بقیۃ اللہ

ویکی شیعہ سے
شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


بقیۃ اللہ کا لفظ شیعہ اثناعشری کے آخری امام حضرت مہدی کے القاب میں سے ایک لقب ہے جو اس وقت غیب کے پردے میں ہیں۔ بقیۃ اللہ ایک قرآنی لفظ ہے جس کی بعض روایات میں ائمہ معصومین سے تاؤیل ہوئی ہے جبکہ بعض نے اسے امام مہدی کے القاب میں سے ایک لقب قرار دیا ہے۔ عربی لغت اور تفاسیر میں بقیۃ اللہ کا معنی اس چیز سے کیا ہے جو اللہ تعالی انسان کے لیے محفوظ رکھتا ہے نیز فضل اور خیر کا معنی بھی کیا گیا ہے. اور ائمہ سے معنی کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ائمہؑ اللہ کی طرف سے لوگوں پر فضل اور نعمت ہیں۔

اہل بیت کے بارے میں

بقیۃ اللہ کا لفظ شیعہ احادیث میں ائمہ معصومین سے تفسیر ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ابن شہر آشوب کا کہنا ہے کہ «بَقیّةُ اللّہِ خَیرٌ لکُم اِن کُنتم مُؤمِنین»[1] والی آیت ائمہؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[2] علامہ مجلسی نے بقیۃ اللہ کو «من ابقاہ اللہ»(جسے اللہ نے باقی رکھا ہے) کے معنی میں لیتے ہوئے کہا ہے کہ «بقیۃ اللہ سے مراد انبیا اور ان کے اوصیاء میں سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اللہ تعالی نے لوگوں کی ہدایت کے لیے زمین پر باقی رکھا ہے، یا وہ ائمہ مراد ہیں جو انبیاء کی امت میں انکے وارث ہیں۔»[3]اسی طرح ایک روایت کے مطابق جب لوگوں نے امام محمد باقرؑ پر شہر کا دروازہ بند کیا تو آپؑ نے اپنا تعارف بقیۃ اللہ کے عنوان سے کرایا۔[4] زیارت جامعہ کبیرہ میں بھی شیعہ ائمہؑ کو بقیت اللہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[5]

مفسروں کے مختلف نظریات

مفسرین نے آیہ بَقِيَّةُ اللّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (ترجمہ: جو کچھ ذخیرہ خدا کی طرف کا باقی ہے وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم با ایمان ہو۔)[؟–86] "" کے ذیل میں حضرت شعیب کو اپنی قوم کے لیے کی جانے والی نصیحتوں کے ضمن میں بقیۃ اللہ کے مختلف معانی بیان کیا ہے۔ جبکہ بعض نے بقیۃ اللہ کو معاملے سے حاصل ہونے والی اس حلال منفعت سے تفسیر کیا ہے جو انسان کے پاس باقی رہتی ہے۔[6] بعض نے پیمانہ بھرا رکھنے یا ناپ تول کے آلے (مکیال اور میزان یا ترازو) کے عدالت کے مطابق رکھنے[7] سے جوڑ دیا ہے اور کہا ہے کہ بقیۃ اللہ یعنی وہ جو صحیح طور پر پیمانہ کرنے، تولنے اور ناپنے کے بعد تمہارے لئے باقی رہے یا جو کچھ خداوند متعال اس کے بعد تمہارے لئے باقی رکھے وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم کم فروشی سے کام لو۔[8]

اہل سنت کے مفسر زمخشری نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ بقیۃ اللہ سے مراد شاید اللہ کی وہ اطاعت ہو جو اللہ کے ہاں محفوظ ہیں۔[9] علامہ مجلسی کے بقول مفسرین نے بقیۃ اللہ کو اس نعمت اور ثواب کے معنی میں لیا ہے جو آخرت کے لیے باقی رہتے ہیں۔[10]

امام مہدی کا لقب

بعض روایات کے مطابق بقیت اللہ سے مراد امام زمانہ ہیں؛ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ بَقِيَّۃ اللّهِ سے مراد امام مہدی ہیں[11] اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق امام صادقؑ سے جب سوال ہوا کہ کیا لوگ امام مہدیؑ کو امیرالمومنین سے پکار سکتے ہیں؟ تو امامؑ نے فرمایا: امیرالمومنین کا لقب علی بن ابی طالب سے خاص ہے اور آپ نے لوگوں سے کہا کہ امام زمانہ کو بقیۃ اللہ سے پکاریں۔[12] س عبارت کی دوسری تفسیر کا تعلق شیعہ اثنا عشریہ کے بارہویں امام(عج) کی طرف پلٹتی ہے: یعنی امام مہدی عجل اللہ تعالی فَرَجَہُ الشریف۔

