امام علی کا ابو جہل کی بیٹی سے راشتہ مانگنے کا قصہ
امام علی کا ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کا معاملہ شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلافی احادیث میں سے ایک ہے؛ بعض کا یہ دعوا ہے کہ فتح مکہ کے بعد امام علیؑ نے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگا جس کی وجہ سے حضرت فاطمہؐ آپؑ سے ناراض ہوئیں۔ کہا گیا ہے کہ رشتہ مانگنے پر پیغمبر اکرمؐ نے عکس العمل دکھاتے ہوئے حدیث بضعہ بیان کی اور فاطمہؑ کو تکلیف دینا آنحضرتؐ کو تکلیف دینے کے مترادف قرار دیا۔
یہ واقعہ اہل سنت کی معتبر کتابوں میں ذکر ہوئی ہے اس لئے وہ لوگ اسے مانتے ہیں؛ لیکن شیعہ علما اسے اہل بیتؑ کے مخالفین کی طرف سے امام علیؑ کی شخصیت کشی کے لئے گھڑی ہوئی ایک حدیث قرار دیتے ہیں۔ وہ اس واقعہ کی سند کو غیر معتبر اور ضعیف سمجھتے ہیں؛ کیونکہ اس کے راویوں میں امام علیؑ کے دشمن موجود ہیں، اور اس کے متن میں بھی اشکال وارد کرتے ہیں؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کے پسندیدہ اخلاق کے ساتھ سازگار نہیں ہے کہ وہ کسی جائز اور حلال کام پر اس قدر غصہ ہو کر منبر پر جائیں اور امام علیؑ کو بیٹی طلاق دینے کی دھمکی دے۔ اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام علیؑ کے اخلاقی فضائل کے ساتھ بھی سازگار نہیں کہ پیغمبر اکرمؐ سے مشورہ کئے بغیر ایسا کام کرے۔
شیعہ مصادر میں سے صرف شیخ صدوق کی کتاب علل الشرایع میں امام علیؑ کی طرف سے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگنے کے بارے میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس کے تحت امام علیؑ کی طرف سے واقعہ کی تردید ہونے کے بعد غلط فہمی دور ہوگئی ہے۔ البتہ شیخ صدوق نے اپنی دوسری کتاب اَمالی میں امام صادقؑ سے نقل کرتے ہوئے اس حدیث کو ناروا تہمت قرار دیا ہے۔
واقعے کی اہمیت
امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگنا شیعہ اور سنیوں کے مابین اختلافی احادیث میں سے ایک ہے۔ اہل سنت اسے مانتے ہیں؛[1] جبکہ شیعہ اسے جعلی قرار دیتے ہیں،[2] اور اسے امام علی اور پیغمبر اکرمؐ کے مقام اور عظمت کے ساتھ سازگار نہیں سمجھتے ہیں،[3] اور واقعے کی سند[4] اور مضمون کے اعتبار سے اشکالات کا حامل سمجھتے ہیں۔[5]
شیعوں نے اس واقعے کے رد میں بعض کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سید علی حسینی میلانی کی کتاب «خواستگاری ساختگی: بررسی و نقد داستان خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل» ،[6] اور یوسف جمالی کی کتاب «روایات خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل در بوتہ نقد» [7] سر فہرست ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں رشتہ مانگنے کا قصہ
سید علی میلانی کا کہنا ہے ابوجہل کی بیٹی سے امام علی کا رشتہ مانگنے کے واقعے کے بارے میں سب اہل سنت متفق ہیں۔[8] اور تمام صِحاح سِتِّہ اور مسانید اور سنن کے مؤلفین نے اسے ذکر کیا ہے۔[9] یہ واقعہ اہل سنت مصادر میں مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے،[10]
شیعہ مصادر جن میں امام علیؑ کا رشتہ مانگنے کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ شیخ صدوق کی کتاب علل الشرایع ہے۔[11] اس کتاب میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شقی شخص نے فاطمہ زہراؑ کو یہ خبر دی کہ امام علیؑ نے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہے۔ حضرت فاطمہ نے اس شخص سے تین مرتبہ پوچھا کہ کیا یہ حقیقت ہے؟ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت زہراؑ یہ سن کر بہت ناراض ہوئی اور جب شام ہوئی تو اپنے بچوں کے ساتھ والد گرامی کے پاس گئیں اور رسول اللہؐ کو سارا ماجرا بیان کیا۔ رسول اللہؐ نے حضرت زہرا کی پریشانی کو دیکھ کر ان کو بچوں کے ساتھ امام علیؑ کے ہاں واپس جانے کا کہا۔ دوسری جانب جب امام علیؑ گھر لوٹ آئے تو دیکھا فاطمہ زہراؑ اور بچے گھر پر نہیں ہیں، اور آپ مسجد گئے اور نماز و دعا کے بعد کسی کونے میں مٹی پر سر رکھ کر سوگئے۔ رسول اللہؐ نے امام علیؑ کو اس حالت میں دیکھ کر ابوتراب کا لقب دے کر اٹھنے کو کہا اور انھیں ابوبکر، عُمر اور طلحہ کو آنحضرتؐ کے پاس لانے کا کہا۔ پھر رسول اللہؐ نے ان کے سامنے فاطمہ کو اپنا ٹکڑا کہا اور ان کی نارضگی کو اپنی ناراضگی اور اپنی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی کے برابر قرار دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ صرف میری حیات تک محدود نہیں ہوگا۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ نے امام علیؑ سے رشتہ مانگنے کے بارے میں پوچھا جس پر امام علیؑ نے قسم کھا کر کہا کہ یہ بات جھوٹ ہے۔ رسول اللہؑ نے امام کی تصدیق کی۔ فاطمہ زہرا یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور امام علیؑ اور بچوں کے ہمراہ گھر لوٹ آئی۔[12]
