جفر

ویکی شیعہ سے

جَفْر حدیث کی ایک کتاب کا عنوان ہے جسے پیغمبر اکرمؐ کے املاء سے حضرت علیؑ نے بکری کی کھال پر تحریر کی ہے۔ کتاب جفر ودیعہ امامت اور سرچشمہ علم امام شمار ہوتی ہے۔ بعض احادیث کے مطابق یہ حدیثی مجموعہ صرف پیغمبر خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کے اختیار میں ہے کوئی اور اسے نہیں دیکھ سکتا۔ بعض محققین کے اعتقاد کے مطابق کتاب جفر کو رمزیہ انداز میں لکھا گیا ہے اور علم منایا و بلایا (لوگوں پر آیندہ آنے والی مشکلات و مصائب) اس میں ثبت و ضبط ہیں۔

احادیث کی کتابوں میں کتاب جفر کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ یہ کتاب کبھی بھی بوسیدہ نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کی لکھائی کی سیاہی مٹے گی۔ بعض محققین کچھ احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے مدعی ہیں کہ کتاب جفر فی زمانہ امام زمان(عج) کے پاس ہے۔ بعض روایات کے مطابق ائمہؑ کے پاس کتاب جفر کے علاوہ اور بھی کئی جفر تھے جو کہ کتاب کی صورت میں نہیں تھے بلکہ صرف معنوی اشیاء جیسے تورات، انجیل اور مصحف فاطمہ(س) رکھنے کے لیے چمڑے کی تھیلی کے طور پر موجود تھے۔ کتاب جفر کے موضوع پر کئی تصنیفات موجود ہیں جن میں سے ایک اکرم برکات عاملی(سنہ 1968ء بقید حیات تھے) کی تصنیف «حقیقة الجفر عند الشیعة» ہے۔

تعارف اور مقام و منزلت

شیعہ کتب میں منقول احادیث کے مطابق جفر سے مراد ایسی کتاب ہے جسے رسول خداؐ کے املاء سے حضرت علیؑ نے تحریر کی ہے۔ [1] جفر لغت میں بھیڑ یا بکری کے بچے(مِیمَنہ) کو کہتے ہیں،[2] اس لیے روائی اصطلاح میں اس خاص کتاب کو جفر کہا جاتا ہے جسے پیغمبر اکرمؐ کے املاء اور حضرت علیؑ کی کتابت سے بکری کی کھال پر تحریر کی گئی ہو۔[3] امام موسی کاظم علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق، رسول اکرمؐ کی زندگی کے آخری ایام میں، خدا نے آپ کو علی ابن ابی طالب کے ساتھ کوہ احد پر جانے اور وہاں موجود ایک بکری کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل کرنے کے بعد آپؑ اور حضرت علیؑ نے وہاں بکری کا ایک تیار شدہ چمڑا پایا۔ جبرئیل فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ سبز رنگ کے قلم اور سیاہی لے کر زمین پر نازل ہوئے، حضرت علیؑ نے اسی قلم اور سیاہی سے تیار شدہ چمڑے پر کتاب لکھی۔[4]

بعض روایات کے مطابق جفر ودایع امامت میں سے ہے اور جس کے پاس یہ کتاب ہوگی اس کے [[امام] ہونے کی علامت ہے۔ [5] کتاب الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ (کتاب) کے مصنف آقا بزرگ تہرانی کے مطابق کتاب جفر بھی دوسرے ودایع امامت کی مانند اماموں کے سینہ بہ سینہ چلتی آرہی ہے اور ابھی امام مہدی(عج) کے پاس ہے۔ [6] بعض مصنفین نے علم جفر کو امام علیؑ سے منسوب کیا ہے،[7] جبکہ بعض دیگر محققین نے اس بات کو دلیل سے دور بات قرار دی ہے۔[8]

دوسرے جفر

بعض روایات میں مذکورہ جفر کے علاوہ دوسری قسم کے جفر کا ذکر ملتا ہے۔ جیسے جفرِ ابیض (سفید جفر) اور جفرِ احمر (سرخ جفر) وغیرہ۔[9] لبنانی مصنف، اکرم برکات(پیدائش: 1968ء) کا عقیدہ ہے کہ دوسری قسم کے جفر خود کتاب جفر سے الگ تھے؛ درحقیقت وہ معنوی چیزوں کو محفوظ رکھنے والی چمڑے کی تھیلی کے طور پر مستعمل تھے۔[10] بعض روایات کے مطابق صحف ابراہیم، [11] توریت، انجیل، زبور اور مصحف فاطمہ [12] جیسی کتابیں سفید جفر میں اور پیغمبر خداؐ کی تلوار سرخ جفر میں رکھی جاتی تھی۔[13]

