عمر بن عبد العزیز

کم لنک
ویکی شیعہ سے
(عمر بن عبدالعزیز سے رجوع مکرر)
عمر بن عبد العزیز
شام میں معرۃ النعمان کے نزدیک عمر کا مقبرہ
کوائف
نامعمر بن عبد العزیز
والدعبد العزیز بن مروان بن حکم
والدہام عاصم بنت عاصم بن عمر بن خطاب
حکومت
سمتخلیفہ اموی
سلسلہبنی امیہ
آغازسنہ 99 ہجری
انجامسنہ 101 ہجری
معاصرامام محمد باقر علیہ السلام
مرکزشام
اہم اقداماتامام علی پر ہونے والے سب و شتم کا خاتمہ، فدک واپس دینا، منع کتابت حدیث کا خاتمہ۔
قبل ازیزید بن عبد الملک
بعد ازسلیمان بن عبد الملک


عمر بن عبد العزیز بن مروان (61-101ھ)، سلسلہ بنی امیہ کا آٹھواں خلیفہ ہے جس نے 99 سے 101ھ تک حکومت کی۔ اس کے حکومت کرنے کا طریقہ بنی امیہ کے دیگر خلفاء سے مختلف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ ائمہ کی روایات میں اس کا ذکر نیکی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اگرچہ ایک روایت کے مطابق، شیعہ ائمہ کی جگہ منصب خلافت پر بیٹھنے کے سبب آسمانوں میں اس پر لعن کیا گیا ہے۔

اس کے ڈھائی سالہ حکومت میں انجام پانے والے اہم امور میں امام علیؑ پر ہونے والے سب و شتم کو روکنا، فدک اولاد حضرت فاطمہ کو واپس کرنا، منع کتابت حدیث کو ختم کرنا اور بنی امیہ حکومت میں غصب کئے گئے عوامی اموال کو لوٹانا شامل ہیں۔ اسی طرح سے جب وہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے حاکم مدینہ تھا تو اس نے مسجد النبی کی توسیع کی اور ازواج پیغمبرؐ کے حجروں کو مسجد سے ملحق کیا۔

عمر بن عبد العزیز نے سنہ 101 ہجری میں خناصرہ میں وفات پائی اور دیر سمعان میں دفن ہوا۔ اس کا مقبرہ ملک شام میں واقع ہے۔

خاندان

عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم کی ولادت سنہ 61 ہجری[1] یا سنہ 62 ہجری[2] یا سنہ 63 ہجری میں ہوئی۔[3] اس کی کنیت ابو فحص تھی۔[4] اس کا باپ عبد العزیز بن مروان بن حکم اور ماں ام عاصم، عاصم بن عمر بن خطاب کی بیٹی تھی۔[5] اس کے چچا اور خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان (حکومت: 65 سے 86 ھ) نے اپنی خلافت کے آخری ایام سنہ 85 ھ میں، عمر کے والد کے انتقال کے بعد عمر کو مدینہ سے بلا کر اپنی بیٹی فاطمہ کے ساتھ اس کا عقد کیا۔[6]

خلافت سے پہلے

عبد الملک بن مروان نے سنہ 85 ہجری میں (حلب کے علاقہ)[7] خناصرہ کی حکومت عمر بن عبد العزیز کے حوالے کی۔[8] ولید بن عبد الملک نے سنہ 87 ہجری میں مدینہ کی حکومت اس کے سپرد کی[9] اور امیر حج مقرر کیا۔[10] لیکن سنہ 93 ہجری میں حجاج بن یوسف کے کہنے پر اسے مدینہ کی حکومت سے معزول کر دیا۔[11] حجاج نے ولید کو خط میں یاد دہانے کرتے ہوئے لکھا: بے دین، تفرقہ افکن اور عراق کے باغی، عراق سے مکہ و مدینہ میں پناہ لے رہے ہیں اور یہ بات حکومت کے لئے مایہ شرم ہے۔[12] عمر نے مدینہ میں حکومت کے دوران مسجد نبوی کی بازسازی اور اس میں توسیع کی۔[13] سنہ 88 ہجری میں ولید بن عبد الملک نے عمر کو مسجد النبی کی توسیع اور ازواج پیغمبر (ص) کے حجروں کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم دیا۔[14]

