مناجات
مُناجات، خدا کی بارگاہ میں شکرانے کے ساتھ راز و نیاز کرنے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن "ناجیتم"، "نجواکم" اور "نداءً خفیا" جیسی تعابیر کے ساتھ مناجات کا تذکرہ آیا ہے اور حدیثی منابع میں مناجات کی اہمیت اور اس کے آداب و شرائط کے بارے میں احادیث موجود ہیں۔ دعا اور مناجات میں فرق خدا کے ساتھ گفتگو کے وقت بندے کی حالت پر منحصر ہے۔
صبح کے وقت مناجات کرنا اور خدا کو مناسب الفاظ میں خضوع و خشوع کے ساتھ پکارنا مناجات کے آداب اور شرائط میں سے ہیں۔ توبہ کی قبولیت اور انسان میں خلوص پیدا کرنے کے لئے مناجات نہایت مؤثر ہے۔
قرآنی مناجات، بعض انبیاء جیسے حضرت موسی کی کوہ طور پر چالیس دن رات پر محیط مناجات، زبور میں حضرت داوود کی مناجات، مناجات شعبانیہ اور مناجات خمس عشر من جملہ مشہور مناجات میں سے ہیں۔
مفہوم شناسی
مناجات کے معنی کسی سے مخفیانہ طور پر راز کی باتیں کرنا اور راز و نیاز کرنے کے ہیں۔[1] اسی طرح بلندی پر جا کر کسی سے خلوت میں راز کی باتیں کرنے کو بھی مناجات کہا جاتا ہے۔[2]
مناجات اکثر طور پر نظم یا نثر کی صورت میں خدا کی بارگاہ میں شکرانہ بجا لاتے ہوئے اپنی حاحات پیش کرنا یا راز و نیاز کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن چہ بسا توبہ اور گناہ کو ترک کرنے کو بھی مناجات کہا جاتا ہے۔[3] طبرسی سورہ توبہ کی آیت نمبر 78 میں نجوی سے مراد دوری لیتے ہیں اور چونکہ مناجات کرنے والا خدا سے راز و نیاز کی خاطر لوگوں سے دوری اختیار کرتا ہے۔[4]
مناجات کبھی کبھار ماہ رمضان کی سحری کے وقت لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے پڑھی جانے والی دعاؤں اور اذکار کو بھی کہا جاتا ہے۔[5]
خود لفظ مناجات قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے لیکن "نجواکم"، "ناجیتم"[6] اور "نداءً خفیا"[7] جیسے الفاظ کے ضمن میں اس کا مفہوم بیان ہوا ہے۔ حدیثی منابع میں مختلف احادیث میں مناجات کی اہمیت اور آداب و شرائط کو بیان کیا گیا ہے اسی طرح مستقل طور پر بعض مشہور مناجات بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔[8]
دعا اور مناجات میں فرق
دعا اور مناجات میں فرق حقیقت میں خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز کرنے والے کے حالات کی طرف نسبت دی جاتی ہے؛ اس ضمن میں اگر موضوع گناہوں کا اعتراف اور محبت کی شدت ہو اور مذکورہ شخص کی حالت ملایم اور خصوصی گفتگو کا تقاضا کرے تو اس صورت میں مناجات کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ دعا کے معنی پکارنا، دعوت کرنا اور کسی کا کسی سے اعلانیہ طور پر مدد مانگنے کے ہیں۔[9]
آداب
خدا سے مناجات اور راز و نیاز کے بعض آداب اور مناجات کے لئے تیار ہونے کے کچھ شرائط بھی ہیں۔
تفاسیر میں سحر کے وقت کو خدا سے مناجات کا بہترین وقت قرار دیا گیا ہے۔ تفاسیر میں قرآن کی مختلف آیات من جملہ سورہ اعراف کی آیت نمبر 142 جو کوہ طور پر رات کے وقت حضرت موسی کی خدا سے مناجات کے بارے میں ہے،[10] اور سورہ فرقان کی آیت نمبر 64 جو خدا کی عبادت کے وقت کے بارے میں ہے[11] اور سورہ سجدہ کی آیت نمبر 16[12] سے استناد کرتے ہوئے رات کو خدا کے ساتھ تقرب حاصل کرنے کا بہترین وقت قرار دیا گیا ہے۔
اسی مناجات کے آداب میں سے ایک خدا کو ان اسما و صفات کے ذریعے پکارنا بھی ہے جو انسان کی حاجت اور راز و نیاز کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتے ہوں مثلا اگر خدا کی بخشش کا طلب گار ہو تو اس وقت غفار، ستار اور وہاب جیسے صفات کے ساتھ پکارنا چاہئے۔[13]
