توسل

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


توسّل کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول اور اپنی حاجت برآری کے لیے کسی شخص یا چیز کو خدا کی درگاہ میں واسطہ قرار دینا۔ توسل تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے اور اس کی مشروعیت کے اثبات کے لیے قرآن کی بعض آیات جیسے آیت توسل، سنت رسول خدا(ص)، سیرت مسلمین، روایات اور عقلی دلیل سے استناد کیا جاتا ہے۔ توسل کو شیعوں کے ہاں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کے علاوہ ائمہ معصومین(ع) کے خاندان کے باقی شخصیات جیسے ان کی ازواج مطہرات اور دیگر امام زدگان کو بھی اپنی حاجت برآری اور قرب الہی کے حصول کے لیے درگاہ الہی میں توسل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب شیعیان، ائمہ معصومین(ع) اور امام زادوں کے مقبروں پر جا کر زیارت نامہ پڑھتے ہیں تو وہ مختلف طریقوں سے ان کو درگاہ الہی میں وسیلہ قرار دیتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ توسل کا عقیدہ آٹھویں صدی ہجری تک تمام مسلم فرقوں میں عام تھا۔ اس صدی میں، توسل کی کچھ اقسام، جیسے رسول خدا(ص) اور نیک پرہیز گار بندوں سے توسل، خدا کے ہاں ان کے مقام و مرتبہ کا توسل اور ان کی وفات کے بعد ان کو وسیلہ قرار دینا وغیرہ کوسلفی علما کے ایک گروہ؛ خصوصاً ابن تیمیہ نے مورد تشکیک قرار دیا ہے۔ نیز کئی صدیوں تک وہابیوں کی طرف سے وہابیت کے پھیلاؤ کے ساتھ توسل جیسے امور کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔

توسل کی مخالفت میں سلفی اور وہابی علماء کی طرف سے پیش کردہ بنیادی دلیل یہ ہے کہ اصحاب پیغمبر خدا(ص) کے درمیان توسل جیسے امور کا ہونا ثابت نہیں ہے۔ توسل کے بارے میں سلفی اور وہابیوں کے نظریات پر شیعہ اور اہل سنت علماء نے نقد کیا ہے۔ انہوں نے بعض احادیث اور تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے توسل کو ثابت کیا ہے جن کی بنیاد پر اصحاب توسل کیا کرتے تھے۔

اہل اسلام کی نظر میں توسل کی اہمیت

توسل کے جواز پر تمام مسلمانوں کا اجماع

توسل تمام مسلمانوں کے مابین رائج عام عقائد میں سے ہے۔[1] ابن تیمیہ نے اس کی بنیادی مشروعیت کو تمام مسلمانوں کے مابین مورد اجماع موارد مٰں سے قرار دیا ہے۔[2] مصر کے شافعی مذہب کے عالم دین تقی الدین سُبکی (متوفی: 756ھ)، نے اپنی کتاب "شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام" میں اس توسل کے سلسلے میں موجود تنازعہ اور اس کے بارے میں اختلاف کو اس کے ضروریات دین سے متعلق اختلاف قرار دیا ہے۔[3] شیعہ عالم دین اور متکلم جعفر سبحانی بھی انسانی زندگی میں اسباب کا سہارا لینے اور ان سے متوسل ہونے کے اصول کو ایک فطری عمل سمجھتے ہیں۔[4]

وہابیوں کی جانب سے توسل کی بعض قسموں کی مخالفت

کہا جاتا ہے کہ توسل اسلامی تمام فرقوں؛ خاص طور پر امامیہ اور کسی حد تک صوفیوں میں عام رہا ہے۔ آٹھویں صدی ہجری سے بعض سلفی علماء خصوصاً ابن تیمیہ نے اس کی بعض اقسام کے جواز پر سوال اٹھایا ہے۔ یہ مسئلہ شیعہ و سنی اور سلفیوں کے درمیان اسلامی شریعت میں توسل کے جواز کے بارے میں تنازعات کا باعث بنا اور وہابیوں کے نظریات کی تردید میں کتابیں لکھی گئیں۔[5] ان تصانیف میں تقی الدین سُبکی کی لکھی ہوئی کتاب "شفاء السقام بھی ہے جو سلفی علماء کی آراء کی تردید میں لکھی گئی تھی، اس کتاب میں خاص طور پر توسل کے بارے میں پیش کیے گئے نظریات کو رد کیا گیا ہے۔[6]

معاصر (15ویں صدی ہجری) میں بھی وہابیوں نے سلفیوں کی پیروی کرتے ہوئے توسل کی بعض اقسام کے جواز پر سوال اٹھایا ہے؛ اس طرح توسل کی بحث نے ایک بار پھر شیعہ اور سنی علماء کی توجہ حاصل کی ہے اور توسل سے متعلق وہابی نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے مختلف کتابیں تالیف کی گئی ہیں۔[7]

