عثمان بن عفان
عثمان بن عفان (متوفی 35 ھ) اہل سنت کے نزدیک خلفائے راشدین میں تیسرے خلیفہ و اصحاب پیغمبر اکرم (ص) میں سے ہیں۔ عمر بن خطاب نے اپنی موت سے پہلے خلیفہ چننے کے لیے جس چھ رکنی شورا کو تشکیل دیا تھا اس نے عثمان کو ان کے بعد تخت خلافت تک پہنچا دیا۔ سنہ 23 ھ (یا سنہ 24 ھ) سے سنہ 35 ھ تک انہوں نے حکومت کی اور آخر کار مدینہ میں ان کی حکومت کے خلاف ایک بغاوت میں باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ |
کنیت | ابو عمرو • ابو عبدالله |
تاریخ پیدائش | سنہ 6 عام الفیل |
جائے پیدائش | مکہ |
محل زندگی | مکہ، مدینہ |
مہاجر/انصار | مہاجر |
نسب/قبیلہ | بنی امیہ |
وفات | سنہ 35 ہجری |
سبب وفات | حکومت کے خلاف بغاوت میں قتل ہوئے |
مدفن | مدینہ |
دینی معلومات | |
ہجرت | حبشہ، مدینہ |
وجہ شہرت | خلیفہ سوم |
حسب و نسب
تاریخ اسلام کے منابع میں ان کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ابن قصی القرشی الاموی۔ عثمان بنی امیہ کے طائفے سے ہے،[1] ان کے اجداد اور بنی ہاشم، عبد مناف سے جاکر ملتے ہیں۔[2] اس لحاظ سے وہ بنی امیہ کے ابو العاص قبیلے سے ہے۔[3] اس کی ماں أروی عثمان کے باپ کے طایفے سے ہے اور اس کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب ابن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔[4] عثمان کی ماں پیغمبر اکرم(ص) کی پھوپھی، ام حکیم بنت عبدالمطّلب کی بیٹی تھیں۔[5]
عثمان کی ولادت سنہ 6 عام الفیل ذکر ہوئی ہے۔[6] ان کی دو کنیت ہیں: ابو عمرو اور ابو عبد اللہ، جن میں پہلی کنیت زیادہ مشہور ہے۔[7] رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص)ان کی بیویوں میں سے ہیں۔ بعض کے مطابق ان سے دو بیٹے؛ عمرو اور عبداللہ متولد ہوئے لیکن کوئی بھی زندہ نہ رہا اور بچپن میں دنیا سے چل بسے۔[8] بعض مآخذ میں آیا ہے کہ عمرو رقیہ کا بیٹا نہیں بلکہ جاہلیت کے دَور میں عثمان کی کسی اور بیوی سے متولد ہوا تھا اور اسی وجہ سے زمان جاہلیت میں عثمان کی کنیت ابو عمرو تھی اور اسلام لانے کے بعد رقیہ سے شادی کی اور عبداللہ متولد ہوا اور اسی وجہ سے عثمان کی کنیت ابو عبداللہ کو ابو عمرو پر ترجیح دی گئی۔[9] منابع کے مطابق رقیہ کے مرنے کے بعد پیغمبر کی دوسری بیٹی ام کلثوم کی شادی بھی عثمان سے ساتھ ہوئی۔[10] چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی دو بیٹیوں سے شادی کی اسی لئے اہل سنت کے منابع میں ان کو ذوالنورین (دو نور والا) کہا گیا ہے۔[11]
زمانہ پیغمبر اکرم (ص) میں
شخصیتها | |
---|---|
پیغمبر اسلامؑ • حضرت علیؑ • حضرت فاطمہؑ • صحابہ | |
غزوات | |
غزوہ بدر • غزوہ احد • غزوہ خندق • غزوہ خیبر • غزوہ فتح مکہ • دیگر غزوات | |
شہر اور مقامات | |
مکہ • مدینہ • طائف • سقیفہ • خیبر • جنۃ البقیع | |
واقعات | |
بعثت • ہجرت حبشہ • ہجرت مدینہ • صلح حدیبیہ • حجۃ الوداع • واقعۂ غدیر | |
متعلقہ مفاہیم | |
اسلام • تشیع • حج • قریش • بنو ہاشم • بنو امیہ | |
کہا جاتا ہے کہ عثمان نے ابوبکر کی دعوت پر مکہ میں اسلام قبول کیا۔[12] لیکن کس سال اسلام لائے اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہاں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کے ابتدائی دنوں میں ارقم بن ابی ارقم کے گھر پر اسلام قبول کیا ہے۔[13]
ابن سعد نے طبقات الکبری میں عثمان کے طلحہ کے ساتھ اسلام لانے کو آنحضرت (ص) کے ارقم کے گھر میں وارد ہونے سے پہلے ذکر کیا ہے۔[14]
