کتاب علی

ویکی شیعہ سے

کِتابُ علی یا الجامِعَہ وہ کتاب ہے جسے حضرت محمدؐ کے املا سے حضرت علیؑ نے تحریر کی ہے۔ اس کتاب کو ودائع امامت کے سلسلے میں میراث رسول کی حیثیت حاصل ہے اور امامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ روائی منابع کے مطابق "کتاب علی" میں شریعت کے سارے احکام تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اخلاقیات، عقائد، قصص انبیاء اور باطنی روایات اس کتاب کے دوسرے بعض مطالب ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ اس کتاب کو اہلبیت رسولؐ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی مشاہدہ ہے۔ منجملہ محمد بن مسلم، زُراره بن اَعْین اور منصور عباسی نے اس کتاب کا مشاہدہ کیا ہے. مہدی مہریزی نے «الجامعہ» کے عنوان پر «کتاب علی» کے نام سے کتاب تدوین کی ہے۔

تعارف اور اہمیت

شیعہ روائی منابع کے مطابق کتاب «الجامعہ» ایسی کتاب ہے جسے رسول خداؐ کے املا سے حضرت علیؑ کے قلم سے لکھی گئی ہے۔[1] مختلف روایات میں اس کتاب کے دوسرے نام جیسے «صحیفہ»[2] اور «کتاب علی»[3] بھی ملتے ہیں۔ بعض محققین کا نظریہ ہے کہ ایک ہی کتاب کے یہ سارے نام ہیں کیونکہ ان روایات میں مذکورہ تمام عناوین کے لیے یکساں خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔[4] اس نظریے کے مقابلے میں، آقا بزرگ تہرانی (1915-2011ھ) کا کہنا ہے کہ "کتابُ علی" اور الجامعہ دو الگ الگ کتابیں ہیں.[5]

الجامعہ، امام کی نشانی

بعض احادیث کے مطابق الجامعہ امامت کے سلسلے میں میراث انبیاء کا ایک اہم حصہ ہے جس کو امامت کی نشانی کی حیثیت حاصل ہے۔[6] آقا بزرگ تہرانی کے نظریے کے مطابق کتاب علیؑ ودائع امامت میں سے ہے جو اماموں کے پاس یکے بعد دیگری موجود تھی اور عصر حاضر میں یہ کتاب امام مہدی(عج) کے پاس ہے.[7]

کتاب کے مضامین

احادیث کے مطابق کتاب الجامعہ میں حلال و حرام سے متعلق سارے احکام الہی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ یہاں تک معمولی چوٹ کی دیت کا ذکر بھی ہے۔[8] بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں سارے شرعی احکام موجود ہونے کی وجہ سے شاید الجامعہ نام رکھا گیا ہے۔[9] پندرہویں صدی کے شیعہ محقق سید حسین مدرسی طباطبائی نے متعدد روایات کی رو سے کتاب علیؑ کو مندرجہ ذیل موضوعات کا حامل قرار دیا ہے: فروع دین کے احکام جن میں نماز، حج، جہاد، شادی بیاہ اور طلاق وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح شرعی فیصلہ جات، گواہی کے احکام، شرعی حدود، دیات، اخلاق، عقائد، فضائل، قصص انبیا اور روایات باطنی اس کتاب کے دوسرے مطالب ہیں.[10]

خصوصیات

بعض روایات میں کتاب علیؑ کا حجم اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس کی لمبائی 70 ہاتھ(تقریبا 35 میٹر)[11]اور چوڑائی اونٹ کی ران کی چوڑائی کے برابر ہے؛[12]کتاب کی یہ مقدار اس کے ضخیم ہونے کو بیان کرتی ہے۔ [13] لیکن بعض دیگر روایات کے مطابق کتاب علیؑ کا حجم اس حد تک کم ہے کہ تلوار کے غلاف میں بآسانی آسکتی ہے۔[14]بعض محققین نے کچھ روایات کی بنیاد پر کتاب کی اس مقدار کو پوری کتاب کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔[15] سید محمدکاظم طباطبایی (پیدائش: 1918ء) کا کہنا ہے کہ اس مقدار کی حامل کتاب، کتاب علیؑ کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ہے۔[16]

کتاب کے راویان

مجید معارف(پیدائش: 1954ء) کی تحقیق کے مطابق 40 سے زیادہ راویوں نے کتاب "الجامعہ" کے اصل وجود کی خبر دی ہے۔[17] بعض روایات کے مطابق ائمہؑ کے اصحاب جیسے محمد بن مسلم[18]، زُراره بن اَعْین[19]، ابوبصیر [20]، عبدالملک بن اعین[21] اور مُعَتَّب[22] نے اس کتاب کو مشاہدہ کرنے کی خبر دی ہے اسی طرح اماموں کے دشمنوں جیسے منصور عباسی نے بھی کتاب جامعہ کو دیکھنے کو دعوی کیا ہے.[23] سید محمدکاظم طباطبایی کی تحقیق کے مطابق وسایل الشیعہ میں کتاب علیؑ سے 80 روایتیں نقل کی گئی ہیں۔[24]

