لیلۃ المبیت

ویکی شیعہ سے
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


لَیلَۃ المَبیت اس رات کو کہا جاتا ہے جس میں امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ کی جان بچانے کی خاطر آپؑ کے بستر پر سوگئے۔ مشرکین مکہ نے سب مل کر آج کی رات پیغمبر اکرمؐ پر حملہ کر کے آپؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اللہ کے حکم اور پیغمبر اکرمؐ کی درخواست سے حضرت علیؑ رسول اللہ کے بستر پر سو گئے اور مشرکین مکہ پیغمبر اکرمؐ کی عدم موجودگی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے اور پیغمبر اکرمؐ رات کی تاریکی میں یثرب کی طرف ہجرت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اکثر مفسرین کا عقیدہ ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 کا شأن نزول آج کی رات امام علیؑ کی وہ جان نثاری ہے جس نے پیغمبر اکرمؐ کو مشرکوں کے گزند سے محفوظ رکھا۔ یہ واقعہ یکم ربیع الاول سنہ 1 ہجری کو پیش آیا۔

اہمیت

لَیلۃُ المَبیت اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ کی جان بچانے کی خاطر آپؐ کے بستر پر سوگئے۔ یہ واقعہ امام علیؑ کے فضائل میں شمار ہوتا ہے اور امام علیؑ نے 6 نفرہ شورا میں اپنی حقانیت کے اثبات کے لئے اس کو پیش کیا۔[1] مفسروں نے آیہ شِراء یا آیہ لیلۃ المبیت کو اس واقعہ سے مربوط جانا ہے جو امام علی کی شان میں نازل ہوئی۔[2]

سید بن طاووس کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے غدیر کے خطبے میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے اللہ کی طرف سے امام علیؑ کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔[3] اسی طرح روایات کے مطابق جب امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سوگئے تھے تو جبرائیل آپ کے سرہانے اور میکائیل پائینتی کی جانب آئے۔ جبرائیل نے کہا: اے فرزند ابو طالب! آپ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ خدا فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر و مباہات کر رہا ہے۔[4]

حضرت علیؑ اس رات جب سوئے تو جبرائیل آپ کے سرہانے اور میکائیل پائینتی کی جانب آئے۔ جبرائیل نے کہا: اے فرزند ابو طالب! آپ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ خدا فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر و مباہات کر رہا ہے۔[5]

علیؑ کی فداکاری کو اسماعیل کی فداکاری پر برتری

سید بن طاووس امام علیؑ کا رسول اللہ کے بستر پر سونے کو جناب حضرت اسماعیل ابن حضرت ابراہیم کا ذبح ہونے کے لئے تسلیم ہونے سے موازنہ کرتے ہوئے امام علیؑ کے ایثار کو برتر سمجھتا ہے؛ کیونکہ اسماعیل اپنے باپ کے ہاتھوں ذبح ہونے آیا تھا لیکن امام علیؑ دشمن کے ہاتھوں قتل ہونے کے لئے تیار ہوئے تھے۔[6]

پیغمبر اکرمؐ کے قتل کا منصوبہ

تاریخی مآخذ کے مطابق کفار قریش دارالنَّدْوہ میں جمع ہوگئے تاکہ پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں کچھ فیصلہ کرسکیں اور یہ طے ہوا کہ ہر قبیلے سے ایک آدمی کا انتخاب ہو اور رات کی تاریکی میں اکٹھے رسول اللہ کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا جائے۔ اس صورت میں رسول اللہ کے قتل کی ذمہ داری کسی ایک قبیلے کی بجائے مختلف قبیلوں کے گردن پر آجاتی۔ نتیجے میں بنی ہاشم کو آپؐ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے تمام قبائل سے جنگ کرنا پڑتا اور جب وہ ان تمام قبائل سے جنگ کرنے سے عاجز آتے تو جزیہ لے کر صلح کرنے پر مجبور ہو جاتے۔[7]

اس فیصلے کے بعد جبرئیل امین نازل ہوئے اور مشرکین کی سازش سے رسول اللہ کو باخبر کردیا۔[8] اسی لئے پیغمبر اکرمؐ نے مشرکین کے آنے سے پہلے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔[9]

امام علیؑ کا بسترِ رسولؐ پر سونا

روایات کا حوالہ دیتے ہوئے علامہ مجلسی کا کہنا ہے کہ رسول اللہ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: مشرکین مکہ آج کی رات مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں کیا تم میری جگہ سو سکتے ہو؟ حضرت علی نے جواب دیا: کیا اس صورت میں آپ کی جان محفوظ رہے گی؟ رسول اللہ نے جواب دیا: ہاں۔ حضرت علیؑ مسکرائے اور سجدۂ شکر بجا لائے۔ سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کہا: میری جان آپ پر نثار ہو! جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اسے انجام دیں۔ جس طرح بھی آپ مجھے حکم دینگے میں حاضر خدمت ہوں۔[10] پس پیغمبرؐخدا نے حضرت علیؑ کو آغوش میں لیا اور دونوں نے گریہ کیا پھر جدا ہوگئے۔[11]

