قاسم بن حسن
قاسم بن حسنؑ (شہادت: سنہ 61 ھ)، امام حسن مجتبی علیہ السلام کے فرزند ہیں جو کربلا میں شہید ہوئے۔ آپ نے شب عاشور امام حسین علیہ السلام کے موت سے متعلق سوال کے جواب میں موت کو شہد سے میٹھا قرار دیا۔ مجالس عزا میں میدان کربلا میں امام حسین (ع) کی بیٹی سے آپ کی شادی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ محققین اس موضوع کے متعلق شک کا اظہار کرتے ہیں اور بعض اسے صحیح نہیں مانتے ہیں۔ پاکستان و ھندوستان میں عام طور پر سات محرم اور ایران میں عام طور پر چھ محرم قاسم بن حسن کی شہادت کا ذکر ہوتا ہے۔
نام | قاسم بن حسنؑ |
---|---|
وجہ شہرت | شہدائے کربلا میں شامل |
جائے پیدائش | مدینہ |
شہادت | 10 محرم سنہ 61 ہجری |
وجہ شہادت | واقعہ عاشورا |
مدفن | کربلا، حرم امام حسینؑ |
سکونت | مدینہ |
والد | امام حسن مجتبی علیہ السلام |
مشہور اقارب | امام حسنؑ |
مشہور امام زادے | |
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ |
تعارف
آپ کی تاریخ ولادت کتب میں مذکور نہیں ہے۔ مقتل خوارزمی میں نقل ہوا ہے کہ آپ سن بلوغ تک نہیں پہنچے تھے۔[1] لباب الانساب میں بیہقی نے شہادت کے وقت آپ کی عمر 16 سال ذکر کی ہے۔[2]
شیخ مفید نے مادر قاسم بن حسن، عبداللہ بن حسن و عمرو بن حسن کو کنیز ذکر کیا ہے۔[3] مقاتل الطالبین کے مطابق قاسم بن حسن اور ابوبکر بن حسن کی والدہ ایک ہی ہیں۔[4]
واقعہ کربلا میں موجودگی
شب عاشور سنہ 61 ھ، جس وقت امام حسین (ع) نے اپنے اصحاب کو یہ خبر دی کہ کل سب شہید ہو جائیں گے تو قاسم بن حسن نے امام (ع) سے سوال کیا کہ کیا مجھے بھی شہادت نصیب ہوگی؟ امام حسین (ع) نے قاسم سے پوچھا: موت تمہارے نزدیک کیسی ہے؟ قاسم نے جواب دیا: موت میرے لئے شہد سے زیادہ شیریں ہیں۔[5]
روز عاشورا قاسم امام حسین (ع) کی خدمت میں آئے اور دشمنوں سے جنگ کی اجازت طلب کی۔ امام (ع) نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا اور کچھ دیر گریہ کیا۔ قاسم اصرار کرتے رہے اور امام کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے رہے یہاں تک کہ امام نے انہیں اجازت دے دی۔ قاسم اس حالت میں کہ ان کی آنکھوں سے اشک جاری تھے، میدان کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح رجز پڑھتے ہیں:
|
۔[6]
اگر مجھے نہیں پہچانتے تو میں حسن مجتبی (ع) کا فرزند ہوں، جو نواسہ رسول مصطفی و امین (ص) ہیں۔
یہ حسین (ع) اغوا شدہ کی طرح اسیر ہیں، ایسے لوگوں کے درمیان کہ خدا انہیں آب باران سے سیراب نہ کرے۔
شہادت
ابو الفرج اصفہانی نے قاسم بن حسن کے قاتل کا نام عمرو بن سعید نفیل ازدی نقل کیا ہے۔[7] ابو مخنف کی روایت کے مطابق جو انہوں نے حمید بن مسلم سے نقل کی ہے: حمید ابن مسلم ازدی (مؤرخ کربلا) کا بیان ہے کہ میں نے ایک ایسے نوجوان کو میدان کارزار کی طرف آتے دیکھا جس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی مانند چمک رہا تھا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، اس نے ایک بلند پیراہن پہنا ہوا تھا، وہ میدان میں داخل ہوا اور اپنے نعلین کا تسمہ باندھنے کے لئے رک گیا۔ اسے بہت سے لوگوں نے گھیرا ہوا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔ اسی وقت عمر بن سعید بن نفیل ازدی نے حمید سے کہا: میں اس پر سخت حملہ کروں گا۔ حمید کہتا ہے: میں اس سے کہا جو لوگ اسے گھیرے ہوئے ہیں وہ اس کے لئے کافی ہیں۔ حمید کہتا ہے کہ خدا کی قسم اگر وہ میرے اوپر حملہ کرے تو میں اس کی طرف ہاتھ نہیں اٹھاوں گا۔ ابن نفیل ازدی کہتا ہے: لیکن میں اس نوجوان پر سخت حملہ کروں گا۔ قاسم جنگ میں مشغول ہوگئے اور ابن نفیل ازدی نے کمین سے ان کے سر پر حملہ کیا اور قاسم کا سر شکافتہ ہوگیا۔[8]
شہادت اور امام حسین (ع) کا رد عمل
