معاد

ویکی شیعہ سے

معاد اسلام اور ادیان الہی کے اصول دین میں سے ایک اہم رکن ہے جس کے معنی علم کلام کی اصطلاح میں موت اور اس دنیا سے جانے کے بعد قیامت کے دن انسان کی روح کا جسم میں لوٹ آنا اور دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق قیامت کے دن تمام انسان زندہ ہونگے اور خداوند عالم کے حضور ان کے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا۔ ہر انسان ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی۔

اسلام میں توحید کے بعد معاد سب سے اہم عقیدہ اور اس پر ایمان رکھنا مسلمان ہونے کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کی تقریبا 1400 سے 2000 تک آیات معاد اور اخروی زندگی سے مربوط مسائل کے بارے میں ہیں۔ معاد پر عقیدہ معاشرے کی اصلاح، عدل و انصاف کے اجرا، زندگی کی سختیوں سے ناامید نہ ہونا اور دوسروں کے حقوق کی رعایت کا باعث قرار دیا ہے۔

مسلمانوں کے درمیان معاد کو ماننے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ لیکن اس کی نوعیت میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے اور اس بارے میں تین نظریات پیش کئے گئے ہیں: بعض مسلم علما اور فلسفی جسمانی اور روحانی معاد کے قائل ہیں۔ اکثر متکلمین معاد کو صرف جسمانی سمجھتے ہیں اور صرف معاد روحانی کی نسبت فلسفیانِ مشاء کی طرف دی گئی ہے۔ البتہ مشائی فلسفیوں کے بزرگ ابن‌ سینا نے معاد جسمانی کو شرعی اعتبار سے مان لیا ہے۔

جسمانی اور روحانی معاد کے حامیوں نے اخروی بدن کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے ہیں جن میں روح کا دنیا کے مادی بدن میں لوٹ آنا، روح کا مثالی بدن میں لوٹ آنا، روح کا آسمانی بدن میں لوٹ آنا، شامل ہیں۔

مسلم فلاسفر، دنیوی اور اخروی انسان کو ایک ثابت کرنے کے لئے نفس اور اس کے مجرد ہونے سے متوسل ہوئے ہیں اور نفس کو دنیوی اور اخروی انسان کے اتحاد اور عینیت کا باعث قرار دئے ہیں۔

معاد کے امکان کو ثابت کرنے لئے مختلف دلائل کا حوالہ دیا ہے۔ معاد کے امکان کو قرآن مجید کی ان آیات سے مستند کیا ہے جن میں زمین کا دوبارہ زندہ ہونے، نیز اصحاب کہف اور عُزَیْر پیغمبرؑ کی طرح بعض انسانوں کا دوبارہ زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ معاد واقع ہونے کی ضرورت ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالی کا معاد کے وقوع کی خبر دینے میں سچا ہونا، انسان کی فطرت میں زندگیِ جاوید کی خواہش ہونا اور اللہ تعالی کی صفات میں سے عدالت اور حکمت کا حوالہ دیا گیا ہے۔

معاد کے امکان اور وقوع پر متعدد دلائل قائم کرنے کے باوجود بعض لوگوں نے معاد کا انکار کیا ہے۔ اس انکار کی وجوہات میں جہالت، اللہ کی قدرت سے غفلت، بے بند و باری اور بے مسئولیتی کو ذکر کیا ہے۔ معاد پر ایمان اور عقیدہ رکھنا مسلمانوں کو نیک رفتار و کردار اختیار کرنے، نیکی اور اچھے کاموں کی طرف رغبت اور برے کاموں سے دور رہنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مخالفین نے شبہہ آکل و مأکول، شبہہ اعادہ معدوم اور معاد کے وقوع کے بارے میں اللہ کے علم اور قدرت میں شبہہ ایجاد کیا ہے اور مسلم علما نے ان شبہات کے مختلف جوابات دئے ہیں۔

معاد آسمانی ادیان کا عقیدہ

معاد اور عالمِ آخرت میں انسان کا زندہ ہونے پر عقیدہ رکھنا اصول دین[1] اور آسمانی ادیان کے سب سے اہم عقیدہ[2] شمار کیا گیا ہے۔ «ادیان زندہ جہان» نامی کتاب میں موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو تمام مذاہب کے عقائد اور تعلیمات میں شمار کیا جاتا ہے، بشمول الہی مذاہب، ہندو مت، بدھ مت، تاؤ مت اور شنٹو۔[3]

شیعہ علما کا کہنا ہے کہ توحید کے بعد اصول دین میں سب سے اہم اصل معاد پر عقیدہ ہے اور انبیاء الہی نے لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی طرف دعوت دی ہے۔[4] معاد اور اخروی زندگی پر ایمان مسلمان ہونے کی شرط اور اس کا انکار اسلام کے دائرے سے خارج ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[5]

محمد تقی مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ قرآن میں معاد کے عقیدے کو اللہ عقیدے کے برابر قرار دیا ہے اور 20 سے زائد آیتوں میں «اللہ» کا لفظ «الیوم الآخر» ایک ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔[6] 12 آیتوں میں اللہ پر ایمان کے بعد روزِ آخرت پر ایمان کا ذکر آیا ہے۔[7] مصباح یزدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء الہی کی عمدہ گفتگو اور ان کی لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ اکثر معاد کے موضوع پر ہوتی تھیں یہاں تک کہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ انبیاءؑ جتنا زیادہ معاد کی اثبات پر زور دیتے تھے اتنا توحید کے اثبات پر توجہ نہیں دیتے تھے؛ کیونکہ لوگوں نے غیبی امور سے انکار، لاابالی، ذمہ داری قبول نہ کرنے اور آزادی کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے معاد کو ماننے میں زیادہ سختی دکھایا ہے۔[8]

کہا گیا ہے کہ معاد کا لفظ قرآن میں صرف ایک بار آیا ہے[9] اور وہ بھی لغوی معنی یعنی واپس لوٹنے کی جگہ کے معنی میں آیا ہے؛[10] لیکن قرآن کی 1400[11]سے دو ہزار تک آیات یعنی ایک تہائی قرآن[12] میں معاد اور اخروی زندگی کے بارے میں بات ہوئی ہے۔ معاد سے مربوط آیتوں کو چند گروہ میں تقسیم کر سکتے ہیں:

  1. وہ آیات جو آخرت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیتی ہیں؛[13]
  2. وہ آیات جو انکارِ معاد کے سنگین نتایج کے بارے میں ہیں؛[14]
  3. وہ آیات جو بہشت کی ابدی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں؛[15]
  4. وہ آیات جو جہنم کے دائمی عذاب کو بیان کرتی ہیں؛[16]
  5. وہ آیات جو قیامت کے دن اچھے اور برے اعمال کے نتائج کو بیان کرتی ہیں؛
  6. وہ آیات جو معاد اور قیامت برپا ہونا ضروری اور منکرین معاد کے سوالات اور اعتراضات کا جواب دیتی ہیں؛[17]

مسیحی بھی حضرت عیسی کے واپس آنے اور مرنے کے بعد بعض افراد کا زندہ ہونے کی تاریخی مثالوں[18] کا ذکر کرتے ہوئے معاد کے واقع ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔[19]عہد عتیق[20] اور عہد جدید[21] کے مطابق تمام انسان مرنے کے بعد یا «ہاویہ» یا عالَمِ اموات چلے جاتے ہیں جس کے دو حصے ہیں: ایک حصے میں برے لوگوں کے لئے عذاب کی جگہ اور دوسرا حصہ عادل لوگوں کے لئے فردوس (جنت) ہے۔[22] رسولوں کے اعتقاد نامہ اور نیقیّہ کے اعتقادنامہ جو تمام مسیحیوں کے موردِ قبول دو اعتقادنامے ہیں ان دونوں میں بھی معاد کا عقیدہ اور اس پر ایمان ذکر ہوا ہے۔[23]

