کعبہ

ویکی شیعہ سے
خانہ کعبہ
ابتدائی معلومات
بانیحضرت ابراہیم
استعمالمسلمانوں کا قبلہ
محل وقوعمکہ مکرمہ
دیگر اسامیالبیت، البیت العتیق، البیت الحرام، البیت المحرم، قادس و ناذر
مربوط واقعاتمولود کعبہ، عام الفیل
قدمتقبل از حضرت آدم
مشخصات
موجودہ حالتفعال
معماری


خانۂ کعبہ

کعبہ، مسلمانوں کا قبلہ اور سب سے مقدس مقام ہے۔ مسلمان علماء کعبہ کو اللہ کی عبادت کا پہلا مقام اور لوگوں کو خدا کی طرف رہنمائی کرنے کی علامت قرار دیتے ہیں۔

خانہ کعبہ مکہ میں مسجد الحرام کے اندر واقع ہے۔ مسلمانوں پر نماز میں کعبے کا رخ کرنا اور حاجیوں پر حج کے دوران کعبہ کا طواف کرنا واجب ہے۔ کعبہ کے حریم کے اندر کسی انسان یا حیوان پر زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔ امام علیؑ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ہیں۔

شیعہ علماء کے درمیان مشہور ہے کہ احادیث کے مطابق خانہ کعبہ حضرت ابراہیم سے پہلے حضرت آدم کے دور میں بلکہ بعض کے مطابق حضرت آدم کی خلقت سے بھی پہلے موجود تھا۔ البتہ ایک گروہ اس نظریے کو نہیں مانتے اور وہ کعبہ کی تعمیر کی ابتداء کو حضرت ابراہیم کی طرف نسبت دیتے ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے پانچ سال پہلے سیلاب کی وجہ سے کعبہ ویران ہوا جس کے بعد قریش نے اس کی تعمیر کی اور پہلی بار کعبہ کی چھت اور اس پر پرنالہ بنایا۔ 64 اور 1040ھ میں کعبہ کی مکمل تعمیر کی گئی ہے۔ معاصر دور میں بھی کعبہ کی مرمت کے ساتھ ساتھ اس کی چھت اور ستونوں کی تعمیر کی گئی ہے۔

کعبہ کے اندر ایک چھوٹا کمرہ ہے جس میں چھت پر جانے کے لئے سیڑھی لگی ہوئی ہے۔ اس کمرے کا ایک چھوٹا دروازہ بھی ہے جسے باب‌ّ التّوبہ کہا جاتا ہے۔ کعبہ کے چار رکن ہیں۔ رکن حجرالاسود حَجَرالاسود اور یہاں سے طواف کے آغاز کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے۔

اہمیت اور مقام

خدا نے خانہ کعبہ کو اسلام کی نشانی، اور پناہ لینے والوں کے لئے امن کی جگہ قرار دیا ہے»۔

صبحی صالح، نہج البلاغہ، خطبہ اول، ص۴۵

علی شریعتی کہتا ہے

اب کعبہ ایک متحرک بھنور کے بیچ میں ہے جو کعبہ کا طواف کرتا ہے۔ درمیان میں صرف ایک ثابت نقطہ ہے اس کے علاوہ ہر چیز اس کے گرد دائرے میں گھوم رہی ہے۔ ابدی ثبوت اور ابدی حرکت! درمیان میں سورج اور اس کے اردگرد ہر ستارہ اپنے مدار میں متحرک ہے۔

شریعتی، حج، سایت دکتر علی شریعتی

مسلمان کعبہ کو زمین پر سب سے مقدس‌ مقام،[1] توحید کا پہلا گھر[2] اور توحید کی علامت سمجھتے ہیں۔[3] قرآن نے اسے مبارک گھر قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ بتاتا ہے کہ یہ گھر ہدایت، وحدت اور خدا کی تقرب کا وسیلہ ہے۔[4]

احادیث کے مطابق امام علیؑ نے کعبہ کو اسلام کا علم(نشانی) قرار دیا ہے۔[5] امام صادقؑ کعبہ کی طرف نگاہ کرنے کو عبادت قرار دیتے ہوئے[6] فرماتے ہیں: جبتک کعبہ موجود ہے دین بھی پایدار رہے گا۔[7]

گذر زمان کے ساتھ خانہ کعبہ محل یکتا پرستی سے بتکدے میں تبدیل ہوا؛ [8] لیکن پیغمبر اکرمؐ نے فتح مکہ کے بعد کعبہ کے اندر موجود بتوں کو توڑ دیا۔[9]

