امام علیؑ کی حکومت
| امام علیؑ کی حکومت | |
|---|---|
حکومت امام علیؑ کی وسعت، ماخوذ از اطلس شیعہ (کتاب)، تالیف: رسول جعفریان۔ اس نقشے میں، امام علیؑ کے ماتحت علاقوں کو سبز رنگ میں اور معاویہ بن ابی سفیان کے زیرِ تسلط علاقوں کو سرخ رنگ میں دکھایا گیا ہے۔[1] | |
| معلومات حکومت | |
| دوسرے نام | علوی حکومت(35 ہجری-40ہجری) |
| جغرافیایی حدود | حِجاز، عراق، ایران، مصر، یَمن، عُمّان اور جزیره کی سرزمین |
| خصوصیات | عدل و انصاف • دینی تعلیمات پر پایبندی • عوامی امنگوں اور ارادے سے معمور حکومت • خلافت راشدہ کے دور کا اختتام |
| اہم اقدامات | سیرتِ نبویؐ کا احیا • معاشرے سے فساد کا خاتمہ • نسلی امتیاز اور طبقاتی نظام کی نفی |
| اہم واقعات | واقعہ حکمیت |
| دار الحکومت | کوفہ |
| جنگیں | جنگ جمل • جنگ صفین • جنگ نہروان |
| قبل از | خلافت امام حسنؑ اور خلافت بنی امیہ |
| بعد از | خلافت عثمان |
| افراد | |
| عمال | مالک اَشْتر • ابن عباس • عُثمان بن حُنَیْف • محمد بن اَبی بَکر • قُثَم بن عباس |
امام علیؑ کی حکومت مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے صدر اسلام میں اپ کے پانچ سالہ دورِ حکمرانی کو کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت 35ھ میں شروع ہوئی اور 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت پر ختم ہوئی۔ اس دور کو اسلامی تاریخ کا اہم ترین دورِ حکمرانی قرار دیا جاتا ہے جو عدل و انصاف اور دینی اصولوں پر مبنی حکومت کی نمایاں مثال ہے۔
شیعہ عقیدے کے مطابق، سنہ 35 ہجری میں امام علیؑ کے حکومت سنبھالنے، بنیاد غدیر خم میں لوگوں کا نبی اکرمؐ کے ساتھ کئے گئے وعدے کی تکمیل کی میں تاخیر تھا، جہاں پیغمبر اسلامؐ نے حضرت علیؑ کو اپنا جانشین اور امت کا امام مقرر فرمایا تھا۔ امام علیؑ ابن ابی طالب کی حکومت، خلیفہ سوم کے خلاف عوامی ناراضگی اور ان کے قتل کے بعد، مسلمانوں کی اکثریت کے اصرار پر قائم ہوئی۔
تاریخی روایات کے مطابق، امام علیؑ نے ابتدا میں خلافت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ آپؑ اسلامی معاشرے کی حالت کو ناگفتہ بہ دیکھ رہے تھے کیونکہ پچھلی تین خلافتوں کے دوران، معاشرے میں گہرے طبقاتی اختلافات پیدا ہوچکے تھے، دشمنانِ اسلام اسلامی حکومت میں اقتدار میں آچکے تھے، پیغمبرؐ کی سنتیں بدل دی گئی تھیں اور جاہلیت کی ایک نئی شکل نے جنم لے لیا تھا۔
تاریخ کے محققین کے مطابق، بدعنوانیوں، ناانصافی اور بگاڑ کے خلاف امام علیؑ کی جدوجہد ہی ان کے دورِ حکومت میں مسائل کا سبب بنی۔ آپ ہر چیز سے زیادہ عدل و انصاف کے قیام، پیغمبر اکرمؐ کی سیرت کو زندہ کرنے، معاشرتی برابری قیام اور بدعنوانی کے خاتمے پر زور دیتے تھے۔ انہی اصلاحات کی وجہ سے انہیں تین بڑی داخلی جنگوں؛ یعنی جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کا سامنا کرنا پڑا، ان جنگوں نے امام علیؑ کی حکومت کی بڑی توانائی صرف کردی۔
امام علیؑ کی حکومت چار سال اور نو ماہ پر مشتمل رہی اور ان کی شہادت کے ساتھ ختم ہوئی۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ امام علیؑ اپنے تمام اصلاحی منصوبے مکمل طور پر نافذ نہ کرسکے، لیکن آپؑ نے ایک ایسا حکومتی نظام قائم کیا جو عدل، مساوات اور ایک معیاری اسلامی حکومت پر مبنی تھا جس نے نسل پرستی و معاشی تفریق کا خاتمہ کیا۔ امام علیؑ کی حکومت کو بعد کی اسلامی حکومتوں کے لیے ایک نمونہ اور معیار سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی اور شیعہ فکر میں امام علیؑ کی حکومت کا مقام
امام علیؑ کی حکومت، خلیفہ سوم عثمان بن عفان کے قتل کے بعد سنہ 35 ہجری میں شروع ہوئی۔[2] لبنانی مؤرخ حسن زین کے مطابق، امام علیؑ نے اپنی حکومت کے ذریعے اسلامی حکومت کے اصول، اقدار اور احکام کی ایک درست تصویر آنے والی نسلوں کے لئے پیش کی۔[3]
ایرانی محقق اور اسلامی تاریخ کے ماہر رسول جعفریان لکھتے ہیں: امام علیؑ نے گذشتہ تین خلفا کے برعکس، ایک خالص اسلامی حکومت قائم کی جو کسی بھی اسلامی اصول سے منحرف نہ تھی بلکہ مکمل طور پر اسلامی ضوابط پر مبنی تھی۔[4] ان کے بقول، امام علیؑ نے اُس وقت کے معاشرتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حکومت میں سب سے زیادہ انصاف کے نفاذ، سنت رسولؐ کے احیاء، معاشرتی فساد کی اصلاح اور عرب و عجم کے درمیان مساوات پر زور دیا۔[5] اگرچہ امام علیؑ اپنے اصلاحی منصوبوں کو مکمل طور پر نافذ نہ کرسکے؛[6] لیکن نہج البلاغہ کے محقق اور کئی کتابوں کے مصنف، مصطفی دلشاد تہرانی کے مطابق، امام علیؑ نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اور اپنے بعد آنے والے حکمرانوں کے لیے ایک مثالی حکومت قائم کی۔[7] اسی تناظر میں جمہوری اسلامی ایران کے دوسرے رہبر، سید علی خامنہ ای بھی امام علیؑ کی حکومت کو ہر دور کے لیے ایک مکمل نمونہ قرار دیتے ہیں۔[8]
مشہور سنی شارحِ نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ سیاسی بصیرت اور حکومتی تدبیر کے حوالے سے حکمرانوں میں امام علیؑ کا کوئی ہم پلہ نہیں۔[9] ان کے مطابق، بعض سنی متکلمین نے بھی امام علیؑ کی عادلانہ حکومت کو اُس مشکل دور میں ایک معجزہ قرار دیا ہے۔[10] امام علیؑ کی شہادت کے ساتھ وہ دور بھی ختم ہوگیا جسے اہل سنت خلافتِ راشدہ کا سنہرا دور سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک مثالی دور تھا، جس کے بعد امت میں بدعتیں اور انحرافات پیدا ہوئے۔[11]
امام علیؑ کی خلافت کا آغاز
عثمان بن عفان کے قتل کے بعد، مدینہ کے لوگوں (انصار و مہاجرین) نے حضرت علیؑ کی طرف رخ کیا تاکہ آپؑ کے ہاتھوں پر بیعت کر کے آپؑ کو خلیفہ منتخب کریں۔[12] سنی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مصری مصنف طہ حسین کے مطابق، اس وقت خلافت کا معاملہ پیچیدہ ہوچکا تھا کیونکہ کوفہ کے لوگ زبیر کو، بصرہ کے لوگ طلحہ کو جبکہ مصر کے لوگ امام علیؑ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے لیکن یہ تینوں افراد خلافت قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔[13] اگرچہ عثمان کی خلافت ان کے مخالفین کے ہاتھوں ختم ہوئی تھی لیکن وہ اصل خلافت کے معتقد اوراس پر پابند تھے اور جانتے تھے کہ نئی خلافت کو صرف اہلِ مدینہ کی تائید سے ہی قانونی حیثیت ملے گی۔[14] اسی لیے وہ اصحاب پیغمبرؐ کے گرد جمع ہوئے اور اُن سے اصرار کیا کہ کسی کو خلافت کے لیے منتخب کریں اور ان سب نے علیؑ کو اس کے لیے چنا[15] اور عثمان کے مخالفین نے صرف بیعت کے عمل کی نگرانی کی اور کسی پر زبردستی نہ کی۔[16] تیونسی مؤرخ ہشام جُعَیط کے مطابق، امام علیؑ کی خلافت در حقیقت مہاجرین و انصار کے انتخاب کا نتیجہ تھی، عثمان کے مخالفین کا اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں تھا۔[17]
تاریخی روایات اور رپورٹ کے مطابق، لوگوں نے امام علیؑ سے 18 ذوالحجہ سنہ 35 ہجری[18] بعض کے مطابق 19 ذو الحجہ[19] اور تیسرے بعض لوگوں کے مطابق 23 ذوالحجہ[20] کو بیعت کی ہے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق، یہ خلافت دراصل وہی بیعت تھی جو دیر سے عمل میں لائی گئی؛ پیغمبر اکرمؐ نے مختلف مواقع پر اور خاص طور پر غدیر خم میں علیؑ کو اپنا جانشین اور امت کا امام قرار دیا تھا۔[21] اس بیعت میں نہ صرف مہاجرین و انصار، بلکہ عراق اور مصر کے لوگوں نے بھی شرکت کی، جس کی وجہ سے یہ انتخاب عوامی حمایت کا پہلو نمایاں تھا۔[22] سنہ 10 صدی ہجری کے سنی مؤرخ دیاربَکْری کے مطابق، جنگ بدر میں شریک تمام زندہ اصحاب نے علیؑ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔[23] جعفر سبحانی کے مطابق، خلافتِ اسلامی کی تاریخ میں کوئی اور خلیفہ اتنی بھاری اکثریت سے منتخب نہیں ہوا جتنا امام علیؑ مسند خلافت کے لیے منتخب ہوئے۔[24]
پس منظر
| حیات طیبہ | |
|---|---|
| یوم الدار • شعب ابی طالب • لیلۃ المبیت • واقعہ غدیر • مختصر زندگی نامہ | |
| علمی میراث | |
| نہجالبلاغہ • غرر الحکم • خطبہ شقشقیہ • بغیر الف کا خطبہ • بغیر نقطہ کا خطبہ • حرم | |
| فضائل | |
| آیہ ولایت • آیہ اہلالذکر • آیہ شراء • آیہ اولیالامر • آیہ تطہیر • آیہ مباہلہ • آیہ مودت • آیہ صادقین • حدیث مدینہالعلم • حدیث رایت • حدیث سفینہ • حدیث کساء • خطبہ غدیر • حدیث منزلت • حدیث یومالدار • حدیث ولایت • سدالابواب • حدیث وصایت • صالح المؤمنین • حدیث تہنیت • بت شکنی کا واقعہ | |
| اصحاب | |
| عمار بن یاسر • مالک اشتر • سلمان فارسی • ابوذر غفاری • مقداد• عبید اللہ بن ابی رافع • حجر بن عدی • مزید | |
