مندرجات کا رخ کریں

توقیع اما الحوادث الواقعہ

ویکی شیعہ سے
توقیع اما الحوادث الواقعہ
توقیع امّا الحوادث الواقعہ
حدیث کے کوائف
دوسرے اسامیتوقیع اسحاق بن یعقوب
موضوعولایت فقیہ
صادر ازامام مہدیؑ
اصلی راویاسحاق بن یعقوب
شیعہ مآخذکمال‌ الدین شیخ صدوقالغیبہ شیخ طوسی
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہبحدیث ثقلینحدیث کساءحدیث قرب نوافلحدیث معراجحدیث ولایتحدیث وصایت


توقیع اَمّا الحَوَادِثُ الوَاقِعَہ، امام مہدیؑ کی ایک توقیع ہے جسے اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں جاری کیا گیا۔ اس توقیع کو ولایت فقیہ کے اثبات کے لیے ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اس توقیع میں امام مہدیؑ نے ائمہؑ کی طرف سے احادیث نقل کرنے والے راویوں کو اپنی حجت قرار دیا ہے اور شیعوں کو ہدایت دی ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ یا واقعہ پیش آئے تو وہ ان راویوں کی طرف رجوع کریں۔ یہاں احادیث کے راوی سے مراد وہ فقہاء ہیں جو قرآن و احادیث کی روشنی میں شرعی احکام کی استنباط اور معاشرے کی رہنمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگرچہ رجالی منابع میں اسحاق بن یعقوب کی صراحت کے ساتھ توثیق نہیں ہوئی، لیکن ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ان کے وثاقت کی دلیل بن سکتی ہیں مثلا یہ کہ اس توقیع کو کُلینی، شیخ صدوق اور شیخ طوسی جیسے محدثین نے بھی نقل کی ہیں اور امام مہدی کی طرف سے اسحاق کو خاص سلام بھی دیا گیا ہے، جو اس کی وثاقت کی دلیل ہیں۔

مقام اور اہمیت

توقیع اَمّا الحَوادِثُ الواقِعَہ کو ولایت فقیہ کے اثبات میں حدیثی دلائل میں شمار کیا جاتا ہے۔[1] یہ توقیع امام مہدی ؑ کی طرف سے اسحاق بن یعقوب کے خط کے جواب میں ارسال ہوئی تھی، جو نواب اربعہ میں سے محمد بن عثمان عمری کے ذریعے امام تک پہنچی تھی۔[2] اس توقیع کو شیعہ محدثین میں سے شیخ صدوق نے کتاب "کمال الدین"[3] میں اور شیخ طوسی نے "الغیبہ"[4] میں کلینی سے روایت کی ہے۔

متن ترجمه
أَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنْہُ أَرْشَدَكَ اللَّہُ وَ ثَبَّتَكَ .... وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَۃُ فَارْجِعُوا فِيہَا إِلَى رُوَاۃِ حَدِيثِنَا فَإِنَّہُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّۃُ اللَّہِ عَلَيْہِمْ .... وَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا إِسْحَاقَ بْنَ يَعْقُوبَ وَ عَلى‌ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدى‌.[5] "خدا تجھے ہدایت دے اور حق کے راستے پر ثابت قدم رکھے۔ یہ جو تم نے سوال کیا ہے... اور جو واقعات تمہارے سامنے آئیں اور تم ان کا حکم نہیں جانتے، تو ان میں ہمارے راویوں کی طرف رجوع کرو؛ کیونکہ وہ تم پر ہماری طرف سے حجت ہیں، اور میں ان پر خدا کی طرف سے حجت ہوں... اور سلام ہو تم پر، اے اسحاق بن یعقوب، اور ہر اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرتا ہے۔"


ولایت فقیہ کے اثبات کے لیے مستند دلائل

امام زمانہؑ کی غیبت کے دور میں ولایت فقیہ کی اثبات کے لیے اس توقیع سے استناد کیا جاتا ہے۔

"الحوادث الواقعہ" سے استدلال

شیخ انصاری کے مطابق "حوادث واقعہ" کا مطلب صرف فردی شرعی مسائل نہیں ہے، بلکہ وہ تمام واقعات اور معاملات ہیں جن میں عقل، عرف اور شرع کے مطابق کسی رہنما یا زعیم (رہبر) کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اس عمومیت کی دلیل یہ ہے کہ احکام شرعی کو سمجھنے کے لیے فقہاء کی طرف رجوع کرنا ایک بدیہی امر ہے، جس میں سوال و جواب کی ضرورت نہیں۔ اس بنا پر امام مہدیؑ نے اس توقیع کے ذریعے فقہاء کو حکومتی اور معاشرے کی انتظامی امور میں مرجع مقرر کیا ہے۔[6] مزید یہ کہ امام مہدی ؑ کا جواب مطلق ہے اور اس میں کوئی قید نہیں ہے، اس لیے اس حکم کو صرف ان مخصوص واقعات تک محدود کرنا جو راوی کے سوال میں ذکر ہوئے تھے، رد کیا گیا ہے۔[7]