کعبہ تاریخ کے آئینے میں
سنہ 20 قبل از مسیح[10] حضرت ابراہیم کے توسط سے کعبہ کی تعمیر[11]
ہجرت سے تقریبا 700 سال پہلے یمن کے کسی حکمران کی جانب سے کعبہ کا دروازہ نصب کیا گیا[12]
عام‌ الفیل کعبہ کو ختم کرنے کے لئے ابرہہ کا حملہ[13]
عام‌ الفیل ابابیل کے ذریعے لشکر ابرہہ کی نابودی[14]
13 رجب 30 عام‌ الفیل کعبے میں امام علیؑ کی ولادت[15]
35 عام‌ الفیل (بعثت سے 5 سال پہلے) سیلاب کی وجہ سے کعبہ کی ویرانی اور قریش کے توسط سے اس کی تعمیر[16]
64ھ بنی‌امیہ اور زبیریوں کی جنگ میں کعبہ کو نقصان پہنچا[17]
65ھ عبد اللہ بن زبیر کے توسط سے کعبہ کی تعمیر اور کچھ تبدیلیاں[18]
73ھ حجاج کے توسط سے کعبہ کی تعمیر اور ابن‌ زبیر کی تبدیلیوں ختم کرنا[19]
317ھ قرمطیوں کی طرف سے مکہ پر حملہ اور کعبہ سے حجرالاسود کو اکھاڑ کر لے جانا۔[20]
339ھ قرمطیوں کی جانب سے کافی مقدار میں پیسے لے کر حجرالاسود کو واپس کرنا[21]
462ھ حاکم مکہ کی طرف سے مالی مشکلات کی بنا پر کعبہ کے پرنالہ اور دروازے کے سونے کو دینار میں تبدیل کرنا[22]
1039ھ اور 1040ھ سیلاب کی وجہ سے کعبہ کی ویرانی اور اس کی تعمیر[23]
1414ھ اور 1415ھ کعبہ کے اندرونی دیواروں کی تعمیر[24]
1417ھ کعبہ کی چھت اور ستونوں کی تعمیر[25]
سنہ 1394 ہجری شمسی کعبہ کے قریب جرثقیل گرنے سے 107 حاجیوں کی موت۔[26]


اسامی

خدا کے گھر کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور مشہور نام "کعبہ" ہے[27] جس کال تذکرہ قرآن میں بھی آیا ہے۔[28] قرآن میں کعبہ کو مختلف ترکیبوں میں "بیت"[29] کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے اور ان میں سب سے زیادہ مشہور ترکیب "بیت‌ اللہ" (یعنی خدا کا گھر) ہے۔[30] دوسری ترکیبوں میں: البیت،[31] البیت الحرام،[32] البیت العتیق،[33] "البیت المعمور"[34] اور "البیت المحرم"[35] ہے۔

پرانے زمانوں میں کعبہ کو "قادِس"، "ناذِر" اور "القریۃ القدیمۃ" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔[36]

وجہ تسمیہ

کعبہ کو کعبہ کہنے کی دو علتیں ذکر کی گئی ہیں:

  • کعبہ مربّع شکل میں ہے اور عربی میں چار کونوں والے گھر کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔[37]
  • کعبہ لغت میں ارتفاع اور بلندی کو کہا جاتا ہے۔ کعبہ کی عمارت کی بلندی کی وجہ سے اسے بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔[38]

قبلہ اور حج

مسلمانوں کا پہلا قبلہ بیت‌ المقدس تھا یہاں تک کہ ہجرت مدینہ کے بعد آیت نازل ہوئی اور قبلہ کی تبدیلی کا حکم دیا گیا جس کے بعد کعبہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔[39] ہر مسلمان پر نماز پڑھتے وقت کعبہ کی طرف رخ کرنا واجب ہے۔[40]

حج کے دوران کعبہ کا طواف کرنا واجب ہے۔[41]

کعبہ کی معنویت

کعبہ کو قبلہ اور خدا کی طرف انسان کی پوری توجہ کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔[42] کعبہ کی اہمیت اس لئے ہے کہ اسے خدا کے نام پر بنایا گیا ہے یعنی ایک عظیم مافوق البشری اعتقاد یعی توحید کے نام پر بنایا گیا، اور ایک ایسے انسان کے ہاتھوں اس کی تعمیر ہوئی جو خود توحید کے اعتقاد کا بانی تھا۔[43]

علامہ اقبال عظیم اسلامی مفکر بھی کعبہ کے بارے میں اصل توحید کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

رہ مدہ در کعبہ ای پیر حرم اقبال راہر زمان در آستین دارد خداوندی دگر[44]

اے حرم کے مالک اقبال کو کعبے کا راستہ نہ دو، جب تک اس کے آستین میں کوئی اور خدا ہو

محمد حسین غروی اصفہانی شیعہ مجتہد اور فقیہ بھی یوں گویا ہیں:

گہی بہ کعبہ جانان سفر توانی کرد کہ در منای وفا ترک سر توانی کرد[45]

کبھی کبھار دل کے کعبہ کی طرف بھی سفر کیا کرو، تو وفا کے منی میں سر کی بازی ہار جاؤ گے

مشہور مستشرق ہانری کربن اپنی تحریروں میں کعبہ کی معنویت کو مسلمانوں کی زبانی یوں لکھتے ہیں کہ اس دنیا کے اجسام حقیقت میں عالم آخرت کی علامت اور نشانی ہے۔[46] ان کے مطابق اس دنیا کی حقیقت ایک آئینے کی مانند ہے جس میں نور منعکس ہوتا ہے۔[47] وہ حج اور اس کے اعمال کو جو کعبہ کے نزدیک انجام دئے جاتے ہیں، کو حجاج کے نوری اجسام کو تشکیل دینے والا قرار دیتے ہیں جو عالم ملکوت میں حجاج کے اجسام پر اثر چھوڑتے ہیں۔[48]

