صلوات
دعا و مناجات |
صَلَوات عربی زبان میں ایک مخصوص ذکر کو کہا جاتا ہے جس میں پیغمبر اسلامؐ اور آپ کی آل پر درود بھیجا جاتا ہے۔ مسلمان نماز کے تشہد میں نیز رسول اللہؐ کا اسم مبارک لیتے وقت صلوات پڑھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں صلوات پڑھنا سنت الٰہیہ میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالٰیٰ نہ صرف خود اپنے حبیب پر درود و سلام بھیجتا ہے بلکہ فرشتوں اور اہل ایمان کو بھی اس کام کا پابند قرار دیتا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (ترجمہ: بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں،اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔)
اس بنا پر صلوات میں جہاں رسول خداؐ کا احترام ہے وہاں اس کے پڑھنے والے کیلئے آخرت میں ثواب اور دنیا میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تمام مسلمان خاص کر شیعہ حضرات مختلف مواقع اور مختلف مناسبتوں - تمام محافل و مجالس - میں تبرک اور تَیَمُّن کی خاطر صلوات پڑھتے ہیں۔
شیعیان اہل بیت کے ہاں رائج ترین صلوات "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" ہے۔
لغوی اور اصطلاحی معانی
لفظ صلوات "صلاۃ" کی جمع ہے، جو "ص ل و" سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی دعا، درود، تحیت اور رحمت کے ہیں۔ "صلوات"، جمعِ "صلاۃ" بمعنی "نماز" بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ نماز مختلف دعاؤں پر بھی مشتمل ہے اس لئے اس کو "صلاۃ" بھی کہا جاتا ہے، چنانچہ عربی میں "صلوات" کو جمع کی صورت میں بروئے کار لایا جاتا ہے اور اس کے معنی "نمازوں، دعاؤں اور درودوں کے ہیں۔[1] فارسی اور اردو وغیرہ میں لفظ صلوات" سے مراد، صلاۃ کی جمع نہیں بلکہ اس لفظ سے، اصطلاحی معنی میں رسول اللہؐ پر درود خاص کے طور پر مراد لئے جاتے ہیں۔
دینی اصطلاح میں صلوات یعنی پیغمبرؐ پر درود بھیجنا ایک عبادی عمل کا نام ہے جس کو شیعیان اہل بیتؑ اس عبارت "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" میں بجا لاتے ہیں۔
خدا اور فرشتوں کی صلوات کے معنی
عرب ماہرین لسانیات کے بقول، اگر عربی لفظ "صلاۃ" سے درود اور تہنیت مراد لی جائے، تو اس کا مطلب ـ استعمال کرنے والے شخص کی نسبت، نیز اس شخص کی نسبت جس پر درود بھیجا جارہا ہے ـ معنوی لحاظ سے، مختلف ہوگا؛ بطور مثال:
- مؤمنین پر پیغمبرؐ کی صلوات، ان کی خیر و برکت اور فلاح کی دعا ہے؛
- کسی پر فرشتوں کی صلوات، استغفار اور طلب رحمت کے معنوں میں ہے؛
- حضرت محمدؐ پر مؤمنوں کی صلوات، آپؐ کی ثناء اور نیکی سے ذکر کرنے کے معنوں میں ہے؛[2]
- حضرت محمدؐ، پر خدا کی صلوات سے مراد آپؐ پر اللہ کی طرف سے رحمت کے ہیں؛
- پیغمبرؐ پر فرشتوں کی صلوات، آپؐ کے لئے رحمت کی طلب ہے۔[3]
صلوات کی عبارت اور الفاظ
شیعیان اہل بیت کے ہاں صلوات کی مشہور ترین صورت "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" ہے۔ اسلامی مذاہب کے ہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ" صلوات کی عبارت کا اصلی حصہ ہے؛ اختلاف ان عبارات میں ہے جو اس جملے کے بعد لائی جاتی ہیں۔ شیعہ اہل سنت کے برعکس، اس عبارت کے بعد "وَآلِ مُحمّد" کی عبارت لاتے ہیں اور اس سلسلے میں کثیر شیعہ اور سنی مآخذ سے استناد کرتے ہیں، جن کی رو سے صلوات کاملہ یہ ہے کہ اس میں مذکورہ عبارت بھی شامل ہو۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہؐ نے صلوات کے بارے میں پوچھنے والے شخص کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔[4]
بعض روایات سے ثابت ہے کہ صلوات "وَآلِ مُحمّد" کے بغیر مکمل نہیں ہے۔[5] بعض روایات میں اہل بیتؑ نے بھی صلوات کی کیفیت بیان کی ہے۔ ان روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ رسول اللہؐ پر درود و صلوات کے ساتھ آپؐ کی آل [خاندان] پر بھی صلوات بھیجنا لازم ہے۔ امام صادقؑ نے صلوات کی کیفیت یوں بیان کی ہے: صَلَواتُ اللهِ وَصَلَواتُ مَلائِكتِهِ وَأنْبِيائِهِ وَرُسُلِهِ وَجَمِيعِ خَلْقِهِ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَالسَّلامُ عَلَيهِ وَعَلَيهِمْ وَرَحَمةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ۔[6] ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول خداؐ پر صلوات کے حسنات 100 ہیں اور آل رسولؐ پر صلوات کے حسنات 1000۔[7] بعض شیعیان کے نزدیک ـ بالخصوص ایران، [اور "پاکستان"] میں "وَعَجِّل فَرَجَهُم"؛ ترجمہ: اور ان کی فَرَج میں تعجیل فرما؛ جو اہل بیتؑ سے منقولہ روایات کے مطابق ہے۔[8]
اہل سنت کے ہاں صلوات کی کیفیت
اہل سنت کے ماضی سے آج تک، چار قسم کی صلوات رائج رہی ہے اور ان کی نمازوں کی صلوات، ان کی مکتوبہ اور زبانی صلواتوں سے مختلف ہے۔[9]
وہ جو صلوات نماز کے تشہد میں پڑھتے ہیں، وہ "وَآلِ مُحمّد" پر مشتمل ہے: "اَللّهمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ و عَلی آلِ مُحَمّد کما۔۔۔" جس میں حرفِ جَرّ لفظ "آل" سے قبل بھی آیا ہے۔ اہل سنت کے ہاں نماز میں رائج صلوات رسول اللہؐ کے صحابی "کعب بن عجرۃ" سے منقولہ روایت ـ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم ـ میں نقل ہوئی ہے۔ حنابلہ اس روایت کو بعینہ نماز کے تشہد میں پڑھتے ہیں۔[10] لیکن اہل سنت کے دیگر مذاہب اور مذہب زیدیہ میں عبارت "آل ابراہیم" سے قبل "ابراہیم" کا نام بھی آتا ہے۔[11][12]۔[13]
جو صلوات وہ اپنی تقریر و تحریر میں استعمال کرتے ہیں ان میں "آل محمد" کا نام نہیں ہے اور وہ رسول اللہؐ کا نام لے کر کہتے ہیں: "صَلّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ"۔
ایک تیسری قسم کی صلوات بھی اہل سنت ـ بالخصوص احناف ـ میں مرسوم ہے جسے وہ سرسراہٹ یا بنبناہٹ کی صورت میں پڑھتے ہیں اور یہ وہ صلوات ہے جسے خطیب لوگوں سے پڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قسم کی صلوات میں "ازواج اور اصحاب" جیسے اصحاب بھی شامل ہیں اور عام طور پر اس طرح پڑھی جاتی ہے: "اللهم صلِ وسلم على سيدنا محمد وعلى آله وأزواجه وصحبه كما صليت على إبراهيم وآل إبراهيم إنك حميد مجيد"۔ بعض علاقوں میں "آل محمد" کے بعد "اصحاب محمد" کو بڑھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: "اللّهم صل علی محمد وآل محمد واصحاب محمد"۔[14]
اہل سنت کے ہاں یہ عادت نہیں ہے کہ رسول خداؐ کا نام سن کر صلوات پڑھیں، مگر اس وقت، جب وہ آیت صلوات سنیں یا ان سے "درود شریف" پڑھنے کی درخواست کی جائے۔[15]
صلوات کی اہمیت اور فضیلت
بعض احادیث کے مطابق حضرت محمدؐ سے قبل کے انبیاء بھی صلوات پڑھتے رہے ہیں۔ ایک نقل کے مطابق "صلوات حضرت ابراہیمؑ کے معنوی و روحانی رتبے کی رفعت میں مؤثر تھی۔[16] پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:جو مجھ پر صلوات بھیجے، فرشتے اس پر صلوات بھیجتے ہیں، کم یا زیادہ؛ جس قدر کہ وہ صلوات بھیجتا ہے۔[17] بعض احادیث ـ منجملہ امام رضاؑ سے منقولہ حدیث ـ کی رو سے، صلوات گناہوں کے محو ہوجانے میں مؤثر ہے۔[18]
صلوات قرآن میں
قال اللہ تبارک وتعالی:
"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً"؛
