تفویض

ویکی شیعہ سے

تَفْویض، اسلامی تعلیمات میں عام رائج ایک لفظ ہے جو احادیث، علم کلام، اخلاق اور عرفان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ تفویض کا لفظ علم کلام سے متعلق مسئلہ جبر و اختیار میں اختیارِ مطلق کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے افعال و اعمال کی انجام دہی میں مکمل اختیار رکھتا ہے، یہ اسلامی مکاتب فکر میں سے معتزلہ کا نظریہ ہے۔ اس کے مقابلے میں نظریہ جبر ہے جس کے مطابق انسان اپنے افعال کی انجام دہی میں مکمل مجبور ہے۔ یہ اشاعرہ کا نظریہ ہے۔

شیعہ متکلمین ائمہ معصومینؑ کی احادیث کی روشنی میں تفویض اور جبر دونوں کو رد کرتے ہوئے ایک درمیانی راہ کو اپناتے ہیں، جسے "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ اخلاق اور عرفان میں تفویض سیر و سلوک کے ایک مرحلے کا نام ہے۔ یہاں تفویض تقریبا توکل جیسے معنی دیتی ہے؛ یعنی اپنے تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا، اس کی مقدرات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور اسی پر راضی ہونا۔

شیعوں کے ہاں رائج کلامی مباحث میں تفویض کے اور دو معنی مستعمل ہیں اور یہ دونوں معنی احادیث سے ماخوذ ہیں: ان میں سے ایک پیغمبرؐ اور اماموں کی ولایت تشریعی اور دوسرا ان کی ولایت تکوینی ہے۔ علمائے شیعہ ان دونوں موضوعات میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔

تفویض، اسلامی علوم میں بکثرت استعمال ہونے والی اصطلاح

تفویض کی اصطلاح اسلامی علوم کے مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے، جن میں حدیث، علم کلام، اخلاق اور عرفان شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک شعبہ میں اس کے مختلف معنی ہیں۔[1] خصوصا کلامی اسلامی میں تفویض پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے[2] اور معتزلہ نامی ایک کلامی فرقہ کے پیروکاروں کو جبر و اختیار کے مسئلے میں مُفَوّضہ (اہل تفویض) کہا جاتا ہے۔[3] لغت میں تفویض کے معنی ہیں سپرد کرنا۔[4]

اسلامی علوم میں تفویض کے مختلف معانی کا استعمال

شیعہ علماء کے مطابق شیعہ احادیث میں تفویض کے کم از کم چار مختلف معانی زیر استعمال ہیں؛ جن میں سے بعض مثبت اور بعض منفی معنی میں شمار ہوتے ہیں: انسان کا اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھنا(مکمل جبر کے بر خلاف معنی)،[5] اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا،[6] محمد و آل محمدؐ کی ولایت تشریعی،[7] اور ان کی ولایت تکوینی۔[8] اخلاق اور عرفان اسلامی میں تفویض کے معنی ہیں اپنے امور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا جو کہ توکل سے ملتے جلتے معنی ہیں۔[9] علم کلام میں تفویض کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھتا ہے[10] لیکن شیعہ کلامی کتب میں مذکورہ معنی کے علاوہ احادیث کی پیروی کرتے ہوئے ولایت تشریعی اور ولایت تکوینی کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں چونکہ احادیث میں لفظ تفویض ان دو معانی میں بھی استعمال ہوا ہے۔[11]

اختیار

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: امر بین الامرین اور جبر و اختیار

کلام اسلامی میں تفویض جبر و اختیار کے مسئلے میں زیر بحث آتی ہے۔[12] معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے افعال و اعمال میں کوئی دخالت نہیں کرتا؛ یعنی اللہ نے انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے لہذا وہ اپنے اعمال میں مکمل اختیار رکھتا ہے۔[13] تفویض کے مقابلے میں جبر مطلق کا نظریہ ہے جس کا اشاعرہ دفاع کرتے ہیں۔[14]