نہج البلاغہ کے محقق دلشاد تہرانی کا کہنا ہے کہ امام علیؑ کی خلافت سے پہلے، اسلام کی آڑ میں ایک نئی جاہلیت پیدا ہوچکی تھی، جس نے سماجی، ثقافتی اور معاشی سطح پر گہرے اثرات ڈالے۔[25] عمر بن خطاب کے دور میں ایک طبقاتی نظام وجود میں آیا، جہاں سماجی انصاف کو پس پشت ڈالا گیا تھا؛[26] کیونکہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفے نے کچھ قبائل اور افراد کو ان کے سابقہ اسلامی کارناموں کی بنیاد پر خصوصی امتیاز دیا تھا۔[27] قریش کو غیر قریشیوں پر، مہاجرین کو انصار پر اور عرب کو غیر عرب پر فوقیت دی تھی۔[28] لبنانی مؤرخ ابراہیم بَیْضون کے مطابق، عمر بن خطاب کے دور میں اسلامی حکومت مقتدر حکومت تھی لیکن عثمان کے دور میں خلافت، بادشاہت میں بدل گئی۔[29]
عثمان بن عفان کے زمانے میں، امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا اور مالِ غنیمت، جزیہ اور ٹیکس صرف مخصوص افراد میں تقسیم ہوتے تھے۔[30] اسلامی فتوحات کے نتیجے میں دولت مسلمانوں کے ہاتھ آئی، مگر چونکہ مساوات کا فقدان تھا، انہوں نے ایک ایسا طبقہ پیدا کردیا جو دین کو اپنی خوش حالی کا ذریعہ بنانے لگا۔[31] مصری مصنف مأمون غَریب کے مطابق، مختلف عوامل و اسباب کی بنیاد پر عثمان کے طرزِ حکومت پر نارضایتی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی اور آخرکار اس حد تک جا پہنچی کہ اُسے روکنے کی کوئی طاقت باقی نہ رہی۔[32] عثمان نے بنی امیہ کو حکومتی عہدوں پر اس قدر مسلط کردیا کہ بعض لوگ اس دور کو "اموی حکومت" کا آغاز کہتے ہیں۔[33] اسی زمانے میں شام میں قبیلہ پرست حکومت قائم ہوئی، جس نے دین کو ایسی شکل دی کہ قبائل اپنے جاہلی تعصبات کو دوبارہ زندہ کرسکیں۔[34] یہی جاہلی تعصبات امام علیؑ کی خلافت کے وقت عروج پر پہنچ چکے تھے۔[35]
عثمان کے طرزِ حکومت پر عدم رضایت کے باعث مصر، بصرہ، کوفہ اور مدینہ کے کچھ لوگوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا۔[36] بعد ازآں چند افراد نے اُن پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا۔[37] عثمان کے قتل کے بعد، مسلمانوں کی توجہ حضرت علیؑ کی طرف گئی اور آپؑ کو اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی پیشکش کی گئی۔[38]
امام علیؑ کا حکومت قبول نہ کرنا
’’مجھے چھوڑ دو اور کسی اور کو دعوت دو؛ کیونکہ ہم ایک ایسے معاملے کی طرف جا رہے ہیں جو کئی رخ اور مختلف زاویے رکھتا ہے۔ دل اس پر پائیدار اور عقلیں ثابت نہیں رہ سکتیں۔ حقیقت کے افق پر فساد کی گہری گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اور سیدھی راہ بھی پہچانی نہیں جا رہی۔‘‘
نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 92، ص136.
تاریخی روایات کے مطابق، امام علیؑ لوگوں کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود خلافت قبول کرنے سے انکار کرتے رہے اور انہیں کہتے کہ کسی اور کے پاس جائیں۔[39] تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے مورخ ابن اعثم کوفی کے مطابق، حضرت علیؑ نے لوگوں سے کہا کہ وہ طلحہ اور زبیر کے پاس جائیں اور ان دونوں سے حکومت کی ذمہ داری سنبھالنے کی درخواست کریں۔[40] لیکن جب امام علیؑ نے طلحہ اور زبیر کو خلافت کی پیشکش کی تو انہوں نے خود حضرت علیؑ کو اس عہدے کے لیے زیادہ موزوں قرار دیا۔[41] ابن اعثم لکھتے ہیں: جب طلحہ و زبیر نے خود خلافت امام علیؑ کو پیش کی، تو امام کو خدشہ ہوا کہ بعد میں یہی دونوں افراد ان کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں؛ لیکن ان دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔[42]
فارسی زبان کی کتاب "بامداد اسلام" کے مولف عبد الحسین زرّین کوب کے مطابق، حضرت علیؑ نے نہایت سنجیدگی اور جدیت کے ساتھ خلافت کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور ان کے انکار کا مقصد محض لوگوں کی توجہ حاصل کرنا نہیں تھا۔[43] رسول جعفریان حضرت علیؑ کی جانب سے خلافت قبول نہ کرنے کی بنیاد یہ بتاتے ہیں کہ اپ علیہ السلام موجودہ معاشرے کو اس قدر زیادہ فاسد سمجھتے تھے کہ ان کی رھبریت کی باگ ڈور سنبھال سکتے اوراپنے اصلاحی منصوبہ کو عملی جامہ پہنا پاتے ۔[44]
حکومت قبول کرنے کی شرائط
جب لوگوں نے امام علیؑ کے سامنے خلافت قبول کرنے کے لیے زیادہ اصرار کیا،[45] تو حضرت علیؑ نے اس شرط کے ساتھ کہ ان کی حکومت صرف قرآن اور سنتِ رسولؐ کی بنیاد پر ہوگی اور لوگ بھی اسی بنیاد پر ان کے ساتھ بیعت کریں۔[46] امامؑ نے مزید شرط رکھی کہ بیعت خفیہ نہیں بلکہ علی الاعلان اور مسجد میں عوامی طور پر ہوگی اور یہ بیعت کرنے والوں کی مکمل رضامندی کے ساتھ انجام پائے گی۔[47] چوتھی صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم ابن جنید اسکافی کے مطابق، امام علیؑ کی ایک اور شرط یہ تھی کہ لوگ مکمل طور پر ان کی حکومت کے ساتھ دیں گے۔[48] طبری کی روایت کے مطابق، ایک شخص نے امام علیؑ کے پاس آکر بیعت کی خواہش ظاہر کی، لیکن اس شرط پر کہ حکومت شیخین (ابوبکر اور عمر) کی سنت پر ہو۔ امام علیؑ نے اس شرط کو ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ اگر ان دونوں کی سنت کتابِ خدا اور سنتِ رسولؐ سے متصادم ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔[49]
بیعت میں آزادی
حضرت علیؑ کی حکومت میں لوگوں کی بیعت مکمل طور پر رضاکارانہ تھی؛ کسی پر کسی قسم کی زبردستی نہیں تھی۔[50] مصری کے روشن خیال مصنف طہ حسین لکھتے ہیں کہ امام علیؑ نے کسی کو بیعت پر مجبور نہیں کیا اور نہ کسی پر دباؤ ڈالا۔[51] جب کچھ افراد نے بیعت سے انکار کیا تو امام نے انہیں آزاد چھوڑ دیا اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی۔[52] مالک اشتر چاہتے تھے کہ تمام لوگوں سے زبردستی بیعت لی جائے تاکہ بعد میں کوئی حکومت کے خلاف بغاوت نہ کرے، مگر امام علیؑ نے اس کی مخالف کی۔[53] تاہم، جرمن مستشرق ویلفریڈ مادلونگ کا کہنا ہے کہ عثمان کے خلاف قیام کرنے والوں نے حضرت علیؑ کی مرضی کے برخلاف بیعت کے لیے لوگوں پر دباؤ ڈالا۔[54] اس خیال کو جعفر سبحانی نے مسترد کیا ہے اور کہا کہ یہ ان مؤرخین کی باتیں ہیں جنہوں نے تاریخ میں تحریف اور جھوٹ سے کام لیا۔[55]
بیعت سے انکاری افراد
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے سنی مورخ اِبنجَریر طَبَری کے مطابق، انصار میں سے صرف چند افراد کے سوا سب نے حضرت علیؑ سے بیعت کی۔[56] مراکشی مؤرخ ابراہیم حَرَکات کا کہنا ہے کہ جنہوں نے بیعت سے انکار کیا وہ وہی لوگ تھے جنہیں عثمان کے دور حکومت میں سرکاری عہدے یا دیگر فوائد حاصل ہوئے تھے۔[57] اس گروہ میں یہ افراد شامل تھے: حسان بن ثابت، کعب بن مالک، مسلمہ بن مخلد اور محمد بن مسلمہ۔ ان کے علاوہ کچھ دیگر افراد بھی تھے جوعثمانیہ (عثمان کے حامی) کہلاتے تھے۔[58] غیر انصاری مخالفین میں عبد اللہ بن عمر، زید بن ثابت اور اسامہ بن زید شامل تھے؛ یہ سب عثمان کے قریبی افراد تھے۔[59]
امام علیؑ کا دائرہ حکومت

حضرت علیؑ کو مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد، شام کے سوا خلافتِ عثمان کے تمام علاقے ان کی حکومت کے ماتحت آ گئے۔[61] اس وقت اسلامی سلطنت کا جغرافیائی دائرہ بہت وسیع ہوچکا تھا؛ شمال میں قُسطَنطَنیّہ (استنبول) اور بحیرۂ خزر(Caspian Sea)، شمال مغرب میں رومی سلطنت کی سرحدیں، شمال مشرق میں نیشاپور اور مرو (خراسان)، جنوب میں یمن، مغرب میں مصر، مشرق میں سِجِستان(سیستان) اور جنوب مشرق میں عمان تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ خلافت حجاز، عراق، ایران، شام، مصر، یمن، عمان اور جزیرہ (بین النہرین کا علاقہ) جیسے خطوں پر مشتمل تھی۔[62] اگرچہ شام بظاہر اسلامی ریاست کا حصہ تھا، مگر حضرت علیؑ کی حکومت کے ماتحت نہیں آسکا اور یہ علاقہ معاویہ کے ہاتھ میں رہا۔[63]
ایران کے بہت سے علاقوں کی مرکزی حکومت سے دوری کے سبب خاص اہمیت نہ تھی۔[64] لیکن بصرہ ایک اہم علاقہ تھا، کیونکہ اس کے تحت اہواز، فارس، کرمان، سیستان، بحرین اور عمان جیسے خطے آتے تھے اور ان کا ٹیکس بصرہ منتقل ہوتا تھا۔[65] مصر دریائے نیل کی موجودگی، زرخیزی، بڑی آبادی، علم و تمدن کی بنا پر نہ صرف اسلامی دنیا، بلکہ دنیا کی دیگر حکومتوں کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل خطہ تھا اسی لیے امام علیؑ نے مصر کے انتظامات کے لیے فوری اقدامات کئے۔[66] چونکہ یہ علاقے جغرافیائی، ثقافتی اور معاشرتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے، اس لیے حضرت علیؑ نے وہاں ایک ایسے گورنر کو منصوب کیا جو سمجھ دار، تجربہ کار اور مقامی حالات سے باخبر تھا۔[67]
دارالحکومت

