مقداد بن عمرو (متوفی 33 ھ)، مقداد بن اسود کے نام سے معروف، پیغمبر اکرمؐ کے جلیل القدر صحابی اور امام علی ؑ کے با وفا ساتھیوں میں سے تھے۔ مقداد نے بعثت کے ابتدائی ایام میں اسلام قبول کیا اور علی الاعلان اسلام ظاہر کرنے والے ابتدائی مسلمانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ نے صدر اسلام کی تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ مقداد کو سلمان فارسی، عمار بن یاسر اور ابوذر غفاری کے ساتھ حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے حقیقی پیروکاروں میں جانا جاتا ہے اور یہ افراد خود پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے ہی شیعہ علی ؑ کے نام سے مشہور تھے۔

مقداد بن عمرو
کوائف
مکمل ناممقداد بن عمرو بن ثعلبہ (معروف مقداد بن اسود)
کنیتابو معبد، ابو سعید ،ابوالاسود
لقببہرائی یا بہراوی
محل زندگیمکہ، حبشہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربضباعہ بنت زبیر
وفات33 ھ
سبب وفاتجرف میں وفات ہوئی
مدفنجنت البقیع مدینہ
دینی معلومات
اسلام لاناسابقون میں سے
ہجرتحبشہ، مدینہ
وجہ شہرتصحابی

پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد امام علی ؑ کی خلافت اور جانشینی کی حمایت کی، لہذا واقعہ سقیفہ میں ابو بکر کی بیعت سے انکار کیا۔ نیز آپ عثمان کے سرسخت مخالفین میں سے تھے۔ مقداد ان معدود صحابیوں میں سے ہیں جنہوں نے حضرت زہرا کی تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ اہل بیت اطہار ؑ سے منقول احادیث میں ان کی مدح بیان ہوئی ہے اور انہیں ان افراد میں شمار کیا گیا ہے جو امام مہدی ؑ کے ظہور کے وقت رجعت کریں گے۔ انہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔

سوانح عمری

حسب و نسب اور ولادت

مقداد بن عمرو بن ثعلبہ جو مقداد بن اسود کے نام سے معروف ہیں، کی دقیق تاریخ پیدائش کا علم نہیں ہے لیکن منابع میں ان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے 70 سال کی عمر میں سنہ 33 ھ میں وفات پائی۔[1] اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی پیدائش بعثت سے 24 سال (ہجرت سے 37 سال) پہلے ہوئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حضرموت میں مقداد اور ابی شمر بن حجر نامی شخص کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں وہ شخص زخمی ہوا۔ اس واقعہ کے بعد مقداد مکہ منتقل ہوئے اور یہاں اسود بن عبد بن یغوث زہری سے معاہدہ کیا جس کے بعد سے وہ مقداد بن اسود کہلانے لگے لیکن اس آیت ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ: تم انہیں ان کے آبا و اجداد کے نام سے پکارو [2] کے نازل ہونے کے بعد مقداد بن عمرو کہے جانے لگے۔[3]

کنیت اور لقب

مقداد کیلئے بہرائی یا بہراوی،[4] کندی اور حضرمی جیسے القاب نقل ہوئے ہیں اسی طرح ابو معبد، ابو سعید اور ابو الاسود ان کی کنیتیں ذکر ہوئی ہیں۔[5]

ازدواج و اولاد

  • شادی : مقداد کی زوجہ ضباعۃ جو رسول خدا کے چچا زبیر بن عبد المطلب کی بیٹی تھی۔ [6] پیغمبر اکرمؐ اس کے باوجود کہ ضباعہ کو حسب و نسب کے لحاظ ایک اعلی شخصیت کا مالک سمجھتے تھے انہوں نے مقداد کے ساتھ ان کی شادی کی موافقت کی اور اس موقع پر اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: میں نے اپنے چچا کی بیٹی ضباعہ کی شادی مقداد سے صرف اس لئے کی تا کہ لوگ حَسَب و نَسَب کا لحاظ کئے بغیر ہر مؤمن کو بیٹی دیں۔[7]
  • اولاد: مقداد کے دو اولادیں بنام‎: عبدالله و کریمہ تھیں۔ عبدالله نے جنگ جمل میں عائشہ کے ساتھ امام علیؑ کے خلاف جنگ میں شرکت کی اور اسی جنگ میں مارا گیا۔ جب امام علیؑ کی نگاہ مقداد کے بیٹے پر پڑی تو فرمایا: "تو کس قدر برا بھانجہ نکلا"۔ [8] بعض مورخین نے عبدالله کی بجائے اس کا نام معبد کہا ہے۔ [9]

