علی بن محمد سمری

ویکی شیعہ سے
علی بن محمد سمری
کوائف
مکمل نامعلی بن محمد سمری
کنیتابو الحسن
لقبسمری • صیمری
محل زندگیبغداد
وفات329 ھ
مدفنبغداد
دینی معلومات
وجہ شہرتچوتھے نائب خاص امام زمانہؑ
دیگر فعالیتیںشیعوں اور امام زمانہ کے درمیان رابطہ


علی بن محمد سَمُرِیّ (متوفی 329 ھ) غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ (عج) کے چوتھے اور آخری نائب خاص ہیں جو حسین بن روح نوبختی کے بعد تین سال کیلئے عہدہ نیابت پر فائز رہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ ان کے مکاتبات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آنجناب (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ ان کی مدت نیابت باقی نائبین خاص کی نسبت مختصر رہی ہے لیکن تاریخی منابع میں اس کی کوئی خاص علت بھی ذکر نہیں ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت وقت کی جانب سے شدید دباؤ اور اس دور کے سیاسی و سماجی حالات کی وجہ علی بن محمد سمری کی نیابت کے دوران ان کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی دوسروں کی نسبت واضح کمی آگئی تھی۔ امام زمانہ (ع) کی طرف سے آپ کے نام صادر ہونے والی توقیع جس میں امام (ع) نے آپ کی موت اور نیابت خاصہ کی مدت کے اختتام کی خبر دی تھی جو ان کی زندگی میں واقع ہونے والے اہم واقعات میں سے ہیں۔ ان کی وفات سے امام زمانہ (ع) کے ساتھ براہ راست رابطہ منقطع ہوا یوں غیبت کبری کا دور شروع ہو گیا۔

سوانح عمری

علی بن محمد سمری کی تاریخ ولادت کسی منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ان کی کنیت ابوالحسن[1] اور ان کا لقب سَمَری، سَیمُری، سَیمَری و یا صیمَری بتا یا جاتا ہے لیکن وہ سَمَری کے نام سے مشہور تھے۔[2] سَمَّر یا سُمَّر[3] یا صیمر بصرہ کے کسی گاؤں کا نام ہے جہاں ان کے اقارب زندگی بسر کرتے تھے۔[4]

خاندان

علی بن محمد سمري ایک دیندار شیعہ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا خاندان ائمہ معصومین کی خدمت گزاری کے حوالے سے مشہور تھے اور ان کی اسی خاندانی شرافت کی وجہ سے امام زمانہ کے نائب خاص کے عہدے پر فائز ہونے میں انہیں زیادہ مخالفتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔[5]

یعقوبی کے مطابق ان کے خاندان کے بہت سارے اکابرین بصرہ میں وسیع املاک و جائداد کے مالک تھے جنھوں نے ان املاک کی نصف آمدنی گیارہویں امام(ع) کے لئے وقف کی تھی۔ امام(ع) ہر سال مذکورہ آمدنی وصول کرتے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے۔[6]

علی بن محمد سمری کے بعض دیگر اقارب میں سے علی بن محمد بن زیاد ہیں جو امام حسن عسکری(ع) کے وکلاء میں سے تھے جنہوں نے امام زمانہ (عج) کی امامت کے اثبات کی غرض سے الاوصیاء کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔[7]

امام حسن عسکری(ع) کے ساتھ قریبی تعلقات

شیخ طوسی نے انہیں علی بن محمد صیمری کے عنوان سے امام حسن عسکری کے اصحاب کے زمرے میں شمار کیا ہے۔[8] اور ان کے حضرت امام حسن عسکری(ع) کے ساتھ مکاتبات بھی نقل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ خود کہتے ہیں: امام حسن عسکری (ع) نے مجھے لکھا کہ "تمہیں گمراہ کرنے والا ایک فتنہ پیش آنے والا ہے۔ پس اس سے ہوشیار رہو اور اس سے پرہیز کرو" اس کے تین دن بعد بنی ہاشم کیلئے ایک ناگوار حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے بنی ہاشم کیلئے بہت ساری دشواریاں پیش آئیں۔ اس وقت میں نے امام کو ایک خط لکھا اور سوال کیا کہ آیا وہ فتنہ جس کے بارے میں آپ نے پیشن گوئی کی تھی یہی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا نہیں وہ اس کے علاوہ ہے لہذا اپنی حفاظت کریں۔ اس کے کچھ دن بعد عباسی خلیفہ معتز بالله کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔[9]

