خطبہ غراء

ویکی شیعہ سے

خطبہ غَرّاء، نہج البلاغہ کے مشہور خطبوں میں سے ایک ہے۔[1] یہ خطبہ اپنے فصاحت اور بلاغت کی وجہ سے خطبہ غراء (یعنی نورانی اور درخشان خطبہ) سے مشہور ہے۔[2] اِبن اَبی الحَدید اس خطبے کو امام علیؑ کے معجزات میں شمار کرتا ہے۔[3] اس خطبے میں کچھ سلیس اور سادہ جملے ہیں جن میں بیان و بدیع جیسے تمثیل، سجع، استعارہ اور کنایہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔[4] نہج البلاغہ کو مرتب کرنے والے سید رضی کے مطابق اس خطبہ کو سننے کے بعد لوگ خوف سے لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھا۔[5]

اس خطبہ کا اصل مضمون چار موضوعات پر مشتمل ہے: 1۔ انسان اور اس کی تاریخ 2۔ دنیا سے لگاؤ ​​کی مذمت 3۔ تقویٰ کی نصیحت اور متقی لوگوں کی خصوصیات کا بیان۔ 4۔ موت کے بعد کے واقعات کی تفصیل۔ انسان اور اس کی تاریخ سے متعلق موضوع میں، جو اس خطبہ کا سب سے اہم موضوع سمجھا جاتا ہے، جس میں انسان کی موت، اسے دی گئی نعمتیں، انسان کی غفلت، دنیوی زندگی، انسان کی عبرت اور دنیا فانی ہونا جیسے مسائل بیان ہوئے ہیں۔[6] ابونعیم اصفہانی اپنی کتاب حِلیۃُ الأولیاء اور طَبَقاتُ الأصفیاء میں لکھتے ہیں کہ امام علیؑ نے یہ خطبہ اس وقت پڑھا جب ایک شخص کی لاش لحد میں رکھی گئی تھی اور اس کے گھر والے رو رہے تھے۔[7]

مؤلف کتاب مَصادرُ نَہج ِالبَلاغۃ و اَسانیدُہ کے مصنف سید عبدالزہراء حسینی خطیب کا خیال ہے کہ اس خطبے کے سند کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس خطبہ کی عبارت میں ایسی فصاحت و بلاغت ہے کہ معصوم کے سوا کوئی اس کا اظہار نہیں کر سکتا۔[8] اس خطبہ کے کچھ حصے نہج البلاغہ کے علاوہ تُحَف العقول،[9] اور حِلیۃُ الأولیاء و طَبَقاتُ الأصفیاء[10] میں بھی نقل ہوئے ہیں۔[11]

عبد الزہراء حسینی خطیب اپنی کتاب العِقْدُ الفَرید[12] میں لکھتے ہیں کہ غلطی سے امام کے کسی دوسرے خطبے کو خطبہ غراء کا نام دیا گیا ہے؛[13] اسی طرح کتاب تَیْسیر المَطالب میں بھی نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 185 کو خطبہ غراء کا نام دیا گیا ہے۔[14] سید صادق موسوی اپنی کتاب تَمامُ نَہْجِ الْبَلاغہ میں نہج البلاغہ خطبہ نمبر 237 کو خطبہ غراء کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔[15]

نہج البلاغہ کے مختلف نسخوں میں اس خطبے کا ترتیب نمبر مختلف ہے۔[16]

نام نسخہ خطبہ نمبر
المعجم المفہرس، صبحی صالح 83
فیض الاسلام، شرح خوئی، ملاصالح، ابن ابی الحدید 82
ابن میثم 80
عبدہ 79
ملافتح اللہ 84
فی ظلال 81
مفتی جعفر 81