عثمان ان ابتدائی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی[15] اور جنگ بدر کے وقت مدینہ میں ہونے کے باوجود جنگ میں شرکت نہیں کی۔ مورخین نے ان کی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ ان کی بیوی رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص) کی بیماری بتایا ہے۔ اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم (ص) نے انہیں مدینہ میں ٹھرنے کا حکم دیا تھا اور اسی جنگ کے اختتام پر رقیہ کا انتقال ہوگیا۔[16]
واقدی نے کتاب المغازی میں عبد الرحمن بن عوف اور عثمان کے درمیان ایک گفتگو نقل کی ہے۔ جس میں عثمان نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بھی ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے جنگ احد میں میدان جنگ سے فرار کیا ہے۔[17]
سنہ 6 ہجری، صلح حدیبیہ سے قبل عثمان کو رسول خدا (ص) کے نمایندہ کے طور پر مشرکین مکہ سے گفتگو کے لئے بھیجا گیا تھا۔[18]
بعض اہل سنت مصادر کے مطابق، جب سپاہ اسلام جنگ تبوک کے لئے آمادہ ہو رہی تھی۔ اس وقت عثمان مالی حالات کے اچھے ہونے وجہ سے ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے سپاہ کی تیاریوں کے لئے بڑی مقدار میں مالی تعاون کیا۔[19] علامہ امینی نے اس طرح کی گزارشات کو جعلی اور خلفاء کے فضایل میں مبالغہ اور ان کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔[20]
ابوبکر و عمر کے دور خلافت میں
ابوبکر کی خلافت کے دور میں عثمان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جن سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ بحرین کے گورنر کے انتخاب کے سلسلہ میں ابوبکر نے ان کی رای کے مطابق عمل کیا۔[21]
خلافت ابوبکر کے زمانہ میں ان کی دیگر فعالیت میں سے ایک عمر بن خطاب کی خلافت کا عہدنامہ تحریر کرنا تھا جسے انہوں نے ابوبکر کے حکم سے تحریر کیا تھا۔[22]
طبری کے بقول عثمان، عمر کے دور خلافت میں عوام کے درمیان ان کے جانشین کے طور پر جانے جاتے تھے۔[23]
خلافت
چھ رکنی شورا
شوریٰ کے ارکان کا نام | |
برای تعیین خلیفہ سوم | |
امام علی (ع) |
عمر بن خطاب نے اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لیے چھ رکنی شورای تشکیل دی۔ اسی شورای کے ذریعے عثمان سنہ 23 یا 24 ہجری[24] کو خلیفہ منتخب ہوئے اور سنہ 35 ہجری تک حکومت کی۔[25]
اس سے پہلے کسی شورای کے ذریعے خلیفہ انتخاب کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد بعض اصحاب سقیفہ میں جمع ہوگئے اور (شیعہ عقیدے کے مطابق) غدیر کے دن منتخب شدہ فرد کو مدنظر رکھے بغیر ابوبکر کو خلیفہ معین کیا اور کچھ خاص طریقوں سے تمام لوگوں سے بیعت لی گئی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ خلیفہ کا چناؤ لوگوں کا کام ہے اور اپنے امام کے بارے میں لوگ خود فیصلہ کریں؛ لیکن ابوبکر نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے عمر کو اپنا جانشین مقرر کیا۔
عمر بن خطاب نے گزشتہ دونوں طریقوں کے برخلاف انتخاب کے لئے ایک نیا طریقہ پہچنوایا اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ابوبکر کا انتخاب مسلمانوں کی مرضی سے نہیں تھا اور اس کے بعد مسلمانوں کی مشورت سے ہونا چاہیے۔[26]، چھ رکنی شورای بنا دی تاکہ یہ ایک دوسرے کے مشورے سے انہی میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں۔ اس شورای کے افراد میں: علی بن ابی طالب (ع)، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن عوام، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف شامل تھے۔[27]
