امام مہدی کی طولانی عمر

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


امام مہدیؑ کی طولانی عمر کا مطلب امام مہدیؑ کا سنہ 255 ہجری سے اپنے ظہور تک زندہ رہنا ہے جو کہ امامیہ عقائد میں سے ایک ہے۔ آپ کی عمر سنہ 1446ھ تک 1190 سال سے زیادہ ہے۔ ابن تیمیہ اور ناصر القفاری جیسے امامیہ مخالفین ایسی زندگی کو نا ممکن سمجھتے ہوئے اسے امام مہدیؑ کی ولادت کے انکار کی دستاویز سمجھتے ہیں۔

علمائے امامیہ غیر معمولی لمبی عمر کے امکان کو عقلی طور پر ممکن سمجھتے ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ حضرت نوح، حضرت خضر اور حضرت عیسیٰ کی لمبی عمر کا حوالہ دیتے ہیں۔ نیز آپؑ کی طولانی زندگی کو ثابت کرنے کے لئے طویل عمر والے لوگوں کی تاریخی مثالوں، امام مہدی کی طویل عمر کو ظاہر کرنے والی روایات اور تجربی اور سائنسی اعتبار سے لمبی عمر کے امکان سے استناد کیا جاتا ہے۔

امام مہدی علیہ السلام کی طویل عمر کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ابوالفتح کراجکی کی کتاب البرہان علی صحّۃ طول عمر الامام صاحب الزمان ہے جو سنہ 427ھ میں لکھی گئی ہے۔ نیز 370 ہجری کے بعد لکھی گئی بعض روایتی کتابوں میں بھی ایک حصہ اس موضوع کے لیے مختص ہوا ہے۔

اہمیت اور تاریخچہ

امام مہدی علیہ السلام کی لمبی عمر کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی ولادت (سنہ 255 ہجری) کے بعد سے آپ کے ظہور تک جاری ہے اور یہ امامیہ[1] اور بعض اہل سنت علماء[2]کے عقائد میں سے ایک ہے۔ اس بنا پر امام مہدی علیہ السلام کی عمر سنہ 255ھ سے سنہ 1446 ہجری تک 1190 سال سے زیادہ بنتی ہے۔

امامیہ کی نظر میں غیر معمولی لمبی عمر ممکن ہے اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔[3] تاہم ابن تیمیہ حَرّانی (متوفی: 728ھ) [4] اور ناصر القفاری.[5] جیسے امامیہ کے مخالفین نے اس طرح کی طویل زندگی کو نہ فقط ناممکن اور بعید سمجھا ہے بلکہ اسے امام مہدیؑ کی ولادت کے انکار کی دلیل بھی قرار دیا ہے۔

تحقیقات کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کی لمبی عمر کا مسئلہ سنہ 370 ہجری کے بعد مہدیت سے متعلق امامیہ کتابوں میں دیکھا گیا ہے۔ اس تاریخ سے پہلے کی کتابوں جیسے بصائر الدرجات، الکافی اور الغیبۃ نُعمانی میں یہ بات ذکر نہیں ہے کیونکہ یہ ایک معمول کی بات تھی اور طولانی عمر کو ناممکن نہیں سمجھا جاتا تھا۔[6] پہلی کتاب جس نے اس مسئلہ پر ایک باب مختص کیا وہ شیخ صدوق (متوفی: 381ھ) کی کمال الدین و تمام النعمۃ سمجھی گئی ہے۔[7]

غیر معمولی طویل عمر کا امکان

مسجد نبوی میں "محمد المہدی" کے عنوان کے ساتھ ایک خط ثلث میں ایک کتبہ۔ یہ نوشتہ اس طرح لکھا گیا تھا کہ دو لفظ محمد اور المہدی کو ملا کر لفظ "حی" یعنی زندہ، بن جاتا تھا۔ (دائیں طرف کی تصویر) اس نوشتہ میں جو تبدیلی آئی ہے اس میں لفظ "حی" اب نظر نہیں آتا۔ (بائیں طرف تصویر)[8]

