عبد العظیم حسنی

ویکی شیعہ سے
عبدالعظیم حسنی
نامعبدالعظیم بن عبداللہ
لقبسیدالکریم، شاہ عبدالعظیم
تاریخ پیدائشجمعرات 4 ربیع الثانی سنہ 173 ھ
جائے پیدائشمدینہ
وفاتجمعہ 15 شوال سنہ 252 ھ، المعتزّ باللہ عبّاسی کے دور میں
مدفنشہر ری
والدعبد اللہ بن علی بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی‌ طالب
والدہفاطمہ
عمر79
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


عبد العظیم حسنی (173۔252 ھ)، شاہ عبد العظیم یا سید الکریم کے نام سے معروف، حسنی سادات کے علماء اور حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ عبد العظیم حسنی کا نسب چار پشتوں میں امام حسن مجتبی علیہ السلام سے ملتا ہے۔ تاریخ میں انہیں با تقوا، امین، صادق، دین شناس عالم دین، شیعہ اصول دین کے قائل اور محدث کے عناوین سے یاد کیا ہے۔ شیخ صدوق نے ان سے منقول احادیث کو جامع اخبار عبد العظیم کے نام سے جمع کیا ہے۔ عبد العظیم حسنی نے امام رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کو درک کیا۔ منقول ہے کہ آپ نے امام علی نقی علیہ السلام کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا اور آپ کے دور امامت میں ہی وفات پائی۔ ایران کے شہر ری میں ان کا مزار حرم حضرت عبدالعظیم کے نام سے شیعیان جہان کی زیارت گاہ ہے۔ بعض احادیث میں ان کی زیارت کا ثواب امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے ثواب کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

ولادت اور نسب

عبد العظیم حسنی بروز جمعرات 4 ربیع الثانی سنہ 173 ھ میں ہارون الرشید کے دور میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد عبداللہ بن علی قافہ اور آپ کی والدہ اسماعیل بن ابراہیم کی بیٹی ہیفاء تھیں۔[2] آپ کا نسب چار پشتوں میں امام مجتبیؑ سے جا ملتا ہے۔ نجاشی کہتے ہیں: حضرت عبد العظیم کی وفات کے بعد غسل دیتے وقت آپ کے لباس میں ایک رقعہ پایا گیا جس میں ان کا نسب یوں درج تھا: میں ابو القاسم بن عبد اللہ بن علی، بن حسن، بن زید، بن حسن بن علی بن ابی طالب ہوں۔ [3] محقق میر داماد بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: آپ (عبد العظیم) روشن نسب اور آشکار شرافت کے حامل تھے۔[4]

ازدواج اور اولاد

آپ کی زوجہ آپ کی چچا زاد تھیں۔ آپ کو ان کے بطن سے دو بچے بنام محمد اور ام سلمہ عطا ہوئے۔[5] شیخ عباس قمی آپ کے ایک بیٹے کی خصوصیات لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: محمد ایک بزرگ شخصیت کے حامل تھے اور زہد و عبادت کے مقام پر بہت شہرت رکھتے تھے۔[6]

ائمہؑ کی مصاحبت

حضرت عبد العظیم کو کئی اماموں کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا:

آقا بزرگ تہرانی نقل کرتے ہیں: عبد العظیم حسنی نے امام رضاؑ اور امام جوادؑ کے زمانے کو درک کیا اور امام ہادیؑ کی خدمت میں اپنا ایمان عرضہ کیا اور امام ہادی کے دور امامت میں ہی اس دنیا سے چلے گئے۔[7] لیکن آیت اللہ خویی نے حضرت عبد العظیم کے امام رضاؑ کے ساتھ ہم عصر ہونے کو رد کیا ہے۔[8]

شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال شیخ طوسی میں انہیں امام عسکریؑ کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔[9] عزیز اللہ عطاردی نیز تصریح کرتے ہیں کہ عبد العظیم حسنی کی زندگی اور ان سے منقول احادیث پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے امام کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کو درک کیا ہے۔[10]

