امام حسن عسکری علیہ السلام

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
(امام حسن عسکری سے رجوع مکرر)
امام حسن عسکری علیہ السلام
منصبشیعوں کے گیارہویں امام
نامحسن بن علی
کنیتابو محمد
القابصامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی
تاریخ ولادت10 ربیع الثانی سنہ 232ھ
جائے ولادتمدینہ
مدت امامت6 سال (254 تا 260ھ)
شہادت8 ربیع الاول، سنہ 260ھ
مدفنسامرا، عراق
رہائشسامرا
والد ماجدامام علی نقی
والدہ ماجدہسلیل یا حدیثہ یا سوسن
ازواجنرجس خاتون
اولادامام مہدی
عمر28 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


حسن بن علی بن محمد (232۔260 ھ )، امام حسن عسکریؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ امام علی نقیؑ کے فرزند اور امام مہدیؑ کے والد ہیں۔ آپ کا مشہور لقب عسکری ہے جو حکومتِ وقت کی طرف سے آپ کو شہر سامراء جو اس وقت فوجی چھاونی کی حیثیت رکھتا تھا، میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کے دوسرے القاب میں ابن‌ الرضا، ہادی، نقی، زکی، رفیق اور صامت مشہور ہیں۔

حکومت وقت کی کڑی نگرانی کی وجہ سے اپنے پیرکاروں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے آپ نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کئے اور وکالت سسٹم کے تحت اپنے نمایندوں سے رابطے میں رہے۔ عثمان بن سعید آپ کے خاص نمائندوں میں سے تھے جو آپؑ کی شہادت کے بعد غیبت صغریٰ کی ابتدا میں امام زمانہ(عج) کے پہلے نائب خاص بھی رہے ہیں۔

امام حسن عسکریؑ 8 ربیع الاول سنہ 260 ھ کو 28 سال کی عمر میں سامرا میں شہید ہوئے اور اپنے والد امام علی نقیؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔ ان دونوں اماموں کا مدفن حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے اور عراق میں شیعہ زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہ حرم دو مرتبہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسمار ہوا۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006 ء کو جبکہ دوسرا حملہ اس کے 16 مہینے بعد یعنی 13 مئی 2007ء کو کیا گیا۔

تفسیر قرآن، اخلاق، فقہ، اعتقادات، ادعیہ اور زیارت جیسے مختلف موضوعات پر امام حسن عسکریؑ سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔

سوانح عمری

  • نسب:‌

امام حسن عسکریؑ کا نسب آٹھ واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام علی بن ابی طالبؑ سے ملتا ہے۔ آپؑ کے والد گرامی شیعہ اثنا عشریہ کے دسویں امام امام علی النقیؑ ہیں۔ شیعہ مصادر کے مطابق آپ کی والدہ کنیز تھی جنکا نام حُدیث یا «حدیثہ» تھا۔[1] کچھ اور اقوال کے مطابق آپکی مادر گرامی کا نام "سوسن"[2] اور "عسفان"[3] یا "سلیل"[4] بتایا گیا ہے اور دوسری عبارت میں"کانت من العارفات الصالحات"( یعنی وہ عارفہ اور صالحہ خواتین میں سے تھیں") کے ساتھ آپ کا تعارف کروایا گیا۔[5]

آپ کا صرف ایک بھائی جعفر تھا جو امام حسن عسکری کے بعد امامت پر دعوا کرنے کی وجہ سے جعفر کذاب کے نام سے معروف ہوا اور امام حسن عسکری کی اور کوئی اولاد ہونے سے انکار کرتے ہوئے خود کو امامت کی میراث کا اکیلا دعویدار قرار دیا۔[6]سید محمد اور حسین آپ کے دوسرے بھائی تھے۔[7]

  • القاب:

آپ کے القاب صامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی لکھے گئے۔ کچھ مورخین ںے آپکا لقب خالص بھی کہا۔ ابن الرضا کے لقب سے امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ مشہور ہوئے[8]۔ امام حسن عسکریؑ کے والد محترم امام علی نقی نے تقریباً 20 سال اور 9 مہینے سامراء میں زندگی بسر کی۔ اسی وجہ سے یہ دو امام عسکری کے نام سے مشہور ہوئے، عسکر سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا۔[9]جیسے امام حسن اور امام حسن عسکری کے مشترک نام ہونے کی وجہ سے امام حسن عسکری کو اخیر کہا جاتا ہے ۔[10]

احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکریؑ کی ظاہری صورت یوں بیان کی ہے: آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھے۔

  • کنیت:

آپؑ کی کنیت ابو محمد تھی۔ بعض کتابوں میں ابوالحسن[11]، ابو الحجہ[12]، ابوالقائم[13] مذکور ہیں۔