متن و ترجمہ خطبہ غراء

وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَهُ علیه‌السلام وَ تُسَمّی بِالْغَرّاءِ وَ هِی مِنَ الْخُطَبِ الْعَجیبَةِ (امام علیؑ کا ایک خطبہ جو غراء کے نام سے معروف ہے)
متن ترجمه
اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذی عَلا بِحَوْلِهِ، وَ دَنا بِطَوْلِهِ، مانِحِ كُلِّ غَنیمَة وَ فَضْل، وَ كاشِفِ كُلِّ عَظیمَة وَ اَزْل. تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی طاقت کے اعتبار سے بلند، اپنی بخشش کے لحاظ سے قریب ہے۔ ہر نفع و زیادتی کا عطا کرنے والا، اور ہر مصیبت و ابتلاء کا دور کرنے والا ہے
اَحْمَدُهُ عَلی عَواطِفِ كَرَمِهِ، وَ سَوابِغِ نِعَمِهِ، وَ اُومِنُ بِهِ اَوَّلاً بادِیاً، وَ اَسْتَهْدیهِ قَریباً هادِیاً، وَ اَسْتَعینُهُ قاهِراً قادِراً وَ اَتَوَكَّلُ عَلَیهِ كافیاً ناصِراً. میں اس کے کرم کی نوازشوں اور نعمتوں کی فراوانیوں کی بناء پر اس کی حمدو ثناء کرتا ہوں میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ چونکہ وہ اوّل و ظاہر ہے اور اس سے ہدایت چاہتا ہوں۔ چونکہ وہ قریب تر اور ہادی ہے اور اس سے مدد چاہتا ہوں ، چونکہ وُہ قادر و توانا ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں ، چونکہ وہ ہر طرح کی کفایت اور اعانت کرنے والا ہے
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اَرْسَلَهُ لاِِنْفاذِ اَمْرِهِ، وَ اِنْهاءِ عُذْرِهِ، وَ تَقْدیمِ نُذُرِهِ. اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے عبد و رسول ہیں۔ جنہیں احکام کے نفاذ اور حجت کے اتما م اور عبرتناک و اقاعات پیش کر کے پہلے سے متنبہ کر دینے کے لئے بھیجا۔
اُوصیكُمْ عِبادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّذی ضَرَبَ لَكُمُ الْاَمْثالَ، وَ وَقَّتَ لَكُمُ الْاجالَ، وَاَلْبَسَكُمُ الرِّیاشَ، وَ اَرْفَعَ لَكُمُ الْمَعاشَ، وَ اَحاطَ بِكُمُ الْاحْصاءَ، خدا کے بندو! میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ جس نے تمہارے (سمجھانے کے ) لئے مثالیں پیش کیں اور تمہاری زندگی کے اوقات مقرر کئے۔تمہیں (مختلف) لباسوں ڈھانپا اور تمہارے رزق کا سامان فراواں کیا۔ اس نے تمہارا پورا جائزہ لے رکھا ہے۔
وَ اَرْصَدَ لَكُمُ الْجَزاءَ، وَ آثَرَكُمْ بِالنِّعَمِ السَّوابِغِ وَالرِّفَدِ الرَّوافِغِ، وَ اَنْذَرَكُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوالِغِ، وَ اَحْصاكُمْ عَدَداً، وَ وَظَّفَ لَكُمْ مُدَداً فی قَرارِ خِبْرَةٍ وَ‌ دارِ عِبْرَةٍ، اور تمہارے لئے جزا مقرر کی ہے اور تمہیں اپنی وسیع نعمتوں اور فراخ عطیوں سے نوازا اور مؤثر دلیلوں سے تمہیں متنبہ کر دیا ہے۔ وہ ایک ایک کر کے تمہیں گنِ چکا ہے اور اس مقام آزمائش و محلِ عبرت میں اس نے تمہاری عمر یں مقرر کر دی ہیں
اَنْتُمْ مُخْتَبَرُونَ فیها وَ مُحاسَبُونَ عَلَیها، فَاِنَّ الدُّنْیا رَنِقٌ مَشْرَبُها، رَدِغٌ مَشْرَعُها، یونِقُ مَنْظَرُها، وَ یوبِقُ مَخْبَرُها. غُرُورٌ حائِلٌ، وَ ضَوْءً آفِلٌ، وَ ظِلٌّ زائِلٌ، وَ سِنادٌ مائِلٌ. اس میں تمہاری آزمائش ہے اور اس کی درآمد و برآمد پر تمہارا حساب ہو گا۔ اس دنیا کا گھاٹ گندلا اور سیراب ہونے کی جگہ کیچڑ سے بھری ہوئی ہے۔ اس کا ظاہر خوشنماء اور باطن تباہ کن ہے۔ یہ ایک مٹ جانے والا دھوکا، غروب ہو جانے والی روشنی ، ڈھل جانے والا سایہ اور جھکا ہوا ستون ہے۔
حَتّی اِذا اَنِسَ نافِرُها، وَ اطْمَاَنَّ ناكِرُها، قَمَصَتْ بِاَرْجُلِها، وَ قَنَصَتْ بِاَحْبُلِها، وَ اَقْصَدَتْ بِاَسْهُمِها، وَ اَعْلَقَتِ الْمَرْءَ اَوْهاقَ الْمَنِیةِ، جب اس سے نفرت کرنے والا اس دے دل لگا لیتا ہے۔ اور اجنبی اس سے مطمئن ہو جاتا ہے ، تو یہ اپنے پیروں کو اٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور اپنے جال میں پھانس لیتی ہے اور اپنے تیروں کا نشانہ بنا لیتی ہے
قائِدَةً لَهُ اِلی ضَنْكِ الْمَضْجَعِ، وَ وَحْشَةِ الْمَرْجِعِ، وَ مُعاینَةِ الْمَحَلِّ، وَ ثَوابِ الْعَمَلِ. اور اس کے گلے میں موت کا پھندا ڈال کر تنگ و تار قبر اور وحشت ناک منزل تک لے جاتی ہے کہ جہاں سے وہ اپنا ٹھکانا(جنت یا دوزخ دیکھ لے ، اور اپنے کئے کا نتیجہ پالے۔
وَ كَذلِكَ الْخَلَفُ یعْقُبُ السَّلَفَ، لاتُقْلِعُ الْمَنِیةُ اخْتِراماً، وَلایرْعَوِی الْباقُونَ اجْتِراماً، یحْتَذُونَ مِثالاً، وَ یمْضُونَ اَرْسالاً اِلی غایةِ الانْتِهاءِ، وَ صَیورِ الْفَناءِ. بعد میں آنے والوں کی حالت بھی اگلوں کی سی ہے۔ نہ موت کانٹ چھانٹ سے منہ موڑتی ہے اور نہ باقی رہنے والے گناہ سے باز آتے ہیں۔ باہم ایک دوسرے کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ہیں اور یکے بعد دیگرے منزلِ منتہاؤ مقامِ فنا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
حَتّی اِذا تَصَرَّمَتِ الْاُمُورُ، وَ تَقَضَّتِ الدُّهُورُ، وَ اَزِقَ النُّشُورُ، اَخْرَجَهُمْ مِنْ ضَرائِحِ الْقُبُورِ، وَ اَوْكارِ الطُّیورِ، وَ اَوْجِرَةِ السِّباعِ، وَ مَطارِحِ الْمَهالِكِ، سِراعاً اِلی اَمْرِهِ، مُهْطِعینَ اِلی مَعادِهِ، یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے ، اور دنیا کی عمر تمام ہو جائے گی ، اور قیامت کا ہنگام آ جائے گا۔ تو اللہ سب کو قبر کے گوشوں ، پرندوں کے گھونسلوں ، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت گاہوں سے نکالے گا۔