اسی طرح ان الفاظ اور تعابیر کے ساتھ مناجات کرنا جنہیں خود خدا نے انسان کو تعلیم دی ہے یا ائمہ معصومینؑ سے منقول مناجات میں آیا ہے، مناجات کے دیگر آداب میں سے ہیں۔[14]
کتاب تحف العقول میں خدا کی طرف سے حضرت موسی کو کی گئی وصیتوں میں سے ایک مناجات کے وقت دل کا خاضع اور خاشع ہونا ہے۔[15]
خواص
تفاسیر اور علوم قرآن کے منابع میں خدا سے مناجات کے مختلف آثار اور خواص بیان ہوئے ہیں۔ توبہ کی قبولیت گناہوں کی بخشش اور جہنم کے عذاب سے نجات،[16] خلوص کی صفت سے مزین ہونا[17]، رقت قلب، باطنی پاکیزگی اور معنوی طاقت[18] من جملہ مناجات کے آثار اور خواص میں شمار کی گئی ہیں۔
مناجات خَمسَ عَشَر | وقت قرائت | |
---|---|---|
۱ | مناجات التائبین | جمعہ |
۲ | مناجات الشاکین | سنیچر |
۳ | مناجات الخائفین | اتوار |
۴ | مناجات الراجین | سوموار |
۵ | مناجات الراغبین | منگل |
۶ | مناجات الشاکرین | بدھ |
۷ | مناجات المطیعین | جمعرات |
۸ | مناجات المریدین | جمعہ |
۹ | مناجات المحبین | سنیچر |
۱۰ | مناجات المتوسلین | اتوار |
۱۱ | مناجات المفتقرین | سوموار |
۱۲ | مناجات العارفین | منگل |
۱۳ | مناجات الذاکرین | بدھ |
۱۴ | مناجات المعتصمین | شب جمعہ |
۱۵ | مناجات الزاہدین | جمعہ |
معروف مناجاتیں
مذہبی اور عرفانی کتابوں میں مذکور مختلف مناجات میں سے بعض مناجات جیسے انبیاء اور ائمہ معصومینؑ کی مناجات لوگوں میں مشہور اور معروف ہیں۔
قرآنی مناجات
خدا نے قرآن میں انیباء، فرشتوں اور اس کے نیک اور صالح بندوں کی زبانی مختلف مناجاتیں بیان کی ہیں۔
قرآن میں مذکور انبیاء کی مشہور مناجات میں حضرت موسی کا کوہ طور پر 40 دن رات خدا سے کرنے والی مناجات،[19] دریا اور مچھلی کے پیٹ کی تاریکی میں حضرت یونس کی مناجات،[20] مختلف مشکلات اور گرفتاریوں کے وقت حضرت یوسف کی اپنے پروردگار سے مناجات،[21] الہی آزمات کے دوران حضرت ابراہیم کی مناجات[22] اور زبور میں حضرت داوود کی مناجات[23] وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
سورہ آلعمران کی آیت نمبر 38، 193 اور 194 بھی من جملہ قرآن کی مشہور و معروف مناجات میں سے ہیں جنہیں خدا نے اپنے نیک بندوں کی زبانی بیان کیا ہے۔[24]
ائمہ معصومین کی مناجاتیں
شیعہ ائمہ معصومین سے وارد ہونے والی بعض دعاؤں کو مناجات سے تعبیر کی گئی ہیں۔ ائمہ معصومینؑ کی مشہور مناجاتوں میں مناجات شعبانیہ،[25] مسجد کوفہ میں حضرت علی کی مناجات،[26] اور امام سجادؑ کی مناجات خمس عشر کا نام لیا جا سکتا ہے۔[27]
بعض عرفا بھی مناجاتوں کے حوالے سے مشہور ہیں ان میں سے سب سے اہم مناجات خواجہ عبداللہ انصاری کی مناجات ہے۔[28]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ حمیری، شمس العلوم، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۶۵۰۹۔
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ۱۴۱۲ق، ص۷۹۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۱، ص۲۲۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۰، ص۴۷۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ۱۳۷۷ش، ذیل واژہ مناجات؛ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ش، ذیل واژہ مناجات۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۸۱۔
- ↑ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ش، ذیل واژہ مناجات۔
- ↑ سورہ مجادلہ، آیہ ۱۲-۱۳۔