شیعوں کے ہاں توسل کا خصوصی اہتمام

توسل کو شیعوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ شیعیان، پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومینؑ کے علاوہ ائمہ (ع) کے خاندانوں کی شخصیات؛ جیسے ان کی ازواج مطہرات، ائمہؑ کی ماؤں اور امام زادگان کو قرب الہی کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔[8] جب شیعہ حضرات ائمہؑ اور امام زادگان کی قبور کی زیارت کرتے ہیں تو وہ مخصوص زیارت نامہ پڑھتے ہیں، جس میں وہ مختلف طریقوں سے ان مزارات میں مدفون پاک ارواح سے متوسل ہوتے ہیں۔[9]

توسل انفرادی اور گروہی دونوں طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ دعائے توسل ان مشہور دعاؤں میں سے ہے جسے ایران اور دیگر ممالک کے شیعہ ہر ہفتے کے منگل کی رات کو گھریلو اجتماعات کی صورت میں، مساجد، ائمہؑ کی درگاہوں اور امام بارگاہوں میں پڑھی جاتی ہے جس میں چودہ معصومینؑ کو درگاہ الہی میں وسیلہ قرار دےکر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔[10] شیعوں کے ہاں طلب حاجات کے لیے دعا کی تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے، مثلاً ایران اور دنیا کے دیگر شیعہ نشین علاقوں میں مریض کو بیماری سے شفا مانگنے اور دیگر حاجات کی روائی کے لیے امام زین العابدینؑ کے نام پر دسترخوان لگایا جاتا ہے اور لوگوں کو کھانا کھلایا (اطعام) جاتا ہے۔[11] اسی طرح اپنی حاجت برآری جیسے شادی، اولاد مانگنے، مالی ضروریات پوری ہونے اور دیگر حاجات کو طلب کرنے کے لیے دسترخوان حضرت رقیہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

البتہ اہل سنت کے درمیان بھی توسل کا رواج موجود ہے۔ مثال کے طور پر چھٹی صدی ہجری کے شافعی مذہب کے مؤرخ، محدث اور فقیہ سَمْعانی امام موسی کاظمؑ کی قبر پر زیارت کے لیے جایا کرتے تھے اور اپنی مشکلات کے حل کے لیے امامؑ سے متوسل ہوتے تھے۔[12] تیسری صدی ہجری کے سنی عالم دین ابوعلی خَلّال کا کہنا ہے کہ جب بھی مجھے کوئی مسئلہ پیش آتا تو میں موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جاتا اور ان سے متوسل ہوتا اور میرا مسئلہ حل ہو جاتا۔[13] چار اہل سنت فقہاء میں سے ایک محمد بن ادریس شافعی نے بھی موسیٰ بن جعفر(امام موسی کاظمؑ) کی قبر کو "شفا دینے والی دوا" جیسے لقب سے یاد کیا ہے۔[14]

توسل کے معنی اور اس کی شرعی حیثیت

توسل کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی طرف سے ایسے شخص یا چیز کو جس کو خدا کے ہاں خاص مقام حاصل ہے، اپنی دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ قرار دینا۔[15] توسل کا لفظ وسیلہ سے ماخوذ ہے۔[16] وسیلہ سے مراد وہ چیز ہے جو کسی اور چیز کے قریب ہونے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔[17]

بعض علما کے مطابق توسل اور استغاثہ مترادف الفاظ ہیں۔[18] بعض نے ان کو مختلف مان ہے، بعبارت دیگر استغاثہ اس وقت کیا جاتا ہے جب انسان سخت حالات سے دوچار ہوتا ہے جبکہ توسل صرف مشکل حالات میں نہیں بلکہ عام حالات میں بھی کیا جاتا ہے۔[19]

توسل کے شرعی دلائل

توسل کے جواز اور اس کی شرعی حیثیت کے اثبات کے لیے درج ذیل دلائل سے استناد کیا جاتا ہے:

  • قرآن: اللہ تعالیٰ نے قرآن کی "آیت وسیلہ" میں مومنین کو حکم دیا ہے کہ وہ قرب الہی کے حصول کے لیے وسیلہ کی تلاش کریں۔[20] نیز سورہ نساء آیت نمبر64 میں گنہگاروں کو کہا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) کے پاس جائیں اور آپ(ص) سے درخواست کریں کہ آپ درگاہ الہی میں ان کے لیے طلب مغفرت اور استغفار کریں۔[21] دوسری آیت قرآنی جو توسل کے شرعی جواز پر دلالت کرتی ہے وہ سورہ یوسف آیت نمبر 97[22] ہے جس کے مطابق حضرت یعقوبؑ کے بیٹوں نے اپنے والد سے ان کے لیے استغفار کرنے کی درخواست کی۔[23]
  • روایات: شیعہ اور سنی کتب احادیث میں بہت سی روایات توسل سے متعلق نقل کی گئی ہیں[24] جو اسلامی شریعت میں توسل کے جواز دلالت کرتی ہیں۔[25]
  • سیرت مسلمین: صدر اسلام کے مسلمانوں اور اصحاب رسول کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) ستمتوسل ہونا ایک قابل قبول اور پسندیدہ امر تھا۔[26] مثال کے طور پر صحیح بخاری میں "ابواب الاستسقاء" کے عنوان سے ایک حصہ مرتب کیا گیا ہے کے ذیل میں کچھ ایسی احادیث نقل کی گئی ہیں جن کے مطابق صحابہ کرام طلب باران کے لیے پیغمبر خدا(ص) سے متوسل ہوتے تھے۔[27]
  • عقلی دلیل : توسل یا وسیلہ قرار دینا بندوں کو خدا کے قریب کرتا ہے اور قرب الہی حاصل کرنا انسانوں کا حتمی مقصد اور خواہش ہے۔ کیونکہ اللہ کا قرب حاصل کیے بغیر انسان کو دنیا اور آخرت کی سعادت اور نجات نہیں ملے گی۔ دوسری طرف یہ تقرب بغیر وسیلہ کے حاصل نہیں ہو سکتا، اس لیے دنیا و آخرت کی سعادت اور نجات اسباب، وسیلہ اور سہارے پر منحصر ہے۔[28]

وہابیوں کی جانب سے پیغمبر خدا(ص) اور صالح بندوں سے توسل کی مخالفت

پیغمبر خدا(ص) اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو توسل کرنے والا اس طرح وسیلہ قرار دیتا ہے: «اللہمَّ انّی أتوسلُ إلیک بنبیکَ محمد(ص) اَن تقضی حاجتی؛ یعنی اے اللہ میں تجھے پیغمبرخدا(ص) کا واسطہ قرار دے کر تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ کہ میری فلاں حاجت کو روا فرمادے».[29]

توسل کے بارے میں مصر کے دار الافتاء کی جانب سے جاری کیے گئے فتوے کا متن:
«انبیاء، اولیاء اور خدا کے نیک بندوں سے متوسل ہونا اور ان سے مدد طلب کرنا جائز اور مستحب عمل ہے اور قرآن و سنت اور صحابہ کرام کی سیرت سے اس کے شرعی جواز اور مطلوب ہونے پر دلائل ملتے ہیں۔ نیز جس طرح خود ان ذوات مقدسہ سے متوسل ہونا جائز ہے اسی طرح ان کے مقام و مرتبہ کو بھی وسیلہ قرار دینا جائز ہے اور اس معاملے میں بعض نادر لوگوں کی طرف سے مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں۔»[30]

متحدہ عرب امارات کے ایک مالکی عالم دین عیسیٰ بن عبد اللہ حمیری کے مطابق ساتویں صدی ہجری کے سلفی علماء کے ایک گروہ نے توسل کی مخالفت کی تھی اور اسی وقت یہ مسلمان علماء کی جانب سے سخت موقف اختیار کرنے اور توسل کے مخالفین کو دوٹوک جواب دیے جانے کے بعد یہ تنازعہ ختم ہوگیا؛ لیکن بعد میں وہابیوں نے اس تنازعہ کو دوبارہ اٹھایا اور اپنے زعم سے توسل کے عقیدے کو باطل قرار دیا گیا۔[31] مثال کے طور پر شام کے وہابی عالم محمد نسیب رفاعی (متوفی: 1412ھ) نے انبیاء اور اولیائے الہی (مخلوقین) کو وسیلہ قرار دیے جانے کو باطل عمل جانا اور اسے کفر اور بدعت کہا۔[32] رفاعی نے توسل کو بدعت کا حامل عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرآن اور سنت نبوی سے اس کے جواز کے بارے میں کوئی شرعی ثبوت نہیں ملتا۔[33]

مسلمان علماء کی طرف سے وہابی نظریات پر تنقید

آٹھویں صدی ہجری کے شافعی مذہب کے عالم دین تقی الدین سُبکی کا کہنا کہ متعدد اور متواتر روایات پیغمبر اکرم (ص) اور نیک لوگوں سے متوسل ہونے اور ان سے مدد طلب کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔[34] مصری شافعی مذہب کے عالم دین علی ابن عبد اللہ سمہودی (متوفی: 911ھ) نے اپنی کتاب "وفاء الوفاء" میں پیغمبر اکرم (ص) اور صالح لوگوں کو وسیلہ قرار دینے جانے والے عمل کا جواز اجماعی ہونے کا دعوا کیا ہے۔[35] انہوں نے مستند سنی روائی کتب سے کچھ احادیث نقل کی ہیں۔[36] اس سلسلے میں انہوں نے صحیح بخاری کی وہ روایت نقل کی ہے جس میں آیا ہے کہ عمر بن خطاب نے بارش برسانے کی دعا میں عباس بن عبد المطلب (رسول خدا(ص) کے چچا) کو وسیلہ قرار دیا۔[37]

