خمس

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

خُمس ایک فقہی اصطلاح ہے جس کا اطلاق فقہ میں مذکور مخصوص شرائط کے ساتھ سالانہ بچت اور بعض دوسری چیزوں کے پانچویں حصے 1/5 کی ادائیگی پر ہوتا ہے۔ خمس، فروع دین میں سے ہے جس کا تذکرہ سورہ انفال کی آیت نمبر 41 اور کتب احادیث میں 110 سے زیادہ احادیث میں ملتا ہے۔

خمس کے وجوب کو کم و بیش اسلام کے تمام مذاہب قبول کرتے ہیں لیکن مذہب امامیہ میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جس کی بنا پر خمس کی ادائگی کو اہل تشیع ایک اہم شرعی ذمہ داری اور عبادت کے طور پر خاص اہمیت دیتے ہیں۔

خمس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں سے ایک حصہ سہم سادات کہلاتا ہے جسے پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے فقیر سادات جو اپنی زندگی کے اخراجات پوری نہیں کر سکتے، کو دیا جاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ سہم امام جسے امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں جامع الشرائط مجتہد کے توسط سے مختلف دینی امور میں خرچ کیا جاتا ہے۔

خمس سے حاصل ہونے والی وجوہات دینی مدارس اور اسلامی معاشرے میں دینی معارف کی تروج میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

قرآنی دلیل

قرآن مجید میں سورہ انفال کی آیت نمبر 41 میں خداوند عالم نے خمس کی ادائگی کو ایمان کی نشانی قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرماتا ہے:

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ فَأَنَّ لِلّه خُمُسَه وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّه وَ ما أَنْزَلْنا عَلی عَبْدِنا یَوْمَ الْفُرْقانِترجمہ= اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اسکے رسول،رسول کے قرابتدار ، ایتام ،مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔

شأن نزول: یہ آیت خمس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کیونکہ یہ آیت جنگ بدر کے مجاہدین سے مخاطب ہے اور انکی حقیقی ایمان کو خمس کی ادائگی کے ساتھ مشروط فرما رہے ہیں۔

غنیمت کے معنی

لغوی اعتبار سے "غُنم" اس منفعت کو کہا جاتا ہے جسے انسان حاصل کرتا ہے فرق نہیں یہ منفعت تجارت وغیرہ کے ذریعے حاصل ہو یا جنگ کے ذریعے حاصل ہو یا کسی اور طریقے سے۔ راغب اصفہانی ، مفردات القرآن میں کہتا ہے کہ "غنم" اصل میں بھیڑ کے معنی سے لیا گیا ہے جسے بعد میں ہر اس منفعت پر اطلاق کیا گیا جو انسان دشمن یا غیر دشمن سے حاصل کرتا ہے۔ طبرسی نے بھی غُنم کو منفعت کے معنی میں لیا ہے نہ فقط جنگی غنیمت میں جس طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 94 میں "غنائم" سے مراد بھی یہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو غنیمت کو صرف جنگی غنائم کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں وہ بھی غنیمت کے اصلی معنی کی وسعت سے انکار نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس کا اصلی معنی انسان کو حاصل ہونے والی ہر منفعت ہے۔

احادیث خمس

وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں تقریبا 110 احادیث خمس کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ روایات میں خمس کیلئے جو آثار بیان ہوئے ہیں ذیل میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:

  • نسل کی پاکیزگی [1]
  • دین کی تقویت [2]
  • اہل بیت(علیہ السلام)کا مددگار [3]
  • مال و دولت کی پاکیزگی [4]
  • دشمنوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں عزت و آبرو کی حفاظت [5]
  • اہل بیت (علیہم السلام) کی ذریت سے فقر اور تنگدستی کا خاتمہ [6]
  • گناہوں کا کفارہ اور قیامت کیلئے ذخیرہ [7]
  • بہشت کی ضمانت [8]
  • امام کی دعا [9]
  • رزق کی کنجی [10]

اسلام کی تاریخ میں خمس

فقہا اور مفسرین کی اکثریت اس بات کی معتقد ہے کہ ہجرت کے دوسرے سال، جنگ بدر کے دوران خمس واجب ہوا۔ اس جنگ میں نصیب ہونے والی کثیر غنیمت‌ نے اسے جمع کرنے والوں کے درمیان اس کی تقسم کے حوالے سے تنازعات اور اختلاف پیدا کئے۔ اسللام سے پہلے عربوں میں یہ رواج تھا کہ اس طرح کے مواقع پر جنگ کا سپہ سالار غنیمت کے چوتھے خصے کا مالک بنتا تھا اور بقیہ تین حصے دیگر جنگجؤوں میں تقسیم ہوتے تھے۔ [11]

