حج

تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

حج اسلام کے عملی عبادات میں سے ایک واجب عبادت ہے جس کے معنی ذی الحجہ کے مہینے میں مکہ جا کر خانہ کعبہ کی زیارت اور اس سے متعلق مخصوص اعمال کو انجام دینا ہے۔ حج کا اجتماع مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے لوگ مکہ میں جمع ہو کر اکھٹے حج کے اعمال بجا لاتے ہیں۔

حج کے کئی اقسام ہیں جن میں سب سے رائج قسم حج تمتع ہے جو ان مسلمانوں پر واجب ہے جو مکہ سے باہر زندگی گزارتے ہیں۔ ہر مسلمان پر زندگی میں صرف ایک دفعہ حج واجب ہوتا ہے۔ عاقل، بالغ اور حج پر جانے کی استطاعت رکھنا حج کے واجب ہونے کی شرائط میں سے ہیں۔

حج کے قصد سے جب احرام باندھا جاتا ہے تو بعض امور اس شخص (محرِم) پر حرام اور بعض امور کی انجام دہی اس پر واجب ہو جاتی ہے جسے مناسک حج کہا جاتا ہے۔ احرام باندھنا، عرفات اور مشعر میں توقف کرنا، سرزمین منا جانا، رمی جمرات(شیطان کو کنکریاں مارنا)، سعی بین صفا و مروہ، طواف، طواف نساء، نماز طواف نساء، زیارت، نماز طواف اور قربانی وغیرہ حج کے مناسک میں سے ہیں۔

قرآن میں بہت ساری آیات میں حج کا تذکرہ آیا ہے اور ایک سورت کا نام بھی "سورہ حج" ہے۔ اسی طرح 9 ہزار سے بھی زیادہ احادیث حج کے احکام اور اعمال کے بارے میں نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض میں حج کو نماز کے بعد سب سے اہم عبادت قرار دی گئی ہے۔ حج میں عبادی پہلو کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی پہلو بھی ہیں۔ مسلمان مفکرین نے حج کے ظاہری اعمال کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت اور ماہیت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش ہیں جس کی اصل توحید اور یکتاپرستی ہے۔

ظہور اسلام سے پہلے بھی حج سے مربوط بعض مناصب من جملہ فقیر حاجیوں کی مہمانوازی، خانہ کعبہ کی کلیدداری اور حاجیوں کو پانی پلانا وغیره موجود تھے اسلام نے بھی ان میں سے بعض کی تائید کی ہیں۔ دور حاضر میں زمان و مکان کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید مسئولیتیں بھی وجود میں آئیں ہیں۔

حج تمتع میں زمان و مکان کی محدویتوں کے سبب حاجیوں کی تعداد بھی محدود ہوتی ہیں؛ اسی بنا پر ہر ملک میں مسلمانوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے باقاعدہ کوٹہ مختص ہوتا ہے۔ حج کے اخراجات مختلف ممالک کے حاجیوں کے لئے مختلف ہیں۔ رپورٹوں میں آیا ہے کہ سنہ 1437ھ کو آٹھ میلین سے بھی زیادہ حاجی حج کے لئے گئے تھے جس سے سعودی عرب کو تقریبا 12 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ حج سے متعلق دنیا کے مختلف ممالک میں کئی کتابیں نشر ہو چکی ہیں۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

عربی زبان میں "حَجّ" یا "حِجّ" کے معنی "دلیل و برہان لانے" اور "کسی اہم کام کی انجام دہی کا قصد کرنے" کے ہیں۔[1] اسلامی منابع میں حج سے مراد ایک مخصوص وقت میں مکہ مکرمہ جا کر بیت‌اللّہ‌الحرام کی زیارت اور اس سے متعلق بعض اعمال کی انجام دہی ہے۔ اسلام میں حج ایک فقہی اصطلاح کا نام ہے جو مکہ مکرمہ میں مخصوص ایام میں انجام دی جانے والے مخصوص اعمال کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔[2] حج کے موقع پر انجام دی جانے والے اعمال کو اصطلاح میں مَناسِک حج کہا جاتا ہے۔[3] مناسک (جمع مَنْسَک) سے مراد وہ مکان یا زمان ہے جس میں عبادت انجام دی جاتی ہے۔ اور یہاں پر مناسک حج سے مراد حج کے موقع پر انجام دینے والے تمام امور منجملہ احرام، عرفات اور مشعر میں وقوف کرنا، سرزمین منا جانا، رمی جمرات(شیطان کو کنکریاں مارنا)، سعی بین صفا و مروہ، طواف، طواف نساء، نماز طواف نساء، زیارت، نماز طواف اور قربانی وغیرہ شامل ہیں۔[4]