وہ کعبہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ کعبہ کا مالک خدا ہے اور لوگ اس گھر کے رہنے والے ہیں۔ اسی وجہ سے حاجی جہاں کہیں سے آتا ہے یہاں اپنی نماز پوری پڑھتا ہے۔ کیونکہ یہاں وہ مسافر نہیں ہے۔[49] چھٹی صدی ہجری کے مسلمان شاعر اور عارف سنایی انسان کو مادی تعلقات چھوڑنے کی دعوت دیتا ہے اور اس بات کے معتقد ہیں کہ جب تک انسان اپنے آپ میں مگن ہیں اس وقت تک اس کی رسائی کعبہ تک نہیں ہو سکتی۔[50]

حسن‌ زادہ آملی: «اے خدا! جس کا دل کعبے کے خدا کی طرف نہیں اس کو کعبے کی طرف منہ کرنے کا کیا فائدہ؟»[51]

تاریخی پس منظر

کعبہ کی پرانی تصویر

کہا جاتا ہے کہ بہت ساری احادیث کے مطابق خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم سے پہلے حضرت آدم نے تعمیر کیا تھا۔[52] یہاں تک کہ بعض احادیث میں کعبہ کی تعمیر کو حضرت آدم کی خلقت سے بھی پہلے قرار دی گئی ہے۔[53] شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ بھی یہی ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم سے پہلے انجام پائی ہے۔[54] اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ طوفان نوح میں خراب ہوا تھا،[55] جسے حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کر پرانی بنیادوں کے اوپر دوبارہ تعمیر کی تھی۔[56]

اس نظریہ کے مقابلے میں علامہ طباطبائی کعبہ کی تعمیر کو حضرت ابراہیم کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[57] معاصر شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ بھی ان احادیث کو خبر واحد قرار دے کر نہیں مانتے جن میں کعبہ کی تعمیر کو حضرت آدم سے پہلے نسبت دی گئی ہے۔[58]

تعمیر نو

پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے 5 سال پہلے مکہ میں آنے والے سیلاب میں خانہ کعبہ ویران ہوا۔[59] بعض مورخین کے مطابق کعبہ آگ لگنے کی وجہ سے ویران ہوا تھا۔[60] مذکورہ تاریخ سے پہلے تک کعبہ کی چھت نہیں تھی۔[61] سیلاب میں کعبہ کی ویرانی کے بعد قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھایا[62] جس میں کعبہ کی چھت اور اس پر پرنالہ بھی بنایا گیا۔[63] کعبہ جو دیوار حضرت ابراہیم نے بلند کی تھی اس کی بلندی تقریبا ساڑے چار میٹر بتائی گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ قریش کی تعمیر میں کعبہ کی دیوار کی بلندی تقریبا 9 میٹر تک پہنچ گئی۔[64]

عبداللہ بن زبیر اور حجاج بن یوسف کی تعمیر

64ھ میں آل‌ زبیر اور بنی‌ امیہ کے درمیان ہونے والی جنگ میں کعبہ کو نقصان پہنچا۔[65] عبداللہ بن زبیر نے بعض اصحاب کی مخالفت کے باوجود کعبہ کے باقی مانده دیواروں کو بھی خراب کر کے از سر نو کعبہ کی تعمیر کی۔[66] اس تعمیر میں کعبہ کی بلندی تقریبا ساڑے تیرہ میٹر تک جا پہنچی۔[67] ابن زبیر نے کعبہ کے دروازے کو جسے قریش نے تقریبا دو میٹر زمین سے اوپر بنایا تھا، زمین پر ہی بنایا[68] اور ایک کی جگہ دو چھت لگائی۔[69] اسی طرح ابن‌ زبیر نے کعبہ کے دو دروازے بنائے: ایک داخل ہونے کے لئے اور دوسرا خارج ہونے کے لئے۔[70] ابن‌ زبیر کی وفات کے بعد حَجّاج بن یوسف نے ابن زییر کی اکثر تبدیلوں کو اس کی پہلی حالت میں پلٹا دیا۔[71]

سنہ 1040ھ کی تعمیر

سنہ 1039ھ میں ایک دفعہ پھر مکہ میں بہت بڑا سیلاب آیا۔ مسجد الحرام کے اندر بھی پانی آیا جس کی وجہ سے کعبہ کی دیواریں خراب ہو گئیں۔ اس دوران باقی ماندہ دیوراوں کو بھی خراب کر کے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی گئی[72] اس سیلاب اور اس کے بعد کعبہ کی تعمیر کے واقعے کو اس وقت کے شیعہ عالم دین ملا زین‌ العابدین کاشانی جنہوں نے خود اس تعمیر میں حصہ لیا تھا، نے ب"مُفَرِّحَۃُ الأنام فی تأسیس بیت اللہ الحرام" نامی ایک رسالے میں بیان کیا ہے۔[73]