رَعیلاً صُمُوتاً، قِیاماً صُفُوفاً، ینْفِذُهُمُ الْبَصَرُ، وَ یسْمِعُهُمُ الدَّاعی، عَلَیهِمْ لَبُوسُ الاِسْتِكانَةِ، وَ ضَرَعُ الاِسْتِسْلامِ وَ الذِّلَّةِ، گروہ در گروہ ، صامت و ساکت ، ایستادہ وصف بستہ امر الٰہی کی طرف بڑھتے ہوئے اور اپنا جائے بازگشت کی جانب دوڑتے ہوئے۔ نگاہِ قدرت ان پر حاوی اور پُکارنے والے کی آواز ان سب کے کان میں آتی ہوئی ہو گی۔ وہ ضعف و بے چارگی کا لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور عجز و بے کسی کی وجہ سے ذلت ان پر چھائی ہوئی ہو گی.
قَدْ ضَلَّتِ الْحِیلُ، وَ انْقَطَعَ الاَمَلُ، وَ هَوَتِ الاَفْئِدَةُ كاظِمَةً، وَخَشَعَتِ الْاصْواتُ مُهَینِمَةً، وَاَلْجَمَ الْعَرَقُ، وَ عَظُمَ الشَّفَقُ، وَ اُرْعِدَتِ الْاسْماعُ لِزَبْرَةِ الدّاعی اِلی فَصْلِ الْخِطابِ، وَ مُقایضَةِ الْجَزاءِ، وَ نَكالِ الْعِقابِ، وَ نَوالِ الثَّوابِ. حیلے اور ترکیبیں غائب اور امیدیں منقطع ہو چکی ہوں گی۔ دل مایوُسا نہ خاموشیوں کے ساتھ بیٹھتے ہوں گے۔ آوازیں دب کر خاموش ہو جائیں گی۔ پسینہ منہ میں پھندا ڈال دے گا۔ وحشت بڑھ جائے گی ، اور جب انہیں آخری فیصلہ سنانے ، عملوں کا معاوضہ دینے ، اور عذاب و عقوبت اور اجرو ثواب کے لئے بُلایا جائے گا، تو پکارنے والے کی گر جدار آواز سے کان لرز اٹھیں گے.
عِبادٌ مَخْلُوقُونَ اقْتِداراً، وَ مَرْبُوبُونَ اقْتِساراً، وَ مَقْبُوضُونَ احْتِضاراً، وَ مُضَمَّنُونَ اَجْداثاً، وَ كائِنُونَ رُفاتاً، وَ مَبْعُوثُونَ اَفْراداً، وَ مَدینُونَ جَزاءً، وَ مُمَیزُونَ حِساباً. یہ بندے اس کے اقتدار کا ثبوت دینے کے لئے وجود میں آئے ہیں.اور غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے۔ نزو کے وقت انف کی روحیں قبض کر لی جاتی ہیں اور قبروں میں دکھ دیئے جاتے ہیں۔ (جہاں ) یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور(پھر) قبروں سے اکیلے اٹھائے جائیں گے اور عملوں کے مطابق جزا پائیں گے اور سب کو الگ الگ حساب دینا ہو گا۔
قَدْ اُمْهِلُوا فی طَلَبِ الْمَخْرَجِ، وَ هُدُوا سَبیلَ الْمَنْهَجِ، وَ عُمِّرُوا مَهَلَ الْمُسْتَعْتِبِ، وَ كُشِفَتْ عَنْهُمْ سُدَفُ الرِّیبِ، وَ خُلُّوا لِمِضْمارِ الْجِیادِ، وَ رَوِیةِ الْارْتِیادِ، وَ اَناةِ الْمُقْتَبِسِ الْمُرْتادِ فی مُدَّةِ الْاجَلِ وَ مُضْطَرَبِ الْمَهَلِ. انہیں دنیا میں رہتے ہوئے گلو خلاصی کا موقع دیا گیا تھا۔ اور سیدھا راستہ بھی دکھایا جا چکا تھا، اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مہلت بھی دی گئی تھی۔ شک و شبہات کی تاریکیاں ان سے دُور کر دی گئی تھیں۔ اور اس مدتِ حیات و آماجگاہ عمل میں انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ آخرت میں دوڑ لگانے کی تیاری ، اور سوچ بچار سے مقصد کی تلاش کر لیں اور اتنی مہلت پائیں
فَیا لَها اَمْثالاً صائِبَةً، وَ مَواعِظَ شافِیةً، لَوْ صادَفَتْ قُلُوباً زاكِیةً، وَ اَسْماعاً واعِیةً، وَ آراءً عازِمَةً، وَاَلْباباً حازِمَةً. جتنی فوائد کے حاص کرنے اور اپنی آئندہ منزل کا سامان کرنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ کتنی ہی صحیح مثالیں اور شفا بخش نصیحتیں ہیں۔ بشرطیکہ انہیں پاکیزہ دل اور سننے والے کان اور مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہوں۔
فَاتَّقُوا اللهَ تَقِیةَ مَنْ سَمِعَ فَخَشَعَ، وَ اقْتَرَفَ فَاعْتَرَفَ، وَ وَجِلَ فَعَمِلَ، وَ حاذَرَ فَبادَرَ، وَ اَیقَنَ فَاَحْسَنَ، وَ عُبِّرَ فَاعْتَبَرَ، وَ حُذِّرَ فَحَذِرَ، وَ زُجِرَ فَازْدَجَرَ، وَ اَجابَ فَاَنابَ، وَ رَجَعَ فَتابَ، وَ اقْتَدی فَاحْتَذی، وَ اُرِی فَرَأی. اللہ سے ڈرو، اس شخص کے مانند جس نے نصیحت کی باتوں کس سُنا تو جھک گیا۔ گناہ کیا تو اس کا اعتراف کیا ڈرا، تو عمل کیا۔ خوف کی اتو نیکیوں کی طرف بڑھا قیامت کا یقین کیا، تو اچھے اعمال بجا لایا۔ عبرتیں دلائی گئیں ، تو اس نے عبرت حاصل کی اور خوف دلایا گیا تو بُرائیوں سے رُک گیا۔ اور (اللہ کی پکار پر) لبیک کہی تو پھر اس کی طرف رخ موڑ لیا۔ اور اس کی طرف توبہ و انابت کے ساتھ متوجہ ہوا (اگلوں کی ) پوری پوری پیروی کی اور حق کے دکھائے جانے پر اسے دیکھ لیا۔
فَاَسْرَعَ طالِباً، وَ نَجا هارِباً، فَاَفَادَ ذَخیرَةً، وَ اَطابَ سَریرَةً، وَ عَمَّرَ مَعاداً، وَ اسْتَظْهَرَ زاداً لِیوْمِ رَحیلِهِ، وَ وَجْهِ سَبیلِهِ، وَ حالِ حاجَتِهِ، وَ مَوْطِنِ فاقَتِهِ، وَ قَدَّمَ اَمامَهُ لِدارِ مُقامِهِ. ایسا شخص طلبِ حق کے لئے سرگرمِ عمل رہا، اور دنیا کے بندھنوں سے ) چھوٹ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لئے ذخیرہ فراہم کیا،ا ور باطن کو پاک و صاف رکھا، اور آخرت کا گھر آباد کر لیا۔ سفرِ آخرت اور اس کی راہِ نوردی کے لئے اور احتیاج کے مواقع اور فقر فاقہ کے مقامات کے پیشِ نظر اس نے زاد اپنے ہمراہ بار کر لیا ہے۔
فَاتَّقُوا اللهَ عِبادَ اللهِ جِهَةَ ما خَلَقُكُمْ لَهُ، وَ احْذَرُوا مِنْهُ كُنْهَ ما حَذَّرَكُمْ مِنْ نَفْسِهِ، وَ اسْتَحِقُّوا مِنْهُ ما اَعَدَّ لَكُمْ بِالتَّنَجُّزِ لِصِدْقِ میعادِهِ، وَالْحَذَرِ مِنْ هَوْلِ مَعادِهِ. اللہ کے بندو! اپنے پیدا ہونے کی غرض و غایت کے پیش نظر اس سے ڈرتے رہو، اور جس حد تک اس نے تمہیں ڈرایا ہے۔ اس حد تک اس سے خوف کھاتے رہو، اور اس سے اس کے سچے وعدے کا ایفاء چاہتے ہوئے اور ہولِ قیامت سے ڈرتے ہوئے ان چیزوں کا استحقاق پیدا کرو، جو اس نے تمہارے لئے مہیا کر رکھی ہیں۔
* سید رضی نے اسی خطبے کا ایک اور حصہ یوں نقل کیا ہے:

جَعَلَ لَكُمْ اَسْماعاً لِتَعِی ما عَناها، وَ اَبْصاراً لِتَجْلُوَ عَنْ عَشاها، وَ اَشْلاءً جامِعَةً لِاَعْضائِها، مُلائِمَةً لِاَحْنائِها، فی تَرْكیبِ صُوَرِها، وَ مُدَدِ عُمُرِها، بِاَبْدان قائِمَة بِاَرْفاقِها، وَ قُلُوب رائِدَة لِاَرْزاقِها، فی مُجَلِّلاتِ نِعَمِهِ، وَ مُوجِباتِ مِنَنِهِ، وَ حَواجِزِ عافِیتِهِ.

اس نے تمہارے لئے کان بنائے تاکہ ضروری اور اہم چیزوں کو سن کر محفوط رکھیں ، اور اس نے تمہیں آنکھیں دی ہیں تاکہ وہ کوری و بے بصری سے نکل کر روشن و ضیاء بار ہوں اور جسم کے مختلف حصے جن میں سے ہر ایک میں بہت سے اعضاء ہیں جن کے پیچ و خم ان کی مناسبت سے ہیں اپنی صورتوں کی ترکیب اور عمر کی مدتوں کے تناسب کے ساتھ ساتھ ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنے ضروریات کو پرا کر رہے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ ہیں جو اپنی غذائے روحانی کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ علاوہ دیگر بڑی نعمتوں اور احسان مند بنانیوالی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے
وَ قَدَّرَ لَكُمْ اَعْماراً سَتَرَها عَنْكُمْ، وَ خَلَّفَ لَكُمْ عِبَراً مِنْ آثارِ الْماضینَ قَبْلَكُمْ: مِنْ مُسْتَمْتَعِ خَلاقِهِمْ، وَ مُسْتَفْسَحِ خِناقِهِمْ، اور اس نے تمہاری عمریں مقرر کر دی ہیں جنہیں تم سے مخفی رکھا ہے اور گذشتہ لوگوں کے حالات و واقعات سے تمہارے لئے عبرت اندوزی کے مواقع باقی رکھ چھوڑتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لذت اندوز تھے اور کھلے بندوں آزاد پھرتے تھے۔
اَرْهَقَتْهُمُ الْمَنایا دُونَ الْامالِ، وَ شَذَّبَهُمْ عَنْها تَخَرُّمُ الْاجالِ. لَمْ یمْهَدُوا فی سَلامَةِ الْابْدانِ، وَ لَمْ یعْتَبِرُوا فی اُنُفِ الْاوانِ. کس طرح امیدوں کے بر آنے سے پہلے موت نے انہیں جا لیا اور عمر کے ہاتھ نے انہیں ان امیدوں سے دُور کر دیا۔ اس وقت انہوں نے کچھ سامان نہ کیا کہ جب بدن تندرست تھے ، اور اس وقت عبرت و نصیحت حاصل نہ کی کہ جب جوانی کا دَور تھا۔
فَهَلْ ینْتَظِرُ اَهْلُ بَضاضَةِ الشَّبابِ اِلاّ حَوانِی الْهَرَمِ؟ وَ اَهْلُ غَضارَةِ الصِّحَّةِ اِلاَّ نَوازِلَ السَّقَمِ؟ وَ اَهْلُ مُدَّةِ الْبَقاءِ اِلاّ آوِنَةَ الْفَناءِ؟ کیا یہ بھر پور جوانی والے کمر جھکا دینے والے بڑھاپے کے منتظر ہیں اور صحت کی تراتازگی والے ٹوٹ پڑنے والی بیماریوں کے انتظار میں ہیں۔ اور یہ زندگی والے فنا کی گھڑیاں دیکھ رہے ہیں؟
مَعَ قُرْبِ الزِّیالِ، وَ اُزُوفِ الْانْتِقالِ، وَ عَلَزِ الْقَلَقِ، وَ اَلَمِ الْمَضَضِ، وَ غُصَصِ الْجَرَضِ، وَ تَلَفُّتِ الْاسْتِغاثَةِ بِنُصْرَةِ الْحَفَدَةِ وَالْاقْرِباءِ وَ الْاعِزَّةِ وَ الْقُرَناءِ. جب چل چلاؤ کا ہنگام نزدیک اور کوچ قریب ہو گا اور (بسترِ مرگ پر) قلق و اضطراب کی بے قراریاں اور سوز و تپش کی بے چینیاں ، اور لعابِ دہن کے پھندے ہونگے اور عزیز و اقارب اور اولاد احباب سے مدد کے لئے فریاد کرتے ہوئے ادھر ادھر کروٹیں بدلنے کا وقت آ گیا ہو گا،
فَهَلْ دَفَعَتِ الْاقارِبُ؟ اَوْ نَفَعَتِ النَّواحِبُ؟ وَ قَدْ غُودِرَ فی مَحَلَّةِ الْامْواتِ رَهیناً، وَ فی ضیقِ الْمَضْجَعِ وَحیداً، تو کیا قریبیوں نے موت کو روک لیا، یا رونے والیوں کے (رونے نے) کچھ فائدہ پہنچایا۔ اسے تو قبرستان میں قبر کے ایک تنگ گوشے کے اندر جکڑ باندھ کر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
قَدْ هَتَكَتِ الْهَوامُّ جِلْدَتَهُ، وَ اَبْلَتِ النَّواهِكُ جِدَّتَهُ، وَ عَفَتِ الْعَواصِفُ آثارَهُ، وَ مَحَا الْحَدَثانُ مَعالِمَهُ، وَ صارَتِ الْاجْسادُ شَحِبَةً بَعْدَ بَضَّتِها، وَ الْعِظامُ نَخِرَةً بَعْدَ قُوَّتِها، وَ الْارْواحُ مُرْتَهَنَةً بِثِقَلِ اَعْبائِها، مُوقِنَةً بِغَیبِ اَنْبائِها، لاتُسْتَزادُ مِنْ صالِحِ عَمَلِها، وَ لاتُسْتَعْتَبُ مِنْ سَییءِ زَلَلِها. سانپ اور بچھوؤں نے اس کی جلد کو چھلنی کر دیا ہے۔ اور (وہاں کی ) پامالیوں نے اس کی تروتازگی کو فنا کر دیا ہے۔ آندھیوں نے اس کے آثار مٹا ڈالے اور حادثات نے اس کے نشانات تک محو کر دیئے۔ ترو تازہ جسم لاغر و پژ مُردہ ہوگئے۔ ہڈیاں گل سڑ گئیں اور رُوحیں (گناہ کے ) بار گراں کے نیچے دبی پڑی ہیں اور غیب کی خیروں پر یقین کر چکی ہیں۔ لیکن ان کے لئے اب نہ اچھے عملوں اضافہ کی کوئی صورت، اور نہ بد اعمالیوں سے توبہ کی کچھ گنجائش ہے۔
اَوَلَسْتُمْ اَبْناءَ الْقَوْمِ وَ الْاباءَ؟ وَ اِخْوانَهُمْ وَ الْاقْرِباءَ؟ تَحْتَذُونَ اَمْثِلَتَهُمْ، وَ تَرْكَبُونَ قِدَّتَهُمْ، وَ تَطَؤُونَ جادَّتَهُمْ؟ کیا تم انہی مر چکنے والوں کے بیٹے، باپ ، بھائی اور قریبی نہیں ہو۔ آخر تمہیں بھی تو ہوُ بُہو انہی کے سے حالات کا سامنا کرنا اور انہی کی راہ پر چلنا ہے، اور انہی کی شاہراہ پر گزرنا ہے۔