وفات اور مقام دفن

مقداد، عمر کے آخری ایام میں جرف میں سکونت پذیر تھے جو مدینہ سے ایک فرسخ کے فاصلے پر شام کی طرف واقع تھا۔ سنہ 33 ھ میں مقداد نے ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔ مسلمان ان کا جنازہ مدینہ لائے اور عثمان بن عفان نے اس پر نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔[10] ترکی کے شہر وان میں ایک قبر مقداد سے منسوب ہے، جسے بعض محققین، فاضل مقداد یا عرب کے کسی بزرگ کی قبر قرار دیتے ہیں۔[11] ایک قول کے مطابق مقداد ایک ثروتمند شخص تھے اور انہوں نے اپنے مال سے 36 ہزار درہم حسنینؑ شریفین کو دیئے جانے کی وصیت کی تھی۔[12]

پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں

اسلام قبول کرنا

مقداد بعثت کے اوائل میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے مشرکین قریش کے شکنجے سہے۔ مؤرخین انہیں سابقین میں شمار کرتے ہیں؛ لیکن ان کے اسلام قبول کرنے کی کیفیت سے متعلق تفصیلات مذکور نہیں ہیں۔ ابن مسعود سے منقول ہے کہ سب سے پہلے سات افراد نے اسلام ظاہر کیا، ان میں سے ایک مقداد تھے۔[13]

ہجرت

مقداد نے دو مرتبہ ہجرت کی، پہلی دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی جس میں مقداد مسلمانوں کے تیسرے گروہ میں شامل تھے۔ دوسری مرتبہ انہوں نے ہجرت مدینہ میں حصہ لیا اسکی دقیق تاریخ کا علم نہیں ہے لیکن کثیر قرائن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ہجرت کے پہلے سال شوال کے مہینے میں ہوئے سریے بنام ابو عبیدہ میں مقداد بھی مسلمانوں سے جا ملے اور انکے ہمراہ مدینہ چلے آئے۔[14]

پیغمبر اکرمؐ کا ارشاد

خداوندعالم نے مجھے چار اشخاص کو دوست رکھنے کا حکم دیا اور مجھے یہ خبر دی کہ ان افراد کو خدا خود بھی دوست رکھتا ہے۔ وہ افراد علی ؑ، مقداد، ابوذر اور سلمان ہیں۔

ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۶۱.

جنگوں میں شرکت

مقداد نے رسول خدا کی زندگی میں تمام جنگوں میں شرکت کی اور وہ صحابہ میں شجاع ترین افراد میں سے شمار ہوتے تھے۔[15] مقداد جنگ بدر میں سوار فوجی دستے میں شامل تھے اور ان کے گھوڑے کا نام سَبحَہ(تیراک) تھا، شاید مقداد کی با کمال شہامت جنگ کی وجہ سے ان کے گھوڑے کو سبحہ کہتے تھے۔[16]

جنگ احد میں بھی مقداد کا نہایت مؤثر کردار رہا۔ جب تمام صحابہ نے راہ فرار اختیار کی تو تاریخی نقل کے مطابق علی ؑ، طلحہ، زبیر، ابو دجانہ، عبدالله بن مسعود اور مقداد کے علاوہ کسی اور نے مقاومت کا مظاہرہ نہیں کیا۔[17] بعض منابع کے مطابق مقداد نے اس جنگ میں اسلامی لشکر کے تیراندازوں میں سے تھے۔[18] لیکن بعض نے لکھا ہے کہ مقداد اور زبیر اسلامی لشکر کے سوار فوجی دستے کے کمانڈر تھے۔[19]

امام علی ؑ کی جانشینی کی حمایت

پیغمبر اسلامؐ کی رحلت اور سقیفہ میں ابوبکر کا بعنوان خلیفہ منتخب ہونے کے بعد بہت تھوڑے افراد حضرت علی ؑ کی وفاداری میں رہ گئے جنہوں نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا ان افراد میں سلمان، ابوذر اور مقداد بھی تھے۔ مقداد نے سقیفہ کے واقعے میں شرکت نہیں کی بلکہ وہ امیر المؤمنین حضرت علی ؑ اور چند صحابہ کے ہمراہ پیغمبر اسلامؐ کے تجہیز و تکفین میں مشغورل رہے۔[20] روایات کے مطابق مقداد ان گنے چنے افراد میں سے تھے جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ [21] بعض منابع انہیں شرطۃ الخمیس کا عضو بھی کہتے ہیں۔[22] [23]