  • تولد:

معتبر منابع کے مطابق آپ مدینہ میں پیدا ہوئے۔[14]بعض نے آپ کی جائے پیدائش سامرا ذکر کی ہے۔ [15] کلینی اور اکثر متقدم امامی منابع آپ کی ولادت ربیع الثانی 232ھ [16] شمار کرتے ہیں۔ بلکہ اسے امام نے خود ایک روایت میں بیان کیا ہے۔[17] شیعہ و سنی بعض قدیمی مصادر میں حضرت کی ولادت 231ھ میں ہونے کا ذکر ہے۔[18] شیخ مفید نے اپنے بعض آثار میں گیارہویں امام کی ولادت کو 10 ربیع الاخر ذکر کی ہے۔[19] چھٹی صدی میں یہ قول متروک ہو گیا اور اس کی جگہ 8 ربیع الاول معروف ہو گیا[20] اور امامیہ کے ہاں یہی مشہور قول بھی ہے۔ بعض اہل سنت اور شیعہ مآخذ حضرت کی پیدائش کا سال 231 ھ نیز لکھتے ہیں۔[21]

  • شہادت:

مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ ربیع الاول سنہ260 ھ کے شروع میں معتمد عباسی کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں سرّ من رأی (سامرا) میں جام شہادت نوش کرگئے۔[22] البتہ ربیع الثانی اور جمادی الاولی میں شہید ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں۔[23] طبرسی نے اعلام الوری میں لکھا ہے کہ اکثر امامیہ علما نے کہا ہے کہ امام عسکری زہر سے مسموم ہوئے اور اس کی دلیل امام صادقؑ کی ایک روایت ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں «و الله ما منّا الا مقتول شہيد».[24] بعض تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معتمد سے پہلے کے دو خلیفے بھی امام عسکریؑ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ معتز عباسی نے حاجب کو حکم دیا کہ وہ امامؑ کو کوفہ کے راستے میں قتل کرے لیکن لوگوں کو جب پتہ چلا تو یہ سازش ناکام ہوئی۔[25] ایک اور گزارش کے مطابق مہتدی عباسی نے بھی امام کو زندان میں شہید کرنے کا سوچا لیکن انجام دینے سے پہلے اس کی حکومت ختم ہوئی۔[26] امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں اپنے والد ماجد امام علی نقی علیہ السلام دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے۔[27]

  • ازواج:‌

مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ حضرت مہدی(عج) کی مادر گرامی ہیں۔ لیکن شیخ صدوق اور شہید ثانی نے یوں نقل کیا ہے کہ امام زمان(عج) کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکریؑ کی زوجہ تھیں۔[28]

منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کے زیادہ تر خادم رومی، صقلائی اور ترک تھے[29] اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر امام مہدی(عج) کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے۔

لیکن جو بھی حکمت تھی۔ آخری صدیوں میں امام زمانہ (عج) کی والدہ کے نام کے ساتھ نرجس کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ صیقل ہے۔[30]

دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سوسن[31]، ریحانہ اور مریم[32] بھی ہیں۔

  • اولاد:‌

اکثر شیعہ اور سنی منابع کے مطابق، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ(عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں۔[33]

امام حسن عسکریؑ، حضرت امام زمانہ(عج) کے والد ہونے کے ناطے[34]، امام حسن عسکریؑ کی شخصیت کا یہ پہلو اہل تشیع کے نزدیک جانا پہچانا ہوا ہے۔ اور امامیہ (اہل تشیع) کے نزدیک مشہور ہے ہے کہ امام مہدی(عج) کی ولادت 15 شعبان سنہ 255 ھ کو ہوئی، لیکن تاریخ میں اور مختلف قول بھی موجود ہیں جن کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 254 ھ یا سنہ 256 ھ میں ہوئی ہے۔[35]

آپ کی اولاد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے تین بیٹے اور تین بیٹیوں کا کہا ہے۔ اسی قول سے ملتا جلتا قول اہل تشیع کے نزدیک بھی موجود ہے[36]؛ خصیبی نے امام مہدی(عج) کے علاوہ امام حسن عسکری ؑ کی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور دلالہ ذکر کیے ہیں[37]۔ ابن ابی الثلج نے امام مہدی کے علاوہ ایک بیٹے کا نام موسی ، اسی طرح دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور عائشہ (یا ام موسی) بتائے ہیں[38]۔ لیکن انساب کی کتابوں میں مذکورہ نام، امام حسن عسکریؑ کے بہن بھائیوں کے طور پر ملتے ہیں[39] جو شاید ان مورخوں نے آپ کی اولاد کے عنوان سے ذکر کر دیے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض اہل سنت کے علماء جیسے ابن جریر طبری، یحیٰ بن صاعد اور ابن حزم کا عقیدہ ہے کہ آپ کی کوئی اولاد تھی ہی نہیں۔[40] لیکن مذکورہ بالا روایات کو دیکھا جائے تو یہ ایک بے بنیاد دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
  • سامرا آمد:

بچپنے میں ہی امام حسن عسکری، اپنے والد گرامی امام ہادی کے ساتھ جبری طور پر عراق طلب کر لئے گئے اس زمانے میں عباسیوں کا دارالحکومت سامرا تھا یہاں آپ کو تحت نظر رکھا گیا ۔بعض کتابوں میں 236 ھ کو اور [41] اور بعض میں 233 ھ کو اس سفر کا سال قرار دیا ہے۔[42] مذکور ہے۔ امام حسن عسکری نے اپنی اکثر عمر سامرا میں گزاری اور مشہور ہے کہ صرف آپ ہی وہ امام ہیں جو حج پہ نہیں گئے، لیکن عیون اخبار الرضا اور کشف الغمہ میں راوی نے آپ سے ایک حدیث نقل کی ہے اور وہ انہوں نے مکہ میں امام سے سنی ہے،[43] مکہ کے اس سفر کے علاوہ جرجان کی طرف ایک سفر کا بھی ذکر ہوا ہے۔[44]

آپ کے دورۂ امامت میں معتز عباسی (252-255 ھ)، مہتدی (255-256 ھ) و معتمد (256-279 ھ)۔[45] عباسی خلیفہ رہے۔

امامت کی مدت اور دلائل

جس طرح کے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حسن بن علی (امام عسکری) اپنے والد (امام ہادی) کی شہادت کے سال 254 قمری کے بعد، اپنے معاصرین میں سے فضیلت اور برتری رکھنے کی وجہ اور امام ہادیؑ کی روایات کے مطابق آپؑ اہل تشیع کے گیارہویں امام ہیں۔[46] علی بن عمر نوفلی، امام ہادیؑ سے ایک روایت نقل کرتا ہے: „امام ہادیؑ کے ساتھ آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا محمد-ابو جعفر- کا گزر ہوا، میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں! آپ کے بعد ہمارا امام یہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد امام حسن ہو گا۔

بہت کم تعداد میں محمد بن علی کی امامت (جو کہ امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے) اور جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے جعفربن علی کو اپنا امام سمجھتے تھے، امام ہادیؑ کے اکثر دوستان اور یاران نے امام حسن عسکریؑ کی امامت کو قبول کیا مسعودی، شیعہ اثنا عشری کو امام حسن عسکریؑ اور آپ کے فرزند کے پیروکاروں میں سے مانتا ہے کہ یہ فرقہ تاریخ میں قطیعہ کے نام سے مشہور ہوا ہے۔[47]

امام عسکریؑ 254 تا 260 تک 6 سال کی مدت امامت کے فرائض انجام دیتے رہے پھر انکی شہادت کے بعد ان کے بیٹے امام زمانؑ امامت پر فائز ہوئے ۔ امام حسن عسکری

سیاسی حالات

امام عسکریؑ کے ہم عصر حکمران
امامتِ امام حسن عسکریؑ 254-260ھ

  امام حسن عسکریؑ کی امامت عباسی تین خلفاء کی خلافت کے دور میں تھی: معتز عباسی(252-255ھ)، مہتدی (255-256ھ) اور معتمد (256-279ھ)۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں عباسی حکومت امیروں کیلئے ایک بازیچہ بن چکی تھی خاص طور پر ترک نظامی سپہ سالاروں کا حکومتی سسٹم میں مؤثر کردار تھا ۔امام کی زندگی کی پہلی سیاسی سرگرمی اس وقت تاریخ میں ثبت ہوئی جب آپ کا سن 20 سال تھا اور آپ کے والد گرامی زندہ تھے ۔آپ نے اس وقت عبدالله بن عبدالله بن طاہر کو خط لکھا جس میں خلیفۂ وقت مستعین کو باغی اور طغیان گر کہا اور خدا سے اس کے سقوط کی تمنا کا اظہار کیا۔یہ واقعہ مستعین کی حکومت کے سقوط سے چند روز پہلے کا ہے ۔ عبد اللہ بن عبد اللہ عباسی حکومت میں صاحب نفوذ اور خلیفۂ وقت کے دشمنوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔[48]

