فزت و رب الکعبہ
فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَہ، خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا[1] کے معنی میں امام علی ؑ کا ایک جملہ ہے جسے آپ ؑ نے 19 رمضان سنہ 40ھ کو سر مبارک پر تلوار لگنے کے بعد اپنی زبان پر جاری کیا۔
تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن قتیبہ دینوری نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے: ابن ملجم امام علی ؑ کی طرف گیا اور کہا: حکم صرف خدا کی طرف سے ہے نہ کہ تیری طرف سے اور تلوار سے امام علی ؑ کی پیشانی پر ضربت لگائی۔ اس موقع پر حضرت علی ؑ نے فرمایا: "فزت و رب الکعبہ" "خدای کعبہ کی قسم، میں کامیاب ہو گیا"[2]شہید مطہری (شہادت: 1358ہجری شمسی) کہتے ہیں کہ یہ جملہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فردی اخلاق کی رو سے سے اسلام میں شہادت شہید کی کامیابی ہے نہ اس کی شکست[3] اس بنا پر شہادت کے موقع پر خوشی اور شادمانی کا اظہار کرنا چاہئے۔[4] شرح نہج البلاغہ آیتاللہ مکارم میں بھی اس جملے کو اس مطلب پر گواہی قرار دیتے ہیں کہ علیؑ کی روح اس مادی دنیا کے ساتھ کو رابطہ نہیں رکھتی تھی بلکہ اس کا رابطہ عالم بالا، فرشتگان اور خدا کے ساتھ تھا؛ اس بنا پر امامؑ ابن ملجم کے اس ضربت کو پروردگار عالم کے ساتھ ملاقات کا مقدمہ سمجھتے تھے۔[5]
اہل تشیع کے مختلف علماء جیسے سید رضی[6]، ابن شہر آشوب[7] اور اہل سنت علماء میں سے ابن اثیر[8] اور بلاذری[9] نے اس کلام کو نقل کیا ہے۔ البتہ بعض مؤخر منابع میں مذکورہ عبارت میں کچھ تبدیلی کے ساتھ "فزت برب الکعبۃ" نقل ہوئی ہے۔[10]
پانچویں صدی ہجری کے مورخ ابن عبد البر کے مطابق امام علیؑ سے حرام بن ملحان نے سَرِیہ بئر معونہ میں سنہ 4ھ کو اپنی شہادت کے موقع پر «فزت و ربّ الکعبۃ» کا جملہ اپنی زبان پر جاری کیا تھا۔[11]
شہید مطہری کے مطابق حافظ شیرازی نے امام علیؑ پر ضربت لگنے کے بعد آپ کی زبان پر جاری ہونے والے جملات کو شعر میں بیان کیا ہے:[12]
|
ترجمہ: سحر کے وقت مجھے دنیا کے غم و غصے سے نجات دی اور رات کی اس تاریکی میں مجھے آب حیات دی، کتنی مبارک سحر اور کتنی مبارک رات تھی کہ اس قدر والی رات نے مجھے برأت دی۔
فارسی زبان میں تحریر کی گئی کلام الامیر امیر الکلام نامی کتاب میں اس جملے کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ کتاب سنہ 1395ہجری شمسی کو 156 صفحات کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ محدثی، فرہنگ غدیر، 1392ش، ص465۔
- ↑ ابنقتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص180۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1376ش، ج17، ص566-567۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ج24، ص471۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امیرالمؤمنین، 1386ش، ج5، ص717۔
- ↑ سید رضی، خصائص الأئمۃ، 1406ھ، ص63۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب، 1379ھ، ج2، ص119۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج3،ص618۔
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج2، ص488۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ش، ج11، ص225۔
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص337۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ج24، ص471۔
- ↑ حافظ، دیوان حافظ، غزلیات، بیتا، ص183۔
مآخذ
- ابن اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
- ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب علیہم السلام، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، 1379ھ۔
- ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: البجاوی، علی محمد، بیروت، دار الجیل، چاپ اول، 1412ھ۔
- ابن قتیبہ دینوری، عبد اللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، تحقیق: شیری، علی، دارالأضواء، بیروت، چاپ اول، 1410ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: زکار، سہیل، زرکلی، ریاض، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
- سید رضی، محمد بن حسین، خصائص الأئمۃ علیہم السلام (خصائص أمیر المؤمنین علیہ السلام)، محقق و مصحح: امینی، محمدہادی، مشہد، آستان قدس رضوی، چاپ اول، 1406ھ۔
- مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی، محقھ،شعرانى، ابوالحسن، تہران، المکتبۃالإسلامیۃ، 1382ہجری شمسی۔
- حافظ، شمس الدین محمد، دیوان حافظ، بیتا.
- محدثی، جواد، فرہنگ غدیر، قم، نشر معروف، 1392ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، تہران، صدرا، 1376ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہیہ و تنظیم جمعی از فضلاء، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