عبد اللہ ابن سبا

ویکی شیعہ سے
عبد اللہ ابن سبا
کوائف
مکمل نامعبداللہ
کنیتابن سبا
محل زندگیصنعا
دینی معلومات
اسلام لاناخلافت عثمان
وجہ شہرتمؤسس تشیع یا غالی‌ ہونے کی تہمت


عبد اللہ بن سباء، تاریخ اسلام کی پہلی صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے کی متنازعہ شخصیات میں سے ہے جس کے بارے میں تاریخی اور رجالی منابع میں متضاد حکایات نقل ہوئی ہیں۔

ابن سبا کا نام پہلی مرتبہ اہل سنت مورخ طبری نے تاریخ الامم و الملوک میں ذکر کیا ہے۔ شیعہ منابع میں سب سے پہلے رجال کشی میں ان کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ ان منابع کے مطابق وہ یہودی تھا اور حضرت عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا۔

اہل سنت مورخین اسے شیعہ مذہب کا موجد اور حضرت عثمان کے خلاف تحریک کے روح رواں قرار دیتے ہیں لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ ایک تازہ مسلمان ہونے والا شخص اسلامی معاشرے میں اتنا موثر واقع نہیں ہو سکتا کہ ان کے کہنے پر خلیفہ وقت کے خلاف قیام شروع ہو جائے۔ بعض شیعہ علماء عبد اللہ ابن سبا کو غالیوں میں سے قرار دیتے ہیں اور بعض سرے سے اس کے وجود خارجی کے منکر ہیں۔

ابن سبا کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مفصل کتاب، عربی زبان میں "عبداللہ بن سبأ و اساطیر اخری" ہے جسے شیعہ معروف عالم دین علامہ سید مرتضی عسکری نے لکھا ہے۔

شخصیت‌ شناسی

اہل سنت مورخ طبری کی نقل کے مطابق عبد اللہ ابن سبا صنعا کا رہنے والا ایک یہودی تھا جس نے حضرت عثمان کے دور میں اسلام لے آیا۔[1] طبری کا کہنا ہے کہ عبد الله ابن سبا حضرت عثمان کو خلافت کا غاصب سمجھتا تھا اور ان کے خلاف تحریک چلانے میں ان کا کردار تھا۔[2] لیکن شیعہ مورخ رسول جعفریان اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ مسلم معاشرہ اس قدر پستی میں چلا گیا ہو کہ تازہ مسلمان ہونے والے ایک یہودی کے کہنے پر خلیفہ وقت کے خلاف تحریک چلائی جائے۔[3]

عبداللہ بن سبا کے بارے میں مختلف نظریات

اسلامی منابع میں عبداللہ بن سبا کی شخصیت کے بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں۔ اہل‌ سنت منابع میں انہیں مذہب شیعہ کا مؤسس اور حضرت عصمان کے خلاف تحریک کے روح رواں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اکثر شیعہ علماء انہیں غالی سمجھتے ہیں۔ بعض معاصر شیعہ محققین سرے سے اس کے وجود کے منکر ہیں۔

اہل‌ سنت مورخ طبری اور ان کی پیروی کرنے والے بہت سارے مورخین عبداللہ بن سبا کو صدر اسلام میں پیش آنے والے اہم واقعات جیسے حضرت عثمان کا قتل وغیرہ کا اصلی محرک نیز مذہب شیعہ کا مؤسس قرار دیتے ہیں۔[4]

شیعہ علماء عبداللہ بن سبا کو غالی سمجھتے ہیں جو امام علیؑ کے حق میں مبالغہ کیا کرتا تھا یہاں کہ آپؑ کو خدا کے مقام تک لے جاتا تھا اسی وجہ سے ائمہ معصومین کی جانب سے ان پر لعنت بھیجی گئی ہے۔[5]

بعض شیعہ معاصر محققین جیسے علامہ طباطبایی، علامہ عسکری اور ڈاکٹر طاہا حسین اس بات کے معتقد ہیں کہ تاریخ میں عبداللہ بن سبا نامی کسی شخص کا وجود ہی نہیں تھا بلکہ ان کی شخصیت سیف بن عمر جیسے افراد کی جعلیات میں سے تھی۔[6]

عرب محقق علی الوردی عبد اللہ بن سبا کی شخصیت کے جعلی ہونے پر تاکید کرتے ہوئے اس بات کے مدعی ہیں اکثر خصوصیات جو تاریخ طبری وغیرہ میں اس شخص کے لئے ذکر کی گئی ہے وہ پیغمبر اسلامؐ اور امام علیؑ کے صحابی عمار بن یاسر کی خصوصیات تھیں۔ اس بنا پر یہ انہوں نے یہ نتیجہ لیا ہے کہ خود عمار یاسر ہی تھے جو سبائیوں کے روح رواں تھے اور وہی عبداللہ بن سبا ہے۔[7] بعض منابع میں عمار یاسر کا ابن‌ السَوداء کے نام سے مشہور ہونا، امام علیؑ کے ساتھ این کی والہانہ محبت، لوگوں کو امام کی بیعت کی دعوت دینا اور جنگ جمل میں ان کا فعال کردار من جملہ ان شباہتوں میں سے ہے جن کی وجہ سے ان کو عبداللہ بن سبا جانا جا سکتا ہے۔[8]