ائمہ معصومینؑ سے پیغمبر خدا(ص) اور اولیائے الہی سے متوسل ہونے کے جواز کے بارے میں بہت سی احادیث نقل کی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض روایات میں اہل بیتؑ کو خدا سے قربت حاصل کرنے کے ذریعہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[38] مثال کے طور پر دعائے توسل ان دعاؤں میں سے ہے جس میں چودہ معصومینؑ کو خدا سے مدد مانگنے کے لیے وسیلہ قرار دیا جاتا ہے۔[39]

ابن تیمیہ اور وہابیوں کی طرف سے اموات سے توسل کرنے کو بدعت سمجھنا

ابن تیمیہ کے نزدیک انبیاء اور اولیاء کی وفات کے بعد ان کو وسیلہ قرار دینا ایک غیرجائز عمل ہے اور یہ بدعت ہے؛ ان کا خیال ہے کہ صحابہ اور سابقہ فقہاء میں سے کسی نے ایسا عمل انجام نہیں دیا ہے لہذا اس کے جواز اور مباح ہونے پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔[40] نیز وہابی فرقے[41] کے بانی محمد بن عبد الوہاب اور ان کے پیروکار وہابی علماء نے انبیاء اور اولیاء کو ان کی وفات کے بعد وسیلہ قرار دینے کو شرک اور بدعت سمجھا ہے۔[42]

مسلم علماء کے نقطہ نظر سے اموات کے توسل کا شرعی جواز

توسل کے بارے میں وہابیت کے نقطہ نظر کو شیعہ اور سنی علماء نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مذہب زیدیہ کے فقیہ محمد بن علی شوکانی (متوفی: 1250ھ) کا کہنا ہے کہ اس بات پر صحابہ کا اجماع ہےکہ رسول خدا(ص) سے آپ(ص) کی حیات میں بھی اور بعد از ممات بھی متوسل ہوتے تھے اور صحابہ میں سے کسی نے بھی عمل کے جواز کا انکار نہیں کیا ہے۔[43] نیز، مصری مورخ و محدث اور شافعی مذہب کے عالم دین احمد بن محمد قسطلانی (متوفی: 923 ھ) کا کہنا ہے کہ پیغمبر خدا(ص) کی وفات کے بعد آپ(ص) سے متوسل ہونے کا عمل اس حد تک تکرار ہوا ہے کہ اس کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔[44] سمہودی کے مطابق، رسول خدا(ص) سے متوسل ہونے کے سلسلے میں آپ(ص) کی زندگی میں یا بعد میں کوئی فرق نہیں ہے۔[45] انہوں نے سنی کتب حدیث سے بعض روایات ذکر کی ہیں جن کی بنیاد پر صحابہ کرام رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد مختلف امور کے لیے آپ(ص) سے متوسل ہوتے تھے۔[46]

جعفر سبحانی کہتے ہیں کہ مسلمان پیغمبر خدا(ص) کی زندگی میں بھی آپ(ص) سے متوسل ہوتے تھے چنانچہ آپ کی وفات کے بعد بھی ایسا ہی کرتے تھے۔[47] ترکی سے تعلق رکھنے والے حنفی مذہب کے عالم دین محمد بن زاہد کوثری (متوفی: 1371ھ) کا کہنا ہے کہ جو لوگ پیغمبر خدا(ص) اور نیک بندوں سے توسل کا انکار کرتے ہیں وہ انسانوں کے مرنے کے بعد ارواح کے فنا ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ نیز معاد اور خروی حیات کو بھی منکر ہیں۔[48] ان کا مزید کہنا ہے کہ جو لوگ توسل کے جواز کو پیغمبرخدا(ص) کی حیات میں منحصر سمجھتے ہیں وہ ان روایات میں تحریف کرتے ہیں اور انہیں تاویل کرنا بغیر دلیل کے ہیں جو کہ درست نہیں۔[49]


پیغمبر اکرم اور اولیائے اللہ کے مقام و مرتبہ سے متوسل ہونے کو شرک آلود سمجھنا

تقی‌ الدین سُبْکی:
 :«پیغمبر اکرم (ص) سے متوسل ہونا ایک جائز اور نیک عمل ہے اور اس کا جواز اور اس میں حُسن ہونا ہر دیندار شخص کو معلوم ہے۔ توسل کرنا انبیاء، مرسلین، اور صالحین، علماء اور صالحین کا عمل اور طریقہ تھا۔ کسی زمانے میں اور کسی مذہب میں کسی نے اس کی تردید نہیں کی یہاں تک کہ ابن تیمیہ آیا اور اس نے اس مسئلے کو ضعیف العقیدہ لوگوں میں مشتبہ کردیا[یادداشت 1] اور ایسی بدعت کی بنیاد رکھی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی»۔[50]

