نَادِ عَلی امام علیؑ کی توصیف میں وارد ہونے والی دو دعا جو نادِ عَلِیاً مَظهَرَ العَجائِب کی عبارت سے شروع ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دعا جنگ احد کے دن عالم غیب سے پیغمبر اسلامؐ کے کانوں تک پہنچی ہے۔

نَادِ عَلی
کوائف
موضوع:امام علیؑ کے فضائل اور اوصاف کا بیان
مأثور/غیرمأثور:غیرمأثور
شیعہ منابع:مصباح کفعمیزاد المعاد
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین

دعائے ناد علی صغیرہ چھوٹی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہر غم و اندوہ پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت اور امام علیؑ کی ولایت کے طفیل برطرف ہو گی۔ علامہ مجلسی نے اس دعا کو بحار الانوار میں نقل کیا ہے لیکن اس کے مآخذ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ شیعہ فقیہ آیت اللہ دوزدوزانی کہتے ہیں کہ دعائے ناد علی صغیرہ کا کوئی معتبر مآخذ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس دعا کی شرح میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔

دعائے ناد علی کبیر کا حجم دعائے ناد علی صغیر کے کئی برابر ہے اور اس کے مضامین بھی ناد علی صغیرہ کی طرح ہیں۔

ناد علی صغیر

دسویں صدی ہجری کے شافعی عالم میبدی یزدی کی کتاب "امام علی سے منسوب دیوان شعر کی شرح" کے مطابق پیغمبر اسلامؐ نے جنگ احد کے دن عالم غیب سنا: "نَادِ عَلِيّاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ، تَجِدْهُ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ، كُلُّ هَمٍّ وَ غَمٍّ سَيَنْجَلِي، بِوَلايَتِكَ يَا عَلِيُّ[1] علیؑ جو کہ عجایب کا مظہر ہے اسے پکارو، انہیں مصیبت میں اپنا مددگار پاؤگے؛ ہر غم و اندوہ برطرف ہو گا، اے محمد تیری نبوت اور علی کی ولایت کے طفیل![2]

علامہ مجلسی بحارالأنوار اور میرزا محمد تقی سپہر ناسخ التواریخ میں میبدی یزدی کی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔[3] بحارالأنوار میں اس دعا کے مآخذ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔[4] آیت آللہ دوزدوزانی اگرچہ اس دعا کو ثواب کی نیت سے پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ اس کا کوئی معتبر مآخذ نہیں ہے۔[5]

نویں صدی ہجری کے شعہ عالم تقی‌الدین ابراہیم کفعمی اپنی کتاب مصباح میں لکھتے ہیں کہ دعائے ناد علی کے مذکورہ فقرے کو شہید اول کے قلم سے دیکھا ہے جسے فرار کرنے والے غلام کو پیدا کرنے کے لئے پڑا جاتا تھا اور یہ عمل مکرر واقع ہوتا تھا۔[6] محدث نوری اپنی کتاب مستدرک الوسائل میں اسی مطلب کو مصباح سے نقل کرتے ہیں۔[7]

ناد علی صغیر کے آخری جملے میں کچھ رد و بدل کے ساتھ ہندوستان میں مسجد جامع بیجاپور کے کتبوں پر لکھا ہوا ہے۔[8] آخری جملے میں جو فرق ہے وہ یہ ہے: "بِنُبُوَّتِکَ یا مُحَمَّد بِوِلایَتِکَ یا عَلیّ"۔[9] اسی طرح یہ ذکر ہندوستا میں قلعہ احمدنگر میں ایک شیر کی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔[10]

ناد علی کبیر

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد میں دعائے ناد علی کبیرہ کا متن نقل کیا ہے:[11]

متن ترجمه
بِسمِ اللهِ الرَّحمن الرَّحیم

نَادِ عَلِيّاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ تَجِدْهُ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ

