عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)

ویکی شیعہ سے
عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار
مشخصات
مصنفمیر حامد حسین ہندی
موضوععلم کلام (امامت)
زبانفارسی
مذہبشیعہ
طباعت اور اشاعت
ناشركتابخانہ عمومى امام على (ع)
مقام اشاعتاصفہان
سنہ اشاعت1366شمسی
اردو ترجمہ
نام کتابنور الانوار
مترجمسید شجاعت حسین گوپال پوری
مشخصات نشرمدرسہ امام علی بن ابی طالب قم


عَبَقاتُ الأنوار فی إمامَۃ الأئمۃِ الأطہار سید میر حامد حسین ہندی کی فارسی میں لکھی گئی ایک کلامی کتاب ہے جسے تُحْفَہ اِثنا عشریہ کے حصہ امامت کے جواب میں لکھا ہے۔ اس کتاب میں امامت امام علی اور دیگر ائمہ کے بارے میں پائی جانے والی آیات اور روایات کا امامت پر دلالت کو بیان کیا ہے جسے عبد العزیز دہلوی نے انکار کیا ہے۔ عبقات الانور مؤلف کی وفات کی وجہ سے نامکمل رہی اسی وجہ سے ان کے بیٹے اور پوتے نے اس پر کچھ حصہ اضافہ کیا ہے۔

اس کتاب میں اہل سنت کی احادیث، کلمات اور مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اہل تشیع علما اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔

عبقات کا کچھ حصہ ہندوستان میں اور کچھ ایران میں چھپ گیا۔ اس کتاب کے کچھ حصے عربی زبان میں بھی ترجمہ ہوئے ہیں۔

اہمیت

کتاب عبقات الانوار کو امامت کے باب میں لکھی جانے والی سب سے اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔[1] اس کتاب میں عقائد، تفسیر، حدیث، درایہ، تاریخ، رجال، ادبیات وغیرہ کے مباحث بیان ہوئے ہیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ بعض لوگوں نے اس کتاب کا مطالعہ کے بعد شیعہ مذہب انتخاب کیا ہے۔[3]

شیعہ علما میں سے مرزائے شیرازی (متوفی: 1312ھ)، زین‌العابدین مازندرانی (متوفی: 1309ھ)، محدث نوری (متوفی: 1320ھ) اور سید محمدحسین شہرستانی (متوفی: 1315ھ) وغیرہ نے اس کتاب پر تقریظ لکھا ہے۔[4] اسی طرح میرزا ابوالفضل تہرانی، سید محسن حکیم اور شیخ عباس قمی نے اسے بینظر اور بے مثال کتاب جانا ہے۔[5]

ترجمہ اردو از کتاب عبقات الانوار

مؤلف

میر حامد حسین ہندی (1246-1306ھ) تیرہویں صدی ہجری کے ہندوستان کے سادات اور شیعہ علماء میں سے تھے۔[6] میر حامد حسین نے تشیع کے دفاع اور فقہ میں بعض کتابیں لکھی۔[7] بعض نے آپ کی تالیفات کو 200 سے زیادہ جلدیں قرار دی ہیں۔[8] میر حامد نے عبقات الانوار سمیت بعض کتابوں کو فارسی میں تحریر کیا ہے۔[9]

تدوین کے وجوہات

کتاب عبقات الانوار کو تحفہ اثناعشریہ کے جواب اور امامت کے دفاع میں لکھی گئی ہے۔ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج15، ص214.</ref> کتاب تحفہ اثناعشریہ کے بارہ باب میں سے ساتواں باب امامت سے مختص ہے جس میں وہ آیات اور روایات جنہیں شیعہ امام علی کی امامت کے اثبات کے لئے استدلال کرتے تھے انہیں نقد کیا گیا ہے۔[10] اور عبقات الانور اسی باب کے جواب میں تدوین ہوئی ہے۔[11]

