یزید بن معاویہ خاندان بنی امیہ کا دوسرا خلیفہ ہے۔ اس کے خلاف رسول اللہ کے نواسے حضرت امام حسین ؑ نے قیام کیا جس کے نتیجے میں کربلا کا دلخراش سانحۂ رونما ہوا۔ اس نے معاویہ بن ابو سفیان کے بعد تقریبا چار سال حکومت کی اور اس کے دور میں دمشق اس کی حکومت کا دارالخلافہ تھا۔ معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے بیٹے یزید بن معاویہ کو خلیفہ نامزد کرکے خلافت کے موروثی ہونے کا بیج بو دیا کیونکہ اس سے پہلے کسی بھی اسلامی خلیفہ نے اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد خلافت وراثتی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی وفات شام میں ہوئی اور اسے دمشق میں دفنایا گیا۔

یزید بن معاویہ
کوائف
نامیزید
تاریخ پیدائش26ھ
والدمعاویۃ بن ابی‌سفیان
اولادمعاویۃ بن یزید
وفات64ھ - دمشق
مدفندمشق
حکومت
معاصرامام حسین علیہ السلام و امام سجاد علیہ‌ السلام
مرکزدمشق
اہم اقداماتواقعہ کربلا، واقعہ حرہ، مکہ پر حملہ


نسب اور خاندان

تاریخ و رجال نگاران یزید بن معاویہ کو بنو امیہ اور قریش میں سے شمار کرتے ہوئے اس کا نسب یوں تحریر کرتے ہیں: یزید بن معاویہ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب بن أمیہ بن عبد شمس بن عبد مناف‌[1] اس لحاظ سے انہوں نے یزید اور بنی ہاشم کا نسب عبد مناف تک پہنچایا ہے۔ عبد مناف کے دو بیٹے ہاشم اور عبد الشمس تھے ان میں سے ہاشم کی اولاد کو بنی ہاشم اور عبد الشمس کی نسل بنی امیہ کہلاتی ہے۔ اس کی والدہ کے بارے میں تاریخ زیادہ تفصیل بیان نہیں کرتی ہے۔ تاریخ میں اس کا قبیلہ بنی حارثہ مذکور ہے اور اس کا نام میسون بنت بحدل لکھا گیا ھے جو بادیہ نشین خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ معاویہ سے طلاق لینے کے بعد وہ شام سے واپس اپنے وطن لوٹ آئی۔[2]

یزید کا دادا ابو سفیان اور دادی ہند بنت عتبہ فتح مکہ سے پہلے تک پیغمبر اسلامؐ کے بہت سخت دشمن تھے۔جنگ احد میں حضرت حمزہ کا جگر کھانے کی وجہ سے ہند بنت عتبہ "ہند جگر خوار" مشہور ہو گئی۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ نے مکہ میں موجود اپنے دشمنوں کو "طلقاء" کا نام دیا اور انہیں معاف کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں آزاد کر دیا۔[3] لفظ طلیق طلقاء کا مفرد ہے اور ایسے قیدیوں کیلئے بولا جاتا ہے جو سزا کے مستحق ہوں لیکن انہیں آزاد کر دیا جائے۔ یہ لفظ کنایہ کے عنوان سے انکے لئے باقی رہ گیا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت علی نے صراحت کی ہے کہ معاویہ اور اسکا والد کبھی بھی ایمان نہیں لے کر آئے اور انہوں نے مجبوری کی بنا پر اسلام کا اظہار کیا تھا۔[4]اسی طرح حضرت علی نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو ان طلقاء میں سے شمار کیا ہے جن کیلئے خلافت مناسب نہیں ہے۔[5]

زندگی

خلافت بنوامیہ

سلاطین

عنوان


معاویہ بن ابی سفیان
یزید بن معاویہ
معاویہ بن یزید
مروان بن حکم
عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
ولید بن عبدالملک
ابراہیم بن الولید
مروان بن محمد

مدت سلطنت


41-61ھ
61-64ھ
64-64ھ
64-65ھ
65-86ھ
86-96ھ
96-99ھ
99-101ھ
101-105ھ
105-125ھ
125-126ھ
126-126ھ
126-127ھ
127-132ھ