ولید بن عبد الملک کی موت کے بعد سنہ 97 ہجری میں عمر بن عبد العزیز نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔[15] سلیمان بن عبد الملک (حکومت: 96۔99 ھ) کے دور حکومت میں عمر اس کا مشاور تھا[16] اور اس کے مرنے پر بھی عمر نے اس کے جنازہ پر نماز پڑھائی۔[17]

خلافت

خلافت بنوامیہ

سلاطین

عنوان


معاویہ بن ابی سفیان
یزید بن معاویہ
معاویہ بن یزید
مروان بن حکم
عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
ولید بن عبدالملک
ابراہیم بن الولید
مروان بن محمد

مدت سلطنت


41-61ھ
61-64ھ
64-64ھ
64-65ھ
65-86ھ
86-96ھ
96-99ھ
99-101ھ
101-105ھ
105-125ھ
125-126ھ
126-126ھ
126-127ھ
127-132ھ

مشہور وزراء اور امراء

مغیرۃ بن شعبہ ثقفی
زیاد بن ابیہ
عمرو عاص
مسلم بن عقبہ مری
عبیداللہ بن زیاد
حجاج بن یوسف ثقفی

اہم واقعات

صلح امام حسن
واقعہ عاشورا
واقعہ حرہ
قیام مختار
قیام زید بن علی

عمر بن عبد العزیز کو سنہ 99 ھ میں سلیمان بن عبد الملک کے بعد خلافت ملی اور اس نے سنہ 101 ھ تک ڈھائی سال حکومت کی۔[18] سلیمان بن عبد الملک خود کے بقول اس نے فتنہ سے بچنے کے لئے عمر کو اپنا جانشین بنایا۔[19] اس کے بعد یزید بن عبد الملک خلیفہ بنا۔[20] طبری کے مطابق اس نے خلافت تک پہچنے کے بعد کلمہ استرجاع (انا للہ و انا الیہ راجعون) اپنی زبان پر جاری کیا[21] اور اپنی خلافت کے آغاز میں اپنی تقریر میں کہا: قرآن کریم کے بعد کوئی کتاب نہیں اور حضرت محمدؐ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ میں قاضی نہیں مجری ہوں، بدعت گزار نہیں تابع ہوں۔[22]

اقدامات

  • حضرت علی پر ہونے والے سب و شتم کا خاتمہ: عمر نے حکم دیا کہ کسی کو حضرت علیؑ پر سب و شتم کرنے کا حق نہیں ہے۔[23] اس سے پہلے معاویہ کے حکم سے تقریبا ساٹھ سال تک منبروں سے پیغمبر اکرمؐ کے صحابی اور شیعوں کے پہلے امام، حضرت علیؑ پر لعنت کی جاتی تھی۔[24] نقل ہوا ہے کہ عمر بھی جوانی کے ایام میں جب اس کا باپ زندہ تھا، حضرت علیؑ پر اعتراضات کیا کرتا تھا لیکن اس کے بعد اپنے استاد عبید اللہ بن عبد اللہ کے منع کرنے کے بعد سے وہ امام علیؑ کو نیک الفاظ میں یاد کرنے لگا۔[25]
  • فدک واپس کرنا: فدک جسے معاویہ نے مروان بن حکم اور اس نے اپنے بیٹے عبد العزیز کو بخش دیا تھا، عمر کو باپ سے میراث میں ملا،[26] لیکن اس نے اسے اولاد فاطمہ(س) کو واپس کر دیا۔[27] فدک مدینہ سے 160 کیلو میٹر کے فاصلہ پر،[28] حجاز کے علاقہ میں خیبر کے نزدیک[29] ایک زرخیز علاقہ تھا، جس میں یہودی آباد تھے، یہ علاقہ بغیر کسی جنگ کے آنحضرتؐ کے اختیار میں آ گیا تھا اور آپؐ نے اسے حضرت فاطمہ(س) کو عطا کر دیا تھا۔[30] ابوبکر نے فدک کو آپ سے واپس چھین کر حکومت کے حق مصادرہ کر لیا تھا۔[31] اسی طرح سے عمر خمس بنی ہاشم کو دیا کرتا تھا۔[32]
  • منع کتابت حدیث کا خاتمہ: اس نے ایک خط میں حاکم مدینہ ابوبکر بن حزم کو حکم دیا کہ وہ پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو مکتوب کرے۔[33] اس سے پہلے ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں منع کتابت حدیث کی سیاست شروع ہوئی اور آنحضرتؐ کی احادیث کو مکتوب کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔[34]
  • خراج و جزیہ کا خاتمہ: عمر بن عبد العزیز نے ایک خط میں حاکم کوفہ عبد الحمید بن عبد الرحمن کو عدل و احسان و آبادانی کی سفارش کرتے ہوئے اسے حکم دیا کہ وہ مسلمانوں سے خراج وصول نہ کرے۔[35] اسی طرح سے اس نے اپنے والیوں کو حکم دیا کہ وہ نئے مسلموں سے جزیہ نہ لیں۔[36]
  • خوارج سے گفتگو: عمر نے خوارج کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں قانع کیا کہ وہ خونریزی سے دست بردار ہو جائیں۔[37] اسی طرح سے اس نے شوذب خارجی کو جس نے اس کی حکومت کے خلاف قیام کیا تھا، مناظرہ کی دعوت دی۔ شوذب نے بھی خوارج میں سے دو افراد کو عمر سے مناظرہ کے لئے بھیجا۔[38]
  • ظلم سے غصب اموال کی واپسی: نقل ہوا ہے کہ عمر نے اپنے دور خلافت میں ان اموال کو واپس کرنے کا اہتمام کیا جنہیں ظلم کے ساتھ لوٹا گیا تھا۔[39]