وفات

شیخ طوسی کی مطابق علی بن محمد سمری نے سنہ 329 ہجری میں وفات پائی اور ان کا جنازہ بغداد میں نہر ابو عتاب کے نزدیک خیابان خَلَنْجی میں دفن کیا گیا۔[10] ان کی قبر کلینی کے مقبرہ کے قریب واقع ہے۔[11] صاحب اعیان الشیعہ نے ان کی وفات کی تاریخ کو 15 شعبان قرار دیا ہے۔[12] جبکہ شیخ صدوق اور طبرسی نے سنہ 328 ھ ان کی تاریخ وفات قرار دی ہے۔[13] [14]

امام زمانہ (ع) کی نیابت

منقولہ روایات کے مطابق حسین بن روح نوبختی نے ابو الحسن علی بن محمد سمری کو اپنے جانشین اور امام زمانہ کے چوتھے نائب کے طور پر مقرر کرنے کی وصیت کی جسے تمام شیعیان اہل بیت اور مکتب ولایت و امامت کے تمام پیروکاروں نے بغیر کسی اختلاف کے تسلیم کیں۔ حسین بن روح نے اس کام کو امام زمانہ (عج) کے صریح حکم کے مطابق انجام دیا تھا۔ اس حوالے سے کوئی متعین حدیث نقل نہیں ہوئی جس میں امام زمانہ(عج) نے حسین بن روح نوبختی کو ایسا کوئی حکم دیا ہو۔ لیکن احادیث میں بطور عموم بیان ہوا ہے جس نائب کی وفات کا وقت آن پہنچے وہ امام(عج) کے حکم پر اپنا جانشین متعین کرتا ہے اور اس تعین و تقرر میں اس کی ذاتی رائے کا عمل دخل نہیں ہوتا۔

احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی اپنی کتاب الاحتجاج علی اہل اللجاج میں لکھتے ہیں: ان نُواب میں سے کوئی بھی اس اعلی منصب پر فائز نہیں ہوا مگر یہ کہ پہلے صاحب الامر کی طرف سے ان کی تقرری کا حکم جاری فرماتے تھے اور [آپ(عج) ہی کے حکم پر] سابقہ نائب اگلے نائب کی جانشینی کا اعلان کرتے تھے۔[15]

نیابت کا دور

امام زمانہ کے پچھلے تین نائبوں کے ساتھ علی بن محمد سمری کا کیا تعاون رہا اس حوالے سے کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں حتی ان کی اپنی نیابت کے دوران بھی ان کی کسی خاص سرگرمیوں کے بارے میں کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔[16] لیکن کہا جاتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان کی عظمت و جلالت اور ان پر اتنا ہی بھروسہ تھا جتنا ان سے پہلے والے نائبین پر تھا اور پہلے والے نائبین کی طرح تمام شیعوں ان کو بھی تسلیم کرتے تھے۔[17] شیخ صدوق کی روایت کے مطابق بغداد سمیت دوسرے بلاد اسلامی میں موجود تمام وکلا انہیں امام زمانہ کا نائب برحق سمجھتے تھے اور وجوہات شرعی ان کے حوالے کرتے تھے۔[18]

علی بن محمد سمری کی نیابت کا عرصہ ظلم و ستم اور خونریزی کا دور تھا اسی وجہ سے پہلے والے نائبین کی نسبت ان کی سرگرمیاں مخفی طور پر حکومت وقت کے کے کارندوں کے نظروں سے دور انجام پاتی تھی۔[19] بعض محققین کے مطابق علی بن محمد سمری کی نیابت کے عرصے کا مختصر ہونے اور غیبت صغری اور نیابت خاصہ کے دور کے ختم ہونے کی اصلی علت بھی عباسی خلفاء کی جانب سے حد سے زیادہ دباؤ اور سختی بتائی جاتی ہے۔[20][21]

علی بن محمد سمری کے امام زمانہ(ع) کی توقیع

"خداوندعالم تیری وفات پر تمہارے بھائیوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ تم چھ دن کے اندر اندر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤگے۔ پس اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر مت کرو کیونکہ اس کے بعد غیبت کبری کا آغاز ہوگا اور ایک طویل عرصے تک جب تک خداوندعالم اجازت نہ دے ظہور نہیں کرونگا یہاں تک کہ لوگوں کے دل قساوت سے اور دنیا بے انصافی سے بھر جائیں گے اور یاد رکھو سفیانی کے قیام اور صیحہ آسمانی سے پہلے جو بھی مجھ سے ملاقات کا دعوا کرے وہ جھوٹا ہے۔"