کہا گیا ہے کہ یہودیوں کی مقدس کتاب عہد عتیق (تَنَخ) میں معاد کا عقیدہ ذکر نہیں ہوا ہے لیکن تَلْمُود جو یہودی احادیث اور احکام پر مشتمل کتاب ہے، میں معاد کے بارے میں بہت بات ہوئی ہے[24] عہد عتیق کے بارے میں یہ احتمال دیا گیا ہے کہ تحریف کی وجہ سے معاد سے مربوط عبارتیں حذف ہوئی ہیں۔[25] البتہ عہد عتیق کے ایک فقرے میں یہ عبارت آئی ہے:«یَہُوَہ مار دیتا ہے اور زندہ کرتا ہے، قبر میں ڈالتا ہے اور وہاں سے اٹھاتا ہے»۔[26]

زرتشت دین کے مطابق انسانی روح مرنے کے بعد بدن سے الگ ہوجاتی ہے اور باقی رہتی ہے تاکہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے لئے اٹھائی جائے۔[27] کہا گیا ہے کہ زرتشتیوں کے ہاں بہشت کی جس طرح توصیف ہوئی ہے وہی صفات اسلام میں بھی بیان ہوئی ہیں؛ لیکن زرتشت مذہب میں جہنم جلانے والی اور آگ نہیں ہے؛ بلکہ بہت ٹھنڈی، تاریک اور وحشتناک جگہ ہے۔[28] یہ لوگ «چینوَت پل» (پل صراط اور الگ کرنے والا) پر عقیدہ رکھتے ہیں۔[29]

قیامت پر عقیدہ اور دنیوی زندگی پر اس کے اثرات

معاد پر توجہ دینے سے انسانی زندگی میں اس کے جسم اور روح پر بڑے مثبت تربیتی اور ذہنی آثار مرتب ہوتے ہیں۔[30] مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ جو شخص معاد پر عقیدہ رکھتا ہے اس کے ہاں موت زندگی کا خاتمہ نہیں اسی لئے وہ اپنی زندگی کو اس طرح سے منظم کرتا ہے کہ اس کا ہر کام ابدی زندگی کے لئے مفید واقع ہو۔ دوسری طرف زندگی کی ناکامیوں اور مشکلات سے نا امید اور دلبرداشتہ نہیں ہوتا ہے بلکہ ابدی کمال اور سعادت کی تلاش میں رہتا ہے۔ ان کے مطابق معاد صرف فردی زندگی پر اثر انداز نہیں بلکہ اس پر عقیدہ اجتماعی زندگی پر بھی بہت موثر ہے؛ جیسے دوسروں کے حقوق کی رعایت، نیازمندوں کے لئے ایثار و احساس۔ جس معاشرے میں معاد کا عقیدہ ہو تو وہاں پر عادلانہ قوانین کا اجرا اور ظلم و زیادتی کی روک تھام کے لئے قدرت کا استفادہ بہت ہوتا ہے۔[31] شیعہ مفسر اور فلسفی آیت‌ اللہ جوادی آملی کے مطابق معاد کی یاد کا سب سے اہم اثر فردی اور معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کا قیام جبکہ معاد کو بھولنے کا سب سے اہم اثر فردی اور معاشرتی ظلم و زیادتی ہے۔[32]

جو شخص قیامت پر یقین رکھتا ہے وہ دنیا کو آخرت کی کھیتی اور اپنے اعمال کو ایک بیج کے طور پر دیکھتا ہے جس کا پھل آخرت میں ملے گا۔ اس لیے وہ اپنی دنیوی زندگی میں منظم کام کرتا ہے اور احکام الٰہی پر عمل کرنے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا۔[33]نیز قیامت پر یقین موت کے حوالے سے انسانی نکتہ نگاہ کو بدل دیتا ہے اور اسے فنا اور عدم کے معنی سے تبدیل کر کے ایک خوبصورت اور اعلیٰ دنیا کے لئے دروازہ اور ایک پل میں بدل دیتا ہے۔[34] خالی پن سے چھٹکارا پانا اور پوری دنیا کو مادی چیزوں تک محدود نہ ہونا قیامت پر یقین کے دوسرے اثرات میں سے ایک ہے۔[35]

کہا گیا ہے کہ قیامت کا عقیدہ دنیوی زندگی میں اس صورت میں کارآمد ہو سکتا ہے جب دنیا اور آخرت کے درمیان علت اور معلول (سبب اور اثر) کا تعلق ہو اور آخرت کی نعمتوں اور سزاؤں کو دنیا میں درست اعمال اور غلط کاموں کی سزا اور جزا کے طور پر قبول کر لیا جائے۔[36]

بعض کے نزدیک قیامت پر یقین معاشرے کی سلامتی کا ایک عنصر، قانونی اور سماجی تحفظ کا عنصر اور انسانوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا عنصر ہے۔[37]

تعریف اور معنی

معاد، متکلمین کی اصطلاح قیامت کے دن اعمال کا حساب و کتاب دینے کیلئے روح کا جسم میں دوبارہ پلٹ آنے کو معاد کہتے ہیں تاکہ نیکوکاروں کو بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں دی جائیں، جبکہ گنہگاروں کو ان کے گناہ کی سزا اور عذاب دیا جا سکے۔[38]

عبد اللہ جوادی آملی نے معاد کو انسان کا اللہ کی طرف پلٹ آنے کا معنی کیا ہے۔[39] آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین سعد الدین تفتازانی نے معاد کے چار معنی بیان کئے ہیں: فنا کے بعد دوبارہ وجود میں آنا، جسم کے اعضاء کا ان کے منتشر ہونے کے بعد جمع ہونا، موت کے بعد زندگی کی طرف لوٹنا، اور روح کا بدن سے الگ ہونے کے بعد جسم میں دوبارہ واپس آنا۔[40] بعض نے قیامت کو موت کے بعد دوسری دنیا میں انسانی زندگی کا مجموعہ سمجھا ہے۔[41] علامہ مجلسی کا کہنا ہے کہ معاد عربی زبان میں یا مصدر میمی ہے یا اسم زمان و مکان۔ اس اعتبار سے اس کے تین معنی بنتے ہیں: کسی چیز کی کسی ایسی جگہ یا حالت میں واپسی جہاں سے اسے منتقل کیا گیا تھا، واپسی کا وقت، واپسی کی جگہ۔[42]

معاد سے مربوط مفاہیم

شیعہ مفسر اور فقیہ ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں معاد کے بارے میں مختلف عبارتیں آئی ہیں جن میں سب سے مشہور تفسیر "قیامت" ہے اور قرآن مجید میں سات مرتبہ قیامت کو "یوم القیامۃ" سے تعبیر کیا گیا ہے۔[43] ان کی نظر میں ان میں سے ہر اسم اور صفت قیامت اور معاد کی ایک خصوصیت کو بیان کرتے ہیں۔[44] مفسر اور ماہر الہیات جعفر سبحانی کے نقطہ نظر سے قرآن میں قیامت کے بے شمار ناموں اور صفات سے قرآن کی قیامت میں دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ قیامت کو قرآن میں قیامت کے ناموں میں سے ایک نام سمجھتے ہیں۔[45]

قرآن مجید میں معاد کے مختلف نام اور صفات:

ردیف نام ردیف نام
1 الآخِرة /یوم الآخِر (ایک اور دنیا) 11. یَومً مَجْموعً له النّاس (جس دن لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ )
2. یوم الجَمْع (جس دن سب لوگ جمع ہوتے ہیں) 12. یوم مُحیط (شامل کرنے والا دن)
3. یوم القِیامَة (قیامت کا دن) 13. یوم عَظیم (عظیم دن)
4. یوم الدّین (روز جزا) 14. یَومً یَجْعَلُ الوِلْدانَ شِیْباً (وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کر دیتا ہے۔)
5. یوم البَعْث (مبعوث کرنے کا دن) 15. الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ (روز موعود)
6. یوم الحَسْره (روز حسرت) 16. يَوْمٌ أَلِيمٌ (دردناک دن)
7. یوم الفَصْل (جدائی کا دن) 17. یوْمُ التَّغَابُنِ (نقصانات کو ظاہر کرنے کا دن)
8. یوم الخُلود (لافانی دن) 18. یوْمَ التَّلَاق (ملاقات کا دن)
9. یوم الخُروج (قبر سے نکلنے کا دن) 19. یَوْمَ لاتَجْزى‌ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئاً (جس دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکے گا)
10 یوْمِ الْحِسَابِ (حساب کتاب کا دن) 20. يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ (جس دن راز فاش ہوتے ہیں)[46]
مزید معلومات کے لئے دیکھئے: قرآن میں قیامت کے اسامی