منابع کی تحقیق

جن منابع میں عبداللہ بن سبا کا نام آیا ہے ان میں تاریخ طبری اہل‌ سنت اور رجال کشّی شیعوں کے درمیان معتبر منبع کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میس پہلا منبع تاریخ طبری (224۔310 ھ) ہے۔ عبداللہ بن سبا کے واقعے کے نقل کرنے میں طبری کی سند سیف بن عمر ہے۔ دوسرے مورخین جیسے ابن‌ اثیر (متوفی 630 ھ)[9] اور ابن‌ عَساکر (متوفی 571 ھ) [10] نے بھی اس واقعے کو سیف بن عمر سے نقل کئے ہیں۔

ابن‌ سبا کے وجود کو ثابت کرنے میں طبری کا اصل راوی سیف بن عُمَر اہل سنت کے بہت سارے علماء کے نزدیک ضعیف اور غیر قابل‌ اعتماد ہے: یحیی بن معین (متوفی 233 ھ) نسایی (متوفی 303 ھ)،[11] ابو داود (متوفی 275 ھ)،[12] ابن‌ حمّاد عقیلی (متوفی 322 ھ)،[13] ابن ابی حاتم (متوفی 327 ھ)[14] اور ابن حبان (متوفی 353 ھ)[15] جیسے اہل سنت علماء نے سیف بن عمر کو روایت کرنے میں ضعیف، حدیث جعل کرنے والا اور غیر قابل اعتماد قرار دیا ہے۔

اسی طرح بعض علماء نے ابن سبا سے متعلق رجال کَشّی کی روایت کو بھی نامعتبر قرار دیتے ہیں۔ سید مرتضی عسکری اس مدعا پر دو دلیل پیش کرتے ہیں:

  1. یہ روایات کتب اربعہ میں موجود نہیں ہیں جو شیعہ علماء کی طرف سے ان روایات کو معتبر نہ جاننے کی دلیل ہے۔
  2. نجاشی، محدث نوری اور محمد تقی شوشتری جیسے علماء کَشّی اور ان کی کتابوں کو اشتباہات اور ضعیف روایات کا حامل قرار دیتے ہیں۔[16]

اس بارے میں لکھی گئی کتابیں

علامہ عسکری کی کتاب "عبداللہ بن‌ سبا‌ و اسا‌طیر اُخریٰ"

عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے سب سے اہم کتاب کہ جس میں عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں بہت کچھ تحقیق کی ہے وہ الفتنۃ الکبری تالیف طہ حسین (1889-1973 ء) اور وعاظ السلاطین تالیف علی الوردی (متولد 1913 ء)، ہیں؛ ان کے علاوہ خود ابن سبا کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ و اسا‌طیر اخری

تالیف: علامہ مرتضی عسکری (1914-2007 ء)؛ شاید آپ وہ محقق ہیں جو اس موضوع پر سب سے زیادہ تحقیق کر چکے ہیں۔ اور چند کتابوں کی شکل میں اپنی تحقیق کو پیش کیا ہے۔ کتاب عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ و اسا‌طیر اخری، عربی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل ہے، 1375 ھ کو نجف، 1381 ھ کو بعض اضافے کے ساتھ قاہرہ اور 1388 ھ کو بیروت میں چھاپ ہوئی۔ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن 1394 ھ کو بیروت میں مولف کے اصلاحات اور اضافات کے ساتھ چھپ کر منظر عام پر آگیا۔ یہ کتاب انگلش، فارسی، اردو اور ترکی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے۔

  • آراء و اصداء حول‌ عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ و روایا‌ت‌ سیف‌ فی‌ الصحف‌ السعودیۃ

کتاب عبداللہ بن سبأ کو چھپنے کے بعد مخالفت اور موافقت کا سامنا کرنا پڑا؛ بعض سعودی عرب کے ناشرین نے بھی اپنے پروفیسرز کے نظریات اس بارے میں منتشر کئے اور ان اظہارات اور علامہ عسکری کی طرف سے ان کے نظریات کے جوابات کو ایک کتاب بنام آراء و اصداء حول عبداللہ بن سبأ و روایات سیف فی الصحف السعودیۃ میں جمع کر کے 1421 ھ کو زیور طبع سے آراستہ کیا۔

  • عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ء من‌ منظور آخر

تالیف: اسد حیدر (1911–1980 ء)، انتشارات مجمع جہانی اہل بیتؑ کے ذریعہ سنہ 1426 ھ میں طبع ہوئی۔

  • عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ بین‌ الواقع‌ و الخیا‌ل‌

تالیف: ہادی خسرو شا‌ہی‌ (متولد 1938 ء) جو عربی زبان میں سنہ 1426 ھ کو مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کی طرف سے شائع ہوئی۔