فَالْقُلُوبُ قاسِیةٌ عَنْ حَظِّها، لاهِیةٌ عَنْ رُشْدِها، سالِكَةٌ فی غَیرِ مِضْمارِها، كَاَنَّ الْمَعْنِی سِواها، و كَاَنَّ الرُّشْدَ فی اِحْرازِ دُنْیاها. مگر دل اب بھی خطو سعادت سے بے رغبت ، اور ہدایت سے بے پروا ہیں اور غلط میدان میں جا رہے ہیں۔ گویا انکے علاوہ کوئی اور مراد و مخاطب ہے ، اور گویا ان کے لئے دنیا سمیٹ لینا ہی صحیح راستہ ہے۔
وَ اعْلَمُوا اَنَّ مَجازَكُمْ عَلَی الصِّراطِ، وَ مَزالِقِ دَحْضِهِ، وَ اَهاویلِ زَلَلِهِ، وَ تاراتِ اَهْوالِهِ. یاد رکھو کہ تمہیں گزرنا ہے صراط پر اور وہاں کی ایسی جگہوں پر جہاں قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ اور پَیر پھسل جاتے ہیں ، اور قدم قدم پر خوف و دہشت کے خطرات ہیں۔
فَاتَّقُوا اللهَ عِبادَاللهِ تَقِیةَ ذِی لُبٍّ شَغَلَ التَّفَكُّرُ قَلْبَهُ، وَ اَنْصَبَ الْخَوْفُ بَدَنَهُ، وَ اَسْهَرَ التَّهَجُّدُ غِرارَ نَوْمِهِ، وَ اَظْمَاَ الرَّجاءُ هَواجِرَ یوْمِهِ، وَ ظَلَفَ الزُّهْدُ شَهَواتِهِ، وَ اَرْجَفَ الذِّكْرُ بِلِسانِهِ، وَ قَدَّمَ الْخَوْفَ لِاَمانِهِ، اللہ سے اس طرح ڈرو، جس طرح وہ مردِ زیرک و دانا ڈرتا ہے کہ جس کے دل کو (عقبیٰ کی) سوچ بچارنے اور چیزوں سے غافل کر دیا ہو اور خوف نے اس کے بدن کو تعب و کلفت میں ڈال دیا ہو، اور نمازِ شب نے اس کی تھوڑی بہت نیند کو بھی بیداری سے بدل دیا ہو۔ اور امید ثواب میں اس کے دن کی تپتی ہوئی دو پہریں پیاس میں گزرتی ہوں اور زہدو درع نے اس کی خواہشوں کو روک دیا ہو۔ اور ذکرِ الٰہی سے اس کی زبان ہر وقت حرکت میں ہو۔ خطروں کے آنے سے پہلے اس نے خوف کھایا ہو
وَ تَنَكَّبَ الْمَخالِجَ عَنْ وَضَحِ السَّبیلِ، وَ سَلَكَ اَقْصَدَ الْمَسالِكِ اِلَی النَّهْجِ الْمَطْلُوبِ، وَ لَمْ تَفْتِلْهُ فاتِلاتُ الْغُرُورِ، وَ لَمْ تَعْمَ عَلَیهِ مُشْتَبِهاتُ الْامُورِ، ظافِراً بِفَرْحَةِ الْبُشْری، وَ راحَةِ النُّعْمی، فی اَنْعَمِ نَوْمِهِ، وَ آمَنِ یوْمِهِ، اور کٹی پھٹی راہوں سے بچتا ہوا سیدھی راہ پر ہو لیا ہو، اور راہِ مقصود پر آنے کے لئے سیدھا راستہ اختیار کیا ہو ، نہ خوش فریبیوں نے اس میں پیچ و تاب پیدا کیا ہو، اور نہ مشتبہ باتوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہو۔ بشارت کی خوشیوں اور نعمت کی آسائشوں کو پا کر میٹھی نیند سوتا ہے۔ اور امن چین سے دن گزارتا ہے۔
قَدْ عَبَرَ مَعْبَرَ الْعاجِلَةِ حَمیداً، وَ قَدَّمَ زادَ الْاجِلَةِ سَعیداً، وَ بادَرَ مِنْ وَجَل، وَ اَكْمَشَ فی مَهَل، وَ رَغِبَ فی طَلَب، وَ ذَهَبَ عَنْ هَرَب، وَ راقَبَ فی یوْمِهِ غَدَهُ، وَ نَظَرَ قَدَماً اَمامَهُ. وہ دنیا کی عبور گاہ سے قابلِ تعریف سیرت کے ساتھ گذر گیا، اور آخرت کی منزل پر سعادتوں کے ساتھ پہنچا (وہاں کے) خطروں کے پیش ِ نظر اس نے نیکیوں کی طرف ودمف بڑھایا اور اچھائیوں کے لئے اس وقفہٴ حیات میں تیز گام چلا۔ طلبِ آخرت میں دلجمعی و رغبت سے بڑھتا گیا اور برائیوں سے بھاگتا رہا اور آج کے دن کل کا خیال رکھا اور پہلے سے اپنے آگے کی ضرورتوں پر نظر رکھی۔
فَكَفی بِالْجَنَّةِ ثَواباً وَ نَوالاً، وَ كَفی بِالنّارِ عِقاباً وَ وَبالاً، وَ كَفی بِاللهِ مُنْتَقِماً وَ نَصیراً، وَ كَفی بِالْكِتابِ حَجیجاً وَ خَصیماً. بخشش و عطا کے لئے جنت اور عقاب و عذاب کے لئے دوزخ سے بڑھ کر کیا ہوگا، اور انتقام لینے اور مدد کر نے کے لئے اللہ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے اور سند و حجت بن کر اپنے خلاف سامنے آنے کے لئے قرآن سے بڑھ کر کیا ہے ؟
اُوصیكُمْ بِتَقْوَی اللهِ الَّذی اَعْذَرَ بِما اَنْذَرَ، وَ احْتَجَّ بِما نَهَجَ، وَ حَذَّرَكُمْ عَدُواًّ نَفَذَ فِی الصُّدُورِ خَفِیاً، وَ نَفَثَ فِی الْاذانِ نَجِیاً، فَاَضَلَّ وَ اَرْدی، وَ وَعَدَ فَمَنّی، وَ زَینَ سَیئاتِ الْجَرائِمِ، وَ هَوَّنَ مُوبِقاتِ الْعَظائِمِ، میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے ڈرانے والی چیزوں کے ذریعے عذر تراشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی، اور سیدھی راہ دکھا کر حجت تمام کر دی ہے اور تمہیں اس دشمن سے ہوشیار کر دیا ہے جو چپکے سے سینوں میں نفوذ کر جاتا ہے اور کانا پھوسی کرتے ہوئے کانوں میں پھونک دیتا ہے۔ چنانچہ وہ گمراہ کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے اور وعدے کر کے طفل تسلیوں سے ڈھارش بند ھائے رکھتا ہے۔ (پہلے تو) بڑے سے بڑے جوموں کو سنوار کر سامنے لاتا ہے اور بڑے بڑے مہلک گناہوں کی ہلکا اور سبک کر کے دکھاتا ہے۔
حَتّی اِذَا اسْتَدْرَجَ قَرینَتَهُ، وَ اسْتَغْلَقَ رَهینَتَهُ، اَنْكَرَ ما زَینَ، وَ اسْتَعْظَمَ ماهَوَّنَ، وَ حَذَّرَ ما اَمَّنَ. اور جب بہکائے ہوئے نفس کو گمراہی کے دھوئے پر لگا دیتا ہے اور اسے اپنے پھندوں میں اچھی طرح جکڑ لیتا ہے تو جسے سجایا تھا اس کو برا کہنے لگتا ہے ، اور جسے ہلکا اور سبک دکھایا تھا اس کی گراں باری و اہمیت بتاتا ہے۔ اور جس سے مطمئن اور بے خوف کیا تھا۔ اس سے ڈرانے لگتا ہے۔
* اسی خطبے کا ایک جُز یہ ہے کہ جس میں انسان کی پیدائش کا بیان ہے:

اَمْ هذَا الَّذی اَنْشَأَهُ فی ظُلُماتِ الْارْحامِ، وَ شُغُفِ الْاسْتارِ: نُطْفَةً دِهاقاً، وَ عَلَقَةً مُحاقاً، وَ جَنیناً وَ راضِعاً، وَ وَلیداً وَ یافِعاً.

یا پھر اسے دیکھو، جسے (اللہ نے) ماں کے پیٹ کی اندھیاریوں اور پردے کی اندرونی تہوں میں بنایا۔ جو ایک (جراثیم حیات) سے چھلکتا ہوا نطفہ اور بے شکل و صورت منجمد خون تھا۔ (پھر انسانی خط و خال کے سانچے میں ڈھل کر، جنین بنا اور (پھر) طفلِ شیر خوار اور (پھر حد رضاعت سے نکل کر ، طفل (نوخیز) اور (پھر) پورا پورا جو ان ہوا۔
ثُمَّ مَنَحَهُ قَلْباً حافِظاً، وَ لِساناً لافِظاً، وَ بَصَراً لاحِظاً، لِیفْهَمَ مُعْتَبِراً، وَ یقْصِرَ مُزْدَجِراً. اللہ نے اسے نگہداشت کرنے والا دل اور بولنے والی زبان اور دیکھنے والی آنکھیں دیں تاکہ عبرت حاصل کرتے ہوئے کچھ سمجھے بوُجھے اور نصیحت کا اثر لیتے ہوئے برائیوں سے باز رہے
حَتّی اِذا قامَ اعْتِدالُهُ، وَ اسْتَوی مِثالُهُ، نَفَرَ مُسْتَكْبِراً، وَخَبَطَ سادِراً، ماتِحاً فی غَرْبِ هَواهُ، كادِحاً سَعْیاً لِدُنْیاهُ، فی لَذّاتِ طَرَبِهِ، وَ بَدَواتِ اَرَبِهِ، لایحْتَسِبُ رَزِیةً، وَلایخْشَعُ تَقِیةً، مگر ہوا یہ کہ جب اس (کے اعضاء) میں توازن اور اعتدال پیدا ہو گیا اور اس کا قدو قامت اپنی بلندی پر پہنچ گیا تو غرور و سرمستی میں آخر (ہدایت سے ) بھڑک اٹھا، اور اندھا دھند بھٹکنے لگا۔ اس طرح کہ رندی و ہوس ناکی کے ڈول بھر بھر کے کھینچ رہا تھا اور نشاط و طرب کی کیفیتوں اور ہوس بازی کی تمناؤں کو پوُرا کرنے میں جان کھپائے ہوئے تھا۔ نہ کسی مصیبت کو خاطر میں لاتا تھا۔ نہ کسی ڈر اندیشے کا اثر لیتا تھا۔
فَماتَ فی فِتْنَتِهِ غَریراً، وَ عاشَ فی هَفْوَتِهِ یسیراً، لَمْ یفِدْ عِوَضاً، وَلَمْ یقْضِ مُفْتَرَضاً. آخر انہی شوریدگیوں میں غافل و مدہوش حالت میں مر گیا اور جو تھوڑی بہت زندگی تھی اسے بیہودگیوں میں گزار گیا۔ نہ ثواب کمایا نہ کوئی فریضہ پورا کیا۔
دَهِمَتْهُ فَجَعاتُ الْمَنِیةِ فی غُبَّرِ جِماحِهِ، وَ سَنَنِ مِراحِهِ، فَظَلَّ سادِراً، وَ باتَ ساهِراً، فی غَمَراتِ الْالامِ، وَ طَوارِقِ الْاوْجاعِ وَالْاسْقامِ، بَینَ اَخ شَقیق، وَ والِد شَفیق، وَ داعِیة بِالْوَیلِ جَزَعاً، وَلادِمَة لِلصَّدْرِ قَلَقاً، ابھی وہ باقی ماندہ سر کشیوں کی راہ ہی میں تھا کہ موت لانے والی بیماریاں اس پو ٹوٹ پڑیں کہ وہ بھونچکا سا ہو کر رہ گیا اور اس نے رات اندوہ و مصیبت کی کلفتوں اور درود آلام کی سختیوں میں جاگتے ہوئے اس طرح گزار دی کہ وہ حقیقی بھائی ، مہربان باپ، بے چینی سے فریاد کرنیوالی ماں اور بیقراری سے سینہ کوٹنے والی بہن کے سامنے
وَالْمَرْءُ فی سَكْرَة مُلْهِیة، وَ غَمْرَة كارِثَة، وَ اَنَّة مُوجِعَة، وَ جَذْبَة مُكْرِبَة، وَ سَوْقَة مُتْعِبَة. سکرات کی مدہوشیوں اور سخت بدحواسیوں اور درد ناک چیخوں اور سانس اکھڑنے کی بے چینیوں اور نزع کی درماندہ کر دینے والی شدتوں میں پڑا ہوا تھا۔
ثُمَّ اُدْرِجَ فی اَكْفانِهِ مُبْلِساً، وَ جُذِبَ مُنْقاداً سَلِساً، پھر اسے کفن میں مامرادی کے عالم میں لپیٹ دیا گیا اور وہ بُڑے چپکے سے بلا مزاحمت دوسروں کی نقل و حرکت کا پابند رہا۔
ثُمَّ اُلْقِی عَلَی الْاعْوادِ، رَجیعَ وَصَب وَ نِضْوَ سَقَم، تَحْمِلُهُ حَفَدَةُ الْوِلْدانِ وَ حَشَدَةُ الْاخْوانِ، اِلی‌دار غُرْبَتِهِ، وَ مُنْقَطَعِ زَوْرَتِهِ. پھر اسے تختے پر ڈالا گیا۔ اس عالم میں کہ وہ محنت و مشقت سے خستہ حال ، اور بیماریوں کے سبب سے نڈھال ہو چکا تھا۔ اسے سہارا دینے والے نوجوانوں ، اور تعاون کرنے والے بھائیوں نے کاندھا دے کر پردیس کے گھر تک پہنچا دیا کہ جہاں میل ملاقات کے سارے سلسلے ٹوٹ جاتے ہیں
حَتّی اِذَا انْصَرَفَ الْمُشَیعُ، وَ رَجَعَ الْمُتَفَجِّعُ، اُقْعِدَ فی حُفْرَتِهِ نَجِیاً لِبَهْتَةِ السُّؤالِ وَ عَثْرَةِ الْامْتِحانِ. اور جب مشایعت کرنیوالے اور مصیبت زدہ (عزیز و اقارب) پلٹ آئے، تو اسے قبر کے گڑھے میں اٹھا کر بٹھا دیا گیا۔ فرشتوں کے سوال و جواب کے واسطے سوال کی دہشتوں اور امتحان کی ٹھوکریں کھانے کے لئے