حضرت علیؑ نے جنگ جمل میں کامیابی کے بعد کوفہ کو اسلامی حکومت کا دارالحکومت بنایا۔[68] ان کے اس فیصلے کے پیچھے کئی وجوہات تھیں؛ پہلی بات یہ کہ حضرت علیؑ کو معلوم تھا کہ جنگ جمل کی سازش کا اصل محرک معاویہ تھا؛ اس لیے انہوں نے دارالحکومت کو شام کے قریب منتقل کر کے فتنہ کی جڑ(معاویہ) کو ختم کرنے کا ارادہ کیا۔[69] دوسری بات یہ کہ اہل حجاز کی اکثریت حضرت علیؑ کی خلافت قبول ماننے کو تیار نہ تھی کیونکہ حضرت علیؑ نے رسول خداؐ کے ساتھ جنگوں میں نہایت درجہ کردار ادا کیا تھا اور آپؑ کے ہاتھوں اہل حجاز کے بہت سے بزرگ مارے گئے تھے؛[70] لہٰذا بعض اہل حجاز نے بیعت سے انکار کیا اور دوسرے بعض نے با دل ناخواستہ اسے قبول کیا۔[71]
تاریخ اسلام اور تاریخ تشیع کے مشہور ماہر مورخ سید جعفر مرتضی عاملی کے مطابق، کوفہ کو دارالحکومت بنانے کے کچھ اسٹریٹیجک فوائد بھی تھے۔ انہوں نے کوفہ کی کچھ امتیازی خصوصیات یوں بیان کی ہیں: عراق کی بھرپور معیشت اور مدینہ و حجاز پر اقتصادی برتری، کوفہ کے باشندوں کی امام علیؑ سے محبت و وفاداری، انسانی اور عسکری وسائل کی آسان فراہمی اور دیگر خطوں سے بہتر رابطہ۔[72] جس وقت امام علیؑ مسند خلافت پر فائز ہوئے کوفہ اسلامی دنیا کے تقریباً درمیان میں واقع تھا؛ ایران، حجاز، شام اور مصر سب اس سے نسبتاً برابر کے فاصلے پر تھے؛[73] اسی وجہ سے حضرت علیؑ نے کوفہ کو "قُبّۃُ الاسلام" (یعنی اسلام کا مرکز) سے تعبیر کیا۔[74] مدینہ، جو پہلے مرکز خلافت تھا، حضرت علیؑ کے اس اقدام کے بعد صرف قرآن و سنت کی تعلیم کا مرکز بن کر رہ گیا اور اس کی سیاسی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔[75]
اسلامی فتوحات کا رک جانا
چودہویں صدی ہجری کے معروف اسلامی مفکر مرتضی مطہری کے مطابق، امام علیؑ کی ترجیح بیرونی فتوحات اور جغرافیائی پھیلاؤ نہیں، بلکہ آپؑ کی پوری کوشش اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی۔[76] شہید مطہری مزید لکھتے ہیں کہ امام علیؑ کے خیال میں اسلام ظاہری طور پر پھیل چکا تھا، مگر اندر سے زوال کا شکار ہوچکا تھا۔[77] اس سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ حضرت علیؑ کی حکومت مسلسل داخلی بغاوتوں جیسے جنگِ جمل، جنگِ صفین اور جنگِ نہروان میں مصروف رہی، اس لیے ان کے دور میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ عارضی طور پر رک گیا۔[78]
امام علیؑ کی حکومت کا ڈھانچہ
خلافت امام علیؑ کے دور میں اسلامی حکومت کا نظام سیاسی طور پر مرکزی (یعنی مرکزی قیادت کے تحت) تھا، مگر انتظامی لحاظ سے غیرمرکزی اور خودمختار نوعیت کا تھا۔[79] امام علیؑ کی حکومت کا ڈھانچہ پہلے دو خلفاء (ابوبکر اور عمر) کے طرزِ حکومت کے مشابہ تھا، مگر سیاسی حکمت عملی اور عملی کارکردگی کے لحاظ سے دو خلفاء کی خلافت سے بنیادی فرق رکھتا تھا؛ اسی وجہ سے امام علیؑ کی خلافت کو شیعہ مکتبِ فکر اور بہت سے اسلامی مفکرین ایک آئیڈیل حکومت سمجھتے ہیں۔[80] عثمان کے دورِ خلافت میں، تمام حکومتی عہدے بنی امیہ کے خاندان کو دیے گئے تھے؛ حتی ان افراد کو بھی جو کبھی رسول خداؐ کے سخت دشمن تھے۔ یہی عمل بنی امیہ کے اقتدار میں اضافے کا باعث بنا اور بعد ازآں امام علیؑ کی حکومت میں بحران کی شکل اختیار کرگیا۔[81] اسی لئے جب خلافت امام علیؑ کو ملی تو آپؑ نے ملکی سیاسی و انتظامی نظام میں اصلاحات کا فیصلہ کیا۔[82] ہشام جُعَیط کے مطابق؛ امام علیؑ خلافت کی اصلاح اور امت اسلامی میں دوبارہ وحدت و اتحاد قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ اسی مقصد کے تحت آپؑ نے مالک اشتر جیسے افراد کو حکومت میں شامل کیا؛ جو عثمان کے قتل میں ملوث نہ تھے۔ اس طرزِ عمل مدینہ کی عوام کی طرف سے بھی تائید کی گئی۔[83]
عمال حکومت
امام علی بن ابی طالبؑ نے اپنی حکومت کے عاملین (کارگزاروں) کی مؤثریت اور فوری اقدام کو یقینی بنانے کے لیے بعض کو مکمل اختیارات دے دیے تھے۔[84] عاملین حکومت دو قسم کے ہوتے تھے: کچھ عاملین اہم، حساس اور بڑے علاقوں میں مقرر کیے گئے تھے جبکہ کچھ دوسرے نسبتاً چھوٹے علاقوں میں متعین کیے گئے۔ اہم علاقوں کے کارگزاروں کو مکمل اختیارات حاصل تھے۔ ان میں نمایاں نام یہ ہیں: عثمان بن حنیف، مالک اشتر، محمد بن ابی بکر اور قثم بن عباس۔[85] انہیں جو اختیارات دیے گئے تھے، ان میں درج ذیل امور شامل تھے: عسکری امورِ عسکری (فوجی معاملات)، قاضیوں کی تقرری، شرعی حدود کا نفاذ، حاجیوں کی سرپرستی، دشمنوں سے جنگ اور ٹیکس (خراج) اور مالِ غنیمت کی وصولی۔[86] امام علیؑ مالی فساد اور بدعنوانی سے بچاؤ کے لیے اپنے گورنروں کے امور پر مستقل نگرانی کرتے تھے۔[87] کارگزاروں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر یا تو انعام دیا جاتا تھا یا تنبیہ۔ امامؑ ان کے ذاتی مسائل حل کرنے اور ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کا بھی اہتمام کرتے تھے۔[88] عبد الحسین زرین کوب کے مطابق، مقرر کردہ نئے گورنر نہ کوفہ میں مقبول ہوئے اور نہ ہی شام میں ان کو قبول کیا گیا۔[89]
شایستہ سالاری
ہمہ جہت موزوں افراد کی تقرری کو امام علیؑ کی سیاسی سیرت کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔[90] آپؑ گورنر، قاضی، افسر یا دیگر عہدے داروں کو صرف صلاحیت، تجربہ اور دیانتداری کی بنیاد پر مقررکرتے تھے نہ کہ کسی خاندانی یا قبائلی تعلق پر۔[91] مغیرہ بن شعبہ نے امام علیؑ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ معاویہ اور عثمان کے باقی کارگزاروں کو کچھ وقت کے لیے ان کے عہدوں پر باقی رہنے دیا جائے[92] تاکہ حکومت مستحکم ہوجائے۔[93] ابن عباس نے بھی مغیرہ کی اس تجویز کو خیرخواہانہ قرار دیا،[94] مگر امام علیؑ نے اسے ٹھکرا دیا۔[95] امامؑ کے اس فیصلے کو انصاف پسندی اور شایستہ سالاری کی رعایت قراردی گئی ہے۔[96] چنانچہ جب آپؑ خلیفہ بنے تو عثمان کے تمام عاملین جنہیں محض رشتہ داری یا تعلقات کی بنا پر عہدے دیئے گئے تھے؛ برطرف کر دیئے گئے۔[97] اسی طرح امام علیؑ نے طلحہ اور زبیر کی درخواست بھی مسترد کردی کہ انہیں بصرہ اور کوفہ کی حکومت دی جائے۔[98] اس انکار پر وہ دونوں ناراض ہو کر مکہ چلے گئے اور وہاں عائشہ سے مل کر جنگ جمل کی راہ ہموار کی۔[99]
شرطۃ الخمیس
حضرت علی بن ابی طالبؑ نے ایک مسلح گروہ قائم کیا جسے "شُرطَۃُ الخمیس" کہا جاتا تھا۔ معاشرے میں امن و امان قائم رکھنا، واقعات و خطرات پر نظر رکھنا اور جرائم کی روک تھام کرنا اس گروہ کا بنیادی مقصد تھا۔[100] اسلامی حکومت میں پلیس (شرطہ) کو بہت اہم مقام حاصل تھا اور پلیس کا عہدہ اہم عہدہ سمجھا جاتا تھا؛ شہر کے حاکم کے بعد دوسرا بڑا حکومتی عہدہ سمجھا جاتا تھا۔[101] شرطۃ الخمیس کی اہم ذمہ داریاں کچھ اس طرح تھیں: مجرموں کی گرفتاری، جرائم سے بچاؤ کے لیے پیشگی اقدامات کرنا، عوامی نظم و امن عامہ کا تحفظ اور لوگوں کے مال و جان اور حقوق کی نگرانی۔[102]
عدالتی نظام
امام علیؑ نے اپنی خلافت کے وسیع دائرے کو مدنظر رکھتے ہوئے قضاوت (عدالت) کے امور کو کچھ افراد کے سپرد کیا۔ ان میں اہم نام درج ذیل ہیں: ابوالاسود دُؤلی کو بصرہ کا قاضی، شُریح بن حارث کندی کو کوفہ کا قاضی اور رفاعہ بن شداد کو اہواز کا قاضی مقرر کیا۔[103] عراقی مؤرخ باقر شریف قرشی کے مطابق، امام علیؑ کبھی خود بھی مقدمات کی سماعت کرتے تھے لیکن کوفہ میں قضاوت کا منصب شریح قاضی کو سونپ دیا تھا اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ فیصلوں کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ان کی درستگی پر نظر رکھی جاسکے۔[104] امام علیؑ کے دور میں خلافت میں عدلیہ آزاد تھی اور قانون سب کے لیے برابر تھا؛[105] حتیٰ کہ بوقت ضرورت خلیفہ کو بھی عدالت میں طلب کیا جاسکتا تھا اور عدالتی قانون کے مطابق خلیفہ کے خلاف بھی حکم جاری ہوسکتا تھا؛[106] چنانچہ ایک موقع پر امام علیؑ نے اپنا ذاتی مال ایک نصرانی شخص کے پاس دیکھا چونکہ آپؑ کے پاس اس سلسلے میں کوئی گواہ نہ تھا، قاضی نے غیر مسلم کے حق میں فیصلہ دیا۔[107]
باقر شریف قرشی کے مطابق، امام علیؑ وہ پہلے خلیفہ تھے جنہوں نے باقاعدہ جیل تعمیر کروائی۔[108] اگرچہ قبل از اسلام جیلیں موجود تھیں،[109] لیکن پیغمبر اکرمؐ اور پہلے دو خلیفہ (ابوبکر و عمر) کے دور میں جیل خانہ موجود نہ تھا، مدینہ میں مسجد نبوی کے کنار میں کسی کے گھر میں قیدی رکھے جاتے تھے جبکہ مکہ میں صفوان بن امیہ کے گھر کو قیدیوں کی رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا تھا[110] امام علیؑ کے دور کی جیل میں خاص اقدامات: کیے جاتے تھے، قیدیوں کے لیے قرآن کی تعلیم اور پڑھنا لکھنا سیکھنا لازمی تھا۔[111] قیدیوں کو نماز جمعہ میں شرکت کی اجازت تھی، بعد از نماز، قیدیوں کو واپس لایا جاتا تھا۔[112] حنفی مذہب کے فقیہ قاضی ابو یوسف کے مطابق، امام علیؑ پہلا خلیفہ تھے جنہوں نے قیدیوں کو خوراک و لباس فراہم کیا، خود کفیل قیدیوں کا ان کے مال سے اور نادار قیدیوں کا بیت المال سے خرچ پورا کیا جاتا تھا۔ یہی طرزعمل بعد کے خلفاء نے بھی اپنایا۔[113]