روحانی یا جسمانی معاد

فیاض لاہیجی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان معاد کو ماننے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛[47] لیکن اس کی حقیقت اور یہ کہ معاد جسمانی ہے یا روحانی یا روحانی اور جسمانی دونوں ہیں، اس میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔[48] اس اختلاف رائے کے منشاء کو انسان کی حقیقت میں اختلاف ہونا قرار دیا ہے۔[49] معاد کے بارے میں مسلم علماء کی آراء یہ ہیں:

  1. جسمانی اور روحانی معاد: بہت سارے مسلم علما معاد کو معادِ جسمانی اور روحانی سمجھتے ہیں۔[50] اس نظرئے کو مسلم حکما بلکہ الہی حکما کی طرف نسبت دی ہے۔[51] علامہ مجلسی نے بھی اسی نظرئے کو اکثر متکلمین اور ماہرین الہیات کا نظریہ قرار دیا ہے۔[52] مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی کے مطابق قرآن میں معاد صرف جسمانی اور روحانی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے وقت جسم اور روح دونوں واپس آئیں گے۔[53] جو بھی انسان کی حقیقت کو نفسِ مجرد اور بدن کا مرکب سمجھتا ہے وہ جسمانی اور روحانی معاد کا قائل ہے۔[54]
  2. جسمانی معاد: فخر الدین رازی اور فیاض لاہیجی کا کہنا ہے کہ اکثر متکلمین،[55] اور بعض فقہا و محدیثن[56] صرف جسمانی معاد کے قائل ہیں اور روحانی معاد کے منکر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گروہ انسان کی حقیقت کو صرف یہی مادی بدن سمجھتے تھے۔[57]

ان کے نزدیک روح ایک مادی حقیقت ہے جو کوئلے میں آگ یا پھول کے پتوں میں پانی کی طرح جسم میں جاری و ساری ہے اور اس کے نتیجے میں موت کے بعد جسم کے فنا ہونے کے ساتھ ہی وہ فنا ہو جاتی ہے[58] اور قیامت کے وقت خدا کے علم اور قدرتِ مطلق سے بکھرا ہوا جسم دوبارہ مرمت ہوتا ہے اور واپس آتا ہے۔[59]

  1. صرف روحانی معاد: جعفر سبحانی کے مطابق، زیادہ تر مشاء کے فلسفیوں نے صرف روحانی اور فکری معاد کو قبول کرتے تھے اور جسمانی معاد کا انکار کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے مطابق جسم مرنے کے بعد فنا ہو جاتا ہے اور اس سے کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے تاکہ ہم کہیں کہ قیامت میں اسے دوبارہ لایا جائے گا؛ لیکن روح چونکہ مجرد ہے اس لیے فنا نہیں ہوتی ہے[60] اور جسم سے الگ ہونے کے بعد عالَمِ مجردات میں شامل ہو جاتی ہے۔[61]

فلسفہ مشاء کے سب سے بزرگ فلسفی ابن‌ سینا نے معاد جسمانی کو صرف شرعی نکتہ نظر اور پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر مان لیا ہے۔[62] علامہ مجلسی، معاد جسمانی کے انکار کو کفر اور اس کا لازمہ قرآن، پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کا انکار سمجھتے ہیں۔[63] آپ فلسفیوں کو معاد جسمانی کے منکر سمجھتے ہیں؛ کیونکہ وہ اعادہ معدوم (مردہ کو واپس کرنا) ناممکن سمجھتے ہیں۔[64] فیاض لاہیجی کے مطابق جو لوگ انسان کی حقیقت کو مجرد نفس اور جسم کو روح سے الگ اور روح کے لیے محض ایک آلہ سمجھتے ہیں وہ صرف روحانی معاد کو قبول کرتے ہیں۔[65]

جسمانی اور روحانی معاد کے بارے میں مختلف نظریات

روحانی و جسمانی معاد کے ماننے والوں نے کئی طریقوں سے اپنی رائے پیش کی ہے:

  • دنیاوی مادی جسم میں روح کی واپسی: اس رائے کے مطابق جو کہ سب سے مشہور نظریہ ہے اور مسلم ماہرین الہیات سے منسوب ہے،[66] آخرت میں خدا جسم کے بکھرے ہوئے حصوں کو جمع کرتا ہے اور ان سے دنیاوی جسم جیسا جسم بناتا ہے اور روح کو اس کی طرف لوٹاتا ہے۔[67] بعض ماہرینِ الہٰیات کا خیال ہے کہ انسانی جسم کے اہم اور اصلی اعضاء، جو ناقابلِ تبدیل ہیں، قیامت میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ یہ اجزاء موت کے وقت جسم سے الگ ہوجاتے ہیں اور باقی رہتے ہیں اور قیامت میں دوبارہ آپس میں مل جاتے ہیں۔[68]
  • روح کا بدن مثالی کے ساتھ آنا:اس نظرئے کے مطابق قیامت میں روح کا تعلق مثالی جسم سے ہے۔[69] آیت‌ اللہ سبحانی نے اس نظرئے کی نسبت حکمائے اشراق اور ملاصدرا کی طرف دی ہے اور ان دونوں گروہوں کے درمیان یہ فرق بیان کیا ہے کہ اشراقی فلسفیوں نے آخرت کے مثالی جسم اور دنیا کے مادی جسم کے مابین عینیت اور معروضیت کو ثابت نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن ملا صدرا نے ثابت کر دیا ہے اور دونوں جسموں کے فرق کو ناقص ہونے اور کمال تک پہنچنے کو قرار دیا ہے۔[70]
  • روح کا آسمانی جسم یا دھواں یا ہوا سے بنے جسم سے تعلق: فارابی اور ابن سینا سے منسوب اس قول کے مطابق ان لوگوں کی روحیں جو کمال تک نہیں پہنچی ہیں اور جسم اور دنیا سے اپنے رابطے ختم نہیں کیا ہے، وہ آسمانی روح یا دھواں یا ہوا سے بنے جسم سے متعلق ہیں۔ لیکن جو لوگ کمال کو پہنچ چکے ہیں وہ بغیر جسم کے اپنی زندگی جاری رکھتے ہیں۔[71]

٭بدن عنصری کا روحِ مجرد کی طرف لوٹ آنا (آقا علی مدرس کا نظریہ)، روح کا تکامل یافتہ بدنِ عنصری میں لوٹ آنا (سید ابو الحسن رفیعی قزوینی کا نظریہ) اور روح کا ہورقلیایی بدن میں لوٹ آنا (شیخ احمد احسایی کا نظریہ) اس بارے میں موجود دیگر نظریات ہیں۔[72]

معاد کا نفس کے مسئلے سے وابستگی

کہا گیا ہے کہ معاد کا ثبوت اور روحوں کا جسموں میں لوٹنا روح کا مجرد ہونے اور اس کی بقا پر مبنی ہے۔[73]محمد تقی مصباح یزدی کا خیال ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کا صحیح تصور کیا جا سکتا ہے نفس کو مجرد اور جسم اور اس کی خصوصیات سے الگ ہو۔[74] ان کے مطابق، اگر کوئی روح کے تجرد پر یقین نہیں رکھتا ہو تو معاد اور دوبارہ جنم لینے کا قیاس معقول نہیں ہوگا۔[75] اس بنا پر قیامت کا صحیح اور معقول تصور ان چیزوں کی قبولیت پر مبنی ہے: روح (نفس) کا وجود، روح کا جوہر ہونا، جسم سے روح کا مستقل ہونا اور موت کے بعد اس کا زندہ رہنا، اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ روح انسان کا بنیادی حصہ اور حقیقت ہے اور جب تک یہ باقی رہے گی، انسان کی انسانیت محفوظ رہے گی۔[76]

عیسائی بھی اکثر یہ مانتے ہیں کہ موت کے بعد کی زندگی نفسِ مجرد اور جسم سے آزاد ایک روح پر یقین کرنے سے ممکن ہے، اس حد تک کہا گیا ہے کہ عیسائیت کی تاریخ کے تمام اہم مفکرین نے اس نظریے کو قبول کیا ہے۔[77]