مستعین کے قتل کے بعد اس کا دشمن معتز تخت نشین ہوا ۔حضرت امام حسن عسکری کے مقتول خلیفہ کی نسبت احتمالی اطلاعات کی بنا پر معتز نے شروع میں آپ کی اور آپ کے والد کی نسبت ظاہری طور پر کسی قسم کے خصومت آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا ۔حضرت امام علی نقی کی شہادت کے بعد شواہد اس بات کے بیان گر ہیں کہ امام حسن عسکری کی فعالیتیں محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک آپ کو آزادی حاصل تھی ۔آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں آپ کی اپنے شیعوں سے بعض ملاقاتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے بعد خلیفہ امام کی نسبت بد گمان ہو گیا اور اس نے 255ق میں امام کو زندان میں قید کر دیا لہذا امام آزار و اذیت میں گرفتار ہو گئے ۔نیز امام حسن عسکری اس کے بعد کے خلیفہ مہتدی ک دور میں بھی زندان میں ہی رہے ۔256ق میں معتمد کی خلافت کے آغاز میں اسے شیعوں کے مسلسل قیاموں کا سامنا کرنا پڑا اور امام زندان سے آزاد ہوئے ۔ایک دفعہ پھر امام کو موقع ملا کہ وہ اپنے شیعوں کو مرتب و منظم کرنے کیلئے معاشرتی اور مالی پروگراموں کا اہتمام کر سکیں۔امام کی یہی فعالیتیں وہ بھی عباسی دار الحکومت میں ایک دفعہ پھر ان کیلئے پریشانی کا موجب بن گئیں۔ پس 260 ق میں معتمد کے دستور پر امام حسن عسکری کو دوبارہ زندانی کیا گیا اور خلیفہ روزانہ امام سے مربوط اخبار کی چھان بین کرتا ۔[49] ایک مہینے کے بعد امام زندان سے آزاد ہوئے لیکن مامون کے وزیر حسن بن سہل کے گھر میں نظر بند کر دئے گئے جو واسط نامی شہر کے قریب تھا ۔[50]

قیام اور شورشیں

امام حسن عسکریؑ کے زمانے میں شیعوں کی جانب سے عباسیوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور کچھ سوئے استفادہ کی بنیاد پر علویوں کے نام سے شورشیں برپا ہوئیں۔

  • علی بن زید اور عیسی بن جعفر کا قیام

یہ دونوں علوی امام حسن مجتبیؑ کے ممتاز صحابہ میں سے تھے ۔انہوں نے سال 255 ہجری کو کوفہ میں قیام کیا۔ معتز عباسی نے سعید بن صالح کی سرکردگی میں فوج بھیج کر اس قیام کو شکست دی ۔[51]

  • علی بن زید بن حسین

یہ امام حسینؑ کی اولاد میں سے تھا ۔انہوں نے مهتدی عباسی کے زمانے میں کوفہ میں قیام کیا۔ شاه بن میکال ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کے مقابلے میں آیا لیکن شکست سے دو چار ہوا ۔ معتمد عباسی جب تخت نشین ہوا تو اس نے کیجور ترکی کو اس کے مقابلے کیلئے بھیجا ۔ علی بن زید نے پسپائی اختیار کی اور فرار ہو گیا بالآخر سنہ257 ہجری میں قتل ہوا [52]

  • احمد بن محمد بن عبدالله

اس نے معتمد عباسی کے زمانے میں مصر کے برقہ اور اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔ بہت بڑی تعداد اپنے پیروکاروں کی پیدا کر لی اور خلافت کا ادعا کیا ۔ترک خلیفہ نے کارگزار احمد بن طولون کو اسکے مقابلے کیلئے بھیجا تا کہ اس کے اطرافیوں کو اس سے جدا اور منتشر کرے۔احمد بن محمد بن عبد اللہ نے مقاومت کی اور انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔[53]

  • صاحب زنج کی شورش

علی بن محمد عبدالقیسی نے سال 255ق میں معتمد عباسی کے دور میں قیام کیا۔ اس نے اپنے آپ کو علویوں سے منسوب کیا جبکہ وہ نسب کے لحاظ سے علوی نہیں تھا کیونکہ اکثر نسب شناسانعبداقیس کی شاخ میں قرار دیتے ہیں۔۔[54] نیز وہ کردار کے لحاظ سے بھی علویوں کے نزدیک نہیں تھا [55] وہ عقیدے کے لحاظ سے خوارج کا ہم عقیدہ تھا۔[56] امام حسن عسکری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا صاحب زنج اہل بیت سے نہیں ہے ۔[57] اس نے غلاموں کی آزادی کے نعرے کے ساتھ بصره کے مدینۃ الفتح اور کرخ کے درمیان بئر نخل نامی محلے سے قیام کا آغاز کیا ۔طولانی مدت تک اس نے عباسیوں کے سامنے مقاومت کی جو 15 سال تک جاری رہی ۔نہایت کار سال 270ھ میں قتل ہو گیا۔[58]