مندرجات اور خصوصیات

امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق (علم بلایا و منایا؛ آیندہ آنے والی مشکلات ومصائب) اور آغاز تخلیق کائنات سے لے کر قیامت برپا ہونے تک کے تمام واقعات و حوادث کا تذکرہ کتاب جفر میں موجود ہے.[14]امام جعفر صادقؑ کی ایک اور روایت کے مطابق امام زمان(عج) کے ظہور کی علامتیں، قیامت تک پیدا ہونے والے محبان اور دشمنان امام علیؑ کے حالات اور قرآن کی وہ تفسیر جسے صرف اللہ اور راسخون فی العلم اس کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں؛ یہ تمام چیزیں تفصیل کے ساتھ جفر میں بیان ہوئی ہیں۔[15] بعض محققین کا کہنا ہے کہ کتاب جفر کی رمزیہ انداز میں تحریر ہوئی ہے۔ [16] جفر، حجم کے لحاظ سے ایک بکری کی کھال کے برابر ہے جبکہ اس میں وسیع علم یعنی عالم کائنات کے تمام واقعات کی تفصیل موجود ہے؛ بعض محققین نے اس ظاہری تضاد کا راہ حل پیش کیا ہے۔[17] آٹھویں صدی ہجری کے حنفی عالم دین سید میر شریف جرجانی (740–816ھ) نے اس کا راہ حل یوں پیش کیا ہے کہ کتاب جفر کی علم حروف کے انداز میں تحریر ہوئی ہے۔ [18] لیکن اکرم برکات اس بات کے مدعی ہیں کہ اگرچہ کتاب جفر کی تحریر رمزیہ اندز میں ہوئی ہے لیکن جرجانی کی بات پر کوئی دلیل موجود نہیں کیونکہ ائمہؑ سے منقول احادیث میں اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں پائی جاتی ہے۔[19] روایات ائمہؑ کے مطابق جفر کی کتابت شدہ بکری کی کھال کا بوسیدہ نہ ہونا اور اس کی سیاہی کا نہ مٹنا جفر کی خصوصیات میں شامل ہے۔[20] امام موسی کاظمؑ کی روایت کے مطابق جفر کی ایک اور ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ صرف پیغمبر خداؐ اور آپؐ کے برحق جانشین ہی اسے دیکھ سکتے ہیں۔[21]

ائمہؑ کا کتاب جفر سے استناد کے چند نمونے

ائمہؑ سے منقول بعض روایات کے مطابق ائمہؑ، غیب سے متعلق معاملات کی خبر دینے کے لیے کتاب جفر کی طرف رجوع کرتے تھے؛ انہی روایات میں سے ایک وہ روایت ہے جس میں امام زمان(عج) کی ولادت، طول عمر اور زمان غیبت میں پیش آنے والے واقعات [22] نیز امام رضاؑ کی اپنی ولایتعہدی کے سرانجام تک نہ پہنچنے کی پیشنگوئی کے سلسلے میں کتاب جفر میں تفصیلات موجود ہیں۔[23]

اهل‌سنت کا نظریہ

اہل سنت کے اکثر علما نے کتاب جفر کو امام جعفر صادقؑ سے منسوب کیا ہے[24] آٹھویں صدی ہجری کے مشہور مورخ ابن خلدون کا اس بات پر عقیدہ ہے کہ کتاب جفر، زیدی مذہب سے تعلق رکھنے والے سرکردہ شخص ہارون بن سعید عجلی نے تحریر کی ہے جس میں امام جعفر صادقؑ سے آیندہ رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں روایات نقل کی گئی ہیں[25] سلفی مسلک کے رہنما ابن تیمیہ کتاب جفر کے وجود کا انکار کرتے ہوئے آیندہ کے واقعات سے متعلق شیعہ اماموں سے منسوب ہر قسم کی حدیث کے وجود کو رد کرتے ہیں۔[26] اہل سنت کے بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ چونکہ ابن تیمیہ علم غیب کو صرف اللہ اور بعض انبیاء کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں اس لیے کتاب جفر کے وجود کا انکار کرنا ان کا ایک طبیعی عمل ہے۔ [27]