دنیوی اور اخروی انسان کی یکسانیت کا مسئلہ

قیامت کا عقیدہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ جو شخص آخرت میں دوبارہ زندہ ہوتا ہے وہی شخص ہے جو دنیا میں رہتا تھا۔ اس مسئلے کو "ہوہویَت" "این ہمانی" یا "یکسانیت" کہا جاتا ہے۔[78]معاد کی بحث میں شخصی یکسانیت اور ہوہویت کا مفہوم یہ ہے کہ مرنے کے بعد باقی رہنے والا شخص خصوصیات اور حالت کے اعتبار سے نہیں بلکہ عددی اعتبار سے[یادداشت 1] کیا وہی شخص ہے جو موت سے پہلے زندہ تھا؟[79] زیادہ تر مسلمان[حوالہ درکار] اور عیسائی[80] ماہرین الہیات اور فلسفیوں نے اس ذاتی عددی یکسانیت کو قبول کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسائی مقدس کتاب نے بھی یہ رائے سکھائی ہے۔[81]

دنیوی انسان (موت سے پہلے) کا اخروی انسان (مرنے کے بعد کا انسان) کے ساتھ وحدت اور یکسانیت کا عامل کیا ہے اور کس وجہ سے موت کے بعد والا شخص وہی ہے جو موت سے پہلے والا شخص ہے، مسلمان فلاسفہ روح کو وحدت کا عامل اور معیار سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مادہ اور جسم میں تغیر و تبدل کی وجہ سے دنیوی اور اخروی انسان کی یکسانیت کا معیار نہیں بن سکتے۔[82] ملا صدرا کے نزدیک انسان کی بقا کا معیار اس کی روح کی بقا اور تحفظ ہے۔ جب تک انسان کی روح باقی رہتی ہے وہ بھی باقی رہتا ہے، چاہے اس کے جسم کے اعضاء ختم ہو جائیں۔ مثال کے طور پر جب زید نامی شخص کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہ کیا جوان زید وہی زید ہے جو بچپن اور بڑھاپے میں ہے یا نہیں تو ملا صدرا زید کو چونکہ اس پورے عرصے میں اس کی روح باقی ہے لہذا اسے وہی ایک شخص سمجھتا ہے اور آخرت میں بھی روح کی بقا کی وجہ سے دنیا میں جو زید تھا وہی زید آخرت کا بھی زید ہوگا۔[83]

محمد تقی مصباح یزدی بھی نفس کو معیار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ روح کو مجرد اور بدن سے مستقل قبول کیے بغیر، موت سے پہلے والے انسان کے لیے دوبارہ جنم لینے کا قیاس اور فرض معقول نہیں ہوگا۔[84] ان کے مطابق روح چونکہ مجرد ہے اور موت سے پہلے اور بعد میں تبدیل نہیں ہوتی اس لیے یہ جسم کی موت کے بعد بھی باقی رہ سکتی ہے اور جب دوبارہ جسم سے تعلق ایجاد ہوتا ہے تو انسان کی وحدت اور یکسانیت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انسانی وجود صرف اس مادی جسم میں ہے تو وہ جسم کے اعضاء کے بکھر جانے سے فنا ہو جائے گا۔ اس لیے قیامت کا صحیح تصور نہیں کرسکتا ہے۔[85]

سورہ سجدہ کی آیت نمبر 11[یادداشت 2]کو اس نظرئے کی دلیل سمجھتے ہیں جس کے مطابق ہر شخص کی انسانیت اور شخصیت کی بقا وہی ہے جسے ملک الموت قبض کرتا ہے نہ وہ بدن جو بوسیدہ اور بکھر چکا ہے۔[86]

جسم یا دماغ کا معیار (وقت کے ساتھ ساتھ ایک ہی جسم یا دماغ کا ہونا)، یادداشت کا معیار (یاداشت کا تسلسل اور وقت کے ساتھ یادوں کی یاد) دیگر معیارات اور نظریات میں سے ہیں جو نفس کے منکرین نے شخصی یکسانیت کے مسئلے میں بیان کیا ہے۔[87]

امکان معاد

معاد کے امکان کو ثابت کرنے اور اسے ناممکن نہیں سمجھنے کے لیے قرآنی آیات کی تین، پانچ یا چھ اقسام کا حوالہ دیا گیا ہے۔ آیت اللہ جوادی آملی نے ان آیات کو پانچ اقسام میں یوں بیان کیا ہے:

  1. وہ آیات جو انسان کی ابتدائی تخلیق پر دلالت کرتی ہیں؛ جیسے سورہ یس کی آیت 79، سورہ روم کی آیت 27 اور سورہ عنکبوت کی 19ویں آیت۔ سورہ روم کی آیت نمبر 27 میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی تخلیق کو شروع کرتا ہے اور اس کی تجدید کرتا ہے اور اس کے لیے خلقت کی تجدید کرنا آسان ہے۔
  2. وہ آیات جن میں خدا کائنات کی تخلیق کے عمل کو بیان کرتا ہے، خاص طور پر آسمانوں کی تخلیق اور اپنی قدرت کو بیان کرتا ہے۔ جیسے سورہ اسراء کی آیت 99، سورہ غافر کی آیت نمبر 57، اور سورہ احقاف کی آیت نمبر 33۔ سورہ یس کی آیت نمبر 81 میں ارشاد ہوتا ہے کہ کیا آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا قیامت کے دن لوگوں کو زندہ نہیں کر سکتا ہے؟
  3. زمین کے زندہ ہونے کے بارے میں موجود آیات، جو مُردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے امکان کی حسی مثال سمجھی جاتی ہیں۔ جن میں سورہ روم کی آیات 19 اور 50، سورہ فاطر کی آیت 9 اور سورہ اعراف کی آیت 57 شامل ہیں۔
  4. وہ آیات جو انسانی تخلیق کے آغاز اور جنین کے انسانی شکل میں بننے اور نشوونما کے مراحل کو بیان کرتی ہیں یہ آیات معاد کے امکان کی ایک مثال ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ حج کی آیات 5 اور 6، سورہ مومنون کی آیات 12 سے 16 اور سورہ قیامت کی آیات 37 سے 40 تک۔ سورہ قیامت کی آیات 37-40 میں کہا گیا ہے کہ جس خدا نے انسان کو نطفہ اور عَلَقہ سے پیدا کیا ہے کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟
  5. وہ آیات جن میں مردوں کے دوبارہ زندہ کرنے کی کچھ ٹھوس مثالیں پیش ہوئی ہیں۔[88]

قرآن میں مردوں کے زندہ ہونے کی چند ٹھوس مثالیں یہ ہیں:

  • سورہ بقرہ کی آیات 55 اور 56 کے مطابق حضرت موسیٰؑ کے ستر اصحاب جنہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی درخواست کی تھی، بجلی گرنے سے مرگئے اور پھر خدا نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔
  • بنی اسرائیل کے ایک شخص کی کہانی جسے قتل کیا گیا اور اس کے جسم پر ذبح کی گئی گائے کا ایک حصہ ڈالنے سے زندہ ہوا۔ یہ بات سورہ بقرہ کی آیت نمبر 72 اور 73 میں مذکور ہے۔
  • عُزَیْر یا اِرْمِیا کا قصہ جو سورہ بقرہ کی آیت نمبر 259 کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال کے لیے مار دیا اور پھر زندہ کیا۔
  • اصحاب کہف کا قصہ جنہوں نے مشرکین کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ایک غار میں پناہ لی اور 309 سال تک سوئے (مر گئے) اور پھر زندہ ہو گئے۔
  • حضرت ابراہیم کے چار پرندوں کا زندہ ہونا (چار پرندے جنہیں ابراہیمؑ نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا اور ہر ایک کے ٹکڑے ایک پہاڑ پر رکھے گئے تھے اور پھر خدا کے حکم سے زندہ کیے ہوئے تھے)۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 260 میں اس کا ذکر ہے۔
  • حضرت عیسیٰؑ کے معجزہ سے بعض مردوں کا زندہ ہونا جس کا ذکر سورہ آل عمران آیت نمبر 49 اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر 110 جیسی آیات میں آیا ہے۔[89]