آیت انفال کے نازل ہونے کے ساتھ انفال کل کا کل رسول خدا سے مختص ہوا۔ اس کے بعد آیہ خمس نے 1/5 حصہ بہ عنوان خمس کم کرنے کے بعد غنیمت کو جمع کرنے والوں کی ملکیت قرار دے دی۔ طبری نے پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے پہلی مرتبہ خمس کے دریافت کرنے کو غزوہ بنی قینقاع کی طرف نسبت دی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین سے مختلف احادیث اور خطوط خمس کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں جو خمس کے فقہی احکام کیلئے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ائمہ معصومین کے بعض شاگردوں نیز غیبت صغری کے دوران شیعہ فقہاء جیسے حسین بن سعید اہوازی، علی بن مہزیار اہوازی، محمد بن اورمہ قمی اور محمد بن حسن صفار نے بھی خمس کے بارے میں مختلف رسالے اور کتابیں لکھی ہیں۔ اسکے علاوہ بعد کے ادوار میں بھی اس حوالے سے رسالوں اور کتابوں کی تالیف شیعہ فقہاء اور علماء کی سیرت میں شامل رہی ہے۔[12]

خمس کا مصرف

سہم امام اور سہم سادات

خمس سے مربوط آیت میں صاحبان خمس کو چھ گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱.خداوند (لِلہ)، ۲.رسول خدا (لِلرّسولِ)، ۳.ذی القُربی، ۴.ایتام، ۵.مساکین، ۶.وہ لوگ جو سفر میں تنگدستی کا شکار ہو گئے ہوں(ابن سبیل)۔

"ذی القُربی" لغت میں انسان کے ہر قسم کی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔ لیکن احادیث کی روشنی میں اس آیت میں ذوی القربی سے مراد ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ [13]

سہم امام: جس میں مذکروہ بالا گروہ میں سے " خدا" و " پیامبر" اور "ذی القربی" شامل ہے، احادیث کے مطابق اسلامی حکومت کے حاکم اعلی (پیغمبر یا امام معصوم) سے مختص ہے جو "سَہم امام" کے نام سے معروف ہے۔ غیبت کبرا کے زمانے میں جامع الشرایط مجتہدین امام زمان(عج) کے نائب خاص کے عنوان سے سہم امام دریافت کرتے ہیں اور معصومین کے فرامین کے تحت مختلف دینی امور میں صرف کرتے ہیں۔
سہم سادات: خمس کے حوالے سے دوسری بحث یہ ہے کہ آیا خمس سے مربوط آیت میں یتیم، مسکین، اور ابن سبیل سے مراد ہر وہ شخس ہے جس پر یتیم، مسکین، اور ابن سبیل صدق آتا ہے یا یہ کہ اس سے مراد صرف وہ فقیر، مسکین اور ابن سبیل مراد ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے ہو؟
شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد صرف اور صرف پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ سے ایسے فراد ہیں جن پر یہ عناوین صدق آتے ہیں۔[14] اسی بنا پر اس حصے کو "سہم سادات" کہا جاتا ہے

جن چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے

مشہور شیعہ فقہا کے مطابق ائمہ معصومین کے فرامین کی روشنی میں جن چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. کار و بار یا کسی اور ذریعے سے حاصل ہونے والے منافع میں سے سال کے اخراجات کو کم کرنے کے بعد جو کچھ باقی بچ جائے۔ (احکام)
  2. مال غنیمت، کافر حربی کے ساتھ جنگ سے حاصل ہونے والی غینمت، منقول یا غیر منقول۔ (احکام)
  3. معدنیات، جس میں سونا، چاندی، لوہا، تانبہ، پیتل، پتھر کا کوئلہ، تیل، گندھگ، فیروزہ، نمک اور دوسری چیزیں جو کان کھود کر نکالی جاتی ہیں ۔(احکام)
  4. خزانہ (گنج) یعنی وہ مال جو زمین، پہاڑ، دیوار، یا درخت وغیرہ کے اندر چھپایا گیا ہو۔ (احکام)
  5. جواہرات، غوطہ خوری کے ذریعے سمندر یا دریا سے جو موتی، مونگے وغیرہ ملتی ہیں (احکام)
  6. مال مخلوط بہ حرام، حلال مال کا حرام مال کے ساتھ اس طرح مخلوط ہونا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہ ہو اور مال حرام کی مقدار اور اس کے مالک کا بھی کوئی علم نہ ہو ۔( احکام)
  7. جو زمین کافر ذمی کسی مسلمان سے خریدے ۔ (احکام)