طرز حکومت
عدالت
علی بن ابی طالبؑ اپنے غلام کے ہمراہ میرے پاس آئے اور دو کرباسی قمیصیں خریدیں۔ پھر اپنے غلام سے فرمایا: جس قمیص کو چاہو لے لو۔ غلام نے ایک قمیص لے لی اور علیؑ نے دوسری بچی ہوئی قمیص کو پہن لیا۔
ابنحنبل، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع)، 1433ھ، ص128-129.
حضرت علیؑ کی حکومت کا سب سے بنیادی مقصد عدل و انصاف کا قیام تھا۔[114] عراقی مصنف عَزیز سید جاسِم کے مطابق، امام علیؑ کا پہلا عملی اقدام معاشی برابری کا نفاذ تھا۔[115] سابقہ خلفاء بیت المال کی تقسیم میں جنگوں میں شرکت، ایمان میں سبقت ان جیسے دیگر امور کو معیار بناتے تھے؛ لیکن امام علیؑ اس طریقے کو قرآن کے منافی قرار دیا لہٰذا آپؑ اس کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔[116] امام علیؑ نے خلافت سنبھالنے کے بعد عثمان کے دور میں مختلف لوگوں کو دی گئی تمام زمینوں اور املاک کو "مالِ خدا" قرار دیا اور واپس بیت المال میں شامل کرنے کا حکم دیا۔[117]
امام علیؑ نے زمام حکومت و خلافت سنبھالنے کے بعد برسوں سے جاری بدعنوانیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کیا اور عدل و انصاف کو پوری دقت سے نافذ کیا، انہیں چیزوں کے سبب اُن کے خلاف دشمنیاں پیدا ہوگئیں۔[118] یہ منصفانہ طرز حکومت نہ صرف طلحہ و زبیر جیسے صحابہ کو ناگوار گزرا، بلکہ اُن کے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب اور چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس بھی ان سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوگئے۔[119] امام علیؑ بیت المال کی تقسیم میں قریش کے مالداروں اور غیر عرب (عجم) غلاموں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ ان کی یہ بے لاگ عدالت عرب کے بڑے سرداروں کو غضبناک کردیتی تھی۔[120]
بیت المال کی تقسیم
حضرت علیؑ کی حکومت کو بیت المال کی حفاظت اور صاف شفاف تقسیم کے لحاظ سے بے مثال سمجھا جاتا ہے۔[121] امام علیؑ نے بیت المال کی تقسیم میں سخت رویہ اپنا رکھا تھا؛ ایک مرتبہ امام علیؑ کی بیٹی نے بیت المال کے کلید دارعلی بن ابی رافع سے مروارید کا ہار بطور امانت لے لیا؛ امام علیؑ نے اپنی بیٹی کی بھی سرزنش کی اور بیت المال کے عہدہ دار سے بھی بازپُرس کی۔[122] امام علیؑ نے بیت المال کی تقسیم کے سلسلے میں اسلامی خدمات یا ایمان میں سبقت کو باعث امتیاز نہیں بنایا؛ ایمان میں سبقت کو صرف ایک معنوی امر قرار دیا لہذا بیت المال کی تقسیم اور مالی حقوق کے دریافت میں سب مسلمان کو برابر سمجھا گیا۔[123] جب بعض سرداروں نے اعتراض کیا کہ حضرت عمر کی سنت (سبقت ایمانی اور رشتہ داری دوسروں پر فوقیت رکھتی تھی) پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا، توامام علیؑ نے فرمایا: رسول خداؐ کی سنت، عمر کی سنت سے برتر ہے۔ اس طرح ان کی زیادہ طلبی کو منفی جواب دیا گیا۔[124]
عوام سے رابطہ
لبنانی مؤرخ حَسَن زِین کے مطابق، امام علیؑ کے دور حکومت میں عوام کو اعلیٰ حکومتی اداروں سے براہِ راست اور آسان رابطے کی سہولت حاصل تھی۔ لوگ فعال انداز میں حکومتی امور میں شرکت کرسکتے تھے۔[125] اس دور میں عوام کو تنقید اور اعتراض کی آزادی حاصل تھی۔[126] محققین کے مطابق، ہر شہر کے لوگ اپنے حکمرانوں کی نگرانی کرتے اور کسی شکایت کی صورت میں براہِ راست امام علیؑ سے رجوع کرسکتے تھے۔[127] نہج البلاغہ کے خطبہ 216 میں مذکور مطالب کی بنیاد پر امام علیؑ نے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان سے کھل کر بات کریں اور کسی قسم کی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر بلا جھجک اپنے حکام سے بات کریں۔[128]
نہج البلاغہ کے خط 51 کے مطابق، امام علیؑ نے خراج وصول کرنے والے افسران کو ہدایت دی کہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں اور لوگوں کے ساتھ صبر و بردباری کا سلوک کریں۔[129] جب امام علیؑ نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر مقرر کیا تو انہیں نصیحت کی کہ تمام لوگوں کے ساتھ رحمدلی، خوش اخلاقی اور انسانیت کی بنیاد پر سلوک اختیار کرے؛ چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم۔[130]
مخالفین کو آزادی
مؤرخ مصطفی دلشاد تہرانی کے مطابق، امام علیؑ کے دور حکومت میں آزادیِ رائے مکمل طور پر موجود تھی؛ چونکہ ابتدا سے ہی عوام نے امام علیؑ سے آزادانہ بیعت کی اور امامؑ نے مخالفین کو بھی تحفظ فراہم کیا اور آزادی دی اور کسی کو ان کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت نہ دی۔[131] امام علیؑ کی حکومت میں مسلمان اور غیرمسلمان، دونوں قانون کے تحت محفوظ تھے۔ کسی کو بھی محض عقیدے کی بنیاد پر سماجی یا انسانی حقوق سے محروم نہ کیا گیا۔[132] چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مؤرخ سید جعفر شہیدی کے مطابق، حضرت علیؑ نے خوارج جیسے سخت مخالفین کے ساتھ بھی تحمل کا رویہ اختیار کیا اور جب انہوں نے لوگوں پر ظلم اور فتنہ برپا کرنا شروع کیا تب آپؑ نے ان کے خلاف قیام کیا۔[133]
دینی امور اور قانون کے نفاذ میں سختی
امام علی بن ابی طالبؑ دینی امور، قانون کے نفاذ اور صحیح طرزِ حکمرانی میں غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں سختی برتتے تھے۔[134] وہ قانون کے نفاذ میں نہ کسی سردار، نہ کسی قریبی رشتہ دار اور نہ ہی کسی با اثر شخصیت کا لحاظ کرتے تھے۔ ان کی قانون پسندی بعض قریبی افراد کے لیے بھی ناقابلِ برداشت ہوجاتی تھی۔[135] امامؑ اس سلسلے میں اپنے قریبی ترین رشتی داروں سے بھی سختی سے پیش آتے تھے، چنانچہ جب ان کے غلام قنبر سے شرعی حد کے نفاذ میں غلطی سے تین کوڑے زیادہ پڑگئے، تو امام علیؑ نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حکم دیا کہ اتنے ہی کوڑے قنبر پر بطور تلافی مارے جائیں۔[136] اسی طرح، انہوں نے بصرہ میں اپنے گورنر عثمان بن حنیف کی سرزنش کی، جب وہ ایک ایسی دعوت میں شریک ہوئے جو صرف امیروں کے لیے مخصوص تھی اور اس میں فقراء کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ امام نے انہیں زاہدانہ طرزِ زندگی اور تقوائے الہی اختیار کرنے کی تلقین کی۔[137] مصطفی دلشاد تہرانی کے مطابق، نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے خطوط اس بات کی واضح مثال ہیں کہ امامؑ کس قدر اپنے کارگزاروں کی قانون شکنی کے حوالے سے حساس تھے اور اصولوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔[138]
تعلیم اور شہری ترقی پر امام علیؑ کی توجہ
امام محمد باقرؑ سے منقول ہے، لوگ طلوعِ آفتاب کے وقت امام علیؑ کے پاس جمع ہوتے اور آپؑ انہیں فقہ اور قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔[139] انہوں نے اپنے گورنروں کو بھی علم کے فروغ کی تلقین کی چنانچہ امامؑ نے والیِ مکہ قُثم بن عباس کو حکم دیا کہ جاہلوں کو تعلیم دے اور اہلِ علم کے ساتھ نشست و برخاست رکھے۔[140] مالک اشتر کو ایک خط کے ذریعے سفارش کی کہ اچھی اور پسندیدہ سنتوں کو ہرگز ترک نہ کرے اور انہیں زندہ رکھے۔[141]
امام علیؑ نے شہروں کی تعمیر و ترقی، کھیتوں اور زمینوں کی اصلاح اور بنیادی انفراسٹرکچر (قناتوں اور نہروں)[142] کے قیام کے سلسلے میں اپنے گورنروں کو واضح ہدایات دیں کہ زمینوں کو ویران نہ ہونے دیا جائے؛[143] کھیتوں اور کنوؤں کی دیکھ بھال کی جائے؛ کاشتکاروں سے کم خراج لیا جائے تاکہ وہ زیادہ پیداوار دیں اور معیشت مضبوط ہو۔[144] امام علیؑ سے منقول متعدد روایات میں کاشتکاری[145] اور تجارت[146] کے سلسلے میں سفارشیں ملتی ہیں۔
امام علیؑ کی حکومت کے دوران چیلنجز
لبنانی مؤرخ حسن زَین کے مطابق، جب امام علیؑ نے خلافت سنبھالی تو احکام اور اصول دین ، سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام سے انحراف اور فساد نے اسلام کو شدید خطرات سے روربر کردیا تھا۔ [147] اور اسلامی حکومت کو طمع و لالچ کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔[148] مصطفیٰ دلشاد تہرانی کا کہنا ہے کہ امام علیؑ سے قبل، معاشرے میں جاہلی رسم و رواج واپس آ چکے تھے اور انہیں غلط بنیادوں نے امام علیؑ کی خلافت میں متعدد مشکلات پیدا کیں۔[149] سرداروں کو اقتدار کی ہوس، عوام کی بے بصیرتی، متضاد سماجی مطالبات، دنیا پرستی، قبیلہ پرستی، شایستہ سالاری (میرٹ) کا خاتمہ، سیاسی و معاشی اشرافیت کا غلبہ اور بعض ساتھیوں کی تنگ نظری اور جمود ، امام علیؑ کے دور کے اہم چیلنجز تھے۔[150]
مشہور مؤرخ رسول جعفریان کے مطابق، عثمان کے قتل کے بعد اسلامی معاشرہ سیاسی انتشار کا شکار ہو چکا تھا اور مستقبل کی حکومت کے لیے ایک تاریک منظرنامہ سامنے آچکا تھا۔[151] انہوں نے امام علیؑ کی حکومت کے اہم مسائل یوں بیان کئے ہیں:
- معاشی امتیاز: مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر کے دور میں بیت المال کی تقسیم اسلامی خدمات یا قبیلہ سے وابستگی کی بنیاد پر کی جاتی تھی اور عثمان کے دور میں یہ سلسلہ مزید بڑھ گیا تھا۔ جب امام علیؑ نے خلافت سنبھالی اور بیت المال کو برابر تقسیم کیا، تو اس سے وہ طبقے ناراض ہوگئے جو زیادہ حصہ لیتے تھے، نتیجتاً وہ معاویہ کے ساتھ جا ملے۔[152]
- نسلی امتیاز: اسلامی فتوحات کے بعد غیر عرب اقوام مسلمانوں میں شامل ہوئیں لیکن انہیں برابر حقوق نہیں دیئے گئے۔ امام علیؑ نے اس قسم کی نسلی تفریق کا خاتمہ کیا؛ لیکن بعض عرب اشرافیہ کو یہ برابری ناگوار گزری اور وہ مخالفت پر اتر آئے۔[153]
- دینی انحرافات و شبہات: پچھلے خلفاء نے بعض ایسی "سنتیں" قائم کیں جو سنت نبوی سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں؛ امام علیؑ نے سیرتِ نبوی سے ذرا بھی انحراف قبول نہیں کیا، جس پر انہیں شدید تنقید اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔[154]
- سماجی و اخلاقی فساد: عثمان کے دور میں سماجی اور اخلاقی انحطاط خاص طور پر اشراف صحابہ اور ان کی اولادوں میں عام ہوچکا تھا۔ امام علیؑ کے مطابق،[155] اسلام کا صرف نام باقی رہ گیا تھا۔[156]
جنگیں اور بغاوتیں
امام علیؑ کا تقریباً پورا دورِ خلافت جنگوں اور اندرونی کشمکشوں میں گزرا: [157] جنگ جمل امام علیؑ کے دوران خلافت کی پہلی جنگ تھی[158] جو طلحہ، زبیر اور عائشہ کی عہد شکنی کی وجہ سے چھڑی گئی۔[159] اس جنگ کا انجام امام علیؑ کی فتح پر ہوا۔[160] جنگ صفین معاویہ کے ساتھ لڑی گئی۔ امام علیؑ نے معاویہ کو شام کی گورنری سے برطرف کرنا چاہا؛[161] لیکن معاویہ نے انکار کیا اور دونوں فریق جنگ کے لیے تیار ہوگئے؛ نتیجتا صفین نام کی جنگ چھڑی گئی۔[162] جب جنگ زوروں پر تھی اور معاویہ کی شکست قریب آئی تو اس نے اور عمرو بن عاص نے قرآن نیزوں پر بلند کر کے حکمیت کی درخواست کی۔[163] معاویہ کی یہ چال کارگر ثابت ہوئی اور جنگ بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگئی۔[164]
خوارج وہ گروہ تھے جنہوں نے امام علیؑ کو حکمیت قبول کرنے پر مجبور کیا، لیکن جب نتیجہ ان کے حق میں نہ آیا تو امامؑ سے توبہ اور معاہدہ توڑنے کا مطالبہ کیا۔[165] جب خوارج نے مشاہدہ کیا کہ امام علیؑ نے انکار کیا، تو انہوں نے جرائم کا ارتکاب کیا اور امام علیؑ نے ان سے جنگ کی۔[166] یہ جنگ نہروان کے مقام پر لڑی گئی[167] اور خوارج کو سخت شکست ہوئی۔[168]
جرمنی مستشرق اور محقق ویلفرڈ مادلونگ کا کہنا ہے کہ امام علیؑ کی خلافت کے بعد امت مسلمہ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئی: 1: امام علیؑ کے حامی گروہ، 2: اموی اور عثمان کے حامی گروہ، 3: قریش کی اکثریت، جو خلافت کو شیخین کے طرز پر واپس لانا چاہتے تھے۔[169] رسول جعفریان کا کہنا ہے کہ امام علیؑ کی اصلاحاتی سیاست سے بعض افراد کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا، یہی ان جنگوں اور مخالفتوں کی بنیادی وجہ بنی۔[170]
حسن زین اور رسول جعفریان دونوں کے مطابق، امام علیؑ نے کبھی بھی کسی جنگ کا آغاز نہیں کیا۔[171] امامؑ ہمیشہ صلح کی پیشکش پہلے کرتے اور صرف مجبوری میں جنگ کرتے۔[172] اگرچہ یہ جنگیں وقت گیر تھیں، مگر خلافتِ علیؑ کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی پہلو کبھی کمرنگ نہ ہوئے۔[173] ابراہیم بَیضون کے مطابق، امام علیؑ کی خلافت مسلسل جنگوں کے باعث پیغمبرؐ کی حکومت کی مشابہ تھی اور حکومت امام علیؑ حکومت نبوی کا تسلسل تھی۔[174]
نیز دیکھئے: جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان
امام علیؑ کی حکومت کا انجام

امام علیؑ کی حکومت چار سال اور نو ماہ رہی اور ان کی شہادت پر ختم ہوئی۔[175] حکومت کے فوجی دستے مسلسل جنگوں سے تھک چکے تھے، ان میں اختلافات پیدا ہوچکے تھے اور بعض مواقع پر وہ امامؑ کے احکام کی نافرمانی بھی کرنے لگے تھے۔[176] معاویہ نے بعض فوجی کمانڈروں جیسے اشعث بن قیس سے خفیہ رابطے قائم کیے، انہیں تحفے اور عہدے کی پیشکش کی تاکہ وہ امام علیؑ کے لشکر میں غلط افواہیں پھیلائیں اور سپاہ کو خوفزدہ کریں۔[177] امام علیؑ کی شہادت کے بعد، ان کے اصحاب نے امام حسنؑ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔[178] امام علیؑ کی حکومت اور صلح امام حسن کے چھ ماہ بعد مسلمانوں کے مابین جنگوں کا اختتام ہوا اور معاویہ بن ابی سفیان کے برسرِ اقتدار آنے سے امت مسلمہ میں بظاہر اتحاد قائم ہوا۔[179] تاہم، تونس کے مورخ ہشام جُعَیط کے مطابق اس اتحاد کی جڑیں دلوں میں نہیں تھیں اور حکومت مخالف خفیہ تحریکیں سرگرم ہوگئیں۔[180]
نیز دیکھئے:امام علی کی شہادت
کامیابی یا شکست؟
اگرچہ امام علیؑ اپنے تمام اصلاحی اہداف حاصل نہ کرسکے، لیکن امام نے لوگوں، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو نبی مکرم اسلامؐ کو نہیں دیکھ پائے تھے، نبوی طرز حکومت کی عملی تصویر پیش کی۔[181] امامؑ کے تمام منصوبے عملی نہ ہوسکے، لیکن مصطفیٰ دلشاد تہرانی کے مطابق، امام علیؑ نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور بعد کی حکومتوں کے لیے ایک اسلامی نمونۂ حکومت پیش کیا۔[182] شیعہ مورخ رسول جعفریان کے مطابق، امام علیؑ کی ظاہری ناکامی کی بنیادی وجوہات یہ تھیں: معاشرے میں گہرے فساد اور فتنوں کی جڑیں، عراق میں قبیلوں کی بدنظمی، قبیلہ داروں کی سیاست میں بڑھتی ہوئی طاقت اور حکومت کو مضبوط کرنے میں ظلم اور ظالموں کی عدم شرکت جیسی سخت پالیسی۔[183]
مصری مفکر احمد امین کے مطابق، امام علیؑ کی سنت اور نصوص دینی سے شدید وابستگی ان کی شکست کا سبب بنی، جبکہ عمر بن خطاب اور معاویہ نے بعض مواقع پر نصوص سے منصرف ہوتے ہوئے اپنی ذاتی رائے پر عمل کیا اور ظاہراً کامیاب ہوئے؛[184] چنانچہ بعض اہل سنت منابع کے مطابق، عمر نے فاجروں اور منافقوں کو حکومتی امور میں شامل کیا؛ جب ان پر اعتراض کیا گیا تو کہا کہ ہمیں ان کی مہارت کی ضرورت ہے، گناہ ان کے اپنے ذمہ ہیں۔[185] شیعہ مفکر علامہ طباطبائی کے مطابق، وہ منافقین جو حکومت رسولؐ کے دوران آپؐ کے خلاف تھے، پہلے تین خلفاء کے زمانے میں خلافت کا حصہ بن کر اسلام مخالف رویے ترک کر بیٹھے اور مسلمانوں کے ہمراہ ہوگئے۔[186]
امام علیؑ نے اپنی حکومت کی مضبوطی کے لیے کیوں لچک نہیں دکھائی؟
جعفر سبحانی کے مطابق، اگر امام علیؑ نے معاویہ کے ساتھ نرمی برتی ہوتی تواس سے نہ صرف مسائل حل نہ ہوتے بلکہ مسائل میں مزید اضافہ ہونا تھا۔[187] ان کے بقول، اگر معاویہ کو شام کی حکومت پر برقرار رکھا جاتا تو امامؑ اپنے اکثر حامی ابتدا ہی میں کھو دیتے؛ کیونکہ لوگ عثمانی حکومت کے عُمّال کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم اور نا انصافیوں سے تنگ آچکے تھے، اسی وجہ سے انہوں نے بغاوت کی تھی اور اگر حضرت علیؑ ان کارگزاروں کو برقرار رکھتے تو یہ ان لوگوں کے لیے مایوسی کا سبب بنتا۔[188] دوسری طرف، اگر معاویہ کو وقتی طور پر بھی حکومت برکنار نہ کیا جاتا، تو بھی اس کی خلافت علیؑ سے مخالفت کم نہ ہوتی کیونکہ معاویہ ایک چالاک اور سیاستدان انسان تھا اور اس بات کو فوراً سمجھ جاتا۔[189] جعفر سبحانی کے مطابق، عثمان کا قتل معاویہ کے لیے نہایت مناسب موقع تھا، اگر وہ شروع کے دنوں میں اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاتا تو ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتا۔[190]
کچھ مؤرخین نے کہا ہے چونکہ حضرت علیؑ نے اپنی حکومت داری میں چالاکی اور سیاسی چالوں سے کام نہیں لیا اس لیے ان کی حکومت کمزور ہوگئی۔[191] جرمن شیعہ شناس "ویلفریڈ مادلونگ" نے بھی امام علیؑ کو ایک سادہ لوح اور بے تدبیر سیاستدان قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے ابنِ عباس کے اس مشورے پر عمل نہ کیا کہ معاویہ کو فوری طور پر برطرف نہ کریں۔[192] اس کے برعکس، لبنانی مورخ "حَسَن زَین" کا کہنا ہے کہ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیؑ کی تمام کوششیں، چاہے ان کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوگئی ہو، درست تھیں۔[193] اس کے مطابق، امام علیؑ نے جب معاویہ اور عثمان کے گورنروں کو نظر انداز کیا اور طلحہ و زبیر جیسے افراد کو عہدے نہ دیئے، تو وہ ایک ایسی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جو اسلامی اصولوں اور اقدار پر مبنی تھی اور جو ایک صحیح اسلامی حکومت کا نمونہ بن گئی تاکہ آنے والے زمانوں میں اس سے رہنمائی لی جاسکے۔[194]
مونوگرافی