معاد کی ضرورت اور وقوع کے دلایل

معاد کی ضرورت اور واقع ہونے کو ثابت کرنے کے لیے بہت سے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مفسرِ قرآن اور شیعہ فلسفی عبداللہ جوادی آملی نے نو دلیلیں بیان کی ہیں،[90] جعفر سبحانی نے چھ[91] اور ناصر مکارم شیرازی نے اپنی تفسیر میں چار دلیلیں بیان کی ہیں۔[92] آیت اللہ جوادی آملی کے دلائل یہ ہیں: برہان توحید، برہان صدق، برہان فطرت، برہان حرکت اور مقصدیت، برہان حکمت، برہان رحمت، برہان حقیقت، برہان عدالت اور برہان تجردِ روح (روح کا مجرد ہونا۔[93]

سچائی کی تعبدی دلیل

معاد کی ضرورت کی دلائل میں دلیل تعبدی ہے۔ جب ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اور اللہ تعالی نے قرآن میں بارہا کہا ہے کہ قیامت ہے اور وہ لوگوں کو محشور کرے گا، تو قیامت برپا ہو گی۔[94] محمد تقی مصباح یزدی کے مطابق قرآن مجید کی تقریباً دو ہزار آیات بالواسطہ اور بلاواسطہ قیامت کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔[95] جوادی آملی کے مطابق، جب خدا سچوں میں سب سے زیادہ سچا ہے، اور اسی نے قیامت کے بارے میں بات کی ہے تو پھر قیامت ضرور واقع ہوگی۔[96]

کہا گیا ہے کہ اہل سنت کا مکتب اشاعرہ، قیامت کو قرآن و سنت سے ثابت کرتے ہیں نہ کہ عقل اور عقلی دلائل و اسباب سے۔[97]

دلیل فطرت

اس دلیل کے مطابق ٭انسانی فطرت میں دنیا اور ابدی زندگی کے لیے محبت اور تمنا اور نابودی اور تباہی سے نفرت ہے۔

  • انسانی فطرت اور ادارے میں جو کچھ بھی رکھا گیا ہے وہ صحیح اور درست ہے اور باطل اور بیہودہ نہیں ہے۔
  • انسان کی جاودانگی اور بقا کی تمنا اور محبت، تباہی اور نابودی سے محفوظ ایک ابدی دنیا کے وجود کا ثبوت ہے۔
  • یہ قدرتی دنیا ہمیشہ رہنے اور بقاء کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔
  • لہٰذا اگر کوئی دوسری دنیا نہ ہو جس میں زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہو تو لافانی کی خواہش اور انسان کی لافانی کی تمنا اور خواہش جو کہ انسانی فطرت میں رکھی گئی ہے، باطل اور بے سود ہو جائے گی۔
  • دنیا میں کوئی جھوٹی فطرت نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حکیم خدا کی تخلیق ہے۔
پس ایک ابدی دنیا اور ہمیشگی زندگی ہے۔[98]

فطرت سے مراد تخلیق، جوہر، خمیر اور ایک گوہر ہے جو ہر مخلوق کی خلقت کے ابتدا میں موجود ہے۔[99]

دلیل حکمت

اس دلیل کی مختلف شکلیں ہیں۔[100] اس دلیل کی ایک تشریح اور تشکیل، انسان اور دنیا کی تخلیق کی با مقصد ہونے پر مبنی ہے۔ اس تشریح کے مطابق

  • آخرت کی زندگی انسان اور دنیا کی تخلیق کا انجام اور ہدف ہے۔
  • اگر ایسی دنیا موجود نہ ہو تو انسانی زندگی اور دنیا اس دنیاوی زندگی تک محدود رہے گی اور انسانی تخلیق بے کار اور باطل ہو جائے گی؛ کیونکہ یہ دنیا اور اس کے مظاہر فنا اور ختم ہونے والے ہیں۔
  • خدا حکیم اور خوبصورت ہے، اور وہ ہر طرح کے بےہودہ کاموں سے پاک و منزہ ہے۔
  • اس لیے اس مادی دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہونی چاہیے تاکہ اس دنیاوی زندگی اور انسانی تخلیق کا مقصد ہو۔

سورہ مومنون کی آیت نمبر 115، سورہ ص کی آیت نمبر 27 اور سورہ دخان کی آیات 38 اور 39 جیسی آیات اس دلیل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

دلیل عدالت

اس دلیل کی بنیاد عدل الہی پر ہے، دلیل یوں بیان ہوتی ہے: ٭خدا کی صفات میں سے ایک عدالت ہے؛ اور اس دنیا کی بنیاد عدالت پر رکھی گئی ہے۔ ٭انسان اس دنیا میں اچھے اور برے کے انتخاب میں آزاد ہے؛ ٭ بعض انسان‌ اپنی اس آزادی سے جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس توانائی کو اللہ کی راہ اور نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں جبکہ بعض اس کو شہوات کی تسکین اور گناہ و معصیت میں استعمال کرتے ہیں؛ ٭ اس مادی دنیا کی اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کا نتیجہ پوری طرح دیکھ سکے؛ نہ تو نیک لوگوں کو پوری طرح سے جزا ممکن ہے اور نہ ہی برے لوگوں کو پوری طرح کا سزا ممکن ہے۔

لہٰذا خدا کا انصاف حکم دیتا ہے کہ اس مادی دنیا کے بعد ایک اور عادل دنیا ہوگی تاکہ وہاں انصاف ہو اور سب کا حساب کتاب مکمل ہو جائے۔[101] آیہ «أَمْ نَجْعَلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِینَ فِی الأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ كَالْفُجَّارِ؛کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان لوگوں کی مانند بنا دیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں؟ یا کیا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟»[102] اور سورہ جاثیہ کی آیات 21 اور 22، سورہ مومن کی آیت 58، سورہ قلم کی آیات 35 اور 36 اس دلیل پر دلالت کرنے والی آیات میں سے ہیں۔[103]

انکار معاد

آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق، اعتقادی اور تصور کائنات کے مسائل کا انکار، بشمول قیامت، اکثر ان مسائل کے بارے میں علم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ قیامت کے منکرین کو معاد کے معنی کا گہرا اور قطعی تصور نہیں تھا اور ان کی دلیل اور منطق یہ تھی کہ وہ قیامت کو ناممکن سمجھنا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی قیامت کے انکار اور اس کی نفی پر کوئی ایک دلیل بھی نہیں لایا ہے۔[104]

جہالت، قدرت الٰہی سے غفلت،[105] لا آبالی کی اور احساس ذمہ داری کا فقدان،[106] اور غلبہ پانے اور اقتدار حاصل کرنے کی خواہش کو[107] معاد کے انکار کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 24 میں جہالت،[108] سورہ قیامت کی آیات 3-5 میں لا ابالی و غیر ذمہ داری،[109] اور سورہ مومنون کی آیت نمبر 33-38 میں[110] طاقت اور غلبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے جو معاد کے انکار کے عوامل ہیں۔

فطرت پسند فلسفیوں کو معاد کے منکروں میں شمار کیا ہے۔[111] اس گروہ کے نظرئے کے مطابق انسان ایک مادی جسم ہے جو موت سے بالکل فنا ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف جو چیز معدوم و فنا ہوچکی ہے اس کا دوبارہ لے آنا محال ہے اس لیے مرنے کے بعد انسان کو واپس لانا ناممکن ہو جائے گا۔[112] بتایا جاتا ہے کہ کچھ لوگ، جیسے جالینوس (گیلن) اور اس کے پیروکار، خود قیامت ہی کے بارے میں شک کرتے تھے؛[113] کیونکہ ان کو تردید تھا کہ روحِ انسانی جسم کی مادی فطرت ہے جو موت سے فنا ہو جاتی ہے یا وہ جوہر ہے جو موت کے بعد باقی رہتا ہے۔[114]

معاد کے شبہات

منکرین نے معاد کے امکان اور وقوع کے بارے میں بہت سے شبہات بیان کیے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