خمس کا محاسبہ اور اس کی ادائیگی

  • خمس کی ادائیگی میں تأخیر جائز نہیں ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خمس کی ادئیگی تاخیر سے کام لے اور اپنے آپ کو خمس کا مقروض قرار دے۔
  • بیوی بچوں کے مال دولت کا خمس ان کے اپنے ذمہ ہیں۔
  • خمس کو مجتہد تک پہنچانا واجب ہے یا اس کی اجازت سے خرچ کرے لہذا مجتہد کی اجازت کے بغیر خمس کو کسی کام میں خرچ کرنا چائز نہیں ہے۔
  • خمس ایک عبادت ہے اس بنا پر قصد قربت کی ضرورت ہے۔

خمس کا سال

انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزہ رکھنا چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ سال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے ہوئے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔

اس طرح سال کی ابتداء:

  • کسان کے لئے................... پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔
  • ملازم کے لئے................... پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔
  • مزدورکے لئے .................. پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔
  • دوکاندار کے لئے............... پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔
  • اگر کسی نے اب تک خمس کا سال معین نہ کیا ہو تو بہترین کام یہ ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کرتا ہے ان کے دفتر یا ان کے وکیل سے رجوع کیا جائے۔

خمس کے احکام

  • اگر گھر کے لئے سامان خریدا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہے تو احتیاط واجب کی بناپر اس کا خمس دینا چاہئے، مثال کے طور پر ایک بڑا فرج خریدے اور پہلے فرج کی ضرورت باقی نہ رہے۔
  • اشیائے خوردو نوش جیسے چاول، تیل، چائے وغیرہ جو سال کی آمدنی سے اس سال کے خرچہ کے لئے خریدی جاتی ہے، اگرسال کے آخر میں بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • اگر ایک نابالغ بچے کا کوئی سرمایہ ہو اور اس سے کچھ نفع کمائے تو احتیاط واجب کے طور پر اس بچے کو بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • جو شخس کسی پیشے سے وابستہ نہ ہو اور اتفاقا کوئی کاروبار انجام دے اور اس میں اسے منافع حاصل ہو تو ایک سال گذرنے کے بعد سال کے اخراجات کو کسر کرنے کے بعد مابقی کا پانچواں حصہ بعنوان خمس ادا کرنا واجب ہے۔ [15]
  • بعض آمدنیوں(جیسے بخشی گئی چیزیں، انعامات اور عیدی وغیرہ) کے اوپر خمس واجب ہونے اور نہ ہونے میں مجتہدین کا اختلاف ہے ۔
  • اگر قناعت کرکے کوئی چیز سالانہ خرچہ سے بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • اگر شک کریں کہ میزبان خمس ادا کرتا ہے یا نہیں تو تحقیق کرنا واجب نہیں ہے اور کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سال کا خرچہ

اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔ لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔ اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کا پانچواں حصہ خمس کے عنوان سے ادا کردے اور باقی اپنے لئے بچت کرے۔ لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیں جو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

  • خوارک و پوشاک
  • گھریلو سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔
  • گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔
  • مہانوں کا خرچہ۔
  • شادی بیاہ کا خرچ۔
  • ضروری اور لازم کتابیں۔
  • زیارت کا خرچ
  • انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں۔
  • ادا کیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔

اہل سنت میں خمس کا نظریہ

اہل سنت کے فقہی منابع میں خمس کا موضوع بنیادی طور پر جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت کے باب میں مورد بحث قرار پاتا ہے۔ اہل سنت فقہاء، شیعہ فقہاء کی طرح خمس سے مربوط آیت اور متواتراحادیث کی روشنی میں خمس کے وجوب پر اتفاق نظر رکھتے ہیں۔ خمس کے باب میں عمدہ اختلاف موارد وجوب خمس اور خمس کے مصرف میں ہے۔ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں وجوب خمس کے اہم ترین موارد جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت ہے۔ اس حوالے سے ان کا اصلی مدرک خمس سے مربوط آیت ہے جس کا شأن نزول مفسرین کے نظریے کے مطابق جنگ بدر سے مربوط ہے۔ اس کے باوجود اہل سنت فقہاء گنج(خزانہ/ دفینہ) کو بھی خاص شرایط کے ساتھ وجوب خمس کے موارد میں شمار کیا ہے۔ فیء اسی طرح معدنیات کے مختلف اقسام اور کافر ذمی کا مسلمان سے خردی ہوئی زمین کے بارے میں بھی وجوب خمس کے حوالے سے اہل سنت فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ [16]