امکان عقلی

عقلی دلیل کے مطابق غیر معمولی لمبی عمر ناممکن نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی قادر اور عالم ہے، اگر وہ چاہے تو لمبی عمر دے سکتا ہے.[9] محمد باقر صدر (متوفی: 1400ھ) کا کہنا ہے کہ کوئی مسئلہ معجزہ یا کسی اور وجہ سے غیر معمولی ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ممکن بھی نہ ہو۔[10] شیعہ فلسفی عبد اللہ جوادی آملی (پیدائش: 1933ء) کا خیال ہے کہ اگر انسان کی روح ترقی کرے تو وہ کمال کے مدارج کو پہنچتا ہے جس کے ذریعے عالَم مادہ اور اپنے بدن میں تصرف کرتا ہے اور اس میں مادی زندگی کے شرائط کو برقرار رکھ سکتا ہے۔[11]

قرآن اور تورات میں لمبی عمر والے افراد سے استناد

سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 14 میں حضرت نوحؑ کی 950 سالہ نبوت کا تذکرہ، امامیہ علماء کی طرف سے لمبی عمر کے امکان کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرآنی دستاویزات میں سے ایک ہے۔[12]

اسی طرح قرآن مجید کے مطابق حضرت خضر، حضرت موسیٰ کے دَور تک زندہ تھے۔[13] شیخ مفید (متوفی: 413ھ) کے مطابق راویوں کے اجماع اور سیرت کے مطابق ان کی زندگی ابھی جاری ہے۔[14] اِرْبلی (متوفی: 692ھ) سورہ نساء کی آیت نمبر 159 کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت تک زندہ تھے۔[15]

شیعہ مرجع تقلید اور مہدویت کے محقق لطف اللہ صافی گلپایگانی (وفات: 1443ھ) کے مطابق، تمام الہامی مذاہب میں طویل عمر والے لوگوں کا وجود ایک مشترکہ عقیدہ ہے۔ مثال کے طور پر، تورات کے سِفر تکوین میں، اصحاح 5، آیات 5، 8، 11، 14، 17، 20، 27، 31 اور دیگر موارد میں، بعض انبیاء اور دیگر لوگوں کا ذکر آیا ہے جن کی عمریں بہت طویل تھیں۔[16]

امام مہدی کی طویل عمر پر دلالت کرنے والی روایت

شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) نے کتاب الغیبہ میں ایسی روایات کا تذکرہ کیا ہے جو امام مہدیؑ کی غیر معمولی لمبی عمر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[17] اربلی نے کشف الغمہ میں حضرت الیاس، حضرت عیسی اور حضرت خضر جیسے بعض انبیاء کی طویل عمر کے بارے میں موجود بعض روایات کو طویل عمر کے امکان کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے اور پھر امام مہدیؑ کے ظہور تک کی زندگی پر مبنی روایات بیان کیا ہے۔[18] ابن میثم بحرانی (متوفی 699ھ) نے بھی انبیاء میں سے حضرت الیاس اور حضرت خضرؑ جبکہ اشقیا میں سے سامری اور دجال کا زندہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ لوگ زندہ رہ سکتے ہیں تو خدا کے ولی کی بھی لمبی عمر ہوسکتی ہے۔[19] فیض کاشانی (وفات: 1091ھ) وہ امام مہدیؑ کی لمبی عمر کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی روایات کو متواتر سمجھتے ہیں۔[20]

انبیاء علیہم السلام کی کچھ سنتیں ہمارے قائم میں پائی جاتی ہیں۔۔۔ آدمؑ اور نوحؑ کی سنت ان کی لمبی عمر ہے۔[21]

سائنسی اعتبار سے لمبی عمر کا امکان

سائنسی اعتبار سے موت کے لئے دلیل کی ضرورت ہے، جبکہ زندگی کے تسلسل کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں۔ موت، زندگی کے شرائط کا فراہم نہ ہونا ہے۔ انسان بیماری اور بڑھاپے کے عوامل سے لاعلمی اور معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اور مر جاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس ان عوامل جیسے غذائیت، ماحولیات، جینٹیک وغیرہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری علم اور آلات موجود ہوں تو وہ بہت طویل اور ابدی زندگی بھی حاصل کر سکتا ہے۔[22]