مشہور وزراء اور امراء

مغیرۃ بن شعبہ ثقفی
زیاد بن ابیہ
عمرو عاص
مسلم بن عقبہ مری
عبیداللہ بن زیاد
حجاج بن یوسف ثقفی

اہم واقعات

صلح امام حسن
واقعہ عاشورا
واقعہ حرہ
قیام مختار
قیام زید بن علی

مآخذ کے مطابق یزید کی ماں میسون بنت بحدل عرب کے بَدؤوں میں سے تھی اور جب معاویہ نے اس سے نکاح کیا اور اسے شام لے آیا تو وہ وطن سے دوری برداشت نہ کر سکی لہذا معاویہ نے اسے طلاق دے دی اور وہ اپنے وطن واپس آگئ۔ تاریخ نے احتمال دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسوقت وہ حاملہ تھی یا یزید اس وقت شیر خواری کی عمر میں تھا۔[6]یزید نے اپنا بچپن حُوَّارین کے قبائل میں سے میسون نامی قبیلے میں گزارا جس کے افراد اسلام سے پہلے مسیحی اور بت پرست تھے، اہل فصاحت اور شاعر تھے۔ ان کی رہائش کا علاقہ شام میں حمص کا منطقہ تھا۔ بعض محققین معتقد ہیں کہ عیسائیت کو چھوڑ کر نئے مسلمان ہونے والوں کے ہاں پرورش پانے کی وجہ سے یزید کی شخصیت مسیحیت کی تعلیمات سے متاثر تھی۔ خلافت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد عیسائیوں کی حمایت، انکے شعرا کا اسکے دربار میں وجود اور مغربی دنیا سے اسکے تعلقات ایسے شواہد ہیں جو اس کی شخصیت پر عیسائیت کے مؤثر ہونے کی تائید کرتے ہیں۔[7].

یزید تین سال اور آٹھ ماہ حکومت کرنے کے بعد 14 ربیع الاول (46) ہجری قمری میں اس دنیا سے چلا گیا اور اسے حُوَّارین میں دفنایا گیا۔ موت کے وقت اس کی عمر 38 سال تھی۔[8] اس کی موت کا سبب ایک قول کے مطابق یہ ہے کہ ایک دن اس نے اپنے بندر کو وحشی گدھے پر سوار کیا تو وہ سرپٹ دوڑا۔ یزید نشے کی حالت میں تھا اس نے بھی اپنی سواری کو دوڑانا شروع کیا تو اس دوران وہ گھوڑے سے نیچے گرا اور اسکی گردن ٹوٹ گئی۔[9].[10]

ابن اثیر کے مطابق 64 ہجری قمری میں 14 ربیع الاول کو 38 سال یا 39 سال کی عمر میں فوت ہوا۔ بعض کے نزدیک 63 ہجری میں 35 سال کی عمر پا کر فوت ہو گیا۔ دوران حکومت 3 سال 6 مہینے دوسرے قول کے مطابق 2 سال 8 مہینے ہیں۔ پہلا قول مشہور ہے۔[11]

کردار

اکثر تاریخی ماخذ نے اسے ایک فاسق اور ہوس پرست شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ بلاذری اسے ایسا پہلا خلافت اسلامی کا حاکم کہتا ہے جو سر عام شراب خواری جیسے گناہ کرتا تھا۔[12]مسعودی نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ یزید کے دور حکومت میں مکے اور مدینے میں اس کے کارندوں کے ذریعے سر عام فسق و فجور اور شراب خوری رواج پا چکے تھے [13]۔ یزید کی لہو و لعب اور اخلاقیات اسلامی کے اصول کے پابند نہ ہونے کی شہرت اس قدر زبان زد عام تھی کہ حضرت امام حسین ؑ سمیت بعض مشہور اصحاب پیغمبر نے اس کے فسق اور سر عام گناہ کرنے کی تصریح کی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت امام حسن کی شہادت کے بعد جب معاویہ نے یزید کیلئے بیعت پر اسرار کرنا شروع کیا تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور حضرت امام حسین، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر جیسے اصحاب نے بیعت کرنے سے انکار کیا یزید کے متعلق عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے: میں اسکی بیعت کروں جو بندروں اور کتوں سے کھیلتا ہے، شراب پیتا ہے اور کھلم کھلا فسق کرتا ہے؟ خدا کے نزدیک ہمارا کیا بہانہ ہے؟[14]

