اربعین حسینی

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


اربعین حسینی سے مراد سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں امام حسین ؑ اور آپ ؑ کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے جو ہر سال 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔

مشہور تاریخی اسناد کے مطابق اسیران کربلا بھی شام سے رہا ہو کر مدینہ واپس جاتے ہوئے اسی دن یعنی 20 صفر سنہ 61 ہجری کو امام حسین ؑ کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔ البتہ شیخ مفید اور شیخ طوسی وغیرہ تصریح کرتے ہیں کہ اسیران کربلا شام سے واپسی پر کربلا نہیں بلکہ مدینہ گئے تھے۔ اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری بھی اسی دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے تھے۔

اس دن کے خاص اعمال میں سے ایک زیارت اربعین ہے جسے امام حسن عسکریؑ سے مروی حدیث میں مؤمن کی نشانی گردانا گیا ہے۔

ایران سمیت بعض مسلم ممالک میں اس دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور شیعیان اہل بیت ؑ عزاداری کرتے ہیں۔ اس دن دنیا کے مختلف ممالک میں شیعیان اہل بیت سڑکوں پر ماتمی دستے نکالتے ہیں اسی طرح امام حسین ؑ سے عقیدت رکھنے والے قافلوں کی صورت میں اس دن کربلا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخری چند سالوں میں اربعین کے دن کربلا کی طرف پیدل چل کر سید الشہداء ؑ کی زیارت کیلئے جانا شیعوں کے اہم ترین اور عظیم ترین مراسمات میں شامل ہو گیا ہے یہاں تک کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تہواروں میں شامل ہونے لگا ہے۔

تاریخی اہمیت

اربعین عربی زبان میں چالیس کو کہا جاتا ہے اور 20 صفر کو امام حسینؑ کی شہادت کے چالیسویں روز کی مناسبت سے اربعین کہا جاتا ہے۔[1] 61ھ کے اسی دن جابر بن عبداللہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر پر پہنچنے تھے۔[2] اسی طرح بعض مآخذ کے مطابق جابر کے علاوہ اسیران کربلا بھی اسی دن شام کے زندان سے رہا ہو کر امام حسینؑ کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔[3]

علامات مؤمن

عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَالتَّخَتُّمُ بِالْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏ ..
ترجمہ: شیعہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:

  1. روزانہ 51 رکعت(17 واجب اور 34 نوافل) نماز پڑھنا
  2. زیارت اربعین پڑھنا
  3. انگشتری دائیں ہاتھ میں پہننا
  4. سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا اور
  5. نماز میں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا۔

امام حسن عسکریؑ، طوسی، تہذیب الاحکام، ج6 ص52۔

جابر بن عبداللہ انصاری کی کربلا میں حاضری

پیغمبر اسلامؐ کے مشہور صحابی جابر بن عبداللہ انصاری کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مشہور تاریخی اسناد کے مطابق جابر نے عطیہ عوفی کے ہمراہ 20 صفر سنہ 61 ہجری قمری کو کربلا آکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔[4]

جابر جو اس وقت نابینا ہو چکے تھے نے نہر فرات میں غسل کیا اپنے آپ کو خوشبو سے معطر کیا اور آہستہ آہستہ امام حسینؑ کی قبر مطہر کی جانب روانہ ہوا۔ عطیہ بن عوفی کی رہنمائی میں اپنا ہاتھ قبر مطہر پر رکھا اور بے ہوش ہو گیا، ہوش میں آنے کے بعد تین بار یا حسینؑ کہا اس کے بعد کہا "حَبیبٌ لا یجیبُ حَبیبَهُ. .." اس کے بعد امام اور دیگر شہداء کی زیارت کی۔[5]

اسیران کربلا کی شام سے واپسی

بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اسرائے کربلا اسی سال یعنی سنہ 61 ہجری کو ہی شام سے رہا ہو کر مدینہ جانے سے پہلے عراق گئے اور واقعہ کربلا کے 40 دن بعد یعنی 20 صفر کو کربلا کی سرزمین پر پہنچ گئے۔ جب یہ قافلہ کربلا پہنچے تو جابر بن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کے بعض افراد کو وہاں پایا پھر امام حسینؑ کی زیارت کے بعد وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کتاب لہوف میں سید ابن طاووس نے اس نظریے کی تصریح کی ہے۔[6]

ان کے مقابلے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ شام اور عراق کے درمیانی فاصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اسیران کربلا عاشورا کے 40 دن بعد دوبارہ کربلا واپس آ گئے ہوں کیوں کہ کوفہ سے شام پھر وہاں سے دوبارہ کربلا لوٹ آنا اس مختصر مدت میں امکان پذیر نہیں ہے۔ محدث نوری[7] اور شیخ عباس قمی[8] اسی نظریے کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی موجود نہیں ہے۔[9]