حالیہ صدیوں کی تعمیر

سنہ 1040ھ میں کعبہ کی تعمیر نو کے بعد حالیہ صدیوں میں کعبہ کی صرف مرمت کا کام ہوا ہے۔[74] ان مرمتی کاموں میں سب سے اہم کام کعبہ کے بیرونی دیواروں کی مرمت ہے جس کا آغاز 1414ھ میں شروع ہوا اور 1415ھ میں مکمل ہوا۔[75] کعبہ کے اندرونی حصے کی مرمت کا منصوبہ 10 محرم 1417ھ کو جاری ہوا۔[76] اس منصوبے میں خانہ کعبہ کے داخلی حصے کی مرمت کے ساتھ ساتھ اس کے ستونوں اور چھت کو ہٹا کر نئے سرے سے ان کی تعمیر کی گئی۔[77]

تعمیر اور مرمت کی تاریخ ستون چھت دروازہ دیوار مقدار بلندی
توسط حضرت ابراہیم نہیں[78] نہیں[79] نہیں[80] تعمیر ہوئی [81] ـ تقریبا ساڑے چار میٹر۔[82]
توسط قریش بعثت سے 5 سال قبل 6 ستون بنائے گئے [83] تعمیر ہوئی [84] کئی صدیاں پہلے بنایا [85] اس تعمیر میں تقریبا 2 میٹر زمین سے اوپر بنایا گیا تھا[86] مکمل تعمیر کی گئی[87] - تقریبا 9 میٹؤ[88]
توسط عبداللہ بن زبیر چھ ستونوں کو 3 ستونوں میں تبدیل کیا گیا[89] مکمل تعمیر کی گئی اور ایک کی جگہ دو چھت لگائی گئی[90] دو دروازے نکالے گئے [91] اور زمین پر ہی نکالے گئے [92] مکمل تعمیر کی گئی[93] توسیع دی گئی اور حجر اسماعیل کا کچھ حصہ بھی کعبہ کے اندر داخل ہوا [94] تقریبا ساڑے 13 میٹر[95]
توسط حَجّاج - - پہلی حالت یعنی زمین سے 2 میٹر اوپر نصب کیا گیا اور دوسرا دروازہ بھی بند کر دیاگیا[96]۔ - ابن‌ زبیر کی تعمیر سے پہلی حالت میں پلٹا دی گئی[97] -
سنہ 1040ھ کی تعمیر - مکمل تعمیر کی گئی [98] - مکمل تعمیر کی گئی [99] - -
معاصر دور کی تعمیر مکمل تعمیر کیا گیا [100] مکمل تعمیر کی گئی[101] تبدیل کیا گیا [102] مرمت کی گئی[103] ۔ -

بیرونی حصہ

کعبہ کا بیرونی حصہ درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہے:

کعبہ کے بارے میں معلومات
  • حجر الاسود: ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے جس کے گرد حفاظت کے لئے چاندی کا فریم نصب کیا گیا ہے۔ حجر الاسود جنوب مشرقی رکن کے بیرونی حصے میں نصب کیا گیا ہے۔ طواف حجر الاسود سے شروع اور اسی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔[104]
  • مُستَجار و مُلتَزَم: مستجار خانہ کعبہ کے مغربی دیوار کے ایک حصے کو کہا جاتا ہے جو کعبہ کے عقبی دیوار میں واقع ہے۔[105] مستجار کعبہ کے دروازے کے مدمقابل[106] رکن یمانی کے قریب واقع ہے۔[107] کعبہ کی وہ دیوار جو امام علیؑ کی ولادت کے موقع پر آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کے لئے شق ہوئی، کو مستجار کہا جاتا ہے۔[108]

ملتزم ایک معنی میں حجرالاسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیانی دیوار کو کہا جاتا ہے[109] جبکہ دوسرے معنی میں ملتزم وہی مستجار ہی ہے۔[110]

  • کعبہ کا دروازہ: کعبہ کا دروازہ مشرق کی جانب لگا ہوا ہے۔[111] اور شیعہ احادیث میں کعبہ کے دروازے پر دعا پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے[112]
  • میزاب: یا میزاب رحمت سونے کا وہ پرنالہ جو خانۂ کعبہ کی چھت پر لگا ہوا ہے اور جس سے بارش کا پانی کعبے کی چھت سے حطیم میں گرتا ہے۔[113] اس پرنالے کے نیچے دعا کرنے کی سفارش ہوئی ہے اور اسے مستحب قرار دیا گیا ہے۔[114]
  • شاذَروان: کعبہ کے اطراف میں ابھرے ہوئے حصے کو کہا جاتا ہے[115] جو حجر اسمعیل کی سمت کے علاوہ باقی تین سمتوں میں موجود ہے۔[116] شیعہ مشہور فقہاء اس ابھرے ہوئے حصے کو بھی کعبے کا جز قرار دیتے ہوئے طواف کو اس کے باہر سے انجام دینا واجب سمجھتے ہیں۔[117]
پردہ کعبہ کا ایک منظر
غلاف کعبہ کی تیاری
  • غلاف کعبہ: کعبے کی پردہ پوشی بہت پرانی اور حائز اہمیت رسم سمجھی جاتی ہے یہاں تک کہ دور جاہلیت میں اسے ایک اہم منصب سمجھا جاتا تھا۔[118] کعبے کے پردے کا رنگ مختلف زمانوں میں مختلف تھا کبھی سفید،[119] کبھی سبز اور کبھی پیلے رنگ کے کپڑوں سے پردہ لگایا جاتا تھا یہاں تک کہ عباسی خلیفہ "الناصر عباسی" نے سیاہ رنگ کا پردہ لگایا جس کے بعد اب تک یہی رنگ باقی ہے۔[120] کعبہ کا پردہ اکثر اوقات مصر اور شام میں تیار کیا جاتا تھا اور بعض اوقات دوسرے مناطق من جملہ ایران سے بھی تیار کیا جاتا تھا۔[121] اس وقت یہ پردہ خود سعودی عرب میں کے ایک فیکٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔[122]