شبہہ آکل و مأکول

اس شبہے کے مطابق معترض کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے انسان کی خوراک بن جائے تو کیا کھائے گئے اجزاء قیامت کے دن آکِل (وہ شخص جس نے دوسرے کا بدن کھایا ہے) کے بدن میں لوٹ آئیں گے یا مَأکُول (جس کا بدن کھایا گیا ہے) کے بدن میں آئیں گے؟ تو اس صورت میں قیامت کے دن جب انسانوں کو اسی دنیاوی جسم کے ساتھ محشور کیا جائے گا دونوں میں سے ایک قیامت میں مکمل طور پر محشور نہیں ہوگا۔[115] یہ شبہہ یوں بھی بیان ہوا ہے کہ اگر کسی کافر نے مؤمن انسان کے بدن کو کھا لیا، اور قیامت میں جب دنیوی جسم کے ساتھ محشور کیا جائے گا تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ مؤمن شخص پر عذاب ہوگا اور کافر کو جزا ملے گا۔[116]

اس شبہے کے متعدد جوابات دئے گئے ہیں۔ علامہ حلی جیسے بعض متکلمین نے بدن کے اصلی اجزاء اور غیر اصلی کے درمیان فرق ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ہر انسان کے جسم کے اصلی اعضاء عمر بھر باقی رہتے ہیں اور کسی دوسرے انسان کے اصلی اعضا میں تبدیل نہیں ہوتے ہیں اور قیامت کے دن یہی اصلی اعضاء اور اجزاء لوٹائے جائیں گے۔[117] ملاصدرا کہتے ہیں کہ انسان کی حقیقت اور شناخت اس کی روح ہے جسم نہیں۔ اسی لئے جو جسم قیامت میں محشور ہوگا اس کے لئے ضروی نہیں کہ وہ اس شخص کا وہی دنیوی جسم ہو جو کسی انسان یا حیوان کی خوراک بن گیا ہے؛ بلکہ جس جسم کے ساتھ انسان کی روح تعلق پکڑے گی وہی اس کا بدن ہوگا۔ ان کی نظر میں ہر انسان کے بدن کے محشور ہونے میں جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس نے بھی اس شخص کو دیکھا وہ کہے کہ یہ وہی دنیوی انسان ہے اور بدن وہی دنیوی بدن ہے۔[118]

یہ شبہہ عیسائیوں میں انسان خوری (کینبلزم) سے موجود تھا اور ہے۔[119]

شبہہ اعادہ معدوم

معاد سے متعلق ہونے والے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ جب انسان مرتا ہے تو اس کی روح بدن سے جدا ہو جاتی ہے اور اس کا بدن نابود ہو جاتا ہے اور ایک معدوم اور نابود ہونے والے موجود کو دوبارہ زندہ کرنا یعنی"اعادہ معدوم" محال اور ناممکن ہے۔[120] اس شبہہ کی بنا پر معاد کے منکرین کا خیال تھا کہ انسان صرف یہ مادی جسم ہے اور موت سے فنا ہو جاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ زندہ ہو جائے تو وہ ایک اور شخص ہوگا کیونکہ ناپید اور تباہ شدہ مخلوق کو واپس لانا ناممکن ہے۔[121]

اس شبہہ کے جواب میں سورہ سجدہ کی آیات 10 اور 11 [یادداشت 3] کے مطابق کہا گیا ہے کہ انسان کی پہچان اور حقیقت اس کی روح پر منحصر ہے نہ کہ اس کے جسم اور مادی اعضاء پر۔ لہذا، معاد فنا کی بحالی (اعادہ معدوم) نہیں ہے؛ بلکہ یہ روح کی واپسی ہے۔[122] اس شبہہ کے جواب میں بعض متکلمین نے معدوم کی واپسی کو ممکن سمجھا ہے۔ اُن کے نزدیک اگر معدوم کی واپسی اور اعادہ ناممکن بھی ہو تو معاد سے مراد اُن حصوں کی بحالی اور واپسی ہے جو موت سے پہلے جس حالت اور حیات میں تھے۔[123]

اللہ کی قدرت اور علم کے بارے میں شبہہ

معاد کے بارے میں ایک شبہہ یہ ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا انسانی جسموں کے تمام بکھرے ہوئے حصوں کے بارے میں علم و معرفت پر مبنی ہے، تاکہ ہر شخص کے اعضاء اسی شخص کے جسم میں لوٹائے جائیں۔ ایسا علم اور شناخت ناممکن ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان لاشوں کو ایک دوسرے پہچانا جائے جبکہ وہ مٹی ہوچکے ہیں اور ان کے ذرات آپس میں مل گئے ہیں؟[124] اس شبہے کے جواب میں سورہ سبأ کی آیت نمبر 3 میں ارشاد ہوتا ہے: «عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ؛ وہ عالم الغیب ہے جس سے آسمانوں اور زمین کی ذرہ برابر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر وہ کتابِ مبین میں (درج) ہے۔»[125] یہ شبہہ ان ​​لوگوں نے اٹھایا ہے جو اللہ تعالی کے لامحدود علم کو نہیں جانتے اور اس کا موازنہ اپنے محدود علم سے کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے علم کی کوئی حد نہیں ہے اور خدا ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔[126]

کتابیات

کتاب مَنْہَجُ الرَّشاد فی مَعْرفَۃِ المَعاد بقلم محمد نعیم طالقانی.

معاد اور قیامت کے لئے علم کلام،[127] اور تفسیر[128] کی کتابوں میں ایک حصہ مختص ہوا ہے؛ اس کے علاوہ اسی موضوع پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ معاد کے مصادر کے بارے میں لکھی جانے والی کتاب؛ «منبع شناسی معاد»، میں معاد کے بارے میں 1098 کتاب، 240 تھیسز اور 512 مقالے معرفی ہوئے ہیں۔[129] بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