"یقینا اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان لانے والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کہو جس طرح کہ سلام کہنے کا حق ہے[احزاب–56]"۔
مفصل مضمون: آیت صلوات قرآن کریم نہ صرف تصریح کرتا ہے کہ خداوند متعال اور اس کے فرشتے رسول اللہؐ پر صلوات بھیجتے ہیں، بلکہ مؤمنین کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں اللہ اور اس کے فرشتوں کی پیروی کریں:
"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً "؛
ترجمہ: یقینا اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان لانے والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کہو جس طرح کہ سلام کہنے کا حق ہے[احزاب–56]۔
صلوات نماز میں
صلوات نماز کے واجب اذکار میں سے ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہر روز اپنی یومیہ نمازوں کے تشہد میں صلوات پڑھیں اور پیغمبر اکرمؐ اور آپؐ کے خاندان پر اسی ذکر خاص کے ساتھ، درود بھیجیں۔ چنانچہ اگر پیغمبر اکرمؐ پر صلوات کو ارادی طور پر ترک کیا جائے تو نماز باطل ہوگی۔[19]
احادیث میں
مآخذ حدیث میں صلوات کے لئے بہت زیادہ ثواب اور مثبت معنوی و مادی اثرات بیان ہوئے ہیں۔ بعض اہم مآخذ حدیث میں صلوات اور اس کی کیفیت و اہمیت بیان کرنے کے لئے الگ ابواب قرار دیئے گئے ہیں۔ بعض دیگر مآخذ حدیث و روایت نے اپنے زیر بحث موضوعات کے تناسب سے، صلوات کی اہمیت بیان کی ہے۔ معتبر ترین شیعہ ماخذِ حدیث ـ الکافی ـ میں، صلوات کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ "جو شخصی محمد و آل محمد پر دس مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ صلوات بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمد و آل محمد پر سو مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے ہزار مرتبہ اس پر صلوات بھیجتے ہیں"۔[20]
شیخ حر عاملی، اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں اور محدث نوری مستدرک وسائل الشیعہ میں "صلوات کی کیفیت"،[21] "صلوات بآواز بلند"،[22] وغیرہ جیسے عناوین کے تحت ابواب کھول رکھے ہیں۔ علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار ـ جو جو عظیم ترین شیعہ ماخذ حدیث ہے ـ میں "نبی و آل نبیؐ پر صلوات بھیجنے کی فضیلت" کے زیر عنوان ایک باب میں 67 حدیثیں نقل کی ہیں۔[23]
اہل سنت کے ایک اہم مجموعۂ حدیث کنزالعمال کی پہلی جلد کے چھ ابواب میں 119 حدیثیں اکٹھی کی گئی ہیں جن کا مضمون "صلوات، اس کی اہمیت اور فضیلت" ہے۔
صلوات کے بعض آثار، احادیث کے آئینے میں:
- گناہوں کا کفارہ
حضرت رضا علیہ السلام:
"مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى مَا يُكَفِّرُ بِهِ ذُنُوبَهُ فَلْيُكْثِرْ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ فَإِنَّهَا تَهْدِمُ الذُّنُوبَ هَدْماً وَقَالَ عَلَيهِ السَّلامُ: الصَّلَاةُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ التَّسْبِيحَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّكْبِيرَ (ترجمہ: اگر کوئی ایسا کام کرنے سے عاجز ہے جو اس کے گناہوں کا کفارہ ٹہرے، تو وہ بہت زیادہ صلوات بھیجے محمد و آل محمد پر، کیونکہ صلوات نابود کردیتی ہے گناہوں کو، جیسا کہ نابود کرنے کا حق ہے؛ نیز امام رضاؑ نے فرمایا: محمد و آل محمد پر صلوات، خدائے عز وجل کی بارگاہ میں برابر ہے تسبیح، (= سبحان اللہ)، تہلیل (= لا الہ الا اللہ)، تکبیر (= اللہ اکبر)، کے برابر ہے)"۔[24] - اعمال کے ترازو میں سب سے بھاری عمل
"قال أبو عبدِ الله أو أبو جعفر علیهما السلام: أثقَلُ ما یُوضَعُ فی المیزانِ یَومَ القِیامةِ، الصَّلاةُ علی مُحمَّدٍ وَ(علی) أهلِ بِیتِه؛
ترجمہ: سب سے بھاری عمل جو قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں رکھا جاتا ہے، محمدؐ اور آپؐ کے خاندان معظم پر درود و صلوات ہے۔"[25] - آسمان کے دروازوں کا وا ہونا اور گناہوں کا مٹ جانا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے امام علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا نہیں چاہوگے کہ میں تمہیں بشارت دوں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہمیشہ سے خیر کی بشارت دینے والے ہیں؛ رسول اللہؐ نے فرمایا: جبرائیل نے اسی وقت مجھے ایک حیرت انگیز خبر دی۔ امام علی علیہ السلام نے عرض کیا: وہ خبر کیا تھی؟ فرمایا: انھوں نے مجھے خبر دی کہ: جب میری امت کا ایک مرد مجھ پر صلوات بھیجے اور اس صلوات کو میری آل سے متصل کردے، آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں، اور فرشتے 10 صلواتیں اس پر بھیجتے ہیں، اور اگر وہ شخص گنہگار ہے، تو اس کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح گر جاتے ہیں، اور خداوند متعال اس سے خطاب کرکے فرماتا ہے «لبَّیكَ يا عبدي وسَعْدَیكَ» اور فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: کیا تم نے میرے بندے پر 70 صلواتیں بھیجیں اور میں اس پر 700 صلواتیں بھیجتا ہوں؛ لیکن اگر اس شخص نے مجھ پر صلوات بھیجی اور اس صلوات کو میری آل سے متصل نہیں کیا تو «لا لبَّیكَ ولا سَعْدَیكَ»، اے میرے فرشتو! اس کی دعا کو اوپر کی جانب مت لے کر جاؤ مگر یہ کہ میرے پیغمبر کی آل پر صلوات بھیجے، ایسا شخص رحمتِ حق سے محروم ہے جب تک کہ وہ میرے خاندان کو صلوات میں مجھ سے متصل نہیں کرتا[26] - اللہ کی قربت و محبت
امام علی بن محمد الہادی علیہ السلام نے فرمایا: إنّما اتَّخَذَ اللهُ إبرَاهِيمَ خليلاً لِكَثْرَةِ صَلاتِهِ علي محمّدٍ وأهلِ بيِتهِ صلواتُ اللهِ عَلَيهم؛
ترجمہ: بےشک خداوند متعال نے حضرت ابراہیم (عَلَی نَبِینا وآلہ وعليہ السلام) کو بطور دوست و خلیل منتخب کیا کیونکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور آپؐ کے اہل بیت معظم علیہم السلام، بہت زیادہ صلوات بھیجتے تھے۔[27] - بلند آواز میں صلوات، منافقت کو مٹا دیتی ہے
" قالَ رَسولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليه وآله: إرفَعُوا أصواتَکُم بالصَّلاةِ عَلَيَّ، فَإنَّها تَذْهَبُ بِالنِّفاقِ؛
"رسول اللہؐ نے فرمایا: مجھ پر بلند آواز سے صلوات بھیجا کرو، کہ یقینا یہ نفاق کو مٹاتی اور دوچہرگی کو ہٹاتی ہے۔[28][29][30] - صلوات لکھنے والے کے لئے ملائکہ کا استغفار
"قالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ علیهِ وَآلِه: مَنْ صَلّی عَلَيَّ في كِتابٍ، لَمْ تَزَل الملائِكَةُ تَستَغفِرُ لَه ما دامَ إسمِي في ذلكَ الكِتابِ؛ترجمہ: رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے اپنی تحریروں اور مکتوبات میں مجھ پر صلوات لکھی ہو، جب تک کہو اس تحریر میں میرا نام باقی ہو، فرشتے اس کے لئے استغفار (= طلب مغفرت) کریں گے۔[31][32] مروی ہے کہ ایک شخص بصرہ میں کتابت حدیث میں مصروف عمل تھا؛ اور جہاں بھی رسول اللہؐ کا نام گرامی اتا وہ شخص جان کر، صلوات لکھنے سے اجتناب کرتا تھا؛ بہت قلیل سی مدت میں اس کی انگلیوں "آکلہ" (جذام یا خورہ) پڑ گیا اور انگلیاں ہاتھ سے مکمل طور پر جدا ہوگئیں۔[33] - صلوات کے بعد ہونے والی دعا کی استجابت
