اُمِّ أیمَن، اسامہ بن زید کی والدہ اور صحابیات میں سے ہیں جنہیں۔ انہیں بہشتی خواتین میں سے کہا گیا ہے۔ انہوں نے رسول خدا کی شہادت کے بعد فدک کی واپسی کیلئے حضرت علی کے ساتھ ابو بکر کے سامنے گواہی دی کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فدک حضرت فاطمہ کو بخشا تھا۔

ام ایمن
کوائف
مکمل نامبرکہ بنت ثعلبۃ بن عمرو
کنیتام ایمن
محل زندگیمکہ، مدینہ، حبشہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربزید بن حارثہ، اسامہ بن زید
وفاتوصال رسول کے پانچ مہینے بعد،
دینی معلومات
اسلام لاناسابقین
جنگوں میں شرکتجنگ احد، جنگ خیبر
ہجرتحبشہ، مدینہ
وجہ شہرتکنیز رسول اللہ

وہ سابقین اسلام میں سے ہیں۔ اسی طرح جنگ احد اور خیبر میں حاضر تھیں۔ جنگ احد میں زخمیوں کو پانی پلانے اور تیمار داری کے فرائض ادا کئے۔ کتب احادیث میں ام ایمن سے روایات مروی ہیں۔

زندگی نامہ

بَرَکۃ دختر ثعلبۃ بن عمرو مشہور بنام امّ ایمن حبشی النسل[1] کنیز تھیں جو رسول اللہ کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب سے متعلق تھیں[2] اور ارث کے ذریعے رسول خدا کو پہنچیں [3] آپ نے حضرت خدیجہ[4] سے ازدواج کے بعد ام ایمن کو آزاد کر دیا۔[5]

حضرت رسول اللہ کی والدہ آمنہ کی ابواء میں وفات کے بعد مکہ آنے تک رسول اللہ کی پرورش کی ذمہ داری ام ایمن کے سپرد تھی۔[6] اور یہ ذمہ داری آپ کے بالغ و راشد ہونے تک آپ کے سپرد تھی۔[7]

ام ایمن نے اسلام سے پہلے مکہ میں عبید بن عمرو سے شادی کی اور اس سے أیمَن نامی بیٹے کی والدہ تھیں۔ اسی مناسبت سے انہیں ام ایمن کہا جانے لگا۔ اس بیٹے نے غزوہ حنین میں سپاہ اسلام میں شریک ہو کر شہادت کا درجہ حاصل کیا۔[8] عبید بن عمرو کی وفات کے بعد ام ایمن نے زید بن حارثہ سے شادی کی۔[9] اسامہ بن زید زید بن حارثہ سے ام ایمن کا بیٹا ہے۔[10] پیامبرؐ نے زید بن حارثہ سے ام ایمن کی شادی سے پہلے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: جو کوئی بہشتی خاتون سے ازدواج کا خواہاں ہے وہ ام ایمن سے سے ازدواج کرے۔[11]

ام ایمن کی وفات حضرت محمدؐ کی شہادت کے پانچ چھ مہینے بعد کہی جاتی ہے۔[12] لیکن بعض نے خلافت ابوبکر اور عمر بن خطاب کے زمانے میں ان کے زندہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔[13] بلکہ ابن سعد کی روایت کے مطابق[14] وہ خلافت عثمان کے اوائل تک بقید حیات تھیں۔[15]

معیت رسول خدا

ام ایمن کا نام پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں لیا جاتا ہے اور بعد میں مدینہ ہجرت بھی کی۔[16] اسی طرح بعض مؤرخین انہیں ہجرت حبشہ کے افراد میں سے بھی سمجھتے ہیں۔[17] ام ایمن کا نام رسول اللہ کے صحابہ میں مذکور ہے۔[18]

جنگ احد میں شریک تھیں اور زخمیوں کو پانی پہنچانا آپ کے ذمہ تھا۔[19] ام ایمن در جنگ خیبر میں ام سلمہ کے ساتھ جانے والی بیس خواتین میں تھیں جو رسول اکرم کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلیں۔[20]

رسول اکرمؐ کی شہادت کے بعد ام ایمن نے امام علی(ع) کے ساتھ ابوبکر سے فدک کی واپسی کیلئے گواہی دی کہ رسول اللہ نے فدک فاطمہ کو بخشا تھا۔[21] حدیثی مآخذ میں ام ایمن رسول خدا سے چند احادیث کی راوی ہیں۔[22] انس بن مالک، ابو یزید مدنی و حنش بن عبد الله صنعانی ام ایمن سے روایت کرتے ہیں۔[23]