اندرونی حصہ

شروع میں کعبے کی چھت نہیں ہوتی تھی اور بعثت سے 5 سال پہلے قریش نے کعبے کی تعمیر کے دوران چھت بھی لگائی جو چھ ستونوں پر استوار تھی۔ آل زبیر کے دور میں عبد اللہ ابن زبیر نے چھ ستونوں کو تین میں تبدیل کیا اور موجودہ دور میں بھی تین ستونوں پر مشتمل ہے۔[123]

کعبہ کے اندر باب التوبہ

کعبہ کے اندر ایک چھوٹا کمرہ ہے جس میں کعبے کی چھت پر جانے کے لئے سیڑھی لگی ہوئی ہے۔[124] اس کمرے کا ایک چھوٹا دروازہ ہے جسے دروازہ توبہ کہا جاتا ہے۔[125] یہ دروازہ سونے سے تیار شدہ ہے۔[126]

قدیم الایام سے مختلف قبایل، طوایف اور پادشاہ یا دوسری شخصیات کی جانب سے کعبہ کے اندر نصب کرنے کے لئے مختلف عطیات بھیجے جاتے رہے ہیں۔[127] اسی طرح کعبہ کے اندر ایک کنواں بھی تھا جس میں ان عطیات کو رکھا جاتا تھا، جسے قریش نے تعمیر کے دوران بند کر دیا۔[128]

ارکان کعبہ

ارکان «رکن» کا جمع ہے جس کے معنی بنیاد اور ستون کے ہیں۔[129] چونکہ کعبہ کے اندر چار کونوں میں چار ستون ہیں جن کے اوپر کعبے کی چھت قائم ہے اس مناسبت سے ان چار کونوں کو ارکان کعبہ کہا جاتا ہے۔[130] کعبہ کے چار رکن ہیں

اہم واقعات

کعبہ کے اندر امام علی کی ولادت

امام علیؑ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی ہے۔[139] اس واقعے کو اہل‌ سنت کے بعض مآخذ نے بھی نقل کیا ہے۔[140]

رسول خدا کے دست مبارک سے حجر الاسود کی تنصیب

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: حجر الاسود

پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے 5 سال قبل مکہ میں سیلاب آیا جس کی وجہ سے کعبہ ویران ہوا۔[141] اس کے بعد قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھایا۔[142] کعبہ کی تعمیر کے دوران ہر قبیلہ حجرالاسود کی تنصیب کا طالب ہوا۔ اختلافات میں شدت آئی آخر کار حضرت محمدؐ کی تجویز پر حجرالاسود کو ایک چادر میں رکھا گیا جس کے چار گوشوں کو قریش کے چاروں قبائلی سرداروں کے ہاتھوں میں دے دیا اور جب مطلوبہ مقام تک پہنچا تو رسول خداؐ نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر مخصوص جگہ پر رکھ دئیے۔[143]

دوسرے اہم واقعات

ابرہہ یمن کا فرمانروا تھا جس نے سنہ 571ء کو کعبہ ویران کرنے کی قصد سے مکہ پر حملہ کیا۔ جب ابرہہ اور اس کا لشکر وہاں پہنچا تو معجزہ رونما ہوا اور آسمان سے پرندوں کے ذریعے کنکریاں برسا کر ابرہہ کے لشکر کا خاتمہ کیا گیا۔[144]

اسی طرح عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے یزید کی بیعت سے انکار کرنے پر یزید نے ابن زبیر سے مقابلہ کے لئے حُصَین بن نمیر کی قیادت میں مکہ پر حملہ کیا۔ 64ھ کو محرم الحرام کے مہینے میں یزید کا لشکر مکہ |پہنچا اور اسی سال ربیع الاول کے مہینے میں منجنیق کے ذریعے ابن‌ زبیر کے سپاہیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کعبہ کو بھی زبردست نقصان پہنچا۔[145]

317ھ کو قرمطیوں نے مکہ پر حملہ کیا۔ اس حملے میں دشمن نے حجرالاسود کو کعبہ سے اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گیا اور سنہ 339ھ کو کچھ پیسوں کے عوض حجر الاسود کو دوبارہ کعبہ واپس پہنچا دیا گیا۔[146]