شیعہ علما کا نظریہ
شیخ صدوق جنہوں نے رشتہ مانگنے کے واقعے کو اپنی کتاب علل الشرائع میں ذکر کیا ہے اپنی دوسری کتاب اَمالی میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں امام اس قصے کو ان تہمتوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں جو پیغمبر اکرمؐ اور دیگر انبیاء پر لگائی گئی ہیں۔[13] شیعہ محدث اِربِلی کی کتاب کشفالغُمَّہ میں بھی امام علیؑ سے ایک حدیث نقل کیا ہے جس میں امام قسم کھا کر کہتے ہیں کہ میں نے کبھی فاطمہ کو ناراض نہیں کیا ہے۔[14] شیعہ مفسر اور فیلسوف علامہ طباطبائی نے امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنا شیعہ ائمہؑ کی احادیث کے ساتھ سازگار نہیں سمجھا ہے،[15]
پانچویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور محدث سید مرتضی (متوفی 436ھ) نے امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹے سے رشتہ مانگنے کے قصے کو جعلی اور من گھڑت اور غیر مشہور قرار دیا ہے۔[16] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ محدث ابن شہر آشوب بھی اس ماجرا کا جعلی ہونے پر تاکید کرتے ہیں۔ [17] معاصر محققین بالخصوص جعفر مرتضی،[18] سید محمد حسینی قزوینی[19] وغیرہ[20] نے بھی اس ماجرا کو جعلی اور من گھڑت قرار دیا ہے۔
سید مرتضی، یہ حدیث جعل کرنے والے کو ملحد اور ناصبی سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس واقعے میں امام علیؑ کی ذات سے زیادہ رسول اللہؐ کی شان میں جسارت ہوئی ہے۔[21] شیعہ مفسر اور فلسفی علامہ طباطبایی بھی کتاب المیزان میں اس جعلی واقعے کو پیغمبر اکرمؐ کی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں۔ [22]شیعہ متکلم سید علی حسینی میلانی اس واقعے کو پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہ کی شان میں گستاخی اور جسارت سمجھتے ہیں۔[23]
حوزہ علمیہ قم کے استاد احمد عابدی کہتے ہیں اس واقعے پر تاکید کی وجہ یہ ہے کہ اگر خلیفہ اول اور دوم نے حضرت زہراؑ کو اذیت پہنچائی ہے تو امام علیؑ نے بھی ان کو ناراض کیا ہے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے؛ یعنی حدیث جعل کرنے والوں نے ان دونوں کو اذیت پہنچانے کے سلسلے میں بری الذمہ ثابت کرنے کے لئے امام علیؑ پر تہمت لگائی ہے۔[24]
رشتہ مانگنے کی روایت پر کئے گئے اشکالات
رشتہ مانگنے کے بارے میں اہل سنت مآخذ میں موجود روایت پر شیعہ علما نے بعض اشکالات کئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- راوی کا کمسن ہونا: یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد 8 ہجری میں واقع ہوا ہے جبکہ مِسوَر کی پیدائش دوسری ہجری[25] کو ہوئی ہے جس کے مطابق وہ اس وقت چھ سال کا بچہ تھا۔[26]
- سلسلہ سند میں دشمنان اہل بیتؑ کا وجود: اس روایت کا راوی مِسوَر کا خوارج سے اچھا رابطہ تھا۔ اسی طرح معاویہ اور زبیریوں سے بھی قریبی رابطہ تھا۔ اسی لئے ان سے نقل ہونے والی اس روایت پر اعتمال اور یقین نہیں کیا جاسکتا ہے۔[27] روایت کے سلسلہ سند میں ایک اور راوی کَرابیسی ہے جو اہل بیت سے دشمنی میں مشہور تھا۔[28]
- روایت کے نقل میں اختلاف اور باہمی عدم توافق: اس قصے کی مختلف روایات میں اختلاف پایا جانا اس کے اعتبار میں کمی[29] یا اس ماجرا کا حقیقت نہ ہونے[30] علامت سمجھا جاتا ہے۔
- قصہ پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کی شان کے منافی ہونا: اہل سنت مآخذ میں رشتہ مانگنے کا منقول قصہ پیغمبر اکرمؐ کی شان کے منافی اور آپ کے اخلاق حسنہ کے مغایر سمجھا گیا ہے؛ کیونکہ اس روایت میں آنحضرتؐ ایک حلال کام پر اس قدر غصہ ہوئے کہ آپ مسجد میں جاکر زیب منبر ہوئے اور یہ کہا کہ علیؑ میری بیٹی کو طلاق دے۔[31] اسی طرح سید مرتضی کہتے ہیں کہ جو شخص بھی تاریخ سے آشنا ہو تو وہ جانتا ہے کہ امام علیؑ ہر حال میں رسول اللہ کے فرمانبردار تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کام کی وجہ سے آپ کی سرزنش ہوئی ہو۔[32]
حوالہ جات
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386ش، ص17.