ان کے دور خلافت کے واقعات
تاریخی شواہد کے مطابق عثمان کا خلیفہ بننے کے بعد بہت سارے گورنر اور عہدے داروں کو ان کے منصب سے ہٹا کر اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کرنا اس کے ابتدائی اقدامات میں سے ہیں۔[28] مثال کے طور پر عمار بن یاسر کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنے سوتیلے بھائی ولید ابن عقبہ کو کوفہ اور ابو موسی اشعری کو ہٹا کر اپنے کمسن خالہ زاد بھائی عبد اللہ بن عامر کو بصرہ کا گورنر مقرر کیا۔ عمرو بن عاص کو فتوحات اور شمالی افریقہ کی جنگوں کا سپہ سالار معین کیا اور اپنے رضاعی بھائی عبد اللہ بن ابی سرح کو فتوحات کے خزانے (خراج اور غنائم) کا عہدہ دیا۔ لیکن بعد میں عمرو عاص کو اپنے عہدے سے معزول کرکے اس کی جگہ پر بھی عبد اللہ کو بٹھا دیا۔[29]
فتوحات
عثمان کے دَور میں مسلمانوں کی فتح شدہ زمینوں میں اضافہ ہوا۔ جیسے فارس کے کچھ شہر عربوں کے ہاتھ آئے اور اس فتح کے سپہ سالار عثمان بن ابی العاص تھے۔ اسی طرح 29 ہجری کو عبد اللہ بن ابی سرح کی سرپرستی میں شمالی افریقہ کے کچھ علاقے اور معاویۃ بن ابی سفیان کی سربراہی میں جزیرہ قبرس فتح ہوئے۔[30]
بعض علاقے جیسے ایران کے علاقہ فارس کے کچھ شہروں میں بغاوت ہوئی اور اپنی خود مختاری کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں سرکوب کیا گیا۔[31] ساسانی سلسلے کا آخری بادشاہ؛ یزدگرد سوم بھی عثمان کے دَور خلافت میں مارا گیا۔ منابع کے مطابق، آخری بار ایک تالاب میں یزدگرد اور عرب سپاہیوں کا آمنا سامنا ہوا اور عثمان بن ابی العاص اور عبد اللہ بن عاص جو اس علاقے میں عرب فوج کے سپہ سالار تھے، نے ان کا مقابلہ کیا، یزدگرد کو شکست ہوئی اور مَرو کی طرف بھاگ گیا بعد میں نیند کی حالت میں کسی چکّی چلانے والے کے ہاتھوں مَرو میں مارا گیا۔[32]
قرآن مجید کی جمع آوری
عثمان کے دَور خلافت میں اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ نئی اسلامی سرزمینوں میں جب قرآن کریم پہنچا تو اس کی قرائت میں بہت ساری مشکلات اور اختلافات کا سامنا ہوا۔ اسی وجہ سے عثمان کے حکم سے پیغمبر اکرم کے باقیماندہ صحیفوں اور مختلف افراد کے نسخے بالخصوص حفصہ اور زید کا اپنا نسخہ کی بنا پر، گواہوں کی شہادت اور حافظوں کے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے مصحف امام یعنی رسمی اور آخری نسخہ جو مصحف عثمانی سے مشہور تھا کا کام شروع ہوا اور چار یا پانچ سال کے عرصے میں یعنی سنہ 24 ہجری سے لیکر سنہ 30 ہجری کے ختم ہونے سے پہلے پہلے تک یہ کام مکمل ہوا۔ اور اسی نسخے کے مطابق چار یا پانچ اور نسخے بھی لکھے گئے جن میں سے دو نسخے مکہ اور مدینہ میں رکھے گئے باقی تین یا چار نسخے ایک حافظ قرآن کے ساتھ جو معلم اور استاد کے عنوان سے ہمراہ تھا، اسلامی دنیا کے اہم مراکز یعنی؛ بصرہ، کوفہ، شام اور بحرین بھیجے گئے۔ پھر عثمان نے حکم دیا کہ سابقہ تمام نسخوں کو مٹایا جائے تاکہ اختلاف جڑ سے ہی مکمل طور پر ختم ہو جائیں۔[33]
اسلامی احکام میں تبدیلی
عثمان نے بعض موارد میں اسلامی احکام کو تبدیل کیا۔ اس نے رسول اللہ(ص) کی سنت کے خلاف منا میں نماز پوری پڑھی اور جب صحابہ جیسے عبدالرحمان بن عوف کے اعتراض کا سامنا ہوا اور جواب دینے سے قاصر رہا تو کہا "ہذا رَأىٌ رَأَیْتُہ" " یہ میری رای ہے جو میں نے دی ہے"[34] اور متقی ہندی کے کہنے کے مطابق وضو میں تبدیلی اور شیعہ اور اہل سنت کا اختلاف بھی اس کے دَور خلافت سے شروع ہوا ہے۔[35] وہ ایک جگہ خود کہتا ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے ہاتھ اور منہ دھونے کے بعد سر کا مسح کیا اور پھر پاؤں کا مسح کیا[36] لیکن ایک اور جگہ پیغمبراکرم (ص) کے وضو میں پاؤں دھونے کے بارے میں کہا ہے۔[37]