امام مہدی کی لمبی عمر پر تاریخی تائیدات

شیخ صدوق نے اپنی کتاب کمال الدین و تمام النعمۃ میں ایک باب مُعَمَّرین (طویل العمر لوگ) کے ساتھ مختص کیا ہے اور اس باب میں درجنوں لوگوں کے نام درج ہیں۔ ان لوگوں میں 120 سے 3000 سال کی عمر تک کے لوگ ہیں۔ شیخ صدوق نے ان لوگوں کے بارے میں موجود روایت کو شیعہ کے ساتھ مخصوص نہیں سمجھا ہے اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے لوگوں کے وجود کی تصدیق اہل سنت کی کتب میں بھی ہوئی ہے۔[23] انہوں نے ان مثالوں کو ذکر کرنے اور پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت ذکر کی ہے جس میں سابقہ امتوں کے واقعات کا امت اسلامیہ میں واقع ہونے کا ذکر ہوا ہے اور اس کے بعد ایسی عمر امام زمانہ کے لئے بھی ممکن سمجھا ہے۔[24] شیخ مفید،[25] کراجکی[26] (متوفی: 449ھ)، شیخ طوسی،[27] امین الاسلام طبرسی[28] (متوفی: 548ھخواجہ نصیر طوسی[29] (متوفی: 672ھ)، ابن میثم بحرانی،[30] علامہ حلی (متوفی: 726ھ)،[31] علامہ مجلسی[32] (متوفی: 1110ھ)، لطف اللہ صافی گلپایگانی[33] اور ابراہیم امینی[34] (متوفی: 1441ھ) وہ شیعہ علما ہیں جنہوں نے غیر معمولی طویل عمر کے امکان پر تاریخی دلائل پیش کیے ہیں۔

مونوگراف

ابوالفتح کراجکی کی کتاب البرهان علی صحة طول عمر الامام صاحب‌الزمان کے سنگی چاپ کا ابتدائی حصہ جو 1322ھ کو تبریز میں کتاب کنز الفوائد میں چھپ گیا. یہ نسخه آستان قدس رضوی کی لائبریری میں 8728 نمبر پر درج ہے۔

امام مہدی کی طویل عمر کا مسئلہ بعض کتابوں کا مستقل موضوع رہا ہے۔

  • کتاب «البرہان علی صحّۃ طول عمر الامام صاحب الزمان» جس کے مؤلف شیخ مفید کے شاگرد اور شیعہ امامیہ متکلم ابوالفتح کراجکی ہیں۔ آپ نے اس کتاب میں طویل عمر کے امکان پر عقلی اور نقلی دلائل، طویل عمر کا راز اور بعض لمبی عمر والے لوگوں کی تاریخ بیان کی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار کنز الفوائد کے ایک حصے کے طور پر سنہ 1332 ہجری میں تبریز میں سنگی شکل میں منظر عام پر آگئی جسے گنجینہ معارف شیعہ امامیہ کے نام سے محمدباقر کمرہ ای نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔[35] اس کتاب کے مؤلف کے مطابق اس کتاب کی تدوین سنہ 427ھ بتائی گئی ہے۔[36]
  • «دفع شبہۃ طول عمر الحجۃ(عج)» بقلم محمود بن محمدحسن شریعتمدار.[37]
  • «طول عمر حضرت ولی عصر(عج)» تالیف لطف اللہ صافی گلپایگانی.[38]
  • «منتظر جہان و راز طول عمر» تالیف سید احمد علم الہدی.[39]
  • «شگفتی در چیست؟» بقلم محمد صالحی آذری.[40]
  • کتاب «اثبات طول عمر امام زمان(ع)» تدوین سید مرتضی میرسعید قاضی.[41]
  • «بحثی پیرامون طول عمر امام غائب» دارالتبلیغ اسلامی قم.[42] کے توسط منتشر ہوگئی
  • «طول عمر امام زمان از دیدگاہ علوم و ادیان» بقلم علی اکبر مہدی پور.[43]
  • «امام مہدی(عج) - طول عمر» بقلم ہادی حسینی.[44]