قرآن کی روشنی میں

  • قرآن میں حج سے متعلق متعدد آیات موجود ہیں۔ قرآن نے حج کو استطاعت رکھنے والے افراد کا وظیفہ قرار دیا ہے [5] اور اسے ایک عظیم اسلامی شعایر کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[6]
  • سورہ حج کی آیت نمبر 27 کے مطابق خدا کی طرف سے حج کے احکام لوگوں تک پہچانے کیلئے حضرت ابراہیم(ع) مامور ہوئے تھے۔ قرآن میں حج کو ایک ایسی عبادت میں سے شمار کیا ہے جس کے انجام دینے کا ایک معین اور مشخص وقت ہے۔ [7]
  • اسی طرح قرآن میں حج برگزار ہونے والے مہینوں کے معین اور مشخص ہونے پر بھی تصریح کی گئی ہے۔[8] اس طرح زمان جاہلیت میں حرام مہینوں کو تغییر دینے اور حج کے مناسک کو پہلے یا بعد میں انجام دینے کی رسم و رواج کو باطل قرار دیا گیا۔[9]
  • قرآن کی بعض آیتوں میں حج کے مناسک اور اس کے فقہی اور اخلاقی احکام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان مناسک اور احکام میں منجملہ: مجاوران حرم اور مکہ میں رہنے والوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں پر حج تمتع کا واجب ہونا،[10] مشعر الحرام اور عرفات میں خاص آداب کے تحت وقوف کرنا،[11] قربانی سے متعلق احکام[12] اور حج کے دوران شکار کرنے کا حکم، [13] وجوب طواف خانہ خدا[14] ، سعی میان صفا و مروہ،[15] قربانی سے پہلے تقصیر کا جائز نہ ہونا،[16] حج کے دوران کسب و تجارت کا جائز ہونا،[17] اور حج کے دوران بعض کاموں کا حرام اور ممنوع ہونا جیسے مجادلہ اور بیوی سے ہم بستر ہونا[18] اسی طرح زمانہ جاہلیت کے بعض رسوم و رواج کی مخالفت وغیرہ شامل ہیں۔[19]

احادیث کی روشنی میں

وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں ۹۱۵۰ سے زیادہ احادیث حج کی اہمیت اور اس کے احکام سے متعلق نقل ہوئی ہیں۔ یہ بات خود اسلام میں حج کی اہمیت اور اس کے احکام کی فراوانی اور پیچدگی کی دلیل ہے۔

  • احادیث میں حج کو روزہ اور جہاد سے افضل قرار دیا گیا ہے، بلکہ نماز کے علاوہ باقی تمام عبادتوں سے افضل شمار کیا گیا ہے۔[20] حج کے مناسک میں بہت سے اسرار اور فواید پوشیدہ ہیں۔ امام صادق(ع) سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے: "حاجی خدا کا مہمان ہے، اگر وہ کچھ طلب کرے تو اسے عطا کی جاتی ہے اور اگر گوئی دعا مانگے تو اللہ اسے قبول کرتا ہے اسی طرح اگر حاجی کسی کی شفاعت کرے تو خدا اسے قبول کرتا ہے اور اگر مانگنے سے باز رہے تو خود خدا اسے عطا فرماتا ہے۔"[21] ایک اور روایت میں پھر امام صادق (ع) سے منقول ہے: "جس وقت حاجی مِنا میں پہنچ جاتے ہیں تو ایک منادی خدا کی طرف سے ندا دیتا ہے: اگر میری رضایت کے خواہاں ہو تو میں راضی ہوں۔" [22]
  • احادیث میں حج کو دین اسلام کے ارکان [23] ، بہترین کام اور سب سے اہم واجبات میں سے قرار دیا ہے۔[24]
  • حضرت علیؑ نے حج کو ناتوان افراد کا جہاد قرار دیا ہے[25] اور اپنی وصیتوں میں حج کے فوائد میں سے سب سے کم فائدے کو گناہوں کی بخشش قرار دیا ہے۔[26]
  • احادیث میں واجب ہونے کے بعد حج بجا نہ لانا یا اسے مؤخر کرنے کی مذمت اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کے منفی اثرات کی طرف اشارہ کی گئی ہے۔[27]
  • احادیث میں حج کی اتنی اہمیت بیان ہوئی ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے اوپر یہ فرض کی گئی ہے کہ اگر لوگ حج کے فریضے پر عمل نہ کریں تو انہیں اس کام پر مجبور کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر ان کے سفر کے اخراجات بھی بیت المال سے ادا کرنے کی تائید کی گیئ ہے۔[28]

