امام علیؑ کا خط اشعث بن قیس کے نام

ویکی شیعہ سے
امام علیؑ کا خط اشعث بن قیس کے نام
امام علیؑ کا خط اَشْعَث بن قیس کے نام
حدیث کے کوائف
دوسرے اسامینہج البلاغہ کا مکتوب نمبر 5
موضوعحکومتی مناصب کا امانت الہی ہونا
صادر ازامام علیؑ
شیعہ مآخذالفُتوح اور وَقعۃ صفین
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


امام علیؑ کا اَشْعَث بن قیس کے نام خط، مکتوبات نہج‌ البلاغہ میں سے ایک ہے جسے امام علیؑ نے قتل عثمان اور طَلحہ و زُبَیر کی بیعت شکنی جیسے واقعات کی یاددہانی کرتے ہوئے اَشعث بن قیس کے نام لکھا ہے جو اس وقت آذربایجان کے والے تھے اور وہ آپؑ کی بیعت کرنا چاہتا تھا۔[1] امام علیؑ نے اس خط کے آخر میں بیت‌ المال کی حفاظت کے بارے میں اشعث کو خبرار کرتے ہیں۔[2] نہج‌ البلاغہ کے شارح آیت‌ اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اس خط کا بنیادی مقصد اشعث کو یہ بتانا تھا کہ اسلامى حكومت میں حکومتی مناصب بھی خدا کی امانت ہے جسے ذاتی منفعت یا لوگوں پر ظلم و زیادتی کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔[3] امام علیؑ نے اس خط کو سنہ 36ھ کو جنگ جَمَل کے بعد تحریر کیا ہے[4] اور زیاد بن مرحب ہمدانی کے ذریعے اشعث تک پہنچایا ہے۔[5]

مورخ ابن‌ اَعثَم کوفی (متوفی: 320ھ کے بعد) نے الفُتوح میں اور نصر بن مُزاحم (دوسری صدی) نے کتاب وقعۃ صفین میں اس خط کے متن مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔[6] سید رضی نے فقط اس خط کے آخری جملوں کو نہج‌ البلاغہ میں نقل کیا ہے۔[7] یہ خط نہج‌ البلاغہ کے صبحی صالح، فیض‌ الاسلام، ابن‌میثم اور دورے مصححین کے نسخوں میں پانچویں نمبر پر آیا ہے۔[8]

اَشْعث بن قَیس کِندی (متوفی: 40ھ) ان افراد میں سے تھا جو آذربایجان کی فتح کے موقع پر حاضر تھا اور سنہ 25ھ سے عثمان بن عَفّان کی طرف سے آذربایجان میں بطور گورنر تعینات تھے۔[9]مورخین کے مطابق اشعث نے عثمان کی اجازت سے آذربایجان کے بیت المال سے سالانہ 1000 درہم اپنے لئے اٹھا لیتا تھا۔[10] امام علیؑ نے اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں اسے عزل نہیں کیا۔[11]

تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر جب اشعث نے امام علیؑ کا خط اپنے ساتھیوں کے سامنے پڑھا، تو اس کے ساتھیوں نے اسے امام علیؑ کی بیعت کی ترغیب دلائی؛ لیکن اس نے کہا کہ مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں امام علیؑ کی طرف چلا جاؤں تو علی آذربایجان کے بیت المال سے لیا ہوا مال مجھ سے واپس لے لے گا، حالانکہ اگر میں معاویہ کی طرف چلا جاؤں تو وہ مجھ سے کوئی چیز طلب نہیں کرے گا۔[12] اس روایت کے مطابق اشعث اپنے ساتھیوں کی سرزنش پر اپنی بات سے سرشمندہ ہوا[13] اور مورخین کے مطابق اشعث نے کوفہ کی سمت حرکت کیا، امام علیؑ نے آذربایجان کے بیت المال سے لیا ہوا مال اس سے واپس لیا اور اسے گورنری سے عزل کیا۔[14]