کہا جاتا ہے کہ عبدالعظیم جب بھی امام جوادؑ یا امام ہادیؑ کی خدمت میں مشرف ہوتے تو نہایت ادب، خضوع و خشوع اور تواضع کا اظہار کرتے تھے اور نہایت ادب کے ساتھ ان اماموں کیلئے سلام عرض کرتے تھے۔ امام ان کے سلام کا جواب دینے کی بعد انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے گھٹنے آپس میں ملتے تھے اور امام مکمل ان کی خیر و عافیت دریافت کرتے تھے۔ امام کا یہ رویہ دوسروں کیلئے موجب حسرت اور غبطہ ہوا کرتا تھا۔[11]

شیعوں کی سرکوبی کا دور

حضرت عبد العظیم کی زندگی بنی عباس کے دور میں شیعوں کی سرکوبی کے دوران گزری ہے۔ آپ بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح سالہا سال دشمن کے ظلم و بربریت کا شکار رہتے تھے۔ اسی لئے مدینہ، بغداد اور سامرا میں زندگی کے دوران تقیہ اختیار کرتے تھے اور اپنا عقیدہ پوشیدہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود متوکل اور معتز عباسی کے ظلم و بربریت کا شکار ہوتے تھے۔[12]

شہر ری کی طرف ہجرت

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے عباسی خلیفہ معتز کے ظلم و جور اور اذیت و آزار سے تنگ آکر اور شہید کرنے کے خوف سے امام ہادی علیہ السلام کے حکم پر سامرا - جو عباسیوں کا مضبوط گڑھ تھا - سے شہر ری ہجرت کی۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے علی بن موسی الرضاؑ کی زیارت کی قصد سے خراسان کا سفر کیا اور راستے میں حمزۃ بن موسی بن جعفرؑ کی زیارت کیلئے توقف کیا اور وہیں پر مخفیانہ زندگی گزارنے لگے۔[13]

نجاشی نے احمد بن محمد بن خالد برقی کے توسط سے اس واقعے کو یوں نقل کیا ہے:

حضرت عبد العظیم وقت کے ظالم اور جابر حکمران کے ہاتھوں سے فرار کرتے ہوئے شہر ری آئے اور وہاں پر سکۃ الموالی نامی ایک محلے میں ایک شیعہ مؤمن کے گھر کے تہ خانے میں عبادت میں مشغول رہتے نھے۔ گھر سے مخفی طور پر باہر آکر کسی قبر کی زیارت کیلئے جاتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ قبر امام موسی کاظمؑ کی نسل سے کسی شخص کی قبر ہے۔ آپ اسی تہ خانے میں زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ آپ کی ہجرت کی خبر ایک کے بعد ایک شیعوں کے کانوں تک پہنچی اور اس طرح اکثر شیعہ آپ کے وہاں رہنے سے با خبر ہو گئے تھے۔[14]

رحلت

کہا جاتا ہے کہ آپ کی رحلت 15 شوال سنہ 252 ہجری میں امام ہادیؑ کے زمانے میں واقع ہوئی۔[15]آپ کی رحلت کی کیفیت کے بارے میں جو چیز تاریخ میں ثبت ہوئی ہے وہ دو قول طبیعی موت یا شہادت ہے۔ نجاشی نقل کرتے ہیں: عبد العظیم بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں دنیا سے چل بسے۔[16] شیخ طوسی فرماتے ہیں: عبد العظیم نے شہر ری میں وفات پائی اور ان کی قبر اسی شہر میں واقع ہے۔[17]

اس کے مقابلے میں ایک اور روایت یہ بھی ہے جس میں آپ کو زندہ بہ گور کرکے شہید کئے جانے کی خبر دی گئی ہے۔ طریحی لکھتے ہیں: حضرت ابو طالب کی اولاد میں سے جو شخص شہر ری میں مدفون ہے وہ عبد العظیم حسنی ہیں۔[18] واعظ کجوری اس بارے میں کہتے ہیں: رجال و انساب کی کتابوس میں حضرت عبد العظیم کے حالات زندگی کے بارے میں تحقیق کی گئی تو ان کی شہادت کی خبر کو موثق نہیں پایا۔[19]

مدفن اور زیارت کا ثواب

محدث نوری کے مطابق کسی شیعہ مؤمن کو خواب میں رسول اکرم ؐ کی زیارت نصیب ہوئی اس وقت پیغمبر اکرم ؐ نے ان سے فرمایا: کل عبدالجبار بن عبد الوہاب رازی کے گھر سیب کے باغ میں میری نسل سے ایک شخص دفن ہوگا۔ اس شخص نے اس باغ کو خریدا اور اسے عبدالعظیم اور دیگر شیعوں کی اموات کے نام وقف کر دیا۔ [20] اسی وجہ سے حرم عبد العظیم حسنی مسجد شجرہ یا مزار نزدیک درخت کے نام سے معروف تھا۔[21]