مقام و منزلت

پیغمبر(ص‌) ام ایمن سے بہت محبت کرتے تھے اور انہیں ماں کہہ کر پکارتے تھے۔[24] ان کے اعلی رتبے کے بارے میں متعدد احادیث رسول اللہ(ص) سے نقل ہوئی ہیں۔[25] رسول اللہ(ص) ام ایمن کے گھر جاکر ان کا دیدار کرتے تھے اور آپ(ص) کے بعد ابوبکر اور عمر بھی آپ(ص) کی متابعت کرتے ہوئے ان کے گھر میں ان سے ملاقات کرتے تھے۔[26] اسی بنا پر بعض کتب حدیث میں "فضائل‌ ام‌ ایمن" کے عنوان سے مستقل باب پایا جاتا ہے۔[27] شیعہ مآخذ میں بھی انہیں احترام کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔[28]

رسول اللہ(ص) نے انہیں جنتی خاتون کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔ صرف ام ایمن اور امام علی ہی تھے جنہوں نے رسول اللہ(ص) کے وصال اور ابوبکر کے ہاتھ غصبِ فدک کے بعد شہادت دی کہ رسول اللہ(ص) نے فدک فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کہ بخش دیا ہے۔[29]

حوالہ جات

  1. زہری، المغازی النبویہ، ۱۴۰۱ق، ص۱۷۷؛ الطبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۲۵، ص۸۶.
  2. الطبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۲۵، ص۸۶.
  3. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۸، ص۲۲۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۹۶.
  4. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۷۷؛ الطبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۲۵، ص۸۶.
  5. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۸، ص۲۲۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۹۶.
  6. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۳۸۸ق، ص۱۵۰.
  7. ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۳۶۰.
  8. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۹۵۹ق، ج۱، ص۴۷۱.
  9. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۹۵۹ق، ج۱، ص۴۷۱؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۶۱، ج۸، ص۲۲۳.
  10. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۹۵۹ق، ج۱، ص۴۷۱؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۶۱، ج۸، ص۲۲۳.
  11. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۹۵۹ق، ج۱، ص۴۷۲؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۶۱، ج۸، ص۲۲۳.
  12. ابن اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۳۰۴.
  13. ابن اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۳۰۴.
  14. ابن سعد، الطبقات‌ الكبری‌، ج8، ص226۔
  15. نیز دیکھیں: طبرانى‌، المعجم‌ الكبیر، ج25، ص86۔ ذہبى‌، سیر اعلام‌ النبلاء، ج2، ص227۔
  16. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۶۹؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۳۸۰ق، ج۴، ص۱۷۹۳.
  17. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۳۸۰ق، ج۴، ص۱۷۹۳.
  18. دیکھیں: ابن اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۳۰۳.
  19. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۴۱ و ۲۵۰؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۸، ص۲۲۵. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۸، ص۲۲۵.
  20. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۶۸۴-۶۸۵.
  21. الطبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ق، ج۱، ص۱۲۱-۱۲۲.
  22. احمد بن حنبل، مسند، ۱۴۲۱ق، ج۴۵، ص۳۵۷؛ الطبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۲۵، ص۸۷-۹۱؛ ابن ماجہ، سنن، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۱۱۰۷.
  23. ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ۱۳۲۷ق، ج۱۲، ص۴۵۹.
  24. ابن‌ سعد، الطبقات‌ الكبری‌، ج8، ص223۔
  25. دیکھیں: ابن‌ سعد، الطبقات‌ الكبری‌، ج8، 223-226۔ذہبى‌، سیر اعلام‌ النبلاء، ج2، ص224۔
  26. مسلم‌، الصحیح‌، ج2، ص1907۔ابن‌ ماجہ، السنن‌، ج2، 523-524۔ابن‌ عبد البر، الاستیعاب‌، ج4، ص1794۔
  27. دیکھیں: مسلم‌، الصحیح‌، ج2، ص1907- 1908۔
  28. مثلاً دیکھیں: كلینى‌، الكافى‌، ج2، ص405۔ ابن‌ بابویہ، الامالى‌، ص76۔
  29. الطبرسی، الاحتجاج، ج1، ص121-122۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، ج۸، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، ۱۳۲۷ق.
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق /۱۹۶۰م.
  • ابن قتیبہ، عبداللہ، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۳۸۸ق /۱۹۶۹م.
  • ابن ماجہ، محمد، سنن، استانبول، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
  • احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب الأرنؤوط، ج۴۵، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م..
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م.
  • الحلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۷ق.
  • زہری، عبداللہ، المغازی النبویۃ، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
  • الطبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، بہ کوشش حمدی عبدالمجید السلفی، قاہرہ، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۳م.
  • الطبرسی، الاحتجاج، ج۱، ہمراہ با تعلیق و ملاحظات سید محمدباقر خرسان، نجف، دارالنعمان، ۱۳۸۶ق/۱۹۶۶م.
  • مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار الحدیث، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۱م.
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونز، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.