معاد در قرآن بقلم حسین مظاہری، معاد و جہان پس از مرگ تألیف ناصر مکارم شیرازی، معاد در قرآن تالیفابراہیم امینی، معاد تألیف غلام حسین ابراہیمی دینانی، معاد در المیزان، شمس‌ الدین ربیعی (معاد کے بارے میں تفسیر المیزان میں علامہ طباطبایی نے جو مطالب بیان کئے ہیں)، معاد (مرتضی مطہری کی تقریر کا متن)،[132] معاد از نظر روح و جسم (تین جلدیں) بقلم محمد تقی فلسفی، المعاد؛ رویة قرآنیة تالیف سید کمال حیدری اور معاد از دیدگاہ آیات و روایات تالیف عبد النبی نمازی معاد کے موضوع پر لکھی جانے والی دوسری کتابیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص158؛ نمازی، معاد از دیدگاہ آیات و روایات، 1385شمسی، ص11.
  2. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص363.
  3. ہیوم، ادیان زندہ جہان،‌ 1373شمسی، ص380-382.
  4. ملاحظہ کریں: مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج2، ص507؛ سبحانی، معاد شناسی، 1387شمسی، ص15.
  5. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج2، ص507؛ سبحانی، معاد شناسی، 1387شمسی، ص15.
  6. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص363.
  7. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج2، ص507.
  8. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص341 و 342.
  9. سورہ قصص، آیہ 82.
  10. سبحانی، معادشناسی، 1387شمسی، ص15.
  11. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص164.
  12. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص341و363.
  13. مانند سورہ بقرہ، آیت 4؛ سورہ نمل، آیت 3
  14. مانند سورہ اسراء، آیت10؛ سورہ فرقان، آیت11؛ سورہ صبا، آیت8؛ سورہ مؤمنون، آیت74
  15. مانند سورہ الرحمن، آیت46 تا آخر؛ سورہ واقعہ، آیت15-38؛ سورہ الدہر آیت11-21
  16. مانند سورہ الحاقہ، آیت20-27؛ سورہ الملک، آیت6-11؛ سورہ الواقعہ، آیت42، 56
  17. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص341.
  18. ملاحظہ کریں: انجیل یوحنا، باب 5، ایہ 28 و 29؛ انجیل لوقا، باب 20، آیہ 34-38؛ انجیل متی، باب 22، آیہ 23-33.
  19. ماری و ری، درآمدی بہ فلسفہ دین، 1398شمسی، ص399 و 400.
  20. ملاحظہ ہو: ایوب، باب 24، فقرہ 19؛ مزامیر، باب 9، فقرہ 17 و باب 49، فقرہ 14 و 15.
  21. ملاحظہ کریں: مکاشفہ، باب 9، فقرہ 1و 2 و باب 20، فقرہ 1-3.
  22. تیسن، الہیات مسیحی، انتشارات حیات ابدی، ص362 و 363.
  23. مک‌ گراث، درسنامہ الہیات مسیحی، 1384شمسی، ج1، ص55-57؛ پترسون و دیگران، عقل و اعتقاد دینی، 1376شمسی، ص319.
  24. توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1386شمسی، ص110.
  25. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص160.
  26. اول سموئیل، باب 2، فقرہ 6.
  27. ابراہیم‌ زادہ و علی‌نوری، ادیان الہی و فرق اسلامی، 1383شمسی، ص119؛ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1386شمسی، ص62.
  28. ابراہیم‌ زادہ و علی‌نوری، ادیان الہی و فرق اسلامی، 1383شمسی، ص119 و 120؛ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1386شمسی، ص62.
  29. ابراہیم‌ زادہ و علی‌نوری، ادیان الہی و فرق اسلامی، 1383شمسی، ص119 و 120.
  30. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج5، ص17.
  31. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1384شمسی، ص339و340.
  32. جوادی آملی، معاد در قرآن (1)، 1395شمسی، ص22.
  33. سبحانی و برنجکار، معارف و عقاید 1 و 2، 1397شمسی، ص358.
  34. سبحانی و برنجکار، معارف و عقاید 1 و 2، 1397شمسی، ص358.
  35. سبحانی و برنجکار، معارف و عقاید 1 و 2، 1397شمسی، ص358.
  36. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1384شمسی، ص340و341؛ مصباح یزدی، انسان‌شناسی در قرآن، 1401شمسی، ص173.
  37. نمازی، معاد از دیدگاہ آیات و روایات، 1385شمسی، ص12-15.
  38. ملاحظہ کریں: فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص595؛ مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج2، ص369؛ خاتمی، فرہنگ علم کلام، 1370شمسی، ج1، ص204.
  39. ملاحظہ کریں: جوادی آملی، معاد در قرآن (1)، 1395شمسی، ص21 و 137.
  40. تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص82.
  41. نمازی، معاد از دیدگاہ آیات و روایات، 1385شمسی، ص15.
  42. مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ص369.
  43. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج5، ص29و31.
  44. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج5، ص44.
  45. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص166.
  46. ملاحظہ کریں: سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص166؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج5، ص45-102.
  47. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621.
  48. ملاحظہ کریں: فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، 1986م، ج2، ص55؛ فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص153.
  49. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621.
  50. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص154.
  51. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص622.
  52. مجلسی، حق الیقین، 1386شمسی، ج2، ص370.
  53. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج2، ص307.
  54. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621.
  55. فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، 1986م، ج2، ص55؛ فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621.
  56. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص154.
  57. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص156.
  58. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص154.
  59. ملاحظہ کریں: خوش صحبت، «معاد جسمانی از منظر علامہ طباطبایی با تأکید بر تفسیر المیزان»، ص38.
  60. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص154.
  61. علامہ حلی، الباب الحادی عشر، 1370شمسی، ص206.
  62. ابن‌سینا، الشفا(الہیات)، 1404ھ، ص423.
  63. مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج2، ص369 و 370.
  64. مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج2، ص369.
  65. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621.
  66. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص199.
  67. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص199.
  68. بحرانی، قواعد المرام، 1406ھ، ص144؛ علامہ حلی،‌ کشف المراد، 1413ھ، 406.
  69. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص188و189.
  70. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص188-190.
  71. ملاحظہ کریں: ملاصدرا، الحکمة المتعالیة، 1981م، ج9، ص148-151؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص179-187.
  72. :فیاضی و شکری، «معاد ‌جسم عنصری (دلایل نقلی و نقد دیدگاہ‌ہای رقیب)»، ص75-85.
  73. آشتیانی، لوامع الحقائق فی اصول العقائد، 1390شمسی، ص440.
  74. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص349.
  75. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص355.
  76. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1384شمسی، ص349-350.
  77. .Baker, «Material Persons and the Doctrine of resurrection», p151, 152
  78. مصباح یزدی، انسان‌شناسی در قرآن، 1401شمسی، ص174.
  79. مسلین، درآمدی بر فلسفہ ذہن، 1391شمسی، ص361.
  80. Merricks, «The Resurrection of the Body and the Life Everlasting», p268.
  81. Merricks, «The Resurrection of the Body and the Life Everlasting», p268.
  82. ملاحظہ کریں: ملا صدرا، الحکمۃ المتعالیۃ، 1981ء، ج9، ص190؛ آشتیانی، شرح بر زاد المسافر، 1381شمسی، ص19 و 224؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص348 و 349 و 355.
  83. آشتیانی، شرح بر زاد المسافر، 1381شمسی، ص19 و 224 و 225.
  84. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص348 و 355.
  85. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص349.
  86. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1384شمسی، ص350.
  87. ملاحظہ کریں: حسینی شاہرودی و فخار نوغانی، «این ہمانی شخصی»، ص28-32.
  88. جوادی آملی، معاد در قرآن (1)، 1395شمسی، ص109-120۔
  89. ملاحظہ کریں:جوادی آملی، معاد در قرآن (1)، 1395شمسی، ص120-126؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص373-375۔
  90. جوادی آملی، معاد در قرآن‌(1)، 1395شمسی، ص139-177۔
  91. جوادی آملی، معاد در قرآن‌(1)، 1395شمسی، ص139-177.۔
  92. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج18، ص479-485
  93. جوادی آملی، معاد در قرآن‌(1)، 1395شمسی، ص139-177۔
  94. مصباح یزدی، انسان‌شناسی در قرآن، 1401شمسی، ص213۔
  95. مصباح یزدی، انسان‌شناسی در قرآن، 1401شمسی، ص213
  96. جوادی آملی، معاد در قرآن‌(1)، 1395شمسی، ص141و142۔
  97. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص620و621
  98. ملاحظہ کریں:‌ ملا صدرا، الحکمۃ المتعالیہ، 1981م، ج9، ص241؛ جوادی آملی، معاد در قرآن‌(1)، 1395شمسی، ص143.
  99. جوادی آملی، معاد در قرآن‌(1)، 1395شمسی، ص143و144.
  100. مصباح یزدی، انسان‌شناسی در قرآن، 1401شمسی، ص223۔
  101. جوادی آملی، معاد در قرآن (1)، 1395شمسی، ص165 و 166؛ مصباح یزدی، انسان‌شناسی، 1401شمسی، ص227.
  102. سورہ ص، آیہ 28
  103. ملاحظہ کریں: جوادی آملی، معاد در قرآن (1)، 1395شمسی، ص167؛ مصباح یزدی، انسان‌شناسی، 1401شمسی، ص225 و 226.
  104. جوادی آملی، معاد در قرآن (1)، 1395شمسی، ص95.
  105. سبحانی و برنجکار، معارف و عقاید 1 و 2، 1397شمسی، ص364و365.
  106. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص342؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص73و74.
  107. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص74.
  108. سبحانی و برنجکار، معارف و عقاید 1 و 2، 1397شمسی، ص364و365.
  109. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص342؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص73و74.
  110. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص75.
  111. فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، 1986م، ج2، ص55؛ فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص153.
  112. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص153 و 154.
  113. فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، 1986م، ج2، ص55؛ فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص621.
  114. فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، 1986م، ج2، ص55؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص154.
  115. علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص406؛ ملاصدرا، الحکمة المتعالیة، 1981م، ج9، ص199 و 200؛ سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص396.
  116. ملاصدرا، الحکمة المتعالیة، 1981م، ج9، ص200؛ سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص396.
  117. ملاحظہ کریں: علامہ حلی،‌ کشف المراد، 1413ھ، 406 و 407؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص95.
  118. ملاصدرا، الحکمة المتعالیة، 1981م، ج9، ص200.
  119. See: Baker, «Death and the Afterlife», p377.
  120. ملاصدرا، الحکمة المتعالیة، 1981م، ج9، ص167؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص93 و 94.
  121. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص379.
  122. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص379.
  123. تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص94 و 95.
  124. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص186؛ مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1384شمسی، ص381.
  125. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، ص186.
  126. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1384شمسی، ص381.
  127. ملاحظہ کریں: طوسی، تجرید الاعتقاد، 1407ھ، مقصد ششم، ص297-310؛ علامہ حلی،‌ کشف المراد، 1413ھ، مقصد ششم، ص399-427؛ فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص595-664؛ سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج4، فصل دہم، ص157-298.
  128. ملاحظہ کریں: سبحانی، منشور جاوید، کل جلد 5؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، کل جلد 5.
  129. اخوان مقدم و دیگران، منبع‌ شناسی معاد، 1395شمسی، ص8.
  130. حسینی طہرانی، معادشناسی، 1427ھ، ج1، ص8و9.
  131. سبحانی، معاد انسان و جہان، 1373شمسی، ص7-10.
  132. مطہری، معاد، انتشارات صدرا، ص9.