تحفہ اثنا عشریہ شیعہ عقائد کی نفی میں لکھی گئی تھی تاکہ لوگ شیعہ مذہب انتخاب کرنے سے گریز کریں۔[12] یہ کتاب ہندوستان کے اہل سنت عالم دین عبد العزیز دہلوی (متوفی:1239ھ) کی تالیف ہے۔[13] میر حامدحسین انہیں اپنی کتاب میں شاہ صاحب سے یاد کرتے ہیں۔[14] میر حامد حسین کے مطابق، اس کتاب میں شیعوں پر کچھ ایسی تہمتیں لگائی گئی ہیں جو حقیقت سے عاری ہیں۔[15] محمدرضا حکیمی کہتے ہیں کہ یہ کتاب ہندوستان کے مسلمانوں کے مابین اختلافات اور نفرتوں کا باعث بنی تھی۔[16]

روش تألیف

بعض محققین کا کہنا ہے کہ عبقات الانوار میں تحفہ اثنا عشریہ کے بیان شدہ شبہات کے جواب میں ایسے دلائل سے استفادہ کیا ہے مخالف بھی مان گئے ہیں۔[17] مؤلف نے شیعہ ائمہ کی امامت ثابت کرنے کے لئے اہل سنت مآخذ اور صحابہ کا اس روایت سے فہم نیز اہل سنت کے ہاں مورد قبول قواعد سے استفادہ کیا ہے۔[18] بسا اوقات دہلوی کی باتوں کو رد کرنے کے لئے ان کی ہی تحفہ یا دیگر کتابوں میں ذکر شدہ باتوں سے استفادہ کیا ہے۔[19] مؤلف نے ابتداء میں احادیث کی سند کو بیان کیا ہے اور اس کے اعتبار اور معتبر ہونے کو ثابت کرنے کے بعد امام علیؑ اور دیگر ائمہ کی امامت پر دلالت کرنے کو بیان کیا ہے۔[20] احادیث کے متن اور سند کو دو الگ حصوں میں بیان کیا ہے۔[21]

حقیقت میں عبقات الانور بہت عظیم ہے، وہ بحر بیکراں اور عمیق سمندر ہے۔ ایسی کتاب آفاق بشر اور ملتوں کے اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔۔۔۔ اس قدر عمیق، اس قدر معرفت اور تسلط، اسقدر وسیع اطلاعات، اس قدر مہارت اور تبحر،۔۔۔ اسقدر متقن یہ سب عالَم فکر اور تالیف اور انسانی طاقت کے سامنے معجزہ ہے۔

حکیمی، میرحامدحسین، 1386شمسی، ص128

کتاب کے مندرجات

عبقات الانوار دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہے؛ پہلا حصہ ان آیات کی دلالت کے بارے میں ہے جن سے شیعہ اپنے ائمہ کی امامت ثابت کرنے کے لئے استدلال کرتے ہیں۔ کتاب کا یہ حصہ نہیں چھپا ہے؛ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک نسخہ ہندوستان میں مؤلف اور رجب علی خان کے کتابخانوں میں موجود ہے۔[22]اس حصے میں آیہ ولایت، آیہ تطہیر، آیہ مودت، آیہ مباہلہ، آیہ ہادی اور آیہ السابقون بیان ہوئے ہیں۔[23]

دوسرے حصے میں ان روایات کو بیان کیا ہے جن سے شیعہ ائمہ کی امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کرتے ہیں اور جن کے بارے میں تحفہ اثنا عشریہ نے شبہات بیان کیا ہے ان کا جواب بیان کیا ہے۔[24] وہ روایات درج ذیل ہیں:

مؤلف کے بیٹے اور پوتے کے ہاتھوں کتاب کی تکمیل

نفحات‌ الازہار کی جلد

میر حامدحسین ہندی کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے وفات پاگئے۔[26] اسی وجہ سے ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سید ناصر نے کتاب کے بعض حصوں کو اضافہ کیا جو درج ذیل ہیں:[27]

اسی طرح مؤلف کے پوتے محمد سعید نے درج ذیل حصوں کو کتاب میں اضافہ کیا:

  • حدیث مناصبہ: اس روایت میں علیؑ کے دشمنوں کو کافر معرفی کیا گیا ہے۔
  • حدیث رایت: وہ حدیث جس میں امام علیؑ کو اللہ اور رسول اللہؐ کے محبوب قرار دیا گیا ہے۔[28]
عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ اثناعشریہ