  • عبداللہ بن سبا حقیقۃ ام خرافۃ

تالیف: علی آل محسن، عربی زبان میں سنہ 1429 ھ کو طبع ہوئی۔

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، ج۴، ص۳۴۰۔
  2. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، بیروت، ج۴، ص۳۴۰۔
  3. جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۹۴ش، ص۱۶۰۔
  4. ملاحظہ کریں: طبری، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، ج‌۴، ص۳۴۰؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۵۴؛ ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، دارالفکر، ج ۲۹، ص۳-۶۔
  5. ملاحظہ کریں: طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، موسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ج۱، ص۳۲۳-۳۲۴۔
  6. ملاحظہ کریں: عسکری، عبداللہ بن سبا و اساطیر اخری، ۱۴۱۷ق، ج‌۲، ۳۰۸؛ طباطبایی، «عبداللہ بن سبا»، ص۱۹۴؛ طہ حسین، الفتنۃ الکبری، قاہرہ، ج‌۲، ص۱۳۴۔
  7. الوردی، وعاظ‌السلاطین، ۱۹۹۵م، ص۱۷۴۔
  8. طباطبایی، «عبداللہ بن سبا»، ص۲۲۰-۲۲۱۔
  9. ابن‌ اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۵۴۔
  10. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، دارالفکر، ج ۲۹، ص۳-۴۔
  11. نسایی، الضعفاء والمتروکون للنسائی، ۱۳۹۶ق، ص۵۰۔
  12. ابن حجر، تہذیب التہذیب، ۱۳۲۶ق، ج ۴، ص۲۹۵۔
  13. ابن ‌حماد،الضعفاء الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۷۵۔
  14. ابن ابی ‌حاتم، الجرح والتعدیل، ۱۳۷۱ق، ج ۴، ص۲۷۸۔
  15. ابن حبان، المجروحین، ۱۳۹۶ق، ج۱، ص۳۴۵۔
  16. عسکری، عبداللہ بن سبا و اساطیر اخری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۷۷-۱۸۰۔

مآخذ

  • ابن ابی حاتم، ابو محمد عبد الرحمن بن محمد، الجرح والتعدیل، حیدر آباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، ۱۳۷۱ق ۱۹۵۲ م.
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق.
  • ابن حبان، محمد، المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروكین، محقق: محمود ابراہیم زاید، حلب، دار الوعی، ۱۳۹۶ق.
  • ابن حماد العقیلی، محمد بن عمرو، الضعفاء الكبیر، محقق عبد المعطی امین قلعجی، بیروت، دار المكتبۃ العلمیۃ، ۱۴۰۴ق، ۱۹۸۴م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، ہند، مطبعۃ دائرۃ المعارف النظامیۃ، ۱۳۲۶ق.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، محقق علی شیری، بیروت، دار الفکر، بی تا.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق.
  • الوردی، علی، وعاظ السلاطین، بیروت، دار کوفان للنشر، ۱۹۹۵م.
  • امینی، عبدالحسین، نظرۃ فی کتاب السنۃ و الشیعۃ لمحمد رشید رضا، محقق احمد کنانی، تہران، مشعر، بی تا.
  • بغدادی، عبد القاہر بن طاہر، الفرق بین الفرق وبیان الفرقۃ الناجیۃ، بیروت، دار الآفاق الجدیدۃ، ۱۹۷۷م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، محققین محمد باقر محمودی و عباس احسان و عبدالعزیز دوری و محمد حمید اللہ، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بی تا.
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات (الاستنفار و الغارات، طبع قدیم)، محقق جلال الدین محدث، تہران، انجمن آثار ملی، بی تا.
  • ذہبی، محمد بن احمد، المغنی فی الضعفاء، المحقق الدكتور نور الدین عتر، بی تا. (نسخہ مکتبۃ الشاملۃ)
  • طباطبایی،سید محمد حسین، «عبداللہ بن سبا»، مجلہ مکتب تشیع، شمارہ ۴، اردیبہشت ۱۳۳۹ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوك، محقق محمد ابوالفضل ابراہیم، لبنان، بیروت (نسخہ کتابخانہ دیجیتال نور).
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) محقق مہدی رجایی و محمد باقر بن محمد میرداماد، قم، موسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، بی تا.
  • طہ، حسین، الفتنۃ الکبری، دارالمعارف، قاہرہ، بی تا.
  • عسکری، مرتضی، عبد اللہ بن سبأ و دیگر افسانہ‌ہای تاریخی، ترجمۂ احمد فہری زنجانی و عطاء محمد سردارنیا، قم، دانشکدہ اصول دین، ۱۳۸۷ش.
  • گویارد، استانسیلاس، سازمانہای تمدن ‌‌امپراطوری‌ اسلام، ترجمۂ سید فخر الدین طباطبائی، تہران،‌ کتابخانہ ابن سینا، ۱۳۲۶‌ش.
  • نسایی، ابو عبدالرحمن، الضعفاء والمتروكون للنسائی، حلب، دار الوعی، ۱۳۹۶ق.
  • نشار، علی سامی، نشأۃ الفکر الفلسفی فی الاسلام، قاہرہ، دارالمعارف، چاپ نہم، بی تا.