"فَإِنَّہُمْ حُجَّتي عَلَيْكُمْ" پر استدلال

"فَإِنَّہُمْ حُجَّتي عَلَيْكُمْ" کی عبارت فقہاء کے انتظامی اور حکومتی کردار پر دلالت کرتی ہے۔[8] معصومینؑ کا حجت ہونا صرف احکام شرعی کے بیان تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان تمام شعبوں میں جہاں امام معصومؑ کو حجت الٰہی کے طور پر ولایت حاصل ہے، فقیہ بھی اسی طرح حجت اور ولی امر شمار ہوتے ہیں۔[9] جیسے ائمہؑ کی طرف رجوع کرنا معاشرتی اور حکومتی امور میں ضروری ہے، ویسے ہی فقہاء کی طرف رجوع کرنا بھی واجب ہے اور ان کے احکام سے انحراف کرنا الٰہی احتجاج کا سبب بنے گا۔[10]

"رُواۃِ حَدیثِنا" سے مراد

اس توقیع میں "رُواۃِ حَدیثِنا" سے مراد وہ فقہاء ہیں جو روایات سے شرعی احکام کو استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نہ کہ وہ راوی جو صرف روایات نقل کرتے ہیں۔[11]

اسحاق بن یعقوب کی وثاقت

اسحاق بن یعقوب کی رجالی منابع میں صراحت کے ساتھ توثیق نہیں ہوئی ہے۔[12] اسی وجہ سے بعض علماء نے اس توقیع کی صحت پر شک کیا ہے۔[13] سید کاظم حائری نے اپنی کتاب ولایۃ الامر فی عصر الغیبۃ میں غیبت صغریٰ کے دور کے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کلینی جیسے علماء کے توسط سے اس توقیع کو نقل کرنے کو اسحاق کی وثاقت کے لیے دلیل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حساس دور میں توقیع کا ملنا صرف کسی معتبر یا فاسق شخص سے ہی ممکن تھا، اور چونکہ کلینی جیسے دقیق اور ہم عصر محدث نے اسے نقل کیا ہے اس لئے اسے راوی کی وثاقت پر حمل کیا جائے گا کیونکہ فسق اور جعل حدیث کوئی ایسا امر نہیں جو ان کی نظروں سے مخفی رہ سکے۔[14]

اسی طرح مذکورہ توقیع کے اندر موجود قرائن و شواہد جیسے توقیع کے مضمون کی نوعیت اور امام مہدیؑ کا اسحاق کے لیے دعائیں دینا جیسے کہ "أَرْشَدَكَ اللَّہُ وَ ثَبَّتَكَ" اور "وَ السَّلَامُ عَلَيْكَ..." اس بات کی علامت ہے کہ اسحاق کو امام مہدیؑ کی تائید حاصل تھی۔[15] اس کے علاوہ اسحاق کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے مضامین اور شیخ طوسی جیسے اشخاص کے ذریعے ان کا نقل ہونا بھی راوی کی علمی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔[16]

اس کے علاوہ، بعض فقہاء اور علم اصول کے ماہرین جیسے شیخ انصاری، محقق اصفہانی اور میرزائے نائینی نے اسحاق کی وثاقت کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے، اور آیت اللہ خوئی نے اسحاق کو "اجلای علما" میں شمار کیا ہے،[17] جو اس بات کا مؤید ہے کہ اسحاق ایک معتبر راوی تھے۔[حوالہ درکار]


کتاب الکافی میں نقل نہ ہونے کی دلیل

کلینی نے اس توقیع کو اپنی کتاب الکافی میں نقل نہیں کیا ہے، اسی وجہ سے اس کے کلینی سے منسوب ہونے پر شک کیا گیا ہے۔[18] سید کاظم حائری کا ماننا ہے کہ کتاب الکافی عام عوام کے لیے لکھی گئی ہے، اور اگر اس میں راوی کا نام اور امام کا نائب خاص ہونا ذکر ہوتا، تو تقیہ اور خفقان کی فضا میں امام کے وکلا اور وکالتی نظام کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا تھا۔ اس کے علاوہ، یہ بھی امکان ہے کہ یہ توقیع الکافی کی تکمیل کے بعد کلینی کے پاس پہنچی ہو۔[19]

اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ توقیع فقہی مسائل پر مبنی نہیں تھی، اس لیے کلینی نے اسے الکافی میں شامل نہیں کیا ہے۔ البتہ کلینی کی ایک اور کتاب الرسائل بھی تھی، جو امامؑ کے خطوط اور توقیعات کو جمع کرنے کے لیے لکھی گئی تھی، اور اس کتاب میں اس توقیع کا ذکر کرنا زیادہ مناسب تھا، اس لیے ممکن ہے کہ کلینی نے اسے اسی کتاب میں درج کیا ہو۔[20]

حوالہ جات

  1. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج3، ص555؛ امام خمینی، کتاب البیع، 1421ھ، ج2، ص635۔
  2. صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص483-485؛ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص290-291۔
  3. صدوق،کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص483-485۔
  4. طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص290-291۔
  5. صدوق،کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص483-485۔
  6. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج3، ص555-556۔
  7. منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ھ، ج1، ص481۔
  8. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج3، ص555-556۔
  9. امام خمینی، کتاب البیع، 1421ھ، ج2، ص636؛ مؤمن قمی، الولایۃ الالہیہ، 1425ھ، ج3، ص402۔
  10. امام خمینی، ولایت فقیہ، 1381ش، ص80-82۔
  11. منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ھ، ج1، ص479۔
  12. طباطبایی قمی، دراساتنا من الفقہ الجعفری، 1400ھ، ج3، ص111؛ خویی، موسوعۃ الامام الخویی، ج22، ص82۔
  13. شقیر، «پژوہشی دربارہ توقیع شریف امام زمان(عج) بہ اسحاق بن یعقوب»، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)»۔
  14. حائری، ولایۃ الامر فی عصر الغیبہ، 1413ھ، ص100-101۔
  15. مؤمن قمی، الولایۃ الالہیہ، 1425ھ، ج3، ص400۔
  16. مدرسی یزدی، آفاق ولایت، 1403ش، ج2، 163۔
  17. خویی، مصباح الفقاہہ، 1368ش، ج5، ص48۔
  18. منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ھ، ج1، ص479۔
  19. حائری، ولایۃ الامر فی عصر الغیبہ، 1413ھ، ص103۔
  20. شقیر، «پژوہشی دربارہ توقیع شریف امام زمان (ع) بہ اسحاق بن یعقوب»، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)»۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب البیع، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1421ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، ولایت فقیہ - حکومت اسلامی، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1381ہجری شمسی۔
  • حائری، سید کاظم، ولایۃ الامر فی عصر الغیبہ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1413ھ۔
  • حسینی شاہرودی، سید محمود، کتاب الحج، مقرر: ابراہیم جناتی، قم، انصاریان، 1381ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہہ، مقرر: محمدعلی توحیدی، بی‌نا، 1368ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخویی، مؤسسۃ الخویی الإسلاميہ، بی‌تا۔
  • شقیر، محمد، «پژوہشی دربارہ توقیع شریف امام زمان (ع) بہ اسحاق بن یعقوب»، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)»، شمارہ46، سال12، ص193 تا 207.
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، قم، المؤتمر العالمی بمناسبۃ الذکری المئويۃ الثانيۃ لميلاد الشيخ الاعظم الانصاری، 1415ھ۔
  • صدوق،محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمہ، تہران، اسلامیہ، 1395ھ۔
  • طباطبایی قمی، سید تقی، دراساتنا من الفقہ الجعفری، مقرر: علی مروجی، قم، مطبعۃ الخیام، 1400ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، قم، دار المعارف الاسلامیہ، 1411ھ۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1431ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج)، قم، دار الحدیث، 1393ہجری شمسی۔
  • مدرسی یزدی، سید محمدرضا، آفاق ولایت، قم، دار الکتب المعاصرہ، 1403ہجری شمسی۔
  • مروی، جواد، «اثبات اعتبار سندی توقیع شریف»، پایگاہ اطلاع‌رسانی شیخ جواد مروی، تاریخ بازدید: 22 شہریور 1404ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الاسلامیہ، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیہ، 1409ھ۔
  • مؤمن قمی، محمد، الولایۃ الالہیہ الاسلامیہ (الحکومۃ الاسلامیہ)، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1425ھ۔
  • نائینی، محمدحسین، منیۃ الطالب فی حاشیۃ المکاسب، تہران، المکتبۃ المحمدیہ، 1373ھ۔