وَ اَعْظَمُ ما هُنالِكَ بَلِیةً نُزُولُ الْحَمیمِ، وَ تَصْلِیةُ الْجَحیمِ، وَ فَوْراتُ السَّعیرِ، وَ سَوْراتُ الزَّفیرِ. اور پھر وہاں کی سب سے بڑی آفت کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی اور جہنم میں داخل ہونا ہے اور دوزخ کی لپٹیں ، اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کی تیزیاں ہیں
لا فَتْرَةٌ مُریحَةٌ، وَ لادَعَةٌ مُزیحَةٌ، وَ لاقُوَّةٌ حاجِزَةٌ، وَ لامَوْتَةٌ ناجِزَةٌ، وَ لاسِنَةٌ مُسْلِیةٌ، بَینَ اَطْوارِ الْمَوْتاتِ، وَ عَذابِ السّاعاتِ. نہ اس میں راحت کے لئے کوئی وقفہ ہے اور نہ سکون و راحت کے لئے کچھ دیر کے لئے بچاؤ ہے۔ نہ روکنے والی کوئی قوت ہے ، اور نہ اب سکون دینے والی موت، نہ تکلیف کو بھلا دینے لے لئے نیند، بلکہ وہ ہر وقت قسم قسم کی موتوں اور گھڑی گھڑی کے (نت نئے) عذابوں میں ہو گا۔
اِنّا بِاللهِ عائِذُونَ. عِبادَ اللهِ! اَینَ الَّذینَ عُمِّرُوا فَنَعِمُوا، وَ عُلِّمُوا فَفَهِمُوا، وَ اُنْظِرُوا فَلَهَوْا، وَ سُلِّمُوا فَنَسُوا؟ اُمْهِلُوا طَویلاً، وَ مُنِحُوا جَمیلاً، وَ حُذِّرُوا اَلیماً، وَ وُعِدُوا جَسیماً؟! ہم اللہ ہی سے پناہ کے خواستگا رہیں۔ اللہ کے بندو! وہ لوگ کہاں ہیں جنہیں عمریں دی گئیں تو وہ نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے رہے اور انہیں بتایا گیا تو وہ سب کچھ سمجھ گئے اور وقت دیا گیا تو انہوں نے وقت غفلت میں گزار دیا ، اور صحیح و سالم رکھے گئے تو اس نعمت کو بھول گئے۔ انہیں لمبی مہلت دی گئی تھی ، اچھی اچھی چیزیں بھی انہیں بخشی گئی تھیں ، درد ناک عذاب سے انہیں ڈرایا بھی گیا تھا اور بڑی چیزوں کے ان سے وعدے بھی کئے گئے تھے۔
اِحْذَرُوا الذُّنُوبَ الْمُوَرِّطَةَ، وَالْعُیوبَ الْمُسْخِطَةَ. اُولِی الْابْصارِ وَ الْاسْماعِ، وَالْعافِیةِ وَالْمَتاعِ! هَلْ مِنْ مَناصٍ اَوْخَلاصٍ؟ اَوْ مَعاذٍ اَوْ مَلاذٍ؟ اَوْ فِرار اَوْ مَحار اَمْ لا؟ (تو اب تم ہی) ورطئہ ہلاکت میں ڈالنے والے گناہوں اور اللہ کو ناراض کرنے والی خطاؤں سے بچتے رہو۔ اے چشم، گوش رکھنے والو! اے صحت و ثروت والو! کیا بچاؤ کی کوئی جگہ یا چھٹکارے کی کوئی گنجائش ہے ؟ یا کوئی پناہ گاہ یا ٹھکانا ہے ؟ بھاگ نکلنے کا موقع یا پھر دنیا میں پلٹ کر آنے کی کوئی صورت ہے؟
فَاَنّی تُؤْفَكُونَ؟ اَمْ اَینَ تُصْرَفُونَ؟ اَمْ بِماذا تَغْتَرُّونَ، وَ اِنَّما حَظُّ اَحَدِكُمْ مِنَ الْارْضِ ذاتِ الطُّولِ وَ الْعَرْضِ قیدُ قَدِّهِ، مُتَعَفِّراً عَلی خَدِّهِ. اگر نہیں ہے تو پھر کہاں بھٹک رہے ہو، اور کدھر کا رخ کئے ہوئے ہو، یا کن چیزوں کے قریب میں آگئے ہو؟ حالانکہ اس لمبی چوڑی زمین میں سے تم میں سے ہر ایک کا حصہ اپنے قد بھر کا ٹکڑا ہی تو ہے کہ جس میں وہ مٹی سے اٹا ہوا رخسار کے بَل پڑا ہوگا۔
اَلْانَ عِبادَ اللهِ، وَ الْخِناقُ مُهْمَلٌ، وَالرُّوحُ مُرْسَلٌ فی فَینَةِ الْارْشادِ، وَ راحَةِ الْاجْسادِ، وَ باحَةِ الْاحْتِشادِ، وَ مَهَلِ الْبَقِیةِ، وَ اُنُفِ الْمَشِیةِ، وَ اِنْظارِ التَّوْبَةِ، وَ انْفِساحِ الْحَوْبَةِ، قَبْلَ الضَّنْكِ وَالْمَضیقِ، وَ الرَّوْعِ وَ الزُّهُوقِ، وَ قَبْلَ قُدُومِ الْغائِبِ الْمُنْتَظَرِ، وَ اَخْذَةِ الْعَزیزِ الْمُقْتَدِرِ. یہ ابھی غنیمت ہے خدا کے بندو ، جبکہ گردن میں پھندا نہیں پڑا ہوا ہے اور روح بھی آزاد ہے۔ ہدایت حاصل کرنے کی فرصت اور جسموں کی راحت اور مجلسوں کے اجتماع اور زندگی کی بقایا مہلت ، اور از سرِنو اختیار سے کام لینے کے مواقع، اور توبہ کی گنجائش ، اور اطمینان کی حالت میں قبل اس کے کہ تنگی و ضیق میں پڑجائے اور خوف و اضمحلال اس پر چھا جائے اور قبل اس کے کہ موت آ جائے ، اور قادر و غالب کی گرفت اسے جکڑ لے۔
* سید رضی فرماتے ہیں کہ وارد ہوا ہے کہ جب حضرت نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تو بدن لرزنے لگے، رونگٹے کھڑی ہو گئے۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، اور دل کانپ اتھے۔[17]