نظریہ اهل‌سنّت‌

بعض محققین کے مطابق، شیعہ روایات کی رو سے کتاب جفر اور کتاب الجامعہ میں موجود مطالب کے درمیان تفریق پائی جاتی ہے جبکہ اہل سنت کی روایات میں ایسی کوئی تفریق نہیں ملتی؛ ان کے ہاں دونوں کتابوں میں موجود مطالب یکساں ہیں۔ اہل سنت کے ہاں جہاں ان دونوں کتابوں کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے، وہاں ان دونوں کتابوں کے مطالب کو ایک ہی مانا گیا ہے۔[25] آٹھویں صدی کے حنفی عالم دین، سید میر شریف جرجانی کا خیال ہے کہ "الجامعہ" نامی کتاب کی تالیف میں علم حروف کو بروئے کار لاتے ہوئے رموزی انداز اپنایا گیا ہے۔[26] کتاب کشف الظنون کے مولف حاجی خلیفہ نے "جفر" کو علم به "لوحِ قضا" کے نام سے اور "الجامعہ" کو علم به "لوحِ قَدَر" کے نام تعارف کرایا ہے۔[27]

مونوگرافی

مہدی مہریزی نے "کتاب علیؑ" کے موضوع پر 220 صفحات کی ایک کتاب تالیف کی ہے جسے صحیفہ نامی ناشر نے سنہ2012ء میں شائع کی ہے۔[28]

مرتبط موضوعات

حوالہ جات

  1. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص142-146؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص239.
  2. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص153-155.
  3. اہوازی، الزہد، 1402ھ، ص39؛ اشعری، النوادر، 1408ھ، ص79؛ برقی، محاسن، 1371ھ، ج1، ص107 و 273.
  4. بہاردوست، «جفر و جامعہ»، ص476.
  5. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج2، ص305-306.
  6. شیخ صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص102-103؛ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص418-419.
  7. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج2، ص305.
  8. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص142-146؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص239.
  9. بہاردوست، «جفر و جامعہ»، ص477.
  10. مدرسی طباطبائی، میراث مکتوب شیعہ، 1386شمسی، ص32-36.
  11. کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص239؛ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص419.
  12. شیخ طوسی، التهذیب، 1407ھ، ج9، ص271.
  13. بهاردوست، «جفر و جامعه»، ص۴۷۷.
  14. برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص17-18؛ نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج8، ص56.
  15. بهاردوست، «جفر و جامعہ»، ص477.
  16. طباطبایی، تاریخ حدیث شیعہ، ج1، ص65-66.
  17. معارف، پژوہشی در تاریخ حدیث شیعہ، 1374شمسی، ص43-45.
  18. شیخ طوسی، التہذیب، 1407ھ، ج9، ص271.
  19. کلینی، کافی، 1407ھ، ج7، ص94.
  20. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص143.
  21. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص153.
  22. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص145.
  23. الجندی، الامام جعفر الصادق، 1397ھ، ص200.
  24. طباطبایی، تاریخ حدیث شیعہ، 1388شمسی، ج1، ص69.
  25. بہاردوست، «جفر و جامعہ»، ص477.
  26. جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج6، ص22.
  27. حاجی خلیفه، کشف الظنون، 1941ء، ج1، ستون 591.
  28. مہریزی، کتاب علی، 1390شمسی، 2012ء.


مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • اشعری، احمد بن محمد بن عیسی، النوادر، قم، مدرسه امام مهدی(عج) 1408ھ.
  • الجندی، عبدالحلیم، الامام جعفر الصادق، قاهره، المجلس الأعلی للشئون الاسلامیة، 1397ھ.
  • اهوازی، حسین بن سعید، الزهد، قم، المطبعة العلمیة، 1402ھ.
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، قم، دار الکتب العلمیه، 1371ھ.
  • بهاردوست، علیرضا، «جفر و جامعه»، در دانشنامه جهان اسلام،‌ تهران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1385شمسی.
  • جرجانی، میر سید شریف، شرح المواقف، قم، الشریف الرضی، 1325ھ.
  • حاجی خلیفه، مصطفی بن عبدالله، کشف الظنون عن أسامی الکتب و الفنون، بغداد، مکتبة المثنی، 1941ء.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1403ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التهذیب، تهران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ھ.
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی، 1404ھ.
  • طباطبایی، سید محمدکاظم، تاریخ حدیث شیعه، تهران، سمت، 1388شمسی.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ھ.
  • مدرسی طباطبایی، حسین، میراث مکتوب شیعه، قم، نشر مورخ، 1386شمسی.
  • معارف، مجید، پژوهشی در تاریخ حدیث شیعه، تهران، مؤسسه فرهنگی و هنری ضریح، 1374شمسی.
  • مهریزی، مهدی، کتاب علی، قم، صحیفه خرد، 1390شمسی.
  • نسائی، احمد بن شعیب، السنن الکبری، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1421ھ.