سید حسنی کا قیام

ویکی شیعہ سے

سید حسنی کا قیام، امام مہدیؑ کے ظہور کی نشانیوں میں سے ہے۔ روایات کے مطابق سید حسنی ایک جوان ہیں جو دیلم میں قیام کریں گے اور فریاد بلند کریں گے کہ امام مہدیؑ کی دعوت قبول کریں اور طالقان کے لوگ ان کی مدد کریں گے۔ سید حسنی کا قیام امام مہدی (عج) کے ظہور سے ملحق ہوگا۔ وہ کوفہ یا اس سے قریب امام مہدی کی بیعت کریں گے۔

دوسری روایت کی بنیاد پر وہ مکہ میں قیام کریں گے اور وہاں کے کچھ افراد کے ذریعہ قتل کر دئے جائیں گے۔ بعض افراد نے اسی روایت کو سند بناتے ہوئے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ سید حسنی وہی نفس زکیہ ہیں کہ جن کا مکہ میں قتل ظہور کی حتمی علامات میں سے ہے۔ بعض اس روایت کے معتبر ہونے کی تردید کرتے ہیں ۔

ظہور کی نشانی

بعض روایات میں سید حسنی نامی شخص کے قیام کو علامات ظہور میں بیان کیا گیا ہے۔ [1] جیسے خطبہ البیان (جس میں ایک باب ظہور کی علامات کے بارے میں ہے) میں سید حسنی، ان کے قیام او امام سے ملاقات کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔[2] شیعہ محقق نجم الدین طبسی کے مطابق سات یا آٹھ احادیث میں سید حسنی کے قیام سے متعلق بحث ہوئی ہے [3] جن سے مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے احادیث میں ظہور کی جن نشانیوں کا ذکر ملتا ہے ان میں سے ایک سید حسنی کا قیام ہے۔[4] ان کے مطابق یہ روایات سند کے لحاظ سے مستفیض ہیں اس بنا پر ان میں سے بعض احادیث معصوم سے نقل ہونے پر یقین اور اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اگرچہ تفصیلات میں یہ احادیث ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔[5]

احقاق الحق نامی کتاب میں قاضی نور اللہ شوشتری سے منقول ایک حدیث کی بنا پر سید حسنی امام حسن مجتبیؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ [6] اور امام مہدیؑ کے ظہور کے وقت قیام کریں گے اور اپنے لشکر کے ہمراہ امام کی بیعت کریں گے۔[7]

قیام کی کیفیت

نجم الدین طبسی کے مطابق سید حسنی کے قیام کی تفصیلات کے بارے میں احادیث ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ [8] بعض کی بنیاد پر ان کا قیام دیلم سے شروع ہوگا اور کوفہ یا اس قرب و جوار میں وہ امام مہدیؑ کی بیعت کریں گے۔[9] اور بعض دوسری (روایات) کے مطابق وہ مکہ میں قیام کریں گے اور وہیں پر انہیں قتل کر دئے جائیں گے۔[10]

امام صادقؑ سے منسوب ایک حدیث کے مطابق سید حسنی ایک خوبصورت جوان ہوگا جو دیلم سے قیام کریں گے اور فریاد بلند کریں گے: اے آل احمد اس شخص کی دعوت کو قبول کرو جس کی غیبت سے متعلق تم نالاں تھے۔ طالقان سے فولادی ایمان کے حامل ہوں اشخاص اٹھ کھڑے ہونگے اور ظالموں کا قلع قمع کرتے ہوئے کوفہ میں داخل ہوں گے۔ اس دوران دنیا کے مختلف جگہوں کو بے دینوں کے وجود سے پاک کریں گے وہ کوفہ کو اپنا مرکز قرار دینگے۔ جب امام مہدی (عج) کے ظہور کی خبر سید حسنی اور ان کے لشکر تک پہنچے گی تو وہ ان سے نشانیوں کا تقاضا کریں گے اور جب وہ امام مہدی (عج) کی کرامات دیکھیں گے تو وہ اور ان کا لشکر امام کی بیعت کریں گے۔ سوائے ان 40 ہزار افراد کے جن کے پاس قرآن ہو گا اور وہ زیدیہ کے نام سے مشہور ہوں گے جو بیعت کرنے سے انکار کریں گے۔[11]

