قیام امام حسینؑ، یزید بن معاویہ کی حکومت کے خلاف امام حسینؑ کی اس تحریک کو کہا جاتا ہے جس میں 61ھ کو کربلاء میں عاشورا کے دن امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کی شہادت واقع ہوئی۔ یہ تحریک امام حسینؑ کی طرف سے یزید کی بیعت سے انکار اور 28 رجب 60ھ کو مدینہ سے خارج ہونے کے ساتھ شروع اور واقعہ کربلا کے بعد اسیران کربلا کے مدینہ واپسی پر اختتام کو پہنچی۔

محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس

قیام امام حسینؑ کو بنی امیہ کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی دیگر تحریکوں کا سر آغاز اور اس حکومت کی سرنگونی کا منشاء قرار دیا جاتا ہے۔ شیعہ ہر سال اس واقعہ کی یاد میں عزاداری کے مختلف مراسم برگزار کرتے ہیں۔ عزاداری کی مختلف رسومات کا رواج، امام بارگاہوں اور عزاخانوں کے نام سے مختلف مذہبی عمارتوں کی تعمیر، عاشورائی ادبیات اور دیگر علوم و فنون کا آغاز نیز ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا جذبہ عالم انسانیت خاص کر شیعہ کمیونیٹی پر اجتماعی اور ثقافتی حوالے سے اثرانداز ہونے والے اس واقعے کے مثبت اثرات میں شمار کئے جاتے ہیں۔

امام حسینؑ کے اس قیام کا اصل مقصد چنانچہ اپنے بھائی محمد بن حَنَفیّہ کے لئے کی گئی وصیت میں آیا ہے، اسلامی معاشرے کو جو رسول اکرمؐ کی رحلت کے بعد انحراف کا شکار ہوا تھا، اپنے صحیح راستے کی طرف واپس لانا اور معاشرے میں رائج فساد اور انحرافات کا مقابلہ کرنا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی حکومت کی تشکیل، شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہونا، یزید کی بیعت سے انکار اور اپنے اور اپنے ماننے والوں کی جان و مال کا تحفظ بھی اس قیام کے دیگر اہداف میں شامل تھا۔ کتاب شہید جاوید میں حکومت کے حصول کو امام حسینؑ کی اس تحریک کا اصلی مقصد قرار دینے کے بعد شیعہ مصنفین کی جانب سے یہ نظریے تنقید کا نشانہ بنا جس کے بعد قیام امام حسینؑ کے اہداف و مقاصد اور واقعہ عاشورا کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے جن میں شہادت‌ طلبی اور اسلامی حکومت کے قیام کو اس بارے میں پیش کئے گئے اہم نظریات میں شمار کئے جاتے ہیں۔

ابتدائیہ

مولائے کائنات سے لیکر امام مہدی (ع) تک تمام آئمہ معصومین (ع) تخلیق کے اعتبار سے پاک و پاکیزہ ہیں جن کی حقیقت "حقیقت محمدیہ" ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ کمالات و فضائل میں تمام آئمہ برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے آئمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔

بعض آئمہ (ع) کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آتی رہی ہیں کہ جو دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا بہت سارے آئمہ کو بعض کام انجام دینے کی فرصت اور موقع نصیب نہیں ہوتا رہا ہے۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرصت ملی اور آپ نےاس سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے علمی کارنامہ انجام دینا شروع کئے کہ جس کے نتیجے میں ایک تخمینے کے مطابق چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو تربیت کیا۔ اسلام واقعی کی دنیا میں پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج دیا۔ لیکن زندگی کے آخر میں بنی عباس کی ظالمانہ حکومت نے ان پر مصائب ڈھانا شروع کر دئے اور آخر کار منصور نے زہر دے کر شہید کردیا۔

اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) مذہب تشیع کے رئیس اور اسلام کو دوباره زندگی دینے والے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی آئمہ کے اندر معاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین (ع) نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یا امام حسن (ع) تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسینؑ کا قیام پہلے مرحلے پر "حسنی" ہے دوسرے مرحلے پر "حسینی" ہے۔[1]