مونوگراف

جفر کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • «حقیقة الجفر عند الشیعة»؛ یہ کتاب "اکرم برکات العاملی" کی لکھی ہوئی ہے ۔ 285 صفحات پر مشتمل یہ کتاب "دار الصفوۃ پبلشرلبنان" نے پہلی بار سنہ 1416ہجری میں شائع کی ہے۔[28]
  • «نگاهی نو به جفر علی(ع)» نامی کتاب "سیدحسین موسوی زنجانی" کی تصنیف ہے۔ 64 صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بارسنہ2006ء میں سلسبیل پبلشر نے شائع کی ہے۔[29]
  • «بحث حول الجفر و علم المعصوم(ع) من خلال الآثار» نامی کتاب "سید عمار صدرالدین موسوی عاملی" نے لکھی ہے اس کتاب کی پہلی اشاعت سنہ 1419ھ میں اور دوسری اشاعت سنہ 1429ھ میں دار المحجة البیضاء بیروت پبلشر سے ہوئی ہے۔[30]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص159 و 506-507؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص28.
  2. ابن‌منظور، لسان‌العرب، ذیل واژه جفر؛ فیومی، المصباح المنیر، ذیل واژه جفر.
  3. برکات، حقیقة الجفر عند الشیعة، 1430ھ، ص28-30.
  4. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص506-507.
  5. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص158؛ شیخ صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص102-103؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، 1413ھ، ج4، ص418-419.
  6. آقابزرگ تهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج5، ص119.
  7. کاشفی، حرز الامان، چاپ سنگی، ص8.
  8. بهاردوست، «جفر و جامعه»، ص478.
  9. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص153؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص240.
  10. برکات، حقیقة الجفر عند الشیعة، 1430ھ، ص43.
  11. کلینی، الکافی، 1404ھ، ج1، ص240.
  12. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص186.
  13. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص186؛ فتال نیشابوری، روضة الواعظین، 1375ہجری شمسی، ج1، ص211.
  14. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، ص353.
  15. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص507.
  16. برکات، حقیقة الجفر عند الشیعة، 1430ھ، ص69.
  17. برکات، حقیقة الجفر عند الشیعة، 1430ھ، ص69.
  18. جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج6، ص22.
  19. برکات، حقیقة الجفر عند الشیعة، 1430ھ، ص70.
  20. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص506-507.
  21. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص158-159؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص312.
  22. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص353.
  23. ابن‌شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ھ، ج4، ص365.
  24. بهاردوست، «جفر و جامعه»، ص477.
  25. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج1، ص415-416.
  26. ابن‌تیمیه، منهاج السنة النبویة، 1406ھ، ج8، ص136.
  27. ابوالعزائم، الجفر، 1432ھ، ص18.
  28. برکات، حقیقة الجفر عند الشیعة، 1416ھ.
  29. موسوی زنجانی، نگاهی نو به جفر علی(ع)، 1384ہجری شمسی.
  30. موسوی عاملی، بحث حول الجفر و علم المعصوم(ع)، 1429ھ.

مآخذ

  • آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، بیروت، دار الأضواء، 1403ھ.
  • ابوالعزائم، محمدماضی، الجفر، قاهره، دار الکتاب الصوفی، 1432ھ.
  • ابن‌تیمیه، احمد بن عبدالحلیم، منهاج السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة و القدریة، ریاض، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیة، 1406ھ.
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ.
  • ابن‌شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، قم، علامه، 1379ھ.
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار الصادر، 1414ھ.
  • برکات، اکرم، حقیقة الجفر عند الشیعة، بیروت، دار الصفوة، 1430ھ.
  • بهاردوست، علیرضا، «جفر و جامعه»، در دانشنامه جهان اسلام، تهران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1393ہجری شمسی.
  • جرجانی، علی بن محمد، شرح المواقف، قم، الشریف الرضی، 1325ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، تهران، اسلامیه، 1395ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1403ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ.
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، 1413ھ.
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل محمد(ص)، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی، 1404ھ.
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تهران، المطبعة العلمیة، 1380ق.
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضة الواعظین و بصیرة المتعظین، قم، انتشارات رضی، 1375ہجری شمسی.
  • فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، بیروت، المکتبة العصریة، 1428ھ.
  • کاشفی، علی بن حسین، حرز الأمان من فتن الزمان، چاپ سنگی،بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ھ.
  • موسوی زنجانی، سیدحسین، نگاهی نو به جفر علی(ع)، قم، سلسبیل، 1384ہجری شمسی.
  • موسوی عاملی، سید عمار صدرالدین، بحث حول الجفر و علم المعصوم(ع) من خلال الآثار، بیروت، دار المحجة البیضاء، 1429ھ.