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. فعالی، درسنامہ اسرار حج، ۱۳۹۰ش، ص۴۹۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۹۔
  3. شریعتی، «توحید و شرک»، وبگاہ دکتر علی شریعتی۔
  4. «اہمیّت کعبہ و مراسم حج در روایات»، سایت آیت اللہ مکارم شیرازی؛ نگاہ کنید بہ سورہ آل‌عمران، ۹۶۔
  5. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ اول، ص۴۵۔
  6. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۴۰۔
  7. فعالی، درسنامہ اسرار حج، ۱۳۹۰ش، ص۵۰۔
  8. خرمشاہی «کعبہ»، ج۲، ص۱۸۸۳
  9. ابن‌شہر آشوب، مناقب آل‌أبی‌طالب علیہم‌السلام، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵۔
  10. سجادی، «ابراہیم خلیل(ع)»، ص۴۹۹۔
  11. «کعبہ و بررسی تاریخ بنای آن در قرآن، سایت پرتال جامع علوم انسانی۔»
  12. صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمين الشريفين وجزيرۃ العرب ۲۰۰۴م، ج۲، ص۶۶۴۔
  13. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج ۱۰، ص۸۲۲۔
  14. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج ۱۰، ص۸۲۳۔
  15. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵۔
  16. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۶۔
  17. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۴۔
  18. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۴۹۔
  19. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۴۹۔
  20. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۹۰–۱۹۲
  21. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۹۰–۱۹۲
  22. ابن‌کثیر، البدايۃ و النہايۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱۲، ص۹۹۔
  23. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۷۔
  24. امین کردی، «آخرین توسعہ و مرمت کعبہ»، ص۱۲۸-۱۳۰۔
  25. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۷۱۔
  26. کشتہ و ۲۳۸زخمی در سقوط جرثقیل ہنگام طواف کعبہ»، عصر ایران۔
  27. جناتی، «اسامی کعبه در قرآن» ص۳۷.
  28. سورہ مائدہ، آیه۹۵۔
  29. جناتی، «اسامی کعبه در قرآن» ص۴۲.
  30. جناتی، «اسامی کعبه در قرآن» ص۴۲.
  31. سوره بقره، آیه ۱۲۵.
  32. سوره مائده، آیه ۹۷.
  33. سوره حج، آیه۲۹.
  34. جناتی، «اسامی کعبه در قرآن» ص۴۰.
  35. سوره ابراهیم، آیه۳۷.
  36. خرمشاهی، «کعبه»، ج۲، ص۱۸۸۳.
  37. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۷۱۸
  38. جناتی، «اسامی کعبه در قرآن»، ص۳۷.
  39. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‏۱، ص۴۹۱.
  40. خرمشاہی، «کعبہ»، ج۲، ص۱۸۸۳
  41. امام خمینی، مناسک حج، ۱۳۸۲ش، ص۵۴.
  42. انصاریان، حج در آینہ عرفان، ۱۳۸۶ش، ص۲۰..
  43. شریعتی، «توحید و شرک»، سایت دکتر علی شریعتی.
  44. اقبال لاہوری، پیام مشرق، بخش ۲۱۸، می‌تراشد فکر ما ہر دم خداوندی دگر»، سایت گنجور.
  45. انصاریان، حج در آیینہ عرفان، ۱۳۸۶ش، ص۲۱.
  46. کربن، «راز معنوی خانہ کعبہ(۳)»، ص۲۹.
  47. کربن، «راز معنوی خانہ کعبہ(۳)»، ص۲۹.
  48. کربن، «راز معنوی خانہ کعبہ(۲)»، ص۵۸.
  49. رفیعی، «شریعتی و حج»، سایت زیتون
  50. یزدانی، «حج در آینہ شعر فارسی»، ص۱۳۲.
  51. «الہی! خانہ کجا و صاحب خانہ کجا؟»، سایت خبر آنلاین.
  52. امام، «کعبہ و بررسی تاریخ بنای آن در قرآن»، ص۶۰۔
  53. شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۴۱۔
  54. امام، «کعبہ و بررسی تاریخ بنای آن در قرآن»، ص۶۱۔
  55. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۵۵۔
  56. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۵۵۔
  57. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵۰۔
  58. مغنیہ، تفسیرالکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۲۰۳۔
  59. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۵۔
  60. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۹۴۔
  61. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۸۔
  62. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۶۔
  63. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۶۔
  64. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  65. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۴۔
  66. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۴۔
  67. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  68. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  69. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۸۔
  70. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۴۹۔
  71. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۴۹۔
  72. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۷۔
  73. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۷۔
  74. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۷۰۔
  75. امین کردی، «آخرین توسعہ و مرمت کعبہ»، ص۱۲۸-۱۳۰۔
  76. امین کردی، «آخرین توسعہ و مرمت کعبہ»، ص۱۳۲۔
  77. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۷۱۔
  78. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۸۔
  79. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۸۔