پیغمبر اکرم (ص) کے مقام و مرتبہ سے متوسل ہونا اس طرح ہے کہ توسل کرنے والا کہتا ہے: «اللہمَّ إنّی أتوسل إلیک بجاہ محمدٍ(ص) و حُرمتہ أن تقضی حاجتی؛اے اللہ میں محمد(ص) کی تیرے پاس عزت و حرمت اور مقام و مرتبے کو تیری درگاہ میں وسیلہ قرار دیکر التجا کرتا ہرتا ہوں کہ میری فلاں حاجت کو روا کردے۔»[51] وہابی عالم محمد نسیب رفاعی کا خیال ہے کہ رسول اللہ (ص) اور دیگر اولیائے اللہ کے مقام و مرتبے اور احترام کے ذریعے خدا تک پہنچنے کے جواز کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نبی (ص) کے اصحاب میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں کیا۔[52] سعودی عرب کے وہابی مفتی عبد العزیز بن باز (متوفی: 1420ھ) نے بھی اس قسم کے توسل کو بدعت اور شرک سمجھا ہے اور اس کی حرمت پر فتویٰ جاری کیا۔[53]

مسلم علماء کی طرف سے وہابی نظریات پر تنقید

توسل کو شرک سمجھے جانے والے نظریے پر شیعہ اور سنی علماء نے تنقید کی ہے۔ سمہودی کے مطابق، پیغمبر اکرم (ص) کے مقام و مرتبے سے متوسل ہونا اور خدا کی درگاہ سے آپ(ص) کے وجود سے برکت مانگنا انبیاء اور صالح پیشروؤں کا طریقہ رہا ہے۔ یہ سلسلہ خواہ ان کی تخلیق سے پہلے ہو یا ان کی زندگی کے دوران یا ان کی وفات کے بعد ہو، بلا تفریق جاری رہا ہے۔[54] شافعی مذہب کے مفسر شہاب‌ الدین آلوسی (متوفی: 1270ھ) بھی پیغمبر اکرم(ص) اور بندگان صالح کے مقام و مرتبے اور اللہ کے ہاں ان کی شان و منزلت سے متوسل ہونے کو شرعی طور پر جائز عمل سمجھتے ہیں۔[55]

شیعہ عالم دین جعفر سبحانی کہتے ہیں: انبیاء اور صالح بندوں کے حق اور عزت و شرف سے متوسل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا پر ان کا کوئی ذاتی حق ثابت کیا جائے تاکہ یہ عمل شرک قرار جائے؛ بلکہ تمام حقوق خدا کے ہیں اور اس نے بعض بندوں کو اپنے فضل و کرم سے اور ان کی تعظیم کے لیے درجہ اور عزت بخشی ہے۔[56]

مصر کے دارالافتاء نے پیغمبر اکرم (ص) کے مقام و مرتبہ سے متوسل ہونا جائز ہونے کے بارے میں سورہ مائدہ آیت نمبر35، سورہ اسراء آیت نمبر57 اور بعض روایات سے استناد کرتے ہوئے فتوا جاری کیا ہے کہ کہ رسول اللہ (ص) اور دیگر انبیائےکرام کی شان و منزلت اور مقام و مرتبے سے متوسل ہونا ان جائز چیزوں میں سے ہے جس کا جواز قرآن و سنت نبوی کی رو سے ثابت ہے۔[57]

قرآن اور اسماء الہی سے توسل کے جواز پر مسلمانوں کا اجماع

اسماء و صفات الہی سے توسل کا حکم

اسماء اور صفات الہی سے متوسل ہونے کی صورت یہ ہے کہ مثال کے طور پر توسل کرنے والا کہے: «اللّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُک بِاسْمِک یا اللّہُ، یا رَحْمنُ، یا رَحِیمُ...خَلِّصْنا مِنَ النَّارِ یا رَبِّ؛ اے خدا، میں تجھ سے تیرے نام سے سوال کرتا ہوں، اے خدا، اے رحم کرنے والے، اے رحم کرنے والے... ہمیں جہنم کی آگ سے بچا، اے میرے رب۔».[58] کہا جاتا ہے کہ اس قسم کے توسل کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[59] سورہ اعراف آیت نمبر 180 میں اللہ تعالیٰ نے خود کو اچھے ناموں (اسماء حسنیٰ) کے پکارنے کا حکم دیا ہے۔[60] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومینؑ کی بہت سی روایات[61] اس قسم کے توسل کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔[62] دعائے جوشن کبیر ایک سو بندوں پر مشتمل ہے اور اس میں خدا کے 1001 اسماء و صفات کا ذکر ہے جن سے انسان متوسل ہوکر درگاہ الہی میں دعا کرتا ہے۔[63] نیز بعض روایات میں اس دعا شب قدر میں پڑھمنے کی تاکید ملتی ہے۔[64]