"قال الصّادقُ عليه السلام: إذا دعا أحَدُكُم فَلْیبْدَأ باِلصَّلاةِ علی النَّبي صَلی اللهُ عليه وآلهِ؛ فإنَّ الصَّلاةَ علی النَّبي صَلی اللهُ عليه وآله مَقْبُولَةٌ وَلَمْ يكُن اللهُ لِيقْبَلَ بَعضَ الدُّعاءِ وَيرُدَّ بَعضاً؛ ترجمہ: جب بھی تم میں سے کوئی دعا کرنے لگو تو اپنی دعا کا آغاز [رسول اللہ|پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ]] پر صلوات سے کرے، تو یہ [صلوات] دعائے مقبولہ ہے، اور خداوند متعال اس سے کہیں زیادہ برتر و بالاتر ہے کہ دعا کے ایک حصے کو قبول کرے اور دوسرے حصے کو ردّ کردے۔[34] - دوزخ کی آگ سے نجات
"قالَ مُولانا الصّادقُ عليه السلام لصباحِ بنِ سَیابِة: أ لا أعَلِّمُكَ شَيئاً یقِيَ اللهُ بهِ وَجْهَكَ مِن حَرِّ جَهَنَّمَ؟ قالَ، قلتُ: بَلی، قالَ: قُلْ بَعدَ الفَجْرِ:"أَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ" مائةَ مَرَّةٍ يقَي اللهُ به وَجْهَكَ مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ؛ ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے صباح بن سیابہ سے فرمایا: کیا تمہیں ایسی دعا نہ سکھاؤں کہ جس کے بدولت خداوند متعال تمہارا چہرہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے؟ میں [صباح] کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! امامؑ نے فرمایا: فجر کے وقت ایک سو مرتبہ کہو۔: أَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ؛ ترجمہ: خداوند متعال اس ذکر کی برکت سے تمہیں جہنم کی آگ سے محفوظ فرمائے گا۔[35] - صلوات اخلاص کے ساتھ ہو تو دنیاوی اور اخروی حاجات برآوردہ ہوتی ہیں
قال الصّادقُ عليه السلام: مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبيِ وَآلِه مَرَّةً واحِدَةً بِنِيةٍ وَإخْلاصٍ مِنْ قَلبِهِ قَضَی اللهُ لَه مائَةَ حاجَةٍ؛ منها ثلاثونَ للدُّنیا وَسَبْعُونَ للآخِرَةِ؛
ترجمہ: جو شخص ایک بار [پاک اور پسندیدہ] نیت اور اخلاص کے ساتھ، رسول اللہؐ اور آپؐ کے خاندان معظم پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کی ایک سو حاجتوں کو برآوردہ کرتا ہے: 30 حاجتیں دنیاوی حوائج میں سے، اور 70 حاجتیں اخروی حوائج میں سے۔[36] - اللہ اور ملائکہ کی صلوات کا باعث
"عَن الصَّادقِ علیهالسلام عن النَّبی صَلَّی الله علیه وآله: مَنْ صَلَّی عَلَی صَلَّی اللهُ علیهِ وَمَلائِکَتُهُ، وَمَنْ شَاءَ فَلْیقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْیكْثِرْ؛ ترجمہ: امام صادقؑ نے رسول خداؐ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: جو مجھ پر صلوات بھیجے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر درود و صلوات بھیجتے ہیں (پس) جو چاہے کم اور جو چاہے زیادہ، صلوات بھیجے۔[37] - شیطانی صفات کے حامل انسانوں کے دور ہوجانے کا سبب
"قالَ النَّبيُّ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ: إنَّ الشَّيطانَ اثنانِ: شَيطانُ الجِنِّ وَيَبَعَّدُ ب"لاحُولَ وَلاقُوَّة إلاّ بِاللهِ العَلِّيِ العَظِيمِ"، وَشِيطانُ الإنْسِ وَيبَعَّدُ بِالصَّلاة عَلی النَّبيِ وَآلِهِ؛
ترجمہ: رسول اللہؐ نے فرمایا: شیاطین دو قسم کے ہیں؛ جنّی شیاطین، جو ذکر "لاحُولَ وَلاقُوَّة إلاّ بِاللهِ العَلِي العَظِیمِ" کے ذریعے دور کئے جاتے ہیں اور انسی شیاطین، جن [کے شر اور نقصان] کو محمد و آل محمدؐ کے ذریعے دور کیا جاتا ہے۔[38] - روز جمعہ کا بہترین عمل
"عَن مُولانا الصّادقِ عليه السلام: ما مِنْ عَمَلٍ أفْضَلَ يومَ الجُمُعَة مِن الصَّلاة عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ؛
ترجمہ: امام صادقؑ نے فرمایا: جمعہ کے روز کوئی بھی عمل، محمد و آل محمدؐ پر صلوات سے افضل، نہیں ہے۔[39] - امام زمانہ(عج) کا دیدار
"عَن الصّادقِ عليه السلام: مَنْ قالَ بَعْدَ صَلاة الظُّهرِ وَصَلاة الفَجْرِ فی الجُمُعَة وَ غِيرِها "ألّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُم" لَمْ يمُتْ حَتّی يُدْرِكَ القائمَ المَهدِيِّ عليه السلام؛
ترجمہ: جو بھی روز جمعہ اور ہفتے کے دوسرے دنوں کو، نماز صبح و نماز ظہر کے بعد کہےألّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُم وہ حضرت مہدی عَجَّل اللہَ تَعالی فَرَجَهُ الشَّرِیف کا دیدار کئے بغیر نہیں مرے گا۔[40] - ہر صلوات عافیت کا ایک در انسان کے لئے کھول دیتی ہے
"قالَ النَّبيُّ الأعْظَمُ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ: مَنْ صَلَّی عَلَيَ مَرَّة فَتَحَ اللهُ عَليهِ باباً مِن العافِية؛
ترجمہ: جو مجھ پر ایک بار صلوات بھیجے، حق تعالی [دین اور دنیا میں] سلامتی اور عافیت کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دیتا ہے۔[41] - خانۂ خدا میں بہترین دعا
"قالَ عبدُ السّلامِ بنُ نُعيمٍ لِمُولانا الصّادقِ عليه السلام: إنّي دَخَلتُ البيتَ وَلَمْ یحضُرْني شَيءٌ مِن الدُّعاءِ إلاِّ الصَّلاةُ عَلی مُحمَّدٍ وَآلِ مُحمَّدٍ، فقالَ: أما إنَّهُ لَمْ يخرُجْ أحَدٌ بِأفضَلَ مِمّا خَرَجْتَ بِه؛
ترجمہ: عبدالسلام بن نعیم نے امام صادقؑ سے عرض کیا: میں خانۂ کعبہ میں داخل ہوا اور کوئی دعا یاد نہیں آئی سوا صلوات بر محمد و آل محمد کے، تو امامؑ نے فرمایا: کسی نے بھی تم سے زیادہ افضل عمل انجام نہیں دیا ہے۔[42] - اعمال کے پاکیزہ ہونے کا سبب
"عَن النَّبيِ صَلَّی اللهُ عليهِ وَآلِهِ: صَلاتُكُم عَلَی مُجَوِّزَة لِدُعاءِكُم، وَمَرْضاة لِرَبِّكُم، وَزَكاةٌ لِأعمالِكُم (لِأبدانِكُمْ)؛
ترجمہ: رسول اللہؐ [ہم پر] تمہاری صلوات، تمہارے پروردگار کی رضا و خوشنودی اور اور تمہارے اعمال [اور ابدان] کے تزکيے اور پاکیزگی کا سبب بنتی ہے۔[43] - صلوات روشنی ہے قبر، صراط اور جنت میں
"قالَ النبيُ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ: أكْثِرُوا الصَّلاة عَلَيَّ فَإنَّ الصَّلاة عَلَيَّ نُورٌ فِي القَبرِ، وَنورٌ عَلَی الصِّراطِ، وَنورٌ فِي الجَنَّة؛
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: مجھ پر بکثرت صلوات بھیجا کرو، کیونکہ مجھ پر بھیجی ہوئی صلوات روشنی ہے قبر میں، روشنی ہے صراط پر، اور روشنی ہے جنت میں۔[44] - صلوات بھیجنے والا، روز قیامت رسول اللہؐ کا سب سے زیادہ قریبی
"قالَ رَسولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَليه وَآلِهِ: أَولَی النّاسِ بِي يَومَ القِيامَة أکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلاةً (فِي دار الدُّنيا) ؛
رسول اللہؐ نے فرمایا: قیامت کے دن، تم میں سے، میرے قریب ترین لوگ، وہ لوگ ہیں جو دنیا میں مجھ پر بکثرت صلوات بھیجتے ہیں۔[45] - اجتماعی صلوات کا ثواب گننا ملائکہ کے لئے ناممکن
"فِي لَيلَة المِعراجِ بَعدَ أنْ رَأی النَّبيَّ مَلَكاً يحاسِبُ عَدَدَ قَطَراتِ المَطَرِ، قالَ المَلَكُ لَه صَلَّی اللهُ عليهِ وَآلِه: يا رَسُولَ اللهِ، حَسابٌ لا أقْدِرُ عَليهِ بِما عِندي مِن الحِفظِ وَالتَّذَكُّرِ وَالأيدِي وَالأصابِعِ، فقالَ: أيُ حِسابٍ هُو؟ فَقالَ: قُومٌ مِنْ أُمَّتِكَ یَحْضُرُونَ مَجْمَعاً فَیذْكرُ اسْمُكَ عِندَهُم فَيصَلُّونَ عَلَیكَ، فأنا لا أقْدِرُ عَلی حَصْرِ ثَوابِهِم؛