سمری کے نام امام زمانہ کی توقیع

علی بن محمد سمری کی وفات سے چھ دن پہلے امام زمانہ (ع) کی طرف سے ان کے نام ایک توقیع صادر ہوئی۔ امام (ع) نے اس توقیع میں سمری کی وفات اور غیبت کبری کے آغاز کی خبر دیتے ہوئے ان کو اپنے کاموں کو سمیٹنے اور کسی اور کو اپنا جانشین مقرر نہ کرنے کا حکم دیا۔[22][23] مقررہ تاریخ کو علی بن محمد سمری کے وکلاء ان کے پاس جمع ہو گئے او ان سے پوچھا کہ تمہارا جانشین کون ہوگا؟ سمری نے جواب دیا: "امر خدا کے ہاتھ میں ہے اور خدا خود اس کی حفاظت کرے گا"۔ یہ وہ آخری جملہ تھا جو سمری کی وفات سے پہلے ان کے منہ سے نکلا۔[24]سمری کی وفات کے بعد امام زمانہ (ع) کا ان کے نائبین خاص کے ساتھ براہ راست رابطہ منقطع ہو گیا۔[25]

کرامات

احادیث کی کتابوں میں علی بن محمد سمری کے حوالے سے مختلف کرامات نقل ہوئی ہیں جو حقیقت میں شیعوں کی شکوک و شبہات کے ازالے کے لئے تھیں۔ شہر مقدس قم سے آئے ہوئے وفد کو ابن بابویہ (شیخ صدوق کے والد محترم) کی وفات کی خبر دینا انہی کرامات میں سے ایک ہے۔[26] صالح بن شعیب طالقانی، احمد بن ابراہیم مخلد سے نقل کرتے ہیں کہ میں بغداد میں علماء و مشایخ کے پاس پہنچا جہاں پر علی بن محمد سمری بھی حاضر تھے۔ انہوں نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا: خدا علی بن بابویہ قمی (شیخ صدوق کے والد) پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ اس مجلس میں موجود مشایخ نے اس تاریخ کو نوٹ کیا بعد میں پتہ چلا کہ علی بن بابویہ اسی تاریخ کو وفات پا گئے تھے۔[27]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۲، ص۳۰۵.
  2. صدر، تاریخ الغیبہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۱۳.
  3. نہاوندی، العبقری الحسان، ۱۳۸۶ش، ج۵، ص۱۱۶.
  4. جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۷۹.
  5. جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت، ص210.
  6. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۵۸۳ بہ نقل از اثبات الوصیہ، ۱۴۲۶ق، ص۲۵۵.
  7. جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۷۹.
  8. طوسی، رجال، ص389.
  9. صدر، تاریخ الغیبہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹.
  10. طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ق، ص۳۹۶.
  11. رہ توشہ عتبات عالیات، ص۳۹۴.
  12. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۸.
  13. صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ش، ج۲، ص۵۰۳.
  14. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۲۶۰.
  15. طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، ج2، ص478.
  16. جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۸۰.
  17. صدر، تاریخ الغیبہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۱۳.
  18. صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ش،ج۲، ص۵۱۷.
  19. غفارزادہ، زندگانی نواب خاص امام زمان، ۱۳۷۵ش، ص۳۰۴.
  20. صدر، تاریخ الغیبہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۱۴.
  21. جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۸۰.
  22. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۱۶.
  23. طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۳ش، ج۲، ص۵۵۵-۵۵۶.
  24. طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ق، ص۳۹۵.
  25. صدر، تاریخ الغیبہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۱۴.
  26. طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ق، ص۳۹۶.
  27. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۰۳.

مآخذ

  • امین عاملی، سید محسن، اعيان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف‏، ۱۴۰۳ق.
  • جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج)، ترجمہ محمد تقی آیت اللہی، امیرکبیر، تہران، ۱۳۸۵ش.
  • جباری، محمدرضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمۃ علیہم السلام، قم، مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی، ۱۳۸۲ش.
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، ١٣٨١ش.
  • جمعی از نویسندگان، رہ‌توشہ عتبات عالیات، تہران، مشعر، ۱۳۸۸ش.
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبہ، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۱۲ق.
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق.
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، اسوہ، ۱۳۸۳ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، آل البیت، ۱۴۱۷ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۳ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ۱۴۱۱ق.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، المطبعۃ المرتضویۃ، ۱۳۵۲ق.
  • نہاوندی، علی‌اکبر، العبقری الحسان فی احوال مولانا صاحب الزمان، قم، مسجد جمکران، ۱۳۸۶ش.