سید علی میلانی اپنی کتاب نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار میں لکھتے ہیں کہ عبقات الانوار میں حدیث خیبر کی صرف سند کی تحقیق ہوئی ہے اسی طرح حدیث حق کو نہیں لکھا ہے۔[29]

طباعت

عبقات الانوار کی پہلی جلد سنہ 1293ھ کو لکھنؤ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔[30] تہران میں پہلی جلد سنہ 1373ھ کو چھپ گئی۔[31] حدیث ثقلین کا حصہ چھ جلدوں پر مشتمل سنہ 1380ھ کو اصفہان میں چھپ گیا۔[32] اس کتاب کا غدیر والا حصہ غلام رضا بروجردی کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ سنہ 1404ھ اور 1411ھ کو قم میں چھپ گیا۔[33]

ترجمہ و تلخیص

مونوگراف

سواطع الانوار فی تقریظات عبقات الانوار، بقلم عباس انصاری ہندی شیروانی۔ مؤلف نے اس کتاب میں عبقات الانور پر لکھی جانے والی 27 تقریظ کو جمع کیا ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص11.
  2. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص78.
  3. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، 1369شمسی، ج3، ص378.
  4. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص110-116.
  5. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص118-120.
  6. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج4، ص381.
  7. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج4، ص381.
  8. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، 1369شمسی، ج3، ص379.
  9. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج4، ص381.
  10. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص27.
  11. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص27.
  12. حسینی میلانی، قادتنا کیف نعرفہم، 1428، ج5، ص322.
  13. حسینی میلانی، قادتنا کیف نعرفہم، 1428، ج5، ص322.
  14. ہندی، عبقات الانوار، 1404ھ، ج1، ص54.
  15. ہندی، عبقات الانوار، 1404ھ، ج1، ص54.
  16. حکیمی، میرحامدحسین، 1386شمسی، ص117-118.
  17. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص30-31.
  18. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص37-56.
  19. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص57.
  20. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص33-37.
  21. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص121.
  22. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج15، ص214.
  23. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص27-28.
  24. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج15، ص214.
  25. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص28 و ص122.
  26. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص28 و ص122.
  27. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص28-29 و ص122.
  28. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص28-29 و ص122.
  29. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص29 و ص122-123.
  30. ہندی، عبقات الانوار، 1404ھ، ج1، ص59 و ص71.
  31. ہندی، عبقات الانوار، 1404ھ، ج1، ص60 و ص71.
  32. ہندی، عبقات الانوار، 1404ھ، ج1، ص60.
  33. صحتی سردرودی، «عبقات الانوار کاری کارستان»، ص102.
  34. صحتی سردرودی، «عبقات الانوار کاری کارستان»، ص102.
  35. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص125.
  36. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج5، ص12.
  37. صحتی سردرودی، «عبقات الانوار کاری کارستان»، ص102.
  38. صحتی سردرودی، «عبقات الانوار کاری کارستان»، ص102.
  39. حسینی میلانی، نفحات الازہار، 1416ھ، ج1، ص110-111.

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم، اسماعیلیان، 1408ہجری۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، تصحیح حسن امین، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ہجری۔
  • حسینی میلانی، علی، نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار، قم، الحقائق، چاپ اول، 1416ہجری۔
  • حسینی میلانی، محمدہادی، قادتنا کیف نعرفہم، تحقیق محمدعلی میلانی، قم، الحقائق، چاپ دوم، 1428ہجری۔
  • حکیمی، محمدرضا، میرحامدحسین، قم، دلیل ما، 1386ہجری شمسی۔
  • مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیۃ او اللقب، تہران، خیام، چاپ سوم، 1369ہجری شمسی۔
  • ہندی، میر حامدحسین، عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار، تصحیح غلامرضا بروجردی، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، 1404ہجری۔
  • صحتی سردرودی، محمد، «عبقات الانوار کاری کارستان»، آینہ پژوہش، شمارہ66، بہمن و اسفند 1379ہجری شمسی۔