تاریخی مستندات کے مطابق 52 ہجری میں معاویہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ روم کی طرف گیا جن میں کچھ صحابہ نبی بھی شامل تھے۔ میں اپنی بیوی ام کلثوم کے ہمراہ ایک جگہ قیام کے دوران وہ عیاشی اور شرابخوری میں مشغول ہو گیا۔ اس کے سپاہی اس سے پہلے آگے جا چکے تھے۔ وہ ایک وبا میں مبتلا ہوئے اور اس وجہ سے ان کا کافی نقصان ہوا۔ اس بات کی خبر جب یزید کو پہنچی تو اس نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ مسلمانوں کے وبا سے مرنے کا مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس بات کی خبر جب معاویہ کو پہنچی تو وہ ناراض ہوا اور اس نے یزید کو فوجی چھاونی بھیجنے کا حکم دیا۔ معاویہ کا لشکر کسی کامیابی کے بغیر شام واپس آگیا۔[15]

حکومت اور سیاست

یزید کا دور حکومت سیاسی لحاظ سے بہت ہی زیادہ پر آشوب دور رہا ہے۔ تین سال اور کچھ مہینوں کی حکومت کا زیادہ تر وقت داخلی حکومت مخالف قیاموں کی سرکوبی اور اسلامی ممالک میں حالات کو معمول پر لانے میں صرف ہوا۔ اس نے اپنی حکومت میں ہر مخالفت کو بڑی سختی سے دبایا۔ حکومت میں اندرونی دگرگونی اور انتشار اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ مسعودی اس کے متعلق لکھتا ہے:یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ عام و خاص میں فرعون اپنی رعایا میں انصاف کرنے اور عدل کرنے کے لحاظ سے اس کی نسبت عادل تر اور منصف تر تھا۔[16]۔ اس اپنی حکومت کے پہلے سال حضرت امام حسین ؑ اور پیغمبر کی اہل بیت کو قتل کیا۔ دوسرے سال میں رسول خدا کی حرمت (مدینے) کو پامال کیااور تین دن تک اپنے سپاہیوں کیلئے اسے حلال قرار دیا اور تیسرے سال کعبہ کو مورد تاخت و تاز قرار دیا۔ اس معمولی سی مدت میں یزید کے اقدامات اور اعمال مستقبل میں خلفائے بنی امیہ کے خلاف مخالفتوں، جنگوں اور قیاموں کا پیش خیمہ بنے اور انہوں نے اموی حکومت کے خاتمے کے اسباب فراہم کئے۔[17]

واقعۂ کربلا

یزید بن معاویہ کے بدترین اور سیاہ ترین واقعات میں سے واقعۂ کربلا ہے۔ کہتے ہیں کہ اسلام میں اس سے زیادہ غم انگیز ترین واقعہ نہیں گزرا ہے۔[18] ہجرت کے 60 ویں سال کوفے کے لوگوں کی دعوت پر حضرت امام حسین ؑ اپنے اہل بیت اور اصحاب کے ہمراہ عراق کی طرف روانہ پوئے لیکن کوفیوں نے یزیدی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے اپنی کی ہوئی بیعت کو توڑ دیا اور انہوں نے امام کو چند ساتھیوں کے ہمراہ تنہا چھوڑ دیا۔ امام حسین ؑ حکومت یزید کے سپاہیوں اور اس کے مقرر کردہ والی عبید اللہ بن زیاد کے دستور سے امام اور ان کے اصحاب کو شہید کر دیا۔ شہدائے کربلا کے سروں کی کوفہ اور شام میں نمائش کی اور اہل بیت پیغمبر کو اسیر کیا۔ اس واقعے کی تفصیلات قدیمی اور موجودہ تاریخی کتب میں مذکور ہیں۔[19]

