ولدنی ابو بکر مرتین
| ولدنی ابوبکر مرتین | |
|---|---|
| حدیث کے کوائف | |
| دوسرے اسامی | اولدنی ابوبکر مرتین، قد ولدنی ابوبکر مرتین |
| موضوع | امام صادقؑ کے نانا اور نانی دونوں طرف سے ابوبکر کے ساتھ رشتہ داری |
| صادر از | امام صادقؑ |
| اعتبارِ سند | مرسل |
| شیعہ مآخذ | کشف الغمہ، عمدۃ الطالب |
| مشہور احادیث | |
| حدیث سلسلۃ الذہب • حدیث ثقلین • حدیث کساء • مقبولہ عمر بن حنظلۃ • حدیث قرب نوافل • حدیث معراج • حدیث ولایت • حدیث وصایت • حدیث جنود عقل و جہل • حدیث شجرہ | |
وَلَدَنی ابوبکر مَرَّتَیْن، "ابوبکر نے مجھے دو مرتبہ پیدا کیا" امام جعفر صادقؑ سے منسوب جملہ ہے کہ جو امامؑ کی ابوبکر کے ساتھ نانا اور نانی کی طرف سے رشتہ داری کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ کیونکہ امام صادقؑ کی والدہ (ام فروہ) ابوبکر کے نواسے (قاسم بن محمد بن ابیبکر) کی بیٹی تھیں، اور ان کی نانی (اسماء) ابوبکر کے بیٹے عبدالرحمن کی بیٹی تھیں۔
یہ حدیث شیعہ قدیمی اور بنیادی منابع میں موجود نہیں ہے۔ سب سے قدیمی شیعہ کتاب جس میں یہ حدیث آئی ہے، وہ "کشف الغمہ" ہے۔ اس میں بھی یہ حدیث اہل سنت کے ایک ذریعے سے مرسل (راوی کا نام ذکر کئے بغیر) طور پر نقل کی گئی ہے۔ بعض شیعہ علما اس حدیث کی سند کو علم رجال میں اہل سنت مبنی کے مطابق ناقابل قبول قرار دیتے ہیں اور اس کے مضمون کو صرف نسبی رشتہ داری یا تقیہ پر حمل کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں اہل سنت کے بعض علماء نے اس حدیث کو ابوبکر کی افضیلت، شیعہ ائمہؑ کی ابوبکر سے محبت اور خلفائے ثلاثہ کے ساتھ شیعہ ائمہ کی دشمنی اور خصومت پر مبنی شیعہ موقف کی تردید کے لئے طور دلیل پیش کیا ہے۔ یہ جملہ اہل سنت منابع میں مسند(سند کے ساتھ) اور مرسل(بغیر سند) دونوں طریقے سے نقل ہوئی ہے۔
اہمیت اور خصوصیات
عبارت «ولدنی ابوبکر مرتین» "ابوبکر نے مجھے دو مرتبہ پیدا کیا" ، امام صادقؑ سے منسوب[1] جملہ ہے۔ اہل سنت اس عبارت کو ابوبکر کی فضیلت[2] اور شیعہ ائمہؑ کی ابوبکر سے محبت اور خلفائے ثلاثہ کے ساتھ شیعہ ائمہ کی دشمنی اور خصومت پر مبنی شیعہ موقف کی تردید کے لئے طور دلیل پیش کرتے ہیں۔[3] بعض اہل سنت اس جملے کو شیعوں کی طرف سے ابوبکر کی شان میں گستاخی پر امام صادقؑ کی ان سے ناراضگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔[4] اس کے مقابلے میں شیعہ علماء، مثلاً سید جعفر مرتضی عاملی علم رجال میں اہل سنت مبنی کے مطابق اس حدیث کی سند پر تنقید کرتے ہوئے امام صادقؑ کی طرف اس جملے کی نسبت کو رد کرتے ہیں۔[5]
بعض شیعہ محققین اس سلسلے میں اہل سنت کے ادعا کو رد کرتے ہوئے اس جملے سے متعلق دو دیگر احتمالات پیش کرتے ہیں:
- یہ عبارت کسی تعریف یا مذمت کے بغیر امام صادقؑ کی صرف ابوبکر سے رشتہ داری اور ان سے نسبی تعلق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[6]
- یہ جملہ تقیہ[7] کی حالت میں کسی قسم کی الزام تراشیوں کے صد باب[8] یا شیعیان حیدر کرار پر ہونے والے ظلم و ستم کی روک تھام کے لئے کہا گیا ہے۔[9]