شیعوں سے رابطہ

امام حسن عسکری کے دور میں معاشرے میں اکثریتی مذہب اہل سنت تھا اور اسی طرح عباسیوں کی جانب سے شیعہ سخت حالات میں ہونے کی وجہ سے تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ان حالات میں امام حسن عسکری نے شیعوں کے امور چلانے کیلئے اور وجوہات شرعی کی جمع آوری کیلئے مختلف علاقوں میں اپنے وکیلوں کو روانہ کرتے تھے۔[59]

امام سے ملاقات

جاسوسی کے پیش نظر شیعوں کیلئے ہر وقت امام سے ملاقات کرنا نہایت مشکل تھا یہاں تک کہ خلیفۂ عباسی کئی مرتبہ بصرہ گیا تو جاتے ہوئے امام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا ۔اس دوران امام کے اصحاب آپ کی زیارت کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے ۔[60]اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعوں کیلئے مستقیم طور پر امام سے ملنا کس قدر دشوار تھا۔ اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امامؑ کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی۔[61] ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امامؑ کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے۔[62] اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعوں کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے مخفیانہ طریقے بھی تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔[63]

امام کے نمائندے

حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امامؑ نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم عقید تھا جس کو بچپن سے ہی آپ نے پالا تھا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا[64]۔ اسی طرح آپکے خادم جس کی کنیت ابو الادیان تھی اس کے ذمےبعض خطوط پہنچانا تھا[65]۔ لیکن جو امامیہ منابع میں باب کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ عثمان بن سعید ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد اور غیبت صغریٰ کے شروع کے دور میں پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا۔[66]

مراسلہ نگاری

امام کا اپنے شیعوں سے رابطہ خطوط کے ذریعے بھی تھا ۔نمونے کے طور پر علی بن حسین بن بابویہ[67] اور قم کے لوگوں کے خط کو ذکر کیا سکتا ہے [68] شیعہ اپنے مسائل اور مختلف موضوعات کے متعلق سوالات خط کی صورت میں لکھتے اور امام انہیں تحریری صورت میں جواب دیتے تھے ۔

معارف دینی کی وضاحت

شیعہ تعلیمات

آخری آئمہ کے زمانے میں امامت سے مربوط ابہامات اور پیچیدگوں کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری ؑکے اقوال اور خطوط میں اس کے متعلق ارشادات کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسے زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی ۔[69] اگر امامت کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور اس کا تسلسل ٹوٹ جائے تو خدا کے امور میں خلل واقع ہو جائے گا ۔[70] زمین پر خدا کی حجت ایسی نعمت ہے جو خدا نے مؤمنوں کو عطا کی ہے اور اس کے ذریعے ان کی ہدایت کرتا ہے ۔[71]

اس زمانے کی ایک اور دینی تعلیم کہ جس کی وجہ سے شیعہ تحت فشار رہے وہ مومنین کو آپس میں صبر کی تلقین انتظار فرج کا پیغام ہے جو امام کے ارشادات میں زیادہ بیان ہوا ہے ۔[72]اسی طرح آپ کی احادیث میں شیعوں کے درمیان باہمی منظم ارتباط اور باہمی بھائی چارے کی فضا کے قیام کے بارے میں بیشتر تاکید ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔[73]

تفسیر قرآن

امام حسن عسکری ؑ کے مورد توجہ قرار پانے والی چیزوں میں سے ایک تفسیر قرآن کا عنوان ہے ۔تفسیر قرآن کا ایک مکمل اور تفصیلی متن امام حسن عسکری(تفسیر امام حسن عسکری) سے منسوب ہے کہ جو امامیہ کے قدیمی آثار میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ امام کی طرف اس کتاب کی نسبت درست نہ ہونے کی صورت میں بھی اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ تفسیری ابحاث کی نسبت امام حسن عسکریؑ کی شہرت نے اس کتاب کے امام کی طرف منسوب ہونے کے مقدمات فراہم کئے ہیں ۔