واقعۂ حرہ

یزید کے تخت نشین ہونے کے بعد حجاز کے لوگوں کی ناراضگی میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ اس ناراضگی کے اسباب میں سے ایک سبب مکے اور مدینے کو توجہ نہ دینا تھا۔ اس صورتحال نے آہستہ آہستہ بحرانی صورت اختیار کر لی۔ بالآخر والی مدینہ عثمان بن محمد بن ابی سفیان نے مدینے کے بزرگوں کی ایک جماعت کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد شام روانہ کیا کہ ہو سکتا ہے یزید جب انہیں انعام و اکرام سے نوازے گا تو ممکن ہے اس طرح مدینے کی فضا یزید کے حق میں بہتر ہو جائے۔ عبدالله بن حنظلہ غسیل الملائکه و ان کے بیٹے و نیز عبدالله بن عمرو و منذر بن زبیر بھی اس جماعت کے ہمراہ تھے۔[20] اس جماعت کو دمشق پہنچنے پر بہت سے انعام واکرام سے نوازا گیا۔[21]لیکن ملاقات کے وقت یزید حسب عادت شراب خوری کے عالم میں تھا اور اس نے ان کے سامنے لہو لعب کے کام انجام دیئے جس کی وجہ سے وہ لوگ بہت ناراض ہوئے اور جب وہ مدینے واپس پہنچے تو وہ مدینے کے لوگوں کے سامنے کھل کر یزید کے عیوب بیان کرتے اور اسے برا بھلا کہنے لگے۔ مدینے کی فضا مکدر ہوجانے کے بعد یزید نے مدینے کے لوگوں کو ایک بہت سخت لہجے میں نامہ لکھا۔[22] اس نامے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اہل مدینہ نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جسے روکنے کیلئے یزید نے مسلم بن عقبہ کی سرکردگی میں 12000 ہزار افراد پر مشتمل لشکر مدینہ روانہ کیا۔ اس لشکر نے اہل مدینہ کو تین دن کی مہلت دی کہ وہ دوبارہ یزید کی بیعت کریں۔[23] لیکن اہل مدینہ نے اسے قبول نہیں کیا۔ جنگ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد قتل ہوئے اور لشکر کیلئے اہل مدینہ کی عزت و ناموس تک کو تین دن کیلئے حلال قرار دیا گیا۔[24] یہ واقعہ ہجرت کے 63 ویں سال میں رونما ہوا۔[25]

مکہ کا قیام

قیام مدینہ کے ساتھ ہی اہل مکہ نے بھی عبد اللہ بن زبیر کی سربراہی میں قیام کیا اور انہوں نے شہر مکہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ واقعۂ حرہ اور مدینے کے لوگوں کا خون بہانے کے بعد حصین بن نمیر سکونی کی سربراہی میں سپاہ شام نے اہل مکہ سے جنگ کا قصد کیا۔ لشکر نے مکے کا محاصرہ کیا۔ طویل محاصرے کے بعد انہوں نے منجنیقوں (بڑی بڑی گلیل) سے مکہ پر پتھر برسائے جس کے نتیجے میں خانۂ خدا کو نقصان پہنچا اور کعبہ کو آگ لگائی گئی۔ جب تک یزید کے موت کی خبر لشکر شام تک نہیں پہنچی جنگ جاری رہی۔[26][27]

فوجی کامیابیاں

یزید کے دور حکومت میں داخلی جنگوں اور اس کے خلاف قیاموں کی وجہ سے فتوحات اسلامی کا سلسلہ رک گیا۔ اس نے یورپ کے عیسائیوں سے مصالحت آمیز رویہ اپنایا بلکہ معاویہ کے دور کے وہ مقامات جہاں حکومت معاویہ کا بہت سارا مال خرچ ہوا اور بہت زیادہ جانی نقصان ہوا، یزید نے ان علاقوں سے عقب نشینی اختیار کی نیز رشوت لے کر قبرص کے علاقے سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا۔[28] اسی طرح یزید نے ارواد نامی جزیرے میں یزید بن جنادہ بن ابی امیہ کو حکم دیا کہ وہاں پر موجود قلعہ مسمار کرنے کے بعد شام واپس آ جائے[29]اسی طرح رودس نامی جگہ سے بھی اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا[30] جبکہ 61 ہجری میں مالک بن عبد اللہ خثعمی کو رومیوں سے جنگ کیلئے بھیجا تھا جو جنگِ شام کے نام سے معروف ہوئی۔[31]یزید نے خوارزم کے شرق میں سمرقند تک پیش قدمی کی نیز اس نے سغد اور بخارا کو فتح کیا۔[32]۔ 62ویں ہجری میں اہل خوارزم کے ساتھ 400000 درہم کے بدلے میں صلح کی۔[33]سلم بن زیاد نے سغر میں موجودگی کے دوران لشکر کو خجند بھی بھیجا لیکن اس کی فوج شکست سے دو چار ہوئی۔ پھر خود مرو گیا اور سغدیان سے جنگ کی۔ اسی دوران اسے یزید کے مرنے کی اطلاع ملی[34]۔افریقہ میں عقبہ بن نافع کی قیادت میں سوس ادنی میں فتوحات حاصل کیں۔[35] [36]