فلسفہ

  • متعدد احادیث میں حج کے واجب ہونے کی حکمت اور فلسفے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ امام علی(ع) نے مختلف موارد میں ان حکمتوں میں سے بعض کی طرف اشارہ فرمایا ہے منجملہ ان میں خدا کی عظمت اور بزرگی کے مقابلے میں مسلمانوں کا تواضع، تکبر سے دوری، سفر کی سختیوں کے ذریعے بندگان خدا کی آزمایشی، مسلمانوں کا اکھٹے ہونا اور ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہونا، خدا کے تقرب اور رحمت سے نزدیک ہونا وغیرہ ہیں۔[29]
  • حضرت فاطمہؑ حج کو دین اسلام کی پایداری کا عامل قرار دیتی ہیں۔[30]
  • امام صادقؑ مسلمانوں کا دنیا کے مختلف حصوں سے آکر مکہ میں جمع ہونا، ان کا ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت، مختلف تجارتی فوائد سے بہرہ مند ہونا، دینی احکام اور رسول اکرمؐ کی احادیث سے آگاہی کو منجملہ تشریع حج کی حکمتوں میں شمار فرماتے ہیں۔[31]
  • امام رضاؑ خدا کے مہمان خانے میں داخل ہونا، گناہوں سے توبہ اور استغفار، جسم کو نفسانی خواہشات سے دور رکھنا، سنگدلی اور ناامیدی سے رہائی، لوگوں کی حاجتوں کا پورا ہونا، لوگوں کا حج کی اقتصادی اور تجارتی فوائد سے بہرہ مند ہونا اور لوگوں کا دینی معارف سے آشنائی کو حج کے واجب ہونے کی علت اور فلسفہ میں شمار فرماتے ہیں۔[32]

سفر حج کے آداب

رسول اکرمؐ اور شیعہ ائمہ کی جانب سے سفر حج کے بہت سارے آداب نقل ہوئی ہیں:

  • گذشتہ گناہوں سے توبہ، آنے والی زندگی میں گناہ اور خدا کی نافرمانی سے پرہیز اور حلم و بردباری، بیوی بچوں سے نیک سلوک، سفر حج کے مخارج میں گشادہ دلی کا مظاہرہ، اور حج کے دوران خرید و فروش میں سودے بازی سے پرہیز،[33] پورے سفر میں بے ہودہ باتوں سے پرہیز اور مستحقین کو کھانا کھلانا [34] وغیرہ اس سفر کے آداب میں سے ہیں۔
  • احادیث میں حج کے ثواب اور خدا کی مغرفت کو اخلاص اور ہر قسم کی ریاکاری سے پرہیز کرنے کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔[35]

وجوب

حج اسلام کے ارکان میں سے ہے اور ہر مکلف پر مخصوص شرائط کے ساتھ زندگی میں ایک بار واجب ہو جاتا ہے۔ وہ حج جو کسی شخص پر بغیر کسی نذر یا قسم وغیرہ کے واجب ہو جاتا ہے دین کا رکن ہونے کی جہت سے "حَجّۃ الاسلام" کہا جاتا ہے۔[36]

حج کا وجوب فوری ہے؛ یعنی جس سال انسان مستطیع ہو جائے اسی سال موسم حج میں اسے بجا لانا ضروری ہے۔ اگر ممکن نہ ہو تو دوسرے سال بجا لائے۔ جس سال مستطیع ہوا ہے بغیر کسی عذر کے تأخیر کرنا جائز نہیں اور گناہ کبیرہ محسوب ہو جاتا ہے۔[37]

حج کبھی نذر، عہد، قسم، پہلے والے حج کے باطل ہونے کی وجہ سے یا کسی کی نیابت میں واجب ہو جاتا ہے۔ حج واجب ہونے کے مذکورہ اسباب کے بغیر بھی مستحب طور پر حج انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہر سال اسے انجام دینا یا اپنے اہل و عیال کو بھی حج پر لے جانا بھی مستحب ہے۔[38]

حج واجب ہونے کے بعد اگر اس کی انجام دہی کسی مقدمات پر موقوف ہو جیسے سفر اور اس کے اسباب وغیرہ کا مہیا کرنا واجب ہے اور انسان کو چاہئے کہ مناسب موقع پر ان مقدمات کو مہیا کرے تاکہ حج کی انجام دہی میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔[39]

عاقل ہونا، بالغ ہونا،[40] آزاد ہونا(غلام یا کنیز نہ ہو)[41] اور مستطیع ہونا،[42] حج کے واجب ہونے کی شرائط میں سے ہیں۔ اس بنا پر کسی دیوانہ، نابالغ، غلام یا کنیز اور غیر مستطیع پر حج واجب نہیں ہو جاتا ہے؛ بلکہ اگر مذکورہ افراد میں سے کوئی بھی انہی حالات میں حج ادا کرے تو یہ "حَجَّۃ الاسلام" شمار نہیں ہو گا۔[43]