ترجمہ: شب معراج رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے ایک فرشتے کو دیکھا جو بارش کے قطرے گن رہا تھا؛ اس فرشتے نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا: اے رسول خداؐ ایک ایسا حساب بھی ہے جس کو میں اپنی پوری قوت حافظہ، ہاتھوں اور انگلیوں کے باوجود، انجام نہیں دے سکتا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کونسا حساب ہے؟ فرشتے نے کہا: جب آپ کی امت کا ایک گروہ ایک مقام پر اکٹھا ہوجاتا ہے اور آپ کا نام مبارک سننے پر آپ پر صلوات بھیجتا ہے، میں ان کی صلوات کا ثواب گننے سے عاجز ہوں۔[46] - قلب اور ذہن کی نورانیت
"عَن مَولانا الحَسنِ بنِ عَلی علیهما السلام: إنَّ قَلبَ الرَّجُلِ فِي حُقٍّ وَعَلی الحُقِّ طَبَقٌ، فَإنْ صَلَّی الرَّجُلُ عِندَ ذلكَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحمَّدٍ صَلاةً تامَّةً اِنْكَشَفَ ذلكَ الطَّبَقُ عَنْ ذلِكَ الحُقِّ فَأضاءَ القَلْبُ وَذَكَرَ الرَّجُلُ ما كَانَ نَسِي، وَإنْ هُوَ لَمْ يُصَلِّ عَلی مُحمَّدٍ وَآلِ مُحمَّدٍ أو نَقَصَ مِن الصَّلاة عَلَيهِم إنْطَبَقَ ذلكَ الطَّبَقُ عَلَی ذلكَ الحُقِّ فأظْلَمَ القَلْبُ وَنَسِی ما كَانَ ذَكَرَهُ؛
ترجمہ: امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا: انسان کا قلب کا ٹھکانا ایک گڑھے اور ایک ظرف میں واقع ہوا ہے جس کے اوپر ایک پردہ اور ڈھکن ہے، جب بھی کوئی شخص محمد و آل محمد پر صلوات کاملہ بھیجتا ہے [یعنی رسول اللہ اور آل رسول علیہم السلام کو معاً تحفۂ صلوات پیش کرے] وہ پردہ ہٹ جاتا ہے اور اس کا دل روشن ہوجاتا ہے اور وہ جو کچھ بھول چکا ہے، اسے یاد آجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ صلوات نہ بھیجے یا صلوات نافصہ بھیجے [اور آل رسول کو صلوات میں شامل نہ کرے] تو وہ ڈھکن اس کے دل پر برقرار رہتا ہے اور اس کا دل تاریک رہتا ہے، اور جو کچھ اسے یاد ہے، اسے بھی بھول جاتا ہے۔[47][48] - افضل ترین اعمال میں سے ایک
"عَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ النَّبِيُ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ: رَأَيتُ البارحَة عَمِّي حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأخِي جَعْفَرَ بْنَ أبِي طالِبٍ وَبَينَ أَيدِيهِما طَبَقٌ مِنْ نَبِقٍ فَأكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ النَّبِقُ عِنَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ الْعِنَبُ لَهُمَا رُطَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَدَنَوْتُ مِنْهُمَا وَقُلْتُ:بِأَبِي أَنْتُمَا،اي الْأَعْمَالِ وَجَدْتُما أَفْضَلَ؟ قَالَا: فَدَينَاكَ بِالْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ، وَجَدْنَا أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ الصَّلَاةَ عَلَيكَ، وَسَقْي الْمَاء، وَحُبَّ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عليه السَّلامُ؛
ترجمہ: ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے (نماز فجر کے بعد) اپنے اصحاب سے فرمایا: کل رات کو میں نے اپنے چچا حمزہ بن عبد المطلب اور بھائی جعفر بن ابی طالب کو خواب میں دیکھا؛ ان کے ہاں ایک سدر کے پھل کی ایک طشتری تھی؛ ایک مدت تک اس سے کھاتے رہے تو وہ پھل انگور میں بدل گیا۔ جب اس میں کچھ کھایا تو انگور رطب (تروتازہ کھجوروں) میں بدل گئے، رطب میں سے بھی جب کچھ کھا چکے تو میں ان کے قریب گیا اور کہا: میرے والد تم پر فدا ہو، تم نے کونسا عمل دوسرے اعمال سے افضل پایا؟ کہنے لگے: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہم نے آپ پر صلوات، دوسروں کو پانی پلانے کے عمل اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کی محبت کو دوسرے تمام اعمال سے افضل پایا۔[49] - حضرت زہراؑ پر صلوات، گناہوں کی بخشش اور جنت میں رسول اللہؐ سے ملحق ہونے کا سبب
"عن مولاتِنا فاطِمَة الزهراءِ: قالتْ:قالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليه وَآلِه: يا فاطِمَةُ، مَنْ صَلَّی عَلَیكِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَألْحَقَهُ بي حَيثُ كنْتُ مِن الجَنَّة؛
ترجمہ: اے فاطمہ! جو بھی آپ پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کو بخش دے گا اور میں جنت کے جس حصے میں بھی ہونگا، اللہ اس کے مجھ سے ملحق کردے گا}}"۔[50]
صلوات سے بےاعتنائی کے اثرات
- نام پیمبرؐ سن کر صلوات سے بےاعتنائی برتنے والے کا تعارف
- پیغمبرؐ کا نام سن کر صلوات نہ بھیجنے والا بخیل ہے
"عَنِ الحُسَينِ بنِ عَلِي عليهِ السَّلامُ عَن جَدِّهِ رَسولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ: اَلبَخِيلُ حَقّاً مَنْ ذُكِرْتُ عِندَه فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ؛
ترجمہ: حسین بن علی علیہ السلام اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل کرتے ہیں: حقیقی بخیل وہ شخص ہے جو میرا نام سن لے اور مجھ پر صلوات نہ بھیجے"[51] - ظالم و ستمکار ہے
"قالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليه وَآلهِ: أجفَی النّاسِ رَجلٌ ذُكِرْتُ بَينَ يدَيهِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ؛
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: لوگوں میں، ظالم ترین اور جفاکار ترین شخص، وہ ہے جو میرا نام سن لے اور مجھ پر صلوات نہ بھیجے۔[52] - جاہل اور فریب خوردہ ہے، روز قیامت حسرت زدہ ہوگا، اللہ، رسول اور آل رسولؐ اس سے بیزار ہیں
"عن الصّادقِ علیهالسلام: إذا ذُكِرَ النَّبيُ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ فَأكثِرُوا الصَّلاةَ عَلَیهِ، فَإنَّهُ مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِیّ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ صَلاةً واحِدَةً صَلَّی اللهُ عَليهِ ألفَ صَلاةٍ فِی أَلْفِ صَفٍّ مِن المَلائِكَة، وَلَمْ يَبْقَ شَيءٌ مِمَّا خَلَقَهُ اللهُ إلاّ صَلَّی عَلی العَبدِ لِصَلاةِ اللهِ عَليهِ وَصلاة مَلائِكَتِه،ِ فَمَنْ لَمْ یرغَبْ فِي هذا فَهُوَ جاهِلٌ مَغْرورٌ، قَد بَرِﺉَ اللهُ مِنهُ وَرَسولُهُ وَأهلُ بَيتهِ؛
ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا تذکرہ کیا جائے تو آپؐ پر بکثرت صلوات بھیجو؛ کیونکہ جو ایک بار آپؐ پر صلوات بھیجتا ہے، خداوند متعال ہزار بار، ہزار فرشتوں کے ہمراہ، اس پر درود بھیجتا ہے اور مخلوقات الہیہ میں سے کوئی بھی مخلوق نہیں رہتے، مگر کہ [اس شخص] پر اللہ اور ملائکہ کی صلوات کی بنا پر، اس پر صلوات بھیجتی ہے، [اب] اگر اس فضیلت کے باوجود کوئی صلوات کی طرف رغبت نہ رکھے، وہ جاہل اور [شیطان کے ہاتھوں] فریب خوردہ شخص ہے اور خدا، اس کے رسولؐ اور اہل بیت رسولؐ ایسے شخص سے بیزار ہیں۔[53]
- پیغمبرؐ کا نام سن کر صلوات نہ بھیجنے والا بخیل ہے
- اگر دعا سے قبل صلوات نہ بھیجی جائے تو وہ محجوب ہوگی
"عَن النَّبيِّ وَأميرِ المُؤمِنينَ وَالصَّادقِ عَلَيهِمُ السَّلامُ: كُلُّ دُعاءٍ (یُدْعی اللهُ عَزَّوَجَلَّ بهِ) مَحجُوبٌ عَن السَّماءِ حَتی يُصَلِّيَ عَلی مُحمَّدٍ وَآلِ مُحمَّدٍ؛
ترجمہ: رسول اللہ، امیرالمؤمنین اور امام صادق علیہم السلام سے مروی ہے کہ: ہر وہ دعا جس میں خدا سے التجا کی جاتی ہے، اوپر صعود نہیں کرتی سوا اس کے، کہ محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجی جائے۔[54]
ابتر صلوات