قرآن سے توسل کرنا

قرآن مجید سے توسل کرنا اس طرح ہے کہ مثال کے طور پر توسل کرنے والا کہے: «اللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِکِتابِکَ الْمُنْزَلِ وَمَا فِیہِ وَفِیہِ اسْمُکَ الْأَکْبَرُ وَأَسْماؤُکَ الْحُسْنیٰ...أَنْ تَجْعَلَنِی مِنْ عُتَقائِکَ مِنَ النّارِ"اے اللہ میں تجھ سے نازل شدہ کتاب کا واسطہ دیتا ہوں اور اس میں موجود عظیم کا نام کا واسطہ اور تیرے اچھے اچھے ناموں کا واسطہ مجھے ان لوگوں میں سے قرار دے جن کو آگ سے آزاد کیا گیا ہے۔[65] سنی اور شیعہ مآخذ حدیثی کی بعض روایات[66] کے مطابق قرب الہی کے حصول کے لیے قرآن سے متوسل ہونا یا اس کے ذریعے کچھ مانگنا جائز عمل ہے۔[67] نیز ائمہ معصومینؑ کی روایات میں شب قدر میں قرآن سروں پر رکھ کر اسے واسطہ قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔[68]

اعمال صالح سے متوسل ہونا توسل کی ایک اور قسم ہے۔[69] امام علیؑ کی ایک روایت میں خدا اور پیغمبر (ص) پر ایمان، خدا کی راہ میں جہاد، اقامہ نماز، زکات کی ادائیگی، روزہ رکھنا، حج کرنا، صلہ رحمی اور صدقہ دینا قرب خداوندی کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔[70] کسی ایسے شخص سے دعا کی اپیل کرنا جس کے کے وجود کی بدولت دعا قبول ہونے کی توقع کی جاتی ہے، توسل کی ایک اور قسم شمار ہوتی ہے، جسے علمائے اسلام نے قرآن کی بعض آیات اور احادیث کے مطابق اس کے جواز پر مہر تائید ثبت کیا ہے۔[71]