حوالہ جات

  1. رضوانی، تولد حضرت مہدی، 1386ش، ص60-61؛ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص514؛ شیخ مفید، الارشاد، 1372ش، ج2، ص339؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، 1425ق، ص419؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص418؛ اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج2، ص437؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج51، ص2۔
  2. العمیدی، المہدی المنتظر فی الفکر الاسلامی، 1425ق، ص136-141؛ محمود، ولادۃ الامام المہدی فی کتب الفریقین، 1390ش، ص357-402؛ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: نصیبی شافعی، مطالب السؤول، 1419ق، ص311-319؛ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، 1426ق، ج2، ص506-507؛ گنجی شافعی، البیان، 1404ق، ص521؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، 1400ق، ج2، ص134.
  3. زینلی، «امام مہدی(ع) و طول عمر (پیشینہ و دلا ئل)»، ص222-223۔
  4. ابن تیمیہ حرَانی، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ق، ص91-94۔
  5. قفاری، أصول مذہب الشیعۃ، 1414ق، ج2، ص866۔
  6. زینلی، «امام مہدی(ع) و طول عمر (پیشینہ و دلا ئل)»، ص223۔
  7. زینلی، «امام مہدی(ع) و طول عمر (پیشینہ و دلا ئل)»، ص224۔
  8. «درخشش نام اهل بیت بر دیوار مسجدالنبی محمد المهدی(عج) زنده است»، سایت حوزه نمایندگی ولی فقیه در امور حج و زیارت.
  9. خواجہ نصیرالدین طوسی، تلخیص المحصل، 1405ق، ص433؛ علامہ حلی، مناہج الیقین، 1415ق، ص482۔
  10. صدر، بحث حول المہدی(عج)، 1417ق، ص53-56۔
  11. جوادی آملی، عصارہ خلقت، 1390ش، ص24۔
  12. ملاحظہ کریں: شیخ مفید، المسائل العشر، 1426ق، ص93؛ طبرسی، اعلام الوری، دارالکتب الاسلامیۃ، ص472؛ ابن میثم بحرانی، قواعد المرام، 1406ق، ص191؛ فیض کاشانی، علم الیقین، 1377ش، ج2، ص966۔
  13. سورہ کہف، آیات 65-82۔
  14. شیخ مفید، المسائل العشر، 1426ق، ص83۔
  15. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج2، ص489۔
  16. صافی گلپایگانی، سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، 1391ش، ج3، ص166-167۔
  17. شیخ طوسی، الغیبۃ، 1425ق، ص419-422۔
  18. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج2، ص489-519۔
  19. ابن میثم بحرانی، قواعد المرام، 1406ق، ص192۔
  20. فیض کاشانی، علم الیقین، 1377ش، ج2، ص965۔
  21. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ق، ج1، ص322۔
  22. صافی گلپایگانی، منتخب الأثر، 1380ش، ج2، ص276-282؛ صافی گلپایگانی، سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، 1391ش، ج3، ص161-217؛ امینی، دادگستر جہان، 1380ش، ص175-201۔
  23. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص552-576۔
  24. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص576۔
  25. شیخ مفید، المسائل العشر، 1426ق، ص94-103۔
  26. کراجکی، کنز الفوائد، 1405ق، ج2، ص114۔
  27. شیخ طوسی، الغیبۃ، 1425ق، ص113-126۔
  28. طبرسی، اعلام الوری، دارالکتب الاسلامیۃ، ص473-476۔
  29. خواجہ نصیرالدین طوسی، تلخیص المحصل، 1405ق، ص433۔
  30. ابن میثم بحرانی، قواعد المرام، 1406ق، ص191۔
  31. علامہ حلی، مناہج الیقین، 1415ق، ص482۔
  32. علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج51، ص225-293۔
  33. صافی گلپایگانی، منتخب الأثر، 1380ش، ج2، ص275-276۔
  34. امینی، دادگستر جہان، 1380ش، ص201-202۔
  35. آقا بزرگ تہرانی، الذّریعۃ، 1408ق، ج3، ص92؛ رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، 1371ش، ج9، ص115؛ ری شہری، دانشنامہ امام مہدی(عج)، 1393ش، ج10، ص248۔
  36. کراجکی، کنزالفوائد، 1405ق، ج2، ص114۔
  37. آقا بزرگ تہرانی، الذّریعۃ، 1408ق، ج8، ص230؛ رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، 1371ش، ج9، ص160۔
  38. صافی گلپایگانی، طول عمر حضرت ولی عصر(عج)، 1386ش، شناسنامہ کتاب۔
  39. رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، 1371ش، ج9، ص268۔
  40. رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، 1371ش، ج9، ص194۔
  41. رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، 1371ش، ج9، ص85۔
  42. رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، 1371ش، ج9، ص114۔
  43. مہدی پور، راز طول عمر امام زمان(عج) از دیدگاہ علم و ادیان، 1378ش، شناسنامہ کتاب۔