یہ جملہ امام صادق (ع) کی ابوبکر سے نسبت کو اپکی والدہ (ام فروہ) کی جانب سے اشارہ کرتا ہے [10] کیونکہ ام فروہ قاسم بن محمد ابن ابوبکر کی بیٹی تھیں۔[11] ام فروہ کی والدہ اسماء تھیں جو عبدالرحمٰن ابن ابوبکر کی بیٹی تھیں۔[12]
قاضی نور اللہ شوشتری اور محمد حسین مظفر نے فضل بن روزبھان خنجی کی کتاب ابطال نہج الباطل کی رد میں تحریر کردہ اپنی کتاب میں کہا ہے کہ مذکورہ کتاب کے مصنف نے لفظ "صدیق" کو مذکورہ جملے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے ذریعے استدلال کیا ہے۔[13]
مآخذ اور مصادر
محققین نے عبارت «ولدنی ابوبکر مرتین» کا اصل ماخذ کتب اہل سنت کو قرار دیا ہے اور اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ جملہ ان منابع سے شیعہ منابع میں منتقل ہوا ہے۔[14]
اہل سنت منابع
عبارت «ولدنی ابوبکر مرتین» ابن عساکر (متوفی: 571ھ) کی کتاب تاریخ مدینۃ دمشق[15] اور مرزی(متوفی: 743ھ) کی کتاب تہذیب الکمال[16] میں مسند انداز میں نقل ہوئی ہے۔ بعض اہل سنت کے محدثین جیسے شمس الدین ذہبی[17] اور جلال الدین سیوطی[18] نے اسے بغیر سند کے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ بعض اہل سنت منابع میں یہ عبارت مستقل طور پر آئی ہے،[19] جبکہ بعض میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں آئی ہے جس میں امام صادقؑ نے ابوبکر کی شفاعت کی امید کو امام علیؑ کی شفاعت سے زیادہ قرار دیتے ہیں۔[20]
شیعہ مصادر
تاریخی محقق محمد ہادی یوسفی غروی کے مطابق شیعہ سب سے قدیمی مآخذ جس میں یہ جملہ نقل ہوا ہے وہ "کشف الغمہ" میں آئی ہے۔[21] اربلی(متوفی: 692ھ) نے اسے اہل سنت عالم دین عبدالعزیز جنابذی(متوفی: 611ھ) سے نقل کیا ہے۔[22] شیعہ محققین نے "مرسل" (بغیر سند) قرار دیا ہے۔[23] اسی طرح شیعہ ماہر نسب شناس ابنعنبہ نے اسے اپنی کتاب "عمدۃ الطالب" میں نقل کیا ہے،[24] لیکن اس میں بھی انہوں نے اس جملے کو سند کے بغیر ذکر کیا ہے۔[25]
بعض شیعہ علماء جیسے ضامن بن شدقم،[26] آقا محمدعلی بہبہانی،[27] عبداللہ مامقانی،[28] محمدعلی مدرس تبریزی[29] اور شہید مطہری[30] نے اس عبارت کو بغیر تنقید کے نقل کیا ہے۔ اس طرح بعض شیعہ فقہی منابع میں بھی اس عبارت کو امام صادقؑ کی حدیث کے طور پر اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔[31]
حوالہ جات
- ↑ اربلی، کشف الغمۃ، 1405ھ، ج2، ص374۔
- ↑ موسوی، الشیعۃ و التصحیح، بیتا، ص159-160۔
- ↑ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ھ، ج6، ص255۔
- ↑ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ھ، ج6، ص255۔
- ↑ عاملی، میزان الحق، ج1، 1431ھ، ص344-345؛ موسوی صافی، امہات الأئمۃ المعصومین(ع)، 1436ھ، ج2، ص68-69۔
- ↑ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج1، ص67
- ↑ عاملی، میزان الحق، ج1، 1431ھ، ص343-345؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج1، ص68۔
- ↑ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج1، ص68۔
- ↑ عاملی، میزان الحق، ج1، 1431ھ، ج1، ص345۔
- ↑ موسوی صافی، امهات الأمة المعصومین(ع)، ۱۴۳۶ق، ج۲، ص۶۷.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۷۲.