احکام

  • جس شخص کے پاس حج کے اخراجات پورے ہونے کی حد تک مال موجود ہو لیکن اسی مقدار میں وہ مقروض بھی ہو تو اس شخص پر حج واجب نہیں ہے۔ [44] بعض مراجع فرماتے ہیں: اس صورت میں قرض واپس کرنے کی مدت معین ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں صورتوں میں حج اس کی گردن سے ساقط ہو جاتا ہے۔[45]
  • حج انجام دینے کی خاطر قرض لینا واجب نہیں ہے۔[46] اگر کسی کو حج کے اخراجات دئے جائے تو دوسرے شرائط کے مہیا ہونے کی صورت میں اس پر حج واجب ہو جاتا ہے؛[47] لیکن بعض مراجع کے مطابق اگر حج کے اخراجات اسے ہبہ کرے تو اسے قبول کرنا واجب نہیں ہے۔[48]
  • عورت پر حج واجب ہونے میں مَحرَم کا ساتھ ہونا شرط نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اس کا حج ڈر اور خوف کی وجہ سے "مَحرَم" کے ساتھ ہونے پر موقوف ہو۔[49]
  • جو شخص احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعد مر جائے تو گویا اس نے حج مکمل انجام دیا ہے۔[50]
  • حج واجب ہونے کے بعد اگر اسی سال اسے انجام نہ دیا جائے تو اسے "حج مُستقَر" کہا جاتا ہے اور اس شخص پر اسے انجام دینا واجب ہے اگرچہ اس وقت اس میں حج واجب ہونے کی شرائط موجود نہ بھی ہو۔ چنانچہ اس نے اپنی زندگی میں حج انجام نہ دیا تو واجب ہے اس کے مرنے کے بعد اس کی طرف سے حج بجا لایا جائے۔ ایسے حج کے اخراجات کو میت کے اصل مال سے ادا کیا جائے گا نہ ثلث مال سے۔[51]
  • مشہور قول کی بنا پر کسی شخص کی گردن پر حج صرف اس صورت میں مستقر ہو جاتا ہے کہ جس وقت اس کے اندر حج کے واجب ہونے کی شرائط پائے جائے اسی وقت حج انجام دینا اس کیلئے ممکن ہو یعنی جتنا وقت درکار ہے اتنا وقت موجود ہو۔[52]

صحیح ہونے کے شرائط

  • مسلمان اور مؤمن (اثنا عشری) ہونا،[53] حج کے اعمال خود شخص انجام دے، عورتوں کے مستحب حج حوالے سے شوہر کی اجازت، [54] حج کیلئے احرام، حرام مہینوں یعنی (شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ) میں باندھنا اس کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ہیں۔ جو شخص حج تمتّع بجا لانا چاہتا ہے اس پر واجب ہے کہ اس کا عمرہ حج کے مہینوں میں ہی انجام دیا جائے اور عمرہ تمتع کا حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں انجام دینا صحیح نہیں ہے؛ اس بنا پر عمرہ تمتع اور حج کا احرام دس ذی الحجہ کے بعد واقع ہو تو صحیح نہیں ہے۔ حتی ان افراد کے نزدیک بھی جو پورے ذی الحجہ کو حج کا مہینہ قرار دیتے ہیں صحیح نہیں ہے۔[55]
  • حج اگرچہ کافر پر واجب ہے لیکن کفر کی حالت میں اس کا حج صحیح نہیں ہے۔[56] غیر مؤمن کی عبادات کے باطل ہونے پر اجماع کا دعوا کیا گیا ہے۔؛[57] لیکن مشہور قول کی بنا پر اگر غیر مؤمن مستبصر (مذہب حقہ کو قبول کرنے کی صورت میں) ہو جائے تو گذشتہ زمانے میں انجام دینے والے حج کا اعادہ ضروری نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے کسی رکن میں خلل واقع ہوا ہو؛[58] اگرچہ اس کا اعادہ مستحب ہے۔[59]
  • جس شخص پر حج واجب ہے اگر قدرت رکھتا ہو تو خود اسے بجالانا ضروری ہے اور اس کی جانب سے کسی اور کا بجا لانا کافی نہیں ہے۔[60]
  • نذر اور اس جیسے دوسرے اسباب جیسے عہد اور قسم کے ذریعے بھی حج واجب ہو جاتا ہے۔ جس طرح حج واجب ہونے کیلئے عاقل، بالغ، آزاد اور عورتوں کیلئے شوہر کی اجازت شرط ہے اسی طرح نذر، عہد اور قسم کے صحیح ہونے کیلئے بھی این چیزوں کا ہونا ضروری ہے.[61]