سید بن طاووس نے اپنی کتاب لہوف میں قاسم بن حسن کی شہادت اس طرح نقل کی ہے: جس وقت ابن فضیل ازدی نے قاسم کے سر پر تلوار سے حملہ کیا اور ان کا سر شکافتہ ہوگیا۔ قاسم منھ کے بل زمین پر گر گئے اور آواز دی: یا عمّاه! (اے میرے چچا) حسین ایک باز کی مانند جو بڑی تیزی سے شکار کو دیکھ کر آسمان کی بلندیوں کو چھوڑ کر نیچے جھپٹتا ہے، اس کی طرف لپکے اور آپ نے ایک بپھرے ہوئے غضبناک شیر کی مانند حملہ کیا۔ ابن فضیل ازدی نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے اپنا بازو آگے کیا تو وہ کہنی سے جدا ہوگیا۔ وہ بلند آواز میں چلایا تو لشکر نے اس کی آواز سنی اور اہل کوفہ اسے نجات دینے کیلئے آگے بڑھے تو وہ گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندا گیا اور ہلاک ہوگیا۔ راوی کہتا ہے جب گرد و غبار چھٹا تو میں (حمید بن مسلم) نے دیکھا کہ حسین اس کے سرہانے کھڑے ہیں۔
اور کہہ رہے ہیں: خدا اس قوم پر لعنت کرے جس نے تمہیں قتل کیا قیامت کے روز تمہارے بابا اور تمہارے جد اس خونخواہی کا بدلہ لیں گے۔ اس کے بعد فرمایا: خدا کی قسم تمہارے چچا کے لئے سخت ہے کہ تم نے اسے پکارا مگر وہ مدد نہیں کر سکا یا مدد کی لیکن وہ تمہارے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ خدا کی قسم آج وہ دن ہے جب تہمارے چچا کے دشمن بہت زیادہ ہیں اور مدگار بہت کم۔
یہ کہہ کر آپ نے قاسم بن حسن کا لاشہ سینے سے لگا کر اٹھایا۔ امام نے اس کے لاشے کو بنی ہاشم[9] کے دیگر شہدا کے اور اپنے بیٹے علی اکبر کے پاس لٹا دیا۔[10] اس کے بعد امام (ع) نے آسمان کی طرف رخ کرکے فرمایا: خدایا، ان سب کو نابود کر دے یہاں تک کہ ان میں ایک بھی باقی نہ رہے۔ اپنی بخشش اور مغفرت کو ہمیشہ کے لئے ان سے دور کر دے۔ اے میرے چچا کے بیٹوں، اے میرے عزیزوں صبر کرو۔ خدا کی قسم، آج کے بعد ہرگز تمہیں ناگواری و پریشانی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔[11]
قاسم کی شادی
تفصیلی مضمون: قاسم کی شادی
عشرۂ محرم الحرام میں پڑھے جانے والے واقعات میں سے ایک قاسم بن حسن کی امام حسین کی بیٹی سے شادی ہے۔ بعض محققین اس واقعہ کے صحیح ہونے میں تردید کرتے ہیں اور بعض اسے صحیح نہیں مانتے ہیں۔ شہید مرتضی مطہری کے مطابق، ان امور میں سے جو قدیم الایام سے ہماری عزاداری اور مجالس کا حصہ ہیں، ان میں سے ایک جناب قاسم کی شادی ہے۔ جبکہ یہ واقعہ ہماری کسی بھی معتبر تاریخی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ وہ محدث نوری سے نقل کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اس واقعہ کو اپنی کتاب میں نقل کرتے والے ملا حسین کاشفی ہیں۔ جنہوں نے اسے اپنی کتاب روضۃ الشہداء میں نقل کیا ہے۔ جبکہ اصل واقعہ سو فیصدی چھوٹ ہے۔[12]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ خوارمی، مقتل الخوارزمی، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۳۱.
- ↑ بیہقی، لباب الانساب، ج1 ص 401
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۲۰.
- ↑ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۶ق، ص۹۲.
- ↑ مطهری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۱۷، ص۸۱-۸۲.
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، بیروت، ج۴۵، ص۳۴.
- ↑ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۶ق، ص۹۳.
- ↑ وقعة الطف، ص۲۴۴.
- ↑ سید بن طاووس، اللهوف، ۱۴۱۴ق، ص۶۸–۶۹.
- ↑ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۶ق، ص۹۳.
- ↑ مقرم، مقتل الحسین، ص۳۳۲؛ مقتل خوارزمی، ج۲، ص۲۸.
- ↑ مطهری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۱۷، ص۷۷.
مآخذ
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، موسسة آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۵م.
- ابو الفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، شرح و تحقیق: سید احمد صقر، قم، انتشارات الشریف الرضی، ۱۴۱۶ق/۱۳۷۴ش.
- البیهقی، ابو الحسن علی، لباب الانساب، تحقیق: سید مهدی رجائی، قم، انتشارات کتابخانہ آیت الله مرعشی، ۱۴۱۰ق.
- المکّی، الموفق بن احمد، مقتل الخوارزمی، تحقیق: شیخ محمد سماوی، قم، انتشارات انوار الهدی، ۱۴۱۸ق.
- سید بن طاووس، علی بن موسی، مقتل الحسین علیہ السلام المسمی باللهوف فی قتلی الطفوف، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م.
- مطهری، مرتضی، مجموعہ آثار شهید مطهری، تهران، انتشارات صدرا، چاپ اول، ۱۳۷۷ش.