اصحاب رسول اللہ اور معروف شخصیات کی رائے

مکتب تشیع میں امام ایک ایسی شخصیت ہے جو عصمت کے درجے پر فائز ہوتی ہے ۔ لہذا اس بنا پر ایسی شخصیت کے بارے میں یہ سوچنا ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے افعال کو کسی حکمت و عقلی سبب کی رعایت کئے بغیر انجام دے۔ اس وجہ سے مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے دانشوران واقعہ کربلا کے بعد سے لے کر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ اقدام ایک مثبت اقدام تھاالبتہ اس اقدام کے بیان میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔لیکن اس کے برعکس کچھ کا یہ کہنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ اقدام نا درست تھا جیسا کہ بعض صحابہ رسول یا تابعین اسی نظر کے قائل نظر آتے ہیں ۔اس رائے کا مستند ان اصحاب کے اقوال کو قرار دیا جاتا ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے امام حسین ؑ سے اس موضوع کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ان میں سے چند ایک کی گفتگو میں واقع ہونے والے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حکوت کاحصول

امام حسین ؑ نے دنیاوی مقاصد میں سے اپنی حکومت کے قیام کیلئے یہ اقدام کیا ۔ یہ رائے اس وقت مدینے اور مکے کی بعض شخصیات کے اذہان میں موجود تھی اور انہوں نے اسی اعتقاد کی بنا پر امام حسین ؑ کو یزید بن معاویہ کے خلاف قیام سے روکنے کی کوشش کی ۔ مثال کے طور پر عبد اللہ بن عمر نے حضرت امام حسین کو کوفہ جانے سے روکنے کیلئے ان الفاظ میں سر زنش کی ۔

لا تخرج فانّ رسول اللہ خیّره اللہ بین الدنیا و الآخرہ فاختار الآخرہ و انّک بضعہ منہ ولا تعاطھا یعنی الدنیا ترجمہ: تم خروج نہ کرو کیونکہ رسول کو اللہ نے دنیا اور آخرت اختیار کرنے کا اختیار دیا تھا اور رسول اللہ نے آخرت کو اختیار کیا تم تو اسی کا ٹکڑا ہو تم اپنے آپ کو اس میں مشغول نہ کرو ۔ ۔[2]
آسودہ حالی کے خاتمے کا ڈر

عبد اللہ بن مطیع کی یہ روایت منقول ہے :۔ لما خرج الحسين بن علي من المدينة يريد مكة ، مر بابن مطيع وهو يحفر بئره فقال له : أين فداك أبي وامي ؟ قال : أردت مكة - قال : وذكر له أنه كتب إليه شيعته بها - فقال له ابن مطيع : اين فداك أبي وامي ؟ متعنا بنفسك ولا تسر إليهمعبد اللہ بن مطیع کے کنواں کھودنے کے وقت جب حضرت امام حسین کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام سے کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہاں کا ارادہ ہے ؟امام نے جواب دیا مکے کا۔تو اس نے کہا : آپ کی ذات کی وجہ سے تو ہم آسودگی کی زندگی گزار رہے ہیں آپ اس سفر پہ مت جائیں ۔[3] دوسری روایت میں کہا کہ آپ عراق مت جائیں خدا کی قسم اگر انہوں نے تمہیں قتل کر دیا تو وہ ہمیں غلام بنا لیں گے ۔[4]

امام وقت کے خلاف خروج نا درست اقدام

ابو سعید خدری :اپنے نفس کو بچاؤ اور گھر میں ہی رہو اپنے امام کے خلاف خروج نہ کرو۔[5]

یزید کے خلاف قیام میں قتل ہونا خودکشی ہے

ابو واقد لیثی نے امام کو قیام سے منع کرتے ہوئے کہا : میں نے اسے منع کیا کہ وہ قیام نہ کرے کیونکہ اس کا یہ قیام کسی سبب کے بغیر ہے اور اس نے اپنے نفس کو خود قتل کیا ہے ۔[6]