حج نیابتی

میقات

مستحب حج کو کسی بھی شخص خواہ مردہ یا زندہ کی نیابت میں انجام دینا مستحب ہے۔ لیکن واجب حج میں بغیر عذر کے کسی زندہ شخص کی طرف سے حج انجام دینا صحیح نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو بذات خود حج انجام دینا ضروری ہے۔ البتہ اگر کسی شخص پر حج واجب ہو اور ممکن ہوتے ہوئے اسے انجام نہ دیا ہو اور اسی حالت میں مر جائے اس کے وارث پر واجب ہے اس کی طرف سے حج بجا لائے اسی طرح جس شخص کی گردن پر حج واجب ہے لیکن بیماری یا کسی اور غذر کی وجہ سے وہ حج پر نہ جا سکے تو واجب ہے کہ اس کی طرف سے کسی کو اجیر بنایا جائے اور وہ اس کی طرف سے حج بجا لایا جائے؛ بلکہ بعض مراجع کے مطابق استطاعت پیدا کرنے کی صورت میں اگرچہ حج اس کی گردن پر مستقر نہ بھی ہوا ہو اور کسی کو نائب بنانا ممکن ہو تو ایسا کرنا واجب ہے۔ کیا حج نیابتی صرف "حَجَّۃالاسلام" میں واجب ہے یا دوسرے واجب حج جو نذر یا عہد وغیرہ کی وجہ سے واجب ہوجاتے ہیں، میں بھی حج نیابتی واجب ہے؟ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[62]

اقسام

حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتّع، حج قِران اور حج اِفراد۔

  • حج تمتّع ان لوگوں کا وظیفہ ہے جو مکے سے بارہ یا سولہ یا اس سے زیادہ فرسخ مکے سے دور زندگی گزار رہے ہوں۔[63]
  • حج قران اور حج افراد اہل مکہ اور ان لوگوں کا وظیفہ ہے جن کا محل سکونت مکہ سے مذکورہ مسافت سے کم فاصلے پر واقع ہو۔[64]

مناسک

حج کے اعمال اور مناسک ترتیب زمانی کے اعتبار سے درج ذیل ہیں:

  1. احرام باندھنا
  2. عرفات میں وقوف
  3. مشعر الحرام (مُزدلفہ) میں وقوف
  4. ۱۱ اور ۱۲ ذی‌الحجہ کی رات منا میں گزارنا اور بعض لوگوں کیلئے تیرہویں رات بھی اور درج ذیل اعمال بجا لانا:
    1. رمی جمرات تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنا[65]
    2. حج تمتع میں منا میں قربانی کرنا واجب جبکہ حج قِران اور حج افراد میں مستحب ہے۔ [66]
    3. حلق یا تقصیر
  5. طواف زیارت
  6. نماز طواف زیارت
  7. سعی بین صفا و مروہ
  8. طواف نساء
  9. نماز طواف نساء
  • حج تمتع میں عمرہ تمتع کو حج سے پہلے انجام دینا ضروری ہے۔
  • اعمال مکہ (آخری پانج عمل) کو شرائط کے ساتھ دسویں دن حلق یا تقصیر کے بعد بہی انجام دے سکتے ہیں۔

مستحبات

مناسک حج سے مربوط مستحبات

مناسک حج میں سے ہر ایک کے آداب اور مستحبات ہیں جنہیں فقہی کتابوں میں ذکر کیا گیاہے۔ احرام کے مستحبات، مسجدالحرام میں وارد ہونے کے مستحبات، طواف کے مستحبات، نماز طواف کے مستحبات، سعی صفا و مروہ کے مستحبات، وقوف عرفات کے مستحبات، وقوف مشعر الحرام کے مستحبات، رمی جمرات کے مستحبات، قربانی کے مستحبات، سرزمین منا کے مستحبات اور خود شہر مکہ کے مستحبات وغیرہ۔