رسول اللہؐ سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: "مجھ پر صلوات کو میری آل پر صلوات سے، مکمل کرو؛ اگر مجھ پر صلوات میرے خاندان پر درود کے بغیر ہو تو وہ ابتر اور ناقص ہے؛ بعض روایات میں آل رسولؐ پر صلوات ترک کرنے والے شخص کو جنت سے دور اور محروم قرار دیا گیا ہے۔
"قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليهِ وَآلِه: لَاتُصَلُّوا عَلَيَّ صَلاةَ البَتْراء، قالُوا: وَمَا الصَّلاةُ البَتراءُ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قالَ صَلَّی اللهُ علیهِ وَآلِه: لا تَقُولُوا "اللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمَّدٍ" وَتُمسِكُونَ، بَلْ قُولوا: "صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ؛ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: مجھ پر لاحقے کے بغیر ناقص صلوات مت بھیجنا، اصحاب نے پوچھا: ناقص اور بغیر لاحقے کی صلوات کیا ہے؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: اَلَّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ کہہ کر خاموش مت ہوجاؤ بلکہ کہہ دو "الّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ۔[55] بغیر لاحقے کی صلوات کو صلاۃ مبتورہ کہا جاتا ہے۔[56] اہل سنت نے بھی اسی مضمون پر مشتمل احادیث نقل کی ہیں۔[57]
"قالَ رَسولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليهِ وآلِهِ: مَنْ صَلَّي عَلَيَّ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَی آلِي لَمْ يَجِدْ رِيحَ الجَنَةِ وَإنَّ رِيحَها لَيُوجَدَ مِنْ مَسيرَةِ خَمسماِئةِ عامٍ؛ترجمہ: جو شخص مجھ پر صلوات بھیجے اور میرے خاندان پر صلوات نہ بھیجے، وہ ہرگز جنت کی بو محسوس نہیں کرے گا؛ حالانکہ، یقینا جنت کی بو 500 سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے}}[58]
"عن أبي عبد الله عليه السلام: سَمِعَ أبي رَجلاً مُتَعَلِّقاً بالبِيتِ وَهُو يقُولُ: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ"، فَقال لَه أبي: يا عبدَ اللهِ لاتَبْتُرْها، لاتَظْلِمْنا حَقَّنا، قُلْ: "الَّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأهلِ بِيتِهِ ترجمہ: حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد حضرت امام باقر علیہ السلام سے سنا جو فرما رہے تھے: ایک شخص پردۂ کعبہ کو پکڑ کرکے کہہ رہا تھااللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ میرے والد نے اس شخص سے فرمایا: اے بندۂ خدا! اپنی صلوات کو ناقص مت کرو، اور ہم اہل بیت پر ظلم نہ کرو اور کہہ دو الَّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأهلِ بِيتِهِ۔[59]
صلوات کے مواقع
بہت سے مواقع پر صلوات بھیجنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، ذکرِ صلوات ہر مجلس میں مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔[60] صلوات کے بعض اہم مواقع کچھ یوں ہیں:
- ذکر الہی کے وقت: مستحب ہے کہ جب بھی خدا کا ذکر کیا جاتا ہے [اور اللہ کو یاد کیا جاتا ہے] محمد و آل محمد ؐ پر درود و صلوات بھیجنا چاہئے۔[61]
- نماز کے بعد: ایک معتبر روایت کے مطابق، صلوات نماز کے بعد کے اہم ترین اذکار میں سے ایک ہے؛ یہاں تک کہ نمازوں کی مشترکہ تعقیبات ـ جو تمام واجب نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں ـ کے لئے تین دعائیں نقل ہوئی ہیں جو ذکر صلوات پر مشتمل ہیں۔ نماز صبح کی مخصوص تعقیبات میں بھی مستحب ہے کہ 100 مرتبہ صلوات کہی جائے۔ نماز مغرب کے بعد آیت صلوات پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔[62][63] "ایران"، ["پاکستان" اور بعض دیگر ممالک] میں ہر نماز کے بعد آیت صلوات اور بعدازاں تین مرتبہ صلوات پڑھی جاتی ہے۔
- تقریر و خطاب کے بعد: بعض روایات کے مطابق، تقریر کے آخر میں ذکر صلوات مستحب اور بہت مؤثر ہے۔[64]
- دعا کے آخر میں: ادعیہ کے آخری فقروں میں ذکرِ صلوات کی ہدایت وارد ہوئی ہے اور روایات میں فرمایا گیا ہے کہ یہ عمل دعا کی استجابت میں مؤثر ہے۔[65]
- انبیاء پر درود سے قبل پیغمبر اسلام پر درود: منقولہ روایات کے مطابق، مستحب ہے کہ "جب تم انبیائے الہی کا نام لیتے ہو تو ان پر درود و سلام بھیجنے سے قبل حضرت محمد اور آپؐ کے خاندان پاک ـ علیہم السلام ـ پر درود و صلوات بھیجا کرو"۔[66]
- بھولی ہوئی چیزوں کی یادآوری کے لئے: بعض روایات کے مطابق، بھولی ہوئی چیزوں کی یادآوری کے لئے، صلوات مؤثر ذکر ہے بشرطےکہ صلوات کامل ہو اور آل رسولؐ کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔[67]
ختم صلوات
ختم صلوات کے معنی، ایک خاص تعداد میں صلوات پڑھنے کے ہیں؛ مثال کے طور پر 100 مرتبہ صلوات، یا 14000 مرتبہ صلوات (چودہ معصومین میں سے ہر معصوم کے نام 1000 مرتبہ)۔ یہ اعداد و شمار قرآن و حدیث کے احکام پر استوار نہیں ہے اور زيادہ تر دینی علماء کی تلقینات یا پھر مختلف عوامی ثقافتی اور ریت رواج کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔[68] آج کل شیعہ معاشروں میں ختم صلوات کے عنوان سے بعض مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر مجالس کا مقصد کسی خاص حاجت کا حصول ہوتا ہے۔[69] کتاب آثار و برکات صلوات، میں ایک مکمل حصے کو ختم صلوات کی مختلف کیفیات اور روشوں سے مختص کیا گیا ہے۔[70] مذکورہ کسی بھی کیفیت یا روش میں قرآن یا حدیث سے استناد نہیں کیا گیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، ج1، 266۔
- ↑ فراہیدی، العین، ج7، ص153۔
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، ج1، ص266۔
- ↑ السیوطی، الدر المنثور، ج5، ص216۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ص7، ص199۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص196۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص195۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص96۔
- ↑ حوزہ ویب سائٹ۔
- ↑ ابن قدامه، المغنی، ج1، ص223۔
- ↑ الحنفی المصری، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج1، ص573۔
- ↑ أبو البرکات، الشرح الکبیر، ج1، ص251۔
- ↑ أبو بکر الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج1 ص211۔
- ↑ کیفیت صلوات در فرہنگ اہل سنت۔
- ↑ کیفیت صلوات در فرہنگ اہل سنت۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص183۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص493۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص196۔
- ↑ حر عاملی، وہی ماخذ، ص193۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج 91، ص47- 73۔
- ↑ صدوق، عیون أخبار الرضا، ج1، ص236، ح1۔شیخ صدوق، الأمالی، ص132۔فتال النیسابوری، روضۃ الواعظین، ج2، ص322۔شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص156۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔مجلسی، بحارالأنوار، ج91، 74۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص463۔
