کالے پرچم

ویکی شیعہ سے

کالے پرچم (جسے عربی میں رایات السود کہا جاتا ہے)، یہ عبارت روایت میں وارد ہوئی ہے جو زمین کے مشرق میں ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو کالے پرچم کے ساتھ قیام کرے گا۔ بہت سی روایات جو کالے پرچم سے مربوط ہیں کہ جس میں ابو مسلم خراسانی کے قیام اور حکومت عباسیان کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ انہیں روایات میں سے بعض روایت میں کالے پرچم، آخر الزمان میں منجی (نجات دینے والے) کے ظہور کی علامت ہیں۔

شیعہ محققین حدیث کے مطابق یہ روایات زیادہ تر اہل سنت کے مآخذ میں وارد ہوئی ہیں اور وہ احادیث کہ جن کے تمام راوی شیعہ تھے، انہوں نے کالے پرچم کو ابو مسلم خراسانی کے قیام کے متعلق قرار دیا ہے جو اموی حکومت کے خلاف تھا۔ البتہ اس کے مقابلہ میں بعض کا خیال یہ ہے کہ کالے پرچم امام مہدیؑ کے ظہور کی علامت ہیں۔

تعریف اور معنی

کالے پرچم کو عربی میں «رایات سود» کہتے ہیں جو روایات میں وارد ہوا ہے اور ایک ایسے گروہ کے قیام کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو کالے پرچم کے ساتھ خراسان میں قیام کرے گا۔[1] ان روایات میں خراسان سے مراد، قدیم خراسان ہے جو ایران کے زیادہ تر حصوں کے ساتھ افغانستان، ترکمنستان، تاجیکستان اور ازبکستان کو شامل ہوتا تھا۔[2]

کالے پرچم کی روایات کے مآخذ

کتاب دانشنامہ امام مہدیؑ کے مصنفین کے مطابق، کالے پرچم کی زیادہ تر روایات اہل سنت کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ شیعوں کے اصلی مآخذ میں ائمہ معصومینؑ سے کالے پرچم کے بارے میں بہت کم روایات وارد ہوئی ہیں اور اس سلسلے میں زیادہ تر روایات اہل سنت کے راویوں سے روایت ہوئی ہیں۔[3]

روایات کے مندرجات

شیعوں کی بعض احادیث میں کالے پرچم کو علامات ظہور میں شمار کیا گیا ہے۔ بطور مثال: حضرت علیؑ کی ایک حدیث کے مطابق شامیوں میں اختلاف، کالے پرچم اور ماہ مبارک رمضان میں صیحہ (آسمانی آواز) کو ظہور کی علامات کے طور پر شمار کیا ہے۔ لیکن دوسری روایات میں کالے پرچم کو، حکومت عباسی کے زوال اور ابو مسلم خراسانی کے قیام کے درمیان ایک ربط کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بطور مثال: امام باقرؑ کی ایک روایت میں حکومت بنی امیہ اور بنی عباس کی طرف اشارہ ہوا ہے اور کالے پرچم کے اصحاب کے سلسلے میں گفتگو کی گئی ہے۔[4] اسی طرح بعض روایات میں کھلے طور پر ابو مسلم خراسانی کو کالے پرچم کا مالک کہا گیا ہے۔[5]

اہل سنت کی احادیث میں جو مطالب آئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • کالے پرچم کے قیام کے بعد بنی امیہ کا زوال۔[6]
  • ان لوگوں کی مذمت جو کالے پرچم کے قیام کے بعد حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔[7]
  • کالے پرچم کے سلسلے میں اختلاف۔[8]
  • سفیانی کا ظہور۔[9]
  • شعیب بن صالح کی سپہ سالاری۔[10]
  • کالے پرچم کے بعد امام مہدیؑ کا مکہ میں ظہور۔ [11]