امام باقر کا موقف

عمر بن عبد العزیز کا دور حکومت (99۔101 ھ) امام محمد باقرؑ کے دور امامت (95۔114 ھ) کے ساتھ ہے۔ منابع میں امامؑ کے عمر کے ساتھ رابطے کا ذکر ہوا ہے۔[40] بعض محققین عمر کے سلسلہ میں امامؑ کے موقف کو ناصحانہ ذکر کرتے ہیں۔[41] امام باقر عمر کی خیر خواہی میں اسے نصیحت کرتے تھے اور ظلم و ستم کے انجام سے متنبہ کرتے تھے۔ چونکہ یہ نصایح عمر کے مزاج سے مناسبت رکھتے تھے، چونکہ وہ عدل و انصاف سے کام لینا چاہتا تھا، اس لئے امامؑ اسے یہ نصیحت فرماتے تھے۔[42] روایات میں آیا ہے کہ امام محمد باقرؑ نے اسے نجیب بنی امیہ خطاب کیا ہے۔[43] حالانکہ اس کے باوجود ذکر ہوا ہے کہ اگر چہ وہ عدل و انصاف سے کام لینا چاہتا تھا لیکن مرنے کے بعد آسمان پر اس کے اوپر لعن کیا جائے گا کیونکہ وہ ایسے منصب پر بیٹھا جو ائمہ معصومین کا حق تھا اور اس خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں تھا۔[44]

وفات

عمر بن عبد العزیز کی وفات 39 برس کی عمر میں رجب سنہ 101 ہجری میں خناصرہ میں ہوئی اور اسے دیر سعمان میں دفن کیا گیا[45] دیر سمعان اس وقت شام میں حمص کے علاقہ میں واقع ہے۔[46]اس کا مقبرہ معمرۃ النعمان (شام کے مشرقی شہر) سے 6 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ایوبیوں کے دور حکومت چھٹی صدی ہجری میں اس کی قبر پر ضریح بنائی گئی ہے۔[47]

بعض کا ماننا ہے کہ بنی امیہ خاندان نے اس خوف کہ کہیں خلافت ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے اسے زہر دے دیا۔[48]