- ↑ حمیری، قُرب الأسناد، ص14۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص197۔مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص49۔مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج1، ص426۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص62۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص367۔ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1662۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص56، باب 29، حدیث 30۔شیخ صدوق، الأمالی، ص580۔
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص34۔الحلی، المحتضَر، ص139۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔مجلسی، بحار الانوار، ج12، ص4، ج91، ص54۔حویزی، نور الثقلین، ج1، ص555۔قمی مشہدی، کنز الدقائق، ج2، ص635۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص493۔شیخ صدوق، ثواب الأعمال:159۔طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، ص312۔
- ↑ الحلي، المحتضر، ص76۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ ج7، ص192 و 200۔مجلسی، بحار الأنوار91:59۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص464۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص61۔شہید ثانی، منیة المرید، 347۔مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص71۔قمی، شیخ عباس، منازل آلاخرة، ص203۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص369۔
- ↑ ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1662۔
- ↑ اردکانی یزدی، شرح و فضائل صلوات، ص97۔
- ↑ طوسی، الأمالی، ص172۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص96۔مجلسی، بحارالأنوار، ج91، ص53۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص239۔
- ↑ صدوق، ثواب الأعمال، ص155۔شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص159۔الحلی، حسن بن سلیمان، المحتضر، ص76۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج6، ص479۔مجلسی، بحار الأنوار، ج83، ص135، ج91، ص58 و 65۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج5، ص337۔
- ↑ قطب راوندی، الدعوات، ص89۔مجلسی، بحارالأنوارج91، ص70۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص331۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص492۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج1، ص452۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص465۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج92، ص136۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص342۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص464۔
- ↑ فتال النیسابوری، روضۃ الواعظین، ص392۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص381۔مجلسی، بحارالأنوار، ج56، ص27، ج86، ص268، ج91، ص50۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج6، ص188۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینة البحار، ج2، ص89، ج4، ص445، ج6، ص367۔
- ↑ الطوسي، مصباح المتہجد، ص369۔سید ابن طاؤس، جمال الأسبوع، ص261۔کفعمی، حاشیۃ المصباح، ص65۔مجلسی، بحار الأنوار، ج83، ص77، ج86، ص363، ج87، ص65۔نوری الطبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص96، ج6، ص366۔الموسوي الإصفہاني، مکیال المکارم، ج1، ص344، ج2، ص11۔قمی، شیخ عباس، منازل الآخرۃ، ص205۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج5، ص134، ج5، ص377۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص366۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص153۔مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص63۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص333۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔ری شہری، میزان الحکمۃ، ج3، ص2022۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص494۔صدوق، ثواب الأعمال، ص155۔الحلي، ابن فهد، عدۃ الداعی، ص150۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص193۔مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص57، ج 96، ص369۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص156۔سید ابن طاؤس، جمال الأسبوع، ص159۔مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص68۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص224 و 225 و 329۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص338 و466۔
- ↑ قطب راوندی، الدعوات، ص216۔مجلسی، بحارالأنوارج79، ص64، ج91، ص70۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص332۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص469۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص154۔طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، ص312۔مجلسی، بحارالأنوار، ج91، ص63۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص334۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص356۔قمی، شیخ عباس، منازل الآخِرَۃ، ص205۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص468۔
- ↑ شیخ صدوق، الإمامۃ و التبصرۃ، ص107۔
- ↑ نعمانی، الغیبۃ، ص67۔شیخ صدوق، کمال الدین، ج1، ص314۔شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص97۔شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ج2، ص68۔طبری الشیعی، دلائل الإمامۃ، ص175۔الطبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری، ج2، ص192۔الطبرسي، احمد بن علي، الإحتجاج، ج1، ص397۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص199۔مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص419، ج58، ص37، ج 91، ص51۔حویزی، نور الثقلین، ج1، ص828۔حائری یزدی، إلزام الناصب، ج1، ص192۔بروجردی، جامع الأحادیث، ج15، ص490۔
- ↑ قطب راوندی، الدعوات، ص90۔القمي، محمدبن الحسن، العقد النضید، ص92۔علامہ حلی، کشف الیقین، ص231۔اربلی، کشف الغمّۃ، ج1، ص94۔البحرانی، مدینۃ المعاجز، ج3، ص35۔البحرانی، غایۃ المرام، ج6، ص54۔مجلسی، بحار الانوار، ج22، ص284، ج39، ص274، ج71، ص369، ج91، ص70۔ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص331، ج7، ج250۔بروجردی، جامع احادیث، ج8، 514، ج15، ص471۔
- ↑ اربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص100۔مجلسی، بحار الأنوار، ج43، ص55، ج97، ص194۔واعظ کجوری، الخصائص الفاطمیۃ، ج2، ص467۔رضوی قمی، اللمعۃ البیضاء، ص291۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج10، ص211۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج12، ص266۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص370۔ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1197۔
- ↑ شیخ صدوق، معانی الأخبار:246۔حر عاملی، وسائل الشیعة7:204۔مجلسی، بحار الأنوار، ج70، ص306، ج91، ص55۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص484۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج1، ص289 و 367۔ری شہری، میزان الحکمۃ، ج1، ص234۔
- ↑ ابن فہد الحلي، عدة الداعی:35۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص:207، 151۔مجلسی، بحارالأنوار، ج81، ص257، ج91، ص71۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص361۔