خط کا متن

خط کا متن، کتاب وقعۃ صفين کے مطابق
متن ترجمہ
أَمَّا بَعْدُ فَلَوْ لَا ہَنَاتٌ كُنَّ فِيكَ كُنْتَ الْمُقَدَّمَ فِي ہَذَا الْأَمْرِ قَبْلَ النَّاسِ وَ لَعَلَّ أَمْرَكَ يَحْمِلُ بَعْضُہُ بَعْضاً إِنِ اتَّقَيْتَ اللَّہَ ثُمَّ إِنَّہُ كَانَ مِنْ بَيْعَۃِ النَّاسِ إِيَّايَ مَا قَدْ بَلَغَكَ وَ كَانَ طَلْحَۃُ وَ الزُّبَيْرُ مِمَّنْ بَايَعَانِي ثُمَّ نَقَضَا بَيْعَتِي عَلَى غَيْرِ حَدَثٍ وَ أَخْرَجَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ وَ سَارَا إِلَى الْبَصْرَۃِ فَسِرْتُ إِلَيْہِمَا فَالْتَقَيْنَا فَدَعَوْتُہُمْ إِلَى أَنْ يَرْجِعُوا فِيمَا خَرَجُوا مِنْہُ فَأَبَوْا فَأَبْلَغْتُ فِي الدُّعَاءِ وَ أَحْسَنْتُ فِي الْبَقِيَّۃِ وَ إِنَّ عَمَلَكَ لَيْسَ لَكَ بِطُعْمَۃٍ وَ لَكِنَّہُ أَمَانَۃٌ وَ فِي يَدَيْكَ‌ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّہِ وَ أَنْتَ مِنْ خُزَّانِ اللَّہِ عَلَيْہِ حَتَّى تُسَلِّمَہُ إِلَيَّ وَ لَعَلِّي أَلَّا أَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَكَ إِنِ اسْتَقَمْتَ وَ لا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ‌۔[15] اما بعد، اگر تمہاری کچھ کم کاریاں نہ ہوتی، تو اس چیز میں دوسروں سے زیادہ تم پیش پیش ہوتے۔ لیکن شايد تم کوئی ایسا کام کرو جو تمہارے پچھلے کاموں کو جبران کر سکے اگر تم تقوائے الہی اختیار کرو۔ لوگوں کی طرف سے میری بیعت کرنے کے واقعے سے شاید تم باخبر ہو گئے ہونگے اور طلحہ و زبیر بھی من جملہ ان افرادمیں سے تھے جنہوں نے میری بیعت کی تھی، لیکن بغیر کسی بہانے انہوں نے بیعت توڑ دی۔ انہوں نے ام المؤمنین کو اپنے سال لے کر بصرہ چلا گیا، میں ان کے پیچھے گیا یہاں تک کہ ان کے ساتھ آمنا سامنا ہوا اور ان کو اسی چیز کی طرف بلایا جسے انہوں نے چھوڑ دی تھی لیکن انہوں نے میری دعوت کو قبول نہیں کیا۔ میں نے انہیں دعوت دینے میں بہت کوشش کی اور ان کے ساتھ بہت نیکی سے پیش آیا۔ یہ عہدہ تمہارے لئے کوئی آزوقہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمہاری گردن میں ایک امانت (کا پھندا) ہے اور تم اپنے حکمران بالا کی طرف سے حفاظت پر مامور ہو۔ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ رعیت کے معاملہ میں جو چاہو کر گزرو۔ خبردار! کسی مضبوط دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ نہ ڈالا کرو۔ تمہارے ہاتھوں میں خدائے بزرگ و برتر کے اموال میں سے ایک مال ہے اور تم اس وقت تک اس کے خزانچی ہو جب تک میرے حوالے نہ کر دو۔ بہرحال میں غالباً تمہارے لئے برا حکمران تو نہیں ہوں اگر تم راہ راست پر آجاؤ تو۔ اور خدا کے سوا کوئی دوسرا طاقت کا سرچشمہ نہیں ہے۔


حوالہ جات

  1. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503؛
  2. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص 503؛ ابن‌مزاحم، وقعۃ صفین، 1404ق‌، ص20۔
  3. مكارم شيرازى، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386ہجری شمسی، ج9، ص67۔
  4. آقازادہ، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان» ص34۔
  5. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503۔
  6. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503؛ ابن‌مزاحم منقری، وقعۃ صفین، 1404ق‌، ص20۔
  7. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامۀ 5، ص366۔
  8. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامۀ 5، ص366؛ نہج البلاغہ، تصحیح و ترجمۀ فیض الاسلام، نامۀ 5، ج5، ص389؛ ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، بی‌تا، ج4، ص33؛ ابن‌میثم، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص350؛ عبدہ، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، قاہرہ، ج3، ص7؛ مغنیہ، في ظلال نہج البلاغۃ، 1979م، ج3، ص388۔
  9. بلاذری، فتوح البلدان، 1957م، ج2، ص420۔
  10. آقازادہ، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان» ص30۔
  11. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بی‌تا، ج2، ص200۔
  12. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503؛ ابن‌مزاحم، وقعۃ صفین، 1404ق‌، ص21۔
  13. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص504؛ ابن‌مزاحم منقری، وقعۃ صفین، 1404ق‌، ص21۔
  14. آقازادہ، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان» ص38۔
  15. ابن‌مزاحم منقري، وقعۃ صفين، 1404ق‌، ص20

مآخذ

  • آقازادہ، جعفر، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان»، پژوہشنامہ تاریخ ہای محلی ایران، دورہ:7، شمارہ:1، 1397ہجری شمسی۔
  • ابن‌ابی‌الحدید، عبد الحمید، شرح نہج البلاغۃ، قم، مکتبۃ آیۃاللہ العظمی المرعشی النجفی، بی‌تا۔
  • ابن‌اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، بیروت، دار الأضواء، 1411ھ۔
  • ابن‌مزاحم منقری، نصر، وقعۃ صفین، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌میثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغہ، تہران، دفتر نشر الکتاب۔، 1404ھ۔
  • بلاذری، یحیی، فتوح البلدان، قاہرہ، مطبعۃ لجنۃ البیان العربی، 1957م۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • عبدہ، محمد، شرح نہج البلاغۃ، قاہرہ، مطبعہ الاستقامہ، بی‌تا۔
  • فیض‌الاسلام اصفہانی، علی‌نقی، ترجمہ و شرح نہج البلاغہ،بی‌جا، بی‌نا، 1368ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، فی ظلال نہج البلاغۃ، بیروت، دارالعلم للملایین، 1979م۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی‌تا۔