کلام اور عقائد

ایسے حالات میں امامیہ کی رہبری اور امامت حضرت امام حسن عسکری ؑ کے ہاتھ آئی جب امامیہ کی صفوں میں بعض ایسی اعتقادی مشکلات موجود تھیں جن میں سے کچھ تو چند دہائیاں پہلے اور کچھ آپ کے زمانے میں پیدا ہوئیں۔ان اعتقادی مسائل میں سے خدا کی جسمیت کی نفی ایک مسئلہ تھا کہ جو کافی سال پہلے پیدا ہوا تھا اور ممتاز ترین اصحاب ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کے درمیان اس کی وجہ سے اختلافات پائے جاتے تھے ۔امام حسن عسکری کے زمانے میں اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کی کہ سہل بن زیاد آدمی نے امام کو خط لکھ کر آپ سے راہنمائی حاصل کرنے کی درخواست کی۔

امام نے اسے جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پر اللہ کی ذات کے متعلق بحث کرنے سے پرہیز کرنے کا کہا پھر قرآنی آیات سے اس مسئلہ کی جانب ہوں اشارہ فرمایا کہ قرآن میں اس طرح آیا ہے :

اللہ واحد و یکتا ہے، وہ نہ تو کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ اسکا کوئی نظیر و ہمتا نہیں ہے ۔وہ پیدا کرنے والا ہے پیدا ہونے والا نہیں ہے ۔ جسم اور غیر جسم سے جسے چاہے خلق کرسکتا ہے ۔وہ خود جسم و جسمانیت سے مبرا ہے۔۔۔۔کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے وہ بصیر اور سمیع ہے ۔ [74]

فقہ

علم حدیث میں آپ کو فقیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔[75] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان اس لقب سے خصوصی طور پر پہچانے جاتے تھے ۔اسی بنیاد پر فقہ کے بعض ابواب میں آپ سے احادیث منقول ہیں۔ البتہ امامیہ مذہب کی فقہ کا بیشترین حصہ حضرت امام جعفر صادق ؑ سے ترتیب شدہ ہے اور اس کے بعد فقہ نے اپنے تکمیلی مراحل طے کئے ہیں لہذا امام حسن عسکری کی زیادہ تر احادیث ان فروعی مسائل کے بارے میں ہیں جو اس دور میں نئے پیدا ہوئے تھے یا ان مسائل کے بارے میں ہیں جو انکے زمانے میں چیلنج کے طور پر پیش ہوئے ۔مثال کے طور پر رمضان کے آغاز کا مسئلہ اور خمس کی بحث ۔[76]