اتمام مناسک کے بعد کے مستحبات

  1. مِنا سے دوبارہ طواف اور وداع کیلئے مکہ واپس آنا؛[67]
  2. منا میں اقامت کے دوران مسجد خیف میں چھ رکعت نماز پڑھنا؛[68]
  3. 13 ذی الحجہ کے دن منا سے کوچ کرتے وقت وادی مُحَصَّب (ابطح) میں ٹہر کر پشت کے بل لیٹنا؛[69]
  4. بغیر جوتوں کے کعبہ کے اندر داخل ہونا، بطور خاص ان لوگوں کیلئے جو پہلی بار حج کر رہے ہوں۔ کعبہ میں داخل ہوتے وقت غسل اور دعا اور دو ستونوں کے درمیان سرخ پتھر پر دو رکعت نماز پڑھنا۔ اسی طرح چار کونوں میں دو دو رکعت نماز پڑھنا اسی طرح مأثور دعاؤں کے ذریعے دعا مانگنا، ارکان کعبہ بطور خاص رکن یمانی کا بوسہ لینا؛[70]
  5. اپنے رشتہ داروں اور ہم وطنوں کی طرف سے طواف کرنا[71] اس کے بعد طواف وداع اور کبعے کے چار ارکان کو لمس کرنا اور ہر حاجت کیلئے دعا کرنا، چشمہ زمزم سے پانی پینا اور خارج ہوتے وقت ماثور دعاؤں کا پڑھنا۔[72]
  6. مسجد الحرام کو چھوڑنے سے پہلے سجدہ میں جانا ، رو بہ قبلہ ہوکر دعا پڑھنا؛
  7. مسجد الحرام سے باب حنّاطین سے خارج ہونا؛[73]
  8. آئندہ سالوں میں حج کیلئے مکہ لوٹنے کا قصد رکھنا؛
  9. بعض کی مطابق محل ولادت رسول خدا(ص) و نیز منزل حضرت خدیجہ (مولد حضرت زہرا) علیہما السّلام اور قبرستان حُجُون میں ان کی قبر کی زیارت؛
  10. مسجد اَرْقَم جانا [74]
  11. غار حِرا اور غار ثور جانا۔[75]

مستحب حج

جو اشخاص حج واجب ہونے کی شرائط نہیں رکھتے یا وہ افراد جنہوں نے واجب حج انجام دیا ہو انکے لئے دوبارہ حج کرنا مستحب ہے۔ پے در پے پانچ سال حج کو ترک کرنا مکروہ ہے۔ دوسروں کے نام چاہے زندہ ہوں یا مردہ بطور خاص ائمہ معصومینؑ کی طرف سے حج ادا کرنا مستحب ہے۔[76]

قضا

جس شخص کا حج فوت ہو جائے اور اسے انجام نہ دے سکے تو وہ عمرہ مفردہ انجام دینے کے ذریعے احرام سے خارج ہو جائےگا۔ اس صورت میں کیا عمرہ کی نیت کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ بلکہ خود بخود انجام دینے والے اعمال عمرہ میں تبدیل ہو جائے گے، اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایسے شخص پر حج واجب ہونے کی صورت میں اگلے سال دوبارہ حج بجا لانا ضروری ہے لیکن مستحب ہونے کی صورت میں اگلے سال بجا لانا مستحب ہے۔[77]

جس شخص کا حج فوت ہو گیا ہو اسے ایام تشریق کے آخر تک منا میں رہنا مستحب ہے اور اعمال عمرہ مفردہ کو ان ایام کے بعد انجام دیا جائے. [78]

اہم وقعات

سنہ1987ء میں حاجیوں کا قتل عام

اس پوری تاریخ میں حاجیوں کو حج کے سفر کے دوران یا خود حرمین شریفین میں مختلف جانی اور مالی نقصانات سے دوچار ہوئے ہیں۔ منجملہ ان واقعات میں سے31 جولائی بمطابق با چھ ذی‌الحجّہ سنہ ۱۴۰۷ق کا واقعہ جس میں کئی سینکرڑوں ایرانی حجاج اور بعض دیگر ممالک کے حجاج حج کے دوران مشرکین سے برائت کا اظہار کرتے ہوئی سعودیہ عربیہ کی فوج کی بربریت کا نشانہ بنا اور شہید ہو گئے۔[79]

سنہ 2015ء میں منا کا سانحہ

سنہ 2015 کو حج تمتع کے دوران منا میں پیش آنے والے حادثے میں تقریبا 7477 حاجیوں کی شہادت واقع ہوئی۔

آیت اللہ سید علی خامنہ‌ای رہبر جمہوری اسلامی ایران نے منا کے حادثے کے رد عمل کے طور پر ایران میں تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے سعودیہ عربیہ کی نالایق حکومت کی سوء مدیریت کو اس حادثے کا اصلی عامل قرار دیا۔[80]

اس حادثے کی رد عمل کے طور پر اور ایران اور سعودیہ عربیہ کے درمیان عدم موافقت کی وجہ سے اس سال یعنی 2016 کو ایرانی حجاج کا حج پر جانا لغو ہو گیا۔[81]