شیخ صدوق نے ان کی قبر کی زیارت کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق شہر ری کا ایک شخص امام علی النقیؑ کی خدمت میں وارد ہوا اور کہا: حضرت سیدالشہداءؑ کی زیارت سے مشرف ہوکر آیا ہوں تو امامؑ نے فرمایا: قبر عبدالعظیم جو تمہارے نزدیک ہے، کی زیارت کا ثواب قبر حسین بن علیؑ کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے۔[22]

تاریخ پیدائش و وفات میں تردید

آیت اللہ رضا استادی مجلہ نور علم میں معتقد ہیں کہ سب سے زیادہ قدیمی منبع جس میں عبد العظیم حسنی کی تاریخ پیدائش اور وفات کو ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبد العظیمی (متوفی 1355 ھ) کی کتاب نور الآفاق ہے۔ آیت اللہ استادی کئی مطالب کو ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ اس کتاب کے بہت سارے مطالب فاقد استناد بلکہ جعلی ہیں۔ انہی جعلی مطالب میں سے ایک حضرت عبد العظیم حسنی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات بھی ہے۔ ان کے یہ جعلی مطالب دوسری کتابوں تک بھی سرایت کر گئے ہیں۔ [23] آیت اللہ استادی کے مقالہ کے منتشر ہونے کے چند سال بعد رسول جعفریان محقق اور تاریخ نگار نے آیت اللہ استادی کے تحقیقات کا خلاصہ منتشر کیا۔[24]

فضائل اور شان و منزلت

علامہ حلی نے ان کی حالات زندگی لکھتے ہوئے انہیں ایک متقی اور پرہیزگار عالم کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[25] محدث نوری عبد العظیم حسنی کے فضائل کے بارے میں صاحب بن عباد کے رسالے سے نقل کرتے ہیں: آپ ایک با تقوا، پرہزگار، امانت دار، گفتار میں صادق، دین شناس اور توحید اور عدل جیسے اصول کے قائل تھے۔[26] آپ کا تقوا اور پرہیزگاری ائمہ اطہارؑ کے نزدیک آپ کے بلند درجات اور شان و منزلت کی نشانی ہے۔[27]

معصومینؑ کی نگاہ میں

امام علی نقیؑ نے حضرت عبدالعظیم کے سامرا کی سفر کے دوران ان کی تصدیق کی۔ امام ہادیؑ انہیں ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں: اے ابا القاسم! تم ہمارے برحق ولی ہو تم اسی دین کے پیروکار ہو جو خدا کے نزدیک پسندیدہ اور جسے تم نے ہم سے لیا ہے۔ خدا تمہیں دنیا اور آخرت میں اپنی گفتار میں ثابت قدم رکھے۔[28] امامؑ اور عبد العظیم کے درمیان یہ گفتگو حدیث عرض دین سے مشہور ہے۔

مقام علمی

ابو تراب رویانی کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ ابو حماد رازی کہتے تھے کہ میں سامرا میں امام ہادیؑ کی خدمت میں وارد ہوا اور بعض حلال و حرام کے مسائل کے بارے میں سوال کیا۔ جب واپسی کا ارادہ کیا تو امامؑ نے فرمایا: چنانچہ اگر دینی امور میں حلال و حرام کی [تشخیص] کے بارے میں تمہارے اوپر کوئی مسئلہ دشوار ہوا تو عبد العظیم بن عبداللہ حسنی سے سؤال کرو اور انہیں میرا سلام پہنچا دو۔[29]

آپ سے مروی احادیث

کتب حدیثی اور متون روایی میں عبد العظیم حسنی سے منقول احادیث کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ صاحب بن عباد کہتے ہیں: آپ کثرت سے احادیث نقل کرتے تھے اور امام جوادؑ اور امام ہادیؑ سے آپ نے حدیث نقل کی ہے۔[30]