مقداد نے مختلف مواقع پر ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کو امام علی ؑ کی جانشینی کی یاد دہانی کی اور لوگوں کے سامنے اس مسئلے کو روشن اور واضح کرنے کے کئی اقدامات کیے۔ نمونے کے طور پر چند اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

  1. ابوبکر کی بعنوان خلیفہ بیعت واقع ہونے کے باوجود مہاجر و انصار کے ایک گروہ نے ان کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے حضرت علی بن ابی‌ طالب سے ملحق ہو گئے۔ ان افراد میں مقداد بھی شامل تھے۔[24]
  2. جب چالیس افراد امام علی کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کے دفاع کیلئے آمادہ ہیں تو امام نے ان سے کہا اگر اپنی بات میں سچے ہو تو کل اپنا سر منڈوا کر آؤ۔ اگلے روز صرف سلمان، مقداد اور ابوذر سر منڈوا کر امام کے پاس آئے۔[25]
  3. عمر کے بعد خلیفہ کے تعین کیلئے بنائی گئی چھ رکنی شورای میں جب عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علی ؑ سے کہا: میں صرف اس صورت میں آپ کی بیعت کرونگا آپ خدا کی کتاب (قرآن)، پیغمبر اکرمؐ کی سنت اور ابوبکر کی سیرت کی پیروی کرو، اور حضرت علی ؑ نے صرف پہلی دو شرطوں کو قبول کیا۔ اس موقع پر مقداد نے عبدالرحمن بن عوف کی طرف رخ کرکے کہا: خدا کی قسم! تم نے علیؑ جو ہمیشہ حق اور عدالت پر فیصلے کرتا ہے، کو چھوڑ دیا۔ مزید کہتا ہے: میں نے کسی نبی کے بعد ان کے کسی فرد یا خاندان کو اہل بیت ؑ سے زیادہ مظلوم نہیں پایا۔[26]

مقداد نے خلافت عثمان کی مخالفت کی اور مسجد نبوی میں اس کے خلاف تقریر کر کے اس مخالفت کا اعلان کیا۔[27]

یعقوبی نے بعض مورخین سے نقل کیا ہے کہ جس دن عثمان کی بعنوان خلیفہ بیعت ہوئی اسی دن رات کو نماز عشا کی ادائیگی کیلئے جب مسجد کی طرف جا رہے تھے تو آگے ایک شمع روش تھی۔ جب مقداد کا ان سے سامنا ہوا تو انہوں نے عثمان سے کہا یہ کیا بدعت ہے؟ [28] یعقوبی کے مطابق مقداد عثمان کے خلاف بولنے والوں اور حضرت علی بن ابی‌طالب کے حامیوں میں سے تھے۔[29]

مقداد اہل بیتؑ کی احادیث میں

مقداد کے متعلق معصومین ؑ سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں ان کی فضیلت و اخلاقی خصوصیات بیان ہوئی ہیں مثلا:

  1. محبت رسول خدا: رسول اللہ نے فرمایا: خدا نے مجھے چار افراد سے محبت کا حکم دیا ہے۔ کسی نے سوال کیا وہ اشخاص کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: علی، سلمان، مقداد اور ابوذر.[30]
  2. مقداد کا بہشتی ہونا: انس بن مالک سے روایت ہے: ایک روز رسول خداؐ نے فرمایا: بہشت میری امت کے چار افراد کی مشتاق ہے۔ جب حضرت علی ؑ نے ان سے متعلق استفسار کیا تو آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! تم ان میں سے پہلے شخص ہو اور دوسرے تین افراد مقداد، سلمان اور ابوذر ہیں۔ اسی طرح امام صادق ؑ اس آیت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا»[31] کی تفسیر میں فرمایا: یہ آیت ابوذر، مقداد، سلمان اور عمار کے متعلق نازل ہوئی ہے۔[32]
  3. ایمان مقداد: امام صادق ؑ سے مروی ہے: ایمان کے دس درجے ہیں۔ مقداد آٹھویں درجے پر، ابوذر نویں درجے اور سلمان دسویں درجے پر فائز ہیں۔[33]
  4. آیت مودّت پر عمل کرنے والا: امام صادق ؑ نے آیت مودت (قُل لا أَسئَلُكُم عَلَیهِ أَجراً إِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربى)[34] کے متعلق فرمایا: خدا کی قسم!اس آیت پر صرف سات افراد کے علاوہ کسی نے عمل نہیں کیا اور ان میں سے ایک مقداد ہے۔[35]
  5. مقداد اہل بیت میں سے: ایک روز جابر بن عبداللہ انصاری نے سلمان، مقداد اور ابوذر کے متعلق رسول اللہ سے سوال کیا۔ جواب میں آپ نے ہر ایک کے بارے میں گفتگو کی اور مقداد کے بارے میں فرمایا: مقداد ہم سے ہے۔ جو مقداد کا دشمن ہے خدا بھی اس کا دشمن ہے جو اسکا دوست ہے خدا بھی اس کا دوست ہے۔ اے جابر! اگر چاہتے ہو کہ تمہاری دعا مستجاب ہو تو خدا کے سامنے اس کے نام سے دعا کرو کیونکہ خدا کے نزدیک اس کا نام بہترین اسما میں سے ہے۔[36]
  6. حضرت علی ؑ سے وفاداری: امام باقر ؑ سے مروی ہے: رسول خدا کے بعد سلمان، ابوذر اور مقداد کے علاوہ تمام افراد نے رسول خدا کی سیر کو چھوڑ دیا: [37] بعض روایات مقداد کو امام علیؑ کے مطیع‌ ترین دوستوں میں شمار کرتی ہیں۔[38]
  7. رجعت مقداد: احادیث کے مطابق مقداد حضرت مہدیؑ کے ظہور اور انکے قیام کے دور میں رجعت کرنے والوں، آپ ؑ کے اصحاب اور آپ کی حکومت کے کمانڈروں میں سے ہیں۔[39]
  8. مقداد کو دوست رکھو: امام صادق ؑ نے فرمایا: مسلمانوں پر واجب ہے کہ رسول خدا کے بعد منحرف نہ ہونے والوں سے دوستی رکھیں۔ پھر کچھ نام لئے ان میں سے سلمان، ابوذر اور مقداد کا نام بھی لیا۔[40]

نقل حدیث

مقداد نے پیغمبر اکرمؐ سے احادیث نقل کی ہیں۔ اسی طرح بعض راویوں نے مقداد سے حدیث سنی یا نقل کی ہیں ان میں: سلیم بن قیس، انس بن مالک، عبدالله بن عباس، عبدالله بن مسعود، عبدالرحمن بن ابی‌ لیلی، ابو ایوب انصاری، ضباعۃ بنت زبیر بن عبدالمطلب (آپ کی زوجہ) اور كريمہ (آپ کی بیٹی)۔[41]

شخصیت نگاری

  • سیمای‌ مقداد: تالیف محمد محمدی اشتہاردی کہ انتشارات پیام اسلام نے چاپ کی ہے۔
  • مقداد: تالیف محمد کامرانی‌، انتشارات حدیث نینوا سے چاپ ہوئی۔
  • سال‌ ھاى سختى بود: داستان اور تصویری صورت میں مقداد کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں۔
  • المقداد ابن الأسود الكندي أوّل فارس في الإسلام: تالیف محمد جواد فقیہ اور مؤسسہ الاعلمی للمطبوعاتِ لبنان نے چاپ کی۔
  • سلسلہ الارکان الاربعہ: چار جلدوں میں چھپی ہے جس کی تیسری جلد شرح حال مقداد میں ہے۔
  • مع الصحابۃ و التابعین: تالیف کمال سید، چودہ جلدوں کی کتاب جسکی چھٹی جلد مقداد سے مخصوص ہے۔ انتشارات انصاریان قم۔