ایک اور روایت کے مطابق سید حسنی امام مہدیؑ کے ظہور کے وقت مکہ میں قیام کریں گے اور وہاں کے رہنے والوں کے ہاتھوں قتل ہوں گے اور ان کا سر شام میں بھیجا جائے گا البتہ اس روایت میں سید حسنی کے قیام کو فرج کی نشانی کے طور پر پیش کیا گیا ہے نہ کہ امام مہدیؑ کے ظہور کی۔ اسی طرح اس حدیث میں بنی عباس کے درمیان اختلاف وجود میں آنے جس کی وجہ سے ان کی حکومت کے سست ہونے کا بھی ذکر آیا ہے۔ اس حدیث کی سند نیز مضامین کے صحیح ہونے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔[12]

سید حسنی اور نفس زکیہ میں خلط

ملا صالح مازندرانی اصول کافی میں موجود ظہور کی علامات سے متعلق احادیث کی شرح میں یہ امکان ظاہر کرتے ہیں کہ سید حسنی ہی نفس زکیہ ہیں۔ [13] اس بات کی دلیل وہ حدیث ہے جس کے مطابق سید حسنی مکہ میں قیام کریںگے اور اہل مکہ کے ہاتھوں ان کا قتل ہوگا اور ان کا سر سفیانی کو بھیجا جائے گا۔ [14] نفس زکیہ امام حسینؑ کی نسل سے ہیں [15] جو مسجد الحرام میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان قتل ہوں گے [16] اور ان کا قتل امام مہدیؑ کے ظہور کی یقینی علامتوں میں سے سمجھا جاتا ہے۔ [17]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. رجوع کیجئے: بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص16؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص225، ح285؛ نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص270۔
  2. طبسی، «سید حسنی در خطبہ البیان از سند تا متن» ص52۔
  3. طبسی، «نگرشی در روایات حسنی»، ص26۔
  4. طبسی، «نگرشی در روایات حسنی»، ص47۔
  5. طبسی، «نگرشی در روایات حسنی»، ص47۔
  6. شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج‏29، ص448۔
  7. شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج‏29، ص448۔
  8. طبسی، «نگرشی در روایات حسنی»، ص47۔
  9. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص15-16۔
  10. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص225، ح285؛ نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص270۔
  11. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص16؛ یزدی حائری، الزام الناصب، 1422ھ، ج‏2، ص218۔
  12. رجوع کیجئے: محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی، 1393شمسی، ج7، ص439-441۔
  13. مازندرانی، شرح الکافی، 1380ھ، ج‏12، ص414۔
  14. رجوع کیجئے: فرہنگ نامہ مہدویت، 1388شمسی، ص208۔
  15. رجوع کیجئے: بحار الانوار، 1403ھ، ج52، ص223۔
  16. صدوق، کمال‌ الدین، 1395ھ، ج1، ص331۔
  17. صدوق، کمال‌ الدین، 1395ھ، ج2، ص650، ح7۔

مآخذ

  • سلیمیان، خدامراد، فرہنگنامہ مہدویت، قم، بنیاد فرہنگی حضرت مہدی موعود، چاپ دوم، 1388ہجری شمسی۔
  • شوشتری، قاضی نور اللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، مقدمہ شہاب‌الدین مرعشی، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیۃ‌الله العظمی مرعشی نجفی، 1409ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • طبسی، نجم‌ الدین، «نگرشی در روایات سید حسنی»، انتظار موعود، ش31، زمستان 1388ہجری شمسی۔
  • طبسی، نجم‌ الدین، «سید حسنی در خطبہ البیان»، انتظار موعود، ش 32، بہار و تابستان 1389ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌ اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مازندرانی، ملا محمد صالح بن احمد، شرح الکافی -الاصول و الروضہ، تصحیح ابوالحسن شعرانی، تہران، المکتبۃ الاسلامیہ، 1382ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • محمدی ری‌ شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج)، قم، دار الحدیث، 1393ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمد بن ابراهیم، الغیبہ، تصحیح علی‌ اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، 1397ھ۔
  • یزدی حائری، علی، الزام الناصب فی اثبات الحجۃ الغائب، تصحیح علی عاشور، بیروت، مؤسسه الاعلمی، 1422ھ۔