موجودہ حاکم کی بیعت نہ کرنا درست اقدام

محمد بن حنفیہ: اے میرے بھائی !تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو اور محبوب ہو ......تم یزید بن معاویہ کی بیعت سے دوری اختیار کرو اور جہاں تک ہو سکے شہروں دور رہو ۔پھر اپنے قاصد لوگوں کی جانب روانہ کرو اور انہیں اپنی جانب بلاؤ اگر تمہارے پیغام کو قبول کریں تو الحمد للہ اور اگر وہ کسی اور پر [6]اتفاق کریں تو انکے اس عمل سے تمہارے دین میں کوئی کمی نہیں ہوئی ،نہ تمہارے فضل میں کمی ہو گی......۔

کوفہ کی بے وفائی اور مکہ میں رہنا

عبد اللہ بن عباس نے مکہ میں کہا : تم انکے پاس جارے ہو جنہوں نے آپکے والد کو قتل کیا اور آپکے بھائی کو زخمی کیا۔یقینا وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے لہذا آپ مکہ میں ہی قیام کریں۔

آپ یمن کی طرف جائیں جہاں آپ کے والد کے شیعوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ اہک وسیع و عریض جگہ ہے ۔ جب ابن عباس کو آپ کے قطعی ارادے کا علم ہو گیا تو کہا اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو مت لے جائیں ۔ مبادا تمہیں حضرت عثمان بن عفان کی طرح بچوں کی موجودگی میں قتل کر دیں۔[7]

قیام کے متعلق مختلف نظریات

خروج باطل

ابن تیمیہ (متوفیٰ 728) نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں امام حسین ؑ کے قیام کے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے:۔

فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ[8]ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا[9] اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط رسول اللہ کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم شہید کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر کے حصول اور شر کے دفع کا اس نے ارادہ اور قصد کیا تھا ان میں سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے خروج اور قتل سے شر میں اضافہ ہوا اور خیر میں کمی ہوئی اور یہ شر عظیم کا سبب بن گیا۔

نیز کچھ اور دانشور بھی اسی سے ملتے جلتے عقیدے کے قائل ہیں اگرچہ انہوں نے اس نظریے کی تصریح نہیں کی ہے لیکن انہوں نے واقعۂ کربلا کا جائزہ لیتے ہوئے ایسے اظہار خیالات کیے ہیں جن سے یہ سمجھا جا سکتا کہ وہ امام کے اس قیام کو ایک دنیاوی حکومت کے حصول کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔مثلا قاضی ابو بکر ابن عربی اندلسی مالکی 543ق، عبد الرحمان بن خلدون808 ق، شیخ محمد طنطاوی مصری 1277ق اور محب الدین طبری1389ق کے نام لئے جا سکتے ہیں۔[10]

کفارۂ گناہ

اس نظریے کی بنیاد مسیحی تعلیمات ہیں کہ جن میں کہا گیا ہے حضرت عیسیٰؑ کو دار پر لٹکایا گیا ان کا یہ عمل افراد امت کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ اسی طرح حضرت امام حسین ؑ پر گریہ کرنا گناہوں کی شفاعت کا باعث ہے اگرچہ وہ گناہ جس قدر بھی زیادہ ہوں ۔ بعض متاخر مؤلفین نے اس نگاہ سے کربلا کو دیکھا ہے اور اپنے اشعار وغیرہ میں اس کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا ہے ۔ البتہ ملاں مہدی نراقی حضرت امام حسینؑ اس کے متعلق لکھتے ہیں :

حضرت امام حسین ؑ نے اپنے تمام موالیان اور محبین کیلئے شہادت کبریٰ کا انتخاب کیا اور اس مرتبے کا حصول شہادت کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ امت کے گناہوں کی کدورت امام حسین ؑ کے خون پر موقوف تھی ۔[11]

نیز ملا حبیب اللہ کاشانی لکھتے ہیں :