حوالہ جات

  1. حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ق، ج2، ص103.
  2. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج3، ص459.
  3. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج6، ص243.
  4. حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ق، ج2، ص104.
  5. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 83، ص114.
  6. امین ناجی، و زہرا امینی ارمکی، «بررسی مبانی انذار و تبشیر در خطبہ غراء»، ص81.
  7. اصفہانی، حلیۃ الاولیاء، دار ام القراء، ج1، ص77-78.
  8. حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ق، ج2، ص107.
  9. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ق، ص210.
  10. اصفہانی، حلیۃ الاولیاء، دار ام القراء، ج1، ص77-78.
  11. برای دیدن منابع دیگر این خطبہ، نگاہ کنید بہ: دشتی، اسناد و مدارک نہج البلاغہ، 1378ش، ص137-138.
  12. نگاہ کنید بہ: ابن عبد ربہ، العقد الفرید، 1407ق، ج4، ص163.
  13. حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ق، ج2، ص107.
  14. ہارونی، تیسیر المطالب، 1422ق، ص273.
  15. موسوی، تمام نہج البلاغہ، 1426ق، ج2، ص367.
  16. دشتی، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، 1375ش، ص509.
  17. انصاریان، ترجمه نهج البلاغه، 1386ش، ص156–168

مآخذ

  • ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1404ق.
  • ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العِقْدُ الفَرید، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1407ق.
  • اصفہانی، احمد بن عبداللہ، حِلیۃ الاولیاء و طبقات الأصفیاء، قاہرہ، دار ام القراء، بی تا.
  • امین ناجی، محمدہادی، و زہرا امینی ارمکی، «بررسی مبانی انذار و تبشیر در خطبہ غراء»، در مجلہ پژوہش ہای اخلاقی، شمارہ 52، تابستان 1402ش.
  • انصاریان، حسین، ترجمہ نہج البلاغہ، تہران، پیام آزادی، 1386ش.
  • اِبن أبی الحدید، عبدالحمید بن ہِبۃُ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد أبوالفضل إبراہیم، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1404ق.
  • حسینی خطیب، سید عبدالزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، بیروت، دار الزہراء، 1409ق.
  • دشتی، محمد، اسناد و مدارک نہج البلاغہ، قم، مؤسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیر المؤمنین(ع)، 1378ش.
  • دشتی، محمد، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم، موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمؤمنین(ع)، 1375ش.
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ش.
  • موسوی، سید صادق، تمام نہج البلاغہ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1426ق.
  • ہارونی، یحیی بن سعید، تیسیر المطالب فی أمالی ابی طالب، صنعا، مؤسسۃ الإمام زید بن علی الثقافیہ، 1422ق.

بیرونی روابط