حوالہ جات

  1. جوہری؛ ابن‌منظور؛ زبیدی، ذیل «حجج»
  2. ابن‌ادریس حلّی، ج۱، ص۵۰۶؛ محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج۱، ص۱۶۳؛ محقق کرکی، ۱۴۰۹۱۴۱۲، ج۲، ص۱۴۹۱۵۰
  3. ابوالصلاح حلبی، ص۱۹۵، ۱۹۸، ۲۱۷؛ طوسی، المبسوط، ج۱، ص۳۰۹؛ عینی، ج۹، ص۱۲۱
  4. جوہری؛ ابن‌منظور؛ طریحی، ذیل «نسک»
  5. آل‌عمران: ۹۷
  6. حج: ۳۲
  7. بقرہ: ۱۸۹
  8. بقرہ: ۱۹۷
  9. توبہ: ۳۷
  10. بقرہ: ۱۹۶
  11. بقرہ: ۱۹۸، ۱۹۹
  12. بقرہ: ۱۹۶؛ حج: ۲۸
  13. مائدہ:۹۴، ۹۵، ۹۶
  14. حج: ۲۹
  15. بقرہ: ۱۵۸
  16. بقرہ: ۱۹۶
  17. بقرہ: ۱۹۸
  18. بقرہ: ۱۹۷
  19. بقرہ: ۱۸۹
  20. الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۵۳ ۲۵۴
  21. الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۵۵
  22. الکافی (کلینی)، ج۴، ص۲۶۲
  23. ابن‌خزیمہ، ج۱، ص۱۵۹؛ ابن‌حجر عسقلانی، ج۳، ص۲۸۵ ۲۸۶؛ حرّعاملی، ج۱، ص۱۳۲۰، ۲۶۲۸
  24. بخاری، ج۲، ص۱۴۱؛ کلینی، ج۴، ص۲۵۲ ۲۶۴ ؛ ابن‌بابویہ، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۵۰
  25. نہج‌البلاغۃ، حکمت ۱۳۶
  26. کلینی، ج۷، ص۵۱۵۲؛ بخاری، ج۲، ص۲۰۹
  27. نہج‌البلاغۃ، نامہ ۴۷؛ ترمذی، ج۲، ص۱۵۳۱۵۴؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۲۹ - ۳۲
  28. کلینی، ج۴، ص۲۵۹ -۲۶۰، ۲۷۲؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۲۳ - ۲۴
  29. نہج‌البلاغۃ، خطبہ ۱، ۱۱۰، ۱۹۲، حکمت ۲۵۲
  30. مجلسی، بحارالانوار، ج۲۹، ص۲۲۳
  31. رجوع کریں:حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۴
  32. ابن‌بابویہ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۰
  33. ابن‌بابویہ، ۱۴۰۴، ج۳، ص۱۶۷، ۱۹۷؛ طوسی، تہذیب، ج۵، ص۴۴۵؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۴۹، ج۱۷، ص۴۵۵ -۴۵۶
  34. ابن‌ابی‌جمہور، ج۴، ص۳۳؛ قزوینی، ص۵۸۶ - ۵۸۸؛ شکوئی، ص۹۹
  35. ابن‌بابویہ، ۱۳۶۸ش، ص۵۰۴؛ ابن‌حجر عسقلانی، ج۳، ص۳۰۲؛ حرّعاملی، ج۱۱، ص۱۰۹ ۱۱۰، ۱۴۶
  36. جواہر الکلام، ج۱۷، ۲۲۰ ۲۲۳
  37. جواہر الکلام، ج۱۷، ۲۲۳ ۲۲۵
  38. جواہر الکلام، ج۱۷، ۲۱۶ و ۲۲۸
  39. مہذّب الاحکام، ج۱۲، ص۱۸
  40. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۲۹
  41. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۴۱
  42. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۴۸
  43. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۲۹، ۲۴۱، ۲۴۸ و ۲۷۵
  44. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۵۸ ۲۵۹
  45. منتہی المطلب، ج۱۰، ص۸۰
  46. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۶۰
  47. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۶۱
  48. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۶۸
  49. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۳۳۰ ۳۳۱
  50. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۹۵
  51. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۳۱۴
  52. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۹۸- ۳۰۱
  53. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۳۰۶
  54. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۳۳۲
  55. جواہرالکلام، ج۱۸، ص۱۲ ۱۳؛ الحدائق الناضرۃ ۱۴/ ۳۵۲ ۳۵۴
  56. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۳۰۱
  57. جواہرالکلام، ج۱۵، ص۶۳
  58. جواہرالکلام، ج۱۷، ص۳۰۴
  59. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۳۹۶
  60. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۲۷۵
  61. جواہر الکلام، ج۱۷، ص۳۳۶ ۳۳۸
  62. جواہرالکلام، ج۱۷، ص۲۸۱ ۲۸۶؛ العروۃ الوثقی، ج۴، ص۴۳۴ ۴۳۵
  63. جواہر الکلام، ج۱۸، ص۵ ۱۰
  64. جواہر الکلام، ج۱۸، ص۴۴ ۴۷
  65. جواہر الکلام، ج۱۸، ص۱۳۶
  66. جواہرالکلام، ج۱۹، ص۱۱۴ - ۱۱۵
  67. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۵۳
  68. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۵۴
  69. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۵۷
  70. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۰ ۶۵
  71. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۸
  72. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۵
  73. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۶ ۶۷
  74. خانہ ارقم بن ابی ارقم کہ رسول خدا(ص) بعثت کے آغاز میں وہاں مخفی ہوا کرتے تھے بعد میں اسی جگہ ایک مسجد تعمیر کی گئی جو "مسجد خیزران" کے نام سے معروف تھا۔ مسجد الحرام کی توسیع کے بعد یہ جگہ مسجد میں شامل ہوگئی ہے۔
  75. جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۹
  76. العروہ الوثقی، ج۴، ص۵۹۵۵۹۶
  77. جواہرالکلام، ج۱۹، ص۸۶ ۸۹
  78. جواہرالکلام، ج۱۹، ص۹۱
  79. http://www.irdc.ir/fa/calendar/136/default.aspx
  80. khamenei.ir
  81. سایت حج نیوز