خدا نے تمام انبیاء اور اولیاء کو گواہ بنایا تھا کہ جیسے ہی حضرت امام حسین ؑ کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرے گا وہ تمام شیعوں کے گناہوں سے در گذر کرے گا۔اسی وجہ سے جب شمر آپ کا سر مبارک تن سے جدا کرنے کیلئے آپ کے سینۂ مبارک پر بیٹھ کر سر جدا کرنے لگا تو فرمایا : ھل وافیت بعہدی یعنی میں نے عالم ذر میں جو تم سے عہد کیا تھا کیا میں نے اسے پورا کر دیا ؟ پس اے میرے محبوب تو اپنا عہد پورا کر....تو عالم بالا سے آواز آئی ہم نے بھی اپنا عہد پورا کر دیا ہے۔.......[12]

شہادت کا حصول

ابن نما حلی[13] اور سید ابن طاؤس[14] اس نظریے کے قائلین میں سے ہیں ۔ امام حسین ؑ نے قیام کیا تا کہ اس کے ذریعے خدا کے نزدیک بالا ترین مقام شہادت تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ البتہ ان دونوں علمائے نامدار نے کسی جگہ اصلاح امت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی نفی نہیں کی ہے۔

حکومت اسلامی کا قیام

اس نظریے کے مطابق امام حسین ؑ کا مقصد اول حکومت اسلام کا قیام کرناتھا ۔صلح کا دوسرا مرحلہ اور شہادت تیسرے مرحلے میں شمار ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں امام حسین ؑ نے حکومت اسلامی کے قیام کی کوشش کی لیکن اس کی کامیابی نہ ہونے کی بنا پر صلح کے اقدام کئے لیکن شہادت کیلئے کسی قسم کا اپنی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ مخالفین امام حسین ؑ اسلام کے سر سخت دشمن تھے انہوں نے امام کے ساتھ جنگ کی اور امام کو مظلومانہ شہادت سے ہمکنار کیا ۔ ۔[15] اس نظریے کے قائل نے امام حسین ؑ کی شہادت کی تائید میں آنے والیں روایات پر تنقید کی ہے نیز کہا ہے کہ اس سے پہلے شیخ مفید ،سید مرتضی اور شیخ طوسی بھی اسی کے قائل تھے ۔مزید کہا کہ نظریہ شہادت کو سید ابن طاؤس نے آکر بیان کیا ہے اس سے پہلے اس کا کوئی قائل نہیں تھا ۔[16]

خصوصی حکم کی وجہ سے قیام کیا

اس نظریے کے مطابق حضرت امام حسین ؑ نے خدا کی جانب سے خصوصی الہام کی وجہ سے قیام کیا ۔ حکم الہامی کے مطابق اس پر صرف حضرت امام حسین ؑ کو ہی عمل کرنا تھا ۔ قائلین کے مطابق روایات کی روشنی میں واقعۂ کربلا ابتدائے آفرینش سے ایک حتمی فیصلے کے طور پر تھا لہذا امام نے اپنے لیے اس مقرر شدہ ذمہ داری کو عملی صورت میں انجام دیا ۔علامہ مجلسی[17] ،صاحب جواہر الکلام [18]، سید محمد حسین طباطبائی[19] اس کے قائلین میں سے ہیں ۔

نیکی کا حکم دینا اور نہی سے روکنا

اس نظریے کے مطابق امام حسین ؑ نے اصلاح معاشرے کے لئے قیام کیا ۔تا کہ معاشرے میں فراموش شدہ حکم الہی کو زندہ کیا جا سکے ۔ اس نظرئے کا پشتوانہ ابو الفتوح میں حضرت امام حسین ؑ کی محمد بن حنفیہ کے نام وصیت ہے جو انہوں نے مدینے سے نکلتے وقت کی تھی جس کے یہ الفاظ ہیں :

انی لم أخرج أشِراً ولا بطِراً ولا ظالماً ، وإنَّما خرجت لطلب الإصلاح في أُمَّة جَدِّي رسول الله ( صلَّى الله عليه وآله ) أُريد أنْ آمر بالمعروف وأنهى عن المُنكر وأسير بسيرة جَدِّي وأبي علي بن أبي طالب[20] ترجمہ:میں خودپسندی و گردن کُشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نہیں نکلا ہوں میں تو صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں ۔ میں نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔میں اپنے جد اور اپنے باپ علی بن ابی طالب کی سیرت پر چل رہا ہوں۔[21]