حضرت علی (ع) اس بارے میں فرماتے ہیں: "اگر دین افراد کی نظر کا تابع ہوتا تو پاؤں کے تلوں کا مسح کرنا پاؤں کے اوپر والے حصے کی نسبت زیادہ مناسب لگتا؛ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ (ص) پاؤں کے اوپر والے حصے کا مسح کرتے تھے"۔[38]
اہل سنت کی روایات کے مطابق حضرت جبرئیل نے رسول خدا (ص) کو پاؤں کا مسح سکھایا۔[39]
ان کے خلاف بغاوت
محققین کا ماننا ہے کہ عثمان کے خلاف ناراضگی اور انقلاب اچانک یا ایک دفعہ پیش نہیں آئے بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مختلف اسباب و علل رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ صورت حال پیش آئی اور آخر میں اس حد تک ہچ گئی کہ پھر اس کے بعد اس کو روکنا ممکن نہیں رہ گیا۔[40]
معاشرہ کے اہم مناصب پر اپنے رشتہ داروں کو مقرر کرنا، ان افراد کا طرز حکومت بہت سے مسلمانوں کے اعتراض کا سبب بنا۔[41] ان رشتہ داروں میں سے بعض کا سابقہ اسلام اچھا نہیں تھا؛ عبد اللہ بن عامر ماضی میں ارتداد کا مرتکب رہ چکا تھا۔[42] ولید بن عقبہ وہ شخص تھا جسے قرآن مجید فاسق خطاب کر چکا تھا۔[43] مروان بن حکم کو بھی رسول خدا (ص) اس کے باپ کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکال چکے تھا، جنہیں عثمان پھر سے مدینہ لے آئے تھے۔[44]
ان کے خلاف دیگر اعتراضات میں سے ان کا بیت المال سے اپنے رشتہ داروں کو مال عطا کرنا شمار کیا گیا ہے۔[45] وہ بنی امیہ کو بیت المال سے کثرت سے مال عطا کیا کرتے تھے۔[46]
محاصرہ اور قتل
بعض واقعات کے بعد باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور گھر کے اندر کھانا و پانی لے جانے پر پابندی عائد کر دی۔[47] محاصرہ کرنے والوں میں مصر، بصرہ، کوفہ اور مدینہ کے بعض افراد شامل تھے۔[48] محاصرہ کا یہ سلسلہ چالیس دنوں تک چلتا رہا[49] اور آخرکار محاصرہ کرنے والوں نے گھر پر حملہ کر دیا اور انہیں قتل کر ڈالا۔[50] یہ قتل جمعہ کے روز، 18 ذی الحجہ سنہ 35 ہجری میں نقل ہوا ہے۔[51]
حوالہ جات
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
- ↑ دایرة المعارف اسلام(انگلیسی)، ذیل مدخل 'UTHMAN B. 'AFFAN.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۰۳۸؛ابن حجر، الاصابہ، ج۴، ص۳۷۷.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۴، ۳۳۴.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۹.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۹.
- ↑ ذہبی، اسد الغابہ، ۳، ۴۸۱.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۴، ۳۳۵.
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۵۵
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
- ↑ مراجعہ کریں: واقدی، المغازی، ۱، ۱۰۱؛ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸؛ ذہبی، اسد الغابہ، ۳، ۴۸۲.
- ↑ واقدی، المغازی، ج۱، ص۲۷۸
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۹۵-۹۷؛ ابن هشام، السیرة النبویة، ج۲، ص۷۸۱-۷۸۲؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۶۳۱-۶۳۲؛ حسن ابراهیم حسن، تاریخ اسلام، ج۱، ص۱۲۷؛ ابو الفتوح رازی، روض الجنان، ج۱۷، ص۳۳۶-۳۳۷.