حوالہ جات

  1. ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۰۷ق، ج۹، ص۱۹۲.
  2. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۴۲۷.
  3. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۵۴.
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۵۳.
  5. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۵۳.
  6. ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ج۹، ص۱۹۳.
  7. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۳۱۴.
  8. طقوش، دولت امویان، ۱۳۸۰ش، ص۱۴۲.
  9. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۵۵؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۴۲۷.
  10. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۳۴۳.
  11. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۴۸۱.
  12. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۴۸۱-۴۸۲.
  13. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۸۴.
  14. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۸۴؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۴۳۶.
  15. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۴۹۵.
  16. ترکمنی آذر، تاریخ سیاسی شیعیان اثنا عشری در ایران، ۱۳۹۰ش، ص۵۶.
  17. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۶۰.
  18. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۵۶۶.
  19. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۵۵۰.
  20. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۵۷۸.
  21. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۶، ص۵۵۲.
  22. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۶۲.
  23. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۵.
  24. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۹۴.
  25. ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۰۷ق، ج۹، ص۱۹۳.
  26. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، مکتبة آیة الله العظمی المرعشی النجفی، ج۱۶، ص۲۱۶؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۵-۳۰۶.
  27. بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸م، ص۴۱؛ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۷، ص۲۶۴؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۵.
  28. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۲۳۸.
  29. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۲۳۸.
  30. سبحانی، فروغ ولایت، ۱۳۸۰ش، ص۲۱۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۷۸.
  31. شیخ مفید، المقنعۃ، ۱۴۱۰ق، ص۲۸۹ و ۲۹۰.
  32. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۵.
  33. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۳.
  34. ذهبی، تذکرة الحفاظ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۱-۱۲.
  35. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۵۶۹.
  36. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۳۰۱، ۲۷۵؛‌ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۵۹۹.
  37. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۱۹۰-۱۹۳.
  38. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۰۳.
  39. ابن سعد، الطبقات، ۱۴۱۰، ج۵، ص۲۶۳؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۵.
  40. برای نمونہ نگاه کریں: یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۵.
  41. نگاه کریں: دیلمی، «شخصیت و عملکرد عمربن عبدالعزیز و دیدگاه امام باقرؑ درباره او».
  42. نگاه کریں: یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۵.
  43. ذهبی، تذکرة الحفاظ، داراحیاء التراث العربی، ج۱، ص۱۱۹.
  44. راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۷۶.
  45. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۵۶۶.
  46. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۶.
  47. «ضریح الخلیفة عمر بن عبدالعزیز».
  48. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۸.

مآخذ

  • ابن ابی‌ الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابراہیم ابوالفضل، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، بی‌تا
  • ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر (تاریخ ابن خلدون)، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، ‌ دار الفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق.
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ء.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، ‌ دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۶۸ء.
  • امینی، عبد الحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، ۱۳۴۹ق.
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، بیروت، ‌ دار الفکر، ۱۴۰۱ق
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، ۱۹۸۸ء.
  • دیلمی، احمد، «شخصیت و عملکرد عمر بن عبدالعزیز و دیدگاہ امام باقر (ع) دربارہ او»، مجلہ تاریخ اسلام، ش۳۱، ۱۳۸۶ش.
  • ترکمنی آذر، پروین، تاریخ سیاسی شیعیان اثناعشری در ایران: از ورود مسلمانان بہ ایران تا تشکیل حکومت صفویہ، قم، شیعہ شناسی، ۱۳۹۰ش.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تذکرۃ الحفاظ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تذکرۃ الحفاظ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۹ق.
  • راوندی، قطب الدین سعید، الخرائج و الجرائح، قم، موسسہ امام مہدی (ع)، ۱۴۰۹ق.
  • سبحانی، جعفر، فروغ ولایت: تاریخ تحلیلی زندگانی امیر مؤمنان علی (ع)، قم، مؤسسہ امام صادق (ع)، چاپ ششم، ۱۳۸۰ش.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۰ق.
  • «ضریح الخلیفۃ عمر بن عبد العزیز»، وزارۃ السیاحہ، تاریخ بازدید ۲۰ فروردین ۱۳۹۸ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • طقوش، محمد سہیل، دولت امویان، ترجمہ حجت اللہ جودکی، قم، پژوہشکدہ حوزہ و دانشگاہ، چاپ اول، ۱۳۸۰ش.
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبيہ و الإشراف، تصحيح عبداللہ اسماعيل الصاوى، قاہرہ، دار الصاوی، بی‌تا(افست قم، مؤسسۃ نشر المنابع الثقافہ الاسلامیہ).
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعذ داغر، قم، دار الہجرہ، ۱۴۰۹ق.
  • یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دارصادر، ۱۹۹۵ء.
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.