نوٹ

  1. عددی اعتبار سے یکسانیت سے مراد یہ ہے کہ مرنے سے پہلے کا انسان اور مرنے کے بعد والا انسان ایک ہی ہے؛ کیفی یکسانیت کے برخلاف، کیونکہ اس میں دو چیزوں میں خصوصیات کے اعتبار سے یکسانیت پائی جاتی ہے اور ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔(ملاحظہ کریں: مسلین، در آمدی بر فلسفہ ذہن، 1391 شمسی، ص361۔)
  2. «قُلْ يَتَوَفّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ؛ کہہ دیجئے! کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمہیں پورا پورا اپنے قبضے میں لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤگے۔»
  3. وَ قَالُوا أَئِذَا ضَلَلْنَا فِی الْأَرْضِ أَئِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ بَلْ هُم بِلِقَاء رَبِّهِمْ کافِرُونَ* قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ؛ اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہوگئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے۔ بات یہ ہے کہ یہ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں* آپ کہہ دیجئے کہ تم کو ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے اس کے بعد تم سب پروردگار کی بارگاہ میں پیش کئے جاؤ گے۔ سورہ سجدہ-آیت 10-11

مآخذ

  • ‌ آشتیانی، سید جلال‌الدین، شرح بر زاد المسافر، قم، بوستان کتاب، چاپ اول، 1381ہجری شمسی۔
  • آشتیانی، میرزا احمد، لوامع الحقائق فی اصول العقائد، تحقیق محسن آشتیانی، قم، کنگرہ علامہ آشتیانی، 1390ہجری شمسی۔
  • ابراہیم‌ زادہ، عبد اللہ و علی رضا علی‌ نوری، ادیان الہی و فرق اسلامی، قم، انتشارات تحسین، چاپ دوم، ‌1383ہجری شمسی۔
  • ابن‌ سینا، حسین بن علی، الشفا (الالہیات)، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی، 1404ھ۔
  • اخوان مقدم، زہرہ و دیگران، منبع‌شناسی معاد، تہران،‌ دانشیاران ایران، چاپ اول، 1395ہجری شمسی۔
  • اردبیلی، سید عبدالغنی، تقریرات فلسفہ امام خمینی، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول،‌ 1381ہجری شمسی۔
  • بحرانی، ابن‌میثم،‌ قواعد المرام فی علم الکلام، قم، مکتبۃ آیت‌ اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1406ھ۔
  • پترسون، مایکل و دیگران، عقل و اعتقاد دینی؛ درآمدی بر فلسفہ دین، ترجمہ احمد نراقی و ابراہیم سلطانی، تہران، طرح نو، 1376ہجری شمسی۔
  • تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، تحقیق عبدالرحمن عمیرہ، افست قم، الشریف الرضی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان بزرگ، تہران-قم، سمت-طہ، چاپ دہم، 1386ہجری شمسی۔
  • ‌ تیسن، ہنری، الہیات مسیحی، ترجمہ ط. میکائیلیان، تہران، انتشارات حیات ابدی، بی‌تا.
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر موضوعی قرآن کریم (ج4): معاد در قرآن (1)، تحقیق و تنظیم علی زمانی قمشہ‌ای و علی اسلامی،، قم، مرکز نشر اسراء، چاپ یازدہم، 1395ہجری شمسی۔
  • حسینی طہرانی، سید محمدحسین، معادشناسی، مشہد، نور ملکوت قرآن، 1427ھ۔
  • ‌ حسینی شاہرودی، سید مرتضی و فخارنوغانی، وحیدہ، «اینہمانی شخصی»، فصلنامہ اندیشہ دینی، شمارہ 29، زمستان 1387ہجری شمسی۔
  • خاتمی، سید احمد، فرہنگ علم کلام: ش‍رح‌ ل‍غ‍ات‌ و اص‍طلاح‍ات‌ و اع‍لام‌ ع‍ل‍م‌ ک‍لام‌، تہران، نشر صبا، 1370ہجری شمسی۔
  • خوش‌صحبت، مرتضی، «معاد جسمانی از منظر علامہ طباطبایی با تأکید بر تفسیر المیزان»، قم، مجلہ معرفت کلامی، ش12، بہار و تابستان 1393.
  • ‌ سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1413ھ۔
  • ‌ سبحانی، جعفر، معادشناسی، مقدمہ و ترجمہ علی شیروانی، قم، دار الفکر، چاپ چہارم، 1387ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، معاد انسان و جہان، انتشارات مکتب اسلام،‌ چاپ دوم، 1373ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • سبحانی، محمدتقی و رضا برنجکار، معارف و عقاید 1 و 2 (ویرایش سوم)، قم، مرکز مدیریت حوزہ‌ہای علمیہ، چاپ پنجم، 1397ہجری شمسی۔
  • طوسی، خواجہ نصیرالدین، تجرید الاعتقاد، تحقیق حسینی جلالی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1407ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر مع شرحیہ النافع یوم الحشر و مفتاح الباب، شرح و توضیح: فاضل مقداد و ابوالفتح بن مخدوم، تہران، مؤسسہ مطالعات اسلامی، 1365ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تصحیح و تعلیقہ حسن حسن‌زادہ آملی، قم، مرکز النشر الاسلامی، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، الاربعین فی اصول الدین، قاہرہ، مکتبۃ الکلیات الازہریہ، چاپ اول، 1986ء۔
  • فیاض لاہیجی، ملاعبدالرزاق، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • فیاضی، غلامرضا و مہدی شکری، «معاد ‌جسم عنصری (دلایل نقلی و نقد دیدگاہ‌ہای رقیب)»، فصلنامہ معرفت کلامی، سال سوم، شمارہ دوم، پاییز و زمستان 1391ہجری شمسی۔
  • ماری، مایکل جی. و مایک سی. ری، درآمدی بہ فلسفہ دین، ترجمہ سعید عابدی، تہران، نشر نی، چاپ اول، 1398ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، حق الیقین، تہران، انتشارات اسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • مسلین، کیت، درآمدی بر فلسفہ ذہن، ترجمہ مہدی ذاکری، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ دوم، 1391ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، تہران، مؤسسہ انتشارات امیرکبیر،، چاپ ہجدہم، 1384ہجری شمسی۔
  • ‌ مصباح یزدی، محمدتقی، انسان‌شناسی در قرآن، تدوین و تنظیم محمود فتحعلی، قم،‌ مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ نہم، 1401ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ نہم، 1386ہجری شمسی۔
  • ‌ مک‌گراث، آلیستر، درسنامہ الہیات مسیحی (ج1/ ویرایش سوم)، ترجمہ بہروز حدادی، قم، مرکز مطالعات و تحقیقات ادیان و مذاہب، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
  • ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار الاربعۃ العقلیۃ، بیروت،‌ دار احیاء التراث، چاپ سوم، 1981ء۔
  • نمازی، عبدالنبی، معاد از دیدگاہ آیات و روایات، قم، تحسین، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • ہیوم، رابرت، ادیان زندہ جہان،‌ ترجمہ عبدالرحیم گواہی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • Baker, Lynne Rudder, «Death and the Afterlife», The Oxford handbook of philosophy of religion, Edited by William J. Wainwright, New York, Oxford University Press, 2005.
  • Baker, Lynne Rudder, «Material Persons and the Doctrine of resurrection», Faith and Philosophy, Vol. 18, NO. 2, April 2001.
  • Merricks, Trenton, «the Resurrection of the Body and the Life Everlasting», In: Reason for the Hope Within, ed. Michael J. Murray, Wm. B. Eerdmans Publishing Co, 1999.