حرم

تفصیلی مضمون: حرم عسکریین
امام عسکری کی شہادت کے بعد آپؑ کو آپ کے والد گرامی امام علی النقیؑ کے جوار میں دفن کیا گیا۔[77] بعد میں اس جگہ ایک بارگاہ بنی جو حرم امامین عسکریین سے مشہور ہے۔ امامین عسکرینؑ کا حرم دو بار وہابی دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن چکا ہے۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006ء کو[78] دوسرا حملہ سولہ ماہ بعد یعنی 13 جون 2007ء کو ہوا۔[79] تخریب حرم عسکریین اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 2008ء کو حرم کی تعمیر نو شروع ہوگئی۔[80]اور 2015ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔[81]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. کلینی، کافی، 1391ق، ج1، ص503؛ شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج2، ص313
  2. ابن طلحہ، مطالب السؤول، نجف، 1371ق، ج2، ص78؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، نجف، 1383ق، ص362؛ البتہ بعض مآخذ میں یہ نام امام علی نقی ؑ کی والدہ کا مذکور ہوا ہے(نوبختی، فرق الشیعہ، ص93) اور بعض نے یہ نام امام زمانہ کی والدہ کا ذکر کیا ہے (ابن ابی الثلج، «تاریخ الائمہ» مجموعہ نفیسہ، قم، 1396ق، ص26)
  3. نوبختی، فرق الشیعہ، نجف 1355ق، ص96؛ کہا گیا ہے کہ اس کنیز کا نام عسفان تھا بعد میں امام ہادی نے اس کا نام تبدیل کر کے حدیث رکھا۔
  4. مسعودی، اثبات الوصیہ، بیروت 1409ق، ص258
  5. حسین بن عبدالوہاب، عیون المعجزات، نجف 1369ق، ص123
  6. طبسی، حیاه الامام العسکری، ص320-324
  7. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311-312.
  8. ابن شہر آشوب، مناقب، ج4، ص421۔
  9. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج2، ص94۔
  10. ابن شہر آشوب، ج3، ص526، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص618۔
  11. دلائل الإمامہ، طبری،ص:424
  12. موسوعہ الإمام العسکریؑ، خز علی،ج1،ص:32
  13. موسوعہ الإمام العسکریؑ، خزعلی،ج1،ص:32
  14. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص258، 266؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص313
  15. ابن حاتم، الدر النظیم، ص737
  16. رجوع کریں: نوبختی، فرق الشیعہ، 1355ق، ص95؛ سعد، ص101؛ کلینی، کافی، 1391ق، ج1، ص503؛ شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج2، ص313
  17. ابن رستم طبری، دلائل الامامہ، 1413ق، ص423
  18. مرجعہ کریں: ابن ابی الثلج، «تاریخ الائمہ» مجموعہ نفیسہ، 1396ق، ص14؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1409ق، ص258
  19. مفید، مسار الشیعہ، ص52؛ ابن طاووس، الاقبال، ج3، ص149؛ طوسی، مصباح المجتهد، 1339ق، ص792
  20. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج3، ص523؛ کلینی، ج1، ص503
  21. مراجعہ کریں: ابن ابی الثلج، ص14؛ ابن خشاب، 199؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ص258
  22. کلینی، کافی، ج1، 1391ق، ص503؛ شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج2، ص314.
  23. مراجعہ کریں: مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان، 1391، ص530-533
  24. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص131.
  25. شیخ طوسی، الغیبہ، 1398ق، ص208؛ عطاردی، مسند الإمام العسكریؑ، 1413ق، ص92.
  26. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1409ق، ص268؛ کلینی، کافی، 1391ق، ج1، ص329.
  27. شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج2، ص313.
  28. شیخ صدوق؛ کمال الدین، ج2، ص418؛ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص28۔
  29. مسعودی، إثبات الوصیہ، ص266، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص 618۔
  30. رک: شیخ صدوق، کمال الدین، ص307 و۔۔۔؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ص248؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، 213، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»،ص 618۔
  31. مثلاً ابن ابی الثلج، مجموعہ نفیسہ، ص26؛ ابن خشاب، تاریخ موالید، ص201؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج13، ص121، بہ نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص618۔
  32. رک: طریحی، جامع المقال، ص160، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص 618۔
  33. ابن شہر آشوب، مناقب، ج3، ص523؛ ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، ص113؛ طبرسی، تاج الموالید، ص59؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج7، ص274؛ ابن صباغ، الفصول المہمہ، ص278؛ شبلنجی، نور الابصار، ص183،نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص618۔
  34. ابن طلحہ، مطالب السؤول، ج2، ص78۔
  35. رک: طریحی، جامع المقال، ص190؛ ابو المعالی، بیان الادیان، ص75، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص 618۔
  36. زرندی، معارج الوصول الی معرفہ فضل آل الرسول (ص)، ص 176، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، صص 618619۔
  37. خصیبی، الہدایہ الکبری، ص328۔
  38. ابن ابی الثلج، مجموعہ نفیسہ، ص 21-22؛ رک: فخر الدین رازی، الشجرة المبارکہ، ص79، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص619۔
  39. مراجعہ کریں: فخرالدین رازی، الشجرة المبارکہ، ص78، پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص 619 سے منقول۔
  40. مراجعہ کریں: ابن حزم، جمہره انساب العرب، ص61؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج13، ص122، پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص619 سے منقول۔
  41. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص259
  42. نوبختی، فرق الشیعہ، ص92
  43. شيخ صدوق، عيون أخبار الرضاؑ، 1378ق، ج2، ص135؛ اربلی، کشف الغمہ، 1405 ق، ج3، ص198
  44. قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، ج 1، ص 425 – 426؛ اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، 1381ق، ج2، ص427 – 428؛ ابن حمزه طوسی، الثاقب فی المناقب، 1419ق، ص 215
  45. طبری، دلائل الامامہ، ج1، ص223۔
  46. شیخ مفید، الارشاد، ص495۔
  47. مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص112۔
  48. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص263
  49. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص268
  50. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص269
  51. مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص94
  52. ابن اثیر، الکامل، ج7، ص239-240
  53. مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص108
  54. تاریخ طبری، ج9، ص410
  55. تفصیل کیلئے دیکھیں : مروج الذہب، ج4، ص108
  56. مروج الذہب، ج4، ص108
  57. مناقب ابن شہرآشوب، ج4، ص428
  58. مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص108
  59. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص270؛ رجال کشی، ص560
  60. شیخ مفید، الارشاد، ص387۔
  61. اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، ج2، ص 413۔
  62. راوندی، الخرائج و الجرائح، ج 1، ص 439۔
  63. ابن شہر آشوب، مناقب، ج4، ص425؛ شیخ طوسی، الغیبہ، ص 214۔
  64. شیخ طوسی، الغیبہ، ص272،بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص626۔
  65. شیخ صدوق، کمال الدین، ص475، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص626۔
  66. پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص626۔
  67. روضات الجنان، ج4، ص273 و 274
  68. ابن شہرآشوب، المناقب، ج4، ص425(بیروت)
  69. نمونے کے طور پر دیکھیں: مسعودی، اثبات الوصیہ، ص271
  70. ابن بابویہ، کمال الدین، ص43
  71. رجال کشی، ص541
  72. مناقب ابن شہرآشوب، ج3، ص527
  73. مثلا مناقب ابن شہرآشوب، ج3، ص526
  74. کلینی، کافی، ج1، ص103
  75. طریحی، جامع المقال، ص185
  76. دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج20، ص630
  77. شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج2، ص313.
  78. خامه یار، تخریب زیارتگاه‎های اسلامی در کشورهای عربی، ص29 و 30
  79. خامه یار، تخریب زیارتگاههای اسلامی در کشورهای عربی، ص30.
  80. خبرگزاری ابنا: آخرین وضعیت ساخت ضریح حرمین عسکریینؑ
  81. خبرگزاری ایلنا؛ عملیات بازسازی گنبد حرم امامین عسکریین پایان یافت