مونوگراف

توسل کے موضوع پر مسلمان علماء نے بہت سی تصانیف لکھی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • التوسل مفہومہ واقسامہ وحکمہ فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغرّاء: اس کتاب کو جعفر سبحانی نے عربی زبان میں لکھا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے توسل کے تمام اقسام کے جواز کے بارے میں قرآن اور احادیث سے دلائل پیش کیا ہے اور مخالفین کے نظریات پر تحقیق اور تنقید کی ہے۔[72]
  • التأمل فی حقیقۃ التوسل: عیسیٰ بن عبد اللہ حمیری کی تحریر کردہ کتاب ہے۔ یہ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے توسل کے مخالفین کے دلائل کا جائزہ لیا ہے اور اس کے جواز کو قرآن و اہل سنت کی کتب احادیث سے روایات نقل کرتے ہوئے علما کی آراء کو بیان کی ہے۔سے کیا ہے۔[73] اس کتاب کا سید مرتضٰی حسینی عاملی نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور اس کا فارسی نام «درنگی در حقیقت توسل» رکھا گیا ہے، مشعر پبلشرز نے اسے شائع کی ہے۔[74]
  • محق التقول فی مسئلۃ التوسل: محمد زاہد کوثری (متوفی: 1371ھ) نے اسے تالیف کی ہے۔ محمد زاہد کوثری حنفی المذہب عالم دین اور ابن تیمیہ اور سلفی افکار کے ناقدین اور مخالفین میں سے ہیں۔ اس کتاب کے 22 صفحات میں مصنف نے قرآن اور سنت رسول اللہ (ص) اور صحابہ کرام کا حوالہ دے کر توسل اور شفاعت کے جواز کو ثابت کیا ہے۔[75]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سبکی، شفاء السقام، 1419ھ، ص293۔
  2. ابن‌ تیمیہ، قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ، 1422ھ، ص16۔
  3. سبکی، شفاء السقام، 1419ھ، ص318۔
  4. سبحانی، التوسل فی الکتاب و السنہ، 1374شمسی، ص18۔
  5. حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص48؛ پاکتچی، «توسل»، ص362۔
  6. سبکی، شفاء السقام، 1419ھ، ص59-61۔
  7. معموری، «نقد توسل از سوی سلفیہ»، ص367-368۔
  8. علیزادہ، «توسل در تحقق تاریخی»، ص368۔
  9. علیزادہ، «توسل در تحقق تاریخی»، ص369۔
  10. علیزادہ، «توسل در تحقق تاریخی»، ص369۔
  11. علیزادہ، «توسل در تحقق تاریخی»، ص369۔
  12. سمعانی، الانساب، 1382ھ، ج12، ص479۔
  13. بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص133۔
  14. کعبی، الامام موسی بن الکاظم علیہ السلام سیرہ و تاریخ، 1430ھ، ص216۔
  15. حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص16۔
  16. جوہری، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، ذیل واژہ «وسل»۔
  17. جوہری، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، ذیل واژہ «وسل»۔
  18. سبکی، شفاء السقام، 1419ھ، ص314۔
  19. عبدالرحمن عبدالمنعم، معجم المصطلحات والألفاظ الفقہیۃ، دار الفضیلۃ، ص150۔
  20. طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج5، ص328؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج11، ص349۔
  21. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج7، ص412؛ سورہ نساء، آیہ 64۔
  22. مکارم شیرازی، آیات الولایۃ فی القرآن، 1425ھ، ص201۔
  23. سورہ یوسف، آیہ 97۔
  24. ملاحظہ کیجیے: سمہودی، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، 1419ھ، ج4، ص196؛ ترمذی، سنن ترمذی، 1395ھ، ج5، ص539؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص416؛ سید بن طاووس، الاقبال، 1376شمسی، ص177؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج36، ص15-21۔
  25. مکارم شیرازی، آیات الولایۃ فی القرآن، 1425ھ، ص203۔
  26. سبحانی، التوسل، ص107۔
  27. بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج2، ص26-32۔
  28. حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص76۔
  29. سبحانی، التوسل، ص69۔
  30. «حكم التوسل بالأنبياء والأولياء والصالحين وطلب المدد منہم»، سایت دار الإفتاء المصریۃ.
  31. حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص48۔
  32. رفاعی، التوصل الی حقیقۃ التوسل، 1399ھ، ص185۔
  33. رفاعی، التوصل الی حقیقۃ التوسل، 1399ھ، ص186۔
  34. سبکی، شفاء السقام، 1419ھ، ص305۔
  35. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ھ، ج4، ص196۔
  36. سبکی، شفاء السقام، ص305؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ھ، ج4، ص196۔
  37. بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج2، ص27۔
  38. ملاحظہ کیجیے: قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج1، ص168؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج2، ص292۔
  39. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج102، ص247-249۔
  40. ابن‌تیمیہ، مجموعۃ الرسائل و المسائل، لجنۃ التراث العربی، ج1، ص22-23۔
  41. عبدالوہاب، کشف الشبہات، 1418ھ، ص51-52۔
  42. برای نمونہ نگاہ کنید بہ ابن‌باز، التوسل المشروع و توسل الممنوع، 1428ھ، ص35-36۔
  43. شوکانی، الدر النضید، دار ابن حزیمہ، ص20۔
  44. قسطلانی، المواہب اللدنیۃ، 1425ھ، ج3، ص606۔
  45. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ھ، ج4، ص195۔
  46. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ھ، ج4، ص195-196۔
  47. سبحانی، التوسل ...، 1374شمسی، ص52۔
  48. کوثری، محق التقول فی مسألۃ التوسل، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، ص4۔
  49. کوثری، محق التقول فی مسألۃ التوسل، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، ص5۔
  50. سبکی، شفاء السقام، ص293۔
  51. سبحانی، آیین وہابیت، 1375شمسی، ص146۔
  52. رفاعی، التوصل الی حقیقۃ التوسل، 1399ھ، ص188-189۔
  53. ابن‌باز، مجموع فتاوی ابن‌باز، 1420ھ، ج5، ص322۔
  54. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ھ، ج4، ص193۔
  55. آلوسی، تفسیر روح المعانی، 1415ھ، ج6، ص128۔
  56. سبحانی، التوسل مفہومہ وأقسامہ وحکمہ فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغرّاء، 1374شمسی، ص82۔
  57. «حکم التوسل بالأنبیاء والأولیاء والصالحین وطلب المدد منہم»، سایت دار الإفتاء المصریۃ.
  58. کفعمی، المصباح، 1409ھ، ص247؛ حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص44۔
  59. سبحانی، التوسل...، 1374شمسی، ص24؛ حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص44۔
  60. سبحانی، التوسل...، 1374شمسی، ص22؛ البانی، التوسل، انواعہ و احکامہ، 1421ھ، ص30۔
  61. ملاحظہ کیجیے: ترمذی، سنن ترمذی، 1395ھ، ج5، ص539؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص416؛ سید بن طاووس، الاقبال، 1376شمسی، ص177۔
  62. سبحانی، التوسل...، 1374ش، ص22؛ حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص44۔
  63. کفعمی، المصباح، 1409ھ، ص247۔
  64. ملاحظہ کیجیے: علامہ مجلسی، زاد المعاد، 1423ھ، ص27۔
  65. سید بن طاووس، الاقبال، 1376شمسی، ج1، ص346۔
  66. ملاحظہ کیجیے: بن حنبل، مسند احمد، 1421ھ، ج33، ص146؛ سید بن طاووس، الاقبال، 1376شمسی، ج1، ص346۔
  67. سبحانی، التوسل...، 1374شمسی، ص25-26۔
  68. برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص190۔
  69. ملاحظہ کیجیے: سبحانی، التوسل...، 1374شمسی، ص27-32 و 39؛ حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص45-48۔
  70. ملاحظہ کیجیے: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1374شمسی، خطبہ 110، ص163۔
  71. ملاحظہ کیجیے: سبحانی، التوسل...، 1374شمسی، ص27-32 و 39؛ حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص45-48۔
  72. سبحانی، التوسل...، 1374شمسی، ص117۔
  73. حمیری، التأمل فی حقیقۃ التوسل، 1428ھ، ص8-11۔
  74. حمیری، درنگی در حقیقت توسل، 1392شمسی، ص13۔
  75. کوثری، محق التقول فی مسألۃ التوسل، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، ص4-11۔