آپ سے کچھ کتابیں بھی اس وقت ہمارے اختیار میں ہیں جیسے کتاب خُطَب امیر المؤمنین‌[31]اور کتاب یوم و لیلہ[32] جو ظاہرا اعمال پر مشتمل ہے جو ائمہ اطہارؑ کی احادیث میں مختلف اذکار کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔ اور ہر مکلف دن اور رات میں مستحب یا واجب عمل انجام دے سکتا ہے۔[33] آپ کی ایک اور کتاب روایات عبد العظیم حسنی‌ کے نام سے معروف ہے۔[34]

بعض شیعہ بزرگان نے عبدالعظیم حسنی سے احادیث نقل کی ہیں منجملہ شیخ صدوق نے آپ سے منقول حدیثوں کے مجموعے کو جامع اخبار عبدالعظیم‌ کے نام سے جمع کیا ہے۔[35] آپ نے بغیر واسطہ اماموں سے جو احادیث نقل کی ہیں ان میں دو احادیث امام رضاؑ سے 26 احادیث امام جوادؑ سے اور 9 احادیث امام ہادیؑ سے نقل کیا ہے اور ان احادیث کی تعداد جو انہوں نے با واسطہ نقل کی ہیں ان حدیثوں کی تعداد 65 ہیں۔

آپ کے بارے میں لکھی گئی کتابیں

حضرت عبد العظیم حسنیؑ کی شخصیت کی پہچان کیلئے خرداد ماہ سنہ 1392 ش کو آپ کے حرم میں شیخ صدوق ہال میں آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر ایک عظیم الشان سیمنار منعقد ہوا جس کے نتیجے میں منتشر ہونے والے آثار کی تعداد 29 تک پہنچتی ہیں۔ جن میں سے بعد کا ذکر کیا جاتا ہے:

  • رسالۃ فی فضل سیدنا عبد العظیم الحسنی المدفون بالری، مؤلف صاحب بن عباد۔
  • أخبار عبد العظیم بن عبد اللہ بن علی بن الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن أبی طالبؑ، مؤلف شیخ صدوق، اور یہ کتاب الذریعۃ میں حیاۃ عبد العظیم الحسنی کے نام سے مذکور ہے۔
  • جنات النعیم فی أحوال سیدنا الشریف عبد العظیم، عربی، مؤلف ملا اسماعیل کزازی اراکی متوفی سنہ 1236 ھ
  • روح و ریحان، یا جنۃ النعیم والعیش السلیم فی أحوال السید الکریم والمحدث العلیم عبد العظیم الحسنی (علیہ السلام)، فارسی، مؤلف : الحاج الشیخ باقر کجوری مازندرانی متوفی سنہ 1255 ھ
  • التذکرۃ العظیمیۃ، عربی، مؤلف الحاج الشیخ محمد ابراہیم کلباسی متوفی سنہ 1362 ھ
  • الخصایص العظیمیۃ فی أحوال السید أبی القاسم عبد العظیم بن عبد اللہ الحسنیؑ، مؤلف شیخ جواد شاہ عبد العظیمی متوفی سنہ 1355 ھ
  • عبد العظیم الحسنی حیاتہ و مسندہ،
  • مسند حضرت عبد العظیم حسنی، فارسی، مؤلف عزیز اللہ عطاردی قوچانی، متوفی 3 مرداد 1392
  • آشنائی با حضرت عبد العظیم حسنیؑ و مصادر شرح حال او، مؤلف رضا استادی.
  • بررسی کلی روایات حضرت عبد العظیم حسنیؑ، مؤلف محمد کاظم رحمان ستایش.
  • شناخت نامہ حضرت عبد العظیم حسنی و شہر ری، مؤلف سید محمد حسین حکیم و علی أکبر زمانی نژاد.
  • مجموعۃ مقالات کنگرہ حضرت عبد العظیم حسنیؑ.
  • حکمت نامہ حضرت عبد العظیم الحسنیؑ، فارسی، مؤلف محمد محمدی ری شہری.
  • عبدالعظیم الحسنی العالم الفقیہ والمحدّث المؤتمن، سیرتہ و مسندہ، عربی، مؤلف أحمد بن حسین العبیدان.