علماء کا ایک گروہ اصل واقعے کو قبول کرتے ہوئے اسیران کربلا کا شام سے مدینہ واپسی کی تاریخ کو اسی سال صفر کے اواخر یا ربیع الاول کے اوائل بتاتے ہیں جبکہ بعض علماء اس واقعے کو اگلے سال صفر کی 20 تاریخ کو رونما ہونے کے قائل ہیں۔[10]

اس اختلاف کے پیش نظر بعض علماء نے اس حوالے سے اپنی تحقیقات کو کتاب کی شکل میں شایع کی ہیں جس میں اسیران کربلا کا اسی سال یعنی 61 ہجری کو شام سے کربلاء لوٹ آنے کو امکان پذیر قرار دیا ہے اور اس واقعے کی صحت کے بارے میں معتبر احادیث بھی موجود ہیں۔[11] اس سلسلے میں لکھی گئی دوسری مشہور کتابوں میں سے ایک جس میں اس نظریے کے مخالفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے، تحقیق دربارہ اولین اربعین حضرت سیدالشہداءؑ نامی کتاب ہے جسے سید محمد علی قاضی طباطبایی نے تحریر کی ہیں۔

شہداء کربلا کے سروں کا بدن سے ملحق ہونا

مشہور قول کی بنا پر امام حسینؑ اور شہداء کربلا کے سروں کو عاشورا کے دن ان کے بدن سے جدا کیا گیا تھا اور اسیران کربلا کے ساتھ شہداء کے سروں کو بھی شام یزید کے دربار میں لے گیا تھا جو اسیران کربلا کی رہائی کے ساتھ اربعین کے دن شہداء کے بدنوں سے ملحق ہو گئے تھے۔[12] یہ قول بہت سارے شیعہ اور اہل سنت علماء اور مورخین کا مشترکہ قول ہے۔[13] شیعہ علماء میں سے شیخ صدوق، سید مرتضی، فتال نیشابوری،ابن نما حلی، سید ابن طاووس، شیخ بہایی اور علامہ مجلسی نے اس قول کو نقل کئے ہیں۔

شیخ صدوق[14] اور ان کے بعد فتال نیشابوری[15] اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام سجادؑ اہل بیتؑ کے مستورات کے ساتھ جب شام سے رہا ہوئے تو اپنے ساتھ امام حسینؑ اور دیگر شہداء کے سروں کو بھی کربلا لے آئے تھے"۔ سید مرتضی اس بارے میں لکھتے ہیں: "روایت میں ہے کہ امام حسینؑ کا سر اقدس آپ کے بدن مطہر کے ساتھ کربلا میں مددفون ہیں۔"[16] ابن شہر آشوب درج بالا سید مرتضی کے قول کو نقل کرنے کے بعد شیخ طوسی سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسینؑ کا سر بدن سے ملحق ہونے کی بنا پر زیارت اربعین کی سفارش ہوئی ہے۔[17]

زیارت اربعین

امام حسین عسکریؑ سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی نشانی گردانا گیا ہے۔[18]

نیز روز اربعین کے لئے ایک زیارت نامہ امام صادقؑ سے منقول ہے۔[19] شیخ عباس قمی نے اس زیارتنامے کو مفاتیح الجنان کے تیسرے باب میں زيارت عاشورا غير معروفہ میں زیارت اربعین کے عنوان سے درج کیا ہے۔

قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ زیارت اربعین زیارت مَرَدّ الرَّأس بھی کہلاتی ہے۔[20] "مَرَدُ الرأس" یعنی سر کا لوٹا دیا جانا، کیونکہ اس روز اسیران اہل بیتؑ کربلا پلٹ کر آئے تو وہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھی شام سے واپس لائے تھے جسے امام حسینؑ کے بدن مطہر کے ساتھ دفن کیا گیا۔

اربعین کا پیدل زیارتی سفر

زیارت اربعین پر ائمہؑ کی تاکید کی بنا پر لاکھوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک خاص کر عراق کے مختلف شہروں اور قصبوں سے کربلا کی طرف سفر کرتے ہیں؛ اکثر زائرین پیدل چل کر اس عظیم مہم میں شریک ہوتے ہیں اور یہ ریلیاں دنیا کی عظیم ترین مذہبی ریلیاں سمجھی جاتی ہیں۔ دسمبر 2013 بمطابق صفر المظفر 1435 ہجری، کے تخمینوں کے مطابق، اس سال دو کروڑ زائرین اس عظیم جلوس عزاداری میں شریک ہوئے تھے۔ [21] بعض رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ اس سال کربلا پہنچنے والے زائرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔[22]

قاضی طباطبایی لکھتے ہیں کہ کربلا کی طرف پائے پیادہ جانے والے زائرین کے قافلوں کا سلسلہ ائمہ معصومینؑ کے زمانے میں بھی رائج تھا اور حتی کہ یہ سلسلہ بنو امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی جاری رہا اور تمام تر سختیوں اور خطرات کے باوجود شیعیان اہل بیتؑ پابندی کے ساتھ ان مراسم میں شرکت کرتے تھے۔[23]