کیا کالے پرچم ظہور کی نشانی ہیں؟

بعض شیعہ علماء و محققین، کالے پرچم سے مراد ابو مسلم خراسانی کے قیام کو سمجھتے ہیں کہ جو حکومت بنی امیہ کے خلاف انجام دیا گیا کہ جس کی بنا پر بنی عباس کی خلافت وجود میں آئی۔[12] ان کے عقیدہ کے مطابق شیعوں کی خالص روایات (یعنی وہ روایات کہ جن کے تمام راوی شیعہ ہیں) کالے پرچم کی روایات کو ظہور کی علامت کے طور پر روایت نہیں کیا ہے۔ مآخذ شیعہ کا وہ گروہ بھی جو کالے پرچم کو ظہور کی علامت سمجھتا ہے، اس نے بھی اہل سنت کی روایات سے استناد کیا ہے۔[13] سید محمد صدر نے لکھا ہے کہ حکومت عباسی کے سلسلے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر جعلی ہیں اور عباسیوں کی تائید کے لئے ایک طریقہ یہ کالے پرچم والی روایات ہیں۔[14]

ان سب کے با وجود وہ لوگ جو کالے پرچم کو امام مہدیؑ کے ظہور کی علامت سمجھتے ہیں وہ ایک قیام کی بھی نشان دہی کرتے ہیں جو ظہور سے پہلے واقع ہوگا۔[15]

داعش اور کالے پرچم کی روایات

گروہ داعش کے بعض حمایتی، کالے پرچم سے مربوط روایات کو گروہ داعش سے تفسیر کرتے ہیں جو کالے پرچم سے استفادہ کرتے ہیں۔[16] تاریخ کے محقق رسول جعفریان نے کالے پرچم کی روایات کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بعض علمائے اہل سنت نے بھی ان احادیث کو نا درست سمجھا ہے اور اگر صحیح شمار بھی کرتے ہیں تو ان کو داعش کے اوپر منطبق کرنا صحیح نہیں سمجھتے۔[17]

حوالہ جات

  1. سلیمیان، فرہنگامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ص۱۳۶۔
  2. سلیمیان، فرہنگ نامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ص۱۳۶۔
  3. محمدی ری‌شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۶، ص۶۰و۶۱۔
  4. نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۷ش، ص۲۵۶، ح۱۳۔
  5. طبری، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۲۹۴، ح۲۴۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۵۲۸۔
  6. ابن حمّاد، الفتن، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۲۰۷، ح۵۶۶۔
  7. ابن حمّاد، الفتن، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۲۱۰، ح۵۷۳۔
  8. ابن حمّاد، الفتن، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۲۱۶، ح۵۹۵ و ص۲۸۸، ح۸۴۱۔
  9. ابن حمّاد، الفتن، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۲۸۸، ح۸۴۱ و ص۲۸۹، ح۸۴۵۔
  10. ابن حمّاد، الفتن، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۳۱۴، ح۹۰۷ و ص۳۱۶، ح۹۱۲ و ص۳۲۱، ح۹۱۴ و ص۳۴۴، ح۹۹۶۔
  11. ابن‌ حمّاد، الفتن، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۳۲۲، ح۹۲۱۔
  12. دیکھئے محمدی ری‌شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۶، ص۶۴، ۶۵؛ صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، ۱۴۱۲ھ، ص۴۵۳۔
  13. محمدی ری‌شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۶، ص۶۳۔
  14. صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، ۱۴۱۲ھ،ص ۴۵۳۔
  15. سلیمیان، فرہنگ‌نامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ص۱۳۷۔
  16. جعفریان، «موج جدید استفادہ از گفتمان مہدوی در برآمدن داعش»، وبگاہ کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران۔
  17. جعفریان، «موج جدید استفادہ از گفتمان مہدوی در برآمدن داعش»، وبگاہ کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران۔

مآخذ

  • ابن‌ حماد، نعیم، الفتن، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ھ۔
  • جعفریان، رسول، «موج جدید استفادہ از گفتمان مہدوی در برآمدن داعش»، وبگاہ کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران، نشر: ۵ مرداد ۱۳۹۳ش، بازدید: ۲ خرداد ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
  • سلیمیان، خدا مراد، فرہنگ‌نامہ مہدویت، تہران، بنیاد فرہنگی حضرت موعود، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبۃ الکبری، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۱۲ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، مؤسسہ آل‌البیت، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، تحقیق موسسہ البعثہ، تہران، ۱۴۱۳ھ۔
  • محمدی ری‌ شہری، محمد و دیگران، دانشنامہ امام مہدی بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، قم، دارالحدیث، چاپ اول، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تحقیق و تصحیح علی‌ اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، ۱۳۹۷ہجری شمسی۔