- ↑ سورہ مریم، آیہ ۳۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۶۰؛ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص: ۵۶۲۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طریحی، مجمع البحرین، ۱۴۱۶ق، ج۱،ص ۴۰۸-۴۰۹؛ قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۴-۳۴۵؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۷۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۲۳۵؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۱۳۷۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ۱۵۰۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۱۷؛
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۸، ص۱۰۸۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۲۔
- ↑ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۴۹۲۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، ۱۳۸۶ش، ج۱۶، ص۱۴۴۔
- ↑ امام خمینی، تفسیر سورہ حمد، ۱۳۷۵ش، ص۱۴۶-۱۴۷۔
- ↑ نقی پور فر، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۵۰۶۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۴۲۔
- ↑ سورہ انبیا، آیہ ۸۷۔
- ↑ سورہ یوسف، آیہ ۳۳۔
- ↑ سورہ ابراہیم، آیہ ۳۴-۴۱؛ شریفی پور، شرح مناجات حضرت ابراہیم(ع) در قرآن کریم، ۱۳۹۵ش۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۱۶۱۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۴، ص۸۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۲۔
- ↑ ابن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۶۸۷۔
- ↑ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ص۳۱۹۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۱، ص۱۴۲-۱۵۳۔
- ↑ انصاری، مناجات نامہ، ۱۳۸۲ش۔
مآخذ
- ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، مصحح علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۴ھ۔
- ابن طاووس، علی بن موسی، إقبال الأعمال، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، ۱۴۰۹ھ۔
- انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، انتشارات سخن، ۱۳۸۱ش۔
- انصاری، خواجہ عبداللہ، مناجات نامہ، مصحح محمد حماصیان، کرمان، خدمات فرہنگی کرمان، ۱۳۸۲ش۔
- امام خمینی، روح اللہ، تفسیر سورہ حمد، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، ۱۳۷۵ش۔
- حمیری، نشوان بن سعید، شمس العلوم و دواء کلام العرب من الکلوم، بیروت، دار الفکر المعاصر، ۱۴۲۰ھ۔
- دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش۔
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ قرآن، لبنان- شام، دار العلم- الدار الشامیۃ، ۱۴۱۲ھ۔
- شریفی پور، فرزانہ، شرح مناجات حضرت ابراہیم(ع) در قرآن کریم، تہران، مجال، ۱۳۹۵ش۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار الاحیا التراث العربی، ۱۳۹۰ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
- طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تہران، کتابفروشی مرتضوی، ۱۴۱۶ھ۔
- قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، ۱۳۸۸ش۔
- قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۱۲ھ۔
- کفعمی، ابراہیم بن علی، البلد الأمین و الدرع الحصین، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۸ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، مصحح ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۴ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔
- نقی پور فر، ولی اللہ، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، تہران، اسوہ، ۱۳۸۱ش۔
- ہاشمی رفسنجانی، علی اکبر، تفسیر راہنما، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۶ش۔