علمائے اہل سنت اور شخصیت یزید

یزید کے دور حکومت میں شہادت حضرت امام حسین، واقعۂ حرہ اور کعبہ کی بے حرمتی کو دیکھتے ہوئے اہل سنت فقہا اور علماء اسکی شخصیت کے متعلق مختلف نظریات رکھتے ہیں:

کفر

اہل سنت میں سے ایک گروہ اس کے کفر کا قائل ہے۔ ابن جوزی اور دیگر نے اس مشہور واقعہ کو اس کے کفر کی دلیل بنایا ہے:

جب حضرت امام حسین ؑ کے سر مبارک کو شام لایا گیا تو یزید نے لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے امام کے سر اور دانتوں پر ایک چھڑی سے ضربیں لگاتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:

[37]
ﻟﻴﺖ ﺍﺷﻴﺎﺧﻰ ﺑﺒﺪﺭ ﺷﻬﺪﻭﺍﺟﺰﻉ ﺍﻟﺨﺰﺭﺝ ﻣﻦ ﻭﻗﻊ ﺍﻷﺳﻞ
کاش بدر کے میرے مقتول بزرگ ہوتے(اور دیکھتے) خزرج کے جزع کو دیکھتے۔
ﻷﻫﻠﻮﺍ ﻭ ﺍﺳﺘﻬﻠﻮﺍ ﻓﺮﺣﺎًﺛﻢ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻳﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﻻ ﺗﺸﻞ ...
وہ خوشی میں فریاد کرتے اے یزید! تیرے ہاتھ شل نہ ہوں
ﻟﻌﺒﺖ ﻫﺎﺷﻢ ﺑﺎﻟﻤﻠﻚ ﻓﻼﺧﺒﺮ ﺟﺎﺀ ﻭﻻ ﻭﺣﻰ ﻧﺰﻝ
ہاشم نے بادشاہت کا کھیل کھیلا تھا نہ کوئی خبر آئی اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی تھی

اسلام

دوسرا گروہ اس کے کافر ہونے کا قائل نہیں کیونکہ ان کے بقول جن چیزوں سے کسی شخص کا کفر ثابت ہوتا ہے وہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہیں نیز اس کے کفر کے برعکس یہ مشہور روایت ہے: جب یزید کے سامنے امام کا سر مبارک لایا گیا تو اس نے امام کیلئے اللہ سے رحمت طلب کی اور کہا کہ تمہیں اس شخص نے قتل کیا ہے جسے آپ کے ارحام اور آپ کی قوم کا پتہ ہی نہیں تھا۔ اس شخص نے تمہیں قتل کرکے میرے خلاف ہر مومن اور فاجر شخص کے دل میں عداوت ڈال دی ہے ... پس اصل یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا۔[38] ۔

توقف

تیسرا گروہ توقف کا قائل ہے۔[39] ۔

لعنت

ابو الفرج ابن جوزی حنبلی اپنی تصنیف الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید میں لکھتا ہے کہ مجھ سے سائل نے سوال کیا کربلا کی جنایت کی وجہ سے یزید پر لعن کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو میں نے کہا کہ احمد بن حنبل جیسے پرہیزگار علما اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔[40]۔ نیز قاضی ابو یعلی، اس کا بیٹا، سفارینی، ابن محب الدین حنفی تفتازانی، سیوطی اور دیگر بھی اسی کے قائل ہیں۔[41]

یزید کا نام لے کر لعنت کرنے میں اختلاف ہے۔ ابن جوزی احمد بن حنبل سے منقول ہے کہ نام لے کر لعنت کرنا جائز ہے۔[42] ابن حجر نے ابو یعلی کی ایک کتاب کا ذکر کیا ہے جس میں اس نے لعنت کے مستحق اشخاص کے نام ذکر کئے ہیں اس کتاب میں رسول اللہ کی یہ روایت مذکور ہے: ﻣﻦ ﺍﺧﺎﻑ ﺍﻫﻞ ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻇﻠﻤﺎً ﺃﺧﺎﻓﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻭ ﻋﻠﻴﻪ ﻟﻌﻨﺔ ﺍﻟﻠﻪ ﻭ ﺍﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻭﺍﻟﻨﺎﺱ ﺍﺟﻤﻌﻴﻦ۔ جس نے بھی اہل مدینہ کو ظلم کرتے ہوئے ڈرایا اللہ اسے ڈرائے گا، اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی اس پر لعنت ہو۔[43] ۔