لِي إِلَى اللهِ حَاجَتِي وَ عَلَيْهِ مُعَوَّلِي كُلَّمَا رَمْيَتُهُ وَ رَمَيْتَ مُقْتَضَی كُلِّ هَمٍّ وَ غَمٍّ

سَيَنْجَلِي بِعَظَمَتِكَ يَا اللهُ وَ بِنُبُوَّتِكَ يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ بِوَلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ

أَدْرِكْنِي بِحَقِّ لُطْفِكَ الْخَفِيِّ، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ أَنَا مِنْ شَرِّ أَعْدَائِكَ بَرِي‌ءٌ بَرِي‌ءٌ بَرِي‌ءٌ

اللهُ صَمَدِي بِحَقِّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ يَا أَبَا الْغَيْثِ أَغِثْنِي يَا عَلِيُّ أَدْرِكْنِي

يَا قَاهِرَ الْعَدُوِّ وَ يَا وَالِيَ الْوَلِيِّ يَا مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ يَا مُرْتَضَى عَلِيُّ

يَا قَهَّارُ تَقَهَّرْتَ بِالْقَهْرِ وَ الْقَهْرُ فِي قَهْرِ قَهْرِكَ يَا قَهَّارُ يَا ذَا الْبَطْشِ الشَّدِيدِ

أَنْتَ الْقَاهِرُ الْجَبَّارُ الْمُهْلِكُ الْمُنْتَقِمُ الْقَوِيُّ وَ الَّذِي لَا يُطَاقُ انْتِقَامُهُ

وَ أُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللهِ إِنَّ اللهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ وَ إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ

حَسْبِيَ اللهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ نِعْمَ الْمَوْلَى وَ نِعْمَ النَّصِيرُ يَا غِيَاثَ الْمُسْتَغِيثِينَ أَغِثْنِي يَا رَاحِمَ الْمَسَاكِينِ ارْحَمْنِي

يَا عَلِيُّ وَ أَدْرِكْنِي يَا عَلِيُّ أَدْرِكْنِي يَا عَلِيُّ أَدْرِكْنِي بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.[12]


شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے

علی کو پکارو جو کہ کمالات کا مظہر اور عجیب صفات کا مالک ہے تاکہ وہ آپ کی مدد کریں تمام مشکلات اور سختیوں میں

یہ بندہ ناچیز ہمیشہ خدا کا محتاج ہے اور میں تمام امور میں خدا پر توکل کرتا ہوں۔ جب بھی میں کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہوں تو اسی کا ارادہ کرتا ہوں

اے خدا تیری بزرگی کی قسم اور اے محمد تیری نبوت کی قسم اور اے علی تیری ولایت و امامت کی قسم میری وہ پریشانی برطرف ہوگی۔

میری مدد کر تیری پوشیدہ لطف و محبت کا واسطہ، خدا کسی تعریف کا محتاج نہیں میں تیرے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرتا ہوں

بے نیاز خدا مجھے بھی بے نیاز کرنے والا ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین‌ کا واسطہ اے مدد اور کمک کے باپ! یا علی میری مدد فرما اور میری فریاد کو پہنچ۔

اے دشمن کو شکست دینے والے اور دوستوں کے سرپرست، اے عجیب صفات کے مظہر اے مرتضی علی

اے غالب و فاتح اور سب پر برتری‌ پانے والے تیری قدرت سب پر غالب اور مسلط ہے۔ اے دشمن پر غالب اور فاتح!

