگو۔
زیارت کے مضامین
دعا و مناجات |
اس زیارت کے پہلے حصے میں امام حسینؑ پر درود و سلام بھیجنے کے ساتھ آپ کی عظیم شہادت اور مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔[یادداشت 2]
اس کے بعد اگلے حصے میں بعض شیعہ عقائد جیسے ائمہ معصومینؑ کی ولایت کی گواہی دی جاتی ہے اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ نبوت کی میراث امام حسینؑ کے پاس ہے اور آپؑ لوگوں پر خدا کی حجت ہے۔
اس زیارت نامہ میں امام حسینؑ کی شہادت کا فلسفہ بندگان خدا کو جہالت اور گمراہی سے نجات دلانا قرار دیا گیا ہے۔[یادداشت 3]
اس کے بعد امام حسینؑ کے قاتلوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ان پر لعن کی گئی ہے۔
اس سے اگلے مرحلے میں امام حسینؑ کی بعض خصوصیات بیان کرتے ہوئے اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ آپ شرک سے پاک ہیں اور آپ نے خدا کی راہ میں جہاد کی ہیں اور آپ کی ذریت زمین پر خدا کی حجت ہیں۔
زائر اس زیارت میں اپنے آپ کو ائمہ معصومینؑ کے احکامات کا تابع اور ان کی حمایت اور مدد نیز ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔
عطیہ عوفی سے منقول زیارت نامہ
یہ وہ زیارت ہے جو عطاء سے نقل ہوئی ہے، (عطاء ظاہرا وہی عطیۂ عوفی کوفی ہیں جو اربعین کے موقع پر جابر کے ہمراہ تھے) عطاء کہتے ہیں:
میں 20 صفر کو جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ تھا، جب ہم غاضریہ پہنچے تو انھوں نے آب فرات سے غسل کیا اور ایک پاکیزہ پیراہن ـ جو ان کے پاس تھا ـ پہن لیا اور پھر مجھ سے کہا: "اے عطا! کیا عطریات میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟" میں نے کہا: میرے پاس "سُعد"[6] ہے۔ جابر نے اس میں سے کچھ لے لیا اور اپنے سر اور بدن پر مل لیا؛ ننگے پاؤں روانہ ہوئے حتی کہ قبر مطہر پر پہنچے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہوگئے اور تین مرتبہ "اللہ اکبر" کہا اور گر کر بے ہوش ہوئے۔ ہوش میں آئے تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا: "السلام علیکم یا آل اللہ..." جو درحقیقت وہی زیارت جو نصف رجب کو وارد ہوئی ہے۔[7] اربعین کی دوسری زیارت بمع اردو ترجمہ
اربعین کا پیدل زیارتی سفر
زیارت اربعین پر ائمہؑ کی تاکید کی بنا پر لاکھوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک خاص کر عراق کے مختلف شہروں اور قصبوں سے کربلا کی طرف سفر کرتے ہیں؛ اکثر زائرین پیدل چل کر اس عظیم مہم میں شریک ہوتے ہیں اور یہ ریلیاں دنیا کی عظیم ترین مذہبی ریلیاں سمجھی جاتی ہیں۔ دسمبر 2013 بمطابق صفر المظفر 1435 ہجری، کے تخمینوں کے مطابق، اس سال دو کروڑ زائرین اس عظیم جلوس عزاداری میں شریک ہوئے تھے۔ [8] بعض رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ اس سال کربلا پہنچنے والے زائرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔[9]
قاضی طباطبایی لکھتے ہیں کہ کربلا کی طرف پائے پیادہ جانے والے زائرین کے قافلوں کا سلسلہ ائمہ معصومینؑ کے زمانے میں بھی رائج تھا اور حتی کہ یہ سلسلہ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی جاری رہا اور تمام تر سختیوں اور خطرات کے باوجود شیعیان اہل بیتؑ پابندی کے ساتھ ان مراسم میں شرکت کرتے تھے۔[10]
حوالہ جات
- ↑ طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۵۲.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۸، ص۳۳۴.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۸، ص۳۳۴۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۸، ص۳۳۴۔
- ↑ طوسی، تہذیب الاحکام، ج 6، ص 113۔
- ↑ ایک قسم کی خوشبو۔
- ↑ شیخ عباس قمي، مفاتيح الجنان، باب سوم، زيارت امام حسين در روز اربعين متن، ترجمہ و صدای زیارت امام حسین (ع) در نیمہ ماہ رجب۔
- ↑ سایت خبری فردا۔
- ↑ سايت خبري فردا
- ↑ طباطبایی، ص 2
نوٹ
- ↑ علامات المؤمن خمس : صلاة الخمسين ، وزيارة الاربعين ، والتختم في اليمين ، وتعفير الجبين ، والجهر ببسم الله الرحمن الرحيم، ترجمہ: روزانہ 51 رکعت نماز (یعنی 17 رکعت واجب اور 34 رکعت نوافل) بجا لانا؛ زیارت اربعین؛ انگشتری داہنے ہاتھ میں پہننا؛ سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا؛ نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا۔
- ↑ الْفَائِزُ بِكرَامَتِك أَكرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ وَ حَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ.
- ↑ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیك لِیسْتَنْقِذَ عِبَادَك مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَیرَةِ الضَّلالَةِ.
مآخذ
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام،دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ق۔
- قاضی طباطبایی، سید محمد علی، تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سید الشہدا(ع)، بنیاد علمی و فرہنگی شہید آیت اللہ قاضی طباطبایی، قم، ۱۳۶۸ش۔
- قمی، عباس، مفاتیح الجنان۔
- فرہنگ زیارت، فصل نامہ فرہنگی، اجتماعی، سیاسی و خبری، سال پنجم، شمارہ نوزدہم و بیستم، تابستان و پاییز ۱۳۹۳ش۔