  44. حسینی، امام مہدی (عج) - طول عمر، 1381ش، شناسنامہ کتاب۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذّریعۃ إلی تصانیف الشّیعۃ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • آیتی، نصرت اللہ، دلیل روشن (پاسخ بہ شبہات قفاری دربارۂ اندیشہ مہدویت)، قم، آیندہ روشن، 1393ہجری شمسی۔
  • ابن جوزی، یوسف ابن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص، قم، المجمع العالمی لاہل البیت علیہم السلام. مرکز الطباعۃ و النشر، 1426ھ۔
  • ابن میثم بحرانی، میثم بن علی، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، مکتبۃ آیۃاللہ العظمی مرعشی النجفی، 1406ھ۔
  • ابن تیمیہ حرَانی، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، 1406ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمۃ، تبریز، بنی ہاشمی، 1381ھ۔
  • امینی، ابراہیم، دادگستر جہان، قم، شفق، 1380ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، عصارہ خلقت: دربارہ امام زمان(عج)، قم، اسراء، 1390ہجری شمسی۔
  • حسینی، ہادی، امام مہدی(عج) - طول عمر، مشہد، انتشارات آستان قدس رضوی، شرکت بہ نشر، 1381ہجری شمسی۔
  • حمویی جوینی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمۃ من ذریتہم علیہم السلام، تحقیق محمد باقر المحمودی، بیروت، موسسۃ المحمودی، 1400ھ۔
  • خواجہ نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، تلخیص المحصل، بیروت، دارالاضواء، 1405ھ۔
  • «درخشش نام اہل بیت بر دیوار مسجدالنبی محمد المہدی(عج) زندہ است»، وبگاہ حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت، تاریخ درج مطلب: 25 مرداد 1396ش، تاریخ بازدید 9 اردیبہشت 1403ہجری شمسی۔
  • رضوانی، علی اصغر، تولد حضرت مہدی، قم، نشر مسجد جمکران، 1386ہجری شمسی۔
  • رفاعی، عبد الجبار، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، سازمان چاپ و انتشارات، 1371ہجری شمسی۔
  • زینلی، غلامحسین، «امام مہدی(ع) و طول عمر (پیشینہ و دلا ئل)»، در مجلہ انتظار موعود، شمارہ 6، پیاپی 6، دی 1381ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1395ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1425ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، 1372ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المسائل العشر فی الغیبۃ، قم، دلیل ما، 1426ھ۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار حضرت آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی، 1391ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، طول عمر حضرت ولی عصر(عج)، قم، دفتر حضرت آیت اللہ العظمی حاج شیخ علی صافی گلپایگانی، 1386ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، منتخب الأثر فی الإمام الثانی عشر(ع)، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی الصافی الگلپایگانی، وحدۃ النشر العالمیۃ، 1380ہجری شمسی۔
  • صدر، محمدباقر، بحث حول المہدی(علیہ السلام)، بیروت، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیۃ، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1390ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مناہج الیقین فی اصول الدین، تہران، منظمۃ الاوقاف و الشؤون الخیریۃ. دار الأسوۃ للطباعۃ و النشر، 1415ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدبار، بحار الأنوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی،1403ھ۔
  • العمیدی، سید ثامر ہاشم، المہدی المنتظر فی الفکر الاسلامی، قم، مرکز الرسالہ، 1425ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، علم الیقین، قم، بیدار، 1377ہجری شمسی۔
  • قفاری، ناصر، أصول مذہب الشیعۃ الإمامیۃ الإثنی عشریۃ، بی جا، بی نا، 1414ھ۔
  • کراجکی، محمد بن علی، کنزالفوائد، تحقیق عبداللہ نعمہ، بیروت، دارالاضواء، 1405ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • گنجی شافعی، محمد بن یوسف، البیان فی أخبار صاحب الزمان، تہران، دار إحیاء تراث أہل البیت علیہم السلام، 1404ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ برپایہ قرآن، حدیث و تاریخ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث. سازمان چاپ و نشر، 1393ہجری شمسی۔
  • محمود، عرفان، ولادۃ الامام المہدی فی کتب الفریقین، قم، نشرالفقاہۃ، 1390ہجری شمسی۔
  • مہدی پور، علی اکبر، راز طول عمر امام زمان(عج) از دیدگاہ علم و ادیان، تہران، طاووس بہشت، 1378ہجری شمسی۔
  • نصیبی شافعی، محمد بن طلحۃ، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، بیروت، موسسۃ البلاغ، 1419ھ۔