- ↑ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج1، ص67؛ مظفر، محمدحسین، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج2، ص35۔
- ↑ یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، 1387ش، ج6، ص497۔
- ↑ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج44، ص454۔
- ↑ مزی، تہذیب الکمال، 1400ھ، ج5، ص82۔
- ↑ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ھ، ج6، ص255۔
- ↑ سیوطی، ذہبی، طبقات الحفاظ، 1403ھ، ص79۔
- ↑ ذہبی، تاریخ الاسلام، 2003م، ج3، ص828۔
- ↑ مزی، تہذیب الکمال، 1400ھ، ج5، ص82۔
- ↑ یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، 1387ش، ج6، ص497۔
- ↑ اربلی، کشف الغمۃ، 1405ھ، ج2، ص374۔
- ↑ یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، 1387ش، ج6، ص497۔
- ↑ ابنعنبہ، عمدۃ الطالب، 1417ھ، ص176۔
- ↑ حسینی، الاجوبۃ الہادیۃ، 1429ھ، ص106۔
- ↑ حسینی مدنی، تحفۃ الأزہار، 1378ش، ج2، ص43۔
- ↑ بہبہانی، مقامع الفضل، ج2، 1421ھ، ص88۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج1، ص292۔
- ↑ مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، 1369ش، ج8، ص318۔
- ↑ مطہری، بیست گفتار، 1374ش، ص165۔
- ↑ آملی، مصباح الہدی، 1380ھ، ج11، ص180؛ جواہری، الواضح، بیتا، ج6، ص340؛ بروجردی، المستند، بیتا، ج3، ص317۔
مآخذ
- آملی، محمدتقی، مصباح الہدی فی شرح العروۃ الوثقی، تہران، بینا، 1380ھ۔
- ابنعساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشھ، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، بیروت، دارالاضواء، 1405ھ۔
- بروجردی، مرتضی، المستند فی شرح العروہ الوثقی (تقریر الابحاث ابوالقاسم الموسوی الخوئی)، قم، مؤسسۃ احیاء آثارالامام الخوئی، بیتا.
- جواہری، محمد، الواضح فی شرح العروۃ الوثقی، بیجا، العارف للمطبوعات، بیتا.
- حسینی، عبداللہ، الاجوبۃ الہادیۃ إلی سواء السبیل، تہران، نشر مشعر، 1429ھ۔
- حسینی مدنی، ضامن بن شدغم، تحفۃ الأزہار و زلال الأنہار فی نسب ابناء الأئمۃ الأطہار علیہم صلوات الملک الغفار، تحقیق کامل سلمان الجبوری، کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران، 1378ہجری شمسی۔
- ذہبی، شمسالدین محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق بشار عوّاد معروف، بیروت، دار الغرب الإسلامی، 2003ء۔
- ذہبی، شمسالدین محمد بن احمد، تذکرۃ الحفاظ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
- ذہبی، شمسالدین محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق مجموعۃ من المحققین بإشراف الشیخ شعیب الأرناؤوط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1405ھ۔
- ذہبی، شمسالدین محمد بن احمد، الکاشف فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ، تحقیق محمد عوامۃ و أحمد محمد نمر الخطیب، جدۃ، دارالقبلۃ للثقافۃ الإسلامیۃ مؤسسۃ علوم القرآن، 1413ھ۔
- سیوطی، جلالالدین عبدالرحمن بن ابیبکر، طبقات الحفاظ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1403ھ۔
- شوشتری، قاضی نوراللہ بن شریف الدین حسینی، احقاق الحق و ازہاق الباطل، تحقیق سید شہابالدین مرعشی نجفی، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیتاللہ العظمی مرعشی نجفی، 1409ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر الغفاری و محمد الآخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
- عاملی سید جعفر مرتضی، میزان الحق: شبہات و ردود، بیروت، المرکز الإسلامی للدراسات، 1431ھ۔
- مامقانی، عبداللہ بن محمدحسن، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق و تعلیق و استدراک محییالدین مامقانی و محمدرضا مامقانی، قم، موسسۃ آل البیت (علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1431ھ۔
- مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، کتابفروشی خیام، 1369ہجری شمسی۔
- مزی، یوسف بن عبدالرحمن، تہذیب الکمال فی أسماء الرجال، تحقیق بشار عواد معروف، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1400ھ۔
- مطہری، مرتضی، بیست گفتار، تہران، انتشارات صدرا، 1374ہجری شمسی۔
- مظفر، محمدحسین، دلائل الصدق لنہج الحق، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، 1422ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
- موسوی، موسی، الشیعۃ و التصحیح (الصراع بین الشیعۃ والتشیع)، تصحیح سعد بن عبدالرحمن الحصین، بیجا، بینا، بیتا.
- موسوی صافی، سید حسین، امہات الائمۃ المعصومین(ع)، کربلاء، قسم الشؤون الفکریۃ والثقافیۃ فی العتبۃ الحسینیۃ المقدسۃ، 1436ھ۔
- یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1378ہجری شمسی۔