حوالہ جات

  1. اقتباس از
  2. طبرانی ، معجم الاوسط ج 1 ص 189۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق ج 14 ص 208۔ابن کثیر ،البدایہ و النہایہ ج 8 ص 175
  3. ابن عساکر، ترجمہ الامام حسین،ص1۔
  4. ابن عساکر ،ترجمہ الامام الحسین ص 292۔
  5. ابن عساکر،ترجمہ الامام الحسین 294۔
  6. ابن عساکر،ترجمہ الامام الحسین 294۔
  7. ملخص :دینوری ، الاخبار الطوال 244۔ طبری ،تاریخ الامم و الملوک۔ ذیل سنۃ ستین۔ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ج 4 ص 39۔
  8. ابن تیمیہ، منہاج السنۃ ج 4 صص 530،531۔
  9. اس سے پہلے عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مطیع وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں امام حسین ؑ کو خروج سے منع کیا تھا۔
  10. مقتل جامع سید الشہداء ج ص 254.مزید معلومات کیلئے مطالعہ کریں:ابن العربی ، العواصم من القواصم ص232۔ابن خلدون، مقدمہ تاریخ ابن خلدون ج 1 ص 228۔اعواصم من القواصم ص 232
  11. ملا مہدی نراقی ،محرق القلوب ص 4۔ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ج 1 ص۔259
  12. ملا ملا حبیب اللہ کاشانی،تذکرۃ الشہداء 13۔ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ج 1 ص۔259
  13. ابن نما حلی ، مثیر الاحزان ص 11، 12
  14. سید ابن طاؤس، اللہوف،ص82، 83
  15. نعمت اللہ صالح نجف آبادی ،شہید جاوید ، ص159. اختصار کے ساتھ نقل از مقتل جامع سید الشہداء ص 275
  16. نعمت اللہ صالح نجف آبادی ،شہید جاوید ، ص106.
  17. مجلسی۔بحار الانوار ج 45 ص 78
  18. حسن جواہری، جواہر الکلام ج 21 ص295
  19. سید محمد حسین طباطبائی، بحثی کوتاہ دربارہ علم امام ص نقل از بیست مقالہ رضا استادی ص442
  20. احمد بن اعثم کوفی،الفتوح ،ج 5 ص 21۔
  21. خلفائے راشدین کی سیرت کا اضافہ: الفتوح کے موجودہ نسخوں میں سیرت جدی محمد و سیرت ابی علی بن ابی طالب کے بعد " سیرت خلفاء راشدین " کے الفاظ مذکور ہیں ۔ کیا یہ کلمات امام حسین ؑ نے فرمائے تھے ؟ اس مقام پر بعض محققین کی رائے کے مطابق یہ الفاظ بعد میں اضافہ کئے گئے ہیں کیونکہ خلفائے راشدین کی مخصوص اصطلاح 132 ق کے بعد شروع ہوئی ہے لہذا ممکن نہیں کہ امام کی جانب سے یہ الفاظ کہے گئے ہوں ۔ انہوں نے یہ بات "رسوم دار الخلافۃ" تالیف ہلال بن محسن صابئی اور فاروق عمر کی کتاب "بحوث فی التاریخ العباسیہ" کے حوالے سے کی ہے ۔ البتہ تاریخ کے محقق صاحب "موسوعہ التاریخ الاسلامی" شیخ محمد ہادی یوسفی غروی کے بقول اس بات کا تذکرہ تیجانی سماوی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا لیکن اسے سب سے پہلے شہید انسانیت کے مؤلف یعنی نعمت اللہ صالحی نجف آبادی نے ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:ہلال بن محسن صابئی،رسوم دار الخلافۃ۔ فاروق عمر،بحوث فی التاریخ العباسیہ۔عسکری، معالم المدرستین ج 3 ص 50 کا تعلیقہ۔