  80. صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب ۲۰۰۴م، ج۲، ص۶۶۴۔
  81. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۵۵۔
  82. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  83. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶۔
  84. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۶۔
  85. صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب ۲۰۰۴م، ج۲، ص۶۶۴۔
  86. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  87. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  88. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  89. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶۔
  90. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۸۔
  91. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۴۹۔
  92. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  93. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۴۔
  94. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۴۔
  95. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  96. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۴۹۔
  97. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۴۹۔
  98. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۷۔
  99. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۶۷۔
  100. امین کردی، «آخرین توسعہ و مرمت کعبہ»، ص۱۳۰-۱۳۳۔
  101. امین کردی، «آخرین توسعہ و مرمت کعبہ»، ص۱۴۰-۱۴۲۔
  102. امین کردی، «آخرین توسعہ و مرمت کعبہ»، سایت پرتال جامع علوم انسانی۔
  103. امین کردی، «آخرین توسعہ و مرمت کعبہ»، ص۱۴۳۔
  104. شہیدثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۲۶۲۔
  105. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۱۔
  106. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، پاورقی ص۳۵۵.
  107. طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۳، ص۲۵۲۔
  108. راز ولادت علی علیہ‌السلام در درون کعبہ»، پایگاہ امام علی(ع)۔
  109. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۰ش، ج۱۰، ص۱۸۸.
  110. عاملی، الزبدۃ الفقہیۃ فی شرح الروضۃ البہیۃ، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص ۴۰۶.
  111. «باب الکعبۃ المشرفۃ»، سایت الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی.
  112. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۳۱-۵۳۲.
  113. غفاری، راہنمای حرمین شریفین، ۱۳۷۰ش، ص۱۷۸۔
  114. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۴۰۷۔
  115. موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی ـ مناسک حج، ۱۴۲۸ق، ص۱۲۳۔
  116. شراب، فرہنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیرہ نبوی، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۰۵.
  117. منتظری، احکام و مناسک حج، ۱۴۲۸ق، ص۱۵۲۔
  118. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۹۴.
  119. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۹۵۔
  120. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۸۵۔
  121. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۸۴۔
  122. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۸۶۔
  123. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶۔
  124. «[.gov.sa/index.php/ar/about-the-two-holy-mosques-ar/grand-mosque-ar/2020-05-28-09-37-55/94-2020-05-28-09-32-7 باب الکعبۃ المشرفۃ]»، سایت الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
  125. الشریف، «معلومات عن باب التوبۃ فی الکعبۃ»، سایت موضوع۔
  126. «باب الکعبۃ المشرفۃ»، سایت الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
  127. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۱ش، ص۸۰۔
  128. صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۵۔
  129. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم‏، ۱۴۶۰ق، ج۴، ص۲۳۴۔
  130. صادقی اردستانی، احمد، ‏حج از میقات تا میعاد، ۱۳۸۵ش، ص۱۰۴۔
  131. مشکینی، مصطلحات الفقه، ۱۳۷۷ش، ص۲۷۵.
  132. مشکینی، مصطلحات الفقه، ۱۳۷۷ش، ص۲۷۵.
  133. شراب، فرهنگ اعلام جغرافیایی، ۱۳۸۳ش، ص۳۶۔
  134. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۶۱۔
  135. مشکینی، مصطلحات الفقه، ۱۳۷۷ش، ص۲۷۵.
  136. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۶۱۔
  137. عاملی، الاصطلاحات الفقهیة، ۱۴۱۳ق، ص۱۹۹۔
  138. مروّج، اصطلاحات فقهی، ۱۳۷۹ش، ص۲۵۰۔
  139. شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۵
  140. حافظ نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۹۳۔
  141. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۱ش، ص۷۰۔
  142. جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۴۶۔
  143. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، ۱۹۹۷م، ج۳، ص۴۸۷۔
  144. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۴۲–۳۴۵
  145. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، ۱۹۹۷م، ج۱۱، ص۶۳۴۔
  146. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ۱۳۷۶ش، ص۱۹۰–۱۹۲۔