شیعہ حضرات ائمہ معصومینؑ کی احادیث کی روشنی میں نہ مکمل طور پر جبر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر اختیار کا؛ بلکہ ان میں سے ایک درمیانی راہ اپناتے ہیں[15] جسے "امرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں؛[16] یعنی انسان ایک مختار موجود ہے؛ لیکن اس کے افعال کو اللہ کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ جہاں انسان کا وجود اللہ سے ہے وہاں اس سے صادر ہونے والے افعال بھی اسی سے وابستہ ہیں۔[17]

شیعہ منابع حدیثی، جیسے الکافی،[18] توحید،[19] الاعتقادات[20] اور بحارالانوار وغیرہ[21] میں کچھ ابواب جبر و اختیار مطلق کے رد اور "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" کی تائید کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ شیخ کلینی کی کتاب الکافی اور شیخ صدوق کی کتاب التوحید میں امام جعفرصادقؑ سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے: "لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيضَ وَ لَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْن؛ نہ جبر نہ تفویض؛ بلکہ ان دونوں میں سے صرف درمیانی راہ صحیح اور درست ہے۔"[22]

امور کو اللہ کے سپرد کرنا

پیغمبر خداؐ

انسان کا اللہ پر ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک اس میں پانچ خصوصیات نہ ہوں: اللہ پر توکل، تمام امور اسی کے سپرد کرنا، اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، قضائے الہی پر راضی ہونا اور امتحان الہی میں صبر و تحمل

حسن بن محمد دیلمی، اَعلام‌الدین، 1408ھ، ص334.

سوره غافر آیت 44"اُفَوِّضُ اَمْری اِلَى الله"؛ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں"، کی عثمانی اور صفویہ دور میں خط نستعلیق میں خطاطی کی ایک تصویر

محدثین کے عقیدے کے مطابق بعض احادیث میں تفویض "امور کو اللہ کے سپرد کرنے" کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ بعض منابع حدیثی میں کچھ ابواب "اللہ پر توکل اور تفویض" کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں۔[23] ان احادیث میں سے ایک حدیث میں امام موسی کاظمؑ فرماتے ہیں: "توکل کے کئی درجے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے تمام امور میں اللہ پر تکیہ کرو، ہر حالت میں اسی پر راضی رہو، اس بات پر یقین رکھو کہ وہ تجھے اپنے خیر و فضل کے عطا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اور خود ہی اس کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ پس اپنے امور کو اسی پر تفویض کرو اور اسی پر توکل کر اور اپنے اور دوسروں کے امور کے سلسلے میں صرف اسی پر بھروسہ رکھو۔"[24]

حضرت علیؑ کی ایک حدیث میں آیا ہے: "ایمان کے چار ارکان ہیں: اللہ پر توکل، تمام امور کو اسی کے سپرد کرنا، قضائے الہی پر راضی ہونا اور امر خدا کے سامنے تسلیم ہونا۔"[25]

بعض اخلاقی اور عرفانی کتب میں بھی تفویض کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔[26] پانچویں صدی ہجری کے عارف باللہ خواجه عبد الله انصاری نے اپنی کتاب "منازل‌ السّائرین میں تفویض کو سیر و سلوک کا ایک مرحلہ قرار دیا ہے، جس میں انسان مکمل طور پر اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ خواجہ کے مطابق توکل تفویض کی ایک شاخ ہے۔[27]

ان کے مطابق تفویض کے تین درجے ہیں:

  1. اس بات کو جانو کہ بندہ اپنے عمل کی انجام دہی میں کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ پس اللہ کی تدبیر سے اپنے آپ کو محفوظ مت سمجھو، اس کی مدد سے ناامید مت ہوجاؤ اور صرف اپنے ارادے پر بھروسہ نہ کرو۔
  2. اپنی ناداری اور مجبوری کو مد نظر رکھ کر اللہ پر یقین رکھو۔ کسی عمل کو اپنی نجات کا باعث اور کسی گناہ کو ہلاکت کا موجب تصور نہ کرو اور اللہ کے سوا کسی چیز کو موثر مت جانو۔
  3. یقین کرو کہ حرکت و سکون اور تمام امور کا اختیار صر ف اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ جان لو کہ وہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے۔[28]