مشرکین مکہ نے رات کی ابتدا سے ہی آپ کے گھر کو محاصرے میں لے لیا۔ وہ لوگ آدھی رات کے وقت حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن ابو لہب نے کہا: اس وقت عورتیں اور ان کی اولادیں گھروں میں ہوتی ہیں۔ بعد میں اہل عرب ہمارے بارے میں کہیں گے کہ انہوں نے اپنے چچا کی حرمت شکنی کی ہے۔[12] کفار نے بستر پر پتھر پھینک کر اطمینان حاصل کیا کہ بستر پر کوئی سویا ہے اور انہیں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ حضرت رسول خداؐ ہی ہیں۔[13]صبح ہوتے ہی وہ تلواریں سونتے گھر میں داخل ہوئے ۔جب بستر پر حضرت علیؑ کو دیکھا تو کہنے لگے: محمدؐ کہاں ہے؟ حضرت علیؑ نے جواب دیا: کیا انہیں میرے حوالے کیا تھا؟ جو مجھ سے اس کے طلبگار ہو؟ تم نے کچھ ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ کفار حضرت علیؑ کو گھر سے باہر لے آئے انہیں زد و کوب کیا۔ کچھ دیر کیلئے انہیں مسجد الحرام میں قید کیا اور انہیں تکلیف پہنچائی اور پھر رہا کیا۔[14]

بعض کا کہنا ہے کہ حضرت علیؑ نے جب انہیں اپنی طرف ننگی تلواروں کے ساتھ آتے ہوئے دیکھا جن میں سب سے آگے خالد بن ولید تھا وہ سب سے پہلے ننگی تلوار کے ساتھ آپ کی جانب بڑھا تو آپ نے بڑی ہوشیاری سے اس کی تلوار ہاتھ سے چھینی اور ان کو اپنے سے دور کردیا۔ انہوں نے کہا ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں بتاؤ محمد کہاں ہے؟ آپ نے کہا مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ پھر قریش آپؐ کو ڈھونڈنے کے لیے روانہ ہوئے۔[15]

آیہ شراء

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ؛ :اور انسانوں میں سے کچھ ایسے (انسان) بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں (خطرے میں ڈال دیتے ہیں) اور اللہ (ایسے جاں نثار) بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔

سورہ بقرہ، آیہ 207

شیخ طوسی اپنی کتاب مصباح المُتَہَجِّد میں اس واقعہ کی تاریخ یکم ربیع الاول بیان کرتے ہیں۔[16]

آیہ شراء کا امام علی کی شان میں نزول

اکثر علمائے شیعہ[17] اور علمائے اہل سنت کی ایک جماعت[18] کے مطابق سورہ بقرہ کی 207ویں آیت شب ہجرت کے موقع پر حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اہل سنت عالم دین ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اپنے استاد ابوجعفر سے نقل کرتے ہیں کہ یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ یہ آیت امام علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے جو بھی اس کا انکار کرے یا پاگل ہے یا مسلمانوں سے اس کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔[19]

آیہ شراء میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جان سے بھی گزر جاتے ہیں۔[20]

ادب اور ہنر کے آئینے میں

شعر

لیلۃ المبیت (شب ہجرت) کے بارے میں یمن کے معروف شاعر امیر الشعراء حسن بن علی ہَبَل نے 1076ھ کو «نَفْسی فِداءُ الغری» کے نام سے ایک نظم پڑھی جو دیوان الہَبَل میں نقل ہوا ہے اس کے چند بیت درج ذیل ہیں:

مَنْ نامَ فی مَرقدِ النبی دُجی وَ اَعیُنُ المشرکینَ لمْ تَنَمِ
فداه بالنفسَ لمْ یَخَفْ اَبدا ما دَبَّروا من عظیم کیدهم[21]

ترجمہ:[علی] وہ شخص ہے جو بستر رسول پر سکون سے سوئے؛ جبکہ خوف کی وجہ سے مشرکین کی آنکھوں سے نیند اڑ گئی تھی۔ اس [علی] نے اپنی جان رسول اللہ پر فدا کی اور اس بڑی سازش سے کبھی نہیں ڈرے۔

ااس حوالے سے امام علیؑ سے بھی بعض اشعار منسوب ہیں:

وَقَيْتُ بِنَفْسِي خَيْرَ مَنْ وَطِئَ اَلْحَصَى وَ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ اَلْعَتِيقِ وَ بِالْحَجَرِ
رَسُولَ إِلَهِ اَلْخَلْقِ أَنْ مَكَرُوا بِهِ فَنَجَّاهُ ذُو اَلطَّوْلِ اَلْكَرِيمُ مِنَ اَلْمَكْرِ
وَ بِتُّ أُرَاعِيهِمْ وَ مَا يُثْبِتُونَنِي وَ قَدْ صَبَرَتْ نَفْسِي عَلَى اَلْقَتْلِ وَ اَلْأَسْرِ.[22]