امام علیؑ کی حکومت اور اس کے واقعات کے تجزیے پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
- الامام علی بن ابیطالب و تَجْرِبَۃُ الحُکْم: یہ کتاب لبنانی تاریخ دان حسن زین نے عربی زبان میں تحریر کی ہے۔[195] اس کتاب میں امام علیؑ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد کے حالات اور ان کی حکومتی سیرت کا جائزہ لیا گیا ہے۔[196] اس کتاب کا امیر سلمانی رحیمی نے فارسی میں "حکومتِ امام علیؑ" کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔[197]
- دولتِ آفتاب: اس کتاب کے مصنف ایرانی محقق اور نہج البلاغہ کے ماہر مصطفی دلشاد تہرانی ہیں۔[198] انہوں نے اس کتاب میں امام علیؑ کی سیاسی فکر اور حکومتی طرز عمل کا تجزیہ پیش کیا ہے۔[199] کتاب کے مقدمے میں حکومتِ علوی کے قیام کی بنیاد اور پھر چھ ابواب میں امام علیؑ کی سیرت کو نہج البلاغہ کی روشنی میں بیان کیا ہے۔[200]
- علی بن ابی طالب(ع) سُلطۃ الحق: یہ کتاب عراقی مصنف عَزیز سید جاسِم کی تصنیف ہے اور اس کی تحقیق صادق جعفر روازق نے کی ہے۔[201] مصنف نے اس کتاب میں امام علیؑ کی شخصیت اور ان کی سیاسی سیرت کو گیارہ ابواب میں بیان کیا ہے۔[202] اس کا "امام علیؑ نماد حکومت حق" کے عنوان سے موسیٰ دانش نے فارسی ترجمہ کیا ہے۔[203]
- الامام علی(ع) فی رُؤْیَۃ النَہْج و روایۃ التاریخ: اس کتاب کے مصنف ابراہیم بیضون ہیں، جو یونیورسٹی آف لبنان میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر ہیں۔[204] انہوں نے اس کتاب میں امام علیؑ کے دور کے واقعات کو چار بنیادی ابواب میں تجزیہ کیا ہے، جس میں خلافت سے پہلے، خلافت کے بعد اور امامؑ کی حکومتی و سیاسی فکر کا جائزہ لیا گیا ہے۔[205] علی اصغر محمدی سیجانی نے "رفتارشناسی امام علی(ع) در آیینہ تاریخ" کے عنوان سے اس کا فارسی ترجمہ کیا ہے۔[206]
متعلقہ موضوعات
حوالہ جات
- ↑ جعفریان، اطلس شیعہ، 1387شمسی، ص52۔
- ↑ طبری، تاریخ الاُمَم و المُلوک، 1387ھ، ج4، ص427۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابی طالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص33۔
- ↑ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، 1373شمسی، ص138۔
- ↑ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، 1373شمسی، ص171۔
- ↑ زرینکوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص109۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص19۔
- ↑ حسینی خامنہای، «بیانات در خطبہہای نماز جمعہ 21 رمضان (16 آذر 1380شمسی)»، در سایت مرکز حفظ و نشر آثار آیتاللہ خامنہای۔
- ↑ ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج7، ص73۔
- ↑ ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج7، ص73۔
- ↑ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، 1373شمسی، ص168۔
- ↑ جُعَیط، الفتنہ، 2000ء، ص141۔
- ↑ طہ حسین، علی و بنوہ، دار المعارف، ص8۔
- ↑ جُعَیط، الفتنہ، 2000ء، ص141۔
- ↑ حسین، علی و بنوہ، دار المعارف، ص8۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، ص70۔
- ↑ جُعَیط، الفتنہ، 2000ء، ص141۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص145۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص22۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص178۔
- ↑ ہالء، تشیع، 1389شمسی، ص27-28۔
- ↑ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، 1373شمسی، ص143۔
- ↑ دیاربکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج2، ص262۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص368۔
- ↑ دلشاد تہرانی، دولت آفتاب، 1395شمسی، ص47۔
- ↑ دلشاد تہرانی، دولت آفتاب، 1395شمسی، ص33-34۔
- ↑ نصیری، تحلیلی از تاریخ تشیع و امامان(ع)، 1386شمسی، ص107۔
- ↑ نصیری، تحلیلی از تاریخ تشیع و امامان(ع)، 1386شمسی، ص106۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، ص191۔
- ↑ نصیری، تحلیلی از تاریخ تشیع و امامان(ع)، 1386شمسی، ص106۔
- ↑ دلشاد تہرانی، دولت آفتاب، 1395شمسی، ص43-44۔
- ↑ غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، 1997ء، ص103۔
- ↑ بختیاری، «ساختار سیاسی حکومت عثمان»، ص65۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، ص191۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، ص191۔
- ↑ ابناثیر، اُسْدُ الغابہ، 1409ھ، ج3، ص490۔
- ↑ ابناعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص426-428۔
- ↑ اِبن قُتَیْبہ دینَوری، الامامۃ و السیاسہ، 1410ھ، ج1، ص65-66؛ طبری، تاریخ الاُمَم و المُلوک، 1387ھ، ج4، ص427؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص179؛ ابناعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص434۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 92، ص136؛ طبری، تاریخ الاُمَم و المُلوک، 1387ھ، ج4، ص434؛ ابنشہرآشوب، المناقب، 1379شمسی، ج2، ص110؛ مِسْکوَیْہ، تجارب الامء، 1379شمسی، ج1، ص458۔
- ↑ ابناعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص434-435۔
- ↑ ابناعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص434۔
- ↑ ابناعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص434-435۔
- ↑ زرینکوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص105۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص65؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 92، ص136۔
- ↑ مالحظہ کیجیے: ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص435-436۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص179؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص435-436۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص427۔
- ↑ اسکافی، المعیار و الموازنہ، 1402ھ، ص51۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص76۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص123۔
- ↑ حسین، علی و بنوہ، دار المعارف، ص9۔
- ↑ خوارزمی، المناقب، 1388ھ، ص15۔
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص143۔
- ↑ مادلونگ، جانشینی حضرت محمد(ص)، 1377شمسی، ص200-202۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص370۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص428-431۔
- ↑ حرکات، السیاسۃ و المجتمع فی عصر الراشدین، 1985ء، ص125۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص429-430۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص428-431۔
- ↑ «Expansion of the Caliphate»، در کانال EmperorTigerstar۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص84۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص81-82۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص83۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص83۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص83۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص84۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص85۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص467-468۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص467۔
- ↑ رجبی، «بررسی انتخاب کوفہ بہ عنوان مرکز خلافت اسلامی»، ص7-8۔
- ↑ رجبی، «بررسی انتخاب کوفہ بہ عنوان مرکز خلافت اسلامی»، ص7-8۔
- ↑ عاملی، «إستراتیجیۃ الکوفۃ فی خلافۃ علی(ع)»، در سایت سید جعفر مرتضی العاملی۔
- ↑ رجبی، «بررسی انتخاب کوفہ بہ عنوان مرکز خلافت اسلامی»، ص6۔
- ↑ ابنالفقیہ، البلدان، 1416ھ، ص203؛مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ،ج22، ص386۔
- ↑ زرینکوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص107۔
- ↑ مطہری، پانزدہ گفتار، 1402ھ، ص254۔
- ↑ مطہری، پانزدہ گفتار، 1402ھ، ص254۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص154۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص91۔
- ↑ مہاجرنیا، «ساختار حکومت امام علی(ع)»، ص161۔
- ↑ مہاجرنیا، «ساختار حکومت امام علی(ع)»، ص147۔
- ↑ مہاجرنیا، «ساختار حکومت امام علی(ع)»، ص148۔
- ↑ جُعَیط، الفتنہ، 2000ء، ص142۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص93۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص224۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص93-96۔
- ↑ حسین، علی و بنوہ، دار المعارف، ص147۔
- ↑ مہاجرنیا، «ساختار حکومت امام علی(ع)»، ص149-150۔
- ↑ زرین کوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص106۔
- ↑ اداک، «شایستہسالاری در حکومت امام علی(ع)»، ص56۔