ولایت تشریعی

ائمہؑ سے منقول بعض احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دینی امور کو پیغمبر خداؐ اور اماموں پر "تفویض" کیا ہے۔[29] بعض شیعہ منابع حدیثی میں "تفویض امر دین به پیغمبر و امام" کے عنوان سے باقاعدہ الگ باب کا عنوان ملتا ہے۔[30] علمائے شیعہ نے اسے "ولایت تشریعی" کا نام دیا ہے۔ یہاں ولایت تشریعی سےمراد دین میں قانون گزاری کا حق ہے؛ یعنی تشریع احکام عبادی، اقتصادی، سیاسی، حقوقی وغیرہ۔[31]

ولایت تشریعی کے سلسلے میں علما کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا کہنا ہے کہ اسلام میں کسی کو اللہ نے قانون گزاری کا حق نہیں دیا ہے؛ یہ صرف اسی کا حق ہے لہذا اللہ نے بطور مطلق یہ معاملہ کسی کو تفویض نہیں کیا ہے۔[32] بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث کے مطابق چند مقامات پر اللہ نے پیغمبرؐ کو تشریع کا حق دیا ہے لہذا پیغمبرخداؐ کی ولایت تشریعی کو قبول کرتے ہیں۔[33] ان دو گروہوں کے مقابلے میں بعض علما کا کہنا ہے کہ اللہ نے دین کے تمام امور میں پیغمبر خداؐ اور ائمہؑ کو ولایت تشریعی عنایت کی ہے۔[34]

ولایت تکوینی

ائمہؑ کی بعض احادیث میں آیا ہے کہ اللہ نے کائنات کے امور مثلا تخلیق، روزی دینا، زندہ کرنا اور موت دینا وغیرہ کا اختیار پیغمبر خداؐ اور امام علیؑ کو تفویض نہیں کیا ہے۔[35] اس کے مقابلے میں بعض علما کہتے ہیں کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ اس کائنات پر نازل ہونے والے فیض الہی کے واسطے ہیں۔[36] علمائے شیعہ اس مسئلے کو "ولایت تکوینی" کا نام دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں:

بعض علما کا کہنا ہے کہ رسول خداؐ اور ائمہؑ کو سوائے چند موارد کے باقی امور میں ولایت تکوینی حاصل نہیں ہے۔ مرتضی مطہری، صافی گلپایگانی اور جعفر سبحانی اس نظریے کے قائل ہیں۔ [37] شیخ صدوق اور شیخ مفید مخلوقات کے امور کو پیغمبرخداؐ اور ائمہؑ پر تفویض کیے جانے کو رد کرتے ہیں اور اسے غالیوں کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔[38] اس کے مقابلے میں بعض دیگر علما جیسے محمد حسین غروی اصفہانی اور سید محمد حسین حسینی تہرانی کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کو کائنات کے تمام امور میں ولایت تکوینی حاصل ہے اور یہ ہستیاں عالم ہستی میں فیض الہی کے واسطے ہیں۔[39]