- ↑ کلینی، ألکافی، ج2، ص492۔شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ص154۔سید ابن طاؤس، جمال الأسبوع، ص156۔طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، ص312۔شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص158۔برسی، مشارق أنوار الیقین، ص279۔استرآبادی، تأویل الآیات، ج2، 461۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص193۔البحرانی، غایۃ المرام، ج3، ص256۔مجلسی، بحارالأنوار، ج17، 30، ج91، ص57۔مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج1، ص452۔نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج6، ص398۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص468۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص493۔صدوق، ثواب الأعمال، ص155۔شیخ صدوق، المقنع، ص297۔فتال النیسابوری، روضة الواعظین، ص329۔شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص158۔مجلسی، مرآۃ العقول، ج12، ص99۔حر عاملی، وسائل الشیع، ج7، ص92۔بحرانی، غایۃ المرام، ج3، ص255۔مجلسی، بحار الأنوار، ج90، ص311، ج91، ص58 و 65۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص237۔
- ↑ العاملي، على بن يونس، الصراط المستقیم، ج1، ص190۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحارج6، ص369۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص207۔بحار الأنوار، ج5، ص209، ج90، ص14۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعہ، ج15، ص488۔
- ↑ الہیتمی، الصواعق المحرقۃ، ص629۔نیز رجوع کریں: الامینی، الغدیر، ج2، ص303۔مرعشی نجفی، شرح إحقاق الحق، ج9، ص524 - 643، ج3، ص252 – 274۔
- ↑ شیخ صدوق، الأمالی، ص267 و462۔شیخ طوسی، الأمالی، ص424۔فتال النیسابوری، روضۃ الواعظین، ص323۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص203۔حر عاملی، الفصول المہمۃ، ج3، ص333۔بحار الأنوار، ج8، ص186 و ج91، ص56۔الجزائری، نورالبراہین، ج1، ص201۔البحرانی، غایۃ المرام، ج3، ص257۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص487۔نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص367۔
- ↑ کلینی، ألکافی، ج2، ص495۔ابن فہد الحلي، عُدَّۃ الدّاعی، ص841۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ ج7، ص202۔الجزائری، نور البراہین، ج1، ص201۔مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج2، ص120۔بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص488۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص201۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص201۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص96۔
- ↑ مفاتیح الجنان، باب اول، فصل اول۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص199۔
- ↑ حر عاملی، وہی ماخذ۔
- ↑ حر عاملی، وہی ماخذ۔
- ↑ حر عاملی، وہی ماخذ۔
- ↑ راهی ساده برای برآورده شدن حوائج (حاجت برآری کا آسان رستہ) ۔
- ↑ ختم صلوات که میگیرند چیست (ختم صلوات کیا ہے)؟۔
- ↑ انواع ختم های صلوات (ختم صلوات کی مختلف قسمیں)۔
مآخذ
- ابن فہد الحلي، محمد بن فَہد حِلّی اَسَدی، عدۃ الداعي ونجاح الساعي، تحقیق: احمد الموحدي القمي، الطبعۃ: الاولى، دار الکتاب الاسلامی، 1410ھ۔
- الأميني النجفي، عبدالحسين أحمد، الغدير في الكتاب والسنۃ والأدب، ناشر: الحاج حسن إيراني، دار الكتاب العربي بيروت - لبنان الطبعۃ الرابعۃ 1397ھ / 1977ء۔
- سید ابن طاؤس، على بن موسى، جمال الاسبوع بكمال العمل المشروع، تحقيق: جواد قيومى الاصفہانى، مؤسسۃ الآفاق الطبعۃ الاولى: 1371ہجری شمسی۔
- الحر العاملی، الشيخ محمد بن الحسن، وسائل الشیعۃ، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام قم، 1409ھ۔
- النوري الطبرسي، خاتمۃ المحدثين الحاج ميرزا حسين (1320 ھ)، مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل تحقيق مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لاحياء التراث، بیروت 1408 ھ / 1987 ء۔
- الصدوق، محمد بن على، من لا يحضرہ الفقيہ، تحقیق: على اكبر الغفاري، منشورات جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلميۃ في قم المقدسۃ 1413ھ۔
- الشيخ الصدوق، محمد بن على، عيون أخبار الرضا، ت: حسين الاعلمي، مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات ـ بيروت - لبنان 1404ھ- 1984ء۔
- الشيخ الصدوق، محمد بن علي، الامالي للشيخ الصدوق، تحقيق: قسم الدراسات الاسلاميۃ - مركز الطباعۃ والنشر في مؤسسۃ البعثۃ قم الطبعۃ: الاولى 1417ھ۔
- الشيخ الصدوق، محمد بن علي، علل الشرائع، منشورات المكتبۃ الحيدريۃ ومطبعتہا في النجف 1385ھ / 1966ء۔
- الشيخ الصدوق، محمد بن علي، "ﺛﻮﺍﺏ ﺍﻷﻋﻤﺎﻝ"، المحقق: ﺍﻟﺴﻴﺪ ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺨﺮﺳﺎﻥ، ﻣﻨﺸﻮﺭﺍﺕ ﺍﻟﺸﺮﻳﻒ ﺍﻟﺮﺿﻲ - الطبعۃ: الثانيۃ 1386ہجری شمسی۔
- الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الإمامۃ والتبصرۃ، تحقیق: مدرسۃ الإمام المہدي ؑ، الطبعۃ الأولی، قم 1404ھ / 1363ہجری شمسی۔
- الشيخ الصدوق، محمد بن على، كمال الدين وتمام النعمۃ، تحقيق: على اكبر الغفاري، جامعۃ المدرسين قم 1405ھ/ 1363ہجری شمسی۔
- الشيخ الصدوق، محمد بن علي، معاني الاخبار، تصحيح: علي أكبر الغفاري، انتشارات اسلامي وابستہ بجامعۃ مدرسين حوزہء علميہ قم 1361ہجری شمسی۔
- كليني، محمّدبن يعقوب، الكافي، ہشت جلد، چاپ چہارم، تہران، دارالكتب الاسلاميہ، 1365ہجری شمسی۔
- طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، تحقیق احمد حسینی اشکوری، نشر مرتضوی، تہران،1375ہجری شمسی۔
- فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، انتشارات ہجرت، دوم، قم، 1410ھ۔
- الحنفی المصری، زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، دار النشر: دار المعرفۃ، بیروت، الطبعۃ: الثانیۃ. بیتا
- ابو البرکات، أحمد بن محمد العدوي، الشرح الکبیر، تحقیق: محمد علیش، دار الفکر - بیروت،. بیتا
- أبو بکر الکاسانی، علاء الدین مسعود، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، دار الکتاب العربی الطبعۃ: الثانیۃ بیروت 1982ء۔
- السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن ابن أبى بكر، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، ـ دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر بيروت - لبنان.
- ابن قدامۃ، موفق الدین المقدسي، المغني، المحقق: رائد بن أبي علفۃ، بيت الأفكار الدولیۃ، بیروت، 2004ء۔
- المجلسي، محمد باقر، بحار الانوار، مؤسسۃ الوفاء - بيروت - لبنان - الطبعۃ الثانيۃ 1403ھ / 1983ء۔
- الحميري، عبد اللہ بن جعفر، قرب الاسناد، تحقيق: مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام، المطبعۃ: مہر - قم، الطبعۃ الأولى 1413ھ۔
- المدني الشيرازي، السيد علي خان، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، تحقيق: السيد محسن الحسيني الاميني، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم المشرفۃ۔
- البروجردي، السيد حسین الطباطبائي، جامع أحاديث الشيعۃ، المطبعۃ: مہر - قم.