نہج البلاغہ کے بعض شیعہ شارحین نے نہج البلاغہ میں استعمال ہونے والی عبارت «بقیة من بقایا حجته: وہ اللہ کی حجتوں میں سے باقی ماندہ حجت ہیں»[13] کی تفسیر بارہویں امام سے کیا ہے۔[14] ابن ابی‌الحدید معتزلی کا کہنا ہے کہ شیعوں نے اس کلام سے مراد مہدی، صوفیوں نے عرفا اور اہل سنت نے ان علما سے تفسیر کیا ہے جو بندوں پر اللہ کی حجت ہیں۔[15] اسی طرح دعائے ندبہ میں بھی امام مہدی کو بقیۃ اللہ سے یاد کیا گیا ہے۔[16]

شیعہ روایات میں منقول ہے کہ حضرت مہدی عجّل اللہُ تعالی فَرَجَہُ الشریف ظہور کے وقت آیت بقیة اللّهِ خَیرٌلَکُم ... کی تلاوت کریں گے اور کہیں گے: "انا بَقِيَّةُ اللّهِ وحُجّّتُهَُ" (میں اللہ کا محفوظ کیا ہوا ذخیرہ اور حجت ہوں)۔ اور مسلمان آپ کو «السلام علیک یا بقیه اللّهِ فی ارضه.» کہہ کر سلام دیں گے۔[17] اسی طرح ایک اور روایت میں مروی ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام نے خود فرمایا ہے کہ "انا بَقِيَّةُ اللّهِ فی ارضه" (میں ہی زمین میں اللہ کا ذخیرہ ہوں)۔[18]

بقیہ؛ خیر اور فضل کے معنی میں

بعض مفسرین نے «بقیۃ» کو خیر اور فضل کے معنی میں تفسیر کیا ہے؛ زمخشری نے سورہ ہود کی آیت 116 جس میں أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ آیا ہے اس میں "بقیہ" سے مراد فضل و خیر لیا ہے۔[19] جرمنی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرنے والے مستشرق رودی پارٹ (Rudi Paret) اس بارے میں کہتا ہے کہ فضل حقیقت میں «بقیہ» اور زیادہ کے معنی میں ہے اور معنی کے تبدل اور تحول میں خیر کا مفہوم بھی اپنے ساتھ لے لیا ہے۔ اسی طرح «بقیہ» بھی «خیر»، «فضل‌»، «برتری‌» اور «منتخب» کے معنی میں متحول ہوا ہے۔[20] «بقیۃ» کا لفظ سورہ بقرہ کی آیت 248 میں بھی فضل اور خیر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔[21] بقیۃ اللہ کو ائمہؑ کے معنی میں لینے کی وجہ بھی یہ بتائی گئی ہے کہ ائمہؑ لوگوں پر اللہ تعالی کی طرف سے فضل اور نعمت ہیں۔[22]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سورہ ہود، آیہ ۸۶.
  2. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ج۳، ص۱۰۲.
  3. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۴، ص۲۱۱
  4. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۴، ص۲۱۲.
  5. ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۵۲۶.
  6. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۳۶۴.
  7. سوره ہود، آیہ 85۔
  8. زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۱۸.
  9. زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۱۸.
  10. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۴، ص۲۱۱.
  11. طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۵۲.
  12. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲.
  13. نهج البلاغه، ۱۴۱۴ق، خطبہ۱۸۲، ص۲۶۲.
  14. قطب راوندی، منہاج البراعہ، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۷۲۲، بہ نقل از دانشنامہ جہان اسلام، مدخل بقیة اللہ؛ خویی، منہاج البراعہ، ۱۴۰۰ق، ج۱۰، ص۳۵۵.
  15. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۹۵-۹۶.
  16. ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۵۷۸.
  17. شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۳۱.
  18. مجلسی، وہی ماخذ، ج24، ص212۔
  19. زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۳۶.
  20. پارت، Der Koran: Kommentar und Konkordanz، چاپ ۱۹۷۷م، ص۵۲-۵۳؛ بہ نقل از دانشنامہ جہان اسلام، مدخل بقیة اللہ.
  21. پارت، Der Koran: Kommentar und Konkordanz، چاپ۱۹۷۷م، ص۵۲-۵۳: بہ نقل از دانشنامہ جہان اسلام مدخل بقیة اللہ.
  22. دانشنامہ جہان اسلام، ج۳، مدخل بقیہ اللہ.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، ابراہیم محمدابوالفضل، قم، مکتبۃ آیت اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • ابن شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
  • ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، تصحیح: جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۹ھ۔
  • خویی، میرزا حبیب اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، تصحیح: ابراہیم میانجی، ترجمہ: حسن حسن زادہ آملی و محمدباقر کمرہ ای، تہران، مکتبة الاسلامیہ، ۱۴۰۰ھ۔
  • دانشنامہ جہان اسلام، مدخل بقیۃ اللہ.
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۷ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تحقیق: محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبہ اللہ، منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ، چاپ عزیزاللہ عطاردی خبوشانی، چاپ افست دہلی، ۱۴۰۴ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، قم، ہجرت، ۱۴۱۴ھ۔

Rudi Paret, Der Koran: Kommentar und Konkordanz, Stuttgart 1977.*