انتفاضہ اربعین

عراق میں بعثی حکومت نے ہر قسم کے مذہبی مراسم کو محدود کرنے، کربلا کی طرف پیدل سفر کرنے اور موکب لگانے پر پابندی لگا دی تھی۔[24] لیکن اس کے باوجود نجف کے مؤمنین 15 صفر 1398 ہجری بمطابق 1977ء کو اربعین پیدل سفر کے لئے تیار ہو گئے۔[25] 30 ہزار افراد پر مشتمل ایک کاروان نے کربلا کی طرف حرکت کی۔ بعثی حکومت نے اس کاروان کو روکنے کیلئے شروع سے ان کے خلاف کروائی کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہو گئے یہاں تک کہ نجف سے کربلا جانے والے راستے میں فوج نے بھی زائرین پر حملہ کیا اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا۔[26] ان حملوں میں بعض شہید ہوئے بعض کو پھانسی دی گئی اور بعض کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔[حوالہ درکار]


سید محمد باقر صدر اور سید محمد باقر حکیم نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کئے۔[27] امام خمینی نے بھی اس عوامی تحریک کی حمایت کی تھی۔[28]

حوالہ جات

  1. انوری، فرہنگ سخن، 1390ش، ج1، ص312. محدثی، فرہنگ عاشورا، 1376ش، ص45
  2. قمی، سفینۃ البحار، 1414ق، ج8، ص383۔
  3. ابن طاووس، الملهوف علی قتلی الطفوف، 1414ق، ص225.
  4. قمی، سفینة البحار، ج8، ص383
  5. منتہی الآمال،ج 1، حوادث اربعین؛ نفس المہموم، ص 322؛ بحار الانوار،ج 98، ص 196؛ فرہنگ عاشوراء، ص 203
  6. ابن طاووس، لہوف، ص225
  7. نوری، لؤلؤ و مرجان، ص208 - 209
  8. قمی، منتہی الآمال، ص524 -525.
  9. سبحانی نیا، تحقیقی دربارہ اربعین حسینی، مجلہ تاریخ در آیینہ پژوہش، تابستان 1384ش، شمارہ6؛ رنجبر،پژوہشی در اربعین حسینی، مجلہ تاریخ در آیینہ پژوہش، بہار 1384ش، شمارہ5، ص168-172
  10. شيخ صدوق، الامالی، ص 385 ح 2448
  11. رنجبر،پژوہشی در اربعین حسینی، مجلہ تاریخ در آیینہ پژوہش، بہار 1384ش، شمارہ5، 172-187؛ فاضل، تحلیل مبانی تاریخی اربعین حسینی، مجلہ رواق اندیشہ، خرداد و تیر 1380ش، شمارہ 1۔
  12. گروہی از تاریخ‌پژوہان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہدا، 1395ش، ج2، ص574 و587۔
  13. سبط بن الجوزی، تذکرہ الخواص، 1418ق، ص238، گروہی از تاریخ‌پژوہان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہدا، 1395ش، ج2، ص574۔
  14. شیخ صدوق، الامالی، 1376ش، ص168۔
  15. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، منشورات الرضی، ص‌192۔
  16. سید مرتضی، رسائل المرتضی، 1405ق، ج3، ص130۔
  17. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، انتشارات علامہ، ج4، ص77 «قال الطوسی رحمۃ ‌اللہ: و منہ زیارۃ الاربعین»۔
  18. طوسی، ج 6، ص 52
  19. طوسی، تہذیب الاحکام، ج 6، ص 113۔
  20. قاضی طباطبایی، ص 2۔
  21. سایت خبری فردا۔
  22. سايت خبري فردا
  23. قاضی‌ طباطبایی، ص 2
  24. المؤمن، سنوات الجمر، 2004م، ص165۔
  25. الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، 2001م، ص101۔
  26. ویلی،‌ نہضت اسلامی شیعیان عراق،‌ 1373ش، ص81۔
  27. المؤمن، سنوات الجمر، 2004م، ص169۔
  28. المؤمن، سنوات الجمر، 2004م، ص170۔

مآخذ

  • ابن طاؤوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1367 ہجری شمسی۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، الملہوف علی قتلی الطفوف، اسوہ، قم، 1414 ہجری۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الاحکام، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1407 ہجری۔
  • قاضی طباطبایی، شہید سید محمد علی، تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہدا ؑ، بنیاد علمی و فرہنگی شہید آیت اللہ قاضی طباطبایی، قم، 1368 ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، سفینۃ البحار، نشر اسوہ، قم، 1414 ہجری۔
  • قمی، عباس، منتہی الآمال، مطبوعاتی حسینی، تہران، 1372 ہجری شمسی۔
  • نوری، میرزا حسین، لؤلؤ و مرجان، نشر آفاق، تہران، 1388۔