مآخذ

  • نہج‌ البلاغۃ، چاپ صبحی صالح، قاہرہ ۱۴۱۱/ ۱۹۹۱.
  • ابن‌ ابی‌ جمہور، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الاحادیث الدینیۃ، چاپ مجتبی عراقی، قم ۱۴۰۳۱۴۰۵/ ۱۹۸۳۱۹۸۵.
  • ابن‌ ادریس حلّی، کتاب السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم ۱۴۱۰۱۴۱۱
  • ابن‌ بابویہ، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم ۱۳۶۸ش.
  • ابن‌ بابویہ، عیون اخبار الرضا، چاپ مہدی لاجوردی، قم ۱۳۶۳ش.
  • ابن‌ بابویہ، کتاب مَن لا یحضُرُہ الفقیہ، چاپ علی‌اکبر غفاری، قم ۱۴۰۴.
  • ابن‌ حجر عسقلانی، فتح‌الباری: شرح صحیح البخاری، بولاق ۱۳۰۰۱۳۰۱، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابن‌ خُزیمہ، صحیح ابن‌ خزیمۃ، چاپ محمد مصطفی اعظیمی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن منظور، لسان العرف، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲
  • ابوالصلاح حلبی، الکافی فی‌الفقہ، چاپ رضا استادی، اصفہان، ۱۳۶۲ش.
  • اسماعیل‌ بن حماد جوہری، الصحاح: تاج‌اللغۃ و صحاح‌العربیۃ، چاپ احمد عبد الغفور عطار، قاہرہ ۱۳۷۶، چاپ افست بیروت ۱۴۰۷.
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناظرہ فی احکام العترہ الطاہرہ، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۰۵ق.
  • جعفر بن حسن محقق حلّی، رسالۃ فی‌الحج، قم ۱۴۰۹۱۴۱۲
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشیعہ، قم ۱۴۰۹-۱۴۱۲ق
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام فی بیان الحلال و الحرام، مؤسسہ المنار، قم، ۱۴۱۳ق.
  • عبدالجبار بن زین‌ العابدین شکوئی، مصباح الحرمین، چاپ جواد طباطبایی، تہران ۱۳۸۴ش.
  • فخرالدین‌ بن محمد طریحی، مجمع‌البحرین، چاپ احمد حسینی، تہران ۱۳۶۲ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ق.
  • محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحارالانوار، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳.
  • محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، چاپ محمد ذہنی افندی، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • محمد بن حسن طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج۱، چاپ محمد تقی کشفی، تہران ۱۳۸۷
  • محمد بن حسن طوسی، تہذیب الاحکام، چاپ حسن موسوی خرسان، تہران ۱۳۶۴ش.
  • محمد بن عیسی ترمذی، سنن الترمذی، ج۲، چاپ عبدالرحمان محمد عثمان، بیروت ۱۴۰۳.
  • محمد بن محمد زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴
  • محمد حسن‌ بن محمد معصوم قزوینی، کشف الغطاء عن وجوہ مراسم الاہتداء: فی علم الاخلاق، چاپ محسن احمدی، قم، ۱۳۸۰ش.
  • محمود بن احمد عینی، عمدۃ القاری: شرح صحیح البخاری، بیروت، بی‌تا.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام،‌ دار احیاءالتراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروہ الوثقی فیما تعم بہ البلوی (محشی)، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۹ق.

بیرونی روابط