ترجمہ: اپنی جان سے اس شخص کی حفاظت کی جو زمین پر قدم رکھنے والوں میں سب سے اچھا ہے، خانہ کعبہ اور حجر اسماعیل نے جن کا طواف کیا ہے۔ اللہ کے رسول تھے جن کے خلاف سازش کی گئی، کریم اور قادر خدا نے انہیں نجات دیا۔ میں بستر پر سوگیا اور ان کی نگرانی کر رہا تھا؛ لیکن انھوں نے مجھے نہیں پہچانا جبکہ میں نے خود کو مرنے اور اسیر ہونے کے لئے تیار کیا ہوا تھا۔}}

نقاشی نفس رسول اثر حسن روح‌الامین درباره لیلۃ المبیت

مستند لیلۃ المبیت

امام علیؑ کی مدحت اور لیلۃ المبیت میں آپ کی جانثاری پر ایران میں ایک مستند (ڈاکومنٹری) بنی اور سنہ 1396شمسی ہجری کو ایرانی ٹی وی چینل پر نشر ہوئی۔[23]

نقاشی

ایرانی فنکار حسن روح‌ الامین نے امام علیؑ کا بسترِ رسول اللہؐ پر سونے کو ایک نقاشی کی ہے جس کا نام نقاشی نَفْس رسول دیا ہے[24]

حوالہ جات

  1. صدوق، الخصال، 1362ش، ج2، ص560.
  2. ابن‌ابی الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ھ، ج13، ص262.
  3. سید بن طاووس، الیقین، بی‌تا، ص350.
  4. طوسی، الامالی، 1414ھ، ص469؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص123.
  5. صدوق، امالی، ص 469؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ج5، ص174؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ج1، ص123
  6. سید ابن طاووس، اقبال الاعمال، 1409ھ، ج2، ص595-596.
  7. طبرسی،اعلام الوری، ص88
  8. ابن‌اثیر، الکامل، 1417ھ، ج1، ص694.
  9. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ،‌ دار المعرفۃ، ج2، ص32.
  10. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج19، ص60
  11. طوسی، امالی، 1414ھ، ص466
  12. حلبی، سیرۃ الحلبیہ،‌ دار المعرفہ، ج2، ص32
  13. طوسی، امالی، 1414ھ، ص466-467
  14. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج19، ص92.
  15. طوسی، امالی، 1414ھ، ص467
  16. طوسی، المصباح المتہجد، 1411ھ، ص791.
  17. ملاحظہ کریں: عیاشی، تفسیر العیاشی، مکتبہ علمیہ الاسلامیہ، ج1، ص101؛ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج2،‌ ص183؛ طباطبایی، المیزان، 1973م، ج2، ص99-100.
  18. ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، دار الکتب العلمیۃ، ج3، ص5؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص123-131؛ زرکشی، البرہان، 1957م، ج1، ص206؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج5، ص350.
  19. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج13، ص262.
  20. ملاحظہ کریں: سورہ بقرہ، آیہ207.
  21. ہبل، دیوان الہبل، 1407ھ، ص122.
  22. کراجکی، التعجب من أغلاط العامۃ فی مسألۃ الإمامۃ، 1421ھ، ص123.
  23. «پخش مستند «لیلۃ المبیت» نخستین بار از تلویزیون»، خبرگزاری صداوسیما.
  24. «نفس رسول»، کانون ہنر شیعی.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تصحیح ابراہیم محمد ابوالفضل، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌اثیر، علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتب العربی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا،‌ بیروت، دار الکتب العلمیۃ، بی‌تا.
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمد باقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد، چاپ اول، 1411ھ۔
  • حلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ،‌ بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا.
  • زرکشی، محمد بن عبداللہ، البرہان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابراہیم،‌ بیروت، دار احیاءالکتب العربیہ، چاپ اول، 1957ء۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، الیقین فی اختصاص مولانا علی(ع) بإمرۃ المؤمنین، بی‌تا.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال‌، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، 1362ہجری شمی.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ سوم، 1973ء۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الہدي، قم، مؤسسۃ آل البیت لإحياء التراث، چاپ اول، 1417ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافہ للطباعہ، 1414ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، الطبعۃ الاولی، 1411ق/1991ء۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، مکتبہ علمیہ الاسلامیہ، بی‌تا.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • کراجکی، محمد بن علی، التعجب من أغلاط العامۃ فی مسألۃ الإمامۃ، تصحیح کریم فارس حسون، قم، دارالغدیر، چاپ اول، 1421ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار الوفاء، 1403ھ۔
  • ہبل، حسن بن علی، دیوان الہبل، تحقیق احمد بن محمد شامی، الدار الیمینہ، چاپ دوم، 1407ھ/1987ء۔
  • «نفس رسول»، کانون ہنر شیعی، مشاہدہ 28 شہریور 1402ہجری شمسی.