جمہور علماء کہ جن میں سے ابن صلاح، غزالی، ابن تیمیہ، ابن حجر ہیتمی وغیرہ ہیں، لعنت کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[44]۔

فسق

حسن نے کہا ہے کہ یزید کے فاسق ہونے پر تمام نے اتفاق کیا ہے۔[45]

حوالہ جات

  1. ذہبی ج2 ص 269۔
  2. ذہبی ج5 ص27؛زرکلی۔ج 7 ص339۔
  3. طبری،ج3 ص61۔ابن ہشام،ج 2 ص 412۔
  4. دینوری،178
  5. دینوری،178
  6. ذہبی ج5 ص270 و 271۔زرکلی ج 7 ص339۔
  7. سائیٹ
  8. بلاذری ج 5 ص 354۔ابن عبد ربہ ج 5 ص 136۔
  9. سائیٹ
  10. بلاذری ج 5 ص 287
  11. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، وقائع 64 ھ ذیل وفات یزید بن معاویہ
  12. بلاذری ج 5 ص 297۔
  13. مسعودی،ج 3 ص 68۔
  14. یعقوبی ج 2 ص 160
  15. یعقوبی ج2 ص 160۔ بلاذری ج 5 ص 86۔
  16. مسعودی ص68۔
  17. سائیٹ
  18. ابن الطقطقا ص116
  19. سائٹ
  20. مسکویہ،ج2 ص 85
  21. ابن خیاط صص 147و 148۔
  22. دینوری ج 1 ص 229۔
  23. بلاذری ج 5 ص 322۔ طبری، ج 5 ص 494۔
  24. دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داؤد ج 2 ص 263۔
  25. دینوری،الامامۃ والسیاسۃ 1 ص 239۔
  26. دینوری ،اخبار الطوال صص 267و 268
  27. سائٹ
  28. بلاذری، فتوح البلدان ص 154
  29. بلاذری، فتوح البلدان،ص 223۔ ابن اثیرج3 ص497۔
  30. طبری ج 5 ص 288۔
  31. یعقوبی ص 253
  32. نرشخی،ص56۔
  33. ابن خیاط ص 146
  34. بلاذری،فتوح البلدان ص 239۔
  35. بلاذری، فتوح البلدان ص 226۔
  36. سائٹ
  37. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ ج2 ص 631۔
  38. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ ج2 ص 632۔
  39. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ ج2 ص 632۔
  40. المناوی، فیض القدیر شرح جامع الصغیر ج1 ص 265
  41. ابن جوزی، الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید، مقدمۃ للتحقیق مسئلۃ لعن یزید ص 16 باحوالہ:سائیٹ
  42. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ ج2 صص634 و635۔
  43. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ ج2 صص635۔
  44. ابن جوزی ،الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید، مقدمۃ للتحقیق مسئلۃ لعن یزید ص 16 باحوالہ:سائیٹ
  45. ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ ج2 ص 634۔