- ↑ ذهبی، تاریخ الاسلام، ج۳، ص۴۷۰
- ↑ امینی، الغدیر، ج۸، ص۵۷ و ج٬۹ ص۳۳۶.
- ↑ متقی هندی، کنز العمال، ج۵، ص۶۲۰.
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، ج۳، ص۴۲۹.
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، ج ۳، ص ۴۷۹.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۴.
- ↑ دینوری، الامامۃ والسیاسہ، ۱، ۴۴ - ۴۶؛ زرکلی، الاعلام، ۴، ۲۱۰.
- ↑ المصنف، ج ۵،ص۴۴۵؛ الطبقات الکبری، ج ۳،ص۳۴۴.
- ↑ سیوطی، تاریخ خلفا،ص۱۲۹.
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
- ↑ مراجعہ کریں: دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
- ↑ مراجعہ کریں: دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹ و ۱۴۰.
- ↑ تاریخ قرآن، رامیار، ص۴۰۷-۴۳۱؛ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۶۳۵
- ↑ تاریخ اسلام، ج4 ص268
- ↑ کنز العمال ج9 ص443 ح 26890
- ↑ المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص16
- ↑ مسند الدارمي ج1 ص544
- ↑ ابن ابی شیبہ، المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص25؛ كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال ج9 ص606
- ↑ صنعانی، المصنف ج1 ص19؛ ابن ابی شیبہ، المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص26
- ↑ غریب، خلافة عثمان بن عفان، قاهره، ص۱۰۳.
- ↑ غریب، خلافة عثمان بن عفان، قاهره، ص۱۰۵.
- ↑ غریب، خلافة عثمان بن عفان، قاهره، ص۱۰۶.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج ۴، ص۱۵۵۳.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۹.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۷۳.
- ↑ ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۷۱.
- ↑ ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۱۷۲.
- ↑ ابن اثیر، أسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۹۰.
- ↑ ابن اثیر، أسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۹۰.
- ↑ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۲۶.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۲۲.
مآخذ
- ابن عبدالبر(م. ۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
- مقدسی(م. ۵۰۷)، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بور سعید، بیتا
- ابن مزاحم، نصر (م ۲۱۲) ، وقعۃ صفین، ترجمہ پرویز اتابكی، تہران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، چ دوم، ۱۳۷۰ش.
- دینوری، احمد بن داوود (م ۲۸۲) ، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال،قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
- ابن اثیر(م ۶۳۰)، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
- ابن جوزی(م ۵۹۷)، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت،دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
- واقدی، محمد بن عمر(م ۲۰۷)، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، ط الثالثۃ، ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیرکبیر، ۱۳۶۹ش.
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
- دینوری، ابن قتیبہ (۲۷۶) ، امامت و سیاست (تاریخ خلفاء) ، ترجمہ سید ناصر طباطبایی، تہران، ققنوس، ۱۳۸۰ش.
- طبری، محمد بن جریر(۳۱۰ق)، تاریخ الطبری،دار التراث، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۳۸۷ ق.
- دایرۃالمعارف اسلام(انگلیسی)، ذیل مدخل 'UTHMAN B. 'AFFAN.
- ابن اثیر(م.۶۳۰ق.)أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،دار الفكر، ۱۹۸۹م.
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیرکبیر، ۱۳۶۹.
- سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، تحقیق: لجنۃ من الادباء، توزیعدار التعاون عباس احمد الباز، مکۃ المکرمۃ.
- صنعانی، أبو بكر عبد الرزاق (۲۱۱ق)،المصنف، المحقق حبیب الرحمن الأعظمی، المكتب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۰۳ق.
- دارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن(۲۵۵ق) ، مسند الدارمی، تحقیق حسین سلیم أسد الدارانی،دار المغنی للنشر والتوزیع، المملكۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الأولی، ۱۴۱۲ق.
- متقی ہندی، علی بن حسام(۹۷۵ق) ،، کنزالعمال، المحقق بكری حیانی، صفوۃ السقا، مؤسسۃ الرسالۃ، الطبعۃ الطبعۃ الخامسۃ، ۱۴۰۱ق.
- ہاشمی بصری(م.۲۳۰ق.) ، الطبقات الكبری،، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت،دار الكتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