نوٹ

  1. اب تیمیہ نے «قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلۃ» کے عنوان پر تحریر کردہ اپنی کتاب میں توسل کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
    1. توسل یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ذریعے قرب خداوندی حاصل کرنا۔ ابن تیمیہ اس قسم کے توسل کو اصل دین سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا ہے؛
    2. توسل کی دوسری قسم یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) کی حیات میں آپ(ص) کی دعاؤں کا توسل کرنا اور قیامت کے دن ان کی شفاعت کا امید وار ہونا۔ ان کا خیال ہے کہ اس قسم کا توسل صحابہ میں رائج تھا؛
    3. ذات نبی کریم (ص) سے توسل کرنا اور ان سے کچھ مانگنا۔ ابن تیمیہ اس قسم کے توسل کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ کسی صحابی نے ایسا نہیں کیا ہے۔(ابن‌تیمیہ، قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلۃ، 1422ھ، ص87-88.)

بیرونی روابط

مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبداللہ، تفسیر روح المعانی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابن‌باز، عبدالعزیز، التوسل المشروع و توسل الممنوع، ریاض، بی‌نا، 1428ھ۔
  • ابن‌باز، عبدالعزیز، مجموع فتاوی ابن‌باز، ریاض، دار القاسم للنشر، 1420ھ۔
  • ابن‌تیمیہ، تقی‌الدین ابوالعباس، قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ، بی‌جا، مکتبۃ الفرقان، چاپ اول، 1422ھ۔
  • ابن‌تیمیہ، تقی‌الدین ابوالعباس، مجموعۃ الرسائل والمسائل، بی‌جا، لجنۃ التراث العربی، بی‌تا۔
  • البانی، محمد ناصرالدین، التوسل، انواعہ و احکامہ، ریاض، مکتبۃ المعارف، 1421ھ۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، بنیاد بعثت، 1415ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، دمشق، دار طوق النجاۃ، 1422ھ۔
  • بن حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد، قاہرہ، دار الحدیث، 1421ھ۔
  • پاکتچی، احمد، «توسل»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن ترمذی، مصر، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، 1395ھ۔
  • تقی‌الدین سبکی، علی بن عبدالکافی، شفاء السقام فی زیارۃ خیر الأنام، تحقیق سید محمدرضا جلالی، قم، نشر مشعر، چاپ چہارم، 1419ھ۔
  • جوہری، أبو نصر إسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • حمیری، عیسی بن عبداللہ، التأمل فی حقیقۃ التوسل، بی‌جا، بی‌نا، 1428ھ۔
  • «حکم التوسل بالأنبیاء والأولیاء والصالحین وطلب المدد منہم»، سایت دار الإفتاء المصریۃ، تاریخ درج مطلب: 13 مارس 2018م، تاریخ بازدید: 25 فروردین 1403ہجری شمسی۔
  • رفاعی، محمدنسیب، التوصل الی حقیقۃ التوسل، بیروت، دار لبنان للطباعۃ والنشر، چاپ سوم، 1399ھ۔
  • سبحانی، جعفر، آیین وہابیت، تہران، نشر مشعر، 1375ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، التوسل مفہومہ وأقسامہ وحکمہ فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغرّاء، قم، نشر مشعر، 1374ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، التوسل، بیروت، الدار الاسلامیۃ، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔
  • سمہودی، علی بن عبداللہ، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنۃ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1376ہجری شمسی۔
  • شوکانی، محمد بن علی، الدر النضید فی اخلاص کلمۃ التوحید، بی‌جا، دار ابن حزیمۃ، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعۃ، 1411ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، كنگرہ جہانى ہزارہ شيخ مفید، 1413ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
  • عبدالمنعم، محمود عبدالرحمن، معجم المصطلحات والألفاظ الفقہیۃ، قاہرہ، دار الفضیلۃ، بی‌تا۔
  • عبدالوہاب، محمد، کشف الشبہات، عربستان، وزارۃ الشؤون الإسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والإرشاد، چاپ اول، 1418ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، زاد المعاد، بیروت، موسسۃ الأعلمی للمطبوعات‌، 1423ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • قسطلانی، احمد بن محمد، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، بیروت، المکتب الاسلامی، 1425ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح، جنۃ الأمان الواقیۃ و جنۃ الإیمان الباقیۃ، قم، دار الرضی، 1405ھ۔
  • کوثری، محمدزاہد، محق التقول فی مسألۃ التوسل، قاہرہ، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، بی‌تا۔
  • معموری، «نقد توسل از سوی سلفیہ»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، آیات الولایۃ فی القرآن، قم، مدرسہ امام علی ابن ابی طالب(ع)، 1425ھ۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مركز البحوث الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