مآخذ

  • ابن رشد، بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد.
  • ابن زہرہ، غنیۃ النزوع الی علمی الاصول و الفروع.
  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ
  • بروجردی،مرتضی، المستند فی شرح عروۃ الوثقی.
  • بحرانی،الحدائق الناظرہ فی احکام العترۃ الطاہرۃ.
  • خلیل بن احمد، العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، ۱۴۰۹
  • خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین.
  • طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی.
  • طوسی، الخلاف.
  • علامۀ حلی، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ.
  • فاضل لنکرانی، محمدجواد، خمس انفال و فیء در قرآن کریم، قم: مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع)، ۱۳۹۲.
  • فیض کاشانی، الوافی.
  • مفید، المقنعہ.
  • موسوی عاملی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام.
  • نراقی، محمد مہدی، مستند الشیعہ فی احکام الشریعہ.

حوالہ جات

  1. لتطیب ولادتهم کافی ج۱ ص۵۴۷
  2. امام رضا(ع): الخمس عوننا علی دیننا وسائل، ج۹، ص۵۳۸
  3. امام رضا(ع): الخمس عوننا علی دیننا وسائل، ج۹، ص۵۳۸
  4. امام صادق(ع): ما ارید بذلک الا ان تطهروا وسائل، ج ۹، ص۴۸۴
  5. امام رضا(ع): و ما نبذلہ و نشتری من اعراضنا ممن نخاف سطوته وسائل، ج ۹، ص۵۳۸
  6. امام کاظم(ع): خداوندعالم نے خمس کا نصف حصہ پیغمبر اکرم کی ذریہ جو ذکات سے محروم ہیں، سے فقر و تنگدستی کے خاتمے کیلئے قرار دیا ہے۔ و جعل للفقراء قرابة الرسول نصف الخمس فاغناہم بہ عن صدقات الناس... وسائل، ج ۹، ص۵۱۴
  7. امام رضا(ع): فان اخراجه... تمحیص ذنوبکم و ما تمهدون لانفسکم لیوم فاقتکم وسائل، ج ۹، ص۵۳۸
  8. ایک شخص امام باقر علیہ‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے مال کا خمس ادا کیا، اس وقت امام(ع) نے فرمایا: میں اور میرے پذر بزرگوار پر واجب ہے کہ تمہارے لئے بہشت کی ضمانت دوں۔ «ضمنت لک علی و علی ابی الجنّة» وسائل، ج ۹، ص۵۲۸
  9. امام رضا علیہ‌السلام نے فرمایا: خمس، ہماری طرف سے مکتب اہل بیت (علیہم السلام) کی حفاظت کیلئے ہے، پھر فرمایا: جتنی ہو سکے اپنے آپ کو ہماری دعائے خیر سے محروم نہ کرو۔ «ولا تحرموا انفسکم دعاءنا ما قدرتم علیه» وسائل، ج۹، ص۵۳۸
  10. امام رضا علیہ‌السلام نے فرمایا: خمس کی ادئیگی تمہارے رزق کی کنجی ہے۔ «فان اخراجه مفتاح رزقکم» وسائل، ج۹، ص۵۳۸
  11. : خلیل بن احمد، العین، ج ۲، ص۱۳۳، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، ۱۴۰۹
  12. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۱، ص۴۷۲
  13. وسائل الشیعہ جلد ششم بحث خمس
  14. فاضل لنکرانی، محمد جواد، خمس، انفال، فيء در قرآن کريم، ص 92
  15. توضیح المسائل مراجع، م ۱۷۶۵؛ نوری، توضیح المسائل، م ۱۷۶۱؛ وحید، توضیح المسائل، م ۱۷۷۳
  16. ابن رشد، بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد، ج۱، ص۳۱۳-۳۱۴

مآخذ

  • ابن رشد، بدایہ المجتہد و نہایة المقتصد.
  • ابن زہره، غنیۃ النزوع الی علمی الاصول و الفروع.
  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ
  • بروجردی، مرتضی، المستند فی شرح عروة الوثقی.
  • بحرانی،الحدائق الناظره فی احکام العترة الطاهرة.
  • خلیل بن احمد، العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، ۱۴۰۹
  • خویی، ابو القاسم، منہاج الصالحین.
  • طباطبایی یزدی، العروة الوثقی.
  • طوسی، الخلاف.
  • علامۀ حلی، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ.
  • فاضل لنکرانی، محمد جواد، خمس انفال و فیء در قرآن کریم، قم: مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع)، ۱۳۹۲.
  • فیض کاشانی، الوافی.
  • مفید، المقنعہ.
  • موسوی عاملی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام.
  • نراقی، محمد مہدی، مستند الشیعہ فی احکام الشریعہ.