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکریم، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌دار صادر، 1385ق۔ و بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
  • ابن حزم، جمہرة انساب العرب، بیروت‌:‌ دار الکتب‌ العلمیہ، 1403ق‌۔
  • ابن خلکان، شمس الدین احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، بہ تحقیق احسان عباس، بیروت، دارالثقافہ، [بی تا]۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب، قم، کتاب فروشی مصطفوی و بیروت، دار الاضواء، 1412ق۔
  • ابن طلحہ، محمد، مطالب السؤول، نجف، 1371ق/1951م۔
  • ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، بیروت،‌ دار بیروت للطباعہ و النشر، 1377ق۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، بہ تحقیق سید ہاشم رسولی، تبریز، 1381۔
  • امین، سید محسن، سیره معصومان (ترجمہ اعیان الشیعہ)، مترجم علی حجتی کرمانی، سروش، تہران، 1376ش، چاپ دوم۔
  • پاکتچی، احمد، «حسن عسکریؑ، امام»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج20، تہران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1391ش۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، قم، دفتر نشر معارف، 1391ش۔
  • حرانی، ابن شعبہ، تحف العقول عن آل الرسول (ص)، بہ تصحیح و تعلیق علی‌ اکبر غفاری، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1404ق/1363ش۔
  • حسین بن عبدالوهاب، عیون المعجزات، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1369ق۔
  • خزعلی، الامام العسکری علیہ السلام، مؤسسہ ولی العصر عجّل الله تعالی فرجہ الشریف، قم، 1426 ق،چاپ اوّل۔
  • خصیبی، حسین، الہدایۃ الکبری، بیروت: 1411ق/1991م۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنان فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، 1390ق۔
  • سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، بہ تحقیق حسین تقی زاده، چ1، [بی جا]، المجمع العالمی لاہل البیت (علیہم السلام)، 1426ق۔
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1359ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، تہران، مکتبہ نینوی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال، مشہد، دانشگاه مشہد، 1348ش۔
  • شیخ مفید، الارشاد، چ3، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1399ق۔
  • شیخ مفید، مسار الشیعہ، بہ تحقیق مہدی نجف، چ1، بیروت،‌دار المفید، 1414ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، بہ تحقیق علی اکبر غفاری، بیروت، دارالمعرفہ، 1399ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بہ تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، 1387 ق۔ و بیروت، دار سویدان، (بی تا)۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، بعثت، 1413ق۔
  • طبسی، محمد جواد، حیاه الامام العسکریؑ، سوم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1382ش۔
  • طریحی، فخرالدین، جامع المقال فیما یتعلق باحوال الحدیث و الرجال، بہ کوشش محمدکاظم طریحی، تہران، 1355ش۔
  • علامہ مجلسی، بحار الأنوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمہ الأطہار، تہران، اسلامیہ، 1363ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکنب الاسلامیہ، 1388ق۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، چ2، قم، دارالہجره، 1363ق۔ و مصر(بی نا)، 1364ق۔
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیہ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، 1426ق۔
  • نجاشی، ابو العباس، رجال نجاشی، بہ تصحیح آیت الله شبیری زنجانی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1416ق۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، تصحیح سید محمد صادق آل بحر العلوم، نجف، المکتبہ المرتضویہ، 1355ق۔
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
بارہ امام
امام علی علیہ السلام امام سجّاد علیہ‌السلام امام موسی کاظم علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام
امام حسن مجتبی علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام


معصوم دوازدہم:
امام علی نقی علیہ السلام
14 معصومین
امام حسن عسکری علیہ السلام
معصوم چہاردہم:
امام مہدی علیہ السلام