حوالہ جات

  1. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۶۱
  2. سوره احزاب، آیت ۵.
  3. ابن حجر عسقلاني، الإصابہ، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۶۰؛ مقریزی، امتاع‏ الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱۲، ص۵۷.
  4. ابن حزم‌اندلسی، جمہرة انساب العرب، دار المعارف، ص۴۴۱.
  5. مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۳، ص۲۴۵.
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۰۵.
  7. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۲۶۵.
  8. ابن حجر عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م، ج۵، ص۲۲.
  9. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۲، ص۲۶۴-۲۶۵.
  10. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰، ج۳، ص۱۲۱؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۱۳۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۰۴؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۰م، ج۷، ص۲۸۲.
  11. قمی، منتہی الآمال، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۲۸.
  12. مزی، تہذيب الكمال، ۱۴۰۰ق، ج۲۸، ص۴۵۲.
  13. ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۹۷۰م.، ج۵، ص۲۴۲.
  14. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۰۵؛ مامقانی، قاموس الرجال، بی‌ تا، ج۹، ص۱۱۴،
  15. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۰م، ج۷، ص۲۸۲.
  16. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۲۰.
  17. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰، ج۳، ص۱۱۴.
  18. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۹۷۰م، ج۵، ص۲۴۲.
  19. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ج۲، ص۱۵۲.
  20. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۳۲۸.
  21. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۴
  22. خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۱۸۸.
  23. لیکن اگر شرطۃ الخمیس حضرت علی ؑ کی حکومت کے دوران میں بنی ہو تو مقداد کا اس میں سے ہونا مشکل ہے کیونکہ اسکی تاریخ وفات ۳۳ق مذکور ہے جبکہ حضرت علی ؑ کی حکومت کی ابتدا سنہ 35 ہجری میں ہوئی ہے۔
  24. آبی، نثر الدر في المحاضرات، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۲۷۷؛ ابن ابی الحديد، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص ۱۳۷-۱۳۸؛ شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۶۱-۴۶۵.
  25. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۲۶.
  26. طبری، تاریخ طبری، بیروت، ج۴، ص۲۳۳.
  27. طبری، تاریخ طبری، بیروت، ج۴، ص۲۳۳.
  28. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۵۴.
  29. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۵۴-۵۵.
  30. شیخ مفید، الاختصاص، جامعہ مدرسین، ص۹.
  31. سوره کہف، آیت ۱۰۷.
  32. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۱۵۱.
  33. قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۲۸
  34. سوره شوری، آیت ۲۳.
  35. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳، ج۲۳، ص۲۳۷.
  36. شیخ مفید، الاختصاص، جامعہ مدرسین، ص۲۲۳.
  37. خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۱۸۶
  38. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۴۶.
  39. مفید، الارشاد، ۱۳۸۸ش، ص۶۳۶ .
  40. خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۱۸۷.
  41. خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۱۸۵؛ مزّي، تہذيب الكمال، ج۲۸، ص۴۵۳-۴۵۴.

مآخذ

  • آبی، ابو سعد منصور بن الحسين، نثر الدر في المحاضرات، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، بیروت، دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ: الأولى، ۱۴۲۴ق/۲۰۰۴م.
  • ابن ابی الحديد، عز الدين بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، بیروت، دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ: الأولى، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۸م.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ، تحقیق محمدابراہیم البنا، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، ۱۹۷۰م.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
  • ابن حزم‌اندلسی، علی بن احمد، جمہرہ انساب العرب، تحقیق محمد عبدالسلام‌ ہارون، قاہرہ، دارالمعارف.
  • این حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، الطبعۃ الأولی، ۱۴۱۵/۱۹۹۵
  • ابن سعد، محمد بن سعد، طبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق، چاپ اول.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، تحقیق و تخریج: حسن الامین، بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
  • امينی، عبد الحسین، الغدير فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج۹، بیروت: دار الکتب العربی، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمیداللہ، مصر: معہد المخطوطات بجامعۃ الدول العربیۃ بالاشتراک مع دار المعارف، ۱۹۵۹م.
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعہ، قم، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ش.
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، ج۷، بیروت: دارالعلم للملایین، ۱۹۸۰م.
  • شیخ صدوق، محمد بن علي بن الحسين، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۶۱-۴۶۵، تحقيق: علی أكبر غفاری، قم، جمعہ درسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۳ق/۱۳۶۲ش.
  • شيخ صدوق‏، عيون أخبار الرضاؑ، تہران، نشر جہان‏، ۱۳۸۷ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، بیروت، بی‌نا، بی‌تا.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، قم، انتشارات ہجرت، ۱۴۱۳ق.
  • کشی، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق: سید مہدی رجایی، قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۰۴ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف اشرف، مرتضویہ، ۱۳۵۲ق.
  • مامقانی، عبد اللہ، قاموس الرجال، بی‌جا، بی‌تا.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۳ق.
  • مزی، يوسف بن عبد الرحمن، تہذيب الكمال في أسماء الرجال، محقق: بشار عواد معروف، بيروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۰ق.
  • مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، قم، جامعہ مدرسین.
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ترجمہ: حسن موسوی مجاب، قم، انتشارات سرور، ۱۳۸۸ش.
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعۃ، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴م.
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، قم، شریف رضی، ۱۳۷۳ش.