تو قدرتمند اور شكست‏ ناپذير ہے جو اپنے ارادے کے ذریعے ہر امر کی اصلاح کرتے ہو، تو ہلاک‌ کرنے والا اور انتقام‌ لینے والا ہے، تو وہ قدرت ہے جس کا انتقام قابل تحمل نہیں ہے۔

میں اپنے تمام امور کو خدا پر چھوڑتا ہوں۔ بتحقیق خدا بصیر، بینا اور اپنے بندوں پر آگاہ ہے اور قول خداوندی ہے کہ قرآن میں فرماتا ہے تمہارا خدا ایک ہی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

میرے لئے خدا کافی ہے جو بہترين حامى اور مددگار ہے۔ اے فریاد کرنے والوں کی فریاد پر پہنچنے والے! میری فریاد پر پہنچ۔ اے فقراء اور بے نواؤں پر رحم کرنے والے! میری مدد کر۔

یا علی میری مدد فرما! یا علی میری مدد فرما! یا علی میری مدد فرما! تیری رحمت کا امید ہوں اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

مربوطہ کتب

دعائے ناد علی اور اس کے خواص کے بارے میں مختل کتابیں لکھی گئی ہیں؛ من جملہ ان میں فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب "شرح ناد علیاً مظہر العجائب..." ہے جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبریری میں موجود ہے۔[13]

اسی طرح علی صدرایی خویی "فہرستگان نسخہ ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ" نامی کتاب میں کتاب "ناد علیاً مظہر العجائب" کی شروحات کی طرف اشارہ کیا ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. میبدی یزدی، شرح دیوان منسوب بہ امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب، بہ کوشش اکرم شفائی، ص۴۳۴۔
  2. محدثی، فرہنگ غدیر، ۱۳۸۶ش، ص۵۶۳۔
  3. علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۰، ص۷۳؛ سپہر، ناسخ التواریخ، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۹۰۲۔
  4. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۰، ص۷۳۔
  5. دوزدوزانی تبریزی، استفتائات حضرت آیت‌اللہ العظمی دوزدوزانی تبریزی، ۱۳۷۹ش، ص۲۲۔
  6. کفعمی، مصباح، نشر دار الرضی، ص۱۸۳۔
  7. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۱۵، ص۴۸۳۔
  8. طریحی، تاریخ الشیعۃ فی الہند، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۱۱۷۔
  9. طریحی، تاریخ الشیعۃ فی الہند، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۱۱۷۔
  10. طریحی، تاریخ الشیعۃ فی الہند، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۸۱۔
  11. مجلسی، زاد المعاد، مٰؤسسۃ الاعلمی، ج۱، ص۴۲۹-۴۳۰۔
  12. مجلسی، زاد المعاد، مٰؤسسۃ الاعلمی، ج۱، ص۴۲۹-۴۳۰۔
  13. رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و اہل البیت، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۶۶۔
  14. ملاحظہ کریں: صدرایی خویی، فہرستگان نسخہ ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، ۱۳۸۲ش، ج۱۰، ص۴۳۷ و ۴۵۹ و ۵۳۷۔

مآخذ

  • دوزدوزانی تبریزی، ید اللہ، استفتائات حضرت آیت ‌اللہ العظمی دوزدوزانی تبریزی، تہران، تابان، ۱۳۷۹ش۔
  • رفاعی، عبد الجبار، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۷۱ش۔
  • سپہر، محمد تقی، ناسخ التواریخ: زندگانی پیامبر، تہران، نشر اساطیر، ۱۳۸۵ش۔
  • صدرایی خویی، علی، فہرستگان نسخہ‌ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، قم، مؤسسہ علمی و فرہنگی دارالحدیث، ۱۳۸۲ش۔
  • طریحی، محمد سعید، تاریخ الشیعۃ فی الہند، ہلند، آکادیمیۃ الکوفۃ، ۱۴۲۶ق/۲۰۰۵م۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، جنۃ الامان الواقیہ (مصباح)، دار الرضی، قم، ۱۴۰۵ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، زاد المعاد، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بی‌تا۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ غدیر، قم، نشر معروف، ۱۳۸۶ش۔
  • میبدی یزدی، میر حسین بن معین‌الدین، شرح دیوان منسوب بہ امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب، بہ کوشش اکرم شفائی، بر اساس نسخہ سایت تصوف ایران۔
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، بیروت، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۰۸ق۔