- النمازي الشاہرودي، الشيخ على، مستدرك سفينۃ البحار، تحقيق: حسن بن علي النمازي، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم المشرفۃ، 1375ہجری شمسی۔
- الري شہري، محمد محمدی، ميزان الحكمۃ، التحقيق والنشر: دارالحديث، الطبعۃ: الأولى قم، 1375ہجری شمسی۔
- الحلي، الحسن بن سليمان، المحتضر، تحقيق : السيد علي أشرف، منشورات المكتبۃ الحيدريۃ ومطبعتہا في النجف 1424ھ۔
- الحويزى، الشيخ عبد على بن جمعہ العروسى، تفسير نور الثقلين، مؤسسۂ اسماعيليان قم 1412ھ / 1370ہجری شمسی۔
- القمي المشہدي، محمد بن محمد رضا، تفسیر كنز الدقائق وبحر الغرائب، محقق: حسین درگاہی، ناشر : دار الغدیر، قم 1382ھ۔
- طبرسی، حسن بن فضل (فرزند امین الاسلام)، مکارم الاخلاق،مؤسسہ شریف رضی، قم سال انتشار: 1370ہجری شمسی۔
- الشعيري السبزواري، الشيخ محمّد بن محمّد، جامع الأخبار، المحقق: علاء آل جعفر، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ الطبعۃ: الأولی، قم 1414ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، منيۃ المرید، تحقیق: رضا المختاری، [الحوزۃ العلميۃ بقم]، مکتب الاعلام الاسلامی، 1415ھ / 1374ہجری شمسی۔
- قمی، شیخ عباس، منازل الآخرۃ والمطالب الفاخرۃ، مشخصات نشر : قم: صلوات، 1386ہجری شمسی۔
- الطوسي، محمد بن الحسن، الامالي، تحقيق: قسم الدراسات الاسلاميۃ - مؤسسۃ البعثۃ للطباعۃ والنشر والتوزيع دار الثقافۃ، الطبعۃ الاولى، قم 1414ھ۔
- قطب الراوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، سلوۃ الحزین وتحفۃ العلیل، المعروف بالدعوات، تحقیق: عبدالحلیم عوض الحلي، دلیل ما، قم 1385ہجری شمسی۔
- الفتال النيسابوري، الشيخ محمد بن الفتال النيسابوري (الشہيد في سنۃ 508ھ)، روضۃ الواعظين، السيد حسن الخرسان منشورات الرضي قم – إيران۔
- الطوسي، الشيخ ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن، المشتہر بـ شیخ الطائفہ و الشیخ الطوسی (385-460ھ)، مصباح المتہجد، موسسۃ فقہ الشیعۃ، 1411ھ / 1991ء۔
- الموسوي الإصفہاني، السيد محمد تقي "فقيہ آبادي"، مکیال المکارم في فوائد الدعاء للقائم علیہ السلام، مؤسسۃ الإمام المہدي، قم المقدسۃ، الطبعۃ الرابعۃ، 1422ھ۔
- النعمانی، ابن أبي زينب محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، تحقيق: على اكبر الغفاري، مکتبہ الصدوق، طہران۔
- الطبري الشیعي، ابو جعفر محمد بن جرير، دلائل الامامۃ، منشورات مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات الطبعۃ: الثانيۃ، بیروت 1988ء۔
- الطبرسي، احمد بن علي، الاحتجاج، ت: السيد محمد باقر الخرسان، منشورات ط مطابع النعمان النجف الاشرف 1386ھ / 1966ء۔
- الطبرسي، الفضل بن الحسن، إعلام الورى بأعلام الہدى، مؤسسۃ ال البيت عليہم السلام لإحياء التراث، قم 1417ھ۔
- الحائري اليزدي، الشيخ علي بن زين العابدين، إلزام الناصب في إثبات الحجۃ الغائب(عج)، مطابع دار النعمان، النجف 1290ھ / 1971ء۔
- القمي، محمد بن الحسن، العقد النضيد والدر الفرید، تحقيق: علي أوسط الناطقي، المساعد: سید ہاشم شہرستاني، لطيف فرادي، دار الحديث للطباعۃ والنشر، قم، الطبعۃ: الأولی 1423ھ / 1381ہجری شمسی۔
- العلامۃ الحلي، الحسنبن یوسف بن المطہر، (648-726ھ)، کشف الیقین فی فضائل امیرالمومنین، تحقیق: حسین الدرگاہی، وزارۃ الثقافۃ والإرشاد الإسلامي، مؤسسۃ الطبع و النشر، 1411ھ / 1991ع / 1370ہجری شمسی۔
- الاربلي، على بن عيسى بن أبي الفتح، كشف الغمۃ في معرفۃ الائمۃ، دار الاضواء بيروت – لبنان۔ الطبعۃ الثانيۃ، 1405ھ / 1985ء۔
- الواعظ الکجوری، محمد باقر بن اسماعیل (1255- 1313ھ)، الخصائص الفاطمیۃ، الشریف الرضی - قم 1380ھ
- رضوی قمی، سید محمد تقی بن سید اسحق، اللمعۃ البیضاء فی شرح خطبۃ الزہراء ؑ، وضعیت نشر : طہران: محمد اسمعیل علمی و میرزا اسمعیل سقط فروش، 1352ھ۔
- البحراني، السيد ہاشم، مدينۃ معاجز الائمۃ الاثنى عشر۔۔۔، تحقيق: الشيخ عزۃ اللہ المولائي الہمداني، مؤسسۃ المعارف الاسلاميۃ. الطبعۃ: الاولى 1413ھ۔
- البحراني، السيد ہاشم، غايۃ المرام وحجۃ الخصام في تعيين الإمام من طريق الخاص والعام، تحقيق: السيد علي عاشور، مؤسسۃ التاريخ العربي، الطبعۃ: الاولى 2001ء۔
- القمي، الشيخ عباس، الانوار البہيۃ في تواريخ الحجج الالہيۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامي، الطبعۃ: الثانيۃ 1421ھ۔
- القمي، الشيخ عباس، بيت الاحزان في ذكر احوالات سيدۃ نساء العالمين فاطمۃ الزہراء عليہا السلام، دار التعارف للمطبوعات بیروت، الطبعۃ: الاولى 1998ء۔
- ورام ابن ابی فراس، ابوالحسن مسعود بن عیسی المالکی الاشتری، تنبیہ الخواطر ونزہۃ النواظر (المعروف بـ مجموعۃ ورام)، دار صعب ودار التعارف بیروت؛ قم مكتبۃ الفقيہ، بي تا.
- الاسترابادي النجفي، السيد شرف الدين علي الحسيني، تأويل الآيات الظاہرۃ في فضائل العترۃ الطاہرۃ، مدرسۃ الامام المہدي عليہ السلام، قم المقدسۃ، الطبعۃ الاولى، مطبعۃ أمير، قم 1407 ھ / 1366ہجری شمسی۔
- البرسی، الحافظ رجب بن محمد، مشارق انوار الیقین في أسرار أمیرالمؤمنبن، منشورات مؤسسۃ الأعلمي، بیروت لبنان الطبعۃ العاشرۃ، 1407 ھ / 1366ہجری شمسی۔
- شيخ الصدوق، علي بن الحسين، المقنع، تحقيق والنشر: مؤسسۃ الإمام الہادي - عليہ السلام - المطبعۃ: اعتماد، قم 1415ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول عليہم السلام، التحقیق: بہراد الجعفری، تہران: دارالکتب الاسلامیۃ، 1389ھ۔
- العاملي، على بن يونس، الصراط المستقيم إلى مستحقي التقديم، المحقق: محمد الباقر البہبودي، - مطبعۃ الحيدريۃ النجف الأشرف الطبعۃ الأولى 1384 ہ
- الہیتمی، احمد بن حجر المکی (المتوفی 974ھ)، الصواعق المحرقۃ في الرد على اہل البدع والزندقۃ، راجعہ وأشرف علی تحقیقہ: مصطفی العدوی، مکتبۃ فیاض للتجارہ والتوزیع، الطبعۃ الأولی، 1429ھ / 2008ء۔
- المرعشی النجفی، سید شہاب الدین، شرح إحقاق الحق وإزہاق الباطل، (= تألیف: السید التستری "الشہید") تصحیح: السید ابراہیم المیانجی، منشورات مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، قم۔
- الحر العاملي، الشيخ محمد بن الحسن، الفصول المہمۃ في أصول الائمۃ، تحقيق: محمد بن محمد الحسين القائينى، الناشر: مؤسسہ معارف اسلامي امام رضا ؑ، تاريخ نشر الطبعۃ الأولى 1418ھ / 1376ہجری شمسی۔
- الجزائری، السید نعمۃ اللہ الموسوی، نور البراہین، أو أنیس الوحید في شرح التوحید، مؤسسۃ النشر الإسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين قم 1417ھ
- اردکانی یزدی، احمد بن محمد الحسینی (1175-1245ھ)، فضائل صلوات گنجینہ نور و برکت منتخب از کتاب "شرح و فضائل صلوات"، قم مسجد مقدس صاحب الزمان جمکران ، 1379ہجری شمسی۔