حوالہ جات

  1. الذریعہ، ج۷، ص۱۶۹. بر آستان کرامت، ص۵.
  2. عمدہ الطالب، ص۹۴.
  3. رجال نجاشی، ص۲۴۸.
  4. الرواشح السماویۃ، ص۸۶.
  5. جنہ النعیم، ج۳، ص۳۹۰. عمدہ الطالب، ص۹۴.
  6. منتہی الآمال، ج۱، ص۵۸۵.
  7. الذریعہ، ج۷، ص۱۹۰.
  8. معجم رجال الحدیث، ج۱۱، ص۵۳.
  9. رجال طوسی، ص۴۰۱.
  10. عبدالعظیم الحسنی حیاتہ و مسندہ، ص۳۷.
  11. زندگانی حضرت عبد العظیمؑ، ص 30.
  12. بر آستان کرامت، ص۷.
  13. جنہ النعیم، ج۴، ص۱۳۱.
  14. رجال نجاشی، ص۲۴۸.
  15. الذریعہ، ج۷، ص۲۹۰.
  16. رجال نجاشی، ص۲۴۸.
  17. الفہرست، ص۱۹۳.
  18. المنتخب، ص۸.
  19. جنہ النعیم، ج۵، ص۳۶۰.
  20. خاتمہ مستدرک، ج۴، ۴۰۵.
  21. عمدہ الطالب، ص۹۴. بر آستان کرامت، ص۱۲.
  22. ثواب الاعمال، ص۹۹.
  23. مجلہ نور علم شمارہ ۵۰-۵۱ ص ۲۹۷-۳۰۱
  24. انتقادہای رسول جعفریان دربارہ دو تاریخ ساختگی
  25. خلاصه الاقوال، ص۲۲۶.
  26. خاتمہ مستدرک، ج۴، ص۴۰۴.
  27. بر آستان کرامت، ص۹.
  28. امالی، ص۴۱۹ و ۴۲۰. روضہ الواعظین، ص۳۱ و ۳۲.
  29. مستدرک الوسائل، ج۱۷، ص۳۲۱.
  30. مسند الامام الجواد، ص۳۰۲.
  31. رجال نجاشی، ص۲۴۷.
  32. الذریعہ، ج۷، ص۱۹۰.
  33. جنہ النعیم، ج۵، ص۱۸۲.
  34. خاتمہ مستدرک، ج۴، ص۴۰۴.
  35. الہدایہ، ص۱۷۴. (مقدمہ)

مآخذ

  • ابن عنبہ، جمال الدین، عمدہ الطالب فی انساب آل ابی طالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، ۱۳۸۰ ھ
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، ‌دار الاضواء، ۱۴۰۳ ھ
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصہ الاقوال فی معرفہ الرجال، تحقیق جواد قیومی، بی‌جا، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ھ
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بی‌جا، بی‌نا، ۱۴۱۳ ھ
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، الشریف الرضی، ۱۳۶۸ ش.
  • صدوق، محمد بن علی، الہدایہ، قم، مؤسسہ الامام الہادی، ۱۴۱۸ ھ
  • ہمو، الامالی، قم، مؤسسہ البعثہ، ۱۴۱۷ ھ
  • طریحی، فخر الدین، المنتخب فی جمع المراثی و الخطب، نجف، بی‌نا، ۱۳۶۹ ھ
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تحقیق جواد قیومی، بی‌جا، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ھ
  • عطاردی، عزیزاللہ، مسند الامام الجوادؑ، مشہد، آستان قدس رضوی، بی‌تا.
  • ہمو، عبدالعظیم الحسنی حیاتہ و مسندہ، قم، دار الحدیث، ۱۳۸۳ ھ
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، قم، دلیل ما، ۱۳۷۹ ش.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۶ ھ
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت، آل البیت، ۱۴۰۸ ھ
  • نوری، میرزا حسین، خاتمہ مستدرک الوسائل، قم، آل البیت، ۱۴۱۵ ھ
  • نیشابوری، محمد بن الفتال، روضہ الواعظین، قم، الشریف الرضی، بی‌تا.
  • میر داماد، محمد باقر بن محمد، الرواشح السماویہ، تحقیق نعمت اللہ جلیلی، دار الحدیث، ۱۴۲۲ ہ ۱۳۸۰ ش.
  • واعظ کجوری، محمد باقر بن اسماعیل، روح و ریحان یا جنہ النعیم و العیش السلیم فی احوال السید عبد العظیم الحسنی، قم، دار الحدیث، ۱۳۸۲ ش.
  • بر آستان کرامت (زیارت نامہ و زندگی نامہ حضرت عبدالعظیم و امام زادگان مجاور)، دار الحدیث، ۱۳۹۲.

بیرونی روابط