حوالہ جات

  1. ری‌شهری و دیگران، حکمت‌نامه پیامبر اعظم،، 1387ہجری شمسی، ج3، ص194.
  2. ملاحظہ کریں: سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص359-360؛ مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج1، ص48-52.
  3. بحرانی، المعجم الاصولی، 1428ھ، ص343-344.
  4. قرشی بنایی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج5، ص212، ذیل «فوض».
  5. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوق، توحید، ص362.
  6. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص63؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 1385ق/1965م، ص16.
  7. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص268؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 1391ہجری شمسی، ج1، ص97.
  8. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97.
  9. ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، 1427ھ، ص329.
  10. مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج6، ص628.
  11. ملاحظہ کریں: مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 1385ہجری شمسی، ص51.
  12. مطہری، مجموعہ آثار، 1384ہجری شمسی، ج23، ص307.
  13. مطہری، مجموعہ آثار، 1384ہجری شمسی، ج6، ص628.
  14. مطہری، مجموعہ آثار،1384ہجری شمسی، ج23، ج307.
  15. سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.
  16. سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.
  17. سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص431-432.
  18. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص155.
  19. شیخ صدوق، توحید، ص359.
  20. شیخ صدوق، اعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص29.
  21. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص2.
  22. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوق، توحید، ص362.
  23. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص63؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 1385ق/1965م، ص16.
  24. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص65.
  25. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص47؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 1385ھ/1965ء، ص18.
  26. ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، 1427ھ، ص329؛ زین‌الدین رازی، حدائق‌الحقائھ، 1422، ص115. ژنده‌پیل، کنوزالحکمه، 1387ہجری شمسی، ص53؛ فیض کاشانی، الشافی، 1425ھ، ج1، ص496.
  27. کاشانی، شرح منازل السائرین، 1427ھ، ص329.
  28. کاشانی، شرح منازل السائرین، 1427ھ، ص331-332.
  29. کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص268.
  30. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص265؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج7، ص1.
  31. صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 1391ہجری شمسی، ج1، ص97.
  32. سبحانی، مفاهیم‌القرآن، 1421ھ، ج1، ص610؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 1391ہجری شمسی، ج1، ص99، 101.
  33. سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 1385ہجری شمسی، ص20-21؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 1391ہجری شمسی، ج1، ص101-102.
  34. غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ عاملی، الولایةُ التکوینیه و التشریعیه، 1428ھ، ص60-63؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج5، 1418ھ، ص114، 179.
  35. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97.
  36. ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، ص20-25.
  37. مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 1385ہجری شمسی، ص51.
  38. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97، 100؛ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج5، ص134.
  39. غروی اصفهانی، حاشیة کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ج5، 1418ھ، ص114.

مآخذ

  • بحرانی، محمد صنقور علی، المعجم الاصولی، قم، منشورات الطیار، چاپ دوم، 1428ھ۔
  • حسینی تهرانی، سیدمحمدحسین، امام‌شناسی، مشهد، انتشارات علامه طباطبایی، 1418ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، تحقیق و تصحیح مؤسسه آل‌البیت، قم، مؤسسه آل‌البیت، چاپ اول، 1408ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، در انتظار موعود شماره 29، 1388ہجری شمسی۔
  • ری‌شهری، محمد و دیگران، حکمت‌نامه پیامبر اعظم، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث، 1387ہجری شمسی۔
  • زین‌الدین رازی، محمد بن ابوبکر، حدائق‌الحقائھ، تحقیق سعید عبدالفتاح، قاهره، مکتبة الثقافه الدینیه، چاپ اول، 1422ھ۔
  • ژنده‌پیل، احد بن ابوالحسن، کنوزالحکمه، تصحیح و تعلیق حسن نصیری جامی، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات فرهنگی، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، جبر و اختیار، تنظیم علی ربانی گلپایگانی، قم، مؤسسه امام صادھ، 1381ش/1423ھ۔
  • سبحانی، جعفر، مفاهیم‌القرآن، به‌قلم جعفر الهادی، قم، مؤسسه امام صادھ، 1421ھ۔
  • سبحانی، جعفر، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، قم، مؤسسه امام صادھ، 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، اعتقادات‌الامامیه، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح هاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1398ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌الله، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، 1391ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌الله، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، 1393ہجری شمسی۔
  • طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، نجف، المکتبة الحیدریه، چاپ دوم، 1385ق/1965ء۔
  • عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایة التکوینیة و التشریعیة، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، 1428ھ۔
  • غروی اصفهانی، محمدحسین، حاشیةالمکاسب، قم، ذوی‌القربیٰ، 1427ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاه‌مرتضی، الشافی فی العقاید و الاخلاق و الاحکام، تحقیق مهدی انصاری قمی، تهران، لوح محفوظ، چاپ اول، 1425ھ۔
  • قرشی بنایی، علی‌اکبر، قاموس قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ ششم، 1412ھ۔
  • کاشانی، عبدالرزاھ، شرح منازل السائرین، تصحیح محسن بیدارفر، قم، بیدار، چاپ سوم، 1427ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الاسلامیة، چاپ چهارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مطهری، مرتضی، مجموعه آثار استاد شهید مطهری، تهران، صدرا، 1384ہجری شمسی۔