مآخذ

  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوهی، ج2، بہ کوشش بهاء الدین خرمشاهی، تهران: دوستان-ناهید، 1377شمسی۔
  • دایرة المعارف تشیع، جلد چهاردهم، انتشارات حکمت، 1390شمسی۔
  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)
  • ابن اثیر، الکامل في التاریخ، تحقیق:ابي الفداء عبدالله القاضي، بیروت: دارالکتب العلمیة، 1407ھ۔
  • ابن اعثم کوفی، محمد بن علی (م 314ھ۔ ق)، کتاب الفتوح (ترجمہ فارسی: محمدبن احمد مستوفی هروی)، مصحح غلام رضا طباطبائی مجد، تهران، شرکت انتشارات علمی و فرهنگی ، 1374شمسی۔
  • ابن جوزی، المنتظم في تاریخ الملوک و الامم، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت: دار الکتب العلمیة، 1412ھ۔
  • ابن حجر عسقلاني، احمد بن علي، فتح الباري في شرح صحيح البخاري، بيروت: دارالكتب العلميہ، چاپ اول، 1410ه‍
  • ابن کثیر، البدایة والنهایة، نحقیق: دکتر عبدالله بن عبدالمحسن الترکي، مصر: هجر للطباعة والنشر والتوزيع والاعلان، 1997ع‍
  • ابن منظور، لسان العرب، قم: نشر ادب الحوزة، محرم 1405ھ۔
  • ابن هشام، عبدالملک، السيرهْ النبوّيهْ، بيروت: دار احياء التراث العربي، (بي‌تا)
  • ابو ولید الازرقی، أخبار مکة و ما جاء فیها من الآثار، تحقیق: عبدالملک بن عبدالله بن دهیش، مکتبة الأسدي، 1424ھ۔
  • الأزرقي، أبو الوليد محمد بن عبد الله بن أحمد، أخبار مكة وما جاء فيها من الآثار، المحقق: عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، مكتبة الأسدي مكة المكرمة 1424ھ۔ / 2003 ع‍
  • الأنصاري، عبد القدوس، التاريخ المفصل للكعبة المشرفة، نادي مكة الثقافي الأدبي، 1418 - 1419ھ۔
  • بخاری، صحیح بخاری، بیروت، دارالفکر، 1421ھ۔
  • البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر، فتوح البلدان، الدكتور صلاح الدين المنجد، نشره ووضع ملاحقہ و فهارسہ ملتزمة النشر والطبع مكتبة النهضة المصرية، القاهرة مطبعة لجنة البيان العربي۔
  • حاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، مصر: دار الحرمین للطباعة و النشر و التوزیع، 1417ھ۔
  • الحرالعاملي، محمد بن الحسن، وسائل الشيعہ، بيروت: دارالاحياء التراث العربي، چاپ پنجم، 1403ه‍
  • الحسینی الکاشانی، زین العابدین بن نور الدین، مفرحة الانام فی تأسیس بیت الله الحرام؛ تحقیق عمارع بودی نصار، حیدر لفتہ مال الله نشر : تهران: مشعر، 1386شمسی۔
  • دفتری، فرهاد، خرافات الحشاشين وأساطير الإسماعيليين، (The Assassin Legends Myths of the Isamailis)، مترجم عربی: سیف الدین القصیر، دار المدی للثقافة والنشر سوريا و لبنان 1996ع‍
  • الدقن، محمد، کعبه وجامه آن از آغاز تا کنون/ (كسوة الكعبة المعظمة عبر التاريخ) مترجم و محقق: هادی انصاری؛ [حوزه نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت]، تهران: نشر مشعر، 1383ھ۔
  • الدينوري، أبو حنيفة أحمد بن داوُد، الأخبار الطوال، المصحح وضابط ألفاظه: محمد سعيد الرافع و الشيخ محمد الخضري، مطبعة السعادة بمصر الطبعة الأولى 1330ھ۔
  • سعد بن حسین عثمان و عبدالمنعم ابراهیم الجمیعی، الاعتداءات علی الحرمین الشریفین عبر التاریخ، 1992 ع‍
  • شفیعی کدکنی، محمد رضا، آفرینش و تاریخ، (ترجمه فارسی کتاب البدء والتاریخ المطهر بن طاهر المقدسي) چاپ نیل، تهران چاپ اول 1374شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علي بن الحسين، من لا يحضره الفقيہ، قم: مؤسسة النشر الاسلامي، 1404ه‍
  • الطبري، محمد بن جرير، تاريخ الامم والملوك، " بريل " بمدينة ليدن في سنة 1879 ع‍ منشورات مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1403ھ۔ و نسخہ طبع: محمد ابوالفضل ابراهیم، مصر: دار المعارف، 1968ع‍
  • القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، مؤسسة الرسالة، 2006 ع‍
  • القلقشندي، أبو العباس أحمد بن علي بن أحمد، صبح الأعشی، مطبعة دار الكتب المصرية بالقاهرة 1340ھ۔ / 1922ع‍
  • كليني، محمد بن يعقوب، الكافي، تهران: دار الكتب الاسلاميّہ، چاپ سوم، 1367شمسی۔
  • المجلة الشهرية "العربي"، مطبوعة في الكويت العدد 300، نوفمبر 1983 ء / محرم الحرام 1404ھ۔
  • مسعودی، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق: محمد محیی الدین عبدالحمید، بیروت: دارالفکر، 1973ع‍ و قم: منشورات دار الهجرة، 1363شمسی۔/1404ھ۔ ق/1984 ع‍
  • مفید، شیخ محمد بن محمد، الارشاد في معرفة حجج الله علی العباد، قم: مؤسسة آل البیت لإحیاءالتراث، 1416ھ۔
  • مستوفی قزوینی، حمد الله بن ابن ابی ‌بكر بن احمد بن نصر(قرن ۸ھ۔)، تحقیق: عبدالحسین نوایی، تهران انتشارات امیر كبیر، 1339شمسی۔
  • ملك الشعراء بهار، محمد تقی (مصحح)، تاریخ سیستان، (مجهول المؤلف)، بہ همت محمد رمضانی، تهران : مؤسسه خاور، 1314 شمسی۔
  • ملك الشعراء بهار، محمد تقی (محقق)، مجمل التواريخ والقصص، (مجهول المؤلف)، (سال تالیف: 520ھ۔)، تهران، کلاله خاور، بى تا
  • واعظ خرگوشی، ابو سعيد عبد الملك بن محمد النيسابوري (م ۴۰۷ھ۔)، شرف المصطفی صلی اللہ علیه وآله، ت محمد روشن، حسین رضوی برقعی، ‏تهران ـ ماهی، ‏‏‏1387شمسی۔
  • هندی، مبارک علی، تاریخ کعبہ و مسجد الحرام، کتابخانہ ملی ملک تهران شماره 3746، (فهرست کتابخانہ، ج7، ص35)، مکہ مکرمہ 1254ھ۔، ترجمہ حسین واثقی. بهار 1389شمسی۔
  • اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر، تاريخ اليعقوبي، مؤسسہ ونشر فرهنگ اهل بيت (ع) - قم ۔ دار صادر بيروت 1379ھ۔ / 1960 ع‍