- ↑ اداک، «شایستہسالاری در حکومت امام علی(ع)»، ص56۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص180۔
- ↑ اداک، «شایستہسالاری در حکومت امام علی(ع)»، ص45۔
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص142۔
- ↑ شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص87۔
- ↑ اداک، «شایستہسالاری در حکومت امام علی(ع)»، ص46۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص28۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص429۔
- ↑ زرینکوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص106۔
- ↑ قرشی، موسوعۃ الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع)، 1429ھ، ج11، ص31۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص194۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص194۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص138۔
- ↑ قرشی، موسوعۃ الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع)، 1429ھ، ج9، ص63۔
- ↑ اداک، «شایستہسالاری در حکومت امام علی(ع)»، ص56۔
- ↑ اداک، «شایستہسالاری در حکومت امام علی(ع)»، ص56۔
- ↑ ثقفی، الغارات، 1353شمسی، ج1، ص125۔
- ↑ قرشی، موسوعۃ الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع)، 1429ھ، ج11، ص31۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص143۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص145۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص146۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص146۔
- ↑ قاضی ابویوسف، الخراج، 1399ھ، ص149-150۔
- ↑ حکیمآبادی، «دولت و سیاستہای اقتصادی»، ص373۔
- ↑ جاسم، علی بن ابیطالب سلطۃ الحق، 1427ھ، ص359۔
- ↑ محمودی، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغہ، مؤسسۃ الاعلمی، ج1، ص224۔
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ھ، ص149۔
- ↑ نصیری، تحلیلی از تاریخ تشیع و امامان(ع)، 1386شمسی، ص111۔
- ↑ زرینکوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص110۔
- ↑ زرینکوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص112۔
- ↑ حکیمآبادی، «دولت و سیاستہای اقتصادی»، ص374۔
- ↑ شیخ طوسی، تہذیب الاحکاء، 1407ھ، ج10، ص151-152۔
- ↑ نصیری، تحلیلی از تاریخ تشیع و امامان(ع)، 1386شمسی، ص106۔
- ↑ ابنحیون، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج1، ص384۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص128۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص248۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص127۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 216، ص335۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 51، ص425۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 53، ص427-428۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص33۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص38-39۔
- ↑ شہیدی، علی از زبان علی، 1380شمسی، ص133-134۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص145۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص148۔
- ↑ قمی، سفینۃ البحار، 1414ھ، ج6، ص176۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 45، ص416-420۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص156۔
- ↑ ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص109۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 67، ص457۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 53، ص431۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص203۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص124-125۔
- ↑ معینی نیا، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، 1379شمسی، ص125۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج9، ص213۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص319۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص39۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص33۔
- ↑ دلشاد تہرانی، دولت آفتاب، 1395شمسی، ص27۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص18-19۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص65۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص65-66۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص66-67۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص67۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 192، ص299۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص68-69۔
- ↑ زرینکوب، بامداد اسلام، 1376شمسی، ص109۔
- ↑ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1378شمسی، ص42۔
- ↑ دلشاد تہرانی، سودای پیمانشکنان، 1394شمسی، ص14۔
- ↑ دینوری، الأخبار الطوال، 1368شمسی، ص151۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص81۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص87-88۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص94-95۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص95-97۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص99-100۔
- ↑ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1378شمسی، ص44۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص80-92۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص105۔
- ↑ مادلونگ، جانشینی حضرت محمد(ص)، 1377شمسی، ص205۔
- ↑ جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص72۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص143۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص143۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، ص149۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، ص172۔
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج19، ص109۔
- ↑ قرشی، موسوعۃ الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع)، 1429ھ، ج11، ص215۔
- ↑ قرشی، موسوعۃ الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع)، 1429ھ، ج11، ص215۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص158۔
- ↑ جُعَیط، الفتنہ، 2000ء، ص313۔
- ↑ جُعَیط، الفتنہ، 2000ء، ص324-325۔
- ↑ فخری، تاریخ تشیع از صدر اسلام تا پایان دورہ خلفای راشدین، 1388ھ، ص229۔
- ↑ دلشاد تہرانی، حکمرانی حکیمانہ، 1395شمسی، ص19۔
- ↑ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، 1373شمسی، ص171۔
- ↑ امین، ظہر الاسلام، دار الکتاب العربی، ج4، ص37-38۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: ابن ابی شیبہ، المصنف، 1409ھ، ج6، ص200؛ ابنعبد البر، الاستذکار، 1421ھ، ج3، ص202؛
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص290۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص379۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص380۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص381۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص382۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص33۔
- ↑ مادلونگ، جانشینی حضرت محمد(ص)، 1377شمسی، ص208۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص93۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، ص93۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ زین، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، 1994ء، صفحہ فہرست کتاب۔
- ↑ زین، حکومت امام علی(ع)، ترجمہ امیر سلمانی رحیمی، 1386شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ دلشاد تہرانی، دولت آفتاب، 1395شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ دلشاد تہرانی، دولت آفتاب، 1395شمسی، صفحہ فہرست کتاب۔
- ↑ دلشاد تہرانی، دولت آفتاب، 1395شمسی، صفحہ فہرست کتاب۔
- ↑ جاسم، علی بن ابیطالب سلطۃ الحق، 1427ھ، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ جاسم، علی بن ابیطالب سلطۃ الحق، 1427ھ، صفحہ فہرست کتاب۔
- ↑ جاسم، امام علی(ع) نماد حکومت حق، ترجمہ موسی دانشمسی، 1381شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ بیضون، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، 2009ء، صفحہ فہرست کتاب۔
- ↑ محمدی سیجانی، رفتارشناسی امام علی(ع) در آیینہ تاریخ، 1379شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
مآخذ
- ابنابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، کتابخانہ آیتاللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
- ابن ابی شیبہ، عبد اللہ بن محمد، المصنف فی الأحاديث و الآثار، ریاض، مکتبۃ الرشد، 1409ھ۔
- ابن الفقیہ، احمد بن محمد، البُلدان، بیروت، عالم الکتب، 1416ھ۔
- ابن اَثیر، علی بن محمد، اُسْدُ الغابہ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
- ابن اَعْثَم کوفی، احمد، الفتوح، بیروت، دار الاضواء، 1411ھ۔
- ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام و ذكر الحلال و الحرام و القضايا و الأحكام، قم، آلالبیت(ع)، 1385ھ۔
- ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
- ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب(ع)، قم، علامہ، 1379ہجری شمسی۔
- ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستذکار، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1421ھ۔
- ابنقُتَیْبہ دینَوری، عبداللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسہ، بیروت، دار الاضواء، 1410ھ۔
- ابنمزاحء، نصر، وقعۃ صفین، قم، کتابخانہ آیتاللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
- ابنندیء، محمد بن اسحاھ، الفہرست، بیروت، دار المعرفہ، 1417ھ۔
- اَداک، صابر، «شایستہسالاری در حکومت امام علی(ع)»، در مجلہ مسکویہ، شمارہ 47، 1397ہجری شمسی۔
- اِسکافی، محمد بن عبداللہ، المعیار و الموازنۃ فی فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع) و بیان افضلیتہ علی جمیع العالمین بعد الانبیاء و المرسلین، تحقیق: محمدباقر محمودی، بیروت، بینا، 1402ھ۔
- امین، احمد، ظہر الاسلام، بیروت، دار الکتاب العربی، بیتا۔
- بختیاری، شہلا، «ساختار سیاسی حکومت عثمان»، در کیہان اندیشہ، شمارہ 77، فروردین و اردیبہشت 1377ہجری شمسی۔
- بیضون، ابراہیم، الامام علی فی رؤیۃ النہج و روایۃ التاریخ، بیروت، بیسان، 2009ء۔
- بَلاذری، احمد بن یحیی، اَنساب الاَشراف، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1394ھ۔
- ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تہران، انجمن آثار ملی، 1353ہجری شمسی۔
- جاسم، عزیز السید، امام علی(ع) نماد حکومت حق، ترجمہ: موسی دانشمسی، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1381ہجری شمسی۔
- جاسم، عزیز السید، علی بن ابیطالب سلطۃ الحق، قم، الاجتہاد، 1427ھ۔
- جعفری، سید حسینمحمد، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ سید محمدتقی آیتاللہی، قم، دفتر نشر معارف، 1380ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، 1387ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، تاریخ تحول دولت و خلافت، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1373ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، تاریخ و سیرہ سیاسی امام مؤمنان علی بن ابیطالب(ع)، قم، دلیل ما، 1380ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، تہران، نشر علم، 1390ہجری شمسی۔
- جُعَیط، ہِشاء، الفتنۃ؛ جَدلیّۃ الدین و السیاسۃ فی الاسلام المُبکِر، ترجمہ: خلیل احمد خلیل، بیروت، دار الطلیعہ، 2000ء۔
- حرعاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسہ آلالبیت(ع)، 1409ھ۔
- حرکات، ابراہیم، السیاسۃ و المجتمع فی عصر الراشدین، بیروت، الأہلیہ، 1985ء۔
- حسین، طہ، علی و بنوہ، قاہرہ، دار المعارف، بیتا۔
- حسینی خامنہای، سید علی، «بیانات در خطبہہای نماز جمعہ 21 رمضان (16 آذر 1380شمسی)»، در سایت مرکز حفظ و نشر آثار آیتاللہ خامنہای، تاریخ بازدید: 16 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- حکیمآبادی، محمدتقی، «دولت و سیاستہای اقتصادی»، در جلد 7 از دانشنامہ امام علی(ع)، تہران، مرکز نشر آثار پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشۀ اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
- خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
- خواجویان، محمدکاظء، تاریخ تشیع، مشہد، جہاد دانشگاہی، 1376ہجری شمسی۔
- خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، نجف، المطبعۃ الحیدریۃ، 1388ھ۔
- دلشاد تہرانی، مصطفی، حکمرانی حکیمانہ، تہران، دریا، 1395ہجری شمسی۔
- دلشاد تہرانی، مصطفی، دولت آفتاب، تہران، دریا، 1395ہجری شمسی۔
- دیاربکری، حسین بن محمد، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس، بیروت، دار صادر، بیتا۔
- دینَوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، تہران، نشر نی، 1368ہجری شمسی۔
- رجبی، محمدحسین، «بررسی انتخاب کوفہ بہ عنوان مرکز خلافت اسلامی»، در فصلنامہ مصباح، شمارہ 3 و 4، پاییز و زمستان 1371ہجری شمسی۔
- زرّینکوب، عبدالحسین، بامداد اسلام، تہران، امیرکبیر، 1376ہجری شمسی۔
- زین، حسن، الامام علی بن ابیطالب و تجربۃ الحکم، بیروت، دار الفکر الحدیث، 1994ء۔
- زین، حسن، حکومت امام علی(ع)، ترجمہ امیر سلمانی رحیمی، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ولایت، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1380ہجری شمسی۔
- سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
- شہیدی، سید جعفر، علی از زبان علی یا زندگانی امیر مؤمنان علی(ع)، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ ہجدہء، 1380ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکاء، 1407ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الاِرشاد فی معرفۃ حُجَج اللہ علی العِباد، قم، مؤسسۃ آلالبیت(ع)، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ الطبری)، چاپ دوء، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، «إستراتیجیۃ الکوفۃ فی خلافۃ علی(ع)»، در سایت سید جعفر مرتضی العاملی، تاریخ درج مطلب: 6 فوریہ 2014ء، تاریخ بازدید: 1 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، بیروت، المرکز الاسلامی للدراسات، 1430ھ۔
- غریب، مأمون، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، مرکز الکتاب، 1997ء۔
- فخری، محمد، تاریخ تشیع از صدر اسلام تا پایان دورہ خلفای راشدین، مشہد، ایلیا فخر، 1388ہجری شمسی۔
- قاضی ابویوسف، یعقوب بن ابراہیم، الخراج، بیروت، دار المعرفہ، 1399ھ۔
- قرشی، باقر شریف، مؤسوعۃ الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب(ع)، قم، مؤسسۃ الکوثر للمعارف الاسلامیہ، 1429ھ۔
- قمی، عباس، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و آثار، قم، اسوہ، 1414ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- گاردہ، لوئی، اسلام، دین و امت، ترجمہ: رضا مشایخی، تہران، سہامی انتشار، 1352ہجری شمسی۔
- مادلونگ، ویلفرد، جانشینی حضرت محمد(ص)، ترجمہ: احمد نمایی و دیگران، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار،1403ھ،الناشر: مؤسسۃ الوفاء،چاپ دوم۔
- محرمی، غلامحسن، تاریخ تشیع از آغاز تا پایان غیبت صغری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1387ہجری شمسی۔
- محمدی سیجانی، علیاصغر، رفتارشناسی امام علی(ع) در آیینہ تاریخ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1379ہجری شمسی۔
- محمودی، محمد باقر، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغہ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، بیتا۔
- مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابیطالب(ع)، قم، انصاریان، 1426ھ۔
- مطہری، مرتضی، پانزدہ گفتار، تہران، صدرا، 1402ھ۔
- معینی نیا، مریم، سیرہ اداری امام علی(ع) در دوران خلافت، تہران، چاپ و نشر بینالملل، 1379ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، نہج البلاغہ با ترجمہ فارسى روان، قم، مدرسہ امام علی بن ابیطالب(ع)، 1384ہجری شمسی۔
- موسوی خمینی، سید روحاللہ، صحیفہ اماء، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 1378ہجری شمسی۔
- مہاجرنیا، محسن، «ساختار حکومت امام علی(ع)»، در جلد 6 از دانشنامہ امام علی(ع)، تہران، مرکز نشر آثار پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
- مِسْکوَیْہ، احمد بن محمد، تَجارِبُ الاُمَۃ، تہران، سروش، 1379ہجری شمسی۔
- نصیری، محمد، تحلیلی از تاریخ تشیع و امامان(ع)، قم، دفتر نشر معارف، 1386ہجری شمسی۔
- ہالْم، ہایْنْس، تشیع، ترجمہ محم دتقی اکبری، قم، نشر ادیان، 1389ہجری شمسی۔
- یعقوبی، احمد بن ابییعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا۔
- «Expansion of the Caliphate»، در کانال یوتیوب EmperorTigerstar، تاریخ درج مطلب: 18 اکتبر 2010ء، تاریخ بازدید: 16 فروردین 1404ہجری شمسی۔