- ↑ ملاحظہ کریں: سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377ش، ص 167؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، 1379ق، ج1، ص4.
- ↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1402ق، ج14، ص229؛ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377ش، ص 168.
- ↑ ملاحظہ کریں: سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377ش، ص 167-168.
- ↑ ملاحظہ کریں: سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377ش، ص 169.
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386ہجری شمسی۔
- ↑ جمالی، روایات خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل در بوتہ نقد، 1401ہجری شمسی۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص17۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص21۔
- ↑ ملاحظہ ہو: بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج5، ص207-208، ج6، ص125-126، ج8، ص199؛ ابن حنبل، مسند احمد، 1416ھ، ج31، ص226، 227-229؛ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1902، 1903-1904۔
- ↑ ذہنی تہرانی، ترجمہ علل الشرایع، 1380شمسی، ج1، ص605۔
- ↑ صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج1، ص185-186۔
- ↑ صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص102-105۔
- ↑ اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج1، ص363۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1402ھ، ج14، ص229۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 167۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج1، ص4۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص61، 65۔
- ↑ حسینی قزوینی، «خواستگاری از دختر ابوجہل/ازدواج موقت»، موسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر(عج)۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص131؛ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص97-98۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 168۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1402ھ، ج14، ص229۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص17۔
- ↑ عابدی، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
- ↑ ابونعیم، معرفۃ الصحابہ، 1422ھ، ج4، ص252؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص162۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص106۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386ش، ص131؛ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395ش، ص105.
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 167-168۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص65۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص87۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395ش، ص111-112.
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 169۔
مآخذ
- قرآن کریم.
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
- ابن اثیر، عزالدین علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
- ابن حجر، احمد بن علی بن حجر عسقلانی، فتح الباری، تحقیق محمد فواد عبدالباقی و محبالدین الخطیب، بیروت، دار المعرفہ، 1379ھ۔
- ابن حنبل، احمد بن محمد، فضائل الصحابہ، تحقیق وصیاللہ بن محمد عباس، قاہرہ، دار ابن الجوزی، چاپ چہارم، 1430ھ۔
- ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد، تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن ترکی و دیگران، بیروت، موسسۃ الرسالہ، 1416ھ۔
- ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
- ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب(ع)، قم، علامہ، 1379ھ۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہرہ، وزارۃ الاوقاف المجلس الأعلی للشئون الإسلامیۃ و لجنۃ إحیاء کتب السنہ، چاپ دوم، 1410ھ۔
- جمالی، یوسف، روایات خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل در بوتہ نقد، قم، نور المصطفی، 1401ہجری شمسی۔
- حسینی قزوینی، سیدمحمد، «خواستگاری از دختر ابوجہل/ازدواج موقت»، سایت موسسہ تحقیقاتی حضرت ولیعصر(عج)، تاریخ درج مطلب: 9 فروردین 1390ش، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- حسینی میلانی، سیدعلی، خواستگاری ساختگی بررسی و نقد داستان خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل، قم، مرکز حقایق اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
- ذہبی، شمسالدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- ذہنی تہرانی، محمدجواد، ترجمہ علل الشرایع، قم، انتشارات مومنین، 1389ہجری شمسی۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، تنزیہ الانبیاء، قم، دار الشریف الرضی، 1377ش.
- صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، علل الشرایع، قم، کتابفروشی داوری، 1385ہجری شمسی۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
- عابدی، احمد، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، سایت باشگاہ خبرنگاران جوان، تاریخ درج مطلب: 19 بہمن 1397ش، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- محسنی، غلامرسول، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، چاپ شدہ در مجموعہ موسوعہ رد شبہات امام علی(ع)، جلد دوم، بہ کوشش حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارات، قم، سازمان حج و زیارت، 1395ہجری شمسی۔
- مرتضی عاملی، جعفر، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، بیروت، المرکز الاسلامی للدراسات، 1430ھ۔
- مسلم نیشابوری، ابوالحسین بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فواد عبد الباقی، قاہرہ، دار الحدیث، 1412ھ۔
- واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، موسسۃ الاعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