مآخذ

  • ابن اثیر، عزالدین علی، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1386ش.
  • ابن الطقطقا، محمد بن علی، فخری فی الآداب السلطانیه و الدول الاسلامیه، تحقیق عبدالقادر محمد مایو، بیروت، دارالقلم العربی، 1991م.
  • ابن حبان، ابوحاتم محمد، الثقات، بیروت، موسسةالکتب الثقافیه، 1393ق.
  • ابن عساکر، ابوالقاسم علی بن حسن، تاریخ مدینة دمشق، قم، دارالفکر، 1415ق.
  • ابن نما، حلی، مثیر الاحزان، قم، مدرسه الامام عج، 1406ق.
  • ابن هشام حمیری، السیرة النبویه، مکتبه محمدعلی صبیح و اولاده، بی‌جا، 1383ق.
  • ابن‌اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت: دارالأضواء، 1991.
  • ابن‌جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن، المنتظم فی تاریخ‌الملوک و الامم، بیروت، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، 1412ق.
  • ازدی، ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، تحقیق و تعلیق حسین الغفاری، قم: مطبعة العلمیه، بی‌تا.
  • ابن عساکر،ابوالقاسم علی بن الحسن، المحقق: عمرو بن غرامة العمروي، الناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، عام النشر: 1415 ق - 1995 م، بی جا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبه الهلال، 1988م.
  • بلاذری، أحمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، 1417ق.
  • دینوری، ابن‌قتیبه، الامامة و السیاسة، المعروف بتاریخ‌الخلفاء، چاپ طه محمد زینی، چاپ افست بیروت، بی‌تا و دارالأضواء، اول، 1410ق.
  • دینوری، ابوحنیفه احمد بن داوود، اخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعه جمال­الدین شیال، قم، منشورات رضی، 1368ش.
  • ذهبی، شمس الدین محمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، ط الثانیة، 1413ق.
  • ذهبی، محمدبن احمد، تاریخ‌الاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، بیروت، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، 1410ق.
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، 1989م.
  • سنایی غزنوی، مجدود بن آدم، دیوان شعر، تهران، نشر ابن سینا، 1341ش.
  • سید ابن طاوس،رضی الدین علی بن موسی، اللهوف علی قتلی الطفوف، تهران، نشر آفاق، 1381ش.
  • سید ابن طاووس، علی بن موسی، لهوف، ترجمه احمد فهری زنجانی، تهران، انتشارات جهان، بی‌تا.
  • شجاعی، حیدر، سهرابی، حیدر، «زندگی و شعر یزید بن معاویه لعنهما الله – ترجمه، نقد و بررسی دیوان»، تهران، ناشران حیدر سهرابی و حیدر شجایی، 1395ش.
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، مؤسسة البعثة، 1417ق.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبارالرضا، تصحیح حسین اعلمی، موسسه الاعلمی للمطبوعات، بیروت، 1404ق.
  • صدوق،ابن بابویه، اعتقادات، ترجمه حسنی، محمد علی، تهران، انتشارات علمیه اسلامیه، 1371ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم والملوک، بیروت، دارالتراث، 1387ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ المم و الملوک، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، بنیاد فرهنگ ایران، 1352ش.
  • طقوش، دولت امویان، ترجمه حجت‌الله جودکی، قم، پژوهشگاه حوزه و دانشگاه، 1389ش.
  • عباس آبادی، عبدالرحیم، پژوهشی سزا در بایدها و نبایدهای ناسزا، قم، گلستان معرفت، 1386ش.
  • فقیهی، علی اصغر، «بنی امیه در تاریخ»، در مقالات فارسی کنگره جهانی هزاره شیخ مفید، شماره 62، قم، کنگره جهانی شیخ مفید، 1413ق.
  • کریمی، حسین، اعتبار زیارت عاشورا و رفع برخی از شبهات، قم، مرکز فقهیی ائمه اطهار، 1387ش.
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ق.
  • مسعودی، أبوالحسن علی بن الحسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالهجرة، 1409ق.
  • مفید، بن محمد، الارشاد، بیروت، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، 1399ق.
  • مفید، محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، تحقیق موسسه آل البیت، الموتمر العالمی الالفیه الشیخ المفید، قم، 1413ق.
  • مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین (ع)، ترجمه قربانعلی مخدومی، قم، نشر نصایح، 1387ش.
  • میرخانی، احمد، شرح زیارت عاشورا، تهران، مکتب ولی عصر و مؤسسه فرهنگی نشر سُها، 1374ش.
  • نرشخی، ابوبکر محمد، تاریخ بخارا، تحقیق محمدتقی مدرس رضوی، تهران، نشر توس، 1363ش.
  • نويری، شهاب الدين أحمد، نهاية الأرب في فنون الأدب، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، دار الكتب العلمية - بيروت، 1424ق.
  • ولوی، علی محمد و دیگران، «مناسبات خلفای اموی با مسیحیان ذمی»، در مجله تاریخ در آیینه پژوهش، شماره 3، پاییز 1389ش.
  • یعقوبی، احمد، تاریخ، ترجمه محمد ابراهیم آیتی، تهران، علمی و فرهنگی، 1378ش.